محسن حد سے زیادہ سیدھا آدمی تھا۔ گو وہ مولوی تھا مگر آجکل کا سا نہیں۔ سچ مُچ کا مولوی ، جس کے ذہن میں چالاکی اور عیاری کا گُزر ہی نہ ہو سکتا تھا۔ انگریزی کے رنگ سے قطعی نا آشنا ، زمانہ کے حال سے بالکل بے خبر۔ تحصیلِ علم سے فارغ ہوا تو دن بھر یا قرآن و حدیث کا مطالعہ تھا یا مسجد اور نماز۔ عُمر زیادہ سے زیادہ تیئیس سال ہو گی لیکن داڑھی اللہ کی عنایت سے ایسی گھن دار اور اتنی چوڑی چکلی اور لمبی کہ پُورا جوان معلوم ہوتا تھا۔
جس روز سے سُنا تھا کہ والدین شادی کی فکر میں ہیں باغ باغ تھا۔ گھر میں ہوتا تھا تو منہ سے خاموش رہتا لیکن جاتے جاتے کسی بہانے سے ٹھٹک جاتا ، دُور ہوتا اور یہ پتہ چل جاتا کہ شادی کا چرچا ہے تو بِلا وجہ کوئی نہ کوئی ضرورت پیدا کر پاس جا پہنچتا۔ برابر کی بہنیں ، آس پاس کی بڑی بُوڑھیاں چھیڑتیں ، ہنسی کرتیں تو دلہن کا نام سُنتے ہی باچھیں کھِل جاتیں ، ماں بھی دن بھر گھر کے کام دھندوں میں مصروف رہتی اور آنے جانے والوں کو بھی رات ہی کو فرصت ہوتی۔ کوئی ساڑھے نو بجے جمگھٹا ہوتا اور میاں محسن کی شادی کے متعلق تجویزیں ہوتیں۔ اس تذکرہ کا اتنا اثر تو ضرور ہوا کہ مولوی محسن جو عشاء کے بعد ڈیڑھ دو گھنٹہ وظیفہ پڑھتے اور گیارہ ساڑھے گیارہ بجے مسجد سے لوٹتے ، پندرہ بیس روز تو مارا مار نماز پڑھ پڑھا کبھی نفل چھوڑتے ، کبھی سُنتیں اُڑائیں دس بجے گھر آ پہنچتا۔ مگر جب یہ دیکھتا کہ عورتیں دس ساڑھے دس بجے ہی سے رُخصت ہو جاتی ہیں تو فرض پڑھنے بھی دو بھر ہو گئے۔ بمشکل تمام ادا کرتا۔ لوگ دعا مانگ رہے ہیں اور وہ جوتیاں بغل میں دبائے گھر کی طرف سرپٹ دوڑ رہا ہے۔ آخر خدا خدا کر کے معاملہ طے ہوا اور شادی ہو گئی۔ اِس نکاح میں محسن کے باپ نے اس کے سوا کچھ نہ دیکھا کہ لڑکی نمازی ، پرہیزگار اور اللہ اللہ کرنے والی ہو ، چنانچہ کئی لڑکیوں میں سے ایک ایسی ہی منتخب ہوئی اور کنوارے محسن بیوی کے شوہر یا دُلہن کے دُلہا بن گئے۔
—–×—–
(2)
پانچ چار مہینہ تو میاں محسن کی خُوب گزری۔ نہال نہال تھے کہ خُدا کی رحمت کونے کونے سے نازل ہو رہی ہے۔ بیوی یعنی حبیبہ ، عورت کیا فرشتہ ہے کہ ادھر آدھی رات تک اور اُدھر دن کے دس بجے تک تسبیح ، دُرود شریف ، پنج سُورہ غرض ہر بات میں اور ہر کام میں خُدا کے سوا اور کچھ نہیں۔ مگر چند روز بعد محسن کو اس عبادت کا پتہ لگا۔ یہ عبادت اُس کے واسطے مُصیبت ہو گئی اور وہ اس طرح کہ باپ کے انتقال کے بعد مدرسہ کی جگہ اس کو ملی اور مدرسہ کا مہتمم ایسا سخت کہ دس پندرہ منٹ بھی ہو جائیں تو فوراً جواب طلب ، یہاں بیوی دس بجے نماز چھوڑیں۔ مدرسہ کا وقت پُورے سات گھنٹے پانچ بجے تک کا ، روزہ ہو گیا اور وہ روزہ جس میں ثواب کا نام تک نہیں۔ دو چار دن تو بھُوکا مرا اور اس کے بعد کہنا ہی پڑا کہ ، ” اگر کھانے کا کچھ انتظام ہو جائے تو اچھا ہے ، دن بھر بھُوکا رہتا ہوں۔“
بیوی : ” تو کیا میں وظیفہ چھوڑ دُوں ؟“
میاں : ” توبہ توبہ ، میں کُفر کی بات کیوں کہوں؟“
بیوی : ” کہہ تو رہے ہو۔“
میاں : ” رات کو پڑھ لیا کرو۔“
بیوی : ” رات کا رات کو پڑھتی ہوں اور صُبح کا صُبح کو۔“
میاں : ” صُبح کا بھی رات کو پڑھ لیا کرو۔“
بیوی : ” مُسلمان ہوں مرنا ہے۔ تمہارے واسطے خُدا کو نہیں چھوڑ سکتی۔“
میاں : ” تو میں دن بھر بھُوکا مروں ؟“
بیوی : ” مرضی اللہ کی ، اُس کے حکم سے زیادہ کچھ نہیں۔“
میاں : ” پڑھنے میں کچھ کمی کر دو۔“
بیوی : خوب کمی کی کہی۔ رات کی یٰسین شریف ، سُورۂ مزمل ، سُورۂ بقر ، سُورۂ یوسف ، صبح کا پنج سُورہ ، میں پڑھتی ہی کیا ہوں ؟ کُوار پتے میں تو میں نے ایک ایک قرآن شریف روز ختم کیا ہے ، اب تو کچھ بھی نہیں پڑھتی۔“
میاں : ” تو پھر تم ہی کوئی ترکیب بتاؤ۔“
بیوی : ” میں تو کہتی ہوں کہ تم روزہ روزہ رکھ لیا کرو۔“
میاں : ” ہمت نہ ہو تو ؟“
بیوی : ” خُدا ہمت دے گا۔“
میاں : ” اللہ بہتر کرے۔“
—–×—–
(3)
حالات روز روز بڑھتے گئے۔ ادھر میاں محسن ہفتہ میں پانچ چار مرتبہ روزہ تو نہیں مگر روزہ کی حد کو ضرور پہنچ جاتے۔ ضرورت تھی کہ محسن کے اماں باوا جو فرشتہ بہو کے متلاشی تھے اور اپنی دانست میں بیٹے کو دُنیا ہی میں حُور دے دی ، کچھ روز زندہ رہ کر دیکھتے کہ لڑکا فردوسِ بریں میں کیسی زندگی بسر کر رہا ہے۔ مگر دونوں میں سے ایک بھی نہ رہا ورنہ باپ نہیں تو ماں زیادہ نہیں تو فاقوں سے بچا لیتی۔ یہ نہیں کہ حبیبہ خود کھا لیتی ہو ، وہ واقعی اپنے وظیفوں کے آگے کسی چیز کی پرواہ نہ کرتی تھی اور اس کا یقین تھا کہ مغفرت صرف خدا ہی کی رضامندی ہے اور خدا کی رضامندی نماز روزہ پر موقوف ہے۔ ایک روز جبکہ ملیریا بُخار کثرت سے پھیلا ہوا تھا ، دوپہر کے وقت محسن کو بھی بُخار چڑھا۔ ہانپتا کانپتا گھر پہنچا ، دُلائی اوڑھی ، رضائی اور لحاف اوڑھے مگر سردی کسی طرح کم نہ ہوئی۔ کوئی ڈیڑھ گھنٹے تک تھر تھر کانپتا رہا ، تین بجے ذرا سردی کم ہوئی تو بیوی سے کہا ،
سرشتہ دار صاحب کہتے تھے کہ ملیریا بخار سب کے واسطے یکساں ہے پھر کیا بات ہے کہ انگریزوں کو کم ہوتا ہے اور ہندوستانیوں کو زیادہ ؟ اس کا سبب صرف یہ ہے کہ ہندوستانی احتیاط نہیں کرتے۔“
بیوی : ” احتیاط سے کچھ نہیں ہوتا۔ تقدیر میں بیماری لکھی ہے تو کون مٹا سکتا ہے ، ایک نہیں لاکھ احتیاط کرو۔“
میاں : ” یہ تو صحیح ہے مگر تقدیر کے ساتھ تدبیر بھی ہے جو لوگ مُسہل لے کر پیٹ کی کثافت ان دنوں میں صاف کر لیتے ہیں اور کونین کا استعمال کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی گھروں میں سیل نہیں ہونے دیتے کہ مچھر پیدا ہوں ، وہ ہرگز اس بُخار میں مبتلا نہیں ہوتے۔“
بیوی : ” اُستانی بشیرن کیوں مریں ؟“
میاں : ”وہ تو موتی جھرا تھا۔“
بیوی : ” موتی جھرا ہو یا دِق ، یہ دِن ہی برسات کے تھے۔ “
میاں : ” اب میں کیا کروں ؟ چلا نہیں جاتا جو ڈاکٹر کے ہاں جاؤں۔“
بیوی : ” رات کو اُتر جائے گا گھبراتے کیوں ہو؟ بھادوں کا بُخار شبِ برات کی چپاتیاں ہیں کوئی گھر خالی نہیں۔ صبح کو حکیم کے پاس چلے جانا۔ “
بُخار موسمی تھا صبح کو اُتر گیا تو محسن ڈاکٹر کے پاس گیا اس نے مسہل کی دوا دی۔ غریب نے ایک روز کی چھٹی لی اور بیوی سے کہہ دیا مُجھ کو بارہ بجے کھچڑی ملنی چاہیے ، مگر کہا اُس وقت کہ بیوی اشراق کا سلام پھیر حصن حصین کا ختم شروع کر چکی تھیں۔ ساڑھے بارہ بجے کے قریب محسن کو بھُوک لگی تو کیا دیکھتے ہیں مُستقل مزاج بیوی بدستُور جانماز پر بیٹھی ختم میں مصروف ہے۔ آج میاں کو خُدا دوست بیوی کی قدر معلوم ہوئی اور جل کر کہا ،
”تو کیا اب بھی فاقہ کروں !“
بیوی : ” ہُوں اُوں اُوں ہُوں ہُوں۔“
میاں : ” بس تم تو پڑھے جاؤ ، میں سو جاتا ہوں۔“
بیوی : ” اون اون ہوں ہوں ہوں۔“
بیوی فارغ ہوئیں تو ایک بج رہا تھا۔ کھچڑی چڑھائی۔ پکتے پکاتے گھنٹہ پون گھنٹہ اور لگا۔ دو بجے میاں کھانے بیٹھے اور بیوی ظہر کی نماز کو کھڑی ہوئیں۔ کھچڑی میں نمک پھیکا تھا مگر مانگتے کس سے اور دیتا کون ، دو چار منٹ راہ دیکھ کر خُود ہی اُٹھے ، کوٹھری میں گئے تو اندھیرا گھُپ تھا چاروں طرف ٹٹولا ، مرچیں ملیں ، دھنیا ملا ، پیاز ملی ، لہسن ملا مگر نمک نہ ملا۔ بُخار ، مُسہل ، فاقہ ، لوٹتے تھے کہ دیوار کی ٹکر اس زور سے لگی کہ بجلی کُوند گئی۔۔ سر پکڑ کر آ بیٹھے اور پاؤں پھیلا کر لیٹ گئے۔ بیوی نماز میں میاں غوطے میں ، بلی کو اس سے اچھا موقع کون سا ملتا ، کھچڑی کھائی اور شوربہ پیا۔
—×—
(4)
محسن تو کیا فرشتہ بھی ہوتا تو ان متواتر اذیتوں سے اُکتا جاتا۔ اب اُس نے ذرا ہاتھ پاؤں نکالے۔ کچھ ملنے جُلنے والوں نے سمجھایا ، کچھ وقت نے بتایا۔ خاموش چہرہ پر تیوری اور کھِلتے ہوئے ہونٹوں پر غصہ کے آثار نمودار ہونے لگے۔ مگر بیوی پر نہ اس ہنسی نے اثر کیا اور نہ اُس غصہ نے۔ وہ اپنی دھُن میں مُنہمک تھی۔ محسن ہر چند بگڑتا وہ پرواہ نہ کرتی ، جب نوبت یہاں تک پہنچی کہ جنت دُنیا اُس کے واسطے دوزخ کا نمونہ بن گئی تو ایک روز ان حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا جن کی وہ مُرید تھی اور جا کر تمام داستان سُنائی۔
حبیبہ بھی شوہر کے یہ رنگ دیکھ رہی تھی اور جب اُسے اچھی طرح یقین ہو گیا کہ شوہر کا وجود میری عبادت میں مخل ہے تو سب سے بہتر تجویز یہی سمجھ میں آئی کہ وقت قریب ہے حج کو چلی جاؤں اور اگر ہجرت نہیں تو سال دو سال ہی کے واسطے اس جھگڑے سے چھُٹکارا پاؤں۔ وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ ایسی حالت میں کہ حقیقی چچا حج کو جا رہے ہیں اور خرچ کے واسطے اپنا زیور کافی ہے ، شوہر یا کوئی بھی اس کام میں خلل نہیں ڈال سکتا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ محسن کی مجال کیا تھی کہ بیوی کے اس قصد کی مخالفت کرتا۔ دن قریب آ گئے اور حبیبہ نے اپنا سامانِ سفر تیار کرنا شروع کیا۔ چچا نے آ کر داماد سے دریافت کیا تو خاموشی یا بَجا کے سِوا اُس کے پاس رکھا ہی کیا تھا۔ وہ بھی لے جانے پر رضامند ہو گئے اور زیور شوہر کی موجودگی میں حبیبہ نے چچا کو فروخت کے واسطے دیا ، وہ بیچ کر لے آئے۔ یہ جمعرات کا ذکر ہے۔ ہفتہ کی شام کو روانہ ہونے کا قصد تھا۔ جمعہ کو حبیبہ بعدِ نمازِ جمعہ سب سے ملنے جُلنے گئی اور رات کو میکے رہ کر ہفتہ کی صبح کو پیر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ پیر صاحب محسن کی زبانی مفصل کیفیت سُن چکے تھے ، آدمی بھیج کر اُسے بھی بُلا بھیجا۔ جب حبیبہ اور محسن دونوں اُن کے سامنے بیٹھے تھے ، انہوں نے حبیبہ سے دریافت کیا ،
”کیا تم نے اپنے شوہر سے اجازت لے لی ؟“
حبیبہ : ” جی ہاں ، اِس نیک کام سے کون مسلمان انکار کرے گا؟“
پیر جی : ” کیوں انکار نہ کرے گا ؟ اگر کوئی انکار نہ کرتا تو تمام دُنیا ہی حج کو چلی جاتی۔ کچھ حالات ہوتے ہیں ، کچھ معاملات ہوتے ہیں ، جب تک حالات اور معاملات اجازت نہ دیں ہر شخص مخالف رائے دینے کا حق رکھتا ہے اور اگر یہ اس لئے کہ تمہارے شوہر ہیں ، بخوشی تم کو اجازت نہ دیں تو تمہارا حج میری رائے میں حج نہیں ہو سکتا۔“
حبیبہ : ”ظاہر ہے ان کو تکلیف ہو گی۔“
پیر جی : ” جب تم یہ جانتی ہو پھر کس طرح حج کا قصد کرتی ہو ؟ تم نے مسلمانوں کے خُدا کو پہچانا نہیں ، میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ مُسلمانوں کا خُدا اور ہے بلکہ یہ کہ اِسلام کے اصول تم سمجھ نہ سکیں ، اسلام میں جس قدر خُدا کے تعلقات رکھے گئے ہیں ، وہ محض دُنیوی زندگی کی فلاح و بہبُود کے واسطے نہ کہ اس طرح کہ ایک آدمی دُنیا کو چھوڑ چھاڑ پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھا اللہ اللہ کرتا مر جائے۔ تم بحیثیت بیوی کے اِن کی فرمانبردار ہو اور یہ بہ حیثیت شوہر کے تمہارے غمخوار اور مُشیر کار۔ ان کا فرض ہے کہ تم کو خوش رکھیں اور تمہارا کام ہے کہ ان کو رضا مند کرو۔ یہی اصلی حج ہے۔ اگر تم ان کو رضامند رکھ کر مریں تو میں یقین دلاتا ہوں کہ تمہارا حج ہو گیا۔ میں تو سُنتا ہوں کہ دن رات وظیفے اور چلّوں میں ایسی گھُسی ہو کہ گھر کے کام کاج تک کی پرواہ نہیں کرتیں۔ شوہر فاقہ سے ہو تو ہو مگر تمہارے چِلّہ اور وظیفہ میں فرق نہ آئے۔ یہ تو جنت کے نہیں دوزخ کے سامان ہیں۔ تم نے شوہر کی زندگی برباد کر دی اور توقع یہ رکھتی ہو کہ خُدا کی رضامندی حاصل کروں۔ تم اسلام کو بدنام کرتی ہو اور میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ تمہاری مثال دوسروں کے واسطے نہایت مُضر اور تکلیف دہ ہے۔ تم اسلام کو نقصان پہنچا کر گنہگار ہو رہی ہو۔ کیا تم کو معلوم نہیں کہ ایک شخص جو شب و روز عبادت کرتا تھا اُس سے سرورِ دو عالم (ص) نے صاف فرمایا کہ وہ کرو جو میں کرتا ہوں، یعنی دُنیا کی ضرورتیں بھی پُوری کرو اور دین کی بھی۔ کیا خود حضورِ اکرم یا آپ کے احباب و تابعین نے دن رات خُدا کی عبادت کی اور دُنیا سے قطع تعلق کر لیا ، کیا خُدا اور اُس کے رسول کا ایسا حکم کہیں موجود ہے ؟ تمہاری جنت ، تمہاری عبادت تو صرف یہ ہے کہ محسن تم سے راضی ہو اور تم اس سے خوش۔ میں فتوٰیٰ دیتا ہوں کہ تمہارا یہ حج ہرگز قبول نہیں ہو سکتا۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ جس وقت حالات اجازت دیں گے ، موقع اور محل ہو گا ، خود محسن اس فرض کو ترک کرنے والے نہیں۔ دونوں میاں بیوی جانا اور ہنسی خوشی اپنا فرض ادا کرنا۔“
—×—
(4)
محسن تو کیا فرشتہ بھی ہوتا تو ان متواتر اذیتوں سے اُکتا جاتا۔ اب اُس نے ذرا ہاتھ پاؤں نکالے۔ کچھ ملنے جُلنے والوں نے سمجھایا ، کچھ وقت نے بتایا۔ خاموش چہرہ پر تیوری اور کھِلتے ہوئے ہونٹوں پر غصہ کے آثار نمودار ہونے لگے۔ مگر بیوی پر نہ اس ہنسی نے اثر کیا اور نہ اُس غصہ نے۔ وہ اپنی دھُن میں مُنہمک تھی۔ محسن ہر چند بگڑتا وہ پرواہ نہ کرتی ، جب نوبت یہاں تک پہنچی کہ جنت دُنیا اُس کے واسطے دوزخ کا نمونہ بن گئی تو ایک روز ان حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا جن کی وہ مُرید تھی اور جا کر تمام داستان سُنائی۔
حبیبہ بھی شوہر کے یہ رنگ دیکھ رہی تھی اور جب اُسے اچھی طرح یقین ہو گیا کہ شوہر کا وجود میری عبادت میں مخل ہے تو سب سے بہتر تجویز یہی سمجھ میں آئی کہ وقت قریب ہے حج کو چلی جاؤں اور اگر ہجرت نہیں تو سال دو سال ہی کے واسطے اس جھگڑے سے چھُٹکارا پاؤں۔ وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ ایسی حالت میں کہ حقیقی چچا حج کو جا رہے ہیں اور خرچ کے واسطے اپنا زیور کافی ہے ، شوہر یا کوئی بھی اس کام میں خلل نہیں ڈال سکتا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ محسن کی مجال کیا تھی کہ بیوی کے اس قصد کی مخالفت کرتا۔ دن قریب آ گئے اور حبیبہ نے اپنا سامانِ سفر تیار کرنا شروع کیا۔ چچا نے آ کر داماد سے دریافت کیا تو خاموشی یا بَجا کے سِوا اُس کے پاس رکھا ہی کیا تھا۔ وہ بھی لے جانے پر رضامند ہو گئے اور زیور شوہر کی موجودگی میں حبیبہ نے چچا کو فروخت کے واسطے دیا ، وہ بیچ کر لے آئے۔ یہ جمعرات کا ذکر ہے۔ ہفتہ کی شام کو روانہ ہونے کا قصد تھا۔ جمعہ کو حبیبہ بعدِ نمازِ جمعہ سب سے ملنے جُلنے گئی اور رات کو میکے رہ کر ہفتہ کی صبح کو پیر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ پیر صاحب محسن کی زبانی مفصل کیفیت سُن چکے تھے ، آدمی بھیج کر اُسے بھی بُلا بھیجا۔ جب حبیبہ اور محسن دونوں اُن کے سامنے بیٹھے تھے ، انہوں نے حبیبہ سے دریافت کیا ،
”کیا تم نے اپنے شوہر سے اجازت لے لی ؟“
حبیبہ : ” جی ہاں ، اِس نیک کام سے کون مسلمان انکار کرے گا؟“
پیر جی : ” کیوں انکار نہ کرے گا ؟ اگر کوئی انکار نہ کرتا تو تمام دُنیا ہی حج کو چلی جاتی۔ کچھ حالات ہوتے ہیں ، کچھ معاملات ہوتے ہیں ، جب تک حالات اور معاملات اجازت نہ دیں ہر شخص مخالف رائے دینے کا حق رکھتا ہے اور اگر یہ اس لئے کہ تمہارے شوہر ہیں ، بخوشی تم کو اجازت نہ دیں تو تمہارا حج میری رائے میں حج نہیں ہو سکتا۔“
حبیبہ : ”ظاہر ہے ان کو تکلیف ہو گی۔“
پیر جی : ” جب تم یہ جانتی ہو پھر کس طرح حج کا قصد کرتی ہو ؟ تم نے مسلمانوں کے خُدا کو پہچانا نہیں ، میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ مُسلمانوں کا خُدا اور ہے بلکہ یہ کہ اِسلام کے اصول تم سمجھ نہ سکیں ، اسلام میں جس قدر خُدا کے تعلقات رکھے گئے ہیں ، وہ محض دُنیوی زندگی کی فلاح و بہبُود کے واسطے نہ کہ اس طرح کہ ایک آدمی دُنیا کو چھوڑ چھاڑ پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھا اللہ اللہ کرتا مر جائے۔ تم بحیثیت بیوی کے اِن کی فرمانبردار ہو اور یہ بہ حیثیت شوہر کے تمہارے غمخوار اور مُشیر کار۔ ان کا فرض ہے کہ تم کو خوش رکھیں اور تمہارا کام ہے کہ ان کو رضا مند کرو۔ یہی اصلی حج ہے۔ اگر تم ان کو رضامند رکھ کر مریں تو میں یقین دلاتا ہوں کہ تمہارا حج ہو گیا۔ میں تو سُنتا ہوں کہ دن رات وظیفے اور چلّوں میں ایسی گھُسی ہو کہ گھر کے کام کاج تک کی پرواہ نہیں کرتیں۔ شوہر فاقہ سے ہو تو ہو مگر تمہارے چِلّہ اور وظیفہ میں فرق نہ آئے۔ یہ تو جنت کے نہیں دوزخ کے سامان ہیں۔ تم نے شوہر کی زندگی برباد کر دی اور توقع یہ رکھتی ہو کہ خُدا کی رضامندی حاصل کروں۔ تم اسلام کو بدنام کرتی ہو اور میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ تمہاری مثال دوسروں کے واسطے نہایت مُضر اور تکلیف دہ ہے۔ تم اسلام کو نقصان پہنچا کر گنہگار ہو رہی ہو۔ کیا تم کو معلوم نہیں کہ ایک شخص جو شب و روز عبادت کرتا تھا اُس سے سرورِ دو عالم (ص) نے صاف فرمایا کہ وہ کرو جو میں کرتا ہوں، یعنی دُنیا کی ضرورتیں بھی پُوری کرو اور دین کی بھی۔ کیا خود حضورِ اکرم یا آپ کے احباب و تابعین نے دن رات خُدا کی عبادت کی اور دُنیا سے قطع تعلق کر لیا ، کیا خُدا اور اُس کے رسول کا ایسا حکم کہیں موجود ہے ؟ تمہاری جنت ، تمہاری عبادت تو صرف یہ ہے کہ محسن تم سے راضی ہو اور تم اس سے خوش۔ میں فتویٰ دیتا ہوں کہ تمہارا یہ حج ہرگز قبول نہیں ہو سکتا۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ جس وقت حالات اجازت دیں گے ، موقع اور محل ہو گا ، خود محسن اس فرض کو ترک کرنے والے نہیں۔ دونوں میاں بیوی جانا اور ہنسی خوشی اپنا فرض ادا کرنا۔“
—×—
(5)
پیر صاحب کی نصیحت حبیبہ کے دل میں گڑ تو گئی مگر ایک عُمر کی پڑی ہوئی عادت آسانی سے چھُٹنی محال تھی۔ اُس نے رفتہ رفتہ اپنے وظائف میں کمی کی اور سال بھر کے اندر ہی اندر یہ کیفیت ہوئی کہ فرائض کے بعد وہ سب سے مقدم محسن کی خدمت سمجھتی تھی۔ اور اس سے فارغ ہو کر جتنا وقت بچتا تھا وہ عبادت میں صرف کرتی تھی اور اس پر محسن کو بھی کسی قسم کا اعتراض نہ تھا اور وہ خُوش تھا کہ بیوی کی اپنی خواہش بھی پُوری ہو رہی ہے۔ اور اس کو بھی کسی قسم کی تکلیف نہیں ہو رہی۔ محسن غریب ، فقیر نہ تھا۔ خاصا اوسط درجے کا آدمی تھا ، مگر جب تک بیوی وظیفوں میں مصروف رہیں گھر کی خاک اُڑ رہی تھی۔ بریانی اور متنجن بھی ہوتا تھا تو دال اور چٹنی سے بد تر۔ محسن پانی کے واسطے بیٹھا ہے ، نوالہ حلق میں اٹک رہا ہے اور بیوی تسبیح میں مصروف۔ اب اس تغیر نے محسن ہی کی تمام تکلیفوں کا خاتمہ نہیں کیا۔ بلکہ خُود حبیبہ کو بھی معلوم ہو گیا کہ میں جو کچھ کر رہی تھی وہ نا درست تھا اور مُسلمان عورت کا کام یہ ہی نہیں ہے کہ وہ محض نماز روزہ کر لے اور دُنیا کی تمام ضرورتوں سے بے فکر ہو جائے۔ ایک دن جب چھُٹی کے دن پانی زور و شور سے پڑ رہا تھا۔ حبیبہ کہنے لگی ،
”دس بج گئے ، پانی تو تھمتا نہیں ، پکنے کا کیا کروں ؟“
محسن : ” میں تو سمجھوں بیسن موجود ہے ، بیسنی روٹی پکا لو ، ماما بھی آج نہیں آئی۔“
حبیبہ نے اُٹھ کر آٹا گُوندھا اور روٹی پکا کر آگے رکھی۔ دو آدمیوں کا پکنا ہی کیا ڈیڑھ پاؤ آٹا کافی تھا۔
حبیبہ اور محسن دونوں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے کی اتفاق سے پیر صاحب بھی آ گئے۔
ہر چند حبیبہ اُٹھنے لگی مگر اُنھوں نے نہ مانا اور کہا ،
”دونوں کھانا کھا لو۔“
اس وقت دستر خوان پر بیسنی روٹی ، آم کا اچار اور لہسن کی چٹنی تھی۔ پیر جی نے فرمایا ،
”میاں صبح کو یہاں آیا ہوا تھا ، مینہ تھمتا نہیں۔ خیال آیا کہ تمہارے پاس بھی ہوتا چلوں۔ مجھے اس وقت بہت ہی خوشی ہوئی اور میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ چٹنی روٹی جو تم دونوں میاں بیوی مل کر کھا رہے ہو ، بریانی ، متنجن سے ہزار درجہ بہتر ہے ، اور بی حبیبہ تمہاری اس عبادت سے یہ حالت افضل اور بے شک خُدا کی رضامندی ہے۔“