راشد جمال فاروقی
ڈاکٹر شکیل الرحمن اردو کی ان چند عہد ساز شخصیتوں میں سے ایک ہیں، جنہوں نے ادب کی مختلف اصناف کی اپنے خونِ جگر سے آبیاری کی ہے۔ کلاسیکی ادب کی بازیافت کے ضمن میں ڈاکٹر شکیل الرحمن نے امیر خسرو، کبیر، میر تقی میرؔ، حافظ شیرازی اور سلطان قلی قطب شاہ پر گرانقدر کتب تحریر کی ہیں۔ غالب فہمی کا حق ادا کر نے کے لیے موصوف نے پانچ انتہائی اہم کتب کا اضافہ کیا ہے۔ یوں تو موصوف ڈاکٹر صاحب جیسی ہمہ گیر شخصیت کو خانوں میں منقسم کرنا انہیں محدود کر دینے جیسا ہو گا، لیکن ادب کی اس طویل اور بے لوث خدمت میں اگر کوئی سر دوسرے تمام سروں سے اونچا رہا ہے، تو وہ ہے جمالیات۔ شکیل الرحمن بلاشبہ جمالیات کے میدان میں باقی تمام تنقید نگاروں سے آگے ہیں۔ ہندوستانی جمالیات کی تین جلدیں اسلامی فنون کی جمالیات، قرآن حکیم میں جمالیات کی دریافت کے علاوہ ہند مغل جمالیات کی روشنی میں غالبؔ کا مطالعہ بھی ان کا طرۂ امتیاز ہے۔ انہوں نے قدیم کلاسیکی راگ راگنیوں کو بھی کھنگالا ہے۔ سفرنامے بھی تحریر فرمائے اور سوانح حیات بھی لکھی۔ فیض احمد فیضؔ، اخترالایمان، ابوالکلام آزاد اور محمد اقبال پر بھی لکھا۔
فکشن پر موصوف کی کئی بے حد معیاری کتب موجود ہیں۔ داستان امیر حمزہ، اور طلسم ہوش ربا، منٹو شناسی۔ فکشن سے ہی متعلق ان کی ایک کتاب ہے ’’فکشن کے فنکار: پریم چند‘‘ یہ کتاب پریم چند کو سمجھنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ پریم چند کی شخصیت۔ افسانہ نگاری اور ناول نگاری پر مدلل جامع اور پر وقار بحث کی وجہ سے میرے نزدیک اس کتاب کی بڑی اہمیت ہے۔
کتاب کے پہلے باب کا پہلا جملہ ملاحظہ ہو:
’’منشی پریم چند ایک بڑے افسانہ نگار ہیں، بڑے ناول نگار نہیں ہیں۔‘‘
اس پہلے باب میں منشی پریم چند کی افسانہ نگاری پر طویل بحث سے بھی پہلے نتیجہ اخذ کر کے پھر اسے تقریباً بیس صفحات پر ثابت کیا گیا ہے۔ پریم چند کے مختلف ناولوں مثلاً ہم خرماں وہم ثواب، جلوہ ایثار، بازار حسن، نرملا، پردہ مجاز، گوشہ عافیت، میدان عمل، چو گان ہستی، گؤ دان وغیرہ پر بھرپور بحث کی گئی ہے۔ ان ناولوں کی کردار نگاری، پلاٹ، زبان و بیان اور معاشرتی قدر و قیمت کا تعین کیا گیا ہے۔ انتہائی متوازن مزاج جو کہ شکیل الرحمن صاحب کا وصف ہے، اس مقالے کے حرف حرف میں جاگزیں ہے جو ان کی تنقید کو وقار بخشتا ہے اور نتائج اخذ کر نے میں قاری کی مدد کرتا ہے۔ واضح سوچ اور ابہام سے گریز ڈاکٹر شکیل الرحمن کے تنقیدی مقالات کی شناخت بن چکا ہے۔ وہ فتاویٰ صادر نہیں کرتے، سمجھتے سمجھاتے چلتے ہیں۔ اس باب میں موصوف نے پریم چند کی رائے کے برعکس چو گان ہستی کو گؤ دان سے بہتر ناول ثابت کیا ہے، کیونکہ اس میں تجربوں کو پیش کر نے کا انداز زیادہ فنکارانہ ہے۔ تجربے وسیع بھی ہیں اور گہرے بھی۔ ہمیں یہ ضرور یاد رکھنا ہو گا کہ شکیل الرحمن ایک معتبر ناقد ہیں اور کسی فن پارے کو پرکھتے وقت فن کی جملہ ضرورتوں پر سمجھوتہ کر نے کو قطعی تیار نہیں ہوتے۔ اکثر پریم چند کے ناولوں کی تنقید کے دوران ان میں موجود معاشرت اور دیہی زندگی کی سچی فوٹو گرافک تصویر کشی کے طلسم میں نقاد یوں گرفتار ہو جاتے ہیں کہ فن کے تقاضوں سے حذر کر جاتے ہیں :
’’نقاد عموماً یہ فراموش کر جاتے ہیں کہ یہ خارجی حقائق ہیں اور فن میں خارجی سچائیوں اور حقیقتوں کی صورتیں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ یہ بھی تو دیکھنا چاہئے کہ فنکار پریم چند نے خارجی حقائق اور معاشرتی اقدار کو کس حد تک جذب کیا ہے۔ کس حد تک انہیں نئی تخلیق کی صورت دی ہے اور کس طرح فنکارانہ طور پر پیش کیا ہے۔‘‘ (شکیل الرحمن)
کتاب کے دوسرے باب افسانہ کا فن میں شکیل الرحمن نے پریم چند کے مختلف افسانوں کے حوالے سے ’’تیسرا آدمی‘‘ کی دلچسپ بازیافت کی ہے۔ یہ تیسرا آدمی پریم چند کی تقریباً ہر کہانی میں موجود ہے۔ یہ تیسرا آدمی نہ صرف کہانی کو متاثر کرتا ہے، بلکہ اپنی entry کے بعد کہانی کی سمت کا تعین بھی کرتا ہے۔ چین سنگھ (گھاس والی) بھون موہن داس گپتا اور لالہ ڈنگا مل راجہ، روپ چندر وغیرہ تیسرے آدمی ہیں، جو انسانوں میں کشمکش پیدا کرتے ہیں، ڈرامائیت جگاتے ہیں اور نتیجہ کے طور پر افسانے زیادہ جاندار ہو اٹھتے ہیں۔ پریم چند نے اس تیسرے آدمی کی کردار سازی کو انتہائی کامیابی سے برتا ہے۔
عورت بھی پریم چند کے افسانوں کا ایک اہم جز ہے۔ مشاہدے میں جن جن اقسام کی عورتیں آ سکتی ہیں، وہ سب پریم چند کے افسانوں میں بستی ہیں۔ خود پسند اور نرگسیت کا شکار بھی، وفا شعار بھی، شرمیلی بھی اور سفاک بھی۔ شکیل الرحمن کا خیال ہے کہ پریم چند اپنے افسانوں میں نسوانی کردار نگاری کے پل صراط سے بڑی کامرانی کے ساتھ گزرگئے ہیں۔ انہوں نے ہمارے آس پاس موجود عورتوں کے وہ سچے مرقعے پیش کئے ہیں کہ ان کے فن کی عظمت کو تسلیم کئے بغیر نہیں رہا جا سکتا۔ بقول شکیل الرحمن:
’’مختلف عورتوں کے انداز گفتگو کو ان کی شخصیت و کردار کے مطابق پیش کیا گیا ہے۔ آوازوں کے آہنگ کے تئیں بھی پریم چند بیدار نظر آتے ہیں۔‘‘
ہم دیکھتے ہیں کہ پریم چند کے افسانوں میں عورت اپنے گوشت پوست کے وجود کے ساتھ اپنی تمام خوبیوں اور خامیوں کے ہمراہ جنسی، اخلاقی اور نفسیاتی گتھیوں میں الجھی ہوئی ان گتھیوں میں مست بھی اور انہیں سلجھا کر باہرآتی ہوئی بھی، غیر فطری قید وبند سے بغاوت کرتی ہوئی بھی اور ان غیر فطری قید وبندکو مقدر مان کر ان کے ساتھ جینے کے جبر کے ساتھ بھی موجود ہے۔
پریم چند کے افسانوں میں بچہ بھی اہم کردار ہے۔ مختلف النوع بچوں کی تصاویر سے ان کے افسانوں کی البم بھری پڑی ہے۔ مصنف نے پریم چند کے افسانوں میں بچے کی نفسیات، شرارتیں، سنجیدگی، خوف، چوری، ضد، لڑائی جیسی چیزوں کا جائزہ لیا ہے۔ نادان دوست، گلی ڈنڈا، اناتھ لڑکی، دو بھائی، ماں، خواب راحت، انجام محبت، مندر، دو بیل، دودھ کی قیمت، بڑے بھائی صاحب، چوری، عید گاہ، بوڑھی کاکی، سوتیلی ماں، قزاقی اور رام لیلا جیسے افسانوں میں مرکزی کردار کوئی نہ کوئی بچہ ہی ہے اور پریم چند نے بچے کی بے حد فطری تصویر کشی کی ہے۔
کتاب کے ایک باب ’’کھلاڑی پن‘‘ کے تحت مصنف نے پریم چند کی کہانیوں کے کرداروں کے حوالے سے اس بات پر اصرار کیا ہے کہ پریم چند کے ذہن میں یہ بات بڑی واضح تھی کہ:
’’دنیا کو ایک تماشا گاہ یا کھیل کا میدان سمجھ لیا جائے۔ کھیل کے میدان میں وہی شخص تعریف کا مستحق ہے، جو جیت سے پھولتا نہیں، ہار سے روتا نہیں۔ جیتے تب بھی کھیلتا ہے اور ہارے تب بھی کھیلتا ہے۔‘‘ (پریم چند)
چو گان ہستی کا سور داس گؤ دان کے مسٹر مہتا، گھاس والی کا چین سنگھ، حقیقت میں امرت، وفا کی دیوی میں تلیا، ستی میں راجہ، کفن میں گیسو اور مادھو اور شطرنج کے کھلاڑی میں میر صاحب اور میرزا صاحب وغیرہ وہ کردار ہیں جو کھلاڑی پن کی جیتی جاگتی مثالیں ہیں۔ یہ سب کردار زندگی کے اسٹیج پر اپنا اپنا کردار اپنے اپنے انداز سے نبھا کر امر ہو جاتے ہیں۔ وہ فتح یاب بھی ہوتے ہیں اور شکست خوردہ بھی لیکن ان کے نزدیک زندگی صرف کھیل ہے۔ جیت ہار کی کوئی اہمیت نہیں۔
المیہ کردار نامی باب میں پریم چند کے المیہ کرداروں کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ جن کہانیوں میں یہ کردار موجود ہیں، وہاں قدروں کی کشمکش اور ذہنی تصادم نے ٹریجڈی پیدا کی ہے۔ پریم چند کے المیہ کردار اکہری شخصیت کے حامل نہیں ہیں۔ گہری پیچیدگی، نفسیاتی تصادم نیز متصادم نقطۂ نگاہ کی کشمکش ان کرداروں کو توجہ کا مرکز بناتی ہے اور ان کرداروں کے دم سے کہانیوں میں زندگی دھڑکتی نظر آتی ہے۔ گھیسو اور مادھو (کفن)، امرت(حقیقت)، مراری لال(کفارہ)، کاؤس جی (لعنت)، ونود (دو سکھیاں )، ہلکو (پوس کی رات)، دکھی چمار (نجات)، ہرکو (قربانی)، میر صاحب اور میرزا صاحب(شطرنج کے کھلاڑی) ایسے ہی لافانی کردار ہیں، ان کی تخلیق کر کے پریم چند نے اردو فکشن میں اپنی عظمت کے جھنڈے گاڑ دئیے ہیں۔ ان کے المیہ کردار بے حد سنجیدہ اور پر وقار شخصیت کے مالک ہیں۔
تکنیک کے تحت مصنف نے پریم چند کی افسانہ نویسی کے متعدد پیرائے تلاش کئے ہیں۔ پریم چند کسی ایک تکنیک سے بندھ کر نہیں بیٹھ گئے، بلکہ کہانی کے فطری تقاضے پہچان کر تکنیک اختیار کی۔ ان کی کچھ کہانیاں مختصر، کچھ طویل، کچھ علامتی، کچھ رومانی، کچھ معاشرتی، کچھ اصلاحی ہیں اور ہر جگہ ان کی تکنیک تقریباً علیحدہ قسم کی ہے۔ انہوں نے واحد متکلم کی تکنیک میں بھی افسانے خلق کئے اور ڈائری کی تکنیک میں بھی، افسانہ نگار کے مشاہدے کی باریک بینی، واقعات کا منظم اور ترتیب وار بیان ان افسانوں کی جان ہے۔
اسلوب نام کے باب میں ڈاکٹر شکیل الرحمن یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ پریم چند کے اسلوب میں بھی اکہرا پن نہیں، بلکہ تنوع ہے۔ ان کے اسالیب کہیں اشاریت کی شکل میں سامنے آتے ہیں، کہیں شدید تیکھے پن کے ساتھ، پیکر تراشی، فنتاسی اور اساطیری اسالیب بھی ضرورتاً اختیار کئے گئے ہیں۔ مصنف اس بات کو دلائل کے ساتھ پیش کرتا ہے کہ پریم چند نے تجربوں اور تکنیک کے تقاضوں کے مطابق ہی اسلوب اختیار کیا ہے، تاکہ کہانی کے ساتھ انصاف کیا جا سکے۔ شعلہ حسن داستانوی اسلوب کی نمائندہ کہانی ہے، تو پنچایت اور آتما رام اشاریت کے اسلوب کی۔ محاورے پریم چند کے اسلوب کی خاصیت ہیں۔ محاوروں کا برمحل استعمال کہانی کو چار چاند لگا دیتا ہے۔ منظر نگاری، فطرت انسانی کے عمل اور رد عمل، تشبیہات و استعارات، شاعرانہ اسلوب کی لطافت اور کہیں کہیں طنز و مزاح کی چاشنی بھی ہے۔ اسلوب کے باب میں ڈاکٹر شکیل الرحمن نے بے شمار اقتباسات دے کر اپنی بات منوائی ہے۔ ان کا یہ طریقہ ہمارے بیشتر سہل پسند نقادوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہونا چاہیے۔ پریم چند کے مکالموں کی جامعیت ثابت کر نے کے لیے بھی مصنف نے لاتعداد چنندہ مکالمے شامل کر کے اس باب کو بے حد وقیع اور معتبر بنایا ہے۔
کتاب کا آخری باب شخصیت ہے، جس میں پریم چند کی عظیم شخصیت کا سرسری جائزہ نہیں ہے، بلکہ ان کی شخصیت کی تعمیر میں جو عناصر کارفرما ہیں، ان کا بہت ہی تفصیلی اور نفسیاتی تجزیہ کیا گیا ہے۔ ساڑھے آٹھ سال کے دھنپت کا ماں کی ممتا سے محروم ہو جانا، ان کی حساس طبیعت کے کئی پہلو، رام لیلا کا ان کی سوچ و فکر پر اثر ، پریم چند کی محرومیاں اور تشنگی پہلی شادی، تعلیم، رومان، دوسری شادی، گورکھپور، کانپور، الہ آباد، بنارس، بمبئی وغیرہ شہروں کا ان کی شخصیت پر اثر اور ان تمام اجزائے ترکیبی سے تیار اس شخص کا نفسیاتی مطالعہ پریم چند کو سمجھنے میں اہم بھی ہے اور دلچسپ بھی۔
غرض پریم چند کا اردو فکشن میں کیا مقام ہے، ان کی افسانہ نویسی اور ناول نگاری کی نوعیت کیا ہے، فن کے تئیں پریم چند کا رویہ کیا تھا، ان کی شخصیت کا خمیر کن کن اجزا سے تیار ہوا تھا؟ ایسے اور تمام دوسرے سوالوں کا تشفی بخش جواب اس گرانقدر کتاب میں موجود ہے۔ پریم چند کا مطالعہ کر نے والے کسی بھی طالب علم کے لیے اس کتاب کا مطالعہ بے حد ضروری کیا، لازمی ہے۔