نصائح حکیم لقمان
(آپ حضرت ایوبؑ کے بھانجے یا ان کے خالہ زاد بھائی تھے۔ حضرت داؤدؑ کے شاگرد اور بنی اسرائیل کے قاضی تھے۔ اصل وطن حبش تھا۔ راملہ (فلسطین) میں مدفون ہوئے۔ قرآن پاک میں آپ کو حکمت کے عطا ہونے کا ذکر آیا ہے مگر نبوت میں علماء کا اختلاف ہے۔ )
٭ جس بات کو تو نہیں جانتا۔ منہ سے نہ کہہ اور جو جانتا ہے ، مستحق کو بتانے سے دریغ نہ کر۔
٭ وہ بات جو دشمن سے بھی پوشیدہ رکھے۔ دوست سے بھی چھپا رکھ ممکن ہے کہ یہ بھی کسی روز دشمن بن جائے۔
٭ صحت جسمانی سے بہتر کوئی تونگری اور استغناء سے بہتر کوئی نعمت نہیں ہے۔
٭ جس طرح دشمن احسان کے ساتھ دوست بن جاتے ہیں۔ اسی طرح سے دوست جو روجفا کے ساتھ دشمن بن جاتے ہیں۔
٭ مجلس میں ہمارا ہر فعل ایسا ہونا چاہیے۔ جس سے حاضرین کی عزت کے آثار نمودار ہوں۔
٭ جو کام کر! برائے خدا کر اور اس میں بندوں کا خوف نہ کر۔
٭ جاہلوں کی صحبت سے پرہیز کر۔ ایسا نہ ہو کہ اپنے جیسا بنالیں۔
٭ اگر کوئی کام کسی کے سپرد کرے تو دانا کے سپرد کر اور اگر دانا میسر نہ ہو، تو خود کر۔ ورنہ ترک کر دے۔
٭ جس نعمت میں کفران ہے اس کو فنا ہے اور جس نعمت میں شکر ہے اس کو بقا ہے۔
٭ عقل ادب کے ساتھ ایسی ہے جیسا کہ درخت ثمر اور عقل بغیر ادب ایسی ہے جیسا کہ درخت بے بر۔
٭ صحبت علماء کو غنیمت جان۔ کیونکہ علم دل کو ایسے زندہ کرتا ہے۔ جس طرح بارش خشک زمین کو زندہ کرتی ہے۔
٭ دوستی حق کو سرمایۂ نجات خیال کر کہ بغیر سرمایہ کچھ فائدہ نہ ہو گا۔
٭ اصلاح نفس کی فکر میں مشغول رہ تاکہ بجائے صفات بد کے صفات نیک پیدا ہو سکیں۔
٭ جس مجلس میں ذکر خدا سنو۔ بیٹھ جاؤ شاید کہ اس رحمت میں سے تجھے بھی کچھ حصہ مل جائے اور غفلت کی محفل سے دور بھاگ کہ ایسا نہ ہو کہ تو بھی گرفتار عقوبت ہو جائے۔
٭ اکثر الفہم اور کم سخن بنا رہ اور حالت خاموشی میں بے فکر مت رہ۔
٭ علم بے عمل اور عمل بے علم سے پرہیز کرو۔
٭ خود نیکی کر اور مخلوق کو نیکی کا طریقہ سکھا۔
٭ بدی سے دور رہ اور خلق کو بھی بدی سے دور کرنے کی کوشش کر۔
٭ مصائب دنیا کو سہل خیال کرو اور موت کو ہر لحظہ پیش نظر رکھو۔
٭ آسائش خلق میں کوشش کر اور خلق سے مت ڈر اور اپنی جان کو اپنی مصیبت و مشقت کا عادی بنا۔
٭ نماز میں قلب کی حفاظت کرو۔ مجلس میں زبان کی حفاظت کرو۔
٭ کسی ذکر میں بجز ذکرِ خدا اور کسی خاموشی میں بجز فکرِ روز جزا کوئی خیر و خوبی نہیں ہے۔
٭ بدگمانی کو اپنے اوپر غالب مت کرورنہ تجھے دنیا میں کوئی دوست اور ہمدرد نہ مل سکے گا۔
٭ بری اور شریر عورتوں سے خداتعالیٰ کی پناہ میں رہو۔
٭ کمینوں کے مقابلے میں خاموشی سے مدد و معاونت طلب کرو۔
٭ جھوٹی تعریف سے مغرور نہ ہو کیونکہ جاہلوں کے کہنے سے پتھر سونا نہیں بن جاتا۔
٭ خاموشی اپنا شعار بنا تاکہ شرِ زبان سے محفوظ رہے۔
٭ دنیا کے تھوڑے مال پر راضی رہ کر مقدر پر قناعت کرتا کہ رنجِ نفس سے سلامت رہے۔
٭ کھانے سے بھوکا اور حکمت سے سَیر رہو۔
٭ ہر شخص کو اس کے ہنر و جوہر کے مطابق جگہ دینی چاہیے۔
٭ اگر بندے کو ایک سب سے بہتر نعمت ملے تو وہ نعمت دین ہے۔
٭ بد طینتوں سے دوری اختیار کر۔ کیونکہ اگر تو اس سے سوال کرے تو وہ بُخل کرے گا اگر کچھ دے گا تو احسان رکھے گا۔ اگر تو اسے کچھ دے گا تو وہ احسان نہ مانے گا۔ اگر اس سے کوئی راز کہے تو وہ تجھ پر تہمت لگائے گا۔
٭ خدا کے قریب عقل سے بہتر کوئی چیز نہیں اور عقل ان دس خصلتوں سے کامل ہوتی ہے۔
(۱) آدمی تم سے بے خوف ہو۔ (۲) تم سے ہدایت حاصل کریں۔ (۳) خود جس حالت میں رہے راضی و شاکر رہے۔ (۴) اپنی حاجت سے زیادہ راہ خدا میں خرچ کرے۔ (۵) عجب و کبر کی بجائے فروتنی اور عاجزی کو دوست رکھے۔ (۶) دنیا میں خواری کو عزت سے افضل گردانے۔ (۷) سوال کرنے پر رنجیدہ نہ ہو اور جواب دینے میں دریغ نہ کرے۔ (۸) حاجت مند کو خالی نہ لوٹائے۔ (۹) اپنی نیکی کو کم اور اپنے ساتھ کی گئی نیکی کو کثیر خیال کرے۔ (۱۰) سب کو خود سے بہتر جانے۔
٭ عاقلوں کی صحبت اختیار کر۔ بردباری، راستی، دیانت، بخشش اور عاجزی عقل مندوں کے نشان ہیں۔
٭ عقل مند اگر کلام کرے گا تو از روئے علم اور اگر خاموش ہو گا تو از روئے حلم۔