اقوالِ شری کرشن
(آپ ہندوؤں کے بہت بڑے رہنما تھے۔ متھرا میں پیدا ہوئے۔ دوارکا کے راجا تھے۔ جنگ مہا بھارت میں پانڈوؤں کے طرف دار تھے۔ اونچے درجے کے سیاست دان، انصاف پسند، غریب پرور اور علم دوست تھے۔ ’بھگوت گیتا،ّآپ کی مشہور کتاب ہے۔ )
٭ سب کا مالک ان کے دلوں میں جاگزین ہے اور وہ اپنی قدرت سے سب کو کمہار کے چکر کی طرح گھماتا ہے۔
٭ عابد اور عالم سے یو گی (نیک آدمی) کا درجہ بڑھ کر ہے۔ اس لیے تو بھی یو گی بن۔
٭ اے بہادر ارجن! میری بات سن۔ جو شخص سب کی بھلائی میں مصروف ہے اس کو نہ اس جہان میں فنا ہے اور نہ اس جہان میں۔ اس کے برے انجام کا کوئی امکان ہی نہیں۔
٭ جو شخص پرماتما کے دیگر بندوں کو آرام پہنچا کر پھر خود آرام لیتا ہے۔ وہ پرماتما تک رسائی پاتا ہے۔ جو مخلوق کی خدمت نہیں کرتا اس خود غرض کو اس دنیا میں بھی بھلائی نصیب نہیں ہوتی عاقبت کا تو کہنا ہی کیا۔
٭ میں اس بھگت کو پسند کرتا ہوں جو کسی کو آزاد نہ دے اور بے جا طور پر خوشی نہ کرے اور حسد و خوف سے بالاتر ہو۔
٭ خدا کا پیارا وہ ہے جو کسی کو تکلیف نہ دے۔ خوشی اور غم میں یکساں رہے ، اداسی کے اور صحبت کے شکنجے سے چھٹ چکا ہو۔ متعصب نہ ہو۔ جیسا کہتا ہو ویسا کرتا ہو۔ نہ دوست کا طرفدار ہو اور نہ دشمن کا دشمن ہو۔
٭ جب شمع کو پروانہ ایک مرتبہ دیکھ پاتا ہے تو پھر واپس تاریکی میں نہیں جاتا۔ چیونٹی بھی مٹھائی کے ڈھیر میں مر جاتی ہے لیکن اسے چھوڑ کر نہیں جاتی۔ اسی طرح نیک عابد خوشی سے سب کچھ چھوڑنا گوارا کرتا ہے۔ لیکن خدا تعالیٰ کی محبت سے منحرف نہیں ہوتا۔
٭ جس گیان کے ذریعے انسان الگ الگ سب ہستیوں میں ایک لافانی ھستی کو مجملاً شیر و شکر ہوا دیکھتا ہے۔ تو اسی کو سچا گیان سمجھ۔
٭ زبان کی ایک عبادت یہ ہے کہ انسان کلام ایسا کرے جس سے کسی کا دل نہ دکھے اور یہ مفید اور پیارا ہو۔ دوسرے یہ کہ اس سے ذکر الٰہی کرے۔