مجھے رات بہت اچھی لگتی ہے۔
پُر سکون سی۔۔۔
ہلکی ہلکی سی۔۔۔
نیند کی طرف دھکیلتی ہوئی۔۔۔ نرم نرم سی۔۔۔
اگر رات نہ ہوتی تو شاید دنیا میں کوئی آرام کو نہ پہچان پاتا۔ شاید اسی لیے ہزاروں بیماریوں کی ابتداء اسی کے اُڑ جانے سے ہوتی تھی۔۔۔ اس لیے بھی
مجھے رات بہت پسند تھی کہ اکثر کوئی کام نہیں کرنا پڑتا۔ ا سکول کالج بند ہو جاتے ہیں۔۔۔ آفس میں کام ختم کر دِیا جاتا ہے۔ گھروں میں بھی سب اپنے اپنے کمروں میں آرام کرنے چلے جاتے ہیں۔ ہاں البتہ!
کچھ آفس پھر بھی چلتے رہتے ہیں۔ فیکٹریاں شفٹ ورک کے ہیر پھیر میں انسانوں کو اُلجھا کر منافع کمانے کی سر توڑ کوشش میں لگی رہتی ہیں۔
سارے بالا خانے آباد ہو جاتے ہیں۔ رات کا فائدہ اُٹھا کر سب اُجلی باتیں ، اُجلے کردار، اغلاف، ہنر سب کے سب کالے اور دھندلے ہو جاتے ہیں۔ اسی رات کا جادو کبھی ایسا چلتا ہے کہ انسان تمام عمر سونا اور آرام کرنا بھول جاتا ہے۔
ڈاکٹر کہتے ہیں کہ رات ایک سُچل اور قدرتی انمول تحفہ ہے جو رّب نے انسان کو عطا کیا ہے۔ جو اس کو نہیں سنبھال کر رکھتا وہ بے چین رہتا ہے۔۔۔
شاید رات مجھے اس لیے بھی پسند تھی کہ اس کا تعلق چیَن سے تھا۔ آرام سے تھا۔۔۔ میں اکثر جب ہسپتال میں ڈیوٹی پر ہوتی ہوں تو رات کو ضرور وارڈ کا چکر لگاتی ہوں۔۔۔ دیکھوں کہ کون آرام اور چَین سے سو رہا ہے۔
اور پھر میں کئی لمحے تک ان کے پُر سکون چہرے دیکھتی رہتی ہوں جو دِن کے اُجالے میں حرماں نصیبی کی تصویر ہوتے تھے۔۔۔ دُکھ اور کرب ہر طرف کُرلایا کرتا ہے۔ ہسپتال کے ہر وارڈ میں کرب اور دُکھ برستے رہتے ہیں۔ خاص طور پر میں جہاں کام کرتی تھی۔ یہ نفسیاتی ہسپتال تھا۔۔۔ حال ہی میں میرا تبادلہ یہاں ہوا تھا۔ اس سے پہلے میں سرجری کے شعبے میں تھی اور اس سے پہلے میڈیسن اور گائنی میں۔۔۔ سو میری یہ چوتھی Rotation تھی۔اکثر رات کی ڈیوٹی لگتی رہتی تھی اور ہسپتال میں بھی رات آتی تھی مگر صرف ان لوگوں کے لیے جو چین اور آرام کی منزل کو یاد رہے ہوتے تھے۔ ہاں البتہ ڈاکٹروں کا تعلق بے چین، بے آرام سے لوگوں سے تھا بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ وہ اس بے چینی کے اس قدر عادی ہو جاتے ہیں کہ رات کو بھی اُٹھ اُٹھ کر مریضوں کو دیکھتے ہیں اور ان کے پُر سکون سوئے ہوئے چہروں کے باوجود ان کی نبضیں ٹٹول رہے ہوتے ہیں اور کبھی کمر لگا کر بیٹھ بھی جائیں تو نئے آنے والے مریض کی اطلاع ان کو حیران اور پریشان نہیں کرتی بلکہ دوڑ پڑتے ہیں۔ اُنہیں بے سکونی اور بے آرامی سے بچانے کے لیے۔
ان کے سکون اور رات کے تحفظ کے لیے ، ساری رات ، بے سکون ہو کر بِتا دیتے ہیں۔۔۔ پھر بھی اکثر لوگ یہی کہتے تھے کہ آخر ڈاکٹر نے کیا کیا؟؟
میں شاید کبھی نہ بتا سکوں گی کہ اس دنیا میں بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دوسروں کو اپنی راتیں بانٹ دیتے ہیں صرف اُنہیں رات کا سُکھ دینے کے لیئے۔۔۔
کتنے لوگ تھے جو ایسا ظرف رکھتے تھے ؟
جبھی تو رات کی عبادت کا ثواب بھی دو گنا تھا۔
اس رات کے آرام کی قربانی کا احساس تو میرے رب کو بھی تھا۔۔۔ جبھی تو اِس کی قدردانی میں جنت رکھی ہے۔
بے شک اِنسان نا شکرا رہے۔۔۔ اپنے رب کا بھی۔۔۔ جس نے رات کو آرام کے لیے بنایا اور پھر اس انسان کا بھی ، جس نے اُسے رات کا سکون دوبارہ لوٹایا۔۔۔
یہ رات کتنی کرشمہ ساز ہے۔۔۔ کسی کو راتوں رات ولی بنا دیتی ہے اور کسی کو راتوں رات فقیر کر دیتی ہے۔۔۔ اور اگر کبھی رات کو کھڑکی سے پردہ اُٹھا کر باہر دیکھو تو اس کالے اژدھے کی طرح ڈرا دیتی ہے جس کا تصور امی جی نے ہزاروں بار ہمیں نماز نہ پڑھنے پر شہر میں ملنے والی سزاؤں میں سے ایک کا ذکر کیا تھا۔۔۔
تو کیا رات کالے اژدھے کی طرح ایک سزا بھی تھی؟؟؟
شاید اُن لوگوں کے لئے جنہیں آرام نہیں تھا۔۔۔سکون نہیں تھا۔۔۔ چین نہ تھا۔۔۔ جنہیں نیند نہیں آتی۔۔۔
رات کی اس جادو گری سے میں حیران سی رہتی تھی۔
اللہ پاک کی کروڑوں نعمتوں میں سے ایک تھی۔۔۔
کسی کو میسر تھی۔۔۔
کسی سے چھین لی گئی تھی۔۔۔
کسی کے لئے نایاب سی تھی۔۔۔
کسی کے لئے مصنوعی طریقے سے خریدی جا رہی تھی۔۔۔
اور کسی کو کہیں سے بھی نہیں مل رہی تھی۔ایک عذابِ مسلسل کی طرح جگا رہی تھی۔
انہی راتوں میں خوف اور دہشت و وحشت پلتی تھی۔ تو میں کبھی انہی وارڈز میں گھومتے ہوئے سوچتی تھی ، ہر انسان کی رات اپنی ذاتی ہوتی ہے۔۔۔
اس کے لئے سونا کیا تھا صرف وہی جانتا تھا۔۔۔ اس کے خواب صرف اُسی کے تھے۔۔۔ اس کا آرام و چین سبھی کچھ اس کا اپنا تھا۔۔۔
جہاں میں کھڑی تھی وہاں سے صرف مجھے ان کے معصوم چہروں پر پھیلی ہوئی معصوم سی خواہش نظر آتی تھی۔ جنہیں پڑھنے کے لئے میں اکثر بے چینی سے وارڈز کے چکر لگایا کرتی تھی۔
کبھی ان کے معصوم چہروں پہ ہلکی سی مسکراہٹ آ جاتی جیسے اُن کے خواب درد اور کرب سے آزاد ہو رہے ہوں۔۔۔ اور کبھی ان کے آنسو پلکوں سے ٹکراتے رہتے اور یونہی گرتے رہتے۔۔۔ جیسے ان کو سحر کی اُمید ہی نہ تھی۔۔۔ اور کبھی وہ ایسے ڈر کر اُٹھ جاتے جیسے رات کالے اژدھے کی طرح انہیں نگلنے کے لئے چلی آ رہی تھی۔
رات اور موت میں کیا فرق تھا۔۔۔ شاید لمحوں کا فاصلہ تھا۔ یا پھر پل پل دعا دینے والی موت بانگِ دہل رات کے قدموں میں لوٹ رہی ہوتی تھی۔ اسے بھی معلوم تھا کہ راتوں کو کون جاگتا ہے۔۔۔ کون پکارتا ہے۔۔۔ کون آتا ہے مدد کو۔۔۔ کون سُنتا ہے۔۔۔ ہاں ! پکارتا تو وہی ہے جو لو لگا لیتا ہے۔۔۔
سلگتا ہے پل پل۔۔۔ لمحہ لمحہ۔۔۔ گھلتا رہتا ہے۔۔۔اپنے ہی دُکھوں میں ، اپنے ہی واہموں میں ، خود ہی سے ہارتا رہتا ہے۔
لیکن ہاں ! ایک ہے جو مدد کو آتا ہے ، وہ رب ہے جو سدا سے جاگ رہا تھا۔ اس کے لیئے ہی دِن رات کا فرق نہیں تھا شاید صرف اس لیئے کہ کوئی اسے پکار نہ لے۔۔۔مدد مانگنے نہ آ جائے۔۔۔ رات کی عبادت ساری عبادتوں سے افضل تھی۔
انسان سے ولی تک کا سفر رات کا سفرِ مسلسل تھا۔لیکن یہ کیسی رات تھی بے قرار سی ، لمبی اژدھے جیسی زہریلی۔ جس کا زہر جاگنے پر بھی رہ جاتا ہے۔ یہ اس رات کی بات تھی جس کے رتجگے میں نہ تو ہجر تھا نہ وصال۔۔۔ بس خون اور وحشت کی طرح مسلط کر دی جاتی ہے۔ کسی امیر کی طرف سے کسی بھی غریب پر اور کبھی بڑے ملک چھوٹے ملکوں کی نیندیں اُڑا دیتے ہیں ، اس میں بسنے والے ہر انسان کی رات چُرا لیتے ہیں۔ اس میں خون، ہراس، دہشت، وحشت، بے یقینی اور بے چینی بھر دیتے ہیں۔ کتنے ظالم ہوتے ہیں وہ لوگ جو دوسرے لوگوں کی راتیں چُرا لیتے ہیں۔۔۔ ان سے چین اور آرام چوری کر لیتے ہیں ، ان کے سکون اور خواب لوٹ لیتے ہیں ، کتنے ہی بہانوں سے۔۔۔ اِنسان اُجاڑ دیتے ہیں۔ پھر باقی کیا بچتا ہے ان کے پاس؟ ؟؟
Stress سٹریس، Depressionڈپریشن۔۔۔ یہ سب کیا تھا ؟؟؟
کسی کو نیند نہیں آتی تھی؟ نہ قدرتی ، نہ مصنوعی۔۔۔ اعصاب شکن راتوں کے عذاب کیوں کچھ انسانوں پر مسلط کر دیئے جاتے ہیں۔ بے قصور، مظلوم اور لاچار انسان۔۔۔
میں نیندیں کہاں سے لاؤں ؟؟؟ میرے رب! میرے ہاتھوں کو جادوؤں سے بھر دے کہ میں ان بے خواب تھکی آنکھوں پر اپنے ہاتھ رکھ دوں اور وہ پل بھر میں سو جائیں۔ آرام کی وادیوں میں بے فکر اُڑیں ، لہرائیں ، گھومیں ، ناچیں۔۔۔ خواب، جو مدتوں سے نہیں دیکھے وہ ایک پل میں سارا سفر کر لیں۔۔۔
اے رب! مجھے پور پور جادو کر دے۔
کہ میں ان کا یقین اور بھروسہ لوٹا دوں۔۔۔ کہ وہ سب ایک دفعہ ہوش میں رہنا سیکھ لیں۔۔۔ہم سب بہت عام سے انسان ہیں۔۔۔ ہم ولی نہیں بن سکتے۔ ہم یہ ریاضت نہیں کر سکتے۔ ہمیں نہ آزما۔۔۔ ہمیں ہماری نیندیں ، ہماری راتیں لوٹا دے۔میں نے اپنی دھندلی اشک بار ا آنکھوں سے مسز ڈینی کو دیکھا جو بار بار آنکھیں بند کرتی اور کبھی اپنے بازو اپنی آنکھوں پر رکھ لیتی۔ سلیپنگ پلز کے باوجود نیند ان کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔
’’تھوڑی دیر میں نیند آ جائے گی ، بس یونہی آنکھیں بند رکھو۔ ‘‘ میں نے آہستگی سے انگریزی میں اس سے کہا تو وہ ہنس پڑی۔ مجھے لگا جیسے میرا مذاق اُڑا رہی ہو۔
ہر تکلیف میں سب سے پہلے نیند کا ہی انجکشن دینا پڑتا تھا۔ میں سوچے بنا نہ رہ سکی۔
اگر میرے سارے مریضوں کو ان کی نیندیں واپس مل جائیں تو میرا سارا وارڈ خالی ہو جائے شاید۔۔۔ میں اپنے تجزیہ پر فور۱ًہی ہنس پڑی۔
سڈنی کے اس ٹیچنگ ہسپتال میں سائیکاٹری کے لئے پچاس بیڈ کا یہ ہسپتال میرے گھر سے کچھ ہی فاصلے پر تھا۔ اور جب مجھے یہاں جاب ملی تھی میں سمجھی تھی کہ لاٹری کھل گئی تھی۔ لیکن ہر صبح کو جب سوا آٹھ بجے ان سڑکوں پر گاڑیوں کا سیلاب آتا تو میں تیرتے تیرتے ہسپتال پہنچتی اور پندرہ15 منٹ کا راستہ پینتالیس 45منٹ میں طے ہوتا تو ہر روز سوچتی کہ سنٹرل کوسٹCentral Coastکی جاب اچھی تھی۔ ایک گھنٹہ کا سفر اُڑتے اُڑتے 45منٹ میں طے کرتی تھی اور سارے راستے صرف وہی سوچتی جو میں سوچنا چاہتی تھی۔ اس وقت صرف ان 45منٹوں میں نہ تو میں ڈاکٹر ہوتی تھی اور نہ ہی رشتے میں کسی کی کچھ لگتی۔۔۔ ان45منٹوں کا سفر مجھے بے حد عزیز تھا لیکن یہ 15منٹ کا سفر 45 منٹوں میں کرنا اچھا نہ لگتا تھا۔ کار پارکنگ سے وارڈ تک کا سفر مزید 10منٹ میں گزرتا۔ یہ بھی گراں تھا۔ بڑے ہسپتالوں کی بڑی کہانیاں ہوتی ہیں۔ انڈر شیڈ کار پارکنگ، اوپن پارکنگ۔۔۔ اور دونوں کے لئے مہینوں الیکٹرانک کارڈ کا انتظار کرنا پڑتا ہے اور اس دوران پارکنگ نے جان نکالے ہی رکھی ہے۔۔۔ اگر اِدھر اُدھر پارک ہو جاتی تو فائن کا انتظار الگ سے کرنا پڑتا ہے۔ خدا خدا کر کے الیکٹرانک کارڈ ملا تھا۔ لیکن اب گاڑی کے دھوپ میں کھڑی کرنے کا قلق تھا۔ بہر حال ہم کسی حال میں خوش نہیں رہ سکتے۔
پچاس بیڈ کے سائیکاٹری وارڈ کے دو حصے تھے۔ ان پچاس بیڈ میں 4تو ایمرجنسی میں تھے۔ 14ہائی ڈپینڈنسی یونٹ کے تھے جسے ہم HDOکہتے تھے۔ جہاں پر مریضوں کو Intensive Careمیں رکھا جاتا تھا اور ہر پندرہ 15منٹ میں باقاعدہ انہیں دیکھا جاتا تھا کہ کہیں وہ اُلٹے سیدھے کام نہ کر رہے ہوں۔
نرسنگ اسٹیشن ڈبل گلاس کورڈ تھا ہر طرف سے۔۔۔ تاکہ کوئی اندر نہ آ سکے۔ اگر کوئی آتا تو چابی کا استعمال کرتا۔ سائیکاٹری وارڈز کا یہ رونا ہر جگہ ہی تھا۔ ہر دروازہ مقفل رکھا جاتا۔ سب چابیوں کے گچھے کمر سے یا گلے میں لٹکائے پھرتے اور چھم چھم کرتے جاتے جہاں جاتے۔ہفتہ وار گرینڈ راؤنڈ میں سب کو پتہ لگ جاتا کہ سائیکاٹری ٹیم آ رہی ے چھم چھم کرتی۔۔۔ ہمارے دوست ساتھی سب مینٹل ڈاکٹر کہا کرتے تھے جو مجھے کبھی برا نہ لگتا۔۔۔ اور میں بڑے مان سے سرجن فلپ سے کہتی۔۔۔ تمہیں معلوم ہے کہ ہم لوگ تمہاری سوچیں اور تمہارے خیال پڑھ سکتے ہیں۔
اُس نے میرا نام Brainy Doctorدماغی ڈاکٹر رکھ دِیا اور کچھ ہی عرصے میں مجھے سب اِسی نام سے پکارنے لگے۔ میرے بہت سے مریض یہی سمجھتے تھے کہ میرا نام برینی ہے۔ لیکن میں یہ کیسے سب کو یقین دِلاتی کہ دماغ ایک مسٹریMysteryہے ، عجوبہ ہے۔ آج تک ہمارے حضورﷺ کے علاوہ کسی نے 1/7.44 سے زیادہ دماغ نہیں کیا ہے۔ جن میں وہ Scientistبھی آتے ہیں جنہیں ہم آئن سٹائن، گلیلیو، مارکونی وغیرہ کے ناموں سے جانتے ہیں اور نہ جانے کتنے فلاسفر بھی۔۔۔
مجھے اپنے برینی ہونے پر ناز تھا۔۔۔
مجھے اپنے کام سے عشق تھا۔۔۔
پیار کرنا کوئی بُری بات تھوڑی ہے۔۔۔
کوئی پانے کی خاطر پیار کرتا ہے۔ میں تو کھوئے ہوئے لوگوں کو پانے کے لئے پیار کرتی تھی۔۔۔ یہ سارے لوگ کھوئے ہوئے تھے۔۔۔ اپنی سمجھ، اپنی عقل، اپنا چیَن، اپنے دِن رات۔۔۔ اُنہیں کچھ بھی نہ ملتا تھا۔
اوپن وارڈ کے بیچوں بیچ نرسنگ اسٹیشن تھا۔ جس میں چاروں طرف شیشے لگے ہوئے تھے تاکہ ہم سب آتے جاتے ان پر نظر رکھ سکیں اور اپنا کام بھی کرتے جائیں۔ میں ابھی اپنی کالی الیکٹرانک چابی لگا ہی رہی تھی کہ میرا Razer Beepکرنے لگا۔۔۔ نمبر دیکھا تو ایمرجنسی کا تھا۔
رات کے تین بجے۔۔۔ یقیناً لڑائی ہوئی ہو گی کلب میں۔ لڑا ئی کا چکر، شراب یا پھر ڈرگ۔۔۔ ہمیں اکثر ایسے لوگ بھی ڈیل کرنے پڑتے تھے اس لیئے کہ یہ بھی تو ایک سائیکی تھی۔ان چیزوں میں پناہ ڈھونڈنے والے کب نارمل ہوتے ہیں۔
اور ستم یہ کہ یہ ویسٹرن کلچر کا ایک حصہ ہے بڑا لازم و ملزوم سا۔۔۔
جانے میں کیا کیا سوچتے زینہ اُتری۔ بڑی سی راہداری کو پار کر کے پھر ایک اور کورویڈور میرا انتظار کر رہا تھا۔ میں نے ایمرجنسی سٹاف سے بات کرتے وقت تیس منٹ میں پہنچنے کا وعدہ کیا تھا کیونکہ سب سے پہلے وارڈ میں بتانا پھر اپنے کمرے سے ضروری فائلیں اُٹھانی پھر ایمرجنسی تک کا سفر پندرہ منٹ تک بڑے ہسپتالوں میں نہ ہونے کے برابر تھا۔
راستے پر بہت کچھ سوچتے ہوئے ایمرجنسی پہنچی۔
سوشی میرا انتظار کر رہی تھی۔ وہ سینئر نرس کنسلٹنٹ میرے ساتھ ہی ڈیوٹی پر تھی۔ وہ مریض پہلے سے دیکھ چکی تھی۔ وہ جلدی جلدی سب کچھ بتانا چاہتی تھی۔ اور شاید اسی رات کی وجہ سے میں ذرا سی سست ہو رہی تھی۔ اُلجھ پڑی۔
’’پلیز سوشی! آہستہ آہستہ بولو یا فائل مجھے دے دو۔۔۔‘‘
اُس نے پھر دوبارہ آہستہ آہستہ بتاتے ہوئے اس کی فائل مجھے دیدی۔
چوّن 54سالہ عورت نے اینٹی ڈپریسنٹ کھا کر خود کشی کی کوشش کی تھی۔ بروقت طبی امداد ملنے سے بچ گئی تھی اور اب تک میڈیکل ٹیم کی نگرانی میں تھی۔
’’اگر وہ Medically Clearanceمیں ہے تو مجھے کیوں بلایا ہے ؟ ‘‘
’’شاید مسز کونگ بہت Distressمیں ہیں۔‘‘
’’شاید ہم کچھ سنبھال سکیں اس لئے۔۔۔‘‘ سوشی دور کی کوڑی لائی تھی۔
’’شاید۔۔۔ ‘‘
’’جانے کیوں خود کشی کا رواج سا ہو گیا ہے۔ ‘‘
’’آسان سا اور سستا سا نسخہ۔۔۔ ہر چیز کا علاج۔۔۔‘‘ ابھی کچھ دِن پہلے والی ایمرجنسی ٹیم کے ساتھ ہونے والی میٹنگ میں ایک نرس نے کہا تھا۔
ایک سائیکالوجسٹ چیخ پڑی۔
’’نہیں یہ غلط ہے۔ جب انسان کے نزدیک جینے اور مرنے میں فرق مٹ جائے تب وہ خود کشی کرتا ہے۔ کہ اب چلتے ہیں ، بہت ہو گیا، بہت سہہ لیا۔ ‘‘
اس عمر میں یعنی 54سال کی عمر میں خود کشی۔۔۔تنہا ہے تو سمجھ آ جاتی ہے لیکن فیملی کے ساتھ۔۔۔ Unbelievable۔۔۔ یقیناً سیریس بات ہے۔۔۔ ‘‘ ایمرجنسی میں دائیں بائیں قطار سے بیڈ لگے ہوئے تھے۔ ایک طرف نرسنگ اسٹیشن اور ایک طرف ڈاکٹر اسٹیشن تھا۔ ہر طرف رش سا لگا ہوا تھا۔ باہر انتظار کرنے والوں کی بھیڑ۔ کبھی آنکھیں ملتے ہوئے اُٹھ جاتے اور کچھ دوسروں کے کندھے پر سر رکھ کر بے خبر سو رہے تھے۔ رات اپنے جلووں کے ساتھ حشر برپا کیے ہوئے تھی۔
ہر شخص کی اپنی داستان تھی۔۔۔ ہر شخص کے جاگنے رونے کی ایک وجہ تھی۔ ہسپتال میں کام کرنے والا سارا عملہ اوپر سے لے کر نیچے تک اسی کوشش اور تگ و دو میں تھا کہ آخر اِتنے سارے لوگ بے چین کیوں ہیں ؟ جاگ کیوں رہے ہیں ؟ رو کیوں رہے ہیں ؟ دُکھ اور کرب میں کیوں ہیں ؟ اِنہی لوگوں میں مسز کونگ بھی تھی۔۔۔بے چین ، بے قرار، زرد سے چہرے والی۔۔۔ آکسیجن ما سک لگا ہوا تھا۔ دونوں بازوؤں پر ڈرپ لگی ہوئی تھی۔ہارٹ مانیٹر ہو رہا تھا تو کبھی بلڈ پریشر اور نبضیں گنی جا رہی تھیں۔۔۔ زرد چہرے والی مسز کونگ اپنی عمر سے تقریباً پندرہ سال چھوٹی لگ رہی تھیں۔ ان کا حلیہ اور بالوں کا سٹائل بتا رہا تھا کہ وہ Asianہیں اور یہ بھی پتہ لگ رہا تھا کہ وہ کتنی اچھی فیملی سے تعلق رکھتی تھیں۔ سرہانے پر جو چوبیس پچیس سال کا لڑکا تھا، یقیناً اُن کا بیٹا ہو گا اور دائیں بائیں دو نازک اور پیاری سی لڑکیاں ان کی بیٹیاں لگ رہی تھیں اور کرسی پر بیٹھا بُردبار سا آدمی یقیناً مسٹر کونگ ہو گا۔ ورجینا کا شوہر۔۔۔ مسٹرکونگ نے اِنتہا کی انکساری سے اپنا تعارف میرے تعارف کے جواب میں کروایا۔ سب سے تعارف کے بعد میں مسزکونگ کے پاس آئی۔
’’ہیلو مسز کونگ۔ ‘‘ میں نے ان کے قریب آتے ہوئے کہا۔
نقاہت سے اُنہوں نے آنکھیں کھول دیں اور مجھے یوں دیکھا جیسے مجھے چیلنج کر رہی ہوں کہ دیکھتی ہوں کہ تم میری مسیحا کیسے بنتی ہو۔
’’میرے کئی سوالوں کے جواب میں اُن کی پلکیں اُٹھتیں اور جھک جاتیں۔۔۔ شاید تھک گئی تھیں۔ بول نہ پا رہی تھیں۔
’’Al right میں صبح آپ سے ملوں گی۔اس وقت انہیں آرام کرنے دیں۔۔۔ اوکے !! ‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے مسز کونگ کو دیکھا۔ اُنہوں نے میرا ہاتھ محبت سے تھام لیا اور کچھ منٹ تک تھامے رکھا پھر مجھے ایک نظر دیکھا اور پھر ہاتھ بھی چھوڑ دِیا اور آنکھیں بھی بند کر لیں۔ جیسے جانے کی اِجازت دے دی ہو۔۔۔
’’اگر آپ لوگ بات کرنا چاہتے ہیں تو ہم Quiteروم میں بات کر سکتے ہیں۔‘‘ میں اس کمرے کی طرف بڑھ آئی جہاں ہم سب لواحقین سے بات کیا کرتے تھے۔
’’ڈاکٹر ہم کیا بات کریں۔ ہم تو خود حیران ہیں کہ آخر ورجینا نے خود کشی کی کوشش کیوں کی ؟ ہم سب سکون سے رہ رہے ہیں۔ بچے پڑھ لکھ رہے ہیں۔ روپے پیسے کی کمی نہیں ہے پھر کیا ہوا ہے اِسے ؟‘‘
’’کوئی لڑائی۔۔۔ ناراضگی کسی سے ؟ ‘‘ میں نے حیرانگی میں شامل ہوتے ہوئے پوچھا۔
دیکھئے ڈاکٹر ! چھوٹے بڑے مسئلے ہوتے رہتے ہیں گھر میں۔ مگر ایسا ہر گز نہیں ہے کہ ایسا Reactionہو۔ ‘‘
’’آپ کا تعلق کس جگہ سے ہے ؟ ‘‘
’’کمبوڈیا(Cambodia)سے۔ ‘‘
’’اور ہم کہمر(Cohmer)بولتے ہیں۔ ‘‘
’’اور ممکن ہے کہ کل جب آپ ورجینا سے بات کریں گی تو انٹر پریٹر کی ضرورت پڑے گی۔ ‘‘
’’اور کچھ؟ ‘‘
’’جب سے ہمارا بیٹا ملبورن یونیورسٹی گیا ہے تب سے زیادہ اُداس رہنے لگی ہے ورجینا۔ ‘‘
’’یہی کوئی دو مہینوں سے۔۔۔‘‘
’’کسی ڈاکٹر کو دکھایا آ پ نے ؟‘‘
’’جی آ ج ہی جمعے کی شام کو۔۔۔‘‘ مسٹر کو نگ نے بتایا۔
’’کیا کہا انہوں نے ؟‘‘
’’بس کہا کہ ڈپریشن ہے اور جو دوائی لکھ کر دی تھی ، پوری کی پوری کھا کر خودکشی کی کوشش کی تھی۔۔۔‘‘اب مسٹر کونگ کی آنکھوں میں شکست میں اتر آ ئی تھی۔ چھبیس سالہ ازدواجی زندگی کو شکست ہو رہی تھی۔
انہیں پتہ نہیں لگ رہا تھا کہ ورجینا کا کیا مسئلہ تھا۔
اس کے دکھ کا سرا کیا تھا۔
اس کی خاموش اذیت کیا تھی۔
اس نے ابھی تک کس کو اپنا ہمراز کیا تھا۔
تنہا چلتے چلتے تھک سی گئی تھی۔
کاش میں ان آنکھوں میں چھپی شکایت ، درد ، کرب ، کسک کو کوئی نام دے سکتی۔ کاش میں ورجینا کی آنکھوں کا چیلنج قبول کر سکتی۔۔۔
مجھے اب تک اتنا ہی معلوم تھا۔ جتنا 26سالہ رفاقت میں مسٹر کونگ جان پائے تھے۔۔۔ کتنی عجیب سی بات تھی انہیں جاننے میں چھبیس سال لگے اور مجھے صرف چھبیس پل۔۔۔
کبھی کبھی کتنا کچھ بیج میں آ جا تا ہے۔۔۔ہم ساتھ رہتے ہوئے بھی ہر پل دور سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ پھر کوئی سرا ہاتھ نہیں آتا کہ آخر اتنی لمبی رفاقتوں کے حصار میں کوئی کب تنہا ہوا کہ تنہا ہی سفر کرنا ہے۔ جب تھک کر بیٹھے اور مُڑ کر دیکھے تو خود کو تنہا پائے۔۔۔ یہ کیا کرب تھا۔شاید وہی جو میں نے کچھ دیر پہلے مسز ورجینا کو نگ کی آنکھوں میں دیکھا تھا لیکن کیوں آخر۔۔۔ کیوں ؟؟
میں اپنے اسٹیشن پر واپس آ چکی تھی کہ جانے کل کیا گرہ کھلے گی۔
آ ج مسز ورجینا کونگ اور میرے درمیان یہ رات ہی تھی جو انہیں تھکا رہی تھی اور مجھے جگا رہی تھی۔۔۔گناہ ثواب کا کھیل کھیلتی تھی۔۔۔
دن رات سے جنگ کرتا تھا اور رات دن کو شکست دینے پھر چلتی آ تی تھی۔
رات جو بڑی کرشمہ ساز تھی۔
گناہ ثواب سے لڑتی رہتی تھی۔
نیند تو سولی پر بھی آ جاتی ہے پر جاگنے والوں کی نیندوں کو سولی کا بھی آسرا نہ تھا
سرد پلکوں کی صلیبوں سے اتارے ہوئے خواب ریزہ ریزہ ہیں مرے سامنے شیشوں کی طرح
جن کے ٹکڑوں کی چبھن، جن کی خراشوں کی جلن
عمر بھر جاگتے رہنے کی سزا دیتی ہے۔
شدت کرب سے دیوانہ بنا دیتی ہے۔
دوسرا دن آ پہنچا۔۔۔وہ ابھی تک میڈیکل ٹیم کی نگرانی میں تھی۔ میں گھر آ کر بھی یہی سوج رہی تھی، آخر کیوں ورجینا جیسی عورت کو خود کشی کرنی پڑ گئی حالانکہ میں سب کو کہتی تھی کہ کام اور مریض کو ہسپتال میں ہی چھوڑ کر گھر جایا کرو لیکن کبھی کبھی یہ ممکن رہتا ہی نہیں۔
’اگر ڈاکٹر بے حس ہو جائے تو درد کی دوا کیسے کرے گا۔۔۔‘ یہ فلا سفی میری سائکالوجسٹ درست کی تھی۔
جذبات ، خیال کرنا سب کچھ فطرت کی طرح اپنے آپ ہوا چلا جاتا ہے۔ آج رات پھر میری ڈیوٹی تھی اور میں جلد از جلد سیڑھیاں اتر رہی تھی پھر لمبی راہداریاں۔۔۔ تقریباً پندرہ منٹ کا فاصلہ ہمارے وارڈ سے ایمر جنسی تک کا تھا جسے میں پل بھر میں طے کرنا چاہتی تھی۔ ایمرجنسی پہنچتے ہی میڈیکل ٹیم نے بتایا کہ وہ میڈیکلی کلیر ہے اب آپ کی باری ہے۔۔۔
اس باری کا انتظار تو میں نے رات بھر جاگ کر کیا تھا۔
زرد چہرے والی ورجینا کونگ آنکھیں موندے لیٹی ہوئی تھی۔ وہی منظر تھا اس کا بیٹا اس کا سر سہلا رہا تھا۔ دوسرے ہاتھ سے اپنی ماں کا ہاتھ تھام رکھا تھا۔ جسے گاہے بگاہے اس کی ماں اسے چوم رہی تھی۔
ایک بیٹی نے مسز ورجینا کونگ کا دوسرا ہاتھ تھا م رکھا تھا۔ جسے بے قراری سے اپنے گالوں سے لگاتیں اور کبھی چوم لیتیں اس کی آنکھوں میں اپنی ماں کو دوبارہ پا لینے کی خوشی تھی۔ سکون تھا۔۔۔
دوسری بیٹی قدموں میں بیٹھی ہلکے ہلکے ان کے پاؤں داب رہی تھی۔ میرے پہنچے پر سب کھڑے ہو گئے اور مجھے بیٹھنے کے لیے کرسی پیش کر دی۔
’’اصل میں ہماری ماں کو انگریزی اتنی اچھی نہیں آتی۔۔۔اس لیے ہم ان کے ساتھ ہیں۔ تاکہ انہیں تکلیف نہ ہو۔‘‘
’’Alright۔۔۔۔۔! نو پرابلم ہم انٹر پریٹر بلوا لیتے ہیں۔۔۔آپ لو گ انتظار کریں۔‘‘
’’آ ج ہفتہ کا دن ہے اور کمبوڈین انٹر پریٹر ملنا بہت مشکل ہے۔۔۔‘‘نرس جولی نے بتایا۔
’’تو کیا کریں ؟‘‘
’’اچھا کیا میں ٹرانسلیٹ کر سکتا ہوں ؟‘‘ اس کے بیٹے نے مجھ آفر کی۔
That’s-okلیکن پھر بھی ہمیں انٹر پریٹر ڈھونڈنا چاہیے۔
’’پھر یہ طے پایا کہ جولی انٹر پریٹر رہے اور میں ان سب سے بات کرتی رہوں۔۔۔‘‘
’’اور سنائیں ورجینا آ پ کیسی ہیں۔۔۔‘‘اس کے بیٹے نے انگریزوں کو کہمر(Cohmer) زبان میں ترجمہ کرتے ہوئے اپنی ماں سے پوچھا۔
’’ایک اداس سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر پھیل گئی۔۔۔‘‘
’’کہیے میں آ پ کی کیا مدد کر سکتی ہوں ؟‘‘میں نے شائستگی سے ان سے پوچھا۔
’’ڈاکٹر۔۔۔مجھے نہیں معلوم مجھے کہاں سے شروع کرنا چاہیے۔
میری بیماری کو چھبیس سال ہو چکے ہیں۔۔۔
میں ماں ہوں ان بچوں کی۔۔۔‘‘ اس نے اپنے بیٹے کا ہاتھ ایک دفعہ پھر چوم لیا ’’مجھے اِن سے بہت پیار ہے۔۔۔
میں انہیں چھوڑ کر نہیں جانا چاہتی۔۔۔ ‘‘ کرب اس کی آنکھوں سے آنسو بن کر ٹپک رہا تھا۔ جسے اس کی بیٹی ٹشِو سے جذب کرتی جا رہی تھی۔‘‘
’’ہوں۔۔۔ ‘‘میں نے آہستگی سے اس کا ہاتھ دبایا۔
’’پھر۔۔۔‘‘
’’مجھے نیند نہیں آتی ڈاکٹر۔۔۔
میری راتیں دن بن گئی ہیں۔
میں جاگ جاگ کر پاگل ہو رہی ہوں۔‘‘ اس کے پور پور سے بے چینی ہویدا تھی۔۔۔
’’کیوں آ پ کو نیند نہیں آتی؟‘‘
’’کیوں کوئی ان دیکھی چیز ڈراتی ہے آ پ کو ؟‘‘
اب مجھے اس کے بند دروازے کھولنے تھے۔۔۔
’’مجھے اپنا آ پ ڈراتا ہے۔۔۔
مجھے اپنی ہی آوازیں آتی ہیں۔۔۔‘‘
’’کیا کہتی ہیں آ پ سے ؟‘‘
’’میں اس دنیا میں کچھ نہیں کر سکتی۔۔۔
میں ادھوری ہوں۔۔۔
دس سال سے میں اپنے آ پ سے لڑ رہی ہوں۔۔۔‘‘
’’میں بھی پتھالوجسٹ تھی یعنی اپنی کنٹری میں۔۔۔ دس سال پہلے میں یہاں آئی۔
سب سیکھ جاتے ہیں۔۔۔ آخر مجھے کیا ہوا۔میں کیوں نہ سیکھ سکی۔ میں انگریزی نہ سیکھ سکی اس لیے کہ میں Intelligentنہیں ہوں۔۔۔‘‘
’’ایسا مت کہو۔۔۔‘‘ اس کا فار ماسٹ بیٹا اپنی ماں کو پیار کر رہا تھا۔۔۔
’’میں پتھالوجسٹ بن کر کام کر نا چاہتی تھی جو میں بغیر یہاں کی ڈگری کے نہیں کر سکتی تھی۔۔۔ میری دوسری ناکامی میں نہیں سہہ سکی۔۔۔ میرا احساسِ کمتری مجھے مارنے لگ گیا۔
’’میں تو لڑنا جانتی تھی سب سے۔۔۔
اپنے ملک میں۔
اپنے آپ سے۔
اپنے اردگرد سے
یہاں آ کر میں لڑنا بھول گئی ہوں۔۔۔
میرے اندر کی بہادر عورت ہر روز مرتی رہی۔
میں بیمار رہنے لگی۔۔۔
مجھے بلڈ پریشر ہوا۔۔۔ پھر Diabetes بھی ہو گئی۔۔۔
اب کیا فائدہ۔۔۔
ان بیماریوں کے بعد میں Use lessہو گئی۔‘‘
’’یہ غلط ہے مسز کونگ۔ ‘‘
دنیا میں ہزاروں لوگ ہیں جنہیں میڈیکل پرابلم ہیں۔
جنہیں زبان سیکھنے کے مسائل ہیں۔
اپنے پروفیشن میں کام نہیں کر رہے ہیں۔
لیکن ان میں کوئی بھی تو خود کشی نہیں کرتا۔‘‘
’’انہیں نیند تو آتی ہو گی ڈاکٹر۔ ‘‘وہ ہلکے سے مسکرا دی۔ ’’ان کی رات ہوتی ہو گی۔‘‘
رات کے بعد دن بھی نکلتا ہو گا۔۔۔
میں تو دن رات ایک ہی وقت میں ہوں۔
ڈاکٹر میری مدد کرو۔۔۔ مجھے نیند نہیں آتی۔۔۔
مجھے سب ڈراتے ہیں۔ ‘‘
’’کون۔۔۔؟ ‘‘میں ان کے قریب ہو گئی۔
’’ان کے بچے حیرانگی سے ا پنی ماں کو دیکھ رہے تھے۔۔۔‘‘
انہوں نے ’نہیں ‘ میں سر ہلا یا۔۔۔ جیسے وہ کچھ بھی نہیں جانتے۔
’’شور ہے ہر طرف۔
بھاگو۔۔۔ بچو۔۔۔ محفوظ مقام کی طرف دوڑو۔
کیسے جاؤں ؟
میرا بچہ کہاں رہ گیا۔ کوئی ماں چیخ رہی ہے۔۔۔
میری بیٹی۔۔۔ تم کہاں ہو۔۔۔ باپ پاگل ہو رہا ہے۔ ہر طرف آگ ہے بارود ہے
جنگ ہو رہی ہے۔
شعلے ہی شعلے۔۔۔
دھماکے پر دھماکہ۔
مجھے بچا لو ڈاکٹر۔۔۔‘‘اس نے میرے ہاتھ کو زور سے دبایا۔۔۔ مسز کونگ کی آنکھوں کی دہشت ، وحشت ،خوف و ہراس ایسے پھیلا ہوا تھا۔ جیسے وہ حقیقتاً اس جنگ کا حصہ تھیں۔۔۔
’’Relaxمسز کونگ۔ ہم سب آپ کے ساتھ ہیں۔
آ پ کو کچھ نہیں ہو گا۔۔۔
آ پ محفوظ جگہ پر ہیں۔‘‘
’’لیکن میں نہیں ہوں۔۔۔
دیکھو وہ مجھے مارنے آ رہا ہے۔۔۔
اس کے ہاتھ میں بندوق ہے۔
وہ تار تار کر د ے گا۔۔۔
میری عزت، میری جا ن کو خطرہ ہے۔۔۔
کوئی ہے ؟
کوئی ہے ؟؟‘‘
مسز کونگ چیخ رہی تھی۔۔۔
رو رہی تھی۔۔۔
اپنے ہوسپٹل گاؤن سے خود کو لپیٹ رہی تھی۔ جیسے اپنے آ پ کو بچا رہی ہو۔۔۔
سارا عملہ دوڑا آیا۔۔۔ انہیں نیند کا انجکشن لگا کر سلا دیا گیا۔
میں ان بچوں کے ساتھ اکیلی بیٹھی ہو ئی تھی۔
میرے الفاظ کھو گئے تھے۔
میری آنکھوں میں آنسو جاری ہو رہے تھے۔
میرا دِل درد سے پھٹ رہا تھا۔۔۔ میں اس وقت سائکا ٹرسٹ آن ڈیوٹی نہیں رہی تھی۔
ان کے غم کا حصہ ہو رہی تھی۔
سارے بچے ایک دوسرے سے گلے لگ کر رو رہے تھے۔ مسٹر کونگ گھر گئے تھے۔ ورجینا کے لیے کھانا لینے اور کچھ جوڑے کپڑوں ، کے جانے کتنی دیر اسے ہوسپٹل میں رہنا پڑے۔
اس کے بیٹے نے ہمت کر کے دھیرے دھیرے بتایا۔
’’انہوں نے کبھی ہمیں کمبوڈیہ کی جنگ کے بارے میں نہیں بتا یا۔ ہاں مگر وہ اس کی Eye Witness ضرور ہیں۔
کبھی بتاتی تھیں کہ وہ 23 یا 24 سال کی تھیں جب یہ جنگ ہو رہی تھی۔ اور میں یہ کہ بڑی مشکل ہے جان بچا کر ڈیڈ کے ساتھ دوسری جگہ پر پہنچی تھی۔۔۔
’’پھر کئی ہفتے انہیں نے Refuge( پناہ گزین )کیمپ میں بھی گزارے تھے لیکن اور کچھ نہیں۔۔۔ ہم سب Well Settledتھے وہاں پر۔ اوہ مائی گاڈ۔۔۔ ڈاکٹر What will Happen now? ‘‘ اس کا بیٹا اپنا سرزور زور سے ہلا رہا تھا۔
’’سب ٹھیک ہو جائے گا۔
لیکن کب۔۔۔ میں اس وقت کچھ کہہ نہیں سکتی۔ ‘‘
’’آخر ماں نے ہمیں کیوں نہیں بتایا کہ وہ اس صدمے سے بے حال ہیں۔۔۔ ہم انہیں بہت پہلے سائکاٹرسٹ کے پاس لے جاتے۔‘‘اس کی بیٹی رو رہی تھی۔
’’ابھی بھی دیر نہیں ہوئی ہے۔ ‘‘
دیکھو جو کسی صدمے اور ٹارچر سے گزرتا ہے۔ وہی جانتا ہے کہ کیا ہوا۔
کچھ لوگ بہل جاتے ہیں۔
کچھ لوگ نہیں بہل پاتے۔
اور یہ جو زیادہ پڑھے لکھے ہوتے ہیں۔ وہ ان صدمات کو اور طرح سے ڈیل کرتے ہیں اور اپنے تک رکھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر کسی سے مدد مانگی تو وہ اپنی حیثیت اپنی Ego(انا) کو چیلنج کر رہے ہیں۔
وہ اپنی تکلیف کو بتانے کے لیے بہت وقت لیتے ہیں۔ وہ اس وقت بتاتے ہیں جب ان کے پاس کچھ بھی نہیں بچتا۔۔۔
نہ وقت۔۔۔ نہ لفظ۔۔۔ نہ ہمت
لیکن تمہاری ماں بہت بہادر ہے۔۔۔
وہ مدد مانگ رہی ہے۔
وہ جینا چاہتی ہے۔
اپنے صدمات سے آزاد ہونا چاہتی ہے۔
اپنا بیتا ہوا ہر پل ہم سے شیئر کرنا چاہتی ہے۔
دیکھو اسے اپنا دکھ بانٹنے کے لیے حوصلہ چاہیے تھا۔ اور اس کو اس حوصلے کے لیے تیس سال لگے ہیں۔
ہمیں انہیں بتانا ہو گا کہ ان کا ماضی گزر چکا ہے۔ اب ایک نیا مستقبل ان کا منتظر ہے۔ اس میں نہ خون ہے اور نہ وحشت ہے۔‘‘
’’All Right۔۔۔‘‘ میں نے سب کو سمجھایا۔ اور اپنے کمرے کی طرح آنے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی۔ کہ یکدم اچانک مسز کونگ کی آوازیں پھر اس کے روم سے آ نے لگیں۔
’’مجھے بچا لو۔۔۔
وہ سب مجھے مار ڈالیں گے۔ ‘‘
’’کون لوگ۔۔۔؟‘‘ میں نے انہیں تسلی دیتے ہوئے پوچھا۔
’’وہ جو یونیفارم میں بندوقیں اٹھائے جنگلیوں کی طرح گھر گھر گھس رہے ہیں۔ ‘‘
مار رہے ہیں۔
لوٹ رہے ہیں۔
ہنس رہے ہیں۔
آگ ہی آگ۔۔۔
بم بلاسٹ دھماکے۔ شعلے ہی شعلے۔۔۔‘‘ پھر انہوں نے گھبرا کر اپنے بیٹے کو آواز دی پھر بیٹی کو۔۔۔ جیسے وہ کہیں کھو گئے ہو ں وہ آنکھیں بند کیے دیوانوں کی طرح خلاؤں میں ہاتھ مار رہی تھی اور کبھی بستر سے اِدھر اَدھر لڑھک رہی تھی۔۔۔
’’میں یہاں ہوں ماں۔۔۔‘‘
’’اور میں یہاں۔ ‘‘
ان کے بچوں نے پھر اپنی ماں کو گھیرے میں لے لیا۔ انہوں نے اپنا سر اپنے بیٹے کی گود میں رکھ دیا۔ اور یوں آنکھیں بند کر لیں۔۔۔ جیسے سستانا چاہتی ہیں۔ آرام چاہتی ہیں۔
’’یہ کب سے ایسی بے چین ہیں۔؟‘‘
’’ہم نے کبھی انہیں ایسا نہیں دیکھا۔‘‘
’’جب سے عراق کی جنگ شروع ہو ئی ہے ہم نے اکثر انہیں بے چین دیکھا تھا لیکن ہم تو یہی سمجھتے رہے کہ سب ہی بے چین ہیں کسی نہ کسی حوالے سے۔
پھر انہوں نے T.Vدیکھنا چھوڑ دیا۔
پھر اخبار پڑھنی۔
بس یہی کہتی تھیں کہ مجھے گھبراہٹ ہوتی ہے سب دیکھ کر۔
یہ ہمیں یہ بھی معمولی ہی لگا۔‘‘
’’پھر۔۔۔کل کیا ہوا تھا جو آپ لوگوں کو پرائیویٹ سائکاٹرسٹ کو دیکھا نا پڑا۔۔۔؟‘‘
’’ہم سب ا سکول کالج گئے تھے ، ڈیڈ کام پر تھے۔ ماں حسب معمول گھر پر اکیلی تھیں۔ مجھے ایک اسائنمنٹ بنانے کے لیے ایک War Documentaryکی ضرورت تھی۔۔۔ میں دو وڈیو رینٹل لے کر آئی تھی۔ اور اتفاق سے انہوں نے بھی دیکھی۔۔۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ اس کے بعد ہماری ماں ہم سے بات نہ کریں گی۔‘‘ ان کی سب سے چھوٹی بیٹی مسلسل روتے ہوئے بتا رہی تھی۔’’ہم نے ان کو Confuseاور Upsetدیکھا۔ اور اس وقت بہت پریشان ہوئے جب وہ بے قراری سے ٹہل رہی تھیں۔ اور گھبرا کر کبھی اِدھر دیکھتیں اور کبھی اُدھر۔ فون کی گھنٹی پر وہ ایسی اُچھلیں جیسے کرنٹ لگ گیا ہو۔۔۔
ہم سے دیکھا نہ گیا اور انہیں لے کر ڈاکٹر کے پاس گئے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں ڈپریشن ہے اور یہی دوائی تجویز کی جو انہوں نے ساری کی ساری بظاہر نیند لانے کیلئے کھائی تھی۔ ‘‘
’’اوہ۔۔۔‘‘ میں نے لمبی سی سانس لی۔
وہ پر سکون سی لیٹی ہوئی تھیں۔
’’آ پ لوگوں کو کوئی Indication دی تھی دوائی کھانے سے پہلے ؟‘‘
میرے ہاتھ میں ابھی بھی کچھ سرے نہیں آ رہے تھے۔
’’جی۔۔۔ڈاکٹر ابھی ابھی کچھ دیر پہلے ڈیڈ کا فون آیا تھا کہ ماں نے ایک Noteبھی لکھ کر رکھا تھا۔ ‘‘
’’کیا۔۔۔‘‘ میں حیران رہ گئی۔۔۔
’’کیا لکھا تھا۔۔۔‘‘ میں جلد ی سے پوچھا
’’ہمیں نہیں پتہ۔۔۔ ‘‘تینوں نے انکار میں سر ہلا دیے اور مجھے ایسے دیکھنے لگے جیسے میں ان کی نجات دہندہ ہوں اور کسی جادو کے زور سے پتہ لگا لوں گی کہ اس میں کیا لکھا تھا۔
’’ماں آپ نے کیا لکھا تھا ؟‘‘ ان کے بیٹے نے ان کے ماتھے پر پیار کرتے ہوئے پوچھا۔
’’میں نے کہا لکھا تھا کہ تم سب سے بڑے ہو۔،سب کا خیال رکھنا ،پیار سے رہنا اور صرف پیار ہی بانٹنا۔۔۔
’’میری ماں۔۔۔‘‘ اب شاید جوان بیٹے کی ہمت بھی جواب دے گئی وہ اپنی ماں سے لپٹا رو رہا تھا۔۔۔ ماں اسے تسلی دے رہی تھی۔ ’’میں ٹھیک ہو جاؤ ں گی۔
دیکھو ہسپتال میں ہوں۔ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔
دل میلا نہیں کرو۔۔۔ بہادر بنو۔ تم دو بہنوں کے بھائی ہو۔ بڑے ہو تمہیں رونا زیب نہیں دیتا۔ وہ اپنے گاؤن کی آستینوں سے اس کے آنسو پونچھنے لگی۔
پگلا میرا بیٹا ہو کر روتا ہے۔‘‘ ان کے چہرے پر پھیلی مسکراہٹ ہم سب کے دل پر پھوار بن کر برسنے لگی۔
’’اوکے مسز کونگ! میں چلتی ہوں بہت سارے مریض اور انتظار کر رہے ہیں۔ انہیں دیکھ لوں گھر جانے سے پہلے آ پ سے پھر ملاقات ہو گی۔۔۔Take Care‘‘میں نے ان کے کندھوں کو تھپتھپایا۔
انہوں نے بڑی شائستگی سے کہا’’You Too Doc.۔‘‘
میں نے بڑی مشکلوں سے اور مریضوں کو دیکھا اور ڈنر کے لئے اپنے کمرے میں آ گئی لیکن کچھ کھا نہ سکی۔۔۔
پہلی بار میں نے سوچا کے مجھے سائکاٹرسٹ نہیں ہونا چاہیے تھا۔۔۔ میں کمزور پڑ رہی تھی۔۔۔میرے پاس تسلی کے لیے کوئی الفاظ نہ تھے۔میرے پاس ایسا کوئی Magicنہ تھا جس کے زور سے میں ان کے سارے صدمے، ان کی ساری یادیں مٹا سکتی۔۔۔
کمزور بے بس ، لاچار انسان۔۔۔ مجبور سفر۔۔۔ سفر در سفر کرتا ہی جا رہا ہے۔ انجان سمت کی طرف پرندوں کی طرح
کیسا دکھ ہو گا جس نے رات دن کا فرق مٹا دیا تھا۔
رب نے تو انسان پیار کرنے کے لیے بنائے تھے۔ یہ جنگ کہاں سے آ گئی تھی۔۔۔
پیار سے پیار بڑھتا ہے۔ پھولتا ہے ،مہکتا ہے ، برستا ہے۔۔۔
جنگ سے جنگ چلتی ہے۔۔۔
کمبوڈیہ سے عراق تک سارے سفر میں وہ سارے انسان مجبور سفر تھے جنہوں نے اپنے مقدر پر خود سیا ہی نہیں لکھی تھی۔
اُن کی تقدیروں پر سیاہی پھیر دی گئی تھی۔۔۔
اُن کی رات کو چرا لیا گیا تھا۔۔۔
اُن کی آنکھوں میں رتجگے رکھ دیے گئے تھے جبراً قصداً
اُن کا کیا قصور تھا؟؟بس یہی ناکہ ان کا ملک ہے۔ان کی پہچان ہے اور غریب ہیں جو کہیں اور پناہ نہیں لے سکتے نہ سیاسی اور نہ غیر سیاسی۔۔۔
اتنی چھوٹی سے بات کی اتنی بڑی سزا اور اتنی طویل کہ مرنے دم تک ختم ہی نہیں ہوتی۔۔۔
فلیش بیک میں ایک فلم کی طرح کہانی چلتی رہتی ہے۔
ایک ٹارچر سے نکل کر دوسرے ٹارچر تک۔۔۔ انسان ساری عمر ٹارچر سیل میں گزر دیتا ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ دوسرے ملکوں کے آنے والے اچھی انگریزی نہیں بولتے انہیں کیرئیر بڑھانا نہیں آتا۔۔۔ ان کی قوتِ اِرادی ، ان کا احساس فخر تو جنگوں کی نظر ہو گیا تھا۔وہ کیا کرتے۔؟ کس سے کہتے ، ہمیں بھی جینا ہے۔ خوش ہونا ہے۔۔۔ سُکھ چاہیے تھا سب کو، سکون چاہیے تھا۔۔۔ سکون کا ناطہ نیند سے جڑا تھا تو نیند کا رشتہ رات سے اور جب رشتے ناطوں کی ڈور ٹوٹتی ہے تو مسز کونگ کی طرح وہ صرف ایک چھوٹی سی دنیا میں رہ جاتا ہے۔ جہاں صرف جنگ کے شعلے بھڑکتے ہیں اور چھوٹے بڑے سارے رشتے جلنے لگتے ہیں۔ چٹخنے لگتے ہیں۔ خون پھواروں اور چنگاریوں کی طرح اڑنے لگتا ہے اور کبھی سُلگنے لگتا ہے۔ یوں ہر روز کے اس تماشے میں دل راکھ ہوتا جاتا ہے پھر ایک دن ایسے ہی جانے ایسے ہی کیوں ہو جاتا ہے جب اس چھوٹی سی دنیا میں رہنے والے مجبورِ سفر انسان کے لیے زندگی اور موت کا فرق مٹ جاتا ہے اور وہ ایک اچھی نیند کے لیے ترستے ترستے اس رات کو گلے لگا لیتا ہے جس کے نصیب میں صبح نہیں ہوتی۔ مسز ورجینا کونگ کی دنیا بھی چھوٹی سی تھی۔
دوڑ دوڑ کر پاگل ہو رہی تھی۔
نیند کر ترسی ہوئی بے خواب آنکھوں کی تھکن ان کے وجود کو نگل رہی تھی۔ میں ان کے لئے رات کہاں سے لاؤ ں جس میں نیند کا نشہ بھی ہو اور دن کا سکون بھی۔۔۔
’میرے رب میرے ہاتھوں کو جادوؤں سے بھر دے۔ کہ میں ان کی بے خواب تھکی تھکی آنکھوں پر رکھ دوں تو وہ پل بھر میں بند ہو جائیں۔۔۔ سو جائیں۔۔۔ آرام کی وادیوں میں بے فکر ہو کر اڑیں ، لہرائیں ، گھومیں ، ناچیں ، وہ سارے خواب دیکھیں جو انہوں نے مدتوں سے نہیں دیکھے۔ وہ ایک پل میں سارا سفر کر لیں جو انہیں کہیں برسوں میں کرنا تھا۔‘
رات اور آگے بڑھ آئی تھی۔۔۔
میرے جانے کا وقت ہو رہا تھا۔ مسز کونگ میری ہدایت کے مطابق انتہائی نگہداشت میں ایڈمٹ ہو چکی تھیں۔ ہر پندرہ منٹ کے بعد ہمارا عملہ انہیں چیک بھی کر رہا تھا۔
میں انہیں اور دوسرے مریضوں کو دیکھنے کے لئے وہاں پہنچی تو وہ بڑے اطمینان کے ساتھ ڈنر کر رہی تھیں اور ساتھ ساتھ مسکراتے ہوئے لوگوں سے باتیں کر رہی تھیں۔
مجھے دِلی سکون ہو رہا تھا۔ میں نے انہیں اشارے سے کہا کہ آپ اچھی ہو جائیں گی اور انہوں نے مجھے جوابی اشارہ کیا۔ پھر ان کا چمکتا ہوا زرد چہرہ کٹے ہوئے سیاہ کالے بال جو گردن تک لہرانے لگے ، ان کی حسین خوبصورت بڑی بڑی آنکھیں میرے تصور پر سجنے لگیں اور ان کی عجیب سی مسکراہٹ نقش بناتی چلی گئی۔ انہوں نے ابھی بھی ہاسپٹل کے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ ان کا لہراتا ہوا ہاتھ میرے جوابی اشارے پر اور زور سے ہلنے لگا۔
واپسی پر کوریڈور میں ان کا بیٹا مل گیا۔
بڑی محبت سے میرا شکریہ ادا کیا۔ اور ہمیشہ کی طرح پوچھنے لگا ’’میری ماں اچھی ہو جائیں گی ناں ؟‘‘
’’کیوں نہیں۔‘‘
’’دیکھا آپ نے ڈاکٹر انہوں نے ڈنر بھی کیا ہے۔ باتیں بھی نارمل طریقے سے کر رہی ہیں۔Settled لگ رہی تھی۔‘‘
’’ہاں میں نے بھی ابھی دیکھا ہے۔‘‘میں نے مسکرا کر اسے بھی ہاتھ ہلایا۔
’’سنو کوئی اہم بات ہو تو مجھے ضرور بتانا۔اور میری ملاقات تم سب سے اب پیر کو ہو گی۔آل رائیٹ۔۔۔‘‘ ان کا بیٹا اطمینان سے مسکرا رہا تھا اور ایک بار پھر میرا شکریہ ادا کر کے وہ اپنے دوستوں کے ساتھ گھر چلا گیا اور میں بھی اپنے گھر چلی آئی۔
کبھی کبھی ایسا ہوتا تھا کہ میں ایسے مریضوں کے صدمے اپنے ساتھ باندھ لیتی تھی۔مسزکونگ کا انتہائی پڑھ لکھ کر اس اذیت سے دوچار ہونا مجھے ستا رہا تھا کہ بے ہوشی اور ہذیانی کی کیفیت میں جو بھی ٹوٹا پھوٹا کہہ رہی تھیں۔ ان کے اندر کی ٹوٹ پھوٹ اس سے زیادہ تھی جو عراق کی جنگ سے ان کی یادداشت کے سارے صفحے پھر زندہ ہو گئے تھے۔ ان کے پرانے زخم بے شک ان سِلے تھے۔ مگر ان کو اس درجہ تنگ نہیں کر رہے تھے۔ عراق کی جنگ اور وہاں کے لوگوں کی آہ زاری ، فریاد، بچوں کی سہمی ہوئی شکلیں ، خوف سے بھری ہوئی بہنوں ، بیٹوں کی آنکھیں ان کے سارے زخموں کو پھر سے ہرا کر گئی تھیں۔
لیکن انہیں یہ سبق نہیں معلوم تھا کہ ان کا چارہ گر کون ہو گا؟
زندہ رہنا ان کا حق تھا۔
خوش رہنا ان کا بھی مقدر ہو سکتا تھا اگر وہ یقین کر لیتیں کہ کسی سے کہنا کہ مجھے دیکھو کیا ہو رہا ہے ،مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے۔ صرف اتنا کہہ دینے سے انسان کمزور نہیں دکھائی دیتا ، شرمسار نہیں رہتا اور نہ ہی اس کی عزت پر دھبہ ہوتا ہے۔اگر وہ یہ مان لیتیں کہ انسان کمزور بھی ہو سکتا ہے تو شاید وہ تیس سال کا سفر ننگے پیر نہ کرتیں۔میرے ابا جی ہمیشہ کہتے تھے کہ ’لڑائی کرنا سب سے آسان ہے اور اُسے نبھانا یا برداشت کرنا سب سے زیادہ مشکل کام۔۔۔‘
ہاں یہی تو ہوا ہے۔
یہی تو ہو رہا ہے۔
جنگ چاہے ورلڈ وار ون ہو یا ٹو کمبوڈیہ ہو کہ جرمنی۔
پاکستان ہو کہ انڈیا۔
فلسطین ہو کہ عراق۔
جنگ تو جنگ ہے لڑائی تو لڑائی ہے۔
کرنی آسان ، نبھانی بھی مشکل اور برداشت کرنی اس سے بھی زیادہ مشکل۔۔۔
انسانیت کیسے برداشت کرے۔۔۔
انسان کیسے نہ چیخیں اس بر بریت پر۔ ان کے گھر بارود کا نشانہ ہوئے اور بچنے والے صدا اپنے پیاروں کی یاد میں سلگتے رہے اور اپنے پر گزرنے والی ہر یاد پر تڑپتے رہے اور کتنی آسانی سے من مانی کرنے والوں نے ان سے ان کی عزت و وقار چھین لیا۔۔۔
ان سے جینے کا حق لے لیا۔۔۔
ان کی خوشیوں پر پیٹرول بم بر سا دیئے۔۔۔
ان سے ان کی راتیں چرا لیں۔۔۔
ان سے ان کی نیندیں اڑ لیں۔۔۔
یہ شاطر ، عیار، دغا باز، امن کے نام پر انسانوں کا کاروبار کرنے والے درندے انہی غریبوں اور بیماروں کے اندر بھی رہنے لگے تھے۔۔۔
یہ ہولناکیاں۔۔۔
بر بادیاں۔۔۔ کوئی کب تک سہے ؟؟
پھر سب کہتے ہیں کہImmigration کی وجہ سے ڈپریشن اور PTSDکا گراف بڑھ گیا ہے۔۔۔ اس گراف کے اونچا کرنے میں ، انہی اونچی قوموں کا ہاتھ تھا۔ جو طاقت کے نشے میں چور گھر گھر لوٹ رہے تھے۔۔۔ کمزور اور بے بس انسانوں سے ان کا سکون ، آرام ، چھوٹی چھوٹی خوشیاں بم کے دھماکوں میں اڑا رہے تھے۔۔۔ ان کے د ن رات کا فرق مٹا رہے تھے۔۔۔
میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب میں کیا سوچو ں۔ T.Vپر آج بھی عراق پر بمباری کی ساری تفصیل تھی۔۔۔
شاید یہاں کے شہری بھی تیس سال بعد مسز کونگ کو طرح ہوش و حواس کھو بیٹھیں گے۔ اپنے آپ سے جنگ کرتے کرتے ہتھیار ڈال دیں گے۔۔۔
یکدم سے فون کی گھنٹی بجی۔۔۔ اس وقت ؟رات کے گیارہ بجے کون۔۔۔ میں سوچتی ہوئی فون کی طرف بڑھنے لگی۔
’’ہیلو۔۔۔‘‘
’’دوسری طرف سے کرسٹی ہاسپٹل سے بول رہی تھی۔ وہ آج نائیٹ پر 11:00 میں تھی۔۔۔‘‘
’’What’s Up?( کیا ہوا خیر ہے ؟) ‘‘
پھر جو اطلاع تھی، وہ شاید ایک ڈاکٹر ہونے کے ناطے بالکل نئی نہیں تھی لیکن چونکہ میں دِلی طور پر رنجیدہ تھی سو سہہ نہ پائی۔ میرے آنسو زار و قطار پھیل رہے تھے۔۔۔ وہ کہہ رہی تھی۔
’’مسز ورجینا کونگ نے ساڑھے دس اور گیارہ بجے کے درمیان اپنے کمرے میں بیڈ شیٹ گلے میں ڈال کر خود کشی کر لی۔‘‘
اور پھر میں کچھ نہ کہہ سکی۔
فون بند ہو چکا تھا۔
میں وہیں بیٹھی رہ گئی۔
میں مسز ورجینا کو اس کی رات نہ لوٹا سکی۔ میرے ہاتھ تو جادو کے نہ ہو سکے جو اس کو سُلا سکتے۔۔۔
اس نے آخر فیصلہ کر ہی لیا کہ اس طرح روز مرنے اور سہنے سے بہتر ہے خود ہی اپنا علاج کر لیا جائے۔۔۔
’’ایسے کوئی ہتھیار ڈالتا ہے۔۔۔؟ ‘‘میں اپنے آپ سے کہہ رہی تھی۔
’’ایسے کوئی مرتا ہے۔۔۔؟
اتنی بے دردی سے اپنا گلا گھونٹ سکتا ہے کوئی۔۔۔ شاید وہی جو اس اذیت دے رہا ہوتا ہے۔۔۔ اپنے ماضی کے ہر ورق پر وہ کبھی اپنی عزت لٹتے ہوئے دیکھتا ہے۔
اور کبھی اپنے پیاروں کو مرتے ہوئے دیکھتا ہے۔
کبھی اپنے تاج محل جیسے گھروں کو ملبہ ہوتے دیکھتا ہے تو کبھی اندھیری کالی راتوں میں بندوق کی نالیوں کی سنگینوں میں پروئے ہوئے انسانوں کے لہو سے گلیوں اور سڑکوں کو خون میں لت پت دیکھتا ہے تو کہیں جبراً پکڑے ہوئے نوجوانوں کو۔۔۔
کوئی کہاں تک سہے۔۔۔
کوئی کہاں کہاں تک دیکھے۔۔۔
جنگ بھی آنکھوں سے ہوتی دیکھے اور اپنے اوپر زخم بھی اوڑھے اور پھر باقی ساری عمر اس زخم کی ٹیسیں بھی سہے ، اسے رستا ہوا بھی دیکھے۔۔۔ کب تک کوئی سہے لیکن مسز کونگ کے بعد اب کس کی باری ہے۔۔۔
جنگ تو اب بھی جاری ہے۔۔۔
جو رات سے نیندیں چرا رہی ہے۔
آنکھوں کے نصیب میں وہ رتجگے لکھ رہی ہے جس میں نہ ہجر ہے نہ وصال ہے۔ صرف ملال ہی ملال ہے۔
کتنے ظالم ہوتے ہیں وہ لوگ جو لوگوں کی راتیں چرا لیتے ہیں۔ان کے خواب لوٹ لیتے ہیں۔۔۔کتنے ہی بہانوں سے انسانوں کو اجاڑ دیتے ہیں۔۔۔
پھر باقی کیا بچتا ہے۔ ان کے پاس۔۔۔
سٹریس ؟؟؟Stress
Depression
Post Traumatic Stress Disorder
خود کشی۔۔۔
یہ جنگ ان لوگوں کو ختم کر دیتی ہے جو مرتے وقت بھی یہی کہتے ہیں کہ جب تک جینا صرف پیار کرنا اور پیار ہی بانٹنا۔۔۔
———————–