انگریزوں کے شہر آنے کی تمنا تو بہت تھی مگر اس تمنا کے ہاتھو ں رسوائیاں بھی قابل دید تھیں۔ اس کا آغاز اُس دن سے ہو گیا تھا، جب حبیب صاحب کا ویزہ لگ کر آ گیا تھا۔ عائشہ اور عثمان کا خوش ہونا بجا مگر اس کا سارا بارِ گراں خاتونِ خانہ نفیسہ بیگم پر آ پڑا۔ مبارکباد کے لیے لوگوں کا تانتا بندھ گیا۔پھر تیاریاں کیونکر اور کہاں سے شروع کی جائیں ، اس کا قصہ علیحدہ تھا۔ ماموں رشید ننگے پیر ویزے کی زیارت کو آئے آ خر کو فرسٹ ورلڈ آ نے کا سندیسہ تھا بلکہ دعوت نامہ۔
’’آہ ! بڑی مقدر والی ہے میری بہن۔‘‘ اُنہوں نے مارے شفقت کے نفیسہ بیگم کو لپٹا لیا۔
۔ ’’بھئی کہاں ہے ہمارا بھانجا؟‘‘ماموں رشید نے اِدھر اُدھر نظریں دوڑائیں۔
۔’’بھیا ہو گا کہاں۔۔۔ کہیں کالر کھڑی کر کے ہانک رہا ہو گا بے پر کی ‘‘۔
’’اور یہ بھانجی۔ ‘‘ اُنھوں نے بیٹھتے ہوئے کہا۔
’’وہ اپنی سہیلی نرگس کے ہاں گئی ہے۔ کپڑوں کے ڈیزائن ڈسکس کر نے۔‘‘ نفیسہ بیگم نے چائے کی پیالی انھیں تھماتے ہوئے کہا۔
’’اور تمہارے میاں محترم۔۔۔‘‘
’’وہ مزید معلومات کے چکرّ میں گھر سے بے گھر ہوئے پھر رہے ہیں۔‘‘
’’یا اللہ۔۔!‘‘ماموں یوں گویا ہوئے جیسے لاؤ تمہی سے بات کر لیتے ہیں۔
باتیں کیا ہونی تھیں۔ تیاری میں کفایت سے ہوتی ہوئی جہاز میں حلال کھانے کا ٹکٹوں پر لکھوانا نہ بھولنا اور وہاں جا کر مذہب پر قائم رہنے کی ہدایت کے ساتھ ساتھ اپنی اُداسی کو بھی باور کرانے تک بات چلتی رہی۔
نفیسہ بیگم دل مسوس کر رہ گئیں۔ ماں باپ کے مرنے کے بعد فقط ماموں رشید ہی اُن کا کل میکہ تھے۔ بھاوج بھی اللہ نے بے حد نیک دی تھی مگر اولاد کے نہ ہونے سے وہ دونوں عائشہ اور عثمان ہی کو اپنی اولاد سمجھتے۔ اس لحاظ سے امن و امان تھا۔ یوں بیٹھے بٹھائے جو آسٹریلیا کا ویزا لگا تو مانو گھر نے دل کی ویرانی کی راہ دیکھ لی تھی۔ منع کرنا تو کیا وہ تو سرے سے ہی جانے کے قائل نہ تھے۔ لیکن ماموں رشید ایسا کوئی حماقت آمیز لفظ ادا کرنا تو درکنار مُنہ تک سے بھی نکالنا نہ چاہتے تھے جس سے اُن کی بہن کے گھر میں کسی بھی فرد کی دل شکنی ہوتی۔
دعوتوں نے الگ ناک میں دم کر رکھا تھا۔ گھر سے بازار پھر کسی کے گھر۔ بس اسی تکون میں ایک مہینہ گزر گیا اور وہ وقت بھی آ گیا جس دِن جانا تھا۔
رات حساب کتاب لگایا تو پتا چلا ، گھر کا سارا سامان اونے پونے پھینکا ہے۔ اس کا قلق صرف نفیسہ بیگم کو تھا جنہوں نے بے حد شوق سے گھر بنایا تھا۔ کبھی کمیٹی ڈال کر اور کبھی میاں سے ضد کر کے۔ اب یوں جانے سے ایک ہفتہ پہلے جب واشنگ مشین پڑوسی لُوٹ کا مال سمجھ کر لے گئے تو وہ روہی پڑیں۔ مگر میاں کی ایک ہی رٹ تھی۔
’’یوں دو کشتیوں میں سوار ہو کر میں نہ رہ سکوں گا۔ جانا ہے تو ساری کشتیاں جلا کر جانا ہے۔‘‘
فرنیچر وغیرہ ماموں رشید کے ڈلوا دیا اور اُنھوں نے اپنے کباڑیے کو دے ڈالا۔
اب بھلا پیسوں کا حساب کون کرتا ہے۔ یوں ہوا کہ اس کل جمع شدہ رقم سے بہ مشکل عائشہ کی تیاری ہو سکی تھی۔
’’یا اللہ ‘‘گھر تنکا تنکا بنتا ہے تو یہی تنکا تنکا مل کر جھاڑو بھی پھیر دیتا ہے۔ چلو یہ تو آنی جانی چیزیں ہیں۔ لوگوں نے تو دل بھی لے کر توڑا۔ وہ یوں کہ اشفاق انکل جو قریبی ملنے والوں میں سے تھے ، بڑے مفید مشورے بھی دیتے تھے۔ چونکہ فیملی والے تعلقات تھے اس لیے حبیب صاحب اکثر غائب ہو جاتے اور نفیسہ بیگم کو تن تنہا اِن میاں بیوی کو بھگتنا پڑتا۔
’’نفیسہ ، پھر بھی سوچ لو۔ لوگ اس عمر میں لڑکیوں کو باہر کے ملکوں سے لے آتے ہیں اور تم لے جا رہی ہو۔ ‘‘ مسز اشفاق نے پل بھر میں اُنھیں جاہل کر دیا۔
’’ہاں آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔‘‘ اس رضا مندی کے علاوہ کیا کہتیں بھلا نفیسہ بیگم۔۔۔
’’تو تم نے کوئی لڑکا دیکھا؟ ‘‘ وہ بڑی راز داری سے بولیں۔
’’کک۔۔۔کیسا۔۔۔؟‘‘ نفیسہ بیگم ہکلا کر رہ گئیں۔
’’لڑکا۔۔۔‘‘ وہ پھر تمہید باندھنے والی تھی کہ نفیسہ بیگم کو ہوش آ گیا۔
’’نہیں نہیں ابھی عائشہ کی عمر ہی کیا ہے۔ ابھی تو سولہ برس کی بھی نہیں ہوئی۔ پھر پتا نہیں ، وہاں کیسے حالات ہوں۔ ہم کب آئیں اور بچے بڑے ہو کر کیا چا ہیں۔ میں کوئی رسک نہیں لے سکتی ‘‘
نفیسہ بیگم کی تفصیل نے تیر کا کام کیا اور ’’گھر میں بچے اکیلے ہیں ‘‘ کا بہانہ بنا کر دونوں چلے گئے۔
’ یا الٰہی سب کو اپنی اپنی پڑی ہے ‘ اب تمام لوگ مجھے عائشہ کے جوان ہونے کی اطلاع دے رہے ہیں اِن سب کے لڑکے جوان ہو چکے تھے۔ یہ بھی ساتھ ہی اطلاع مل رہی تھی۔
’’اے نفیسہ لڑکی تو ٹھیک ہے گھر پر رہے گی۔ ویسے بھی مشرقی ماحول میں اُٹھی بیٹھی ہے۔ لڑکے کے بگڑنے کا سو فیصد چانس ہوتا ہے۔ تم ذرا کڑی نظر رکھنا حبیب کو پتا نہیں کیسی مصروفیت نے گھیرا ہے جو بچوں پر نظر نہیں رکھتے۔۔۔‘‘
محلے کی بڑی بی جن سے کبھی کبھی کسی مسئلے پر کچھ دعائیں وغیرہ پوچھا کر تے تھے وہ کیسے پیچھے رہتیں۔
’’جی اچھا۔‘‘نفیسہ بیگم سعادت مندی سے بولیں۔
سچ کوئی پوچھتا تو سفر کی۔۔۔ اور وہ بھی سات سمندر پار سفر کی گھبراہٹ اور ہول کیا ہوتی ہے ، یہ لفظوں میں بتانا ممکن نہیں۔ رہ رہ کر اجڑے گھر کی ویرانی دل کو گھیر لیتی ہے۔مستقبل کی فکر ، نئے گھر کو بسانے کی فکر دل لگ جانے کی دُعا۔ اور جانے کیا کیا۔ بہر حال اس سے نظریں کو ن چُرا سکتا ہے۔ سب کی دُعائیں اور الوداعی جُملے رقت آمیز ہوتے ہیں۔ ایسے میں عائشہ اور عثمان کی آنکھوں کا چمکنا، سر فخر سے بلند کیے پھرنا۔ اور اچانک حبیب صاحب کی پاسپورٹ اور ٹکٹیں سنبھالنے کی ہدایت۔ اتنا کچھ بو کھلانے کو کافی تھا ، چنانچہ اپنی تیاری فقط دل کی تیاری تک محدود ہو کر رہ گئی تھی۔ ماموں رشید کا آخری دنوں میں وقت بے وقت آنکھوں میں نمی کا بس جانا ، نفیسہ بیگم کے لیے تازیانے سے کم نہ تھا۔ مگر گھر اور گھر والوں کی خاطر کتنا کچھ سہنا پڑتا ہے۔ آخر عورت ہی کو کیوں ؟ وہ کئی بار خود سے بڑبڑا پڑتیں۔
’’امی! آ پ کیوں پریشان ہوتی ہیں۔۔۔ لائیے مجھے بھی کچھ بتائیے میں بھی پریشان ہو جاؤں۔۔۔ ‘‘ نفیسہ بیگم نے چونک کر اپنی بیٹی کو دیکھا۔
میرون رنگ کے ڈھیلے ڈھالے کُرتے شلوار پر ہم رنگ دوپٹے میں اُس کا حسین شہابی رنگ حسین تر لگ رہا تھا۔ پھر اُس کی نشیلی آنکھیں اور اُس پر لمبی پلکوں نے تو اُسے قیامت خیز کر دِیا تھا۔ وہ دھیمے دھیمے مسکراتی ہوئی سوبر اور گریس فل لگ رہی تھی۔ ہجرت کے ساتھ اُس کی شوخی بھی ہجرت کر رہی تھی۔
’’امی! میں آپ کی ہیلپ کرنا چاہتی ہوں۔ ‘‘ اُس نے قریب آ کر اپنی ماں کو چونکا دِیا۔
’’بس سب ہو چکا۔ تم سارے سامان کو اپنی نگرانی میں رکھو میں تیار ہو کر آتی ہوں۔ ‘‘ شاید آخری پل تھا نفیسہ بیگم کی پریشانی کا، لوگ سچ کہتے ہیں کہ ایسی عمر میں تو لوگ اپنی بیٹیوں کو پردیس سے واپس لے آتے ہیں میں کیسی ماں ہوں جو حسین تحفہ لیے جا رہی ہوں۔،
’ اوہ میرے خدا! میں کتنی نادان ہوں۔۔۔ لیکن اب کیا۔ ‘ اب تو سب گاڑیوں میں بیٹھے کم ٹھونسے زیادہ جا رہے تھے۔
’’چلو آسٹریلیا نہ سہی، آسٹریلیا جانے والے لوگوں کو خدا حافظ ہی کہہ آئیں۔ ‘‘ ماموں رشید ہنستے جاتے اور آنسو پونچھتے جاتے۔ کبھی فرطِ محبت سے عائشہ کو پیار کرتے اور کبھی عثمان کو۔ ائیر پورٹ پر تو ایسے بلکے کہ نفیسہ بیگم کے پاؤں تلے کی زمین نکل گئی۔ ایسے لگا جیسے دنیا سے جا رہی ہوں۔ ’ ہائے اتنی دور جانا تو کچھ ایسا ہی تھا۔ پتا نہیں ، واپس آؤں تو کیا رہے اور کیا نہ رہے اور اس کی بھی کیا گارنٹی تھی کہ اپنے ملک لوٹ آؤں گی۔۔۔ !‘ شائد میرے جیسا سب کا ہی حال تھا۔ ، ویٹنگ لاؤنج میں سب چُپ بیٹھے تھے۔ بلا مقصد مسکرا رہے تھے۔
’’امی ، وہاں دِل لگ جائے گا نا؟ ‘‘
’’شاید! ‘‘ نفیسہ بیگم نے عائشہ سے سچ ہی کہا تھا۔
’’کیوں نہیں امی۔ اتنا حسین ہے آسٹریلیا۔ ‘‘ عثمان نے خوابوں جیسے نشے میں کہا۔
’’تمہیں کیسے پتا ہے۔ ‘‘ نفیسہ بیگم تقریباً ایک ہفتے بعد مسکرائی تھیں۔ ایسے جیسے ایک ہفتہ بارش رہنے کے بعد سورج نکل آئے تو کتنا اچھا اور سب کچھ آسودہ لگتا ہے۔ایسی ہی آسودگی حبیب صاحب تک نے محسوس کی۔ یوں ماحول پر چھائی بے کیفی ہلکی پھلکی بے تکلفی سے شروع ہوتے ہوتے نارمل ہونے لگی۔ جہاز کے پرواز کرنے تک کافی حد تک خوابوں کی کہانیاں شروع ہو چکی تھیں۔ ایسے میں سب سے زیادہ جو سمجھ داری کی باتیں کر رہا تھا، وہ عائشہ تھی۔ اُس کی چھوٹی چھوٹی معقول باتیں نفیسہ بیگم کے اندر بیٹھی ، سہمی ہوئی عورت کو تسلی دے رہی تھیں۔
’ آخر لڑکی کی قسمت بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ اور جو لوگ لڑکیاں پیدا کرتے ہیں ، پڑھاتے لکھاتے ہیں ، کیا وہ با حیا اور مذہبی نہیں ہوتیں۔ کیا وہ اچھی اور پُر وقار نسلیں نہیں تیار کرتیں۔ وہ خود کو ہر بار مطمئن سا کر لیتیں۔‘
’’ارے بیگم ، پہنچ تو لو۔ پھر فیصلے کرنا۔ پہلے ہی سے کیوں ہلکان ہو رہی ہو۔ ‘‘ حبیب صاحب جو چہرہ پڑھنے کا ہنر رکھتے تھے ، بھلا اٹھارہ سالہ رفاقت کا چہرہ نہ بھانپ لیتے۔
’’ڈرنے کی تو بات نہیں ہے نا ؟ ‘‘ نفیسہ بیگم خوف کا آخری کنارہ پار کرنے کے لئے اُن سے ایسے ہی پوچھتی تھیں۔
’’نہیں ! ‘‘ حبیب صاحب کی اس ’ نہیں ‘ میں اتنا تجربہ ہوتا تھا اور کبھی کبھی یہ گمان بھی کہ میرے ہوتے ہوئے کیا ڈرنا۔ وہ اس قدر مطمئن ہو جاتیں کہ بعض اوقات وہ باتیں اور سوچیں ہی بے اوقات لگنے لگتیں۔
ابھی ابھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔ وہ بالکل آزاد تتلیوں کی طرح اُڑنے لگی تھیں۔ اپنے ہی دشت و صحرا میں۔
جہاز ہزاروں میل آسمانی اور زمینی فاصلہ طے کرتا ہوا اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا۔
’’یار۔۔۔اس سے ا چھا تو اپنی ٹرین کا سفر ہوتا ہے۔ کم از کم گردن باہر نکال کر جھانک تو سکتے ہیں۔ ‘‘ عثمان جو عمر میں عائشہ سے ایک سال چھوٹا تھا اور قد میں ایک فٹ بڑا، سخت بور ہو گیا تھا۔
’’اور تو اور پکوڑے بھی خریدے جا سکتے ہیں۔ اسٹیشن سے اُتر کر ہاتھ مُنہ دھویا جا سکتا ہے۔ ٹانگیں سیدھی کھڑی کی جا سکتی ہیں۔ ورنہ ٹرین کی زِگ زیگ میں بیلنس آؤٹ ہو جاتا ہے۔‘‘ عائشہ ہنستے ہوئے کہہ رہی تھی۔ نفیسہ بیگم پُر لطف نوک جھونک سے آنکھیں موندے ہوئے مسکرا رہی تھیں۔
راستے بھر کھانے کو کسی نے چھُوا بھی نہیں۔ اسی وہم میں کہ جانے کیسے بنا ہے اور کس نے بنایا ہے۔
’’لو بھئی، ایمان کی آزمائش شروع۔ ‘‘ جیسے ہی ائر ہوسٹس کھانا لے کر آتی عثمان نعرہ لگا دیتا۔ آس پاس بیٹھے ہوئے لوگ بھی ہنس دیتے۔ لہٰذا شک و شبہے والی چیزیں چھوڑ کر باقی مُنہ ماری کا شغل جاری رہا۔
جہاز کراچی سے روانہ ہو کر پینتالیس منٹ کے لئے دہلی میں رکا۔ سواریاں بٹھائیں اور چل دِیا۔ سب نے کراچی کی ’ کے ٹی سی‘ کو بہت یاد کیا۔ اندھا دھن گولیوں کی طرح چلی اور فٹ ہو گئی۔
پھر جہاز ۱۲گھنٹوں کے لئے کوالالمپور رُکا جس میں زیادہ وقت کمریں سیدھی کی گئیں اور صرف حیرانی سے باہر کی دنیا دیکھی۔
’’یار ، یہ تو بڑے امیر ہیں۔ ‘‘ عثمان نے عائشہ کے کان میں سرگوشی کی۔
’’فرسٹ ورلڈ کے لوگ بنتے جا رہے ہیں ! ‘‘ اُس نے بڑی ہونے کے ناتے معلومات فراہم کیں۔
’’یار ، عائشہ دیکھ کتنا بڑا ، کتنا پیارا کمرہ ہے ہوٹل کا۔ حفاظت سے سامان اوپر آیا۔ کھانا میز پر لگ گیا۔ پھر ٹیکی والے نے دروازہ بھی کھول دِیا۔ اپنے ملک کی طرح دھُتکارا نہیں۔ جاؤ مجھے نہیں جانا! ‘‘
’’واہ یار کیا ملک ہے ، کیا ترقی ہے۔ ‘‘ عثمان اپنی رائے دے دے کر حیران ہو رہا تھا اور عائشہ خاموشی سے سب سُن رہی تھی مگر کتنی عجیب بات تھی۔ اس ترقی میں ترقی دینے والے کا نام کوئی نہیں لے رہا تھا۔ اسلامی ملک ہونے کے باوجود کوالالمپور کہیں سے بھی اسلامی نہیں لگ رہا تھا۔ نہ لباس سے ، نہ آزادی سے۔۔۔ رنگینی اور روشنی سے آنکھیں خیرہ ہو رہی تھیں۔ بارہ گھنٹوں کے سفر میں حیران ہونے اور کھانے سے صرف ایک گھنٹہ بچا تھا تو گھوم پھر کر بازار کی رونق دیکھی اور واپس منزل کی طرف روانہ ہو گئے۔
جب جہاز ملبورن اُترا تو صبح ہونے والی تھی۔ ہلکے ہلکے بادل رات کے پچھلے پہر چاند کا حسن ماند پڑ رہا تھا اور ساتھ ہی سورج سر اُٹھا رہا تھا۔ نیچے پہاڑوں ، سڑکوں اور گاڑیوں کا ہجوم۔
’’زندگی حیرانی کی حد تک تیز ہے۔ ‘‘ عائشہ نے خود کو باور کرایا کہ وہ اس تیزی کا حصہ بننے والی ہے۔
’’باپ رے باپ۔ تیرا کیا ہو گا کالیا!‘‘ اُس نے عثمان کو چھیڑا۔
’’عائشہ ، جہاز سڈنی کب پہنچے گا۔ میں بور ہو گیا ہو ں اس جہازی سائز کے جہاز سے۔ یار ، اب تو ائیرہوسٹس کا چارم بھی ختم ہو گیا ہے۔ ‘‘ دونوں بہن بھائی کھل کھلا کر ہنس پڑے۔
آخر کار دو دن کے سفر وسیلۂ ظفر کے بعد جہاز نے سڈنی پہنچا ہی دِیا۔ سب تھکے تھکے سے باہر نکلے اور اپنے اپنے لوگوں کی طرف بڑھ گئے۔
’’اُف خدایا۔ کوئی بھی لینے نہیں آیا اور ہم ابھی ایک ہجوم پیچھے چھوڑ آئے تھے۔ کتنا فرق ہو گیا تھا۔ ‘‘
’’امی ! ماموں بہت یاد آ رہے ہیں۔ ‘‘ عائشہ کی خوبصورت آنکھیں جھلملا گئیں۔ یہ پہلا فرق۔ یہ پہلا دکھ سولہ سال کو لگا کہ اُس کا بچپنا ، شوخی، بات بے بات کھلکھلائے جانا ایک دم رخصت ہو گیا۔ اُس کی جگہ ایک با وقار حسین سی گُڑیا بن گئی۔ جو ہنستی مسکراتی تھی۔ یہ اعجازِ ہجرت تھا جو اُس کی آنکھوں میں تیر رہا تھا۔
’’مجھے بھی۔ ‘‘ عثمان بھی سوچ میں تھا۔
’’اور میرا تو وہ اکلوتا بھائی ہے۔ میری کل کائنات میکے کی طرف سے مجھے تو۔۔۔ ‘‘ ابھی بس نفیسہ بیگم شاید آنسو بہا دیتیں جو حبیب صاحب ٹھاہ کر کے یزدانی صاحب کے گلے لگ کر قہقہے نہ لگا رہے ہوتے۔ انکل یزدانی کب سے ائیرپورٹ پر ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ دیر ہونے پر ریسپشین سے پتا کرنے گئے تھے۔ حبیب صاحب کے بچپن کے جگری دوست تھے۔ باقی اُن کو کوئی دمساز میسر نہ تھا۔ ماں باپ کے فوت ہونے کے بعد اکلوتے کی حیثیت سے تنِ تنہا ہی نفیسہ بیگم کو ملے تھے۔ سو اُن کے دوست کو دیکھ کر اُن کی محبت میں جھلکتی بے تکلفی کو دیکھ کر نفیسہ بیگم مطمئن ہو گئیں کہ چلو کوئی تو بہلا رہے گا اور ہوتا بھی یونہی ہے کہ ایک بہلا رہے تو باقی سب بھی دیکھا دیکھی بہلے رہتے ہیں یا پھر وہی سب کو بہلا لیتا ہے۔ بس زندگی کو مطمئن اور آسودہ گزارنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ ایک شخص کم از کم آسودہ اور مطمئن ہو۔
ایک ہفتہ اُن کے گھر رہنے اور تواضع کرانے کے بعد اپنے گھر شفٹ ہو گئے جو Castle Streetپر تھا۔ تین عدد کمروں پر مشتمل بے حد آرام دہ اور بڑا گھر تھا۔
’’ارے بیگم ، لندن اور امریکہ والوں کو ایسے گھر بھی نصیب نہیں۔ سب ڈربوں میں رہتے ہیں۔ ‘‘ حبیب صاحب کا صاف مطلب تھا کہ تم سب اپنی اپنی قسمت پر رشک کرو کہ امریکہ اور لندن نہ گئے۔
لو بھلا کچھ ہی دِنوں میں فرسٹ ورلڈ کا مقابلہ فرسٹ ورلڈ سے ہونے لگا۔ اسی طرح کچھ اور دِن گزرے۔۔۔ دِن ہفتے اور ہفتے مہینے ہوئے تو سب ہی بہل گئے بلکہ اچھی طرح ایڈجسٹ ہو گئے تھے۔ اُدھر ماموں رشید بے حد اُداس تھے۔ تنہا رہ گئے تھے ناں۔۔۔ خاص طور پر عائشہ ، عثمان کے لئے بہت بے قرار تھے۔ فون پر اکثر اُن کی آواز بھر ا جاتی تھی۔
’’جی ماموں جان ، ابھی ا سکول نہیں گئی ہوں۔ انگریزی سیکھ رہی ہوں۔ A.M.E.S.سے۔ ‘‘ عائشہ او ور سیز کال کو لوکل کال سمجھ کر تفصیل بتا رہی تھی۔
’’یہ کیا بلا ہوتی ہے۔۔۔؟ ‘‘ غالباً ماموں نے مزید معلومات کی غرض سے پوچھا تھا۔
’’ماموں یہ ہجرت کر کے آنے والے نوجوانوں کا تعلیمی سینٹر ہوتا ہے۔ ‘‘
’’تمہاری ماں انگریزی سیکھ رہی ہے کہ نہیں ؟ ‘‘ وہ ہنستے ہوئے پوچھ رہے تھے۔
’’نہیں ، وہ ہم سے سیکھیں گی۔‘‘ عائشہ سے فون عثمان لے چکا تھا۔ ‘‘ ماموں بہت مزہ آ رہا ہے۔ آپ بھی آ جائیے ! ‘‘ ابھی عثمان اُنہیں آنے کے طریقے بھی بتاتا کہ حبیب صاحب نے فون کاٹ دِیا۔
’’یار ، حد کرتے ہو۔ آدھ گھنٹے سے تم تینوں میں سے کسی نے کام کی کوئی بات نہیں کی۔‘‘
’’تو کیا کرتے ، زمین جائیداد کی بات کرتے۔ سیاست بازی کرتے یا بچوں کے رشتے طے کرتے۔ ‘‘ نفیسہ بیگم اپنے بچوں کی طرف داری ایسے ہی کرتی تھیں۔ حبیب صاحب زیرِ لب مسکراتے رہتے اور بچے اپنے کمرے میں۔
A.M.E.S.کے چکر میں عائشہ پر مزید کپڑوں کا بوجھ آ پڑا تھا۔ کپڑے فیشن کے مطابق ہوں۔ ماحول سے مطابقت بھی رکھیں اور شرم و حیا بھی برقرار رہے۔ یہ آخری جملہ نفیسہ بیگم کے لئے نشے کا کا م کرتا کہ اُن کی تربیت رائیگاں نہیں جا رہی۔
ٹھیک ایک ہفتہ کلاسیں جوائن کیے ہو چکا تھا۔ عائشہ کافی حد تک انگریزی سیکھ چکی تھی۔ زیادہ مشکل اس لیے پیش نہ آئی کہ ہمیشہ انگلش میڈیم سے ہی پڑھا تھا۔ بس بولتے کم تھے۔ اس لیے جھجک تھی اور کچھ لب و لہجے کے فرق کی وجہ سے اچھی بھلی انگریزی فرنچ لگنے لگتی تھی۔
مگر اُس نے بھی کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی تھی۔ ٹی وی اور ریڈیو پر صرف انگلش ہی دیکھتی اور سُنتی۔کجا تو وہ لتا اور کشور کے گانے سنتی۔ جب وہ کلاس اٹینڈ کر رہی ہوتی تو سب اُسے حیرانی سے دیکھتے اتنی کم عمری میں اتنی پختہ باتیں شاید یہاں کم یاب تھیں۔
آج بھی وہ کچھ ایسی ہی تقریر کر رہی تھی کہ ہمارے ہاں لڑکیاں ایسے بے پردہ نہیں گھومتیں۔ بے لگام آزادی نہیں مانگتیں ، شرمیلی ہوتی ہیں وغیرہ وغیرہ اور آخر میں ہمیشہ کی طرح ایک ہی حسرت کہ کاش، کاش میری انگریزی بولنے میں اچھی ہو جائے تو انقلاب لے آؤں۔ ‘‘
’’Monomanic(خبطی) ‘‘رابرٹ ، جو خاصی کم سن ساحرہ کی زبان سے سب سے اچھی انگریزی میں دیوانگی کی باتیں سن کر بولے بغیر نہ رہ سکا۔
’’کیا ؟ ‘‘ عائشہ اب اُس کی طرف پلٹ آئی۔
’’یہی کہ یہ سب حماقت ہے۔ یہ Crazy wishہونا سب بے کار۔ بھئی اگر یہاں آئے ہیں تو سب کو انگریزی ہی بولنی ہے۔ ‘‘ رابرٹ کافی بریک میں کافی اور پاپ کارن کی تھیلی لا کر اطمینان سے شغل کر رہا تھا۔
’’تمہیں پتا ہے رابرٹ، میری پڑوسن بہتر سالہ ہے اور وہ انگریزی نہیں بول سکتی۔ ‘‘ عائشہ نے ٹھہر ٹھہر کر انگریزی میں سمجھایا۔
’’لک پلیز۔ ‘‘ رابرٹ کی زبان سے انگلش ایسے نکلتی جیسے پھول جھڑتے ہوں۔ کوئی ا سکالر ہو۔ بڑے صاف اور سادہ طریقے سے بتا رہا تھا۔ وہ عائشہ سے آئشہ ہو چکی تھی اور کچھ لوگ تو صرف ایش کہتے تھے۔
’’بہتر سالہ کبھی بھی نہیں سیکھ سکتے۔ اِس لیے کہ اُن کو ضرورت نہیں ہے۔ اور وہ ضرورت والی زندگی گزار چکے ہیں۔ ہماری ضرورت والی زندگی آج شروع ہوئی ہے۔ آج ہے الیکٹرونک میڈیا، میٹریل کی تہذیب، انگریزی کا زمانہ۔ ہم بھلا کیسے نہیں سیکھ سکتے۔ ‘‘ عائشہ نے جانا کہ چھ فٹ دو انچ والا رابرٹ یوگوسلاویہ سے آسٹریلیا آ تو گیا تھا مگر اپنے حساب سے جینا چاہتا تھا۔ یقین اور اعتماد تو جیسے اُس پر ختم تھا۔ سر مارک روز کو تو منٹوں میں آ لیتا تھا۔ اُس کی چمکیلی سبز آنکھیں جس طرف اُٹھتیں ہریالی پھیل جاتی۔ جب وہ اُس کی برابر والی سیٹ پر بیٹھتا تو اُس کا پانچ فٹ قد مزید بونا ہو جاتا اور خواہ مخواہ ایک رعب سا پھیل جاتا۔ ابھی ابھی کافی بریک میں وہ اُسے خاصا مرعوب کر چکا تھا۔ بس اب مجھے بھی اس قدر بدحواس نہیں ہونا۔ویسے بھی اعتدالی کا راستہ ہی ہمارا راستہ ہے۔ ، ماموں جان نے اُسے علیٰحدگی میں بڑی اچھی طرح اخلاقیات کا قاعدہ پکڑا دِیا تھا۔
’’دیکھو بیٹی، وہ ماحول آزاد ہے۔ خیالات آزاد ہیں۔ ہر میڈیا آزاد ہے لیکن ہم مشرق کے لوگ اللہ کے پابند ہیں۔ سمجھو وہاں جا کر ہم پر اخلاق اور اسلام کے ساتھ زندہ رہنا اور بھی ضروری ہو گیا ہے۔ اِنہی فرنگیوں سے آزادی ہم نے صرف اسلام کی خاطر حاصل کی تھی۔ وہاں رہ کر اپنے ملک اور اسلام کا پرچار کرنا جہاد ہے لیکن مشکل وقت میں یہ ضرور یاد کرنا اپنے ماموں کی بات کہ جیسے یہ دِن نہیں رہے ہیں ، وہ دِن بھی نہیں رہیں گے۔ اللہ کی خاطر ایک غلط بات کو صرف غلط سوچ لینا ہی ایک ادنیٰ جہاد کے برابر ہے۔ تم بڑی ہو، میری توقع، میری اُمید ہو، تم ہی میرا جہاد ہو۔ ‘‘
’’ہاں ماموں جان، میرا ہر قدم امتحان ہوتا ہے۔ ‘‘
’’کیا تم مسلمان ہو؟ ‘‘
’’عائشہ ایک اچھی مسلمان لڑکی ہے۔‘‘
اسی طرح ہر روز کئی بار جملے اُسے سننے کو ملتے۔ اب تو یہ کورس محض وقت گزاری کے لئے جوائن کیا تھا۔ کچھ ہفتوں بعد ہائی سکول جوائن کرنا تھا۔ ’ باپ رے باپ، ایمان کو کیسے بچایا جائے گا۔‘ وہ اکیلے ہی سوچ سوچ کر پاگل ہو چکی تھی۔خیر رابرٹ صحیح کہتا ہے۔ وقت پر سب کچھ حل ہو جاتا ہے۔ ان ساری باتوں کے باوجود رابرٹ میں کیا بات تھی۔ دِل اُسے محسوس کرنے لگا تھا۔ جانے کیسے اُس کے شہابی رنگ میں آسٹریلین شہابیت گھُل گئی تھی۔ اور اس وقت یہ احساس شدید تر ہو گیا جب سر مارک نے رابرٹ کا نام پکارا اور وہ نہیں آیا تھا۔
اگلے دِن سے دو چھٹیاں تھیں اور اُس کے پاس فون نمبر تک نہ تھا۔ کوئی وجہ تو بتا کر جانا چاہیے تھا۔ وہ جھنجلا گئی۔
’’ کیوں عائشہ جی۔ کیوں آپ ہی کیوں ؟ ‘‘ اُس کے ضمیر نے اُسے چھیڑا۔
’’اس لیے کہ ہم اچھے دوست ہیں۔ ساتھ اُٹھتے بیٹھتے ہیں۔ ‘‘ اُس نے خود کو ہی بہلایا۔
’’بس لڑکی یہ دوستی ہی ہونی چاہیے !! ‘‘ اُس کے دماغ، دل، ہر ایک نے سرزنش اور تنبیہ کی۔
’’ارے ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ اس قدر نمایاں فرق کے ساتھ تو میں اچھی دوستی بھی برداشت نہیں کر سکتی کُجا کہ۔۔۔ اوہ ہرگز نہیں۔ No way.‘‘
’’کیا کہہ رہی ہو پارٹنر؟ ‘‘عثمان حبیب صاحب کے ساتھ Aubunکی مسجد میں نمازِ جمع ادا کر کے ابھی ابھی گھر پہنچا ہی تھا جو اُسے خود سے بڑبڑاتے سُنا تو اندر آ گیا۔
’’کچھ نہیں بھئی۔ ‘‘ وہ مسکرا دی۔ ’’اچھا تم سُناؤ، آج دورۂ مسجد کیسا رہا؟ ‘‘ وہ اُلٹا اُس پر ہو لی۔
’’ونڈر فل! مجھے احساس ہو رہا ہے کہ ہم سب لوگوں کو عنقریب صحیح و کامل مسلمان بننا پڑے گا۔ بے حد نالج فل درس تھا۔ یعنی ہم پھر مسلمان بن سکتے ہیں۔ ‘‘
’’چلو میری فکر تو ختم ہوئی۔ ‘‘ نفیسہ بیگم نے حبیب صاحب کے ساتھ زیادہ تر عثمان کو ساتھ اُٹھتے بیٹھتے ہوئے دیکھ کر شکرانے کا سانس لیا۔
یہاں کے سکولوں میں خاص طور پر ہائی سکول میں بچوں کو اکثر نشہ آور اشیاء کو استعمال کرنے کی اور گرل فرینڈ کی لتیں بھی لگ جاتی تھیں۔ ایک پڑوسن نے نفیسہ کو ڈرایا تھا۔ پورے سات ماہ بعد تو عثمان ہائی ا سکول گیا تھا۔ وہ واپسی پر باقاعدگی سے ساری رپورٹ لیتی۔ بیگ چیک کرتی کبھی کبھی تو سانسیں بھی۔
’’امی پلیز۔ وہم میں مت پڑیے میں آپ کا بیٹا ہوں۔ اچھا برا سوچ سکتا ہوں۔ کوئی کسی کے ساتھ زبردستی نہیں کر سکتا اور کیا پاکستان میں یہی سب نہیں ہوتا؟ بس فرق اِتنا ہے کہ وہ چھُپ کر کرتے ہیں اور یہ آزادی سے۔
’’آزاد نہیں۔ شُتر بے مہار ہیں۔ ‘‘عائشہ نے کمرے سے نکل کر جملہ مکمل کیا۔
’’یہ کیوں کہا تم نے۔ ‘‘ نفیسہ بیگم بیٹی کی سمجھ داری پر نہال تھیں۔
’’میری کلاس میں ایک انڈونیشین مسلمان لڑکی ہے۔ اُس نے ایک عراقی لڑکے کو باقاعدہ پھنسا رکھا ہے۔ خود وہ شادی شدہ ہے۔ آسٹریلین سے پاسپورٹ کے چکر میں شادی کی تھی۔ لڑکے نے حال ہی میں عراقی لڑکی سے منگنی کی ہے اور انڈونیشی نے اِتنا بُرا جال پھینکا ہے کہ علی کہہ رہا تھا کہ شاید میں منگنی توڑ دوں۔ ‘‘
’’آزادی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ اپنے خدا کی مقرر کردہ حد سے باہر ہو جائیں۔ پتا ہے امی رابرٹ نے کتنا مذاق اُڑایا تھا میرے خیالات کا ، ہمارے مسلمان ہونے کا۔ اُس نے تو آج مجھے جھنجلا کر جنونی تک کہہ دِیا تھا۔ اب کم از کم فرنگیوں کی دُنیا میں تو بھرم رکھنا چاہیے۔ آسٹریلیا میں رہتے ہیں تو کیا ویسے ہی ہو جائیں۔‘‘
’’بس بیٹی جو پاسپورٹ نیشنلٹی لینے کے لیے مذہب بیچ دیتے ہیں ، اچھا ہے جو مسلمان نہ رہیں۔ تمہارا کیا خیال ہے ، انڈونیشین مسلمان لڑکی نے اپنے آسٹریلین شوہر کو مسلمان کیا ہو گا؟ نفیسہ بیگم نے اطمینان سے اُسے سمجھایا۔
’’ہاں ، یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں۔ اگر مسلمان کر کے شادی کی ہوتی تو یقیناً بھرم رہ ہی جاتا۔ ایسی باتوں میں ایسا ہوتا ہے لیکن مجھے دکھ ہوا امی جو رابرٹ کے سامنے شرمندگی ہوئی ہے۔ پتا ہے وہ کیا ہے۔ امی وہ آرتھوڈکس ہے جو کسی کو بھی نہیں مانتے۔ یقین کریں ، وہ خاصا ذہین ہے ، سمجھ دار ہے لیکن کافر ہے۔ ‘‘ عائشہ نے بے بسی سے ہاتھ ملتے ہوئے کہا۔
’’ساری نیکی کا ٹھیکہ تمہارے پاس نہیں ہے پارٹنر۔۔۔ ویسے بھی اسلام زبردستی کا سودا نہیں ہے۔ جب ہدایت نصیب ہو جائے ، جب توفیق ہو جائے ، جب سمجھ آ جائے ، اپنے ہونے اور نہ ہو کر بھی ہونے کی تو سب کچھ بغیر کہے ہو جاتا ہے۔ ‘‘ عثمان کے اتنے سنجیدہ خیالات دونوں ماں بیٹی کے لیے حیران کن تھے۔ بظاہر شوخ اور لاپروا سا عثمان اندر سے کتنا ذمے دار اور سمجھ دار تھا۔
عائشہ کو صرف رابرٹ کی فکر تھی۔ اُس کا تمسخر بھرا قہقہہ ، تضحیک آمیز نظریں اُسے رات بھر انگاروں پر رکھتی تھیں۔ اِس غصے میں یہ بھی نہ پوچھ سکی کہ آخر وہ تین روز کیا کرتا رہا تھا۔سارا وقت تکلیف دہ بحث میں ہی گزر گیا۔لیکن وہ اُسے باور نہ کرا سکی تھی کہ مسلمان اس لیے بزرگ و برتر ہیں کہ وہ اپنی حدود سے باہر نہیں ہوتے۔ حرام و حلال کا فرق سمجھتے ہیں۔ وہ اپنی ذات سے لے کر دوسروں کی ذات تک پڑھنے کا ہنر رکھتے ہیں ، عزت کرتے ہیں با کردار و با حیا ہوتے ہیں لیکن سومی انڈونیشین مسلمان تھی۔ اُس نے نیشنیلٹی کے چکر میں آسٹریلین سے چرچ میں شادی کی تھی اور اب علی سے شادی کرنا چاہتی تھی۔شاید اُس کے ضمیر کا بوجھ اتنا بڑھ گیا تھا کہ علی کے مسلمان کاندھے پر اپنا سر رکھ کر بقیہ خواب دیکھنا چاہتی تھی۔ لیکن کاش میں اُسے سمجھا سکتی کہ پہلا قدم جب غلط ہو تو پھر سارے قدم ہی غلط سمت کی طرف مُڑ جاتے ہیں۔میں تمہیں کیسے سمجھاؤں رابرٹ کہ ہر مذہب و نسل میں ہر رنگ کا آدمی پلتا ہے۔ پناہ لے سکتا ہے۔ ہائے تم نے کتنا مذاق اُڑایا تھا میرا۔ میرے جنون کا۔میرے خیالات کا۔۔۔ بس اب میں کسی بحث میں نہ پڑوں گی لیکن میں لا تعلقی کا یہ سبق کہاں سے لوں۔۔۔ ! یہ تو بہت بڑا جہاد ہو گا ماموں۔۔۔ میں اکیلے ڈر جاؤں گی، سہم جاؤں گی۔ ماموں ! یہ ہجرت مجھے ، مجھ سے جُدا کر رہی ہے۔ چپ چاپ کتنے آنسو ماموں رشید کی تصویر پر گرتے رہے اور پھر صبح ہو گئی۔وہی ہنگامہ، کچھ نہ کرتے ہوئے بھی ایسی مصروفیت جیسے پورے آسٹریلیا کو صرف ہم نے ہی کاندھے پر اُٹھا رکھا ہے۔
’’عائشہ! آج جاؤ گی۔۔۔؟ ‘‘ نفیسہ بیگم ہر روز ایسے ہی پوچھا کرتیں جیسے پہلا دِن ہو۔
’’جی امی جی۔۔۔ ‘‘ اس نے انتہائی سلیقے سے جواب دِیا۔
’’آج تم بڑی چپ چپ ، بڑی خاموش خاموش ہو پارٹنر، کیا بات ہے ؟
’’کچھ نہیں !! ‘‘ اس کا بڑا مختصر جواب تھا۔
’’ماموں یاد آ رہے ہیں۔۔۔ ‘‘ اُس نے پوچھا عائشہ سے تھا مگر آنسو نفیسہ بیگم کے گالوں تک لُڑھک آئے۔
’’میں چلتی ہوں۔۔۔ ‘‘ عائشہ اپنا بیگم اور کتابیں اُٹھا کر باہر کی طرف نکل گئی۔
’’میں چھوڑ آؤں۔۔۔ ؟ ‘‘ عثمان نے وہیں سے پوچھا۔
’’جانے دو بیٹا! ‘‘ نفیسہ بیگم نے دوپٹے سے آنکھیں رگڑتے ہوئے منع کیا۔
’’ہوا کیا ہے۔ ؟‘‘
’’پتا نہیں۔۔۔ ‘‘ نفیسہ بیگم نے لا علمی کا اِظہار کیا اور خود کو گھر کے کاموں میں اُلجھا لیا۔
’’میں سمجھتا ہوں عائشہ تمہیں۔۔۔ تمہارے اندر کی لڑکی بے حد معصوم ہے ، یہ باہر کے اختلافات اِس زندگی کا حصہ ہیں۔ ان کے ساتھ جینا سیکھو۔ تم نیک ہو، ہر شخص نہیں ہو سکتا۔ ہر شخص اپنے اعمال کا خود ذمے دار ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہماری پہچان رہے مگر تم اس طرح مسئلہ بنا لو گی تو ہر روز ٹوٹتی رہو گی میری بہن۔ ‘‘ عثمان چائے کے گھونٹ کے ساتھ ساتھ فیصلے بھی اندر اُتار رہا تھا۔ ہجرت ایک آزمائش ہی تو ہوتی ہے۔ ایمان کی، صبر کی، Financeکی۔ ‘‘ اُس کو اپنے باپ کی بات یاد تھی جو اُنہوں نے مسجد سے واپسی پر کہی تھی۔
’’لیکن بیٹے ، کانٹوں کے ڈر سے پھولوں کی خواہش نہ کرنا کسی بھی اچھے انسان کے لئے میں جائز نہیں سمجھتا۔بُرے ماحول میں بُرے لوگوں میں اپنا ایمان بچا کر رکھنا بھی ولی بنا دیتا ہے۔اعتدال اپنی سوچوں میں رکھو۔ میرے بیٹے اس دُنیا میں سوچوں اور خیالوں میں انتہا پسندی رکھو گے تو شاید جی بھی نہ سکو۔ سکون اور اطمینان تو بڑی دور کی بات ہے۔ اپنی بات اپنے مذہب کے حوالے سے ہمیشہ کرتے رہو۔ دوسروں کو نصیحت یا ہدایت ہوتی ہے یا نہیں ، یہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے ، یہ سب منجانب اللہ ہے۔ تم دعا کر سکتے ہو۔ ‘‘ عثمان یہ ساری باتیں عائشہ کو بتانا چاہتا تھا جو حبیب صاحب کے تجربے میں اپنا راستہ دیکھ رہا تھا۔ آنکھیں اُس کی ضرور تھیں مگر نور اُن کا تھا۔
لیکن عائشہ کی ہی مصیبت تھی۔ وہ انتہا کی انتہا پسند لڑکی تھی۔ کم عمری میں تجربے بھی کم تھے۔ سب کو اچھا دیکھنا چاہتی تھی۔ اچھا رہنے کے ساتھ ساتھ اچھا ہی کرنا چاہتی تھی۔ نادان، اس کو یہ خبر نہ تھی کہ کسی کی بھی ڈور اُس کے ہاتھ میں نہ تھی۔ اوپر سے دِل کو رابرٹ کی ہریاول جیسی آنکھیں بھا گئی تھیں۔ اُس کے اندر متضاد سوچیں ، لہجے اُس کو مسلسل دو حصوں میں بانٹ رہے تھے اور وہ کسی طرح بھی سنبھل نہ پا رہی تھی۔
’’کیا بات ہے ، آج کوئی لیکچر نہیں دو گی ینگ گرل۔ ‘‘ رابرٹ کہتے کہتے اُس کی طرف جھُک آیا تھا۔ عائشہ ایک جھٹکے سے پیچھے ہٹی جیسے کرنٹ لگ گیا ہو۔
’’ینگ گرل! ‘‘ رابرٹ نے حیران ہوتے ہوئے اُس کا شرمیلا سا وجود دیکھا۔
’’تم سے بحث بیکار ہے رابرٹ۔ قطعی بے سود اور بے فائدہ۔ ‘‘عائشہ نے تاسف سے کہا۔
’’نہیں ، اب میں کم سمجھ بھی نہیں۔ بات یہ ہے کہ تم سمجھاتی ہو تو سمجھنے کو دِل نہیں کرتا کہ بار بار کہو، بار بار سمجھاؤ! ‘‘ رابرٹ کی آنکھیں چمک رہی تھیں۔ اُس کا پیغام، اُس کا مفہوم، اُف خدایا! عائشہ لرز گئی حالانکہ وہ بھی کچھ ایسے ہی سوچ رہی تھی مگر وہ اکیلے ہی سوچنا چاہتی تھی۔ ابھی اُس نے خود سے ہی کچھ فیصلہ نہ کیا تھا۔
’’یہ بے ایمانی ہے۔۔۔ ‘‘ وہ دبے دبے لہجے میں انگریزی میں بولی۔
’’ممکن ہے۔ مگر سچ ہے کہ میں تم سے ایمپریس ہو گیا ہوں۔ مجھے افسوس ہے کہ تمہیں میری باتیں ناگوار گزری ہیں مگر ینگ گرل، اس میں میرا کیا قصور ہے۔ سچ پوچھو تو تمہارے مذہب کا کوئی بھی واضح تصور میرے ذہن میں نہیں ہے۔ میرا مذہب میری اکلوتی زندگی ہے اور اُس کی خوشیاں ہیں۔ اور مزید یہ کہ کسی کو مجھ سے آزار نہ ہو بس یہی مذہب ہے میرا!! خدا اور اُس کی کائنات میری سمجھ میں نہیں آتی! اور یہ تمہارے اسلام کی لڑکی اُس کی حیا ، اُس کی وفا سب احمقانہ سی باتیں ہیں۔ میری مانو تم بھی باز آ جاؤ ایسی باتوں سے۔۔۔ !!‘‘
’’رابرٹ!!‘‘ عائشہ چیخ پڑی۔ اُس کی آنکھیں انگارے برسا رہی تھیں۔ ایک لمحے کو اُس کو احساس بھی ہوا جیسے وہ رابرٹ جس کے لیے اُس کے اندر سافٹ کارنر تھا اُسے اپنی نظروں سے گرا گیا ہو۔۔۔ ! اُسے یوں لگا جیسے اُس نے ایک عام سی لڑکی کی طرح اپنے نفس کی غلامی کر لی تھی۔
’’رابرٹ، بہتر ہے ہم اچھے کلاس فیلوز کی طرح صرف ہیلو ہائے پر گزارہ کر لیں۔ ‘‘ عائشہ نے حتمی فیصلہ کر لیا تھا۔
’’نہیں۔ یہ اب ممکن نہیں ہے۔ !! ‘‘ رابرٹ نے بھی اپنا فیصلہ دے دیا تھا۔
پھر اگلے دِن اُس نے اپنی سیٹ بدل لی۔ لیکن ہمہ وقت رابرٹ کی نظروں میں رہی پر یہ بھی ہوا کہ رابرٹ کے برابر والی سیٹ خالی ہی رہی۔اُس نے کسی کو بیٹھنے ہی نہ دِیا۔
’’تم نے ایسا کیوں کیا؟ ‘‘ کافی بریک میں عائشہ کے راستے میں رابرٹ کھڑا تھا۔
’’اس لیے کہ مجھے ایسا ہی کرنا چاہیے تھا۔‘‘
’’ٹیک اِٹ۔۔۔ ‘‘ رابرٹ نے کافی اُس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
’’نہیں ! ‘‘ عائشہ نے سر بھی ہلا دِیا۔
’’سویٹ گرل کافی ہے یہ۔ میرے ہاتھوں میں ہونے سے کافی آرتھوڈکس تھوڑی ہو گئی ہے۔ ‘‘ رابرٹ نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’بے وقوفی کی باتیں نہ کرو۔۔۔! ‘‘ عائشہ نے اُسے جھڑک دِیا۔
’’بھئی دوستی کر لو۔۔۔ !! دیکھو عائش تم چھوٹی ہو۔ ابھی مائنر ہو، کم سِن اور نابالغ ہو۔ یعنی اٹھارہ سال کی بھی نہیں ہو۔ اِتنا سوچو گی تو مر جاؤ گی۔‘‘
’’تمہیں اِس سے کیا؟ ‘‘ عائشہ کو رابرٹ کی کوئی بات مزہ نہ دے رہی تھی۔
’’ہے نا! میں چاہتا ہوں کہ وقت کے ساتھ تم میچورڈ ہو۔ تاکہ کم عمری کی تازگی اور بے فکری سے تم لطف لے سکو۔ جو لوگ وقت سے پہلے بڑے ہو جاتے ہیں وہ کھردرے ، غم ذ دہ ، پتھروں جیسے ہوتے ہیں۔
’’رابرٹ۔۔۔ ‘‘ عائشہ نے حیرانی سے اُسے دیکھا جو سیریس ہو چکا تھا۔
’’میں نہیں چاہتا مائی ینگ گرل، تم سے وہ سب کچھ اچانک چھِن جائے جو مجھ سے چھن چکا ہے۔‘‘
’’کیا کیا۔۔۔ ‘‘ عائشہ اس سے آگے پھر نہ پوچھ سکی۔
سر مارک روز کلاس میں آ چکے تھے۔ پھر ہر طرف وہی ماحول چھا چکا تھا۔ باہر بادل گھر گھر کر آ نے والے اور برسنے والے تھے۔ جارج اسٹریٹ کے سامنے جہاں یہ سنیٹر تھا ، وہیں دائیں طرف ایک اور آ فس تھا۔ جنرل آفس ، جس کو آرکیٹیکٹ نے ایسا ترتیب دیا تھا کہ جیسے جیسے تیز ہوائیں چلتی تھیں ، وہاں سے سیٹی جیسی آوازیں آتی تھیں جو آ پس میں مل کر پُر اسراریت اختیار کر جاتی تھیں۔ ایسے ہی کچھ عائشہ کو لگ رہا تھا جیسے اللہ میاں نے اُسے ایسا ہی بنا دیا تھا۔ اس کی آگہی کی سیٹی اُسے پُر اسرار بنا رہی تھی۔ رابرٹ سر جھُکائے بظاہر بے انتہا مگن لگ رہا تھا مگر وہ جانتی تھی کہ وہ کہیں اور تھا۔ میں ،جو اُس کی دوست ہوں ، وہ مجھے ان سارے آ زاروں سے بچا لینا چاہتا تھا جو اُس نے بھی اس تکلیف دینے والی دنیا میں اَن فٹ ہو کر برداشت کیے لیکن تم نہیں جانتے رابرٹ کہ آگہی ، اپنے ہونے کا ادراک کوئی جنگلی پھُول تھوڑی ہیں جو ہر جگہ اُگ جائیں۔ یہ تو بڑی خاص بیلیں ہوتی ہیں۔ انھیں خاص لوگ ہی سنبھال سکتے ہیں۔ مجھے اپنی آگہی اپنے ہونے کا ادراک عزیز تر ہے۔ میں اس راستے پر چلنے سے نہیں رُک سکتی۔ اور نہ ہی میں اس خواہش سے جان چھُڑا سکتی ہوں کہ کاش تم میرے ہم سفر ہو سکتے۔،
عائشہ نے ایک لمحے کے ایک پل میں سارے اعتبار کر لیے اور ہتھیار ڈال دیے۔
جوش جنوں تجھے ہوش کہاں
شہر تمنا ملی اک گھر لے لیا ہے
عائشہ کی خاموشیاں بڑھتی جاتی رہی تھیں۔ دوسرے روز وہ پھر رابرٹ کی برابر والی سیٹ پر بیٹھ گئی۔
’’یعنی سیز فائر۔۔۔‘‘رابرٹ نے سفید رومال لہراتے ہوئے کہا۔
’’ہاں۔‘‘ اُس نے سر ہلا دیا۔
’’گڈ گرل۔‘‘ رابرٹ نے چپکے سے کہا۔‘‘ اور وہ تمہارے پاگل پن کا کیا ہوا۔۔۔؟‘‘
’’وہ ابھی ہے ‘‘
’’پلیز عائشس۔۔۔!‘‘ رابرٹ کی آنکھوں میں جانے کیا کچھ تھا ، وہ نظریں نہ ملا سکی۔
’’! اوہ مائی فرینڈ سویٹ گرل ! خدا تمہاری مدد کرے ‘‘ رابرٹ نے ٹھنڈی سانس لی۔
’’تو تم نے بھی خدا کو مان لیا۔‘‘ عائشہ نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
’’ہاں تمہارے لیے۔‘‘ وہ بھی ہنس دیا۔
سر کلاس میں آ چکے تھے۔ پھر وہی ٹاپک اور وہی کہانیاں۔ وہی سب کی بولیاں۔
کافی بریک میں وہ رابرٹ سے کچھ پوچھنا چاہتی تھی۔ کل کی اَدھوری باتیں مکمل کرنا چاہتی تھی۔ مگر وہ جان بوجھ کر علی کے ساتھ باتیں کرتا رہا اور اُسے ہزار سے سر کھپائی کرنا پڑی۔ ایک وہی پوری کلاس میں سوبر اور اچھی لڑکی تھی جس سے چند باتیں کی جا سکتی تھیں۔ ورنہ سب کی سب لڑکیاں کپڑوں اور جوتوں کی خریداری تک محدود تھیں اور کچھ لوگ اپنے بچوں کے پرابلمز سے باہر نہ آتے تھے۔ وہ سب سے زیادہ کم عمر مگر سنجیدہ مزاج حسین لڑکی تھی۔ سرمارک روز بھی اُس کی دیانت سے متاثر تھے۔
کلاس کے اختتام پر رابرٹ نے اُس سے کہہ دیا کہ آئندہ ہم کسی ایسی بات پر بحث نہ کریں گے جو نظریاتی اختلافات کہلاتے ہیں ، یہ تم بھی اور میں بھی جانتا ہوں کہ ہم بے انتہا مختلف قسم کا طرز زندگی اور جدا گانہ معاشرت رکھتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود ایک قدرِ مشترک ہے کہ تم نہیں دیکھ سکتیں کہ میں بگڑا ہوں بقول تمہارے کافر ہوں۔۔۔!!اگر میں بھی تمہارے لیے یہی سوچوں تو۔‘‘
’’اللہ توبہ۔۔۔! توبہ ‘‘ عائشہ نے آخری سیڑھی پر کھڑے کھڑے اپنے دونوں ہاتھ کانو ں تک ایسے لگائے اور ایسے پیچھے ہٹی جیسے اُس پر رابرٹ نے کیچڑ اچھال دیا ہو !
’’دیکھا تم نے۔۔۔؟؟سب اپنے BROUGHT-UPمیں ایسے ہی مگن ہیں تم کسی کو BRAKEنہیں کر سکتیں۔‘‘
’’لیکن کوشش تو کی جا سکتی ہے۔‘‘عائشہ ابھی بھی مُصر تھی۔
’’ہاں اگر میرے جیسا کوئی احمق مل جائے۔ لیکن سنو ہم اب کوئی اختلاف والی بات نہیں کریں گے۔۔۔!!تم جو ہو خوب ہو۔ اور میں جو ہوں ، وہ بھی خوب ہوں۔‘‘
’’تو ہم کیا کریں گے۔۔۔؟‘‘عائشہ نے گرین سگنل کے لیے بٹن دباتے ہوئے پوچھا۔
’’ہم سیاست پر بات کریں گے۔ سرمارک روز کی غلطیاں ڈھونڈیں گے۔ سوزی کو کوسیں گے۔ مغربی تہذیب کی کچھ اچھائیاں ڈھونڈیں گے۔‘‘ رابرٹ نے مسکراتے ہوئے کہا اور سگریٹ سُلگا لی۔
’’یعنی سارے کام تنقیدی ہی کریں گے۔۔۔؟ کوئی ارتقائی و تعمیری کام ہر گز نہ ہو گا؟ ‘‘
’’کیوں نہیں ہو گا۔ ہم مغرب کے ماڈرن ہونے کے سلسلے میں بہت سی اچھی باتیں کریں گے۔۔۔‘‘
’’انشا اللہ۔۔۔‘‘ عائشہ بے دھیانی میں کہہ گئی۔ رابرٹ کھِلکھِلا کر ہنس پڑا۔ اور بائے کہہ کر اپنی سڑک پر مُڑ لیا۔
’’آج کیسی رہی کلاس۔۔۔؟‘‘ نفیسہ بیگم نے عائشہ کو مسکراتے ہوئے دیکھا۔
۔۔’’شکر اللہ کا تمہارا موڈ بہتر ہوا۔‘‘ عثمان بھی کھانے کی ٹیبل پر بیٹھ گیا۔
دوپہر کو حبیب صاحب اپنے کام پر ہوتے تھے۔ ایک ملازمت انہیں یہاں خوش قسمتی سے آ تے ہی مل گئی تھی، بس مستقل نہ تھی۔
’’وہ بھی ہو ہی جائے گی‘‘ وہ بڑے سکون سے کہتے اور کبھی پریشانی کا اظہار نہ کرتے اور یہ عثمان اُنہی پر جا رہا تھا۔ کوئی بات مشکل نہ لگا کرتی ہر بات کا حل وقت پر تلاش کرنا ،اپنے آپ کو درست اور سیدھے راستے پر بدستور چلائے رکھنا اور لوگوں کی پرواہ نہ کرنا اُسے اپنے سارے ہم عصر وہم عمر دوستوں میں ممتاز کر دیتا تھا۔ ویسے بھی خوبرو حسین چھ فٹ کا عثمان اپنے خیالات سمیت بڑا دل فریب تھا، بڑی آ سانی سے جوتوں سمت دل میں گھُس جاتا تھا۔ نفیسہ بیگم ہر وقت بس اپنے بچوں میں کھوئی رہتیں اور نظریں اُتارا کرتیں اور ہمیشہ اپنے اور اپنے سے متعلق ہر شخص کے لئے ایمان مانگا کرتیں اور یہ اُنہی کی دعاؤں کا اعجاز تھا کہ اُن کی اولادیں اچھی اور بُری باتوں کا امتیاز رکھتی تھیں۔
’’لیکن پارٹنر آجکل تم مجھے ایسی نہیں دِکھتی ہو جیسے آئی تھیں۔‘‘
عثمان نے جیسے اگلوانے کا آج مشن بنا لیا ہو۔
’’کیوں کیا ہوا مجھے ؟‘‘عائشہ نے روٹی توڑتے ہوئے پوچھا۔
’’کچھ سنجیدہ ، کچھ قنوطی اور کچھ دقیانوسی۔ اور ‘‘
’’کچھ وحشت۔۔۔‘‘ عائشہ نے عثمان کا جملہ مکمل کر دیا۔ اور ہنس پڑی۔’’امی جی سال ہونے کو آ یا ہے کبھی کبھی مجھے وحشت ہونے لگتی ہے۔ ماموں بہت یاد آ تے ہیں اور باقی سب بھی۔‘‘ عائشہ نے بڑی ہوشیاری سے ساری باتوں کا رُخ کسی اور طرف موڑ دیا تھا۔ خود عثمان بھی ماموں کو بہت مِس کرتا تھا۔ وہ تو اُن کا دوست بھی تھا اور بیٹا بھی ساری باتیں شیئر کرتے تھے۔ اب اتنی ہزاروں میل آسمانی اور زمینی مسافت نفیسہ بیگم کے حلق میں محبت سے کانٹے پڑ گئے اور وہ پھر اپنے بھائی میں اپنی ماں اور اپنے باپ کی شفقتوں کو کھوجنے لگیں۔ تینوں اپنے اپنے خیالوں میں گُم اپنے اپنے محوروں کے گرد دائرے بنانے لگے۔ یوں بظاہر سب کھانا کھا رہے تھے۔
’’تمہارا کورس کب ختم ہو گا۔ ‘‘ نفیسہ بیگم نے خاموشی کو توڑا۔
’’بس پندرہ دن رہے گئے ہیں۔ پھر ہائی سکول جوائن کر لو ں گی۔‘‘
’’یہ تمہاری ضد تھی۔ حالانکہ تم ڈائریکٹ ہائی سکول جوائن کر سکتی تھیں۔ بس خواہ مخواہ وقت ضائع کیا۔ اچھلا بھلا تمہیں آتا ہے۔ ‘‘ نفیسہ بیگم نے جوش محبت سے کہا۔
’’ہاں امی جان مگر کیا ہوا۔ ساری عمر پڑھنا ہی توہے۔‘‘
’’بالکل درست یہ جو سال ضائع ہوا ہے کیا اس کا رونا بعد میں روؤ گی۔‘‘عثمان بولا۔
’’ہرگز نہیں میں تم ایک ہی کلاس میں رہیں گے تاکہ دیکھ سکوں ، تم کیا کرتے ہو۔ گھر آ کر شیخیاں نہ مار سکو۔‘‘ عائشہ نے ہنستے ہوئے عثمان کے بال بکھرا دیے۔
’’سیانی بلی۔‘‘ وہ بھی ہنس دیا۔
ہاں پھر وہ دن بھی آ گیا۔جب کلاس کا آخری دن تھا۔ ایک فیئر ویل تھا۔ سرمارک روز کو بوُکے کے ساتھ گفٹ بھی پیش کیے گئے۔سب اپنے ملک کے مشہور کھانے گھر سے پکا کر لائے۔ اُس نے بُرے طریقے سے محسوس کیا کہ لبنانی ، ترکش اور انڈونیشین مسلمان بالا تفریق سب کھانے کھا رہے تھے کہ یہ حلال ہیں یا حرام۔ بلکہ شاید اُنھوں نے خود بھی کھانا پکاتے وقت کسی گوشت اور چکنائی میں تمیز نہ رکھی تھی۔ بلکہ چائینز لڑکے رین کے گھر کے کباب سبھی نے شوق سے کھائے تھے۔
’’تم کیوں نہیں کھا رہیں ؟‘‘ سرمارک روز نے عائشہ سے پوچھا۔
’’سروہ۔۔۔‘‘ وہ ابھی کوئی بہانہ بنانے ہی والی تھی کہ رابرٹ نے اُس کی مشکل آسان کر دی۔
’’سر اِن کے مذہب میں یہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔‘‘
’’وہ حرام ہے۔۔۔‘‘ سر نے بڑے آ رام سے کہہ دیا۔
’’یس سر۔۔۔‘‘ عائشہ نے بڑے فخر اور اعتماد سے کہا۔
کچھ تو تھا جس سے رابرٹ کو اپنا آ پ بڑا کم تر لگا تھا۔ اور اپنے اندر وہ خود کو بونا سا سمجھنے لگا تھا۔
’’اس چھوٹی سی لڑکی سے میں مات کھانے لگا ہوں۔‘‘ رابرٹ نے خود کلامی کی۔
’’کیا ہوا ؟‘‘ عائشہ نے بہت پوچھا مگر وہ کچھ نہ کہہ سکا۔
پھر وہ خود ہی بول پڑا۔۔’’پھر کبھی ملو گی؟‘‘
’’پتا نہیں۔۔۔؟‘‘ وہ جُو س کے سِپ لیتے ہوئے بولی۔
’’ہاں ظاہر ہے کہاں ملو گی۔ کلب تم نہیں جاتیں۔ پَب میں تم نہیں آتیں۔ شاپنگ تمہیں اچھی نہیں لگتی۔ تفریح کا تمہیں خبط نہیں۔۔۔‘‘ وہ کھِل کھِلا کر ہنس پڑا۔
’’اور شاید تمہیں پتا نہیں کہ مسجد یہاں سے دُور ہے۔ اور عورتیں مسجد اتنی جلدی جلدی نہیں جاتیں اور انگریزی میری اتنی اچھی نہیں ہے کہ لائبریری جا سکوں۔ ‘‘ عائشہ نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’یعنی NO-WAY‘‘رابرٹ نے بھی مسکرا کر کہا۔’’ویسے عائشہ بہت یاد آ ؤ گی۔‘‘
’’اچھا۔۔۔؟‘‘رابرٹ کی اطلاع ہر چند کہ نئی نہیں تھی لیکن سننا اچھا لگ رہا تھا۔
’’اچھا سُنو ینگ گرل۔ تمہارے مذہب میں محبت کی گنجائش ہے یا نہیں یعنی بعد میں ملنے ملانے پر کوئی۔۔۔؟‘‘ اُس نے جان بوجھ کر جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
’’NO-WAY‘‘عائشہ نے حتمی انداز میں کہا
’’اچھا۔‘‘ اُس نے مسکرا کر کہا اور آنکھیں پھر ہریالی بکھیرنے لگی تھیں۔
بس یہی ایک موقع ہوتا تھا، جب عائشہ کو کچھ گرانی ، کچھ لُٹ جانے کا احساس جاگ پڑتا تھا۔ جب وہ ہر مذہب اور ہر قید سے آ زاد ہو کر صر ف رابرٹ کے لئے سوچنا چاہتی تھی۔ مگر پھر دوسرے لمحے وہ قید ہو جاتی۔ اُس کے اندر پلنے والا یہی اختلاف، یہی ضد مار ڈالتی تھی۔ مگر فرض اور محبت میں کئی جنگوں کے بعد بالٓاخر اُس کا فرض جیت جاتا تھا۔
وہ مسلمان تھی۔
وہ حبیب صاحب اور نفیسہ بیگم کی بیٹی تھی۔
وہ ماموں رشید کے جہاد کی اُمید تھی۔
دیارِ غیر میں وہ اپنی تہذیب اور اخلاق کی ذمے دار تھی۔ وہ کوئی بھی قدم دل کے ہاتھوں نہ اُٹھا نا چاہتی تھی جس کا ہرجانہ اُس کی نسلیں بھی نہ اُتار سکیں۔
’’کہاں کھو جاتی ہو؟رابرٹ نے اُس کے آگے ہاتھ ہلایا۔
’’اچھا چلو چلیں۔ دیر ہو گئی ہے۔‘‘عائشہ نے بیگ سنبھالا، سب کو گڈ لک اور گڈ بائے کہا۔ ’’اچھا ینگ گر ل، گو کہ ہم مختلف سمتوں میں چلنے والے لوگ ہیں مگر میں نے تم سے بہت کچھ سیکھا۔۔۔‘‘ یہ رابرٹ کا اعتراف تھا۔
اور جواب میں عائشہ سوائے مسکرا دینے کے اور کیا کہتی۔۔۔ اُس کے پاس اس معلومات کے علاوہ کوئی پتا نہ تھا کہ رابرٹ یوگوسلاویہ کا رہنے والا ہے اور بلا کا خود اعتماد ،ذہین اور حسین لڑکا ہے اور اُس پر بُرے طریقے سے فریفتہ ہے۔ اس کے آگے کیا۔۔۔ کچھ نہیں۔
’’او۔ کے ینگ گرل گُڈ لک۔۔۔ اور گُڈ بائے۔۔۔‘‘
عائشہ نے ہاتھ ہلایا اور ساتھ ہی لگا جیسے خوشیوں کو گُڈ بائے کہہ دِیا ہو۔ ایک دفعہ پھر ساری قید سے آزاد ہو کر صرف اُسے سوچنا چاہتی تھی۔
تنہا ہو جاتا ہے جب دِل
پھر تنہا ہی رہنا چاہتا ہے
اور پھر یہ بھی۔
سزا دو یا دار و رسن کر دو
سچ نے مجھے رستہ بنا لیا ہے
رابرٹ اُس کی زندگی کی پہلی بہار تھی۔ اُس کے عہدِ شباب کا پہلا گلاب تھا۔ مگر ایسا گلاب جو کسی پر ظاہر نہ کیا جا سکتا تھا۔ کتنی باتیں ایسی ہوتی ہیں ، کتنی یادیں ایسی ہوتی ہیں جو خود سے بھی دُہرانی مشکل لگتی ہیں۔ کوفت محسوس ہوتی ہے یا پھر کہیں احساسِ جرم کا آزار اور وہ ایسا ہی کچھ رابرٹ کے لیے محسوس کر رہی تھی۔
ہائے میرے دِل و نظر کی وضاحتیں
ہوں منافق دہائی دیے جاتا ہے
نفیسہ بیگم اُس کی خاموشی کو محسوس کر رہی تھیں مگر اپنے تئیں کچھ بھی اخذ نہ کرنا چاہ رہی تھیں۔ ہر طرح سے اُس سے پوچھ چکی تھیں مگر ہر بار کمالِ ہنر سے وہ ٹال جاتی تھی۔ عثمان اُس کا بھائی اور دوست تھا ، اس بات کے لیے کہ وہ اعتبار اپنے سوا کسی پر نہ کرنا چاہ رہی تھی اور ہونا بھی کیا تھا۔ سوائے پچھتاوے کے۔۔۔ نفیسہ بیگم کی نظروں میں الگ بے اعتبار ہوتی اور ہر وقت کھوجتی نظروں کی زد میں رہتی اور عثمان، جس پر اُس کا ایک پُر وقار امیج تھا ، وہ ٹوٹ جاتا اور وہ کیا سوچتا۔ بظاہر اسلام اور اُس کی قدروں کی طرف دار کو کوئی دمساز ملا تو وہ کافر، رابرٹ جیسا۔۔۔ مگر وہ کیا کرتی۔ کسی طور پر کوئی بھی حل نہیں تھا۔
تنہا کیسے کٹے گا ویران دِل کا سفر
ایک پل ایسا آئے جو بڑھا دے مجھے
لیکن ایسا کچھ نہ ہوا بلکہ ان حالات میں رہنے کی عادت سی ہو گئی۔ اس طرح سوچتے رہنے کی پھر سب کے ساتھ ہنس بول لینے کی پریکٹس ہو گئی تھی۔
کرسمس کی چھُٹیوں کے بعد وہ ہائی ا سکول میں تھی۔ اگر پاکستان میں ہوتی تو کالج میں ہوتی مگر یہاں پر بارہویں جماعت بھی ہائی ا سکول کہلاتی تھی۔ اس لحاظ سے اُس کا صرف ایک سال اِدھر اُدھر ہوا تھا مگر وہ مگن تھی۔ سب سے علیٰحدہ، سب سے جُدا۔۔۔ اور اب تو طے تھا کہ ایسے ہی رہنا تھا۔
پھر وہی غم غمِ جاں کے
پھر وہی غم غمِ دوراں کے
مجھے غم نہیں ہے جاں کا
مجھے غم نہیں ہے دوراں کا
میرا نصابِ جنوں اور ہے
میرے افکارِ پریشاں اور ہے
بس یہ کہ۔۔۔
تیرا جہاں اور ہے
میرا جہاں اور ہے
مہینے سالوں پر محیط ہونے لگے۔ عائشہ کو ایک بار بھی رابرٹ نہ ملا تھا۔ بس ایک دفعہ علی سے پتا چلا تھا کہ وہ اب سڈنی شفٹ ہو گیا تھا، پراپر شہر میں۔
’ کیوں بھلا۔۔۔ تمہیں تو شور اور تیزی سے وحشت ہوتی تھی۔ پھر بھلا کیوں ؟‘ اب تو اُس نے بلاوجہ باہر نکلنا بھی چھوڑ دِیا تھا۔ اب اُسے کوئی پشت رابرٹ کی نہ لگا کرتی۔۔۔ نہ کوئی چہرہ شناسا اُس جیسا۔۔۔
سارا شہر اجنبیوں سے بھر گیا تھا۔ یا پھر اُس نے کھوجنا چھوڑ دِیا تھا۔ سارا شہر، ساری زندگی کشش سے آزاد ہو گئی تھی۔ اُس کی ذات کا سچ تنہائی کا زہر پی پی کر مزید سحر انگیز ہو گیا تھا۔
عثمان نے اور اُس نے ہائی سکول سے ایچ ایس سی اچھے نمبروں سے کلئیر کر لی تھی۔ اب سڈنی یونیورسٹی میں داخلے کے لیے فارم جمع کرا دِیے تھے۔
ماموں رشید سے بچھڑے چوتھا سال لگ گیا تھا اور اپنے وطن کو دیکھے ہوئے بھی۔
اس وقت وہ سب آسٹریلین نیشنل تھے۔
نفیسہ بیگم کو ہر دم عائشہ کی فکر تھی۔ اور ایک دفعہ پھر گھر بنانے کے بعد وہ کچھ نہ کچھ اُس کے لیے بچا چکی تھیں۔ بچا رہی تھیں۔ اُن کی ساری فکر بے فکری میں بدل چکی تھی۔ عثمان ماشاء اللہ شاندار سا لڑکا بن چکا تھا۔اُس کے سب دوست بھی بہترین تھے۔ عائشہ کی فکر ماں کے لیے صرف ایک اچھے لڑکے تک محدود تھی۔ حبیب صاحب اُن چند صاحبِ قسمت لوگوں میں سے تھے جنہیں اللہ نے دنیا میں سب کچھ عطا کر دِیا تھا۔ آج ہی اُنہوں نے ماموں رشید اور اُن کی بیگم کے اسپانسر شپ کے فارم مکمل کر کے بھجوائے تھے۔ نفیسہ بیگم آج کتنی خوش تھیں اور اپنے شوہر کی عقیدت مند ہو رہی تھیں۔
نازاں و فرحاں مسرور سی نفیسہ بیگم آج سرتا پا اللہ کے حضور شکر گزار تھیں۔
صدقے خیرات کے پیسے نکالے۔۔۔
سب کی نظریں اُتاریں۔۔۔
اُن کی مصروفیات میں کوئی تبدیلی نہ ہوئی تھی۔۔۔ وہ بے حد صابر و شا کر سی عورت تھیں۔۔۔ اِسی لیے اللہ نے اُنہیں نوازا تھا۔
عائشہ اور عثمان جیسی اولادیں۔
حبیب صاحب جیسا با وقار اور ہنرمند شریکِ سفر۔۔۔ اور اُنہیں کیا چاہیے تھا اور اب بھائی بھابی بھی آنے والے تھے۔
واقعی وہ اپنی قسمت سونے کے قلم سے لکھوا کر لائی تھیں۔مگر کبھی کبھی عائشہ کی خاموشی اُنہیں فکر مند کر دیتی اور پھر وہ بھی عادت سمجھ کر بھول جاتیں۔
عائشہ کی عادت نے خود اُسے بھی خوش رکھنا چھوڑ دِیا تھا۔سڈنی جانا اُسے اچھا نہ لگ رہا تھا۔ اب نئے سرے سے تلاش شروع ہو جانی تھی۔ جب وہ تھک جاتی تو پھر کسی سے پتا چلتا کہ وہ یہاں نہیں ہے۔ تب اُسے کتنی سُبکی ہوتی تھی۔ اپنی دیوانگی سے شرمندگی کا ایک نیا سلسلہ۔۔۔نہیں اور نہیں ، اب کبھی نہیں۔ ستمبر کی بہاریں جا رہی تھیں۔ آسٹریلیا کی بہار بھی عجیب ہے۔ اِتنے پھول کھلتے ہیں کہ اتنے انسان بھی شاید نہ ہوں۔
ہر راستہ خوشبودار۔۔۔ اور ہر گھر پھولوں سے گھِرا ہوا مگر گھر کے اندر سارے نقلی پھول اور اِسی طرح گھر میں کوئی نہیں رہتا، گھر سے باہر سارے رشتے ایسے بکھرے رہتے ہیں جیسے خوشبو۔۔۔ یہ کیسا مغرب کا مزاج تھا۔ آوارہ مگر غم زدہ۔۔۔ اُداس، توجہ طلب۔ وہ کسی لحاظ سے بھی فِٹ نہ تھی۔ مگر یہ ہنر بھی صرف اُسی کے پاس تھا کہ ایسے رہتی جیسے یہیں پیدا ہوئی ہو۔
انگریزی پر مکمل عبور کے ساتھ ایک پُر وقار لڑکی کا بھی رُوپ دھار لیا تھا۔ جو بھی دیکھتا، ایک منٹ کو سوچنے پر مجبور ہو جاتا۔ مگر جس نے اُسے یہ اعتماد دِیا تھا ، وہ کہا ں تھا؟؟؟
وہ کافر۔۔۔
وہ بُت پرست۔۔۔
وہ سنگ دِل، جو ہر رنگ میں محبوب تھا۔ دِل کو عزیز تر۔ ہر قید اور رسم سے بالا تر۔۔۔ اُسے کھوجنا مقصدِ حیات تھا۔ مگر ایک طرح سے بے مقصد اور لاحاصل ہی تھا اور بے کار بھی۔۔۔
ایسے ہی ایک دِن ستمبر کے دِنوں میں پھول بے اِنتہا کھلے ہوئے تھے اور اُن پر بارش ایسے گر رہی تھی جیسے امرت۔۔۔ کائنات رقصاں تھی۔ عائشہ حسبِ معمول اپنے کمرے سے اِس کا نظارہ کر رہی تھی۔ نفیسہ بیگم کچن میں تھیں۔ عثمان اپنے کمرے میں جانے کیا پڑھ رہا تھا۔
اُس نے بلا اِرادہ ہی قدم باہر کی طرف بڑھا دِیے۔
’ کبھی کبھی بھیگنے میں کتنا مزہ آتا ہے۔‘ وہ سوچے بغیر نہ رہ سکی۔
نفیسہ بیگم نے کئی بار اُسے تنبیہ کی کہ وہ باز آ جائے۔ عثمان تک نے اُسے سمجھانا چاہا۔ مگر آج وہ ہنس رہی تھی۔ کتنے دِنوں بعد آج اچھا لگ رہا تھا کہ ایسے میں پوسٹ مین اپنی مخصوص موٹر بائیک پر سوار جھُکا لیٹر بکس میں خط ڈال رہا تھا۔
’’ارے ماموں جان کا خط آیا ہو گا۔‘‘ وہ دوڑ کر قریب جا چکی تھی۔ اُس نے ہاتھ بڑھا کر خط لیٹر بکس سے نکال لیے۔
’ یہ ماموں کا۔۔۔ ‘
’ یہ صفیہ اُس کی دوست کا۔۔۔ یہ عثمان کے دوست کا۔ ‘
’ یہ حبیب صاحب کے کاروباری خط۔ مگر یہ کس کا ہے۔۔۔؟‘ نام تو عائشہ کا تھا اور ہینڈ رائٹنگ بے اِنتہا جانی پہچانی۔۔۔ یہ لکھائی تو رابرٹ کی تھی۔۔۔ عرصہ تین سال بعد۔۔۔ رابرٹ کو میری یاد آ گئی۔
عائشہ حیران تھی۔۔۔ اُس کا روم روم کانپ رہا تھا۔
ایک عجیب سا احساس، خیال۔ اُسے یاد ہی نہ رہا کہ وہ بارش میں بھیگ رہی ہے اور سارے خط تھیلی سے باہر ہیں۔
’’میرا خط آیا ہے عائشہ؟ ‘‘ عثمان کی آواز پر وہ چونک گئی اور دوڑ کر اندر آ گئی۔ سارے خط ڈائنگ ٹیبل پر رکھ کر اپنے خط لے کر اپنے کمرے میں آ گئی۔ دِل ابھی بھی دھک دھک کر رہا تھا۔ ایک بے قراری کو قرار نہ تھا۔ کیا لکھا ہو گا۔ فسانۂ ہجر یا ایسے ہی سب کچھ۔۔۔ اُس نے لکھا تھا۔
’’ینگ گرل۔ السلامُ علیکم!
تمہارا غصہ ، تمہارا شکوہ بجا کہ اِتنے دِنوں کہاں رہا مگر تمہیں شاید یاد نہ ہو کہ میں نے تم سے پوچھا تھا کہ تمہارے مذہب میں محبت کی کوئی گنجائش ہے کہ نہیں تو تم نے جواب میں کہا تھا ’’نو وے۔ ‘‘ میں ڈر گیا تھا ینگ گرل۔ لیکن یہ سچ ہے ، تم ہمیشہ میرے ساتھ رہیں اور شاید تمہاری تلاش نے مجھے انسان بنا دِیا۔ کورس ختم کرنے کے بعد میں سڈنی شفٹ ہو گیا۔ وجہ یہ تھی کہ میری ماں اور چھوٹی بہن یوگو سلاویہ سے آ گئی تھیں۔ تمہیں معلوم نہیں ہے اس لیے بتا دوں کہ میرے ڈیڈ یوگوسلاویہ میں ہونے والے ہنگاموں کی نذر ہو گئے۔ وہ میرے بہتر مستقبل کے خواہش مند تھے۔ اِس لیے یہاں بھجوایا تھا۔ بڑی بہن اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ ابھی بھی وہیں مقیم ہے۔ میری ماں اور چھوٹی بہن ماریہ اکیلے پن کی وجہ سے یہاں آ گئی ہیں۔ وہ کیسے پہنچیں یہ بڑی لمبی داستان ہے۔۔۔ ماریہ مجھ سے دس سال چھوٹی ہے مگر آگہی نے اُسے میرے برابر لا کھڑا کیا ہے۔ اُس سے میں کبھی کبھی ڈر جاتا ہوں ، بالکل ایسے جیسے تم سے ڈر جاتا تھا۔
’’عائشس! سچ سچ بتانا تمہیں اس شعور نے سوائے آزار کے کیا دِیا ہے۔ تم نے اپنی بے فکری کے دِنوں کو کھو کر کیا حاصل کیا؟ مگر تمہاری یہی قدرِ مشترک میری زندگی بن گئی ہے۔ تمہاری سچائیوں اور مستقل مزاجی نے مجھے بدل دِیا۔ اور شاید اسی اِدراک اور فہم نے مجھے مذہب اسلام کے قریب کر دِیا۔ سڈنی میں Rotting Hillروٹنگ ہل کی مسجد میں امام صاحب سے ملا اور پورے ایک سال تک دینِ اسلام کی اسٹدی کی اور اس نتیجے پر پہنچا کہ تم سچ کہتی تھیں۔ یہ واحد دین ہے جو نیچرل ہے ، آسمانی ہے۔ مجھے قرآن شریف سے وہ سارے جوابات مل گئے جو کبھی مجھے بے چین کر دیتے تھے۔مجھے اپنی حدود کا احساس ہوا اور آج اللہ کے کرم سے مجھے ہدایت نصیب ہے اور میں مسلمان ہو چکا ہوں۔ میری ماں بھی اور چھوٹی بہن بھی۔ اب میرا اسلامی نام رحمان ہے اور ماریہ میری بہن کا نام ہے۔ میں بہت چاہتا تھا ، تمہیں بتاؤں اور ہمیشہ کے لیے تمہاری طرف لوٹ آؤں مگر یہ حقیقت تھی ینگ گرل کہ میری فیملی اور فیملی بیک گراؤنڈ تمہاری طرح کلر فل نہیں ہے۔ یا پھر شاید مجھے انکار کا حوصلہ نہیں ہے۔ اس لیے پھر راستہ بدل لیا ہے۔ ارینہ میری اچھی دوست تھی۔ میں نے سوچا، نیکی کا جو سفر تم نے کم عمری میں شروع کیا تھا ، میں اُسے بڑھاؤں۔ ارینہ اب مسلمان ہو چکی ہے۔ اس کا اسلامی نام فاطمہ ہے۔ اب وہ فاطمہ رحمان ہو چکی ہے۔ تمہیں اپنے اوپر رشک کرنا چاہیے کہ تمہارے اعتماد اور جلال نے مجھے کیا سے کیا بنا دِیا۔ میں اس دنیا میں تو کیا قیامت میں بھی علی الاعلان کہوں گا کہ مجھے صرف تم نے مسلمان کیا ہے۔ تم وہ حسین تحفہ ہو جو صدیوں میں ایک بار زمین والوں کو نصیب ہوتا ہے۔ تم ایک تو کیا، کئی نسلیں مسلمان کر سکتی ہو، اور یہ بھی کہ اسلام صرف مسجدیں بنا لینے سے نہیں پھیلتا بلکہ محبت ، مہربانی اور صرف تم جیسی پُر عزم لڑکی کی مستقل مزاجی سے پھیلتا ہے۔ تمہیں اب میری فکر نہیں کرنی چاہیے۔ بس نیکی پر قائم رہنے کی دعا چاہتا ہوں۔ میری اچھی دوست، تم زندگی کی آخری سانس تک ایک اعتبار بن کر میرے ساتھ رہو گی۔ تمہیں صرف ایک بار دیکھنے کی تمنا رکھتا ہوں۔ اس لیے کہ تمہیں دیکھ کر زندہ رہنے کو جی کرتا ہے۔۔۔!!
خدا حافظ
رحمان‘‘
عائشہ کے کانپتے ہاتھوں میں وہ سب کچھ تھا ، جسے پانے کی تمنا تھی۔ لیکن اِتنے بڑے میرٹ سرٹیفکیٹ کی توقع ہرگز نہیں تھی۔
رابرٹ سے رحمان تک اُس کی دُعاؤں کا سلسلہ تھا یا اُس کی محبتوں کا اعجاز۔۔۔ اُس کے لڑیوں کی صورت گرتے آنسو بارش کی طرح پھولوں پر برس رہے تھے مگر دِل کے اندر ہجرت کے بعد کٹنے والی پہلی رات کی بے سرو سامانی تھی، ویرانی تھی۔ وحشت تھی۔۔۔ خالی پن، ادھورا پن اور جانے کیا کیا۔۔۔ لیکن ایک احساس نے اُسے سرشار کر دِیا تھا۔۔۔ رابرٹ سے رحمان بن کر اُسے قیامت میں بھی سُرخرو کر دِیا تھا۔
اُس کی ذات کا پہلا سچ۔۔۔
اُس کا پہلا راز، پہلا اعتبار۔۔۔
عہدِ شباب کا پہلا گلاب۔۔۔
اُسے کتنی بلندیوں پر لے گیا تھا۔۔۔
———————–