(1)
صُورت ، شکل ، ہُنر سلیقہ ، عطیہ ہر لحاظ سے بے مثل اور لاجواب نہیں تو سو دو سو میں ایک لڑکی تھی۔ خوش قسمتی سے شوہر بھی ایسا ملا کہ ماں باپ کی جُدائی ، میکہ کی یاد ، عزیزوں کی محبت ، سب دل سے بھُلا دی۔ ایک ذرا اُس کے سر میں درد ہو جاتا تو مچھلی کی طرح تڑپتا اور گھنٹوں بے چین رہتا۔ اس لحاظ سے عطیہ نہایت خُوش نصیب لڑکی تھی۔ شادی کا پہلا سال ایسا گزرا کہ خدا دُنیا جہاں کی بیٹیوں کو نصیب کرے مگر افسوس پہلونٹی کا بچہ پیدا ہوتے ہی دُنیا بھر کے امراض کے ساتھ ہی شوہر کی بے اعتنائی شروع ہو گئی۔ بیوی بد نصیب کے فرشتوں کو بھی خبر نہ تھی کہ یہ امراض اُس شخص کو جو اُن کی اصلی وجہ ہے میری صورت سے اس قدر بیزار کر دیں گے اور حسن کی یہ محبت دودھ کے اُبال سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی۔ میمیں اور دائیاں علاج میں کسر نہ تھی مگر مرض روز بروز ترقی کر رہا تھا۔ دردِ سر کو آرام ہے تو اختلاجِ قلب بڑھا۔ اُس میں کمی ہوئی تو درد نے زور پکڑا۔ المختصر مشکل سے چھ مہینے ایسے گزرے ہوں گے کہ حسن نے دوسری کی ٹھان لی۔ کھاتے پیتے نوکر چاکر لڑکے کو بیٹیوں کی کیا کمی۔ دوسرا سال ختم بھی نہ ہوا تھا کہ عطیہ کی سیج پر سوکن آ دھمکی۔
داستان طویل ہے اور گنجائش تھوڑی۔ بیمار بیوی عطیہ اور معصوم بچہ پر سوکن لا کر جس کٹر شخص نے کبوتروں میں بلی چھوڑ دی ، اُس سے انسانیت کی توقع ہی غلط تھی۔ یہ عطیہ کی تقدیر تھی کہ سوکن ایسی کٹر اور اتنی پتھر ملی کہ نِت نئے ظلم تڑواتی اور پھر بھی کلیجہ ٹھنڈا نہ ہوتا۔
مُسلمانوں کے نکاحِ ثانی کو دین و ایمان سمجھ کر بھی ہم حسن کے اِس نکاح کو جائز نہ کہیں گے۔ اگر مجبوری و معذوری سے تسلیم کر بھی لیں تو ضرورت تھی کہ حسن احکامِ اسلام کے بموجب مساوات کا ایسا سُرمہ لگا کر دونوں کو دیکھتا کہ عطیہ کی آنکھ میں مَلال کا مَیل تک نہ آتا۔ لیکن یہ کیا غضب تھا کہ کڑکڑاتے جاڑوں میں بیمار عطیہ دُودھ پیتے بچہ کو کلیجہ سے لگائے میاں اور سوکن کے لئے چائے بنائے اور انڈے تلے۔
(2)
ایک غیّور اور سنجیدہ لڑکی کی کیفیت جو کچھ اِن حالات سے ہونی چاہیے تھی وہی عطیہ کی ہوئی۔ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی کہ حَسن کی جن آنکھوں سے محبت کے چشمے پھُوٹ رہے تھے ، اب اُن سے زہر ٹپک رہا تھا اور وہ اُف نہ کرتی۔
ایک رات کا ذکر ہے۔ مینھ برس کر تھم چکا تھا۔ آسمان اپنے چہرے سے سیاہی کا پَردہ آہستہ آہستہ سرکا رہا تھا اور صبح صادق خراماں خراماں منزلِ دُنیا تک بڑھ رہی تھی۔ اِدھر خانۂ خدا کی طرف سے وداعِ شب کا سامان ہوا، اُدھر بیمار عطیہ شوہر اور سوکن کے ناشتہ کی تیاری میں مصروف ہوئی۔ ہوا کے ٹھنڈے جھونکے تیر کی طرح کلیجہ میں لگ رہے تھے۔ گلے میں پُرانی رُوئی کی کمری ، سر پر معمُولی چادرہ ، پُوروا ہوا نے ہڈیوں میں اولے بچھا دئیے ، اِس غضب کا درد اُٹھا کہ بیقرار ہو گئی ، بہتیرا سنبھلی نہ سنبھلا گیا۔ اُٹھی ، بیٹھی لیٹی پوٹی مگر سب بے سُود تھا۔
حَسن کو اگر عطیہ سے ہمدردی نہ تھی تو اُس کی خوشی مگر اِس زخم پر کچوکے بے ایمان کی بد گُمانی تھی کہ بیماری کو بہانہ ، درد کو مکر اور تکلیف کو فریب سمجھا۔ دُولہا دُولہن اُٹھے۔ چُولھا ٹھنڈا پڑا تھا ، دونوں آگ بگولا ہو گئے اور نئی دُلہن نے کہا ،
” تم نے اپنے ساتھ میری مٹی بھی پلید کر رکھی ہے بھلا یہ وقت ناشتہ کا ہے۔ ابھی آگ بھی نہیں سُلگی۔ بلا سے اس جی کے جلانے سے تو ہاتھ کا جلانا بہتر۔ کل سے میں خود کر لیا کروں گی اِن کو تو چکر آ رہے ہوں گے۔“
کریلا اور نیم چڑھا ، حَسن پہلے ہی عطیہ کو شیر کی نظروں سے گھُور رہا تھا ، بیوی کے اس فقرے نے غصے کی آگ اور بھڑکائی۔
”جھُوٹی ، فریبن ، دغا باز ، بدمعاش ، کام چور ، مَریل ، سُست۔“
ایک لفظ ہو تو کہا جائے۔
”اُٹھ کھڑی ہو مکار۔ ابھی آگ سُلگا ، نہیں تو مارے تھپڑوں کے منہ پھیر دوں گا۔“
حَسن یہ کہتا ہوا سانپ کی طرح پھنپھناتا ہوا اُٹھا اور عطیہ کو مارنے چلا کہ دروازے سے خُسر کی آواز آئی۔ یہ عطیہ کا باپ تھا جو معمولی گرا پڑا آدمی نہیں تھا شہر کا مشہور وکیل تھا۔ اکلوتی بچی کی بیماری نے اُس کی جان پر بنا دی تھی۔ حَسن بیوی پر شیر تھا ، مگر خُسر کے سامنے بھیگی بلی بن گیا اور دُلہن کو ہٹا کر اُس کو اندر لایا۔ حَسن جس وقت بپھرتا عطیہ کی طرف چلا ، اُس وقت وہ خوف کے مارے تھر تھر کانپ رہی تھی۔ اُس نے ایک خاموش نظر شوہر کے چہرے پر ڈالی ، زبان چُپ تھی مگر نگاہ با آوازِ بُلند کہہ رہی تھی کہ میں بے گناہ ہوں۔ باپ کی آمد نے شوہر کی مار سے بظاہر چھُڑا دیا مگر حق یہ ہے کہ جس نے مارنے کا قصد کیا اُس نے مار ہی لیا۔
اُس وقت عطیہ کے قلب کی کیا کیفیت تھی اِس کا اندازہ صرف شوہر والی بیبیوں کا دل کر سکتا ہے۔ اُس کی دلی خواہش یہ تھی کہ زمین پھٹ جائے اور میں سما جاؤں وہ باپ کے آنے سے بھی خوش نہ ہوئی اور چاہتی تھی کہ اس عمر بھر کے رفیق اور ابدی دوست کے ہاتھوں کٹوں پِٹوں اور اس کے سامنے مر جاؤں۔۔۔
باپ کو آتا دیکھ کر اُس نے دُوپٹہ سے آنسو پونچھے ، سنبھل کر بیٹھی ، سلام کیا۔ ہر چند باپ نے پُوچھا مگر اُس نے یہی کہا کہ،
”خدا کا شُکر ہے اچھی ہوں۔“
درد لمحہ بہ لمحہ تیز ہو رہا تھا۔ بُخار شدت سے چڑھ رہا تھا۔ باپ کی کسی بات کا جواب نہ دیتی تھی۔ آخر اُس نے ہاتھ سے دیکھا ، پنڈا جھُلس رہا تھا کہا،
”تم تیار ہو میں ڈولی لاتا ہوں ، چلو اپنے ہاں چلو۔“
جوان لڑکی کی معصوم نظروں نے اُس کے جواب میں باپ کی صورت دیکھی ، گو اُس کی زبان کچھ نہ کہتی تھی مگر حالت نے یہ جواب دیا کہ میں اب تو آپ کی ملکیت نہیں ، مجھ کو آپ نے ایک دوسرے شخص کے قبضہ میں دے دیا ، وہی میرا مالک ، حاکم اور سرتاج ہے۔
بڈھا باپ تجربہ کار آدمی تھا سمجھ گیا کہ شوہر کی اجازت کے بغیر چلنا منظور نہیں۔ داماد کو بلا کر کہا ،
”میاں ! اجازت ہو تو دوچار روز کے واسطے اپنے ہاں لے جاؤں۔“
حَسن : مجھے کیا عُذر ہو سکتا ہے ، نہایت خوشی سے۔“
اتنا کہہ کر حَسن نئی دُولہن کے کمرے میں گیا اور باپ ڈولی لینے، حَسن باہر نکلا تو عطیہ نے آہستہ سے کہا،
”کیا واقعی تمہاری اجازت ہے کہ میں چند روز کے واسطے چلی جاؤں۔“
حَسن : ایک دفعہ کہہ تو دیا اور کس طرح کہوں۔“
عطیہ : التجا یہ ہے کہ اگر روزانہ نہیں تو دوسرے روز چند لمحے کے واسطے اپنی صورت دکھا دیا کرو۔“
حَسن : میں خالی بیٹھا ہوں تاکہ روز حاضر ہوا کروں !!“
ڈولی آ گئی عطیہ بچہ کو گود میں اُٹھانا چاہتی تھی کہ حَسن نے نئی دُولہن کے مشورہ سے کہا،
”بچہ کو چھوڑ جاؤ ، میں پہنچا دُوں گا۔“
ادھر باپ کا تقاضا اُدھر مامتا کا جوش۔ منت سے کہا ، سماجت سے کہا مگر سنگدل نے بچہ کی اجازت نہ دی۔ باپ نے اندر آ کر کہا ،
”میاں ! کیا کہتے ہو؟“
حَسن : آپ ان کو لے جائیں ، میں ڈاکٹر کو دکھا کر خود ہی بچہ کو پہنچا دوں گا۔
باپ چھچھورا نہ تھا کہ لڑنے لگتا۔ خاموش ہو گیا اور ایک ٹھنڈا سانس بھر کر بیٹی کو ڈولی میں بٹھا کر گھر کا راستہ لیا۔
آفتاب لاتعداد مرتبہ طلوع ہو کر غروب ہوا۔ چاند بے شمار بار چمک کر ماند پڑا۔ مگر وہ آفتاب جو بچہ کی مفارقت میں ڈھلا اور ڈوبا بدنصیب عطیہ کے واسطے میکے میں ایسا درد چھوڑ گیا جس کی ٹیسوں اور چَمکوں نے مُردہ کر دیا۔ میکے کی ماما ، حقیقی چچا ، رشتے کے ماموں سب ہی گئے اور کوشش کی مگر حَسن نے بچہ نہ بھیجا ، دُکھیاری کلیجہ پر گھونسے مارنے لگی۔ دنیا آنکھوں میں اندھیر تھی اور کوئی اتنا نہ تھا کہ چار پَہر بچھڑے ہوئے بچہ کی صُورت دکھا دے۔ تڑپ رہی تھی کہ حَسن کا یہ پیغام آ پہنچا۔
” بچہ اپنی پھُوپھی کے پاس گاؤں میں ہے لیکن تُم ابھی آ جاؤ، اگر فورا ً نہ آئیں تو صُبح ہی زوجیت کا دعوٰی دائر کر دوں گا اور عدالت کا حُکم لے کے چوٹی پکڑ کر گھر میں سے گھسیٹ لاؤں گا۔“
عطیہ کے باپ نے یہ الفاظ سنے ، بیٹی کو بلا کر گلے سے لگایا اور کہا،
” جا خدا کے سُپرد کیا۔“
اتنا کہہ کر بدنصیب باپ کی ہچکی بندھ گئی۔ اُس نے کمرہ میں گھُس کر دروازہ بند کر لیا۔
عطیہ کی حالت خراب تھی جب یہ سُنا کہ بچہ بھی وہاں نہیں ہے اُس وقت سے بخار اور تیز ہو گیا تھا۔ خدمت کی مُصیبت آنکھ کے سامنے تھی۔ ماں ، بہنیں ، سہیلیاں سب کھڑی آٹھ آٹھ آنسُو رو رہی تھیں۔ ڈولی موجود تھی۔ سوار ہونے سے پہلے عطیہ نے کہا ،
” مرض کی حالت مریض سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا۔ میں اب اِس دُنیا میں چند ساعت کی مہمان ہوں اور قریب ہے وہ وقت کہ ماں میری موت اور باپ فراقِ ابدی پر خُون کے آنسو گرائیں اور میری نامُراد آنکھیں معصُوم بچہ کی صُورت کو پھڑکتی ہمیشہ کی نیند سو جائیں ، مگر مجھے ماں کے صَدمہ ، باپ کے رنج اور عزیزوں کے افسوس سے زیادہ اس مُصیبت کا دھڑکا ہے ، جس کے خیال سے میرے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں۔ بہنو ! جن کانوں نے کُوار پنے میں ماں اور باپ کی جھڑکی تک نہ سُنی ، نکاح نے اُن کو سخت سے سخت اور بَد سے بَدتر کلمے سُنوا دیئے۔ جس جسم پر پھُول کی چھڑی نہ لگی تھی اب اُس پر بیدیں پڑنے کا وقت آ پہنچا!!“
” میرا سانس اُکھڑ رہا ہے اور وقتِ آخر ہے۔ میرا پیام مُسلمانوں تک پہنچا دینا۔ بزرگو! اگر صداقتِ اسلام کی روشنی دِلوں میں اور انصاف کی جھلک آنکھوں میں موجود ہے تو کبھی بھُولے بِسرے ، سوتے جاگتے اِن بَدنصیب ہستیوں پر بھی غور کرو جو ناز و نعم سے پَل کر ہاتھوں چھاؤں بڑھ کر سنگدل شوہروں کے قبضے میں جا پَھنسیں۔ مُسلمانوں کی حالت کا قیاس اپنے اُوپر نہ کرو۔ اِس بَدنصیب قوم کی حالتِ زار کی داستان گھر کی ماماؤں اور پڑوس کی بدنصیبوں سے سُنو۔ زندگی آپ کو مُصیبت اور دُنیا اُن کے واسطے دوزخ۔ ظالم شوہروں نے اُٹھتے جُوتی اور بیٹھتے لات سے اُن کو کائنات کی بدترین ہستی بنا دیا۔ لللہ ایمان سے کام لو اور بتاؤ اگر ہم نے حُکمِ طلاق کے آگے کبھی اُف کی ہو! تُم نے بے گُناہ ، بے قصُور طلاقیں دیں اور ہم نے گردنیں جھُکا دیں ! مگر اُسی نبی اور اُسی مذہب نے ہم کو خلع کا حق دیا تھا مگر ہے کوئی مُسلمان جو آج کہہ سکے کہ اُس نے ایک بدنصیب بیوی کو خلع دلوا کر ظالم شوہر سے چھُٹکارا دلوایا ہو؟“
”ہم نے خاکِ عرب سے اُٹھنے والے رسُول کے احکام سر اور آنکھوں پر اور اسلام کی لاج رکھی ، مگر تُم نے اُس پاک ہستی اور مکمل انسان کا ارشاد ٹھکرا دیا۔ بے شُمار ماں کی جائیاں مُصیبت پیٹتی اور آفت بھُگتتی قبروں میں پہنچا دیں اور خلع نہ ہونے دیا !!“
عورتوں کی ہچکی بندھی ہوئی تھی اور کوئی ایسی نہ تھی جو اُس کی صُورت پر لبیک نہ کہہ رہی ہو۔ اب عطیہ کی آواز رُک گئی، وہ ڈولی میں بیٹھنا چاہتی تھی کہ کھانسی اُٹھی ، صرف اتنا کہا۔
”ہائے میرا بچہ!“
اور وہیں ٹھنڈی ہو گئی !!