پروفیسر افتخار اجمل شاہین
ڈاکٹر شکیل الرحمن کا شمار اس عہد کے اہم نقادوں میں ہوتا ہے۔ ان کی تنقید نگاری میں جمالیات کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ وہ اس حوالے سے ایک درجن سے زائد کتابیں لکھ چکے ہیں۔ ان کتابوں کے عنوانات سے ہی یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جمالیات ان کا مخصوص شعبہ رہا ہے۔ ان کی مندرجہ ذیل کتابوں سے یہ حقیقت ظاہر ہو جاتی ہے :
۱) مرزا غالب اور ہند مغل جمالیات ۲) اقبال :روشنی کی جمالیات
۳) ہندوستانی جمالیات(۳جلدیں ) ۴) امیر خسرو کی جمالیات
۵) فیض احمد فیض:المیہ کی جمالیات ۶) قرآنِ حکیم جمالیات کا سرچشمہ
۷) مولانا رومی کی جمالیات ۸) تصوف کی جمالیات
۹) محمد قلی قطب شاہ کی جمالیات ۱۰) جمالیات حافظ شیرازی
۱۱) ہند اسلامی جمالیات ۱۲) ہندوستان کا نظام جمال
ان کے علاوہ ان کی اور بھی دیگر کتابوں میں جمالیات کی جلوہ گرہ نظر آتی ہے۔ انھوں نے جمالیات کو جس انداز سے پیش کیا ہے اور اس کی روشنی میں ادب پاروں کا جائزہ لیا ہے وہ بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ ان کی انفرادیت کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس میدان میں ان کا کوئی حریف نظر نہیں آتا بلکہ اس اقلیم ادب یعنی تنقیدی دبستاں کے وہ بادشاہ ہیں،اس بات کی گواہی ہر پڑھنے والا شخص دے رہا ہے۔ مگر ان کے تنقیدی رویے میں صرف جمالیات ہی کی جلوہ گری یا کارفرمائی نہیں ہے بلکہ تقابلی، سائنسی، نفسیاتی اور دیگر تنقیدی رویوں اور اصولوں کا بھی اطلاق ان کی تنقید نگاری میں ہوا ہے۔
ڈاکٹر شکیل الرحمن کوئی جزو وقتی ادیب یا نقاد نہیں بلکہ لکھنا پڑھنا ان کا ایک ہمہ وقتی مشغلہ ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے وہ اسی کام کے لیے پیدا ہوئے ہیں اور ان کی زندگی کا مقصد لکھنا اور صرف لکھنا ہے۔ انھوں نے اپنی ساری زندگی اسی کام کے لیے وقف کر دی ہے۔ ان کے یہاں لکھنا ایک عبادت کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ پریم چند نے کہا تھا کہ لکھنے سے ان کی عبادت پوری ہو جاتی ہے۔ مجھے پریم چند کا وہ اصل جملہ ابھی یاد نہیں آ رہا ہے مگر اس کا مفہوم یہی تھا۔ پڑھنے اور لکھنے کو ہمارے مذہب میں بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ ہندوستان میں نصاب کی کتابوں پر لکھا ہوتا تھا۔ ’چھاترن ادھین تپہ‘ یعنی طالب علموں کا پڑھنا ہی عبادت ہے۔ شاید یہی خیال پریم چند کے پیش نظر رہا ہو گا۔ پریم چند لکھنے کے معاملے میں اسی اصول پر کاربند رہے اور یہی بات ڈاکٹر شکیل الرحمن کے سلسلے میں بھی کہی جا سکتی ہے۔ لکھنا پڑھنا ان کا شوق نہیں بلکہ یہ ان کے اعلیٰ ذوق کی ترجمانی کرتے ہیں۔
ڈاکٹر شکیل الرحمن یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ کس پر لکھنا ہے اور کیا لکھنا ہے۔ انھوں نے اہم موضوعات اور اہم ادبی شخصیتوں پر قلم اٹھایا ہے۔ ان کی نظر صرف شعری ادب تک محدود نہیں ہے بلکہ فکشن پر بھی ان کی گہری نظر ہے۔ مگر یہاں پر بھی ان کے انتخاب نظر کی داد دینی پڑتی ہے۔ اس لیے کہ انھوں نے افسانہ نگاروں میں دو عظیم اور لجینڈری افسانہ نگاروں پر قلم اٹھایا ہے یعنی منشی پریم چند اور سعادت حسن منٹو۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اردو افسانے کا صحیح معنوں میں آغاز پریم چند سے ہوتا ہے۔ پریم چند کو یہ بھی فخر حاصل ہے کہ انھوں نے اردو افسانے کو نہایت بلندی تک پہنچا دیا۔ آج بھی بہت سے لوگ (خود میں بھی) ان کو اردو کا سب سے بڑا افسانہ نگار تسلیم کرتے ہیں۔ ایک بار مشفق خواجہ، ڈاکٹر عبدالمغنی صاحب (مرحوم) کے سامنے مجھ سے سوال کیا گیا کہ آپ کے خیال میں اردو کا سب سے بڑا افسانہ نگار کون ہے ؟ تو میں نے جواب میں منشی پریم چند کا نام لیا۔ انھوں نے بھی اسی بات سے اتفاق کیا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ منشی پریم چند کے بعد سعادت حسن منٹو نے افسانہ نگاری کو ایک نیا رخ دیا اور آج ان کو بھی عظیم اور منفرد افسانہ نگاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ دونوں یعنی منشی پریم چند اور منٹو اردو افسانہ نگاری کے دو اہم ستون ہیں۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ان کے علاوہ دیگر افسانہ نگاروں کو کوئی اہمیت حاصل نہیں ہے۔ یہ ویسے ہی ہے کہ اگر کوئی کہے (بلکہ حقیقت ہے ) مرزا غالب اردو غزل کے سب سے بڑے شاعر تھے اور ہیں مگر ان کے بعد بھی شاعری جاری رہی اور بہت سے قابل ذکر اور اہم شعرا اپنے کمالات کے جوہر دکھاتے رہے۔ مقبول بھی ہوئے اور مشہور ہوئے گو دوسرا غالب کوئی پیدا نہیں ہوا۔ اسی طرح افسانوی دنیا میں قابل ذکر افسانہ نگار آتے رہے اور بحیثیت افسانہ نگار شہرت اور مقبولیت حاصل کی۔
منشی پریم چند کے فن اور ان کی شخصیت پر بہت سی کتابیں لکھی جا چکی ہیں اور ان پر اب تک مضامین لکھے جا رہے ہیں۔ ان میں قلم کا سپاہی (امرت رائے )، قلم کا مزدور (مدن گوپال)،پریم چند گھر میں (ان کی دوسری بیوی شیورانی نے تحریر کی اور اس کا ترجمہ حسن منظر نے کیا) ایسی کتابیں ہیں جن کا اکثر تذکرہ کیا جاتا ہے اور ان کا شمار پریم چند سے متعلق اہم کتابوں میں ہوتا ہے۔ ان کے علاوہ پریم چند کہانی کا رہنما(مصنف جعفر رضا،الہ آباد سے شائع ہوا)، پریم چند فن اور تعمیر(جعفر رضا، یہ کتاب ۱۹۷۷ء میں شائع ہوئی)۔ پریم چند کے ناولوں میں نسوانی کردار (شمیم نکہت ۱۹۷۵)، گؤدان کا مطالعہ (سید احتشام ندوی ۱۹۷۵) ان کے علاوہ ہندوستانی ادب کا معمار کے سلسلے کا مونوگراف بھی پریم چند کے فن اور شخصیت پر شائع ہوا۔ ان کتابوں کے علاوہ بہت سے ادبی پرچوں نے پریم چند نمبر نکالا اور ان پر گوشے شائع کیے۔ ان رسائل میں چار رسالوں کے نمبر خاص طور پر قابل ذکر ہیں : (۱) ماہنامہ زمانہ (کانپور۱۹۳۷) جو پریم چند کے انتقال کے فوراً بعد ان پر نمبر شائع کیا۔ (۲) فروغ اردو (لکھنؤ) جسے سعادت علی صدیقی نے مرتب کیا۔ (۳)ماہنامہ سہیل (گیا) نے پریم چند فن اور شخصیت کے نام سے ان پر خاص نمبر شائع کیا جو ۱۹۸۰ء میں شائع ہوا۔ (۴)ماہنامہ آج کل (دہلی) نے پریم چند نمبر ۱۹۸۰ء میں شائع کیا۔ ان کے علاوہ ہنس راس رہبر کی کتاب پریم چند ۱۹۵۸ء میں شائع ہوئی۔ ڈاکٹر قمر رئیس کی بھی پریم چند،شخصیت اور کارنامے کے نام سے ۱۹۶۲ء میں کتاب شائع ہوئی۔
مندرجہ بالا تمام کتابیں اور پریم چند کے متعلق رسائل کے نمبر اپنی اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں جن سے پریم چند کی شخصیت اور فن پر روشنی پڑتی ہے اور ان سے متعلق بہت سی معلومات حاصل ہو جاتی ہیں۔ مگر ان تمام کتابوں میں ڈاکٹر شکیل الرحمن کی کتاب فکشن کے فنکار:پریم چند کی کتاب خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔
اس کتاب میں انھوں نے پریم چند کو ایک جداگانہ حیثیت سے دیکھا ہے۔ ان کے فن پر جس انداز سے روشنی ڈالی ہے وہ قابل ستائش بھی ہے اور قاری کو اہم معلومات بھی فراہم کرتی ہے۔ یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ جمالیاتی تنقید ڈاکٹر شکیل الرحمن کا خاص شعبہ ہے۔ انھوں نے اردو تنقید کا جمالیاتی نظام وضع کیا ہے جو ان کا ایک منفرد کارنامہ ہے۔ پریم چند کے فن اور ان کی شخصیت کا مطالعہ بھی بڑی حد تک اسی نقطہ نظر سے کیا ہے۔ نفسیات بھی ان کی تنقید کا ایک اہم عنصر ہے۔ اپنی اسی کتاب میں انھوں نے پریم چند کی ناول نگاری اور ان کی افسانہ نگاری پر بحث کی ہے۔ اور انھوں نے یہ بات ثابت کر نے کی کوشش کی ہے کہ پریم چند ناول نگار اتنے بڑے نہیں جتنے بڑے وہ افسانہ نگار ہیں۔ اس کتاب کا پہلا جملہ ہی اس طرح شروع ہوتا ہے : ’’منشی پریم چند ایک بڑے افسانہ نگار ہیں، بڑے ناول نگار نہیں نہیں ہیں۔‘‘ اپنے اس موقف کو انھوں نے دلیلوں اور مثالوں سے بھی ثابت کیا ہے۔ مجھے ان کی رائے سے مکمل اتفاق ہے اور میں بھی سمجھتا ہوں کہ پریم چند ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے زیادہ کامیاب ہیں اور اسی حیثیت سے اہمیت اور عظمت کے حامل ہیں۔ فکشن لکھنے والے اور بھی بہت سے ادبا ہمارے درمیان ہیں یا ہمارے درمیان تھے۔ ان میں سے ایک نمایاں نام قرۃ العین حیدر کا ہے۔ ان کے ساتھ معاملہ اس کے برعکس ہے یعنی وہ ناول نگار کی حیثیت سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔ وہ افسانہ نگار اتنی بڑی نہیں مگر ناول نگاری نے ان کو نشانِ عظمت بخشا ہے اور یہی ان کی وجہ شہرت بھی ہے۔ پریم چند کی ناول نگاری پر لکھتے ہوئے انھوں نے ان کے تمام ناولوں کا ذکر کیا ہے اور ان کا تجزیہ پیش کیا ہے۔ ’’نرملا‘‘ ، ’’گؤدان‘‘ ، ’’چو گان ہستی‘‘ ، ’’گوشۂ عافیت‘‘ ، ’’پردۂ مجاز‘‘ اور دیگر ناولوں پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ ان کے کرداروں پر روشنی ڈالی ہے۔ ان ناولوں کے کرداروں کا جائزہ بھی لیا ہے۔ بعض کرداروں کی تعریف بھی کی ہے اور کمزوریوں کی نشان دہی بھی کی ہے مگر پریم چند کے ناولوں کا ان کی کہانیوں سے مقابلہ کرتے ہوئے وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ وہ بحیثیت افسانہ نگار زیادہ کامیاب ہیں۔
ان کی کہانیوں کا جائزہ لیتے ہوئے ڈاکٹر شکیل الرحمن ’’تیسرے آدمی‘‘ کا ذکر خصوصیت سے کرتے ہیں۔ ان کے بقول ’’تیسرا آدمی‘‘ پریم چند کے افسانوں میں اہمیت کا حامل ہے۔ یہ ان کا ایک منفرد نقطہ نظر ہے اور اس زاویے سے بھی ان کے افسانوں کے کرداروں کا جائزہ لیتے ہیں۔ وہ اس ’’تیسرے آدمی‘‘ کے سلسلے میں لکھتے ہیں :
’’سماجی اور معاشرتی زندگی میں یہ شخصیت غیر معمولی ہوتی ہے۔ اسے کسی لمحہ نظر انداز نہیں کر سکتے۔ اقتصادی زندگی میں اس کا عمل اہم ہوتا ہے اور اکثر دلچسپ بھی… تیسرا آدمی نہ ہو تو سماجی زندگی کا اقتصادی نظام درہم برہم ہو جائے۔‘‘
آگے چل کر وہ یہ کہتے ہیں :
’’شہر اور گاؤں کی روزانہ زندگی میں ’’تیسرے آدمی‘‘ سے اکثر ملاقات ہوتی ہے۔ یہ کارخانوں میں بھی ہے اور کھلیانوں میں بھی۔ سیاسی زندگی میں بھی تیسرا آدمی اپنا خاص مقام رکھتا ہے۔‘‘
مختلف حوالوں اور مثالوں سے تیسرے آدمی کی توجیہہ کرتے ہیں اور اس طرح اس کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہیں۔ دنیا کے دوسرے ادب کا بھی حوالہ دیتے ہیں اور ان سے بھی مثالیں پیش کر کے اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہیں۔ فارسی اور اردو شاعری کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ اردو غزل کا رقیب تیسرا آدمی ہی تو ہے۔ ان کے بقول ’’بروٹس بھی تیسرا آدمی ہے۔ برادر کراموزوف، مادام بواری، بن ہر، دی پورٹریٹ آف اے لیڈی اور گؤدان، شکست، تلاش بہاراں، خدا کی بستی، ٹیڑھی لکیر اور دوسرے ناولوں میں تیسرے آدمی کا مطالعہ کم دلچسپ نہ ہو گا۔‘‘
ان مثالوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ان کا مطالعہ کتنا وسیع ہے۔ اردو، فارسی ادب کے علاوہ ان کی نظرعالمی ادب پر بھی بہت گہری ہے۔
ڈاکٹر شکیل الرحمن نے پریم چند کے مختلف افسانوں میں تیسرے آدمی کو دریافت کیا ہے اور ان کی نشاندہی کی ہے۔ مثلاً وہ لکھتے ہیں کہ ’’گھاس والی‘‘ میں چین سنگھ تیسرا آدمی ہے۔ پھر اس کردار کا جائزہ نہایت مہارت کے ساتھ پیش کرتے ہیں اور تیسرے شخص کی اہمیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ ڈاکٹر شکیل الرحمن نے مختلف عنوانات کے تحت تیسرے آدمی کا تجزیہ پیش کیا ہے۔ یعنی ان کو مختلف انداز سے دیکھا ہے۔ وہ پریم چند کی تین کہانیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں :
’’تینوں کہانیوں ’’گھاس والی‘‘ ، ’’دو سکھیاں‘‘ اور ’’حقیقت‘‘ میں تیسرے آدمی کی شخصیت کے تین مختلف پہلو ہیں۔ اسی طرح انھوں نے دوسرے افسانوں کے ’’تیسرے آدمی‘‘ کا ذکر کیا ہے اور اس کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا ہے۔
ڈاکٹر شکیل الرحمن نے پریم چند کے افسانوں میں جہاں تیسرے آدمی کو پیش کیا وہاں انھوں نے ان کے افسانوں میں تیسری طاقت پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ:
’’کہانیوں میں کشمکش اور المیہ ڈرامے تیسری طاقت کے ذریعے پیش ہوئے ہیں کبھی ان سے کوئی گھریلو زندگی تباہ ہوتی ہے تو کبھی سماجی زندگی متاثر ہوتی ہے۔ سماجی زندگی میں ایسی منظم جماعتیں موجود ہیں کہ جن کی حیثیت تیسری طاقت کی ہے۔‘‘
اس طرح شکیل الرحمن نے تیسری طاقت کے حوالے سے بھی پریم چند کے افسانوں کا جائزہ لیا ہے اور مثالوں سے تیسری طاقت کی اہمیت اور ان کی حیثیت کو ظاہر کیا ہے۔
پریم چند کے افسانوں میں نسوانی کردار کا بھی مصنف نے بطور احسن جائزہ لیا ہے۔ کہانیوں میں عورت کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاتا ہے اس طرح وہ پریم چند کے افسانوں اور ان کے فن کے حوالے سے کہتے ہیں :
’’پریم چند کے رومانی ذہن نے جو صنم کدہ خلق کیا ہے اس میں عورت کے مختلف متحرک پیکر ملتے ہیں۔ عورتوں کی نفسیات ان کی عادات و اطوار پر بھی انھوں نے روشنی ڈالی ہے۔ عورتوں کی نرگسیت کا ذکر کرتے ہوئے اس کی واضح مثالیں بھی پیش کی ہیں۔ انھوں نے کئی مثالیں اور حوالے دیے ہیں۔ ایک مثال دیکھیے :
’’وہ اٹھ کر ڈرائنگ روم میں گئی اور قد آدم شیشہ میں اپنی صورت دیکھی اس کے خدوخال بے عیب ہیں مگر وہ تازگی، وہ شگفتگی، وہ نظر فریبی نہیں ہے۔ رام دلاری آج کھلی ہے اور اسے کھلے زمانہ ہو گیا لیکن اس خیال سے اسے تسکین نہیں ہوتی وہ رام دلاری سے ہیٹی بن کر نہیں رہ سکتی۔‘‘
اس طرح مختلف کرداروں پراس زاویے سے روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں :
’’اس قسم کا ایک نگارخانہ ہے جہاں عورتوں کی بہت سی تصویریں آویزاں ہیں۔ گھریلو زندگی اور سماجی زندگی میں عورتوں کے جذبات کا اظہار ہوتا ہے لیکن پریم چند کی آئیڈیل ازم اور ان کا سماجی بطور تصور اور آدرش وادی نظریہ موجود رہتا ہے۔ ایسے افسانوں میں بھی پریم چند نے عورت کے جذبات کے مختلف رنگوں کو جمع کیا ہے۔‘‘
اس کے بعد شکیل الرحمن نے مختلف حوالوں اور مثالوں سے اپنے موقف کی وضاحت بھی کی ہے۔ آخر میں وہ یہ کہتے ہیں کہ ’’ان کرداروں کے ذریعے پریم چند کی رومانیت اور تخلیقیت،جذباتیت اور حقیقت پسندی کا بہتر مطالعہ ہو سکتا ہے۔‘‘
اس سلسلے میں شکیل الرحمن نے ایک بنیادی نکتہ پیش کیا ہے اور اس نقطہ نظر سے ان کے فن کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے جس کے ذریعے پریم چند سے متعلق مزید اہم معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔
اس کے بعد ایک الگ باب میں پریم چند کے یہاں جو بچوں کے کردار ملتے ہیں ان کا تجزیہ بھی انھوں نے کیا ہے۔ مارک ٹوئن (Mark Twain)کے کردار کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں ہیکل بری فن بچوں کے کریکٹر کا ایک نمائندہ کردار ہے۔ بڑے لوگوں کی بسائی ہوئی دنیا کا ایک ناقد بھی ہے۔ ہیکل بری فن زندگی سے محبت کرتا ہے۔ مارک ٹوئن ندی کو ایک پس منظر بنایا ہے اسے ایک عورت کی صورت دی ہے … بچے کا کردار اس پس منظر میں ابھرتا ہے۔ اس کردار کے ذریعے زندگی کے دلچسپ نقوش ابھرتے ہیں۔
اس کے بعد وہ ہنری جیمس کے حوالے سے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں۔ ہنری جیمس کے What maisie knewمیں میزی بڑے لوگوں کی دنیا کے تاریک پہلوؤں کو انتہائی معصومانہ انداز میں بے نقاب کرتی ہے …۔ میزی کی ہر حرکت بچے کی نفسیات کو نمایاں کرتی ہے۔ اس کے بعد ڈی ایچ لارنس کے ارسلا، رابندر ناتھ ٹیگور کے پھاٹک چکرورتی کا حوالہ اس ضمن میں دیتے ہیں۔ یہ تمام مثالیں اور حوالے ان کے وسیع مطالعے کا مظہر ہیں۔ ان کی نظر بہت باریک بیں ہے۔ وہ اہم واقعات و کردار کے علاوہ چھوٹی چھوٹی باتوں اور چھوٹے چھوٹے کرداروں کو نظر انداز نہیں کرتے ہیں۔ ان میں سے بعض باتیں تو بظاہر چھوٹی اور معمولی نظر آتی ہیں مگر افسانے یا تخلیقات میں بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ جس طرح مشین میں اس کے معمولی اور چھوٹے پرزے کی بھی بڑی اہمیت ہوتی ہے اسی طرح بعض معمولی کردار بھی غیر معمولی کردار کا درجہ اختیار کر لیتے ہیں۔ انھوں نے بچوں کے حوالے سے بچے کی عقیدت، ہیرو پسندی کا ذکر کیا ہے اور اس کی اہمیت کی وضاحت کی ہے۔ بچوں کی نفسیات، ان کے جذبات اور احساسات کو پریم چند کے فن کی روشنی میں دیکھا ہے اور ان کا ذکر موثر اور دل نشیں انداز میں کیا ہے۔ پریم چند کے افسانوں سے حوالے دیے ہیں۔ ان کے بقول پریم چند کے افسانوں میں بچوں کے نفسیاتی عمل اور رد عمل کے بعض دلکش مرقعے ملتے ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ٹیگور، مارک ٹوئن، ہنری جیمس، ہانس اینڈرسن، طالسطائی، پیرولائنگا، جیمس بیری، لیوس کیرول،آر کپلنگ اور دوسرے فنکاروں کی طرح پریم چند نے بھی بچوں کی نفسیاتی زندگی اور ان کی دنیا کو پیش کیا ہے۔ قزاقی کا بچہ ٹیگور کی مینی سے قریب تر ہے۔ ہمدردی کی لڑائی بانس اینڈرسن The Little match girlکی یاد دلاتی ہے۔ چوری کے کردار سے طالسطائی کے اگلیکا اور ملاشا کے کردار سامنے آ جاتے ہیں۔
پریم چند بچوں کے ذہن اور ان کی نفسیات کے بھی ایک بڑے فنکار ہیں۔ اس طرح دیگرزبانوں اور کہانیوں کے کردار کا تقابلی مطالعہ کر کے پریم چند کے فن کی مزید وضاحت حقیقت پسندانہ انداز میں کرتے ہیں۔
ڈاکٹر شکیل الرحمن نے ’’کھلاڑی پن‘‘ کے عنوان سے بھی پریم چند کے افسانوں اور ان کے کرداروں کا جائزہ لیا ہے۔ وہ شیکسپیئر کا قول پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں جس طرح شیکسپیئر نے دنیا کو اسٹیج اور انسان کو اداکار کہا ہے یہ بات پریم چند کے فن میں بھی نظر آتی ہے۔
انھوں نے دیانرائن نگم کے نام پریم چند کے ایک خط کا حوالہ دیا ہے جس میں پریم چند نے لکھا ہے :
’’دنیا کو ایک تماشا گاہ یا کھیل کا میدان سمجھ لیا جائے۔ کھیل کے میدان میں وہی شخص تعریف کا مستحق ہوتا ہے جو جیت سے پھولتا نہیں ہار سے روتا نہیں۔ جیتے تب بھی کھیلتا ہے اور ہارے تب بھی کھیلتا ہے۔ جیت کے بعد یہ کوشش ہوتی ہے کہ ہار یں نہیں ہار کے بعد جیت کی آرزو ہوتی ہے۔ ہم سب کے سب کھلاڑی ہیں۔‘‘
ہو سکتا ہے کہ پریم چند نے یہ خیال شیکسپیئر سے ہی لیا ہو بہرحال پریم چند زندگی کے متعلق اپنا ایک نظریہ رکھتے ہیں۔ ’’چو گان ہستی‘‘ میں اسی بات کی وضاحت کی ہے۔ شکیل الرحمن اس سلسلے میں ان کے ناول ’’نرملا‘‘ اور مختلف افسانوں کے حوالے سے اس کی مزید وضاحت کرتے ہیں۔
اس کتاب کے ایک باب میں انھوں نے پریم چند کے المیہ کرداروں کا ذکر کیا ہے اور ان المیہ کرداروں کی خصوصیات کا ذکر بھی کیا ہے۔ کفن کے گھیسو اور مادھو کا بطور خاص تذکرہ کیا ہے جوبلا شبہ پریم چند کے المیہ کردار ہیں۔ ان کرداروں کا تجزیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’جذباتی آسودگی حاصل کر نے کا یہ انداز اردو فکشن میں غیر معمولی ہے۔ ایسے المیہ کرداروں کی اندرونی ویرانی غیر معمولی ہے جس سے افسانہ پیتھوس کا ایک منظر بن گیا ہے۔ کرداروں کے عمل سے اندرونی ویرانی Havocکا جھٹکا غیر معمولی ہے۔ یہ اردو کا شاہکار ہے۔‘‘
جن لوگوں نے بھی پریم چند کا یہ شاہکار افسانہ ’’کفن‘‘ پڑھا ہے وہ یقیناً اس حقیقت اور اس کی المناکی کی گواہی دیں گے اور وہ ڈاکٹر شکیل الرحمن کی اس رائے سے یقیناً اتفاق کریں گے۔ یہاں پر میں نے صرف ایک مثال کے ذریعہ شکیل الرحمن کے موقف کی وضاحت کی ہے ورنہ آگے چل کر انھوں نے پریم چند کے کئی افسانوں اور ان کے المیہ کرداروں کا جائزہ بطور خاص پیش کیا ہے۔
شکیل الرحمن کی نظر نہ صرف پریم چند کے کرداروں پرہے بلکہ انھوں نے پریم چند کی تکنیک سے بھی بحث کی ہے۔ وہ اس سلسلے میں کہتے ہیں کہ ’’پریم چند کے تعارف ہی سے بعض افسانوں کے واقعات کا علم ہو جاتا ہے۔ بقول ان کے بڑے گھر کی بیٹی (دیہات کے افسانے ) اس کی عمدہ مثال ہے۔ پریم چند کی تکنیک کا انھوں نے بغور جائزہ لیا ہے۔ پریم چند کی تکنیک سے متعلق وہ مزید کہتے ہیں :
’’بعض افسانے پرانی کہانیوں کی طرح شروع ہوتے ہیں۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ کسی پہاڑ کے دامن میں دو دیو رہتے تھے اور دونوں میں ہمیشہ لڑائی ہوتی رہتی تھی۔ پریم چند نے اسی انداز میں کہا ہے : ’’جمہوری کا چھی کے پاس دو بیل تھے۔ ایک کا نام ہیرا تھا دوسرے کا نام موتی۔‘‘ پھر اسی طرح سے شکیل الرحمن نے ان کے مختلف افسانوں کی تکنیک پر بحث کی ہے اور مثالیں دی ہیں۔ پریم چند کی تکنیک پر مزید لکھتے ہوئے انھوں نے کہا ہے کہ ’’پریم چند کی ابتدائی عبارتیں ایسی ہیں کہ کوئی جملہ اجنبی نہیں لگتا۔‘‘ پھر کہانی سنانے کے پرانے انداز میں پریم چند نے جو نئی جہت پیدا کی ہے اس کی کافی مثالیں دی ہیں۔ چند مثالیں آپ بھی دیکھیے :
جانوروں میں گدھا سب سے بے وقوف سمجھا جاتا ہے۔
کسی گاؤں میں شنکر نامی کوری رہتا تھا۔
جمن شیخ اور الگو چودھری میں بڑا یارانہ تھا۔
جلدی سے مالدار بن جانے کی ہوس کسے نہیں ہوتی۔
آخر جو ہونا تھا وہی ہوا۔ وغیرہ
تکنیک پر اظہار خیال کر نے کے بعد انھوں نے پریم چند کے اسلوب پر نظر ڈالی ہے۔ اسلوب کے سلسلے میں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’پریم چند کے فن میں تصادم کی مختلف صورتیں اور سطحیں ملتی ہیں جن سے اسلوب متاثر ہوا ہے جیسے تجربہ اور تکنیک کی ہم آہنگی اور جذبی کیفیت نے اسلوب خلق کیا ہے۔‘‘
ڈاکٹر شکیل الرحمن نے پریم چند کے ایک ایک افسانے کا گہرا مطالعہ کیا ہے اور اپنے عمیق مطالعے کی روشنی میں کرداروں، تکنیک اور اسلوب کا جائزہ لیا ہے۔ ان کے حوالے اور جملوں کا انتخاب ان کے مطالعے کے مظہر ہیں مثلاً بڑے بابو کے سلسلے میں کہتے ہیں کہ ’’ایک جگہ ایک تصویر کے تیرہ ٹکڑے ہیں کہ جوڑ دیا جائے تو ایک مکمل جذباتی تصویر بن جاتی ہے۔
موضوع کے تقاضے سے یہ تکنیک وجود میں آئی ہے اور اسلوب کے حسن نے اسے نقش کر دیا ہے۔‘‘ اس افسانے سے انھوں نے تیرہ جملے ترتیب کے ساتھ درج کر دیے ہیں۔ یہاں پر تیرہ جملوں کو لکھنا مناسب نہیں ہے مگر ان جملوں کے انتخاب سے شکیل الرحمن کے گہرے مطالعے کا ثبوت ملتا ہے۔
شکیل الرحمن کی نظر پریم چند کے افسانوں پر بڑی گہری ہے۔ پریم چند نے عربی اور فارسی کے جو الفاظ اور ضرب الامثال استعمال کیے ہیں اس کی بھی ایک فہرست انھوں نے مہیا کر دی ہے۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے پریم چند کے افسانوں کے ایک ایک فقرے اور جملے کا بغور مطالعہ کیا ہے۔ پریم چند نے جو مقولے استعمال کیے ہیں ان کو بھی اپنی کتاب میں خصوصی طور پر درج کیا ہے۔ سیکڑوں محاوروں کا بھی انتخاب کر کے پیش کر دیا ہے۔ یہ سب ایسی خصوصیات ہیں جو ان کے گہرے اور عمیق مطالعے کی شہادت دیتی ہیں۔
اس کتاب کے آخری حصے میں شخصیت کے زیر عنوان شکیل الرحمن نے ان کی شخصیت پر روشنی ڈالی ہے۔ نام کے سلسلے میں والد اور چچا کے رکھے ہوئے ناموں کا ذکر کیا ہے۔ منشی نواب رائے ان کے چچا کا رکھا ہوا نام تھا اور اس نام سے انھوں نے ’’سوزوطن‘‘ لکھا تھا۔ وہ پکڑے گئے اور ان پر مقدمہ چلا۔ پیدائش اور جائے پیدائش کا ذکر تو ملتا ہے مگر جائے وفات کا ذکر شکیل الرحمن صاحب نے نہیں کیا ہے۔ شخصیت کے باب میں شکیل الرحمن صاحب نے پریم چند کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔ ان کے عادات و اطوار، جذبات و احساسات کی تصویریں بھی پیش کر دی ہیں۔ پریم چند نے لکھا تھا:
’’میری زندگی ہموار میدان کی طرح ہے، جس میں کہیں گڈھے تو ہیں ٹیلوں اور پہاڑوں گہری کھائیوں اور غاروں کا پتہ نہیں۔‘‘
مگر اس سلسلے میں شکیل الرحمن ان سے اختلاف کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ’’میرے نزدیک کسی بھی بڑے تخلیقی فنکار کی زندگی ہموار میدان کی طرح نہیں ہوتی۔ اس بات کو آپ کسی وجہ سے نہیں مانتے تو عرض کروں گا کہ پریم چند کی زندگی ہر گز ہموار میدان کی طرح نہیں رہی۔ یہ زندگی اتنی ہموار اور سادہ نہیں جتنی پریم چند بتاتے ہیں۔ پریم چند کی شخصیت کے باب میں پریم چند کی والدہ کی رحلت (جب پریم چند صرف آٹھ سال کے تھے ) ان کو اپنی تنہائی کا احساس اور زندگی میں آنے والے مختلف مسائل اور مشکلات کا بھی ذکر شکیل الرحمن نے کیا ہے۔ ان کی تعلیمی زندگی، تعلیم، ادبی زندگی، محکمہ تعلیم سے وابستگی، ان کی شادی، پہلی بیوی سے علاحدگی، دوسری شادی وغیرہ ان کی تعلیمی زندگی کے بارے میں بتایا کہ ریاضی میں بہت کمزور تھے۔ اس سلسلے میں وہ برنارڈشا کا بھی ذکر کرتے ہیں جو ریاضی میں کمزور تھے۔ ان کی پرماننٹ جونیئر انگلش ٹیچرس کے سرٹیفکیٹ پریہ لکھا ہوا ہے :
Not qualified to teach Mathmetics(ریاضی پڑھانے کے قابل نہیں ہیں )
پریم چند نے ۱۹۳۰ء کے لگ بھگ ہندی میں کہانیاں لکھنی شروع کر دیں۔ کچھ لوگوں نے اس کے بارے میں کہا اور لکھا ہے کہ اردو کے خلاف ان میں تعصب پیدا ہو گیا تھا۔ بلکہ کچھ نے تو ان پر کمیونلزم کا الزام بھی لگایا۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ پریم چند کے بیٹے امرت رائے نے A house divided : The origin and development of Hindi/Hindviلکھی اور اس کتاب میں اردو سے متعلق معاندانہ رویہ اختیار کیا۔ جاوید رحمانی، پریم چند اور زبان کا مسئلہ (مطبوعہ سہ ماہی بادبان، کراچی، ۲۰۰۸ء) میں لکھتے ہیں کہ ’’مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پریم چند کے سامنے شرر اور سرشار کی فنی خوبیاں اور خامیاں کم رہی ہیں اور ان کا مسلمان یا ہندو ہونا زیادہ۔ یہ مضمون ۱۹۲۰ء میں شائع ہوا۔ آگے چل کر جاوید رحمانی لکھتے ہیں کہ یکم ستمبر ۱۹۱۵ء کو ایک خط دیانرائن نگم کو لکھا گیا ہے اس میں پریم چند لکھتے ہیں :
’’اردو میں اب گزر نہیں۔ یہ معلوم ہوتا ہے کہ بال مکند گپت مرحوم کی طرح ہندی لکھنے میں زندگی صرف کر دوں گا۔ اردو نویسی میں کسی ہندو کو فیض ہوا ہے جو ہو گا۔‘‘
میرے خیال میں یہ جذباتی انداز وقتی بات ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ آج بھی اردو اخبار کے مقابلے میں انگریزی اخبار میں لکھنے والوں کو زیادہ معاوضہ ملتا ہے۔ اردو میں لکھنے والوں کو (بلا تخصیص ہندو مسلمان، معاوضہ اوّل تو ملتا ہی نہیں تھا یا برائے نام)۔ اس طرح کی بات شکیل الرحمن نے بھی لکھی ہے کہ ’’اردو زبان ایسے وقت میں سہارا نہ دے سکی تو وہ اس سے کسی حد تک بدگمان بھی ہو گئے تھے۔‘‘ فکشن کے فنکار پریم چند میں دراصل شکیل الرحمن نے ان کے فن اور ان کی شخصیت کا جائزہ لیا ہے۔ وہ ان نزاعی مسئلوں سے دور رہے، کیونکہ ادیب کو ہمیں دراصل ادب کے آئینے میں دیکھنا چاہیے۔ ادیب میں انسان ہوتا ہے اس کے خیالات میں بھی کبھی کبھی کچھ تبدیلیاں آ جاتی ہیں مگر میں اسے بھی وقتی اور عارضی چیز سمجھتا ہوں۔
پریم چند ۱۹۳۴ء میں حد درجہ پریشان تھے۔ ۱۹۳۴ میں ممبئی گئے جہاں مل مزدور پر فلم بن رہی تھی۔ حکومت نے اس پر پابندی لگا او دی۔ دل برداشتہ ہو کر بنارس لوٹ آئے اور وہیں یعنی بنارس میں ۱۹۳۶ء میں ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کی وفات پر مالک رام نے تاریخ وفات اس طرح نکالی:
ادخلی فی عبادی وادخلی جنتی
۱۹۳۶ء
آخر میں اس بات کا ذکر کرنا بھی مناسب سمجھتا ہوں کہ پریم چند نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز مضمون نویسی سے کیا۔ پریم چند تا دم حیات لکھتے رہے۔ بقول شکیل الرحمن ’’زندگی بڑی کافر ہے۔ اس لیے عزیز بھی ہے۔ آخری سانس لیتے ہوئے گیٹے نے کہا تھا ’’روشنی اور زیادہ روشنی۔ پریم چند کی آخری شب بھی روشنی کی آرزو میں گزری۔ ’ہنس‘کو اپنی سوچ اور فکر کا آئینہ تصور کرتے ہوئے اسے زندہ رکھنا چاہتے تھے۔ ’’ہنس کیسے چلے گا۔ نہیں چلے گا تو کیا ہو گا۔ بار بار جتندر جی سے اس طرح سوال کرتے رہے۔ نہیں چاہتے تھے کہ یہ آئینہ ٹوٹ جائے۔‘‘ یہ جملے شکیل الرحمن کی اس اہم کتاب کے آخری جملے ہیں جسے ہم پریم چند کی زندگی کی آخری خواہشات کہہ سکتے ہیں۔
فکشن کے فنکار پریم چند:شکیل الرحمن کی ایک گراں قدر اہم تصنیف ہے۔ پریم چند پر انھوں نے مختلف زاویوں سے اتنا مواد جمع کر دیا ہے کہ پریم چند کے فن کا مطالعہ کر نے والوں کے لیے ایک بہترین ذریعہ ہے۔ کوئی شخص اگر پریم چند پر لکھنا چاہے گا تو اس کے لیے اس کتاب کا مطالعہ ناگزیر ہو گا۔ پریم چند کے سلسلے میں یہ کتاب ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ پریم چند پر لکھی جانے والی کتابوں میں یہ ایک منفرد کتاب ہے بلکہ اسے دستاویزی حیثیت حاصل ہے۔ میں اسے شکیل الرحمن صاحب کا ایک اہم کارنامہ تسلیم کرتا ہوں۔ مجھے تو اس کتاب کا مطالعہ کر کے حیرت ہوئی کہ انھوں نے پریم چند کے اتنے سارے افسانوں اور ناولوں کو شوق اور لگن اور محنت سے مطالعہ کیا اور پریم چند کی تخلیقات کے محاسن کو کس خوبی کے ساتھ پیش کر دیا ہے۔ بلاشبہ یہ پریم چند پر لکھی جانے والی کتابوں میں اپنی نوعیت کے لحاظ سے منفرد، گرانقدر اور مفید کتاب ہے۔ یہ ایک جامع اور بڑی حد تک مکمل کتاب ہے۔ اگر کوئی کمی رہ گئی ہے تو اس سلسلے میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ:
کارِ دنیا کسے تمام نہ کر د
(کراچی، پاکستان)