وہ گھر پہنچ ہی چکی تھیں تقریباً ۔۔۔ ملائکہ کا دل ہول سا رہا تھا کسی انہونی کے احساس سے۔۔۔ بے نام سی بے چینی تھی اس کے اندر۔۔۔۔
” آؤ اندر آؤ بیٹا ” وہ پیار سے بولتیں اسے اندر لے گئیں۔۔۔
” امبر کہاں ہے میم ؟؟؟ ” اس کو عجیب لگا یوں اکیلے بیٹھنا تو پوچھ بیٹھی ۔۔۔
” تم بیٹھو تو ۔۔۔ ابھی بلاتی ہوں میں اسے ۔۔۔۔۔ پانی تو پی لو ؟؟ بلکہ رکو میں خود ہی کچھ لے آتی تمہارے لیئے۔۔۔۔ ”
وہ بولتی ہی کچن میں چلی گئیں اور ملائکہ حیرت سے آنکھیں پھاڑے دیکھتی رہ گئی ۔۔۔۔
” یہ لو پیو ملائکہ ”
وہ اس کیلئے چائے لائی تھیں ۔۔
” امبر کہاں ہے ؟؟ ”
انہوں نے چائے کا کپ پکڑایا تو ملائکہ نے دو گھونٹ لینے کے بعد لہجے میں سختی اور پریشانی لیے دوبارہ پوچھا۔۔۔
” کہیں بھی نہیں ۔۔۔”
عام سے لہجے میں جواب آیا ۔۔۔
” مطلب کیا ہے آپ کا۔۔۔ کہاں ہے وہ ۔۔۔ ؟؟؟ ”
وہ پریشانی سےکھڑی ہوئی پر ہو نہیں پائی ۔۔۔۔ جانے ٹانگیں کیوں کانپ رہی تھیں۔۔ ۔۔
” کہاں ہےوہ ؟؟” وہ پھر بولی ۔۔۔۔
اب اسے کچھ غلط ہونے کااحساس شدت سے ہو رہا تھا ۔۔۔۔
وہ ہوش وحواس سے بیگانی ہوتی جارہی تھی ۔۔۔ اس نے اپنے گھومتے سر کو بمشکل تھاما ہوا تھا ۔۔۔۔ گھومتے سر سے وہ میم زارا کی شکل بھی گھومتی محسوس کر رہی تھی ۔۔۔
پر بے ہوش ہونے سے پہلے ان کی گہری سے گہری ہوتی مسکراہٹ اس کی نظروں سے اوجھل نہیں رہ پائی تھی۔۔۔
اس کے ہوش سے بیگانہ ہوتے ہی وہ اٹھ کے فرید کو کال کرنے لگیں۔۔۔۔۔
وہ غور سے اسے دیکھ رہی تھیں ۔۔۔ اب تک جتنی بھی لڑکیاں وہ فرید کو سپلائی کر چکی تھیں ،،، یہ ان سب میں بہت پیاری تھی ۔۔۔
کشادہ پیشانی۔۔۔ گہری سیاہ آنکھیں اور لانبی پلکیں ،، ستواں ناک اور
اور ناک میں چمکتا چھوٹا سا نگ ،، تراشیدہ ہونٹ ،، اور صراحی دار گردن۔۔۔۔
فرید آچکا تھا اور تفصیلی جائزہ لے ہی رہا تھا وہ جانے اور بھی کیا کیا دیکھتا ابھی کے میم زارا نے اسے ٹوکا
” کیا ہوا حیران ہوئے کیا؟؟؟ ” وہ اس کی آنکھوں کی چمک دیکھ چکی تھیں۔۔
” ہاں واقعی اینٹیک پیس۔۔ ” وہ اسے دیکھتے جیسے خواب سے جاگا تھا۔۔۔
” میں جا رہا ہوں سب سنبھال لینا۔۔ ” وہ باہر گلی میں جھانکتے ہوئے بولا جو سنسان پڑی تھی۔۔
” بے فکر ہو کےجاؤ ” انہیں نے اسے تسلی دی ۔۔۔
فرید نے آرام سے اس دھان پان سی ملائکہ کو کندھے پہ لاد کے باہر کھڑی گاڑی میں لٹایا۔۔
اور ڈرائیونگ سیٹ پہ آنے سے پہلے میم زارا کے باقی پیسے اسے دیے۔۔۔۔ پھر گاڑی لے کے ناجانے کس انجان منزل کی جانب رواں ہو گیا تھا۔۔
میم اندر واپس اندر آگئیں تھیں ۔۔۔۔ شائد کل کی تیاری کرنی تھی۔۔۔۔
دو چہرے سجائے اپنا کام کرنا آسان کام تو نہیں تھا ۔۔۔ وہ کر رہی تھیں ۔۔۔ اچھے بھلے کام کے ماتھے کا بدنما داغ بنی ہوئی وہ عورت جو تعلیم جیسے مقدس پیشے کو بد نام کر رہی تھیں۔۔
لالچ بھی عجیب ہی چیز ہوتی ہے ۔۔۔۔ کیا سے کیا کروا دیتی ہے ۔۔ اور محسوس بھی نہیں ہونے دیتی۔۔۔
” اونچے قد کے” بونے” لوگ
لب پہ میٹھے میٹھے بول
دل میں کینہ ، بغض ، ریا لفظوں کا بیوپار کریں
نیت میں ازلوں سے کھوٹ مطلب ہو تو پیار کریں
جھوٹے دعوے یاری کے
شعبدے ہیں مکاری کے
وقت پڑے تو کھلتے ہیں
اونچے قد کے ” بونے ” لوگ ۔۔۔۔۔”
( منقول)
*******__________*********_________********
” ملائکہ۔۔۔ پانی پلا دو پتر ۔۔۔”
شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے۔۔ آسمان پہ جاتے سورج کی کرنیں بہت خوبصورت منظر پیش کر رہی تھیں پر دیکھنے کی فرصت کسے تھی ۔۔۔
ملائکہ گھر نہیں پہنچی تھی ۔۔۔ نازیہ بی بی بدحواس سی بیٹھی تھیں ۔۔
ابھی اس کے والد گھر واپس آئے تھے اور پوچھ رہے تھے۔۔
” کل صبح احسان کی ماں باپ آرہے شادی کی تاریخ لینے تیاری کر لینا ۔ ”
نازیہ بی بی کو بولتے ساتھ ہی ملائکہ کو پھر آواز دی۔۔
” پانی لا بھی دے پتر۔۔”
پر وہ ہوتی تو جواب دیتی نا ۔۔ نازیہ بی بی کو خاموش دیکھ کر انہوں نے پھر اسے بلانے کےلئے منہ کھولا ہی تھا کے نازیہ بولیں۔۔۔۔
” وہ نہیں ہے اندر …”
” ہیں نہیں ہے کہاں گئی ۔۔۔ ” انہیں بات کی سمجھ میں آئی تھی سو نارمل سے انداز میں بولے ۔۔۔۔۔
” وہ گھرنہیں آئی ۔۔۔” انہوں نے پھر اتنا سا ہی کہا ۔۔۔ ان کے حواس ساتھ چھوڑتے جارہے تھے ۔۔۔۔
” کہاں گئی جو نہیں آئی ابھی ۔۔۔”
اب کے اس کے والد کو بھی نازیہ بی بی کی آواز عجیب لگی تو تھوڑا چونک کے بولے۔۔۔
” ابھی کولج سے واپس نہیں آئی ہے وہ ۔۔” نازیہ بی بی سر ہاتھوں پر گراتے ہوئے بولیں ۔۔۔
” کیا مغرب کی اذان ہو رہی اور تو اب بتا رہی ہو ۔۔۔۔”
ان کی آواز پھٹی ہوئی محسوس ہو رہی تھی جیسے چیخنا چارہے ہوں پر بول بھی نہ پارہے ہوں ۔۔۔
کیا کرتے جوان لڑکی کو پڑھانے کی ذمہ داری اپنی پوری بستی والوں سے مخالفت کر کے مول لی تھی۔۔۔
اب اس کا رات تک واپس نہ آنا کیا بن سکتا تھا اور صبح آنے والا رشتہ۔۔ اس سے زیادہ ان سے سوچا نہیں جا رہا تھا۔۔۔
” کہاں جا سکتی ہے۔۔۔ ؟؟؟” وہ سوچ رہے تھے ۔۔۔ نازیہ بی بی رو وہی تھیں اب ۔۔۔ رونے کے سوا کر بھی کیا سکتے تھے ۔۔۔
رات گہری ہوچکی تھی ساتھ ہی نصیب بھی گہرے ہوتے جا رہے تھے۔۔۔ مگر اس کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا ۔۔۔
کہاں جاتے کوئی در بھی نہ تھا سوائے خدا کے اور اب نازیہ بی بی مصلیٰ پہ ہاتھ پھیلائے بیٹھی تھی ۔۔۔
کہتے ہیں دکھوں کے لمحے آہستگی سے گزرتے ہیں پر یہاں شائد اور دکھوں کو آنا تھا جو رات دوڑتے بھاگتے گزر رہی تھی ۔۔۔
تہجد کا وقت ہو چکا تھا ۔۔۔۔ نہ کھانے کا ہوش تھا نہ پانی پینے کا دل۔۔۔۔ کل دن کا بنا کھانا باسی ہو چکا تھا اب ۔۔۔
چاہ خواہش تو جینے کی بھی نہیں رہی تھی انہیں ۔۔۔۔ ہر گزرتا لمحہ انہیں کمزور کر رہا تھا۔۔۔ انہیں بزدل بنا رہا تھا اور وہ بزدل بنتے جا رہے تھے ۔۔ ہاں بیٹیوں کے ماں باپ بزدل ہی تو ہوتے ہیں ۔۔۔
وہ چاہے کتنے ہی پڑھے لکھے کتنے ہی آزاد خیال کیوں نہ ہوں ۔۔۔۔ پر بیٹی کو لمحے کیلئے بھی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہونے دیتے ۔۔۔
اس لیے نہیں کے وہ اپنی اولاد پہ یقین نہیں کرتے اس لیئے کے دنیا والوں کی زبان کے آگے خندق ہوتی ہے ۔۔۔ جس کی گہرائی ماپنا بہت مشکل ہے ۔۔۔۔
اپنے گریبان میں کوئی نہیں جھانکتا ۔۔۔ دوسروں کیلئے ہر کوئی فلاسفی بنا ہوتا ہے۔۔۔ خود کو کوئی کچھ نہیں کہتا ۔۔۔ اپنے بارے کوئی ایک لفظ بھی نہیں برداشت کرتا ۔۔۔۔ پر دوسروں کی زندگی کو ذاتی جاگیر سمجھ کے حکمرانی ہر کوئی کرنا چاہتا ہے۔۔۔
رات بیت چکی تھی ،،،، صبح صادق کا وقت تھا ۔۔۔۔ انہوں نے کسی کو کچھ نہیں بتایا تھا پوری رات گزرنے بعد بھی ۔۔۔
اب انہیں ایک نئی پریشانی تھی ۔۔۔۔
” احسان کے گھر والوں کو کیا کہیں گے ہم ؟؟؟؟ ” نازیہ بی بی کی آواز نے گہرے بےحس سکوت کو توڑا ۔۔۔
“کیا کہیں گے؟؟ ” ملائکہ کے والد نے غائب دماغی سے کہا ۔۔۔
یکایک نازیہ بی بی دوڑ کے دروازے تک گئیں ۔۔۔۔ ان کے دل میں کلبلاتا شک مزید گہرا ہو رہا تھا ۔۔۔ فیکا باہر موجود نہیں تھا۔۔۔۔۔
” کیا دیکھا ؟؟ ” انہوں نازیہ سے پوچھا۔۔۔
” فیکا ۔۔ کک ۔۔۔۔کوئی نہیں باہر۔۔۔۔ ککک کیا وہ خود گئی ۔۔۔ گھگ ۔۔۔ گھر ۔۔۔ سس ۔۔۔ سے ….” گھگھیا کے بولتی نازیہ سوچ کا ایک اور رخ وا کر گئیں تھیں ۔۔۔۔
” نن نہیں ۔۔۔ میری بیٹی ایسا کر ہی نہیں سکتی۔۔ کیوں کے مجھے اپنی بیٹی پے پورا بھروسہ ہے ۔۔ ہاں مجھے یقین ہے وہ کسی مصیبت میں ہے۔۔۔۔۔ وہ ایسے کیسے ہمارا سر جھکا سکتی ہے۔۔
وہ خود ہی بولتی خود ہی جواب دیتے جا رہی تھیں۔۔۔ جانتی تھیں کہ بیٹیاں ہر بار غلط نہیں ہوتی ہیں۔۔۔ بیٹیاں تو وفا ہوتی ہیں۔۔ غلطی کرتی ہیں ۔۔۔۔ پر احساس کر لیتی ہیں۔۔۔۔
” بیٹیاں خوبصورت ہوتی ہیں
دل کے زخم مٹانے کو
آنگن میں اتری بوندوں کی طرح ہوتی ہیں
نا مہرباں دھوپ میں سایہ دیتی
نرم ہتھیلیوں کی طرح ہوتی ہیں
بیٹیاں تتلیوں کی طرح ہوتی ہیں
بیٹیاں چڑیوں کی طرح ہوتی ہیں
تنہا اداس سفر میں رنگ بھرتی
رداؤں کی طرح ہوتی ہیں
بیٹیاں چھاؤں جیسی ہوتی ہیں
کبھی بلا سکیں ، کبھی چھپا سکیں
بیٹیاں ان کہی صداؤں جیسی ہوتی ہیں
کبھی جھکا سکیں ، کبھی مٹا سکیں
بیٹیاں اناؤں جیسی ہوتی ہیں
کبھی ہنسا سکیں کبھی رلا سکیں
کبھی سنوار سکیں کبھی اجاڑ سکیں
بیٹیاں تو تعبیر مانگتی دعاؤں جیسی ہوتی ہیں
حد سے مہرباں ، بیان سے اچھی
بیٹیاں تو وفاؤں جیسی ہوتی ہیں۔ ”
تبھی دروازے پہ ہوتی دستک نے ان کے اوسان خطا کیے تھے ۔۔۔۔
______________________________________________