کالج سے چھٹی ہو چکی تھی وہ امبر سے مل کر چادر نقاب سیٹ کرتے واپس گھر جا رہی تھی۔ اس گورنمنٹ گرلز کالج میں بھی اس کا چہرہ ڈھکا چھپا رہتا تھا..
امبر ٹیکسی سے آتی جاتی تھی۔۔ اس کا گھر نسبتاً بہتر علاقے میں تھا۔ اس کے گھریلو حالات بھی ملائکہ کے نسبت کچھ بہتر تھے۔ وہ کسی مچھیرے کی بیٹی نہیں تھی اس کا باپ مر چکا تھا اور ماں کام کرتی تھی۔۔
وہ آج پھر ڈر چکی تھی اپنے کچی پکی اینٹوں پہ بنے گھر کے پاس کھڑے فیکے کو دیکھ کے۔۔۔۔ صد شکر کی دروازے کھلا تھا وہ چھپاک سے اندر داخل ہو چکی تھی ۔۔
داخل ہوتے ہی سیدھی اندر چلی گئی تھی۔۔ کئی دنوں سے وہ اس آدمی کو یہاں دیکھ رہی تھی جو کہتا تو کچھ نہیں تھا،، پر گھورتا بہت گندی نظروں سے تھا..
شل کرتی وجود کے آر پار ہوتی نظریں جیسے لپیٹی گئی چادر کے اندر سے اسے کھنگال رہی ہوتی تھیں۔۔
اس نے سر جھٹکا جیسے فیکے کو ذہن سے نکال رہی تھی۔۔
ایک کمرے میں بیگ اور کتابیں رکھ کر،،، کپڑے تو بدلنے کو تھے نہیں وہ سیدھی باورچی خانے میں مصروف نازیہ کے پاس چلی آئی۔۔
سلام اماں۔۔ وہ سلام کرتی انہیں کے پاس چوکڑی مار کے بیٹھ گئی۔۔
“”آگیا میرا پتر۔۔۔ کچھ کھاؤ گی؟؟” انہوں نے پیار سے اس کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔
“نہیں۔ اماں بھوک نہیں ہے۔۔۔ ابا آگیا کیا” جواب دیتے ساتھ ہی اسنے پوچھا ۔۔۔
“نہیں صاحب لوگوں نے کہیں بھیجا تھا مچھی دینے اس لیے آج تیرا ابا لیٹ آئے گا۔۔”
نازیہ چولہے میں لکڑی آگے کرتی بولیں۔۔
جب کہ ان کا جواب سن کے ملائکہ کا رنگ پھیکا پڑتا چلا گیا۔۔ جانے کیوں وہ اتنی ڈر چکی تھی ؟؟
اس کے ذہن میں باہر کھڑا فیکا گھوم رہا تھا۔۔
********_________********_________*******
سمیر اس کی بات سن کے حیران بلکہ پریشان کھڑا تھا۔۔
“پلیز میری بات مان لو..!” “میں جانتا ہوں مجھے،،،
( درد سے آنکھیں میچیں) یہ سب کہنے کا کوئی حق نہیں پر پھر بھی میرے ساتھ چلے آؤ تمہاری اماں کا اچھا علاج بھی ہو سکے گا”۔۔۔
احتشام نے اسے سٹل کھڑا دیکھ کر اس کے بازو پہ ہاتھ رکھتے اپنی بات دہرائی۔۔
” میں اس لیئے آپ سے نہیں ملا تھا” سمیر نروٹھے انداز میں اس کا ہاتھ ہٹاتے بولا۔۔
احتشام نے تلخ سانس خارج کرتے سر جھکایا،،، جانتا تھا اس کی خودداری کو اس کے بچپن سے ہی۔۔
“میں تمہاری اماں سے ملنا چاہتا ہوں”۔۔ یہ کہتے احتشام جانے ضبط کے کس مرحلے سے گزرا..
سمیر نے غور سے اس کے جھکے سر کو دیکھا جو اب اپنی گاڑی کے بونٹ پہ بیٹھا تھا… عمر اِس سے کم تھی پر تجربہ زیادہ تھا شاید۔۔ جان گیا تھا کہ اس جھکے سر کی وجہ شرمندگی ہے۔۔
” مل لیجیئے گا”
دوسری جانب دیکھ کے وہ فقط اتنا ہی بول پایا۔۔ دل توڑ نہیں پایا تھا وہ۔۔
احتشام نے جھٹکے سے سر اٹھایا اور بے یقینی سے اس کی جانب دیکھا جیسے یقین کرنا مشکل ہو۔۔
سمیر نے ہولے سے سر ہلایا جیسے بولے گئے الفاظ پر مہر ثبت کر رہا ہو۔۔۔
فرط جذبات سے احتشام اسے گلے لگا گیا تھا۔۔
********__________*********________*******
“مے آئی کم ان میم؟؟”
روز کی طرح آج پھر ملائکہ کالج دیر سے پہنچی تھی۔۔ امبر بھی کلاس میں جا چکی تھی۔۔ وہ ڈرتی خدا کا نام لیتی کلاس روم کا ڈور ناک کرتے پوچھ رہی تھی ۔
حیرانگی تو تب ہوئی جب میم زارا نے اسے اندر آنے کی پرمیشن دے دی۔۔ وہ چپ حیران سی آپنی سیٹ پہ امبر کیساتھ جا کہ بیٹھ گئی۔
“یہ جادو کیسے”؟؟امبر نہ اس ٹہوکا دیتے پوچھا۔۔ وہ زیادہ حیران تھی کیونکہ بخشتی تو وہ اپنی بیٹی کو بھی نہیں تھی۔۔ اور ملائکہ سے تو انہیں ویسے ہی بہت بڑی چڑ تھی شائد معمولی مچھیرے کی بیٹی ہونے کی وجہ سے۔۔
“نہیں معلوم یار مجھے،، میں خود حیران ہوں لگتا تھا آج پھر بےعزتی ہونی پوری کلاس کے سامنے مگر۔۔”
ابھی وہ بول ہی رہی تھی کہ میم کو ان کی کھسر پھسر اپنی جانب متوجہ کر چکی تھی۔
“کیا آپ دونوں چپ کریں گی یا؟؟” ان کے ادھورے جملے میں کلاس سے نکالے جانے کی دھمکی واضح تھی۔۔ پر لہجہ میں سختی نہیں تھی۔۔
” سوری میم ” دونوں اکٹھی کھڑی ہو کے بولیں۔۔۔
” اٹس اوکے ناؤ سٹ ڈاؤن ” وہ بولتی ہوئی دوبارہ کلاس کی جانب متوجہ ہو چکی تھیں ۔۔
********_________********_________********
کراچی کے اس گنجان آباد علاقے میں وہ اس وقت موجود تھا…جہاں گاڑی نہیں آسکتی تھی بلکہ پیدل بھی آناجانا مشکل تھا۔۔ اوپر تلے بنے گھر،، گھروں کے نیچے دوکانیں شور وغل کی آواز میں وہ اپنی قیمتی ڈریسنگ میں اور شاندار پرسنالٹی کی وجہ سے کسی اور ہی سیارے سے آیا انسان لگ رہا تھا۔۔۔
وہ ہمت مجتمع کرتا دروازے پہ دستک دے رہا تھا۔۔
سمیر سے ملنے کے بعد وہ کل آنے کا کہ گھر چلا گیا تھا۔۔ اور اگلے ہی دن وہ اس کے گھر کے سامنے موجود تھا۔۔
سمیر کے دروازہ کھولتا ہی وہ اسے ملتے ہوئے اندر لے جانے لگا پر احتشام کے قدم باہر دروازے پر ہی جم گئے۔۔۔
سمیر اس کی کیفیت سمجھ رہا تھا۔۔۔ گہری سانس بھرتے اس کی کندھے پہ دباؤ ڈالتے اپنے ہونے کا احساس دلایا۔۔
احتشام گھر پہ تنقیدی نظر ڈالتے سمیر کے ساتھ اندر کی جانب چل پڑا۔۔
گھر کیا تھا ایک کمرہ اور ایک ہال نما جگہ تھی۔۔ کمرے کی ساتھ ہی چھوٹا سا کچن اور ہال کی سائیڈ پر واشروم موجود تھا۔۔
سمیر اسے سیدھا اندر کمرے میں لے آیا۔۔ چارپائی پہ نحیف سا وجود دروازے کی جانب پیٹھ کیے دراز تھا۔۔ احتشام کے دل کو کچھ ہوا۔
“اماں دیکھو کون آیا ہے”.. سمیر اپنی ماں کو جگاتے ہوئے بولا۔
“کون ہے؟؟” انہوں نے بولتے ہوئی آہستہ سے کروٹ بدلی۔۔اور سامنے کھڑے لمبے چوڑے وجود کو دیکھ کے ان کا جسم کپکپانے لگا۔۔ سمیر اسے وہاں چھوڑ کے باہر جا چکا تھا۔۔
احتشام ایک لمحے کی دیر کیے بنا ان کے پیروں میں جھک گیا تھا..
جانتا تھا گناہ بڑا ہو تو معافی بھی دل کی گہرائی سے مانگنی پڑتی ہے..
وہ سسک رہا تھا پر بولا کچھ نہیں تھا۔۔ کیا بولتا ۔۔۔ تھا ہی کچھ نہیں بولنے کو۔۔۔۔
بعض اوقات خاموشیاں بولتیں ہیں اس وقت بھی خاموشی بول رہی تھی۔۔
گہری معنی خیز خاموشی۔۔
تبھی احتشام نے سر پہ ہاتھ محسوس کیا۔۔ اس نے سر اٹھا کے اماں کی طرف دیکھا وہ اس کی ہی طرف دیکھ رہی تھیں اس کی آنکھوں میں آنسوں دیکھ کر تڑپ ہی تو گئیں تھیں وہ ۔۔
“نہ رو بچے” انہیں نے خود روتے اس کے آنسو صاف کرتے اسے کہا ۔۔
” مجھے معاف کر دیں۔۔ ” وہ ان کے ہاتھ تھامتے بس اتنا ہی کہ پایا تھا ۔۔
“ماں کبھی اپنے بچوں سے ناراض نہیں ہوتی بچے ۔۔ ” وہ اسے پائیتی سے ہٹا کے اپنے پاس بٹھاتے یاسیت بھرے لہجے میں بولیں۔۔
وہ ان کے پاس ہی بیٹھ کر باتیں کرنے لگ گیا تھا۔۔ سالوں کا غبار تھا اس کے اندر۔۔
تبھی سمیر چائے لیے اندر آیا جو خود ہی بنائی تھی اس نے۔۔ وہ احتشام کو دیتے اس کے سامنے نیچے ہی بیٹھ گیا۔۔
احتشام نے موقع دیکھ کر پھر انہیں اپنے پاس لے جانے کی بات چھیڑی..
” پلیز نہ نہیں ” وہ التجائیہ لہجے میں ان کے انکار کرنے سے پہلے ہی بول پڑا۔۔
اس کے لہجے میں چھپی آس ان سے پوشیدہ نہیں تھی۔۔
” ہم وہاں کیسے آسکتے ہیں بھائی جہاں۔۔۔۔” پر سمیر بولا تو صرف اتنا ہی کے ،،،،، وہ جو اس کی طرف ہی دیکھ رہا تھا سمیر کے سوال ادھورا چھوڑنے پرسمجھ گیا ان کے نہ آنے کی وجہ۔۔۔۔ عجب تلخی بھری مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پہ رینگی ۔۔۔
” وہاں رہتا ہی کون ہے؟؟” وہ دھیرے سے پستہ آواز میں بولا۔۔
“ہم آرہے ہیں تمہارے ساتھ ” اماں کے اتنا کہنے کے ہی دیر تھی اس کا چہرہ کھل اٹھا تھا جیسے کوئی ہفت اقلیم ہاتھ لگا ہو۔۔
وہ ان کے تیار ہونے کا انتظار کرتا وہیں بیٹھ گیا تیاری کیا تھی بس تن کے کپڑے ہی سمیٹنے تھے ۔۔ اماں اندر ہی لیٹ گئی تھیں وہ انہیں لیٹا کے باہر آیا تو سمیر کو کپڑے سمیٹتے دیکھا تو اسی کے پاس آگیا۔۔۔
” اماں کو کیا ہوا ہے؟؟ ” احتشام نے دیوار سے ٹیک لگاتے پوچھا ..
” پتہ نہیں ” وہ چھوٹا سا جواب دے کے دوبارہ کام میں لگ گیا۔۔
” کیوں ؟؟” احتشام نے حیران ہوتے پوچھا۔۔
” کیسے لگے پتہ حالت دیکھ تو رہے ہیں آپ..!.. سرکاری ہسپتال میں نمبر نہیں آتا اور پرائیوٹ پیسے مانگتے ہیں جو ہیں نہیں ” وہ جواب دیتے نہ جانے آنکھوں کی نمی کو کیسے روک رہا تھا۔۔۔ ماں تھی نہ تکلیف میں دیکھ کر درد اسے محسوس ہوتا تھا ،، پر شائد اس گھر پہ دکھ اکٹھے ہی ٹوٹے تھے۔۔۔
” اب میں آگیا ہوں نا سب ٹھیک ہو جائے گا ” احتشام نے اسے کندھا تھپکتے تسلی دی اور کہا۔۔
” وہ کہاں ہے؟؟ ” احتشام نے شرمندگی بھرے لہجے میں پوچھا۔۔
“خدا جانے” سمیر اتنا کہ کے خود پہ قابو نہیں رکھ پایا تھا اور رو پڑا تھا احتشام کے کندھے سے لگا اور وہ تسلی کے دو حرف بھی نہیں کہ پایا تھا۔۔ اس کی آنکھیں بھی نم ہو گئی تھیں ۔۔ اسے بامشکل سنبھال کر بٹھایا اور پانی پلایا۔۔
” آجاؤ چلیں ” اتنا کہ کے وہ اماں کو لینے چلا گیا تھا ۔۔
کچھ دیر بعد جب وہ انہیں کے کر اپنے گھر جا رہا تھا تو اس کے ذہن میں ایک ہی بات گونج رہی تھی کہ
“جانے غریبوں کے دکھ اتنے امیر کیوں ہوتے ہیں”
_______________________________________________
تابناک مستقبل کی تشکیل کے لئے ماضی کو محفوظ کرنا ضروری
تابناک مستقبل کی تشکیل کے لئے ماضی کو محفوظ کرنا ضروری اسٹیٹ پبلک لائیبریری ، پریاگ راج میں یونیسکو اور...