نصائح حکیم ارسطو
(آپ شہرۂ آفاق یونانی حکیم ہوئے ہیں۔ افلاطون کے شاگردِ رشید اور سکندر اعظم کے اتالیق تھے۔ اصل نام حکیم ’ارسطا طالیس‘ ہے۔ )
٭ حسن اخلاق سے زندگی راحت اور آرام سے بسر ہوتی ہے۔ اس کو سب شعائر پر مقدم رکھنا چاہیے۔
٭ کرم کو اپنا شعار بنا کہ یہ انسان کی بہترین حالت میں سے ہے اور مال کی بھی حفاظت کرو کہ وقائع و حوادث کا احتمال ہمیشہ باقی رہتا ہے۔
٭ حکماء اس لیے مال جمع کرتے ہیں کہ احمقوں کے محتاج نہ رہیں۔
٭ جو شخص تحصیل علم کی مشکلات کا محتمل نہیں ہو سکتا۔ اسے جہل کی سختیاں عمر بھر برداشت کرنی پڑتی ہیں۔
٭ ہر ایک نئی چیز اچھی معلوم ہوتی ہے۔ مگر دوستی جتنی پرانی ہو۔ اتنی ہی عمدہ اور مضبوط ہوتی ہے۔
٭ وہ غنا حاصل کرو جسے فنا نہ ہو۔ وہ زندگی جس کو تغیر نہ ہو، وہ ملک جو بے زوال ہو اور وہ بقا جس میں اضمحلال نہ ہو۔
٭ رشک سے انسان کو بچنا چاہیے۔ مگر جس رشک سے اصلاح کی امید ہو اسے بالضرور اختیار کرنا چاہیے۔
٭ یہ بھی سخاوت و بخشش کی ایک صورت ہے کہ لوگوں پر ظلم نہ کیا جائے اور ان کے عیوب معلوم کرنے کی خواہش نہ کی جائے۔
٭ بخیل خواہ دولت مند ہو مگر اسے ذلت حاصل ہو گی اور سخی خواہ مفلس ہو مگر لوگ اس کی عزت ہی کریں گے۔
٭ عقل ہی وہ جوہر ہے جو انسان کی فضیلت عطا کرتا ہے۔
٭ با عمل بنو! کیونکہ بغیر عمل کے دوسروں پر کچھ اثر نہیں پڑتا۔
٭ جواب دینے میں جلدی نہ کرتا کہ آخر میں خفت و شرمندگی نہ اٹھانا پڑے۔
٭ جو بات معلوم نہ ہو۔ اس کے اظہار میں شرم نہ کرو۔
٭ زیادہ گفتگو کرنا ہر چند کہ اچھی باتیں ہوں۔ دیوانگی کی دلیل ہے۔
٭ ظالموں اور ستم گاروں کے ساتھ تعلقات نہ رکھو کہ بروزِ جزا اس کی باز پُرس تجھ پر عائد ہو گی۔
٭ جملہ امور میں آہستگی پسندیدہ ہے۔ سوائے ان کاموں کے جو غم سے نجات دلائیں۔
٭ حرص کو دل میں جگہ نہ دو کہ تیری قوت دوسروں سے زیادہ نہیں ہے۔
٭ دنیا ایک خس پوش کنواں ہے۔ لہٰذا عقل مندوں کو ہوشیاری کے ساتھ قدم رکھنا چاہیے۔
٭ موت ایک زبردست چیتا ہے جس کے پنجے سے رہائی نہیں۔
٭ جب کسی کے طالع کو یاور دیکھے تو اس کے خلاف جنگ کو خلاف مصلحت جان۔
٭ اگر کوئی تیرے ساتھ بدی کرے اور تو دوسرے کے ساتھ نیکی تو دونوں کو فراموش کر دے۔
٭ نا اُمید نہ ہو کہ اس کا نتیجہ کم عُمری ہے۔
٭ اگر مشکل آئے تو دانیانِ مشکل کُشا کی رائے سے امداد طلب کر۔
٭ دنیا میں ہر چیز کا زائل اور منتقل ہونا ممکن ہے مگر طبیعت کا اور دنیا میں ہر چیز سے بہانہ چل سکتا ہے مگر قضا و قدر سے۔
٭ ملک و دولت کو حکامِ بد طینت کی ذات سے زیادہ کوئی چیز ضرر نہیں پہنچا سکتی۔
٭ اعلیٰ زندگی کی چار نشانیاں ہیں : (۱) نیک گفتار (۲) نیک کردار (۳) نیک نیت (۴) نیک صحبت۔