مجھے دیکھتے ہی آفتاب بولا، یار علی دو منٹ پہلے آ جاتا تو کیا اچھا تھا۔اس کمینے نے آج مجھے تیسری دفعہ مات دی۔ یہ اتنا بڑا سوئر ہے (اگلا لقمہ ڈاکٹر نے اُچک لیا) کہ ایک کتے سے قابو نہیں آتا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹر منور بیگ ہم دونوں کی نسبت اچھا شاطر تھا۔ پھر بھی میں اور آفتاب مل کر اس پر حاوی ہو جاتے۔منور بیگ کا کلینک گاؤں کے چوک میں واقع تھا جس کے ایک طرف جامع مسجد اور سامنے پکی اور صاف ستھری سڑک گزرتی جس پر ٹریفک بالکل نہ تھامگرسارا دن اِکا دُکا آدمی ضرور گزرتے رہتے۔۔ سڑک کی دوسری طرف پارک تھی۔جس میں چھ سات کھجور کے اُونچے درخت بھی تھے جو دیکھنے والے کو بھلے لگتے۔سڑک اور پارک دونوں ویران تھے۔ غالباًََ گاؤں کے لوگوں کا ایسی چیزوں میں دھیان نہیں رہتا۔ میرا اور آفتاب کے دن کا بڑا حصہ کلینک پر ہی گزرتا۔ڈاکٹر اچھا شاطر ہونے کے علاوہ حاضر جواب اور بذلہ سنج آدمی تھا۔ اُس سے بات کر کے آسان نکل جانا مشکل تھا۔ہر فن مولا ایسا کہ گھر کا چولہا بنانے سے لے کر مریضو کی دوائیاں تک خود تیار کر لیتا۔
آفتاب کے پاس امریکہ کا گرین کارڈ تھا۔گرمیوں میں چلا جاتا۔ چھ سات مہینے مزدوری کرتا اور نومبر چڑھے لوٹ آتا۔پچھلے بیس سال سے یہ اس کا معمول تھا۔سرطان کا مریض بھی تھا۔لہٰذا ڈاکٹروں نے اسے سگریٹ منع کیے تھے۔ گھر سے باہر آتا تو بیگم چھوٹا لڑکا ساتھ کر دیتی کہ اباکا خیال رکھے اور سگریٹ پینے پر اُسے خبر کرے۔اِدھر اس نے بچے کو رشوت پر لگا دیا کہ ہر سگریٹ کے پانچ روپے لے لیا کرے مگر اپنی امی کو نہ بتائے۔
ہم آفتاب سے اکثر امریکی معاشرے پر بات کرتے۔ جسے وہ مزے لے لے کر سناتا کہ ایک دفعہ فلاں سے عشق کیا تو یہ گزری۔فلاں سے عشق ہوا تو یہ بیتی۔ ہمیں بتاتا کہ امریکیوں کا دل اتنا کھلا ہے کہ ایک لڑکے سے جو میرے ساتھ کام کرتا تھا اُسے میں نے کہا یار، تمہاری بہن کیا غضب کی خوبصورت ہے۔بولا آپ کی اُس سے بات کراؤں ؟
میں نے کہا، نیکی اور پوچھ پوچھ کر، بھلائی میں دیر کیسی؟ میاں جلدی کرو۔لیکن پتا چلا کہ پہلے ہی اُس کا ایک بوائے فرینڈ ہے۔جس کا ہم دونوں کو بہت افسوس ہوا بلکہ اُسے غیرت بھی آئی اور طیش کھا کر دو دن تک نہ بولا۔
امریکی قانون پر بات کرتے ہوئے اُس نے کہا قانون سخت ہے لیکن امریکی ڈاکو اِس سے بھی زیادہ سخت ہیں۔ میں نے پوچھا اُدھر کبھی لٹنے کی سعادت ہوئی ؟بولا مجھے کسی نے نہیں لوٹا البتہ اُن کے ہاتھوں فائدہ ہوا۔ قصہ یہ کہ میں ایک پٹرول پمپ پر ملازم تھا۔ میرے پاس پٹرول کے تقریباً چار ہزار ڈالر جمع ہو گئے کہ اتنے میں ڈاکو آ گئے۔ اُنہوں نے تمام افراد کو لوٹ لیا۔خوش بختی سے میں پیسوں سمیت ٹائلٹ میں جا گھسا۔ڈاکو چلے گئے تو باہر نکل آیا اور لٹنے والوں میں شامل ہو گیا۔ افراتفری میں کسی کو پتہ نہ چلا یوں میں اُس رقم کا مالک بن گیا۔اُس دن خدا کی قسم مجھے پاکستانی ہونے پر فخر ہوا۔
ایک دن حسب معمول ہم شطرنج اور چائے میں مشغول تھے کہ ایک مریضہ کو اُس کے لواحقین تانگے پر لاد لائے۔مریضہ بے ہوش تھی اور لواحقین گھبرائے ہوئے۔ ڈاکٹر نے شطرنج جلدی سے میز کے نیچے چھپا دی اور مریضہ کو دیکھنے لگا۔میں اور آفتاب اُٹھ کر باہر آ گئے اور پارک میں آ کر کھجوروں کے نیچے کھڑے ہو گئے۔ ہم آپس میں باتیں کرنے لگے کہ مریضہ نے کام خراب کر دیا ورنہ اس گیم میں ڈاکٹر پھنس گیا تھا۔ڈاکٹر منور بیگ کچھ دیر مریضہ کو دیکھتا رہا لیکن اُس کی سمجھ میں غالباً کچھ نہیں آ رہا تھا۔ آخر پریشانی کے عالم میں اُس نے لواحقین کو جواب دے دیا۔ اُن سے کہا کہ مریضہ کو دل کا زبردست اٹیک ہوا ہے لہٰذا اِسے جلدی سے شہر لے جاؤ۔ڈاکٹر کے جواب دینے پر لواحقین گھبرا گئے۔ وہ اِس گومگو کی کیفیت میں تھے کہ اتنی جلدی کیا کیا جائے۔مریضہ کو دوبارہ تانگے پر رکھا گیا۔تانگہ چلنے ہی کو تھا کہ آفتاب نے بھاگ کر مریضہ کی نبض پکڑ لی۔ پھر ڈاکٹر کو اشارہ کیا۔ ڈاکٹر نے پاس آ کر مریضہ کو دوبارہ دیکھا اور سر جھکا لیا۔ اِس کیفیت میں مَیں دُور ہی کھڑا رہا۔ غالباً یہ میری نفسیاتی کمزوری ہے کہ کسی کی تکلیف کو قریب سے نہیں دیکھ سکتا۔خیر ڈاکٹر اور آفتاب کو پریشان دیکھ کر ورثا ء سمجھ گئے اور دھاڑیں مار کر رونے لگے۔دراصل مریضہ فوت ہو چکی تھی۔کچھ راہ چلتے بھی کھڑے ہو گئے اور دلاسے دینے لگے۔ بہرحال پانچ چھ منٹ میں تانگہ رخصت ہو گیا اور دس منٹ کے اندر لوگ بکھر گئے۔ یہاں تک کہ ہم تینوں رہ گئے اور سنجیدہ ہو کر بیٹھ گئے۔
کچھ توقف کے بعد ڈاکٹر نے مجھے دیکھا اور بولا، کیوں علی صاحب بندہ کس صفائی سے مرتا ہے۔میں چپ رہا مگر آفتاب نے سامنے سڑک کے اُس پار پارک میں بارش کے پانی میں تیرتی بطخوں کو دیکھتے ہوئے کہا، کم از کم مجھے اس طرح کا مرنا پسند نہیں۔ یہ کیا کہ مریض کو پتہ بھی نہ چلے اور وہ مر جائے۔ وہ بھی سڑک کے عین بیچ۔ امریکہ میں انسان اور حیوان دونوں ہسپتال میں مرتے ہیں اور اِس صفائی اور آرام سے کہ تکلیف کا احساس نہیں رہتا۔ یوں تانگوں میں ذلیل نہیں ہوتے۔
اِس بات پر منور بیگ نے سرد آہ کھینچی اور میں نے فقط سر ہلا دیا۔
ہمیں متاثر ہوتے دیکھ کروہ مزید بولا۔ بس یار زندہ رہنے کا، مرنے کا اور مرنے کے بعد تک کا مزا امریکہ میں ہے۔یہاں تو ( ڈاکٹر کی طرف دیکھتے ہوئے) نیم حکیم ہیں۔ تانگے ہیں یا جوہڑ کے گندے پانی جن میں بطخیں تیرتی ہیں۔ میں نے کہا اگر جینے مرنے کا مزا امریکہ میں ہے تو بالکل ہی اُدھر کیوں نہیں چلا جاتا؟ اِدھر کیا رکھا ہے ؟ بولا، سوچا تو میں نے بھی ہے لیکن میری دو بیٹیاں ہیں۔ سوچتا ہوں گوروں سے آنکھ لڑا بیٹھیں تو کیا ہو گا اور قانون یہ ہے کہ والد تھپڑ مارے تو جیل جائے۔البتہ اُن کو بیاہ کر جاؤں گا اور نہ آؤں گا۔اِس گفتگو نے ہماری افسردگی دور کر دی اور ہم یہ بھی بھول گئے کہ ابھی ابھی ہمارے سامنے کسی کی موت واقع ہوئی ہے۔
کچھ دیر بعد ڈاکٹر نے آفتاب کو پھر چھیڑا، یار یہ تو پتا چل گیا کہ جینے اور مرنے کا مزا مغرب میں ہے لیکن مرنے کے بعد تک کے مزے سے تمہاری کیا مراد ہے؟ یعنی یہ کہ امریکی خدا سے بھی ہاتھ کر گئے اور جنت بھی لے اُڑے۔
آفتاب میری طرف دیکھ کر ہنسا پھر بولا، جہاں تک جنت کا سوال ہے، امریکی تو ایک طرف ہم بھی فارغ ہیں۔ دراصل بات یہ ہے کہ وہ کھاتے ہوٹل میں ہیں، رہتے ٹھنڈ میں، مرتے ہسپتال میں اور دفن تابوت میں ہوتے ہیں۔ جب کہ یہاں کھاتے کچھ نہیں، مرتے سڑکوں پر اور دفن نہیں ہوتے بلکہ دابے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر نے کہا، کیا تابوت مٹی میں نہیں جاتا؟
جاتا ہے، مگر تو نے تابوت نہیں دیکھا، آفتاب کہنے لگا۔ایک اعلیٰ پائے کی لکڑی کا صندوق جس کے اندر ایلومینم کا ایک اور صندوق، اس کے اندر شاندار کپڑا، جاڑے اور گرمی میں مردے کا محافظ۔بندہ صدیوں سوتا ہے اور مٹی کا منہ چڑاتا ہے۔مجال ہے کفن کا تار بگڑے۔
اور یہاں ؟خدا پناہ، مذہبی فوجدار، غسّال اور گورکن مردے سے گویا انتقام لیتے ہیں۔ ایک تو وہ بے چارہ مرتا ذلت سے ہے اور رہی سہی کسر یہ نکالتے ہیں۔ چھ فٹ گہرا گڑھا کھودا، زمین پر چت لٹایا اور اوپر مٹی بھر دی۔یعنی لاش اگر کل خراب ہونی ہے تو آج ہی ہو جائے۔گرمیوں میں پسینے چھوٹیں اور سردیوں میں جاڑا مار دے۔ بھائی میرا تو یہاں مرنے کو دل نہیں کرتا۔ جہاں تابوت نہیں وہاں بندہ کیا خاک مرا بلکہ ذلیل ہوا۔
بس کرو میاں، ڈاکٹر کہنے لگا، ہمیں تو افسوس ہوتا ہے کہ ابا انگریز کیوں نہ ہوئے؟ کاش امریکی ہوتے۔ چاہے موچی ہوتے۔ اب تابوت سے بھی رہے اور خوف آنے لگا ہے کہ ابھی مرے، ابھی خاک ہوئے۔بھائی اب کے جاؤ تو دو تابوت بھجوا دینا ہم پر احسان ہو گا۔ اِسی چھیڑ چھاڑ میں مغرب کی اذان ہو گئی۔ میں اور آفتاب اُٹھ کر چلے آئے۔
دوسرے دن میں کسی ملازمت کے حصول کے سلسلے میں شہر چلا گیا وہاں دو ماہ رہا۔ اِس دوران ڈاکٹر اور آفتاب سے ملاقات نہ ہو سکی البتہ دو چار بار فون پر بات ضرور ہوئی۔ملازمت چونکہ اچھی نہ تھی اور دوسری وجہ یہ کہ گاؤں یاد آنے لگا۔ لہٰذا جلد ہی لَوٹ آیا۔چار بجے کلینک پر گیا تو دونوں گپیں ہانک رہے تھے۔ میرے جاتے ہی منور بیگ نے بساط پر مہرے لگا دیے۔
کھیل کے دوران ڈاکٹر بولا، چلو یار آج تمہیں جان بوجھ کر جتوا دیتا ہوں کیونکہ کل آفتاب چلا جائے گا۔ کیا کہے گا جاتے جاتے بھی ہار گیا۔
میں نے کہا بعض لوگ جا کر بھی ہار جاتے ہیں۔
یہ لوگ (آفتاب کی طرف اشارہ کر کے) نہایت کمینے ہیں، ڈاکٹر کہنے لگا، ہار کر بھی کچھ نہ کچھ لے اُڑتے ہیں۔
اور آپ سیّد زادے ہیں۔ آفتاب نے شاہ کو چیک دیتے ہوئے کہا کہ ہر طرف عنایات کی بارش ہے۔
بھڑوے تجھے شاطر کر دیا۔ سگریٹ، چائے اور کھانسی ہمارے لطف کا نتیجہ ہے۔ ڈاکٹر ہنستے ہوئے بولا۔ہماری صحبت میں ہی بیٹھنے سے تمہیں عقل آئی۔ اب لوگ تجھے اچھا بھلا دانشور سمجھتے ہیں۔ گویا اب تُو چلتا پھرتا کامریڈ ہے۔
اس پر آفتاب ڈاکٹر کو ٹک ٹک دیکھنے لگا۔
یوں ہم سارا دن ہنستے رہے جب کہ گاہے گاہے ڈاکٹر مریض بھی دیکھتا رہا۔دوسرے دن ہم آفتاب کو ایئرپورٹ پر چھوڑ آئے کیونکہ یہ اُس کا امریکہ جانے کا دن تھا۔
آفتاب کے جانے کے بعد میں اور ڈاکٹر گاؤں میں ہم مجلس رہ گئے۔ چار پانچ دن بعد آفتاب کا فون بھی آ جاتا اور کافی دیر تک ہماری باتیں ہوتی رہتیں ڈاکٹر فون پر ہی اُس کی اچھی بھلی خبر لے لیتا۔ دو ماہ اِسی طرح نکل گئے۔ مگر پچھلے کوئی بیس دن سے اُس کا فون نہ آیا۔ہم تھوڑے سے پریشان ہوئے کہ ایسا بے مہر آدمی تو نہ تھا۔ خدا جانے کیا بنی۔
ایک دن میں نے آفتاب کے بیٹے شہزاد سے پوچھا۔ تیرے ابا کا فون نہیں آیا ؟اُس نے کہا وہ اُدھر ہسپتال میں داخل ہیں۔ آج پندرہ دن ہو گئے، تکلیف اور بے ہوشی کی حالت میں ہیں۔ وہ بات نہیں کر سکتے۔یہ بتاتے ہوئے وہ رو پڑا۔ میں نے اُسے دلاسا دیا اور ڈاکٹر کو آ کر بتایا۔لہٰذا اُس دن ہم باتیں ہی کرتے رہے۔ شطرنج کھیلنا ویسے ہی بھول گئے۔
پارک میں کھڑا بارش کا پانی اب خشک ہو چکا تھا اور بطخوں کی جگہ آوارہ کتوں نے لے لی جو ایک دوسرے کو غرا رہے تھے۔
اگلے دن رات کوئی ساڑھے گیارہ کا عمل ہو گا۔ اعلان ہوا کہ آفتاب امریکہ میں کسی ہسپتال میں داخل تھا۔ جو آج رات نو بجے فوت ہو گیا۔میں دوڑ کر آفتاب کے گھر کی طرف گیا۔ڈاکٹر پہلے ہی وہاں موجود تھا۔ آفتاب کے بیوی بچوں کے رونے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ گھر میں داخل ہوئے تو آفتاب کے بچے ہم سے لپٹ گئے اور چیخ چیخ کر رونے لگے۔ ہمارے پاس دلاسا دینے کو الفاظ نہ تھے فقط آنسو نکل آئے۔دوسرے دن آفتاب کے بھائی اور رشتہ دار بھی آ گئے جن میں سے ایک ملک کا مشہور فلمی ایکٹر بھی تھا۔تیسرے دن لاش آ گئی۔جسے دیکھ کر ہم ایک دم چونک گئے۔
لاش ایک بڑے اور خوبصورت تابوت میں تھی۔میں اور ڈاکٹر نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔مگر چپ رہے۔لاش آنے پر پورا گاؤں اُمڈ آیا۔جونہی تابوت کھولا گیا ایک کہرام مچ گیا۔ رونے کی آوازیں درد ناک تھیں۔ اُس کے بیوی بچے لاش سے لپٹ لپٹ کر رو رہے تھے۔ہم پر بھی رقت طاری ہو گئی اور آنکھیں پانی سے بھر گئیں۔ فضا اس قدر بوجھل اور ماحول ایسادرد ناک تھا کہ ہم زیادہ دیر تک لاش کے قریب نہ ٹھہر سکے۔علاوہ ازیں رفتہ رفتہ عورتوں کا ہجوم بڑھنے لگا تھا۔ لہٰذا ہم لاش سے دور ہٹ کر کھڑے ہو گئے اور تعزیت میں آتے جاتے لوگوں کو دیکھنے لگے۔ جو پلٹتے ہوئے تابوت کا ذکر ضرور کرتے کہ کتنا خوبصورت اور چاندی سے زیادہ سفید ہے۔ عورتیں اُس کے اندر کے کپڑے پر تبصرہ کر رہی تھیں۔
نوجوانوں اور بچوں کا الگ ہجوم فلمی اداکار کے گرد جمع ہو چکا تھا۔ وہ اتنے بڑے فلم سٹارکو پہلے سکرین پر ہی دیکھتے رہے لیکن آج اُسے عین آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے تھے۔ آفتاب کی لاش سے اُنہیں صرف اتنی دلچسپی تھی کہ اُس کی موت نے انہیں یہ موقع فراہم کیا۔
اِدھر آفتاب کے بھائیوں اور رشتہ داروں کو یہ فخر حاصل تھا کہ اُن کی وجہ سے امریکی تابوت اور معروف ادا کار کو لوگ دیکھ سکے۔اِس عالم میں آفتاب کے بیوی بچے ہی صرف وہ لوگ تھے جنہیں تابوت دکھائی نہ دیا۔ خاص کر پانچ روپے رشوت لینے والے بیٹے کو جو بالکل لاش کے اوپر لیٹا چیخ رہا تھا۔
شام چار بجے جنازہ اُٹھایا گیا۔جنازہ پڑھا گیا تو لوگوں نے باری باری آفتاب کا چہرہ دیکھا۔جب تمام لوگ چہرہ دیکھ چکے تو آفتاب کا بڑا بھائی ارشد اچانک کھڑا ہو گیا اور لوگوں سے مخاطب ہو کر بولا۔ اے گاؤں والو! تابوت چونکہ ہر ایک کو بہت پسند آیا ہے۔ لہٰذا ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ یہ تابوت گاؤں والوں کو دے دیں تاکہ وہ اپنے مرنے والوں کو اِس میں ڈال کر قبرستان لے آیا کریں اور آفتاب کو بغیر تابوت کے دفن کرتے ہیں۔ ارشد کے اِس اعلان پر تمام لوگوں نے خوشی کا اظہار کیا۔ اور اُسے تحسین آمیز نگاہوں سے دیکھا۔بلکہ مولوی صاحب نے اِس بات سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے فرمایا، ارشد نے بہت اچھا فیصلہ کیا ہے۔کیونکہ ویسے بھی لاش کو ایلومینم کے تابوت میں دفن کرنا شرعاً جائز نہیں۔ منکر نکیر کو دقت پیش آتی ہے۔ارشد کے اِس اعلان اور مولوی کے فتوے کی وجہ سے میرے اور ڈاکٹر کے سرپر گھڑوں پانی پڑ گیا۔جی چاہا کہ آگے بڑھ کر اِن کامنہ نوچ لیں مگر ایسا نہ کر سکے۔
خیر جنازہ پڑھنے کے بعد اکثر لوگ چلے گئے چند ایک رُکے رہے۔ یہاں تک کہ تابوت کو قبر کے نزدیک لے جا کر کھولا گیا۔ تین لوگوں نے مل کر آفتاب کی لاش باہر نکالی۔ دوسرے لوگوں نے کلمہ شہادت بلند کیا۔اُس کے بعد دو شخص قبر میں اُترے اور کلمہ شہادت کے ورد کے ساتھ قبر میں اُسے ننگی زمین پر لٹا دیا۔پھر مٹی ڈالے جانے لگی۔
اِس تمام عمل کے دوران مَیں اور ڈاکٹر تماشا بنے کھڑے رہے۔ ہم نے نہ تو کلمہ شہادت پڑھا، نہ لاش کو ہاتھ لگایا اور نہ ہی مٹی ڈالی۔ جیسے مرنے والا کوئی اجنبی ہو۔