جانے کیا خواباں سہانی سوچیاں،،
جانے کیوں بجتی رہی شہنائیاں،،
دیکھ کر مہندی لگے ہاتھاں کبھی…..
جھکی نظر ، مکمل لباس اور پاؤں میں گھنگرو باندھے وہ “صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں” کی عملی تفسیر بنی محفل کو سجائے ہوئے تھی…
آدھی رات سے بھی اوپر کا وقت تھا ۔۔ مگر یہاں تو ایسا لگتا تھا کی ابھی شام بھی نہیں ہوئی تھی۔۔ بازارِحسن جگمگا رہا تھا۔
اور ہر جگہ سے طبلوں کی تھاپ اور پائل کی چھن چھن کی آواز آرہی تھی۔ تارا بائی کے کوٹھے کے باہر ہمیشہ کی طرح آج بھی بے پناہ رش تھا ہوتا بھی کیوں نہ آخر وہ لاہور کے بازارِحُسن کا مشہور کوٹھا تھا. اور وہاں موجود اک اک لڑکی ہیرا تھی۔
جہاں چور اور پولیس ساتھ بیٹھ کے مجرا دیکھتے تھے جہاں تقریباً ہر عیاش اور نفس پرست انسان آچُکا تھا،، یہاں وہی آسکتا تھا جس کی جیب بھاری ہوتی تبھی تارا بائی کو پکڑے جانے کا ڈر نہ تھا اور وہ اپنا تماشا جاری رکھے ہوئے تھی۔
وہ ناچتی جا رہی تھی اور نوٹوں کی بارش ہو رہی تھی۔۔مرد پیسے پھینکنے نے چکر میں اس کیساتھ واہیات حرکتیں بھی کر رہے تھے پر عادت تھی اسے اس سب کی۔۔ وہ عادی تھی اپنی ادائیں دکھانے
کی اور مردوں سے داد وصول کرنے کی،، اس کے ہونٹوں پر دل لبھاتی مسکراہٹ تھی،،
“وہ اس کوٹھے کی بلکہ پورے بازار کی سب سے مشہور طوائف تھی”،،
اسے کچھ عرصہ ہی ہوا تھا یہاں آئے ہوئے مگر اپنی خوبصورتی
اور مہارت کی وجہ سے بہت نام کما چکی تھی تبھی تارا بائی اس کی بلائیں لیتی نہ تھکتی تھی۔۔اس کی ادائیں کمال تھیں۔
تھا یقین کہ آئیں گی یہ راتاں کبھی
تم سے ہووئیں گی ملاقاتاں کبھی۔۔
گانا ختم ہوتے ہی وہ واپس کمرے میں جانے کو مڑی تو پیچھے اک شور بلند ہو چکا تھا ، اسے پتہ تھا کہ تارا بائی سب سنبھال لے گی۔۔۔۔
وہ مسکراتی ہوئی پلٹی اور سر جھکائے سیڑھیوں پر
چڑھی تبھی اس کی مسکراہٹ غائب ہوئی اور آنکھ سے آنسو ٹوٹ کر زمین پہ گر کے بے مول ہوا تھا۔۔
“پڑھنے والوں کا قحط ہے ورنہ
گرتے آنسو کتاب ہوتے ہیں،،”
(منقول)
*********________********__________******
سورج طلوع ہونے میں ابھی کافی وقت تھا۔۔ کراچی کے اس پوش ترین علاقے میں تو ویسے بھی ابھی رات کا سا سماں تھا۔ وہ جاگنگ کر رہا تھا۔۔
ایسا لگتا تھا کہ وہ اپنے حواس میں نہیں ہے۔۔ وہ بس دوڑتا چلا جا رہا تھا تبھی اپنے محل نما گھر سے کافی دور آچکا تھا۔۔
اچانک موبائل ہونے والی میسج بیپ سے واپس ہوش میں آیا تو خود کو وہاں پایا جہاں وہ کبھی بھی نہیں آنا چاہتا تھا۔ اس نے فوراً واپسی کی راہ لیتے شدت سے دعا مانگی کہ کسی سے سامنا نہ ہو پر شاید قبول نہیں ہوئی تھی۔۔
اس کے تھوڑا آگے بڑھتے ہی اسے پیچھے سے سمیر کی آواز آئی جس پہ اس نے رکنے کے بجائے اپنی رفتار مزید تیز
کر دی تھی۔۔
*********___________********___________******
“ملائکہ پتر، اٹھ جا،!، صبح ہو گئی ہے کالج نہیں جانا کیا؟؟۔۔ “نازیہ بی بی ملائکہ کو پیار سے جگاتے ہوئے بولیں..
“اٹھتی ہوں اماں۔۔” ملائکہ آنکھیں ملتی اُٹھ بیٹھی۔
“کہتی بھی ہوں، جلدی سو جایا کر پھر بھی رات دیر تک پڑھنے کا شوق چڑھا ہوتا ہے”؛ نازیہ اس کی آنکھوں کے نیچے پڑے حلقے دیکھتے ہوئے فکر مندی سے بولیں….
” نہیں اماں کچھ نہیں ہوتا،، فکر نہ کر’ میں بالکل ٹھیک ہوں تو جلدی سے ناشتہ بنا دے بس”
ملائکہ نے انہیں مطمئن کیا اور کہا..
“اچھا میں ناشتہ بنا رہی ہوں جلدی سے تیار ہو کے باہر آ” نازیہ بولتی ہوئی سٹور نما کمرے سے باہر آگئیں،،،،
رات دیر تک جاگ کے موم بتی کی روشنی میں پڑھنا بھی ایک الگ مسلئہ تھا،،
جو اُس کی آنکھوں پہ پڑے حلقوں کی وجہ تھی۔۔۔
*******___________*********___________******
“خوابوں کے ٹوٹنے سے بدن ٹوٹنے تلک
محسؔن وه دکھ بتا کہ جو ہم نے سہا نہ ہو”
‘محسن نقوی’
وہ وہاں سے دوڑتا سیدھا اپنے ولا پہنچا تھا۔۔ وہ راستے میں سلام دیتے ملازموں کو اگنور کرتا سیدھے اپنے روم میں پہنچا تھا۔۔
جبکہ ملازم ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ گئے تھے کیوں کہ ایسا کبھی بھی نہیں ہوا تھا کہ ان کا یہ نرم دل باس ان سے اس طرح پیش آتا،،
روم میں پہنچتے ہی وہ بیڈ پہ گرنے کے سے انداز میں بیٹھا تھا….
ایسا نہیں تھا کہ وہ کمزور سا عام سا انسان تھا ۔
وہ مضبوط ترین اعصاب کا حامل انسان تھا۔۔ دنیا میں ایسا کچھ نہیں تھا جو اس کے پاس نہ ہو..
خوبصورتی اور خوب سیرتی خوب تھی کروڑوں کی جائیداد کے اس اکلوتے وارث میں،،
احتشام حسین منہ میں سونے کا چمچ لے کے پیدا ہونے والے انسانوں میں شامل تھا،،
*******___________*********___________******
ملائکہ ناشتہ کر کے کالج کلیئے نکل گئی تھی۔ کالج دور ہونے اور پیدل آنے جانے کی وجہ سے وہ سویرے ہی نکل جاتی تھی۔۔
سمندر کنارے مچھیروں کی بستی جہاں روزمرہ کی سہولیات ہی مشکل سے میسر تھیں وہاں کالج یا سکول جانا ایک عجیب سی بات لگتی تھی۔
وہ مچھیروں کی بستی سے تعلق رکھتی تھی اور اس کا باپ حفیظ بھی ایک معمولی مچھیرا تھا،،
دریا سے مچھلی پکڑ کے بیچ شہر میں جا کے بیچتا اور کچھ امیر گھروں کو دیتا جس کی وجہ سے گزارے لائق اچھی آمدن ہو جاتی۔۔
ملائکہ کو بچپن سے ہی پڑھائی کا شوق تھا اور حفیظ کو پڑھانے
کا،،، سو اس کے دل لگانے پڑھنے پہ اس کو وظیفے پہ سرکاری کالج میں داخلہ مل چکا تھا۔۔
اسکی کالج میں انٹر ہونے کی دیر تھی کے پیچھے سے اس کے سر پہ کچھ زور سے لگا،
سر سہلاتے پیچھے مڑی تو پیچھے کھڑی امبر اسے خونخوار نظروں سے گھور رہی تھی.
“روز تم نے لیٹ ہونا ہوتا ہے کیا ؟؟ خود بھی لیٹ ہوتی ہو مجھے بھی ذلیل کرواتی ہو۔۔ امبر بول نہیں دھاڑ رہی تھی.
ملائکہ کو اس کا چہرہ دیکھ کے ہنسی آئی جو نقاب میں ہونے کی وجہ سے امبر دیکھ نہیں پائی تھی۔
“کچھ پھوٹو گی اب” امبر اس کو چپ دیکھ کے مزید تپی.
“کیا یار اب آگئ ہوں نا اب تو چلو کلاس میں، ملائکہ نے اسے جیسے بہلایا.
“میں نے نہیں جانا،، وہ بدکی،
“کیوں بھلا اب کیا ہوا؟ ملائکہ نے حیرانگی سے پوچھا..
“میڈم زارا کا پیریڈ ہے پہلا جو میں بالکل بھی نہیں لے رہی مجھے کچھ نہیں آتا”امبر جیسے بے بسی سے بولی،
وہ تین دن کے بعد آج کالج آئی تھی اور میڈم زارا سے پورا کالج ڈرتا تھا کیونکہ پڑھائی کہ معاملے میں وہ بہت سخت تھیں.
“آج میم ٹیسٹ نہیں لیں گی” ملائکہ ساری بات سمجھتے ہوئے بولی،،
کیوں؟!؟امبر حیرت سے چیخی تو ادھر ادھر گھومتی سٹوڈنٹس ان کی طرف متوجہ ہوئیں،، کیونکہ سورج مغرب سے آسکتا تھا میم کی روٹین نہیں ٹوٹتی تھی..
“آہستہ نہیں بول سکتی “ملائکہ نے اسے گھورا اور کہا،
ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ میم ٹیسٹ نہ لیں” امبر حیرت پہ قابو پاتے ہوئے بولی،،
“پتہ نہیں پر اب ایسا ہو رہا ہے مجھے تو میم کچھ پریشان لگتی ہیں” ملائکہ شانے اچکاتے بولی،
وہ کلاس میں پہنچ چکی تھیں اور اب مزے سے بیٹھی گپیں لگا رہی تھیں.
تبھی ان کی کلاس کی لڑکی آئی اور انہیں جیسے خوشخبری سنائی “آج پیریڈ فری ہے”
جیسے ہی یہ انہوں نے تو سب کی سب بھاگتی باہر کو نکلیں،،
ملائکہ اور امبر نے بھی باہر کا رخ کیا،
گراؤنڈ میں جاتے ہوئے ان کا سامنا میم زارا سے ہوا،
” اسلام علیکم میم” انہوں نے اکٹھے سلام کیا ،
“وعلیکم سلام ” انہوں کسی خیال سے چونکتے ہوئے جواب دیا،
“میم آر یو اوکے؟؟ ملائکہ نے پوچھا
” یس آئی ایم فائن۔۔۔ ” وہ انہیں غور سے دیکھ کر بولتی ہوئی انہیں جانے کا اشارہ کر چکی تھیں.
لیکن اگر وہ دونوں پیچھے مڑ کے دیکھتیں تو انہیں میم کی آنکھوں کی چمک ضرور محسوس ہوتی،
______________________________
تابناک مستقبل کی تشکیل کے لئے ماضی کو محفوظ کرنا ضروری
تابناک مستقبل کی تشکیل کے لئے ماضی کو محفوظ کرنا ضروری اسٹیٹ پبلک لائیبریری ، پریاگ راج میں یونیسکو اور...