دن گزرتے چلے جا رہے تھے۔۔ کالج اپنی روٹین کے مطابق چل رہا تھا۔۔
فری پیریڈ میں امبر اور وہ ساتھ ہی بیٹھی تھیں۔۔ امبر کے ہاتھ میں جدید موبائل دیکھ کے ملائکہ اس سے باز پرس کر رہی تھی۔۔
” بتاتی کیوں نہیں ہو کہاں سے لیا ہے ؟؟ ” اس نے تیز لہجے میں پوچھا۔۔۔
” یار ماما نے لے کے دیا ہے ” اس نے جیسے تھک کے جواب دیا۔۔
” سچ کہ رہی ہو ؟؟ “۔ اس کا شک نہیں ختم ہوا تھا۔۔
” ہاں یار چلو آؤ سیلفی لیتے ہیں۔۔”” امبر اسے جواب دیتے بولی۔۔
“دماغ ٹھیک ہے تمھارا کوئی ضرورت نہیں ” وہ نقاب کو جمائے بولی،،
” کم آن یار یہاں کوئی نہیں دیکھ رہا ” وہ اسے مطمئن کرتی بولی اور زبردستی کچھ تصویریں لے لیں۔۔
” مجھے دے دینا یہ تصویریں ” وہ نچلے طبقے سے تعلق رکھنے ک باوجود موبائل اور انٹرنیٹ کے استعمال سے خوب واقف تھی۔۔
“اوکے اوکے فکر نہ کرو مل جائیں گیں تمہیں ” امبر نے اسے مطمئن کیا
” اچھا چلو کلاس کا ٹائم ہو گیا ہے” وہ کتابیں سمیٹتی اندر کے جانب بڑھی تو امبر بھی اس کے ہم قدم ہوئی اس بات سے انجان کے ان مختصر سے لمحوں میں حُسن کو کسی کی نظر لگ چکی ہے ۔۔۔۔
**********___________*********_________*********
” ابھی آرام کریں آپ شام میں چلتے ڈاکٹر کے پاس۔۔ ”
وہ لوگ گھر پہنچ چکے تھے۔۔۔ سمیر باہر لاؤنج میں ہی بیٹھ گیا تھا اور احتشام انہیں روم میں دوا دے کے سلا رہا تھا۔۔۔
ان کے سوتے ہی احتشام بھی لائیٹس آف کرتا باہر چلا گیا ،، سمیر آنکھیں موندے صوفے پہ دراز تھا۔۔ وہ آہستگی سے اس کے پاس بیٹھا …
سمیر نے ہلکے سے سر اٹھا کے دیکھا اور سیدھا ہو بیٹھا۔۔۔۔
” آخری بار کب ملے تھے اس سے ؟؟ ” احتشام نے سامنے دیوار پہ نظریں جمائے پوچھا۔۔
” ابا کے جانے کے ایک دن بعد آئیں تھیں وہ ” سمیر گلوگیر لہجے میں بولا۔۔۔
” کبھی ملی نہیں پھر ؟؟ ” احتشام نے بیٹھی آواز پوچھا ۔۔
” بہت ڈھونڈا پورا کراچی ۔۔۔۔ جہاں جہاں امید تھی وہاں وہاں ڈھونڈا ۔۔۔ پر نہیں ملنا تھا نہیں ملی ۔۔۔۔ جانے کہاں گئیں۔۔۔ ” سمیر سر جھکاتے ہوئے بولا ۔۔۔
احتشام اب بھی دیوار پہ موجود غیر مرئی نقطے کو گھور رہا تھا۔۔۔۔
سمیر اپنی جگہ سے اٹھ کر اس پاس قدموں میں بیٹھتے ہوئے بولا تھا۔۔
” بھائی انہیں ڈھونڈیں لائیں نا پلیز……” احتشام اسے دیکھ کر گہری سانس لیتے ہاں میں سر ہلا چکا تھا ۔۔۔۔
********__________********__________******
” میں وہ کیسے تمہیں دے دوں جگر کا ٹکڑا ہے وہ میرا ؟؟” روتے ہوئے فریاد کی گئی تھی۔۔
پچیس چھبیس سال کا لڑکا اس عورت کے آنسو دیکھ کے بھی نہیں پگھل رہا تھا۔۔ وہی سڑک چھاپ غنڈوں کا حلیہ ۔۔۔ اس کے ہاتھ میں موجود ریوالور اس کی دہشت بڑھا رہا تھا۔۔۔۔
” دیکھ بی بی ہمیں مال چاہیے ایک دم ٹاپ کا ۔۔۔ اور مجھے پسند آئی ہے وہ اگر زبان بند رکھے گی تو مل جائے گی دوبارہ۔۔ کچھ راتوں کی ہی تو بات ہے۔۔ صاحب ایک چیز بار بار استعمال نہیں کرتا ۔۔۔ مل جائے گی تجھے تیری بیٹی۔۔۔”
وہ جھنجھلائے لہجے میں بول رہا تھا۔۔
” بیٹی ہے وہ میری اور تو کہتا میں اسے کسی کے بستر پہ۔۔۔ ” وہ نہ میں سر ہلاتے رو رہی تھی تبھی بات مکمل نہ کر پائی۔۔۔
” اگر تیری جگہ کوئی اور ہوتی تو ویسے ہی اٹھا لیتا ۔۔۔ مگر جانتا ہوں تجھے اس لیے۔۔۔ اپنی بندی ہے ۔۔۔۔ ان چند راتوں کے پیسے بھی ڈبل دینے کو تیار ہوں میں تجھے ۔۔۔ وارے نیارے کر دے گا تیرے صاحب۔۔۔۔”
وہ اسے نہ مانتے دیکھ کے پینترا بدل کے بولا۔۔۔
” ابھی تو جا رہا ہوں پر آؤں گا دوبارہ ۔۔۔ صاحب کچھ دن تک واپس آجائے گا ۔۔۔ تو اسے چاہئے ہو گی ۔ ۔ سوچ لے تب تک۔۔۔ ” اور اگر ۔۔۔
وہ بولتے بولتے رکا اور ریوالور اس کے ماتھے پہ ٹکاتے بولا۔
۔ ” اگر کوئی چالاکی دکھائی نہ تو تیرے سامنے ہی تیری بیٹی کا حشر بگڑے گا یاد رکھنا ۔۔۔”
وہ جاتے ہوئے دھمکانا نہیں بھولا تھا۔۔۔
********_________*********________********
آدھی رات ہونے کی تھی پر احتشام کی آنکھوں سے نیند کوسوں دوری پہ تھی۔۔ سگریٹ انگلیوں میں دبائے ہاتھ ریلنگ پہ رکھے وہ سوچوں میں گم تھا ۔۔ اس کا ذہن مختلف سوالوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔۔۔
سمیر سے تو کہ آیا تھا کہ ڈھونڈ لیں گے ۔۔۔
کہاں ۔۔۔ اور کیسے ۔۔۔ کی بھی اسے فکر نہیں تھی وہ جانتا تھا پیسے سے کچھ بھی ملتا ہے اور اسے اس کی بھی فکر نہیں تھی۔۔۔۔۔ بے تحاشا تھا اس کے پاس پیسہ۔۔۔۔۔
پر سمیر نہیں جانتا تھا کہ ڈھونڈ تو وہ بھی اسے کتنا چکا تھا کہ بس۔۔۔۔۔۔
” کیا وہ مجھے معاف کر دے گی ؟؟؟ ” اس نے جیسے خود سے پوچھا۔۔۔۔ اور انگارے سے دہکتے سوال سے سینہ اور دماغ جلتا ہوا محسوس کیا ۔۔۔۔
رات گزر رہی تھی ۔۔۔ جلتی سگریٹ کی تپش اب انگلیوں پہ پہنچ رہی تھی۔۔۔۔ پر پرواہ کسے تھی۔۔۔۔۔
” سر اٹھاتا ہے وسوسہ صاحب
جان لیوا ہے مرحلہ صاحب
پھول تھا جو کھلا ، گیا مرجھا
جو ستارہ تھا ، بجھ گیا صاحب
ساتھ رہتے ہیں اک دوجے کے
راستہ ، موت اور حادثہ صاحب
کاٹتا ہے یہاں پہ ہر کوئی
اپنے حصے کا رتجگا صاحب ”
(منقول)
_________________________________