پروفیسر سیّدہ جعفر
پریم چند اور ان کے فکشن کا اردو کے نقادوں نے مختلف زاویوں سے مطالعہ کیا ہے۔ پریم چند کے سماجی شعور، سیاسی آگہی، اخلاقی تصورات، دیہاتی زندگی کے مسائل پر ان کی نظر اور انسانی فطرت کے پیچ و خم پر ان کی گرفت کا تجزیہ کر نے کی کوشش کی ہے اور اس میں وہ بڑی حد تک کامیاب بھی رہے ہیں۔ پریم چند پر شکیل الرحمن کی تنقید، فکشن کی ٹکنیک سے نقاد کی آگہی، انسانی نفسیات کے مطالعے اور انسانی تجربات کی معنویت کی طرف متوجہ کرتی ہے۔ پریم چند کے فکشن میں ہندوستانی دیہات کی وہ ساری فضا رچ بس گئی ہے جس کے پس منظر میں ان کے کردار ابھرتے، اپنا رول ادا کرتے اور ہمارے ذہن پر اپنا نقش ثبت کر دیتے ہیں۔ شکیل الرحمن نے پریم چند کے فن کا تجزیہ کرتے ہوئے کوئی انوکھی بات نہیں کہی ہے لیکن ان کے مطالعے کا مخصوص انداز، ان کی نفسیات فہمی اور کرداروں کے تجزیے نے ان کے تنقیدی محاکمات کو تہہ داری عطا کی ہے۔ انسانی تجربے کی کسک کو انہوں نے جس طرح محسوس کیا ہے وہ قاری کو پریم چند کے مطالعے کی ایک نئی جہت سے روشناس کرواتا اور اس کے ذہن میں نئے سوالات پیدا کرتا، پریم چند کے فن کو ایک نئے انداز نظر سے پرکھنے کی ترغیب دیتا اور قاری کے ذہن کو چونکا دیتا ہے۔ شکیل الرحمن کی تصنیف ’’فکشن کے فنکار پریم چند‘‘ اس مصنف کے فکر و فن کا تجزیہ پیش کرتی اور اس کی ادبی قدر و قیمت کا غیر جانبدارانہ اندازہ کر نے کی کوشش کرتی ہے۔
شکیل الرحمن نے پریم چند کے فکشن میں تیسرے آدمی کے رول کی اہمیت واضح کی ہے وہ لکھتے ہیں :
’’تیسرا آدمی نہ ہو تو ساری زندگی کا اقتصادی نظام درہم برہم ہو جائے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے اقتصادی حالات و مسائل کا انحصار اس کے عمل اور رد عمل پر ہے …گھریلو زندگی میں اس کی شخصیت ایک معمہ بن جاتی ہے‘‘ ۔ (صفحہ ۳۳)
حقیقت یہ ہے کہ یہ تیسری شخصیت فکشن میں کشمکش کا محرک ثابت ہوتی ہے۔ نقاد کا خیال ہے کہ پریم چند کے افسانوں میں اس کے مختلف پہلوؤں کا مطالعہ ان کے آرٹ اور تخلیقی فکر و نظر کی اہمیت کا احساس دلاتی ہے۔ اس سلسلے میں شکیل الرحمن نے پریم چند کے مختلف افسانوں سے مثالیں پیش کی ہیں اور یہ بتایا ہے کہ ان کے اکثر افسانوں میں تیسرے آدمی کی شخصیت کے اتار چڑھاؤ، کردار کی نفسیاتی الجھنیں اور اس کی جذباتی زندگی کی پر اثر تصویریں نظر آتی ہیں۔ شکیل الرحمن نے ’’دو سکھیاں‘‘ (پریم چالیسی) ’’حقیقت‘‘ (زاد راہ) اور ’’آخری تحفہ‘‘ سے مثالیں پیش کر کے ان کے مطالعے کی دعوت دی ہے۔ ’’شکست کی فتح‘‘ میں شاردا اور سوشیلا، ’’موسی‘‘ میں چندر کماری ’’سہاگ کا جنازہ‘‘ میں ارمیلا ’’انتقام‘‘ میں ایشور داس ’’وفا کی دیوی‘‘ میں تلیا ’’لعنت میں‘‘ میں کاڑی جی ’’حسرت‘‘ میں بڑھیا ’’پچھتاوا‘‘ کے پنڈت درگا ناتھ، ’’فریب‘‘ کی جگنو اور ’’الزام کا رضا‘‘ تیسری شخصیت ہیں جن کی وجہ سے کہانی میں تحرک پیدا ہوا ہے۔ کشمکش اور تصادم کا معیار سامنے آیا ہے اور کہانی میں المیہ عناصر نے جگہ پائی ہے۔ شکیل الرحمن کا خیال ہے کہ پریم چند نے اپنے افسانوں میں جہاں تیسری شخصیت کو پیش کیا ہے وہیں تیسری طاقت کی قوت اور اس کے اثر و رسوخ کو بھی نمایاں کر نے کی کوشش کی ہے۔ نقاد لکھتے ہیں ’’سماجی زندگی میں ایسی منظم جماعتیں موجود ہیں کہ جن کی حیثیت تیسری طاقت کی ہے۔ اپنے مفادات کے لیے مذہب اور سماجی تقاضوں کا سہارا لے کر یہ جماعتیں افراد کی زندگی میں انتشار پیدا کرتی ہیں۔ (صفحہ ۵۵)
’’زاد راہ‘‘ میں سیٹھ رام ناتھ کے اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد برادری کے لوگ مذہب اور برادری کے نام پر سیٹھ کے گھر کو تباہ کر دیتے ہیں۔ سیٹھ دھنی رام، کبیر چند اور سنت لال بیوہ کو گھر چھوڑنے پر مجبور کر دیتے ہیں اور اسے ایک اذیت ناک زندگی بسر کرنی پڑتی ہے۔ شکیل الرحمن نے ’’خون سفید‘‘ کے مطالعے سے بھی اس تیسری قوت کا تجزیہ کر نے کی کوشش کی ہے۔ شکیل الرحمن لکھتے ہیں ’’کہیں یہ تیسری قوت رحمت بن کر آتی ہے اور کہیں عذاب، محبت کی دنیا میں تیسری شخصیت کی تلملاہٹ، مذہبی زندگی میں دیوتاؤں اور انسانوں کے درمیان پجاریوں کی شخصیت، کسان اور زمیندار کے درمیان تیسری شخصیت کا عمل اس کی مثالیں ہیں۔ شکیل الرحمن نے پریم چند کے افسانوں کا تجزیہ کر کے بتایا ہے کہ چین سنگھ، جگل جوکھو، کاوس جی، مہاتما جی، رضا، قاسم، پنڈت درگا ناتھ جگنو اور گومتی وغیرہ تیسری شخصیتیں ہیں اور ان کے کردار کو پریم چند نے بڑی فنکارانہ چابکدستی کے ساتھ ابھارا ہے اور کہانی کو اپنی منزل تک پہنچنے میں مدد دی ہے۔ شکیل الرحمن کا خیال ہے کہ تیسرا آدمی بنیادی حقیقتوں کی جانب اشارہ کرتا اور انسانی نفسیات کو نمایاں کرتا ہے۔ وہ جبلتوں کا آزادانہ اظہار کرتا ہوا نظر آتا ہے اور اس کے وسیلے سے انسانی نفسیات کے کئی گوشے نمایاں ہوتے ہیں۔ پریم چند ایسے تیسرے آدمی کو متعارف کرواتے ہوئے بہت محتاط رہتے ہیں۔ اس سلسلے میں نقاد نے پریم چند کے افسانے ’’گھاس والی‘‘ کا مکمل تجزیہ پیش کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ اس کہانی کا ہیرو گھاس والی کے رفیق حیات کو محض اس لیے خوش حال اور فارغ البال بنانا چاہتا ہے کہ گھاس والی گھر میں محفوظ رہے اور بازار کے من چلے نوجوان اس کو نہ چھیڑیں۔
پریم چند کے رومانی ذہن نے جو نگار خانہ بنایا ہے اس میں عورت کے مختلف متحرک پیکر ملتے ہیں۔ عورت کی شخصیت کے گوناگوں رنگ پریم چند کے افسانوں میں محض اس لیے اجاگر نہیں ہوئے ہیں کہ انہوں نے متعدد افسانوں میں اس کا کردار پیش کیا ہے بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ پریم چند نے ہندوستانی عورت کی سماجی حیثیت، عورت کی شخصیت اور اس کی بدلتی ہوئی نفسیاتی کیفیتوں کو ایک فنکار کی نظر سے دیکھا اور پیش کیا ہے۔ پریم چند کے افسانوں میں نرگسی عورتیں بھی ہیں، شوہر پرست خواتین بھی، کوٹھوں کی زینت بننے والی طوائفیں بھی ہیں اور بیوہ عورتوں کی ویران زندگی کی بھی تصویریں پیش کی گئی ہیں۔ نرگسیت (Narcissism) ایک نفسیاتی کیفیت ہے جس میں انسان اپنے وجود اور اپنے حسن کا دیوانہ اور اپنی محنت میں مگن رہتا ہے۔ ’’دو بہنیں‘‘ میں روپ کماری کا کردار نرگسیت کے رجحان کی اچھی نمائندگی کرتا ہے۔ اس طرح‘‘ بازیافت‘‘ کی ہیروئن نرگسیت کی گرفت میں جڑی ہوئی ہے اور اس رجحان کا اثر اس کے فکر و عمل پر دیکھا جا سکتا ہے۔ ’’نرگسی التباس‘‘ واہمہ۔ فریب نظر Illusion and Hallucinationکی یہ تصویریں پریم چند کے افسانوں میں اپنی جھلک دکھاتی رہتی ہیں۔ اردو فکشن میں یہ تصویریں بہت کمیاب ہیں۔
پریم چند کے اکثر نقادوں نے اس نکتے پر زور دیا ہے کہ انہوں نے گھریلو زندگی کی مختلف تصویریں پیش کرتے ہوئے بے جوڑ اور بے میل شادیوں کے نقصانات اور تہذیبی نقائص کی طرف اشارہ کیا ہے۔ شکیل الرحمن نے گھریلو زندگی کے اس المیے کو نفسیاتی پس منظر میں دیکھنے کی کوشش کی ہے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی نفسیاتی بوالعجبیوں اور الجھنوں کا تجزیہ بھی کیا ہے۔ اس سلسلے میں مرد اور عورت دونوں کی نفسیات کے بعض نازک گوشوں کو بے نقاب کیا ہے۔ مس پدما (زاد راہ) اور مسٹر جھلا کی شادی کے حوالے سے شکیل الرحمن اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ’’حیاتی تسلسل (Vita continuity) کی واحد جبلت جو دو جبلتوں یعنی تحفظ ذات اور اشاعت ذات پر مشتمل ہے۔ یہاں نمایاں ہے۔ اپنی تنہائی میں مسٹر جھلا کو شریک کرنا چاہتی ہے یہی اس انسان کی روح ہے۔ عقلی الجھاؤ Intelligence Complex کا ’’آتش مانیا‘‘ (Pyromania)ضرور ہے۔ عقلی الجھاؤ کی صورت بھی اور معکوسی مالخولیا کا رنگ بھی نمایاں ہے۔ یعنی ایک ناخوشگوار واقعے کو شعور سے الگ کر نے کی کوشش اور ماحول و واقعات کی وجہ سے خارجی امتناع کے دباؤ سے گریز‘‘ ۔ (صفحہ ۲۸۰)
شکیل الرحمن کی انسانی نفسیات سے آگہی نے جس طرح غالبؔ، خسروؔ، میرؔ اور منٹو وغیرہ کے فن کا تجزیہ کر نے میں ان کی رہنمائی کی ہے اور اردو تنقید کو ایک نئی جہت سے آشنا کیا ہے اسی طرح پریم چند کے افسانوں کو بھی انہوں نے نفسیات کے آئینے میں دیکھتے ہوئے اردو فکشن کی تنقید کے سرمائے میں ایک نئے انداز کی اہمیت واضح کی ہے۔ کتاب کی ابتداء میں شکیل الرحمن نے پریم چند کے بارے میں اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ اردو کے مصنفین نے پریم چند کے افسانوں میں گاؤں کی زندگی کے نشیب و فراز، طبقاتی تضاد، آزادی کی تحریک وغیرہ کا ذکر کے پریم چند کے تہذیبی اور عصری شعور کو چمکانے کی کوشش کی ہے۔ پریم چند کے فن پر اظہار خیال کرتے ہوئے یہ بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ ’’فنکار نے خارجی حقائق اور معاشرتی اقدار کو کس حد تک جذب کیا ہے اور کس حد تک انہیں نئی تخلیق کی صورت دی ہے‘‘ آگے چل کر شکیل الرحمن رقمطراز ہیں۔ :’’ناولوں کی جذباتیت سچائیوں کا سپاٹ بیان اور کرداروں کا میکانکی عمل، مکالموں کی تقریریں اور قدروں کا شعور سب نظر انداز ہو جاتا ہے۔ (صفحہ۱۱،۱۲)۔ شکیل الرحمن نے تہذیبی پس منظر کو ملحوظ رکھتے ہوئے انسانی تجربات اور نفسیاتی عوامل کی اہمیت نظر انداز نہیں کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ پریم چند نے اپنے فکشن میں عورتوں کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کا بڑی معنوی گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا ہے۔ ایسی رنگا رنگی اور بوقلمونی کی مثالیں اردو میں بہت کم ملتی ہیں۔ شعور اور لاشعور کی کشمکش، نرگسیت، اعصابی خلل، ہیجانات کا ابال، نفسیاتی دباؤ، احساس کمتری، واہمے اور خواب، نفسیاتی تعصب، فریب نظر اور بعض دوسرے محرکات کو پریم چند نے اپنے افسانوں میں بڑی دیدہ وری کے ساتھ پیش کیا ہے۔ شکیل الرحمن اس خیال کے حامل ہیں کہ پریم چند نے پہلی بار نفسیاتی کرداروں کی تخلیق کرتے ہوئے شعور کے بہاؤ کو نمایاں کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں : ’’شعور کے بہاؤ یا چشمہ شعور کی تکنیک تو اسی صدی میں مرتب ہوئی۔ پریم چند کے فن میں اس تکنیک کی جھلکیاں پیدا ہو گئی ہیں۔ ظاہر ہے کہ انہیں اس تکنیک کی خبر نہیں تھی لیکن ذہن کے مطالعے اور شعور اور لاشعور کی کشمکش میں یہ تکنیک اجاگر ہو گئی ہے۔ موضوع تو خود اپنی تکنیک منتخب کر لیتا ہے۔ (صفحہ ۸۶) شکیل الرحمن نے اس سلسلے میں بطور خاص پریم چند کے افسانے ’’بازیافت‘‘ کا حوالہ دیا ہے جس میں نفسی تاثرات، آزاد تلازمہ خیال اور نفسی تصورات (Psychic Images) سے کام لینے کے طریقے سے افسانہ نگار نے مددلی ہے۔
پریم چند نے بچے کا کردار واقعات کے نشیب و فراز میں جس طرح پیش کیا ہے وہ اس لیے بھی ہمیں متوجہ کر لیتا ہے کہ افسانہ نگار نے بچے کی معصوم اور بے داغ شخصیت، اس کے تخیل کی سنہری بستی اور اس کی بے ضر ر تمناؤں کی مرقع کشی میں پختہ ذہن اور بالیدہ شخصیت سے اس کے ٹکراؤ کو اساسی اہمیت کا حامل قرار دیا ہے۔ مارک ٹوئیں (Mark Twain)، کا ہکّل بیری فن (Huckleberry Finn) عالمی ادب میں بچوں کا ایک نمائندہ کردار سمجھا جاتا ہے۔ وہ بڑے لوگوں کی دنیا پر تنقیدی نظر ڈالتا ہے۔ اسی طرح ہنری جیمس کے ’’What mais ie Knew‘‘ میں منیری کا کردار بڑے لوگوں کی دنیا کو اپنے نقطہ نظر سے دیکھتا اور اس کے احتساب کی کوشش کرتا ہے۔ در اصل بچہ ایک ایسی پاکیزہ اور تصنع سے عاری دنیا کی مخلوق ہے جہاں کذب و افتراء، نمائش، ملمع کاری اور ظاہر داری کو کہیں جگہ نہیں مل سکی۔ بچوں کی نفسیات،ان کی چھوٹی چھوٹی خواہشات اور ان کے اظہار کے طریقے کہانی کی فضا اور وقوعے کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔ پریم چند کے افسانوں میں مختلف عمر کے بچے ہمارے سامنے آتے ہیں۔ ’’رام لیلا‘‘ ’’قزاقی‘‘ ’’عیدگاہ‘‘ ’’سوتیلی ماں‘‘ ’’بوڑھی کاکی‘‘ ماں کا دل‘‘ ، مہا تیرتھ‘‘ ، ’’گلی ڈنڈا‘‘ ، مندر‘‘ ، ’’دو بیل‘‘ ، ’’چوری‘‘ ، بڑے بھائی صاحب‘‘ اور ’’دودھ کی قیمت‘‘ میں بچوں کے کردار پریم چند نے بڑی بالغ نظری کے ساتھ پیش کیے ہیں۔ ’رام لیلا‘ میں پریم چند نے بتایا ہے کہ بچے اپنے محبوب کرداروں سے جذباتی قرب اور یگانگت محسوس کرتے اور ان کی فتح و شکست کو اپنا ذاتی معاملہ تصور کر لیتے ہیں۔ بچے پنے ہیرو کو بلندی پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ اور اس سے کسی قسم کی کمزوری منسوب نہیں کر سکتے۔ لیکن جب یہی ہیرو کسی انسانی کمزوری کا شکار ہو جاتا ہے تو ان کا بنایا ہوا بت ٹوٹ جاتا ہے اور شکست خواب کا رد عمل عجیب و غریب صورتوں میں ظاہر ہوتا ہے۔ ’’رام لیلا‘‘ میں جب معصوم لڑکا اپنے والد سے پیسے مانگ کر ان کی ڈانٹ سنتا اور پھر والد کو طوائف پر پیسے نچھ اور کرتا ہوا دیکھتا ہے تو گھر کے اس ہیرو کا بت بری طرح ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے۔ اس کا رد عمل کہانی میں دیکھا جا سکتا ہے۔ بچہ کہتا ہے :
’’اسی روز سے والد صاحب سے مرا اعتماد اٹھ گیا میں نے پھر کبھی ان کی ڈانٹ کی پرواہ نہیں کی۔ میرا دل کہتا ہے کہ آپ کو مجھے نصیحت کر نے کا کوئی حق نہیں ہے مجھے ان کی صورت سے نفرت ہو گئی وہ جو کہتے ہیں ٹھیک اس کے برعکس کرتا۔‘‘
شکیل الرحمن نے بچے کے اس نفسیاتی رد عمل کا اچھا تجزیہ پیش کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ بچے کا ذہن گھریلو زندگی کے واقعات سے کس طرح متاثر ہوتا ہے اور عقیدت کو نفرت میں بدلتے دیر نہیں لگتی۔ ’’قزاقی‘‘ کا نقاد نے ٹیگور کی کہانی ’’کابلی والا‘‘ سے اچھا موازنہ کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس کہانی میں پریم چند نے بچے کی نفسیات، ذہنی الجھن، اس کے معصومانہ احتجاج اور پھر ذہنی آسودگی کو بڑے فنکارانہ انداز میں پیش کیا ہے۔ ’’سوتیلی ماں‘‘ میں بچے کے کردار کا نفسیاتی تجزیہ کرتے ہوئے شکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ سوتیلی ماں کے کردار کو پریم چند نے ایک ’’آئیڈیل کردار ‘‘ بنا دیا ہے۔ سوتیلی ماں کی بے انتہا محبت کے باوجود منو اس سے ہمیشہ خوف زدہ رہتا ہے کہ اس کی حقیقی ماں کی طرح کہیں وہ اسے چھوڑ کر چلی نہ جائے۔ شکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ سگمنڈ فرائڈ کے مطابق یہ ایک قسم کی نفسیاتی الجھن ہے اور وہ اس کو (Reality Anxiety) سے تعبیر کرتا ہے۔ پریم چند نے بچے کی نفسیات کے اس پہلو کو بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ’’حج اکبر‘‘ میں ننھے کی ماں سکھدا بچے کی دایہ رودرمنی سے بدگماں ہو کر اسے ملازمت سے علاحدہ کر دیتی ہے۔ یہ واقعہ بچے کی زندگی کا ایک المیہ بن جاتا ہے۔ شکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ فرائڈ نے اس محرومی کو ’’Privaion ‘‘ سے تعبیر کیا ہے جو ذہن پر خارجی حالات کے دباؤ کا نتیجہ ہوتا ہے۔ پریم چند نے ’’نادان دوست‘‘ ، ’’گلی ڈنڈا‘‘ ، ’’اناتھ لڑکی‘‘ ، دو بھائی‘‘ ، ’’اماں‘‘ ، ’’خواب راحت‘‘ ، اور ’’انجام محبت‘‘ میں بچوں کے ذہن اور ان کی فطرت کے مختلف پہلو اجاگر کیے ہیں۔ ٹیگور، مارک ٹوئن، ہنری جیمس، ہانس اینڈرسن، ٹالسٹائی، پیرولاٹ، چارلس لیمپ، جیمس بیری، لیوس کرول اور بعض دوسرے فنکاروں کی طرح پریم چند نے بھی بچوں کی نفسیاتی زندگی سے دلچسپی لی ہے اور ان کا تجزیہ کر نے کی کوشش کی ہے۔
شکیل الرحمن نے پریم چند کے تصور زندگی کو ان کے کرداروں کے اعمال وافعال میں دیکھنے اور دکھانے کی کوشش کی ہے۔ ’’چو گان ہستی‘‘ کے سور داس میں ایک سچے کھلاڑی کی اسپرٹ موجود ہے وہ کہتا ہے ’’کھیلنا تو اس طرح چاہیے کہ نگاہ جیت پر رہے پر ہار نے سے گھبرائے نہیں ایمان کو نہ چھوڑے۔ جیت کر اتنا نہ اترائے کہ اب کبھی ہار ہو گی ہی نہیں۔ یہ ہار جیت تو زندگی کے ساتھ ہے‘‘ ۔ (چو گان ہستی حصہ دوم، صفحہ ۱۸۴)پریم چند کے فکشن میں زندگی صرف ہار یا صرف جیت نہیں اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایماندار اور مخلص آدمی، لالچی اور بے ایمان شخص سے شکست کھا جاتا ہے اور کبھی خلوص و محبت کو شاندار فتح نصیب ہوتی ہے۔ پریم چند نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ انسان صرف فرشتہ یا محض شیطان نہیں ہوتا۔ اس کی فطرت، مزاح اور افتاد طبع پر متعدد خارجی اور نفسیاتی محرکات اثر انداز ہو کر اسے ایک مخصوص سانچے میں ڈھال دیتے ہیں۔ شکیل الرحمن پریم چند کے المیہ کرداروں کا تجزیہ کرتے ہوئے اس نتیجے میں پہنچتے ہیں کہ پریم چند کے کرداروں میں زیادہ پیچ و خم نہیں جیسا کہ جدید فکشن میں پیش کیا گیا ہے۔ ’’کفن‘‘ کے گھیسو اور مادھو دونوں المیہ کردار ہیں۔ بدھیا جو ان کی زندگی کا واحد ذریعہ معاش ہے زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہے لیکن یہ دونوں باہر الاؤ کے پاس بیٹھے آلو بھون کر کھا رہے ہیں۔ نقاد کا خیال ہے کہ یہ دونوں طبقاتی زندگی کے المیہ کے ساتھ اپنی نفسیاتی کیفیتوں کی وجہ سے ’’کیریکٹر‘‘ بن گئے ہیں۔ (فکشن کے فنکار پریم چند، صفحہ ۱۳۳) ان کا تجزیہ کرتے ہوئے شکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ ان دونوں کرداروں کی جڑیں ان کی سائیکی میں تو ہیں لیکن اس سائیکی کا گہرا رشتہ معاشرتی عوامل اور محرکات کے متناقض (Paradox) سے ہیں۔ (صفحہ ۱۳۴) نقاد کا خیال ہے کہ ’’بوڑھی کاکی‘‘ ، ’’مس پدما‘‘ ، بازیافت‘‘ ، دو بہنیں‘‘ ، ’’دو سکھیاں‘‘ ،’’سکون قلب‘‘ ’’سوت‘‘ ، اور بعض دوسری تخلیقات میں عورتوں کا کردار المیہ ہے اور ڈرامائی کشمکش، شخصیت کے داخلی دباؤ، ’’دفاعی میکانیت‘‘ ( Defense Mechanism) سے المیہ کرداروں نے اپنا معیار قائم کر دیا ہے۔
پریم چند کے افسانوں کی تکنیک کا تجزیہ کرتے ہوئے شکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ پریم چند کے بعض افسانے و داستانوی رنگ میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ابتدائی حصہ اور نقطہ آغاز قدیم قصوں کے طرز کی یاد دلاتا ہے۔ ’’دو بیل‘‘ میں پریم چند لکھتے ہیں : ’’جمہوری کا چھی کے پاس دو بیل تھے ایک کا نام ہیرا اور دوسرے کا موتی‘‘ ۔ پریم چند اس طرز کی کہانیوں میں ابتدا ہی سے قاری کا قرب حاصل کر لیتے ہیں اور کسی تکلف یا تصنع کو جگہ نہیں دی جاتی لیکن یہ پریم چند کی افسانہ نگاری کا واحد رنگ نہیں۔ ’’خون سفید‘‘ کی ابتدا علامتی ہے اس میں جس اشارتی اسلوب کو اپنایا گیا ہے اسے شکیل الرحمن کہانی کی اصل روح تصور کرتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ پریم چند نے کہانی سنانے کے قدیم انداز میں نئی جہت پیدا کی۔ پریم چند کے بعض افسانے درمیانی کڑی کو پیش کرتے ہوئے اپنا ابتدائی سفر طے کرتے ہیں۔ ’’سر پر غرور‘‘ ، ’’نگاہِ ناز‘‘ ، خواب پریشاں‘‘ بھاڑے کا ٹٹو‘‘ ، ’’آہ بے کس‘‘ ، ’’پوس کی رات‘‘ اور ’’شدھی‘‘ اسی تکنیک کے رہین منت ہیں اور قاری کے تجسس کو اتبداء ہی سے مہمیز کرتے ہیں۔ پریم چند نے ڈائری کی ٹیکنک میں بھی افسانے لکھے ہیں اور مکتوب نگاری سے بھی کہانیوں میں مدد لی ہے۔ ’’دو سکھیاں‘‘ اور ’’کسم‘‘ جیسے افسانے مثال میں پیش کیے جا سکتے ہیں۔ پریم چند نے بعض وقت بہت مختصر افسانے بھی لکھے ہیں۔ افسانے میں ان کا طرز تحریر ٹکنیک پر ان کے عبور اور قصہ گوئی کے سلیقے کو ظاہر کرتا ہے۔ ’’دیوی‘‘ قوم کا خادم‘‘ اور ’’بند دروازہ‘‘ پریم چند کے مختصر ترین افسانے ہیں۔ ’’ابھاگن‘‘ ، ’’چکمہ‘‘ ،’’جنت کی دیوی‘‘ وغیرہ بھی مختصر ہیں لیکن ہر لحاظ سے مکمل اور بھرپور۔ پریم چند کے ابتدائی افسانوں میں مکالمہ لکھنے کا انداز کم و بیش وہی ہے جو ڈراموں میں ملتا ہے۔ یعنی کردار کا نام لکھ کر اس کے سامنے مکالمہ لکھنا۔ ’’زاد راہ‘‘ میں پریم چند کی افسانہ نگاری اور فنکاری کے اعلیٰ نمونے ملتے ہیں۔ پریم چند نے اپنے بعض افسانوں کا عنوان کہانی کے انجام کی مناسبت سے تجویز کیا ہے۔ مثلاً ’’طلوع محبت‘‘ ، ’’دھوکا‘‘ ، ’’پچھتاوا‘‘ ، ’’قربانی‘‘ اور سہاگ کا جنازہ‘‘ علامتی عنوانات سے بھی کام لیا گیا ہے۔ مثلاً ’’ترشول‘‘ ، ’’کفن‘‘ ، ’’دودھ کی قیمت‘‘ ، ’’کفارہ‘‘ اور ’’شطرنج کی بازی‘‘ وغیرہ۔ بعض افسانوں کے نام کسی کردار کے نام سے زینت پاتے ہیں۔ آخر میں نقاد نے پریم چند کے اسلوب بیان کو قصہ گوئی کے لیے بہت موزوں اور مناسب قرار دیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ کہیں کہیں داستانی اور اساطیری رنگ بھی نمایاں ہو گیا ہے۔ شکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ پریم چند کے افسانوں میں اسلوب کا ارتقاء بھی اپنی جھلک دکھاتا ہے اور ان کے طرز بیان میں اشاریت نے بھی جگہ پائی ہے۔ مثال میں ’’آتما رام‘‘ اور ’’پنچایت‘‘ پیش کیے جا سکتے ہیں۔ مقام، پیشہ اور طبقے کے پس منظر میں ابھر نے والے مکالمات نے پریم چند کے افسانوں میں جان ڈال دی ہے۔ فضا آفرینی اور فطرت نگاری میں دیومالائی رنگ اور داستانی عناصر کے ساتھ علامتی اسلوب کی مثالیں بھی موجود ہیں۔
شکیل الرحمن خارجی حالات کے پس منظر میں پریم چند کی تحریروں کا تجزیہ کر نے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ شخصی عوامل جس طرح بیرونی دنیا سے اثر پذیر ہوتے ہیں ان کا بھی ادراک کیا ہے اور خارجی پس منظر میں فرد کی جذباتی زندگی اور اس کے نفسیاتی پہلو کو بھی پیش نظر رکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’بازار حسن‘‘ میں کوئی وجہ نہیں کہ تقسیم بنگال کی تحریک کا تجزیہ کریں اور اس ناول کے اہم کردار سمن کے جذبات و احساسات اور اس کی جبلتوں کا مطالعہ نہ کیا جائے۔ تلک، گوکھلے اور آر بندوگھوش کی جدوجہد اور اصلاح پسندی کو دیکھیں اور سمن کے مزاج کو سمجھنے کی کوشش نہ کریں (صفحہ ۱۵) شکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ پریم چند کے اصلاحی مقصد کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ لیکن ان کے فن کی اصل روح تک پہنچنے کی کوشش بھی ضرور ی ہے۔
مختصر یہ کہ پریم چند پر شکیل الرحمن کی یہ تصنیف ایک منفرد حیثیت کی حامل ہے اور افسانہ نگار کے فن کے مزاج سے آشنا ہونے کے لیے قاری کو تجزیے کا ایک نیا دروازہ کھول کر ایک نئی علمی کائنات میں پہنچا دیتی ہے۔