ممتاز فکشن رائٹر مشرف عالم ذوقی کی تازہ ترین پیشکش (ناول) ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ ہمارے پیش نظر ہے جو حالیہ برسوں کا اردو کا ایک اعلی پایہ کا ناول ہے۔ جس میں ہمیں ماڈرن ناول کے تمام تقاضوں کی تکمیل ملتی ہے۔ موجودہ دور کے ناول کی خاص شناخت یہ ہے کہ وہ کئی سطحوں پر چلتا ہے اور یہی خوبی زیر بحث ناول کو ایک بین الاقوامی سطح پر لاکر کھڑا کرتی ہے۔
ناول کی کہانی تقسیم ہند کے المیہ سے لیکر دور حاضر تک کا احاطہ کرتی ہے۔ یہی وہ زمانہ ہے جب ہندستان میں زیادہ سے زیادہ سماجی، اقتصادی، سیاسی اور فکری تبدیلیاں رونما ہوتی رہی ہیں۔ اس ناول کا تانا بانی اسی پس منظر میں بنا گیا ہے۔ جہاں ان تبدیلیوں کا اثر عام ہندستانیوں پر پڑا وہیں خاص طور پر روایتی مسلم معاشرہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ تقسیم ہند کے نتیجے میں آج بھی مسلم معاشرہ اس فیصلے کی کشمکش میں مبتلا ہے کہ اس کا پاکستان ہجرت کرنے کا فیصلہ صحیح تھا یا ہجرت نہ کرنے کا فیصلہ۔
اس کشمکش کے اثرات ناول کے اہم کردار سفیان ماموں (حکیم صاحب) اور ان کے کنبہ پر خاص طور رونما ہوتے ناول میں نظر آتے ہیں۔ اسی طرح ناول ایک عبوری دوڑ کی عکاسی کرتا نظرآتا ہے۔ جس میں یوپی کے بلند شہر کے علاقے کی روایتی مسلم حویلیوں اور کوٹھیوں کی روایتی طرز زندگی کی بھرپور نقاشی کی گئی ہے۔ اور پھر ناول تبدیلیوں کے اس مقام تک پہنچتا ہے جہاں لوگ اپنی حویلیوں سے منتقل ہوکر کالونیوں، فلیٹوں اور بنگلوں میں جاکر بسنے لگے۔ اس دور میں مسلم معاشرہ کئی خانوں میں تقسیم ہو کر منتشر ہوتا نظرآتا ہے۔ کوئی مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) ہجرت کرگیاتو کوئی مغربی پاکستان کے کسی خطے میں جا بسا۔
مسلم معاشرے کے اس بدلتے منظرنامے کو ناول نگار نے بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ ناول کے آغاز میں حویلیوں کی رجعت پسندی، بھوت پریت، جادو ٹونے، جھاڑ پھونک اور مدفون خزانوں کی تلاشی جیسی دقیانوسی کورانہ تقلید کے عمل دخل کی جزئیات کا بڑی خوبصورتی اورسچائی سے اظہار کیاگیا ہے۔
ان تبدیلیوں کے تناظر میں سارہ کا کردار نئی نسلوں میں رونما ہوتی ہوئی فطری تبدیلیوں کی علامت کے طور پر ابھر کر سامنے آتا ہے۔ جو داستان گو (کاردار) کی اپنی پوتی ہی ہوتی ہے۔
ناول میںایک سطح پر صرف ایک سیدھا سادہ سا Love Triangle نظرآتا ہے جس میں دو جگری دوست عبدالرحمن کاردار اور نور محمد ایک ہی لڑکی نادرہ سے محبت کر بیٹھے ہیں۔ لیکن حالات کی ستم ظریفی کے نتیجے میں نادرہ نور محمد کی منکوحہ بن جاتی ہے اور کاردار اس درد کو خاموشی سے پی جانے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن اس کا دل اندر ہی اندر مسوستا رہتا ہے۔ جبکہ نادرہ بھی کاردار کی محبت اپنے دل میں آخری وقت تک بسائے رہی لیکن زندگی کے آخری لمحوں میں وہ کاردار سے یہ شکایت کئے بغیر نہ رہ سکی کہ اس نے خود اپنی محبت کا اظہار کیوں نہیں کیا۔ اسی طرح یہ عام المیہ ہے جو کسی بھی انسان کی زندگی میں رونما ہوسکتا ہے۔ ناول نگار کے ہی لفظوں میں ’’کبھی کبھی قدرت کے آگے ہم بے حد کمزور ہوجاتے ہیں اور سپر ڈال دیتے ہیں۔‘‘ اس پس منظر میں ناول کی کہانی کافی درد ناک ہے۔
ناول کا اصل المیہ ہے الجھے ہوئے اور ممنوعہ رشتوں ( Taboo Relationیا Incest) کا جو کسی بھی معاشرے میں قابل قبول نہیں رہا ہے۔ ایسے نازک اور مشکل موضوع پر صرف مشرف عالم ذوقی جیسا دل گردے والا قلم کار ہی قلم اٹھا سکتا ہے۔ ایک روایت پسند ملک کا شہری ہونے کے باوجود۔
ناول نگار کی فنکاری کی بھی ہم داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ ناول سطحی اور محض تفریح کا سامان نہ بن جائے اس لیے مشرف عالم ذوقی نے بڑی خوبصورتی سے مرکزی کردار کو پہلے حاشیے میں رکھ کر خود کو مرکزی کردار کے طور پر پیش کیا اور پھر رفتہ رفتہ کہانی کی اصلیت کو پرت در پرت کھولنے کی تکنیک استعمال کی۔
ناول کا اصل المیہ تب شروع ہوتا ہے جب نادرہ اپنی بچی کو پیدا کرکے مرجاتی ہے اور بچی بھی ایسی جو مسلسل روئے جاتی ہے اور ایک پل کو بھی چپ نہیں ہوتی۔ دراصل وہ پیدائشی طور پر دماغی مریض اور Abnormal ہے۔
نور محمد نے نادرہ کے مرنے کے بعد طے کرلیا تھا کہ وہ اس کی قیمتی امانت اور یادگار نگار کی زندگی ہر قیمت پر بچائے گا۔ اور واقعی اس نے نگار کی زندگی کو ہی اپنے جینے کا مقصد بنالیا۔
وقت گزرتا گیا اور نگار جوان ہو گئی۔ لیکن اس عمر کے عام تقاضوں کے بر خلاف اس کے اندر جنسی حس کا فقدان رہا۔ لیکن اسی اثناء میں نور محمد کے ایک قریبی رشتہ دار کی پراسرار قربت کے نتیجے میں اچانک کچھ ایسا ہوتا ہے کہ حیرت انگیز اورخطرناک حد تک نگار میں جنسی حس اچانک بیدا ہوجاتی ہے۔ ایک تو شدید جنسی تقاضے اور اس پر دماغی خلل۔ چنانچہ کچھ ایسی انہونی ہوتی ہے کہ نور محمد کو اپنی بیٹی نگار کے شدید جنسی تقاضوں کا شکار ہوجانا پڑا۔ جو یقینی اس کے لیے اذیت ناک بلکہ ناقابل برداشت تھا۔ لیکن اسے اس قبیح فعل کو اس لیے انجام دینا پڑا کہ وہ ہرحال میں اپنی نادرہ کی امانت کو زندہ دیکھنا چاہتا تھا۔
اس مقام پر ناول کا المیہ یونانی المیوں سے جاملتا ہے۔ مثال کے طور پر یونانی ڈرامہ نگار سوفوکلیز (Sophocles) کے دو المیہ ڈرامے قابل ذکر ہیں۔ایک Oedipus Rex اور دوسرا Antigony۔ سوفوکلیز کا انتقال ۴۰۶ قبل مسیح ہوا تھا۔ مذکورہ ڈراموں میں بھی ممنوعہ رشتوں کا موضوع ہی زیر بحث آیا تھا۔ اس لیے اس موضوع پر قلم اٹھا کر مشرف عالم ذوقی نے کسی جرم کا ارتکاب نہیں کیا ہے۔ اگر ان کا جرم ہے تو بس اتنا کہ روایتی ہندستان کا شہری ہوکر اور ایک روایتی مسلم ماحول میں پیدا ہوکر ایسا جرأت مندانہ ناول لکھ بیٹھے ہیں۔ ممنوعہ رشتوں کا موضوع زمانہ قدیم سے ہی متنازعہ رہا ہے۔ مذکورہ یونانی ڈراموں کے پس پشت یہ فلسفہ کار فرما رہا ہے کہ ان کے کرداروں کی کسی کمزوری کو اجاگر نہیں کیاگیا۔ یعنی ان پر بدکاری کا الزام عائد نہیں کیاگیا۔ نیز اسے تلذذ کے سامان کے طور پر پیش نہیں کیاگیا ہے اور یہ تسلیم کیاگیا ہے کہ ان کے کرداروں کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ قسمت کا فیصلہ تھا جو انجانے میں سرزد ہوا۔ اس کے لیے وہ مورد الزام نہیں ٹھہرائے جاسکتے اورانہیں معصوم اور حالات کے ستم زدہ افراد کے طور پر معاف کردیا جانا چاہئے۔
اسی طرح انگریزی ناول نگار ٹامس ہارڈی کے المیہ کرداروں کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ ہارڈی Fate and Chance (تقدیر اور امکان) پر یقین رکھتے ہیں۔ یعنی انسان کی زندگی میں جو کچھ برا ہوتا ہے وہ تقدیر اور اتفاق کی دین ہوتا ہے نہ کہ کسی انسان کے اپنے عمل یا اپنے کردار کی کسی کمزور کی وجہ سے۔ اس طرح مشرف عالم ذوقی اس ناول میں سوفوکلیز اور ہارڈی کے ہم خیال نظرآتے ہیں۔
لیکن عظیم المیہ ڈرامہ نگار ولیم شیکسپئر، سوفوکلیز اور ہارڈی سے کچھ مختلف نظریے کے حامل ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ہر انسان کے اندر فطری طور پر کوئی ایک بڑی کمزوری پنہاں ہوتی ہے جو اس کی زندگی میں رونما ہونے والے المیہ کا سبب بن جاتی ہے۔
مختصر یہ کہ شیکسپئر کا فلسفہ حیات سوفوکلیز، ٹامس ہارڈی اور ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ کے خالق مشرف عالم ذوقی سے مختلف ہے۔ اس لیے اس ناول کے قاری مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں کھلے ذہن کے ساتھ اس ناول کو پڑھیں، اور تب کسی نتیجے پر پہنچیں تو بہتر ہے۔ تبھی انہیں اس ناول کی گہرائی، اس کے المیہ اورفلسفے کا صحیح اندازہ ہوپائے گا۔ اس سنجیدہ ناول کا بنیادی تقاضہ بھی یہی ہے کہ اسے تفریح اور تلذذ کے لیے نہ پڑھاجائے۔ ورنہ ناول اورناول نگار دونوں کے ساتھ زیادتی ہوگی۔
اس نہایت ہی حساس موضوع پر قلم اٹھانا قلم کار کے لیے لوہے کے چنے چبانا جیسا مشکل کام تھا اور تنازعات اور مباحث کو دعوت دینا تھا۔ لیکن ناول نگار نے ان تمام اندیشوں اورمشکلات پر قابو پاتے ہوئے بہت ہی عمدہ پلاٹ، اسٹائل، تکنیک اور کرداروں کا تانا بانا بن کر انہیں بخوبی نبھایا ہے۔ اوراس عمل میں دور افتادہ ہل اسٹیشن کے پر فضا مقام پر مقیم پروفیسر نیلے کا بخوبی استعمال کیا ہے جو داستان گو (کاردار) کے دوست، ہمراز اورمشیر ہیں۔ پرفضا پہاڑی مقام پر ان کا ایک ساتھ سیر کرنا اور پھر ناول سے متعلقہ باتوں اور کرداروں پر دوران گفتگو پرت در پرت پلاٹ کا کھلتے جانا اپنے آپ میں بڑی ا ہمت رکھتا ہے اور اسے ناول نگار کی فنکاری یا Masters Stroke کہا جاسکتا ہے۔ اس لیے کہ پرفضا پہاڑی مقام کا ماحول، ایک بوجھل موضوع کو قارئین کے لیے قابل قبول بنانے کے لیے ضروری تھا۔ اس کے لیے بھی ناول نگار قابل مبارکباد ہیں۔
رجائیت پر مبنی ناول کا اختتام بھی اپنے آپ میں اہمیت رکھتا ہے۔ حالانکہ ناول کا سارا کینوس مایوس کن، تشویشناک اور المیہ خیز تھا۔ یعنی داستان گو کاردار زندگی سے مایوس اور نہایت افسردہ دوست نور محمد کا حوصلہ بڑھاتا ہے، اس کا علاج کراتا ہے اور ماضی کی تلخیوں کو بھول جانے کا مشورہ دیتا ہے۔
ان تمام خوبیوں کے باوجود یہ کہے بغیر نہیںرہا جاسکتا کہ اس ناول کی کہانی اتنی اثرانگیز اور اپنے آپ میں اتنی مکمل ہے کہ اسے کسی بیساکھی کی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن شاید ناول نگار کسی انجانے خوف کا شکار ہوکر اور فکری جواز پیش کرنے کی مہم میں مشغول ہوکر جدید نفسیات کے فلسفے (بشمول فرائڈ کے نظریات) اور عالمی سطح پر انسانی تہذیب کے بدلتے منظرنامے (انٹر نیٹ چیٹنگ، میڈیا میں پرو ئے جانے والی فحاشی وغیرہ) اور دیگر خرافات کا سہارا لینے پر مجبور ہوگیا۔ جبکہ اسے اپنی بات کہنے کے لیے ان غیر ضروری تفصیلات کی ضرورت نہیں تھی۔
لیکن شاید اسے اپنے کرداروں کی معصومیت، مجبوری اور ا س کے گناہوں کا جواز پیش کرنے کے لیے یہ سب حوالے ضروری تھے۔ اس لیے اسی کسی حد تک حق بجانب قرار دیا جا سکتا۔
اس بات کو انگریز میں کچھ اس طرح واضح کیا جاسکتا ہے کہ:
If the writer gone into such details of modern psychology social and moral degration leading to incest just to justify the action of his characters, then it was a futile exercise, because his innocent and helpless characters and their weired circumstances were responsibe for their tromtic experiences.
But if the novelist used the perverted modern age activities as a contrast to his character’s action then he may be partlly justified for such a lengthy degressive explanation.
ناول کے اختتام کی یہ چند سطریں بھی بڑی اہمت رکھتی ہیں۔
’’ کھیت کی منڈیروں سے نکل کر آگے بڑھتے ہوئے میں پلٹ کر دیکھتا ہوں۔ نورمحمد اور جینی دونوں اب تک ہاتھ ہلا رہے ہیں۔
میں مسکرا رہاہوں۔ تہذیبیں ہر بار اپنے بھیس بدل لیتی ہیں۔ کبھی بھیانک سطح پر اور کبھی…
ہرنفس نومی شود دنیا وما…
ہرآن ایک نئی دنیا تعمیر ہورہی ہے۔‘‘
Glass-handle with care کی تنبیہ کی طرح مشرف عالم ذوقی اپنے ناول میں میر تقی میر کے اس فلسفہ کی وضاحت کرنے میں بھی پوری طرح کامیاب نظرآتے ہیں کہ
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کار گہہ شیشہ گری کا
تابناک مستقبل کی تشکیل کے لئے ماضی کو محفوظ کرنا ضروری
تابناک مستقبل کی تشکیل کے لئے ماضی کو محفوظ کرنا ضروری اسٹیٹ پبلک لائیبریری ، پریاگ راج میں یونیسکو اور...