گُل ہائے دانش
٭ جو شخص دنیا کے لیے علم سیکھتا ہے علم اس کے دل میں جگہ نہیں پکڑتا۔
٭ جو شخص علمی مذاق نہ رکھتا ہو۔ اس کے سامنے علمی باتیں کرنا در اصل اسے اذیت دینا ہے۔
٭ دولت پر علم کو ترجیح حاصل ہے کیونکہ علم سے دولت حاصل ہو سکتی ہے مگر دولت سے علم حاصل نہیں ہو سکتا۔
٭ کہیں صرف سوراخ کے منہ پر پیٹنے سے سانپ مرسکتا ہے اور کہیں صرف جسمانی تکلیف سہنے سے نجات مل سکتی ہے۔
٭ بہادر کا امتحان میدان جنگ میں۔ دوست کا امتحان ضرورت کے وقت اور عقل مند کا امتحان غیظ و غضب کی حالت میں ہوتا ہے۔
٭ خاندانی تعلقات کس کام کے ہیں ؟ ہر انسان دنیا میں تنہا آتا ہے اور تنہا ہی جاتا ہے۔
٭ دوسروں کے ساتھ زیادہ نیک سلوک وہ کر سکتا ہے جو خود زیادہ تکالیف میں مبتلا رہ چکا ہو۔
٭ ضرورت سب چیزوں پر غالب آتی ہے۔
٭ انسان اپنی مصیبت کو اس وقت بہت آسانی سے سہتا ہے جب وہ اپنے دشمنوں کو اپنے سے بدتر حالت پاتا ہے۔
٭ مصائب کے درمیان رہ کر بھی اگر انسان ان کو سہنا اور صبر کرنا نہ سیکھے تو گویا اس نے صحبت کا حق ادا نہ کیا۔
٭ دوسروں کی محنت کو ضائع نہ کرو تاکہ تمہاری سعی و کوشش بھی ضائع نہ جائے۔
٭ جو شخص کوئی کام نہیں کرتا اور یہ سمجھتا ہے کہ اس کے لیے دنیا میں کوئی کام کرنے کا نہیں یا بوجہ تمّول اسے کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کی حالت قابلِ رحم اور سزاوارِ افسوس ہے۔
٭ جو کام تم خود کر سکتے ہو اسے دوسروں پر مت چھوڑو اور جو کام آج کر سکتے ہو اسے کل پر مت چھوڑو۔
٭ اس چیز کے لیے طلب کی دعا بے ہودہ ہے جس کے حصول کے لیے تم خود دل و جان سے کوشش نہ کرو۔
٭ اخلاص کے معنی یہ ہیں کہ اعمال نیک کے عوض دین و دنیا کسی کو نہ طلب کیا جائے۔
٭ بلندی اور رفعت تواضع اور انکساری میں ہے۔ فخر اور بزرگی فقر اور محتاجی میں ہے۔
٭ خوبصورت عورت دیکھنے سے آنکھ اور نیک عورت دیکھنے سے دل خوش ہوتا ہے۔
٭ خود داری اکثر ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے لیکن بعض اوقات بہت مفید ثابت ہوتی ہے۔
٭ وہ جو کہ ہچکچاتا ہے بعض اوقات بڑے خطرات سے محفوظ رہتا ہے۔
٭ خواہ کوئی عمدہ خیال عملی صورت میں نہ آئے تاہم اس کی تائید سے باز نہ رہنا چاہیے۔
٭ ہمارا امیر اور غریب ہونا ہماری روح پر منحصر ہے۔
٭ جو احسان تجھ پر کیا جائے اس کو بہت زیادہ اور جو احسان تو نے کسی پر کیا ہو اس کو بہت کم خیال کر اور انکساری کی عادت ڈال۔
٭ علم کا دشمن تکبر، عقل کا دشمن غصّہ، صبر کا دشمن لالچ اور نیکی کا دشمن جھوٹ ہے۔
٭ دشمن خواہ مچھر سے بھی چھوٹا ہو مگر اسے ہاتھی سے بڑا خیال کرو۔
٭ دولت بمقابلہ عزت کے ، شوکت بمقابلہ حکمت کے ، سلطنت بمقابلہ عبادات کے ، صورت بمقابلہ سیرت کے اور شجاعت بمقابلہ سخاوت کے ہیچ ہے۔
٭ انسان اپنے سوا دنیا میں سب کو فانی سمجھتا ہے۔
٭ بعض اوقات دولت مندی سے بھی بڑی بڑی خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں جو مفلسی کے نقصانات سے بدر جہا بہتر ہوتی ہیں۔
٭ اگر شراب نہ ہوتی تو جتنے گناہ اب تک دنیا میں ہوئے ان کا نصف بھی نہ ہوتا۔
٭ انسان کا بہترین مطالعہ ’مطالعہ انسان‘ہے۔
٭ ظاہرداری، منافقت اور فضول گوئی تین ایسی چیزیں ہیں جو کسی شخص کو آخرکار ذلیل کر دیتی ہیں۔
٭ ہر شخص صرف اپنے لیے نہیں پیدا کیا گیا بلکہ ایک دوسرے کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔
٭ انسان اپنے ہر بُرے فعل کا کوئی نہ کوئی بہانہ یا جواز ضرور ڈھونڈ لیتا ہے۔
٭ ظالم کی مدد کرنا یا بجائے قطع تعلق کے اس کے ساتھ نیکی کرنا۔ خلق خدا کا خون اپنی گردن پر لینا ہے۔
٭ اس دنیا میں سب سے زیادہ مشکل اپنے آپ کو پہچاننا ہے۔
٭ اس شخص سے ڈرو جو خدا سے نہیں ڈرتا۔
٭ سستی ایسی سست رفتار ہوتی ہے کہ مفلسی فوراً اسے آ کر دبا لیتی ہے۔
٭ جو شخص کسی عورت سے اس کی خوبصورتی کے لیے شادی کرتا ہے وہ احمق ہے۔ جو دولت کے لیے شادی کرتا ہے وہ لالچی ہے اور جو کوئی اس عورت کے حسن سیرت کی وجہ سے شادی کرتا ہے وہی حقیقی شوہر ہے۔
٭ نوجوانی کی بے وقوفیاں بڑھاپے میں توبہ کے لیے جواز بنتی ہیں۔
٭ عقل مند کے سامنے زبان کو۔ حاکم کے سامنے آنکھ کو اور بزرگوں کے سامنے دل کو قابو میں رکھنا چاہیے۔
٭ انسان کو اپنے نسب پر فخر نہیں کرنا چاہیے بلکہ کسب و حسب کو دیکھنا چاہیے۔
٭ جو شخص یہ خیال رکھے کہ جن باتوں سے مجھے صدمہ ملتا ہے ان سے دوسروں کو بھی ملے گا۔ تو وہ کسی گناہ کا مرتکب نہ ہو گا۔
٭ جو شخص اپنی زبان یا افعال سے دوسروں کو تکلیف دینے کی کوشش کرے گا۔ وہ اپنے ہی حق میں کڑوے بیج بوتا ہے جو آنے والے زمانے میں بڑے ہو کر اس کے اپنے حق میں تکلیف کے پھل لائیں گے۔
٭ کڑوی بات انسان کو غمگین بنا دیتی ہے لیکن بھلی بات سے اسے ایک گونہ خوشی ملتی ہے۔
٭ خوشی سے انسان کے چہرہ پر نور برستا ہے لیکن رنجیدہ کن بات سننے سے اس کی ماہیت بگڑ جاتی ہے۔
٭ بے وقوف وہ ہے جو اپنے عیبوں پر نگاہ نہیں ڈالتا اور کسی کی نصیحت نہیں سنتا اور عقل مند وہ ہے جو اچھی صحبت میں بیٹھے۔ بُری بات زبان سے نہ نکالے اور میانہ روی اختیار کرے۔
٭ محنتی اور جفا کش آدمی کی نیند خواہ وہ کم کھائے یا زیادہ۔ میٹھی ہوتی ہے لیکن مال کی زیادتی اسے کبھی آرام سے نہ سونے دے گی۔
٭ دنیا میں کامیاب ہونا اپنی قوت، حوصلہ اور اپنی روحانی طاقت پر ہی منحصر ہے۔
٭ جس نے خاموشی اختیار کی اس نے اپنی عمر بڑھائی۔
٭ بنی ہوئی راہ پر چلنے والے تو بہت ہوتے ہیں مگر دوسروں کے لیے راستہ صاف کرنے والے دنیا میں بہت ہی کم ہیں۔
٭ تن درستی، نیک بیوی، فرمان بردار لڑکا اور مآل اندیش دماغ ایسی نعمتیں ہیں جو گھر کو بہشت بنا دیتی ہیں۔
٭ جس کے دل میں معافی کی اعلیٰ صفت موجود ہو۔ بدخواہ اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے کیونکہ جہاں گھاس پھونس نہیں ہوتی وہاں گری ہوئی آگ خودبخود بجھ جاتی ہے۔
٭ رحم اور انصاف میں بڑا فرق ہے۔ جہاں رحم ہے وہاں انصاف نہیں اور جہاں انصاف ہے وہاں رحم کی کوئی حقیقت نہیں۔
٭ تمہاری دلیل اگر وزن دار ہو تو بھی اسے حوصلہ اور سنجیدگی کے ساتھ ثابت کرو۔ یہ نہیں کہ دوسرے کو غلط نقطہ پر چلتے دیکھ کر قہر میں آ جاؤ۔
٭ اپنے ملازموں پر زیادہ خوشی ظاہر نہ کرو ورنہ وہ نکمے اور سست الوجود ہو جائیں گے۔
٭ اس قدر سادہ لوح مت بنو کہ سب لوگ ہی تمہارے دل میں گھر کر لیں۔
٭ جو بات تمہارے دل میں پیدا ہو۔ اس کو پہلے ہی سے درست نہ خیال کرو۔ بلکہ اس کی اصلیت پر غور کرو۔
٭ دل لگی دو موقع پر اچھی ہے۔ اول: دوستوں میں اور دوم: اپنی زوجہ کے ساتھ
٭ مصیبت کے دنوں میں اپنی پہلی حالت کو یاد نہ کرو۔ بلکہ حوصلہ سے کام لو اور اس بات پر غور کرو کہ بہت سے لوگ تم سے بھی زیادہ تکلیف میں مبتلا ہیں۔
٭ سچے کو منہ نوچنے والا، شجاع کو بے رحم، سیدھے کو بے وقوف صاحب دبدبہ کو مغرور، فصیح کو یاوہ گو اور مستقل مزاج کو سست کہا گیا۔ غرض کہ ایسی کوئی خوبی نہیں جس پر حاسدوں نے اعتراض نہ کیا ہو۔
٭ جس کا دل پاک ہو اسے تیرتھ سے کیا فائدہ۔
٭ عمر تھوڑی ہے اور کام بہت زیادہ ہیں۔ پس عقل مند وہی ہے جو اپنی قیمتی عمر کو ضروری کاموں میں صرف کرے۔
٭ موت زندگی کا تاج ہے۔ اگر موت نہ ہوتی تو غریبوں کی زندگی بے فائدہ ہوتی۔
٭ اگر موت نہ ہوتی تو جینے کا نام زندگی نہ ہوتا۔
٭ متقی لوگ ہی ریاضت کا بوجھ اٹھا پاتے ہیں اور صابر ہوتے ہیں۔
٭ تین چیزوں کی قلت ہی بہتر ہے قلت طعام، قلت منام اور قلت کلام۔
٭ غلطی کے تین درجات ہیں۔ سہواً، عمداً اور خطاءً
٭ تین قسم کے نشے خطرناک ہیں۔ نشۂ حُسن، نشۂ دولت اور نشۂ علم۔
٭ تین چیزیں تین چیزوں سے حاصل نہیں ہو سکتیں۔ جوانی خضاب سے ، تونگری آرزو سے اور صحت دوائیوں سے۔
٭ تین آدمی تین مواقع پر پہچانے جاتے ہیں۔ (۱) بہادر لڑائی کے وقت، (۲) دانا غصے کے وقت، (۳) دوست ضرورت کے وقت۔
٭ یہ تین اشیاء فساد کی جڑ ہیں : (۱) زن، (۲) زر، (۳) زمین۔
٭ چار چیزوں کے کم ہونے کو بھی زیادہ جانو، (۱) آگ کہ اس کے تھوڑے میں بھی جلانے کی خطرناک قوت ہے۔ ، (۲) بیماری کہ خواہ کتنی ہی کم ہو مضطرب کر دیتی ہے ، (۳) قرض کہ قرض خواہ ایک روپے میں اتنی ہی شرم ہے جتنی لاکھوں روپے سے ، (۴) دشمن کہ خواہ کتنا ہی حقیر اور کمزور ہو مگر اپنا داؤ چلائے بغیر نہیں رہ سکتا۔
٭ عشق کے چھ درجات ہیں : رجحان، میلان، دلچسپی، محبت، عشق اور جنون۔
٭ دنیاوی راحتیں چھ ہیں : پہلی راحت صرف تندرستی، دوسری راحت فرمان بردار بیٹا، تیسری راحت مال و دولت کی فراوانی، چوتھی راحت نیک بیوی، پانچویں راحت حکومت میں عہدہ داری اور چھٹی راحت اپنے آبائی شہر میں قیام و قرار۔
٭ وہ شخص جس کا تقدیر ساتھ نہ دے۔ اس کے تمام ہنر خلق میں نا مقبول ہوتے ہیں۔ اس کی شجاعت دیوانگی کہلاتی ہے۔ اس کی فصاحت حشو، اس کی سخاوت گزاف، اس کی کریمی فساد اور اس کا فضل فضول شمار ہوتا ہے۔
٭ جاہل کے خیال اور عمل میں بہت کم وقفہ ہوتا ہے۔
٭ دنیا کی ہر ضرورت کا خاتمہ ایک نئی ضرورت پر ہوتا ہے اور اس کا خاتمہ دوسری ضرورت پر۔ حتیٰ کہ عمر تمام ہو جاتی ہے۔
٭ دنیا میں اگر کوئی محبت کا قدردان ہوتا تو گدھا سب سے زیادہ قابل قدر ہوتا۔
٭ افسوس کہ انسان کی آدھی عمر امیدوں کو پالنے میں اور بقیہ آدھی عمر نامرادی کا ماتم کرتے گزر جاتی ہے۔
٭ بد عادات میں اگر کمی نہ ممکن ہو تو اعتدال ہی غنیمت ہے۔
٭ دنیا کے آلام سے بچنے اور آرام حاصل کرنے کے لیے ایک بہترین ذریعہ خاموشی ہے۔
٭ تیری گفتار اگر موتی بھی بکھیرے۔ خاموشی اس سے پھِر بھی بہتر ہے۔ خردمند صدف کی طرح خاموش رہتا ہے۔ ہرچند کہ اس کے اندر موتی بھرے ہوں۔
٭ جس طرح شبنم سے کنواں نہیں بھرسکتا۔ اسی طرح حریصوں کی آنکھ کا کاسہ نعمت دنیا سے نہیں بھر سکتا۔
٭ ایام غنچگی میں اس قدر جفائے باغبان دیکھی اور بعد میں گُل بننے پر خدا جانے کیا کیا گُل کھلیں گے۔
٭ حباب اپنی سربلندی کی وجہ سے پائمال موج ہوتا ہے اور غبار اپنی خاکساری کی وجہ سے اوج ثریا تک پہنچ جاتا ہے۔
٭ دنیا میں بغیر سختی کے کامیابی بہت مشکل ہے۔ جیسا کہ پتھر میں سے آگ نکالنا لوہے کاہی کام ہے۔
٭ دنیا میں خوشی کی نسبت غم بہت زیادہ ہے۔
٭ مہر وماہ کی مانند تمام دنیا کو پھر کر دیکھا مگر منزل آسائش کسی نے نہیں پائی۔
٭ عُذر و توبہ کے ساتھ عذاب خالق سے رہائی ممکن ہے مگر خلق کے حلق سے کوئی نہیں بچ سکتا۔
٭ دنیا میں اگر مردانہ وار زندگی نہ مل سکے تو مردانہ وار موت کو گلے لگا لینا ہی زندگی ہے۔
٭ اگر پہلی اینٹ ٹیڑھی ہو گی تو آسمان تک دیوار ٹیڑھی بنے گی۔
٭ دانت کھاتے کھاتے گھس گئے زبان شکوے کرتے کرتے نہ تھکی۔
٭ خلق خدا کے ساتھ ایسا سلوک کر کہ اگر دوسرے تیرے ساتھ کریں تو تو اس سے راضی رہے۔
٭ جلدی کے ساتھ دوزخ میں جانا جنت کے طویل انتظار سے بہتر ہے۔
٭ غائب کا اثر حاضر کی نسبت کم ہوتا ہے۔
٭ اپنی نظر کو قابو میں رکھو۔ کہ ایسا دزد تیر انداز ہے کہ جوہری کے ہاتھ سے بزور گوہر اڑا لے جاتا ہے۔
٭ دنیا کے بڑے مذہب دو ہی ہیں : نیک اور بد۔
٭ غافل کے پاس دم بھر کا بیٹھنا دن بھر کی اصلاح کو غارت کر دیتا ہے۔
٭ لعنت ہے اس پر جو مظلوم کی مدد نہ کرے جب ظلم ہوتا دیکھے۔
٭ علم سیکھے بغیر گوشہ نشینی تباہی کا موجب ہے۔
٭ تنہائی سے زیادہ کسی حال میں امن نہیں اور قبروں کی زیارت سے زیادہ بڑا کوئی ناصح نہیں ہے۔
٭ انکساری یہ ہے کہ انسان کو غصہ ہی نہ آئے۔
٭ متکبر کا ادنیٰ نشان یہ ہے کہ غصہ ضبط نہ کر سکے۔
٭ نیک کرداری کی کھلی علامت انسان کی گفتار و کردار ہے۔
٭ مالدار کو بخل، حاکم کو طمع، جوان کو کاہلی، عابد کو غرور اور سخی کو افسوس تباہ کر دیتا ہے۔
٭ بے احسان سخاوت، قدرت میں عفو، دولت میں تواضع اور عداوت میں نیکی کرنا جوانمردوں کے کام ہیں۔
٭ وہ شخص آپ سے کیونکر پیار کر سکتا ہے۔ جس سے آپ پیار نہیں کرتے کیونکہ دونوں انسان ہیں۔
٭ جب آپ دوسروں کو تعصب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ کیوں دوسرے بھی آپ کو اسی نظر سے نہ دیکھیں۔ کیونکہ کمزوری ہر انسان میں موجود ہے۔
٭ جس حال میں آپ کو دوسروں کی بھلائی کا کوئی خیال نہیں کیوں دوسرے بھی آپ کی بھلائی کے خواہاں ہوں کیونکہ یہ تقاضائے بشریت ہے۔
٭ انسان کا شرف علم و ادب سے ہے نہ کہ مال و نسب سے۔
٭ ضمیر حق و راستی کا دوسرا نام ہے۔
٭ کبھی کبھی بے وقوف بھی عقل مندوں کو صلاح دے سکتے ہیں۔
٭ برے بہانوں کی نسبت بہانہ نہ کرنا ہی اچھا ہے۔
٭ تکالیف کو راکھ پر اور مہربانیوں کو سنگِ مر مر پر لکھو۔
٭ ہر کام جو دل سے کیا جائے۔ وہ آسان ہے۔
٭ بند منہ میں کبھی مکھی نہیں جاتی۔
٭ بدقسمتی گھوڑے پر سوار ہو کر آتی ہے اور پیدل واپس جاتی ہے۔
٭ جو کسی چیز پر شبہ نہیں کرتا ہے وہ کچھ نہیں جانتا۔
٭ جس شخص کو تم اپنا راز بتا دیتے ہو گویا اپنی سلامتی اور آزادی اس کے ہاتھ میں دے دیتے ہو۔
٭ معاف کرو اور فراموش کر دو۔
٭ ایک اچھا سا وعدہ کسی بھی بے وقوف کو باندھنے کے لیے کافی ہے۔
٭ جوبلی مندر میں رہتی ہے وہ دیوتا سے نہیں ڈرتی۔
٭ کیا بیل کے زخم پر کوے کو رحم کھانا چاہیے۔
٭ مہربانی سے ملنا دعوت دینے سے بھی بہتر ہے۔
٭ سب سے بڑی حکومت غصّے پر حاکم ہونا ہے۔
٭ جتنی زیادہ اُمید باندھو گے اتنی زیادہ تکالیف اٹھانا پڑیں گی۔
٭ بے کار آدمی یا چور ہوتا ہے یا بیمار۔
٭ خوبصورتی اور بے وقوفی کی اکثر رفاقت ہوتی ہے۔
٭ کمال اور اقبال مشکل سے یکجا اکٹھے ہوتے ہیں۔
٭ سدا کی ہائے ہائے کوئی نہیں سنتا۔
٭ اُدھار کے حلوے سے نقد کا تھپڑ بہتر ہے۔
٭ جو چیز شیروں کو بھی گیڈر بنا ڈالتی ہے وہ ضرورت ہے۔
٭ خوف ہوشیاری کا ایک جزو ہے۔
٭ کسی بلا کے واقع ہونے سے اس کے ہونے کا خطرہ بہت سخت ہے۔
٭ ظالم کی نیند اس کی بیداری سے بہتر ہے۔
٭ ایک پرہیز سو علاجوں کے برابر ہے۔
٭ حسد محسود تک پہنچنے سے پہلے حاسد کو مار ڈالتا ہے۔
٭ وقت پر لگایا گیا ایک ٹان کا بے وقت کے ایک سو ٹانکوں کی مصیبت سے بچاتا ہے۔
٭ موت ایک سیاہ رنگ کا اونٹ ہے جو ہر شخص کے دروازے پر آتا ہے۔
٭ اپنے لیے مقام رہائش پسند کرنے سے پہلے ہمسایوں کو اچھی طرح دیکھ بھال لو۔
٭ اگر کوئی شخص نیک کام کرے تو صرف نزدیکی لوگوں کو ہی معلوم ہوتا ہے مگر بُرے کام دور دراز تک پہنچ جاتے ہیں۔
٭ زیادتی کی جائے تو دوا بھی زہر بن جاتی ہے۔
٭ ہر شخص کے لیے اپنی ہی عقل بادشاہ ہے۔
٭ ایک خوشی سے سو غم منتشر ہو جاتے ہیں۔
٭ آدمی تین ہی اچھے ہیں۔ ایک وہ جو مرگیا ہے۔ دوسرا وہ جو ابھی پیدا نہیں ہوا ہے اور تیسرا وہ جس سے تعلق نہیں۔
٭ اس شخص کے گھر کو آگ کیوں لگاتے ہو جس کی دو بیویاں ہیں۔
٭ ہماری خوشیاں پامال اور رنج عمیق ہیں۔
٭ محنت تقدیر کا دایاں ہاتھ ہے۔
٭ محنت سے مصیبتیں دور بھاگتی ہیں۔
٭ اگر تم چاہتے ہو کہ دھوکا نہ کھاؤ تو تین دوکانوں سے قیمت پوچھ لو۔
٭ خریدار کے لیے ایک سو آنکھیں بھی کم ہیں اور دکاندار کے لیے ایک بھی زیادہ ہے۔
٭ قرض کا روپیہ وقت کو تھوڑا کر دیتا ہے اور دوسروں کا کام کرنا وقت کو لمبا کر دیتا ہے۔
٭ تمہارا قرض خواہ تمہاری صحت چاہے گا اور تمہارا مقروض بیماری۔
٭ جس کے پاس زیادہ ہوتا ہے۔ اس کو اور بھی زیادہ کی خواہش ہوتی ہے۔
٭ ایک جھوٹ کی خاطر بہت سے جھوٹ بولنا پڑتے ہیں۔
٭ بڑی بڑی آرزوؤں کے لیے قبر کے علاوہ اور کوئی جگہ نہیں۔
٭ خواہ ایک ہی جھوٹ کیوں نہ ہو اور کتنا ہی تیز کیوں نہ ہو مگر سچ اس کو جا پکڑتا ہے۔
٭ دولت اس کی ہے جو اس کو کھاتا ہے نہ کہ اس کی ہے جو اس کو کماتا ہے۔
٭ بہت زیادہ چیز تھیلے کو پھاڑ ڈالتی ہے۔
٭ جہالت سب سے بڑا افلاس ہے۔
٭ جاہل ہمیشہ مال کی طلب کرتے ہیں اور عقل مند کمال کے طالب ہوتے ہیں۔
٭ مرے ہوؤں کو مت روئے جاؤ بلکہ بے وقوفوں کے حال پر گریہ کرو۔
٭ صرف ایک بے وقوف ہی ایک گڑھے میں دو مرتبہ گرتا ہے۔
٭ ایک بے وقوف اور اس کی دولت جلد ہی دونوں میں جدائی ہو جاتی ہے۔
٭ بے وقوف آب پاشی کے بغیر ہی پھلتے پھولتے ہیں۔
٭ دولت ایک معشوق ہے بے وفا۔ عمر ایک حریف ہے گریز پا اس کو قیام نہ اس کو دوام۔
٭ ایک بیوقوف اس سے بھی زیادہ سوال پوچھ سکتا ہے کہ جس کے سات عقل مند بھی جواب نہ دے سکیں۔
٭ جو بات کان میں کہی جائے وہ اکثر سینکڑوں میلوں کے فاصلہ سے سنی جاتی ہے۔
٭ ایک لمبی زبان زندگی کو مختصر بنا دیتی ہے۔
٭ خدا بے وقوفوں کو سلامت رکھے کیونکہ ان کے بغیر عقل مندوں کو روٹی بھی نہ ملے گی۔
٭ جو اپنی زبان کو اپنے قابو میں رکھتا ہے وہ اپنا سر بچا لیتا ہے۔
٭ اس دنیا میں بدمعاشوں کی نسبت بے وقوف زیادہ کچھ کر گزرتے ہیں۔
٭ بے وقوف کے مسکرانے سے دوست کا گھورنا بہتر ہے۔
٭ لڑائی اور محبت میں سب کچھ جائز ہے۔
٭ جہاں محبت پتلی ہو وہاں عیب موٹے نظر آتے ہیں۔
٭ اگر غریبی کے بعد دولت ملے تو وہ اچھی ہوتی ہے بہ نسبت اس کے کہ دولت مندی کے بعد غربت آئے۔
٭ زبردست کا ہاتھ چلتا ہے اور غریب کی زبان۔
٭ حیا اور مفلسی میں سخت دشمنی ہے۔
٭ غریبوں کو قانون پیستا ہے اور قانون کو امیر پیستے ہیں۔
٭ ہر ایک مفلس آدمی احمق شمار کیا جاتا ہے۔
٭ دوستی کی قرابت بہ نسبت رشتہ کی قرابت کے بہتر ہے۔
٭ ٹوٹی ہوئی دوستی جڑ سکتی ہے مگر ثابت نہیں ہو سکتی۔
٭ سب لوگ جو ایک شخص کو اچھا کہتے ہیں اس کے دوست ہی نہیں ہیں۔
٭ اس دنیا میں جو ہم لے لیتے ہیں۔ اس میں سے نہیں۔ بلکہ جو ہم دے دیتے ہیں اس سے ہم دولت مند بن سکتے ہیں۔
٭ انسان کے تین دوست وفادار ہیں۔ بوڑھی بیوی، بوڑھا کتا اور نقد دولت۔
٭ ہر شخص خیال کرتا ہے کہ جتنی عقل اس کے حصے میں آئی ہے اس کو اس سے کہیں زیادہ مل گئی ہے۔
٭ جس کو عقل نہیں وہ پچھلی باتوں پر فکر کرتا ہے۔
٭ ہر گدھا دیوار پھاندنے سے پہلے اپنے آپ کو ہرن سمجھتا ہے۔
٭ عقل مند جانتا ہے کہ وہ کچھ نہیں جانتا اور جاہل جانتا ہے کہ وہ سب کچھ جانتا ہے۔
٭ غریب بیل پر زیادہ بوجھ لادا جاتا ہے۔
٭ دنیا کی حقیقت پانی پر تصویر کشی جیسی ہے۔
٭ آسمان سے کہیں پناہ نہیں ملتی۔
٭ افسوس! کہ انسان کا سارا جسم صرف منہ کی وجہ سے برباد ہو جاتا ہے۔
٭ جب تک مچھلی نظر نہ آئے ہر بگلا بھگت ہے۔
٭ شکر چاہے اندھیرے میں کھائی جائے میٹھی ہوتی ہے۔
٭ مٹی چاہے آندھی کے سر چڑھ کر آسمان تک جاپہنچے پھر بھی مٹی ہے اور ہیرا اگر گندگی میں گرا پڑا ہے تو پھر بھی ہیرا ہی ہے۔
٭ اندھا بھی ایک بار ہی لاٹھی کھوتا ہے۔
٭ جس ہنڈیا میں کھاؤ اس میں سوراخ نہ کرو۔
٭ لکڑی کو چاہے جتنا بھی گھن لگا ہو ہنڈیا توڑنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔
٭ جو لوگ کوئی کام نہیں کرتے وہ در اصل سب سے زیادہ مصروف ہوتے ہیں۔
٭ ڈھول کی آواز اس لیے بلند ہے کہ اس کا پیٹ خالی ہوتا ہے۔
٭ رات کا وقت شریروں کے لیے دن ہے۔
٭ برائی کا حصول زیادہ آسان ہے اور پھر ساتھی بھی آسانی سے مل جاتے ہیں۔ راستہ بھی ہموار ہوتا ہے اور منزل قریب۔ لیکن دیوتاؤں نے نیکی کو بڑا دشوار بنا دیا ہے۔ جب تک کہ خوب پسینہ نہ بہے اور محنت نہ ہو تب تک نیکی کا حصول ناممکن ہے۔
٭ جب کسی آدمی کو اپنی ضروریات کے لیے کام کرنے کی ضرورت باقی نہ رہے تو پھر اسے کسی خوبی کے لیے عمل کرناچ ٍاہیے۔
٭ نہ ہونے کی نسبت دیر سے ہونا اچھا ہے۔
٭ جس چوہے کا ایک سوراخ ہے وہ آسانی سے پکڑا جاتا ہے۔
٭ بوڑھے کوے کو پکڑنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
٭ شکاری پرندے گیت نہیں گاتے۔
٭ زندگی کا ہر ایک دن تمہاری زندگی کی تاریخ کا ایک صفحہ ہے۔
٭ جب لوگوں کو پتہ لگتا ہے کہ زندگی کیا چیز ہے تو یہ آدھی سے زائد گزر چکی ہوتی ہے۔
٭ تجربہ ایسی کنگھی ہے جو اس وقت ملتی ہے جب ہم گنجے ہو چکتے ہیں۔
٭ آگ لگ جانے پر کنواں کھودنا بے وقوفی ہے۔
٭ گر جاؤ مگر جھکو مت۔
٭ راستہ دیکھ کر چلنے والے کو ٹھوکر کم لگتی ہے۔
٭ منحوس خبریں اکثر سچ ثابت ہوتی ہیں۔
٭ ہر ایک آدمی کا کوئی نہ کوئی کمزور پہلو ہوتا ہے۔
٭ دوسری مرتبہ کے خیالات بہتر ہوتے ہیں۔
٭ جو شخص ایک ہی رائے پر قائم اور ایک ہی اصول پر کاربند رہتا ہے وہ مردے کی طرح ہے۔
٭ زندگی تغیر کا دوسرا نام ہے۔
٭ خوش خُو کبھی غم زدہ نہیں ہوتا اگر مبتلائے مصیبت بھی ہو اور بدخُو کبھی خوش نہیں رہتا اگر چہ ہر طرح کی راحت ہو۔
٭ جو شخص کوئی گناہ پردے سے کرتا ہے۔ اس کی ٹوہ لگانا تجسس ہے جو کہ بہت بڑا گناہ ہے۔
٭ زبان اگرچہ تلوار نہیں پر تلوار سے زیادہ تیز ہے۔ بات اگرچہ تیر نہیں مگر تیر سے زیادہ زخمی کرتی ہے۔
٭ فضول باتوں کا سننا خطرات نفسانی کا تخم ہے۔
٭ بدخوئی ایسا برا گناہ ہے کہ بعد میں کوئی عبادت سود مند نہیں ہوتی۔
٭ کنج خرابات میں موافق ہونا خرقہ پہن کر منافقت کرنے سے بہتر ہے اور صوفی خام ہونے سے مے خوار ہونا اچھا ہے۔
٭ صنعت صانع پر آنکھ کھول اور لب بند کر۔ کیونکہ استاد کے خط کو دیکھنا پڑھنے سے زیادہ مفید ہے۔
٭ بہارِ سبزہ و گُل دیکھ کر دل نے مئے نوشی کی خواہش کی لیکن شیشے سے قدح تک ہی پہنچا تھا کہ بہار ختم ہو گئی۔
٭ گوشت و پوست کی زیادتی سے ہی اگر انسان شرف امتیاز چاہتا ہے تو بیل اور گدھے اس سے شرف میں زیادہ ہیں۔
٭ خدا کے در پر ساکن ہو کر بے خانہ بن جا۔ شمع بننے کا دعویٰ نہ کر بلکہ پروانہ بن۔
٭ دنیا میں خوشی کی نسبت غم بہت زیادہ ہے۔ گریۂ شمع تمام رات اور خندۂ صبح دم بھر کو ہے۔ عید کا صرف ایک دن اور محرم کا پورا عشرہ ہے۔
٭ اے درویش! گدڑی سینے سے پہلے اگر تو اپنے لب سوال کو سی لے تو بہت بہتر ہے۔
٭ بدزبانی اور طول کلامی سے بچنے کا گریہ ہے کہ اپنے کلام میں کیا، کیسے ، کیوں ، کہاں اور کس طرح کے الفاظ نہ آنے دو۔
٭ کسی سے ہنسی کرتے وقت حوصلے کو ہاتھ سے جانے نہ دو۔ ورنہ انسانیت کے مرتبے سے گر پڑو گے اور پھر الٹا تمہاری ہنسی اڑائی جائے گی۔
٭ انسان بھی کتنا بے عقل ہے کہ جسم کی بیرونی صفائی اور زیبائش کا تو بہت خیال رکھتا ہے مگر باطن کی صفائی سے نہ صرف بے خبر ہے بلکہ اس قدر لا پرواہ ہے کہ اس کی طرف کبھی توجہ ہی نہیں کرتا۔
٭ جو شخص تنہائی پسند ہوتا اسے دنیا کے دوسرے غیر متعلق اور غیر ضروری ترددات اور تفکرات سے کوئی واسطہ نہیں رہتا۔
٭ اعمال کے سرابوں کی مرمت خیال کے ہاتھوں سے نہیں ہو سکتی۔
٭ اگر قارون کی دولت بھی ہو اور نیک کاموں میں خرچ نہ کی جائے تو کنکر اور پتھر سے بھی حقیر ہے۔
٭ جو زیادہ گو ہوتا ہے وہ غصّہ ور ہوتا ہے۔ جو غصّہ ور ہوتا ہے وہ کم لحاظ ہوتا ہے۔ جو کم لحاظ ہوتا ہے وہ پرہیزگار کم ہوتا ہے اور جو پرہیزگار نہیں ہوتا۔ اس کا دل مردہ ہوتا ہے۔
٭ جب انسان اکیلا ہو تو اپنے خیالات کو قابو میں رکھے اور جب مجلس میں ہو تو اپنی زبان کو۔
٭ فطرت نے انسان کو آزاد پیدا کیا ہے مگر جہاں بھی دیکھو وہ پا بہ زنجیر ہے۔
٭ بُروں کے ساتھ جس قدر بھی نیکی کی جائے گی۔ اسی قدر ان کا فتنہ و شر زیادہ ہو گا۔
٭ تین کام مشکل ترین ہیں۔ فاسق و فاجر کو راہ راست پر لانا، تعلیم و تربیت سے جاہل کو عالم بنانا اور دشمن کو دوست بنانا۔
٭ دانش کے بغیر جوش اس طرح سے ہے جیسے کسی برتن کے بغیر تیز اور خطرناک آگ۔
٭ جو لوگ کام نہیں کرتے انہیں چھٹی بھی نہیں ملتی۔
٭ تمام نشو و نما کا تعلق حرکات سے ہے۔
٭ انسان کی دانش کی ایک عمدہ مثال یہ ہے کہ وہ اپنے ماتحتوں سے کیسا سلوک کرتا ہے۔
٭ دانش یہ جاننا ہے کہ بہتر علم کون سا ہے اور بہتر اعمال کون سے ہیں۔
٭ دانش حقیقی خود اپنا آپ انعام ہے۔
٭ ایک اچھی بیوی انسان کے لیے بہشتی تحفہ ہے۔
٭ ہر کوئی موسم کے بارے میں دریافت کرتا ہے لیکن کوئی بھی اس کے لیے کچھ کرتا نہیں۔
٭ وقت بہت بڑی دولت ہے۔
٭ ہاتھ میں پکڑی ایک چڑیا درخت پر بیٹھی ہوئی ایک سو چڑیوں سے بہتر ہے۔
٭ جو کوئی کسی کے لیے کنواں کھودتا ہے خود اس میں گرتا ہے۔
٭ ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔
٭ خلق خدا کی آواز خدا کی آواز ہے۔
ٓ٭ حال ہمیشہ ماضی اور مستقبل ہمیشہ حال کے بطن سے پیدا ہوتا ہے۔
٭ اچھی کتاب انسان کا بہترین ہم سفر اور ساتھی ہے۔
٭ جو اچھا عمل کر سکتا ہے وہ اچھی تعلیم دے سکتا ہے۔
٭ تمام حربے ناکام ہوتے ہیں جب ان کی تشہیر ہو جائے۔
٭ خود کشی بہادری نہیں بلکہ انسان کے ارادوں کی ناکامی کا ایک ثبوت ہے۔
٭ بار بار کوشش کرو۔ ناکامی انسان کے لیے نہیں بنائی گئی۔
٭ کوئی بھی قوم حقیر پیدا نہیں کی گئی بلکہ سب کا لازمی مقدر آزادی ہے۔
٭ ہم اپنی امیدوں کے مطابق وعدہ کرتے ہیں اور اپنے خوف کے مطابق عمل کرتے ہیں۔
٭ بڑے بڑے وعدے عموماً جلدی ٹوٹ جاتے ہیں۔
٭ ترقیِ زندگی کا یہ اصول ہے کہ انسان پہلے والا انسان نہیں رہتا۔
٭ عام طور پر لوگ عبادت نہیں کرتے بلکہ بھیک مانگتے ہیں۔
٭ ہماری دعائیں اجتماعی ہونی چاہئیں کیونکہ خدا ہماری انفرادی ضروریات سے بخوبی واقف ہے۔
٭ جو بے جا تحسین کے خواہش مند ہوتے ہیں قابلیت کے لحاظ سے زیادہ پست ہوتے ہیں۔
٭ عبادت خدا کی طرف اپنی خواہش ارسال کرنے کا نام ہے۔
٭ مفلس ہونا اور آزاد ہونا تقریباً ناممکنات میں سے ہے۔
٭ بھوک اور غصے کے مابین بہت کم فاصلہ ہوتا ہے۔
٭ غربت تبدیلیوں اور جرائم کی پیداوار ہے۔
٭ ہم جتنا بلند ہوتے جاتے ہیں دوسروں سے اس قدر دور ہوتے جاتے ہیں۔
٭ موجودہ مسرتوں کو اس طرح اپنایئے کہ مستقبل کو کوئی گزند نہ پہنچے۔
٭ خوشی اور غم اندھیرے اور اجالے کی طرح ہمیشہ ایک دوسرے کا پیچھا کرتے رہتے ہیں۔
٭ ہم کسی کو نواب تو بناسکتے ہیں مگر انسان صرف خدا ہی بناسکتا ہے۔
٭ شادی سے پہلے آنکھیں کھلی رکھو اور بعد میں آدھی بند کر لو۔
٭ انسانوں میں ایک واضح فرق توانائی ہے۔
٭ سچی محبت بھوتوں کی طرح ہے کہ ہر کوئی اس کے بارے میں باتیں کرتا ہے مگر کسی نے بھی اسے نہیں دیکھا۔