’’نسل در نسل داستان‘‘ ہمارے لوک ادب کا ورثہ ہے ، لیکن ناول کی صنف اردو میں مغرب سے وارد ہوئی اس لیے اس صنف کے ہولڈال میں بندھے بندھائے دیگر ذیلی اقسام (ڈائری نما ناول، مختلف زمان و مکان پر محیط ناول، تاریخی واقعات پر مبنی ناول، ایک مخصوص کردار کو لے کر تحریر کردہ ناول، ایک سیاسی تحریک کو لے کر لکھا گیا ناول یا ایک ہی دن کے وقعات پر مبنی ناول وغیرہ) بھی یورپ کی دین ہیں۔ کرشن چندر کا ’’جب کھیت جاگے‘‘ تلنگانہ کی کمیونسٹ تحریک کی کہانی سناتا ہے، راقم الحروف کا ہندی ناول ’’چوک گھنٹہ گھر (جسے حکومت پنجاب نے 1957 ء میں ضبط کر لیا تھا) ایک ہی دن یعنی چوبیس گھنٹوں کی کہانی سناتا ہے۔
ناول کی جس ذیلی صنف کو انگریزی میں Generational novel صنف کہا گیا ہے وہ بھی ہمارے ہاں انگریزی سے ہی وارد ہوئی۔ انیسویں صدی میں ناول نگاروں کے ہاںوافر مقدار میں وقت تھا اور چونکہ یہ ممکن نہیں تھا کہ دو ہزار صفحات پر مشتمل کوئی ناول ایک ہی جلد میں پیش کیا جائے،انہیں قسط در قسط پیش کیا جاتا تھا۔ جان گالزوردی (1867-1939) کا ناول Foresyte Saga تین حصص (سولہہ سو صفحات) پر مشتمل ہے اور اس میں ایک eponimous خاندان (یعنی ایسا خاندان جس کی اصل، تاریخی حیثیت نہ بھی ہو تو بھی ایک سماجی چلن social trend کی نمائندگی کرے) کی کہانی تین جلدوں اور ڈیڑھ صدی پر محیط ہے۔روس میں، فرانس میں اور اٹلی میں اس قسم کے بیسیوں ناول ہیں۔
اردو میں قرۃالعین حیدر کے ناول ’’آگ کا دریا‘‘ کے علاوہ اس قماش کا کوئی دیگر قابل ذکر ناول میری نظر سے نہیںگذرا، لیکن حالیہ برسوں میں شمس الرحمن فاروقی کے ’کئی چاند تھے سر آسماں‘‘ نے اس کمی کو پورا کیا ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ انتظار حسین اس قطار میں بہت پیچھے کھڑے ہیں۔ اب زیرتبصرہ مشرف عالم ذوقی کا ناول ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ منظر عام پر آیا ہے۔ یہ ناول اس مخلوط تکنیک کا سہارا لیتا ہے، جس میںgenerational اور contemporary مل جل کر ناول کے واقعاتی تسلسل کو آگے بڑھاتے ہیں۔بر سبیل تذکرہ یہ بھی لکھتا چلوں کہ انگریزی میں Bronte sisters نے اس تکنیک میں ایک تیسری جہت ،یعنی ایک ہی مرکزی کردار (مثلاً Emma ) کے امتزاج سے لافانی ناول تخلیق کیے۔
مشرف عالم ذوقی کا ناول ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ ناول کی جنریشنل ذیلی صنف سے ہوتے ہوئے بھی کلیتاً اس صنف سے مشابہ نہیں ہے۔ یعنی لگ بھگ ایک صدی پر محیط ہونے کے باوجود یہ ناول تہذیبوں کے تصادم ، انحطاط، شکست و ریخت اور ریختہ ٹکڑوں سے عجیب الخلقت اشکال میں بدلتی ہوئی ایک نئی تہذیب کی کہانی ہے ۔ایں چیزے دیگر است کہ یہ تہذیب اب بھی پارینہ جاگیردارانہ نظام کی کمزور بنیادوں پر استوار ہوئی ہے اور اس کا خارجی چہرہ ،یعنی مارکیٹ اکانومی کی کئی منزلہ اونچی عمارت ،صرف بڑے شہروں قصّہ ہے، دیہات کا نہیں۔
جو جہت اس ناول کو اردو کے دیگر جنریشنل ناولوں سے اگر ممتاز نہیں تو منفرد ضرور بناتی ہے، وہ یہ ہے کہ
اسے پڑھتے ہوئے بھول بھلیاں میں بھٹکنا نہیں پڑتا۔ (اگر انگریزی میں کہوں، تو) It is eminently readableاور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شعوری رو کے ابہام در ابہام narrative سے دامن بچاتے ہوئے ذوقی نے ، شروع سے آخر تک بیانیہ کی اس تکنیک پر تکیہ کیا ہے جسے unambiguous straight narrative pattern کہا جا تا ہے۔ ناول کا واحد متکلم ، وقتاً فوقتاً خود کو ظاہر و موجود زمان اور مکان سے آزاد کر کے آگے پیچھے گھومتا ضرور ہے لیکن ایسا کرتے ہوئے یہ نستعلیق بیانیہ اسے گمراہ نہیں ہونے دیتا اور وہ ’’رفتہ‘‘ سے ’’موجود‘‘ کی طرف لوٹ کر’’ آیندہ‘‘ کو آتے ہوئے دیکھ سکتا ہے۔ قرۃالعین حیدر کی اس تکنییک کی طرح جو اس نے جیمز جوائس اور ورجینیا وُلف سے مستعار لی تھی، ذوقی مضبوط زمین کے ایک حاضر و موجود لمحے میں مضبوطی سے پائوں جما کر زمان میں آگے پیچھے نہیں دوڑتا ، یا پھر مکان (حویلی، گائوں،قصبہ،شہر،ملک،ہندوستان،پاکستان) میں ایک جگہ رک کر دائیں بائیں طواف نہیں کرتا ۔ زمان کی سطح پر وہ ماضی میں مراجعت کرتے ہوئے بھی قدم قدم پر ’’حال‘‘ کی نشانیاں چھوڑتا چلا جاتا ہے، اور مکان کی سطح پر بھی اسی تکنیک کا سہارا لیتا ہے، اس لیے اس ناول کا قاری بھٹکتا نہیں ہے۔
میں ناول کے پلاٹ یا کرداروں کے بارے میں بات نہیں کروں گا کہ اس مختصر مضمون میں یہ میری لچھمن ریکھا کے اُس پار ہے ، جہاں سے باہر میں قدم نہیں رکھ سکتا۔
تقسیم وطن پر بیسیوں ناول اور اس سے دس گنا تعداد میں افسانے لکھے گئے ہیں۔ اس کے مضر اثرات بنگلہ دیش کے معرض وجود میں آنے پر کھل کر سامنے آئے تھے اور اب پڑوسی ملک کے دگر گوں حالات کو دیکھتے ہوئے اسی ملک کے قلم کار اس پر آزادی سے اظہار خیال کرنے لگے ہیں۔چونکہ تقسیم کا دن یعنی پندرہ اگست 1947ء ایک ایسا catalytic agent بن کر آیا کہ ایک دم توڑتی ہوئی تہذیب کی سانسیں یکا یک اکھڑنے لگیں جبکہ ابھی دوسری تہذیب کا جنم بھی نہیں ہوا تھا۔ ذوقی کا مطمعٔ نظر کیا ہے؟ اس کا جواب کوئی نہیں ہے، کیونکہ ایک ناول نگار جب ایک کردار کی زبان سے کچھ کہلواتا ہے تو یہ ضروری نہیں ہے کہ یہ واحد متکلم ناول نگار کا عندیہ پیش کر رہا ہو۔ خود ایک ناول نگار ہونے کی وجہ سے میں تو اتنا سمجھتا ہوں کہ کسی ببھی ناول کا کینوس اتنا وسیع ہوتا ہے اور اس میں کرداروں کے تانے بانے آپس میں اس قدر مربوط ہوتے ہیں کہ ایک سے زیادہ واحد متکلم بھی ناول نگار کے mouth piece ہو سکتے ہیں ۔ذوقی نے کمال ہوشیاری سے یہ طے کیا ہو گا کہ یہ ناول First Person Pronoun نہ صرف ایک تماشائی لڑکا ہو جہ ابھی جوانی کی پہلی کچی بلوغت بھی پار نہ کر چکا ہو، بلکہ اپنی بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ بدلتے ہوئے آس پاس کی بدلی ہوئی دنیا کو بھی اپنی تجزیاتی بصارت سے دیکھے ۔ ایک اور پہلو جس میں ناول نگار بہت کامیاب رہا ہے وہ اس کے کرداروں کی اشرافیہ بیخ و بنیاد ہی نہیں، بلکہ ان کی اقدار ہیں جن پر وہ مضبوطی سے قائم ہیں۔یہ کردار کٹھ پتلیوں کی طرح نہیں ہیں ، آزاد جیتے جاگتے انسان ہیں جن کو ناول کے خالق نے اپنے فلسفے کی جلباب نہیں پہنائی۔
البتہ واحد متکلم ’’میَں‘‘ کا ذہنی ساختیہ اس بدلتے ہوئے ماحول سے جوتاثر قبول کرتا ہے اسے کمال چابکدستی سے ناول نگار پیش کرتا ہے۔ جب جادو ٹونے کا مظہر، یعنی اسلام کی تباہ ہوتی ہوئی روایت کا نمائندہ، مولوی محفوظ حویلی میں دبے ہوئے خزانے کو جادو کے زور سے کھود نکالنے پر ، اماّں کے انحراف کے باوجود ابّا کو راضی کر لیتا ہے، تو ہمیں بیانیے میں بارہ برس کی عمر کے واحد متکلم کے یہ الفاظ ملتے ہیں۔
محرابیں مجھے ڈس رہی تھیں۔۔۔ درخت اور اس کی شاخیںڈرائونی لگ رہی تھیں۔ بے رونق دیواروں میں خوفناک آنکھیں نظر آ رہی تھیں۔ چھت کی سفیدی جھڑ گئی تھی۔ ۔۔۔وہاں الگ الگ بھیانک چہرے بنے ہوئے نظر آ رہے تھے۔ عرصہ بعد میں نے اپنی نوٹ بک نکالی ۔۔۔ اس پر لکھا۔ میری چاروں طرف بھوت ہیں
آنگن میں ۔۔۔صحن میں۔۔۔ چھت پر
پیڑوں سے لٹکتے بھوت ۔۔۔
دیواروں سے جھانکتے بھوت ۔۔۔
میں گم ہونے لگا ہوں ۔۔۔
یا پھر ۔۔۔
میں بھوت بننے لگا ہوں۔
لڑکپن کی پہلی کچی بلوغت میں اس ذہنی کیفیت کو جن باصری امیجز سے اجاگرکیا گیا ہے، وہ ایک غیر معمولی تاثر دیتا ہے۔ (لفظ ’’بھوت‘‘ ہی چار بار اس میں وارد ہوا ہے)
اس مختصر نوٹ کا مقصد پورے ناول کا تجزیہ قطعی نہیں تھا، صرف اس تکنیک کو زیر بحث لا نا تھا جس کا استعمال بقدر احسن و خوبی ناول نگار نے کیا ہے۔