اس نے پہلی بار نازیہ کو دیکھا تو اس کے ذہن میں کسی کنول ہی کی تصویر ابھری تھی لیکن اسے کنول سے کوئی رغبت تھی نہ شاعری سے۔ چنانچہ یہ کنول اسے کچھ متاثر نہ کر سکی۔ ہلکا سانولا رنگ، سرو قد، کمر کے بوسے لیتے ہوئے سیاہ بال، ستواں ناک اور لمبی لمبی پلکوں کے درمیان اس کی آنکھیں کسی درخت کی جھکی ہوئی ٹہنیوں تلے کسی جھیل کی طرح لگتی تھیں۔ بیس برس خیرہ کن امریکی تہذیب اور حسن کے درمیان رہتے ہوئے اسے قمیض شلوار میں لپٹی لپٹائی یہ ہندوستانی کنول کچھ متاثر نہ کر سکی۔
اس شام وہ اسپتال سے گھر لوٹا تو ڈیڈی نے گھر آئے مہمانوں سے اس کا تعارف کرایا:’’ان سے ملو احمد!یہ میرے عزیز دوست ڈاکٹر حمید اور بھابی ریحانہ اور یہ ان کی اکلوتی صاحبزادی نازیہ حمید ہیں۔آپ لوگ ہندوستان سے اپنے بھابی کے یہاں فلوریڈا تشریف لائے تھے۔ ہندوستان لوٹتے ہوئے کچھ عرصہ ہمارے یہاں قیام کریں گے۔‘‘
اس نے نہایت تپاک سے مصافحہ کیا لیکن نازیہ کی طرف سے ہاتھ کی بجائے آداب کے الفاظ سننے کو ملے تو اسے اس ہندوستانی کنول سے گھن سی محسوس ہوئی تھی…’’نئی نئی ہے …‘‘ اس نے خود سے کہا ’’ذہن پر سے قدامت پسندی کی دھول صاف ہونے میں کچھ دیر لگے گی۔‘‘
پھر جب تمام لوگ ایک کمرے میں یکجا ہو کر ماضی کی یادوں میں کھو گئے تو ڈیڈی نے اسے اشارہ کیا کہ نازیہ کو باہر ٹہلا لائے۔‘‘
لان پر چہل قدمی کے دوران میں اسے خود ہی گفتگو چھیڑنی پڑی ’’آپ کو امریکہ پسند آیا؟‘‘
خصوصاً فلوریڈا(Florida) کے حسن سے میں مسحور ہو کر رہ گئی ہوں :
گر فردوس بر روئے زمیں است
ہمیں است، ہمیں است، ہمیں است
’’معاف کرنا مجھے فارسی نہیں آتی۔‘‘ ا س نے منہ بنا کر کہا۔ لیکن شکاگو(Chicago) بھی کچھ کم خوبصورت نہیں ہے۔ نومبر اور مارچ کے درمیان میں یہاں تقریباً۳۰انچ برف پڑتی ہے تو منظر دیکھنے کے لائق ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ دنیا کی دوسری بلند ترین عمارت سیرس ٹاور (Sears Tower) شکاگو ہی میں ہے اس کے علاوہ بوٹانیکل گارڈنس (Botanical Gardens) ، بکنگھم فاؤنٹین(Buckingham Fountains) میں سیاحوں کے لیے بڑی کشش ہے۔ اچھا تو یہاں کی تہذیب کے متعلق آپ کا خیال ہے ؟‘‘
’’معاف کرنا…کچھ اچھا خیال نہیں ہے۔ یہاں کے لوگ سائنس اور ٹیکنالوجی میں بے شک ہم سے بہت آگے ہیں لیکن اخلاقی قدروں میں وہ سنجیدہ نہیں ہیں۔ مجھے تو ہول آتا ہے جب میں دیکھی ہوں کہ یہاں کی نئی نسل کی آزاد خیالی اور خر مستی اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے اور ہر چیز کی انتہا تباہی کے دہانے پر ختم ہوتی ہے۔ یہاں تو شام ہوتے ہی شریفوں کے لیے زمین تنگ ہو جاتی ہے۔
’’آپ نئی ہیں …‘‘ اس نے نازیہ کے لکچر سے اکتا کر طنزاً کہا ’’رفتہ رفتہ اس کی عادی ہو جائیں گی۔ تاریکی سے روشنی میں آتے ایسے ہی سب کی آنکھیں چکا چوند ہو جاتی ہیں اور روشنی برداشت نہیں کرتیں مگر…کیا آپ ابھی زیر تعلیم ہیں ؟‘‘
’’جی نہیں …نازیہ اس کی طرف دیکھ کر مسکرائی۔’’میں نے بنگلور یونیورسٹی سے دو سال ہوئے اردو اور انگریزی میں الگ الگ ایم اے کیا ہے اور وہیں ایک کالج میں پڑھا رہی ہوں ، فرصت کے اوقات میں اخبارات اور رسائل کے لیے مضامین لکھتی ہوں۔ میرا ارادہ ریسرچ کرنے کاہے مقالے (Thesis) کا انتخاب بھی ہو چکا ہے مگر ڈیڈی راضی نہیں ہیں۔‘‘
’’ادب سے کیا ہوتا ہے ؟‘‘ اس نے قدرے تحقیر کے انداز میں کہا ’’کوئی میڈیکل یا ٹیکنیکل کورس کیا ہوتا۔‘‘
’’آپ بھولتے ہیں کہ سائنس کی طرح ادب بھی علم کی ایک شاخ ہے …‘‘ نازیہ کے ماتھے پر ناگواری کی ایک شکن ابھری۔ سائنس جہاں زندگی کو کھوجتی ہے وہاں ادب زندگی کو مہکاتا ہے ، جینے کا سلیقہ سکھاتا ہے اگر انسان کو جینے کا سلیقہ نہ ہو تو وہ انسان کہلانے کا حق دار نہیں۔ ادب سے بڑھ کر ہماری تہذیب کا پاسبان ہوتا ہے۔ آج افلاس اور بھوک نے انسان کو یقین و اعتماد کی قوت سے محروم کر رکھا ہے۔ تعلیم بس روزی اور روٹی سے جڑ کر رہ گئی ہے۔ مثال کے طور پر آپ کے طب کے پیشے ہی کو لیجئے۔ کیا وہ خدمت کی بجائے تجارت نہیں بن گیا ہے !ہم ایک غلط نظرئیے کا شکار ہو کر اندھا دھند اس تعلیم کی طرف دوڑے جا رہے ہیں جو ہمارے پیٹ اور بنک بیلنس زیادہ سے زیادہ بھر سکے عیش و آرام کا سامان مہیا کر سکے اس دھن میں ہم آداب زندگی و معاشرت اور فرائض کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔لہٰذا ادب یکتا و تنہا ہو کر رہ گیا ہے۔ میں نے اپنی روح کی آسودگی کے لیے ادب کا انتخاب کیا تھا اس پر کسی کا دباؤ نہیں تھا۔‘‘نازیہ کے لہجے میں یقین و اعتماد کی چاشنی اور گفتگو میں وقار کی جھلک نمایاں تھی وہ عام لڑکیوں کی طرح جذباتی یا غیر سنجیدہ تھی نہ کسی احساس کمتری کا شکار۔ وہ اندر ہی اندراس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔
اگلے دن اسے معلوم ہوا کہ نازیہ کو ٹہلا لانے سے ڈیڈی کا کیا مطلب تھا!انھوں نے ڈاکٹر حمید کو فلوریڈا سے کیوں بلوایا تھا دراصل انھوں نے نازیہ کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا اور اس سے ملنے کے خواہش مند تھے جب ملے تو پہلی ہی نظر میں اسے بہو بنانے کا فیصلہ بھی کر لیا۔ اس نے احتجاج کیا کہ اس کی پسند اور رائے کو اہمیت نہیں دی گئی آخر اس ہندوستانی کنول میں کون سے ہیرے جڑے ہوئے ہیں ؟وگرنہ یہاں کی ہند نژاد لڑکیوں میں کئی ایسی ہیں جنہیں مس یونیورس Miss Universe کے امیدواروں کی صف میں کھڑا کیا جا سکتا ہے مگر ممی اور ڈیڈی کے آگے اس کی ایک نہ چلی انہیں اس کار نیک کی تکمیل کے لیے بس ایک مناسب گھڑی کا انتظار تھا۔پھر وہ ڈیڈی کے حکم پر گھومنے جانے لگے۔ اس سے ان کا مطلب انہیں ایک دوسرے کے زیادہ سے زیادہ قریب لانا تھا۔ جس میں وہ کامیاب رہے۔ وہ آہستہ آہستہ نازیہ سے مانوس اور قریب ہوتا گیا۔ نازیہ کی باتیں اس کی دانست میں خشک ہونے کے باوجود وزن دار اور صداقت کی خوشبو سے مہکی ہوئی ہوتی تھیں جن کے آگے اس کا ہر اعتراض دب کر رہ جاتا تھا۔ وہ ادب آرٹ اور ثقافت پر بے تکان بولتی تو وہ خود کو ایک طفل مکتب تصور کرنے لگتا تھا۔
انہی دنوں اس کی زندگی کی پرسکون جھیل کی سطح پر رعنا ایک پتھر کی طرح آ گری اور تلاطم مچا گئی۔ ایک دن اسپتال میں اس کے ساتھی ڈاکٹر آنند نے رعنا کو اس سے ملایا۔ ڈاکٹر مس رعنا خان… آپ نے آج ہی چارج لیا ہے۔ ہندوستان میں میری کالج فیلو رہ چکی ہیں۔ میری طرح آپ کا تعلق بھی حیدرآباد سے ہے۔
وہ مسحور و مبہوت سنگ مرمر کے زندہ اور حسین مجسمے کو دیکھتا رہ گیا۔ رعنا حقیقتاً نہایت خوبصورت اور حیدرآبادی حسن کا نفیس نمونہ تھی اور مشرق و مغرب کا حسین سنگم تھی۔ اس کا باپ ہندوستانی اور ماں کا تعلق فرانس سے تھا۔ تیکھے نقوش اور جنسی کشش سے بھرپور جسم…وہ ایک انجانی کشش کے تحت اس کے قریب کھینچتا چلا گیا۔ رعنا اسے خوابوں کی شہزادی لگی تھی۔ دونوں ملتے رہے۔ ان کی ملاقاتیں اسپتال کے کمروں سے نکل کر ہوٹلوں اور سمندر کے کناروں تک پہنچ گئی۔
ایک دن رعنا نے اس کے سینے پر سر رکھے رکھے فلمی انداز میں کہا:’’احمد ڈیر…تم میرے اور صرف میرے ہو کوئی طاقت تمہیں مجھ سے نہیں چھین سکتی…‘‘ اس غیر متوقع بے باکانہ اعتراف پروہ حیران رہ گیا مگر ایک تیز ہوتے ہوئے نشے میں وہ سب کچھ بھول گیا اس نے رعنا کو بتایا کہ خود اس کی حالت اس سے الگ نہیں۔ وہ جلد ہی اسے ہمیشہ کے لیے اپنا لے گا۔
اب اس کا زیادہ تر وقت رعنا کے ساتھ گذرنے لگا اور نازیہ کا وجود اس مسافر کی طرح رہ گیا جو زندگی کے سفر میں چند گھڑیوں کے لیے ملتا ہے اور بچھڑ جاتا ہے۔ نازیہ اسے کہیں گھما لانے کو کہتی تو وہ موسم کی خرابی،کبھی کسی ایمرجنسی آپریشن کا بہانہ کر دیتا اس طرح وہ اس سے دور ہوتا چلا گیا۔
ایک دن اسی بات پر ڈیڈی سے اس کی تکرار بھی ہو گئی۔ جہاندیدہ ڈیڈی سے اس کے مزاج کا یہ انقلاب چھپا نہ رہ سکا انھوں نے اس کے بدلے ہوئے تیور پر تشویش کا اظہار کیا تو وہ پھٹ پڑا۔ ڈیڈی!اپنی اولاد کی خواہشات کا قتل عام آپ کو ہر گز زیب نہیں دیتا۔ آپ تجربہ کار اور فراخ دل ہیں اور میں بھی بچہ نہیں ہوں۔ اپنا بھلا برا خوب جانتا ہوں …پھر اس نے ممی کی طرف دیکھا: ’’ممی!اب بھی کچھ نہیں بگڑا۔ صرف لڑکی پسند کی گئی ہے اور پسند بدلی بھی جا سکتی ہے۔ آپ کی پسند سے میری پسند اہم ہے۔ میں نے جو لڑکی پسند کی ہے اس کے آگے آپ کی پسند کی لڑکی خاک کے ذرے کے برابر بھی نہیں ہے آپ اسے دیکھیں گی تو اپنے انتخاب پر پچھتائیں گی۔
ڈیڈی نے ایک آہ بھری…اسے کہتے ہیں سعادت مندی زندگی میں بہت کچھ دیکھا ہے۔ چلو ایک یہ بھی سہی۔ زندگی بھر جسے آنکھ کانور اور دل کا سرور سمجھا کون جانتا تھا کہ وہ ایک دن آستین کا سانپ ثابت ہو گا۔
ڈاکٹر حمید باہر سے آ رہے تھے انھوں نے سن لیا ڈیڈی کو سمجھا بجھا کر اندر لے گئے اور نصیحت کی ’’اولاد کی خواہشات کا احترام بزرگوں پر فرض ہے ورنہ ان کی زندگی جہنم بن جائے گی۔‘‘
لیکن اس رات پھر ڈیڈی سے اس کا ٹکراؤ ہو گیا۔ ڈاکٹر حمید نے ان ناخوشگوار حالات اور غیر یقینی صورت حال بھانپ کر کل ہی ہندوستان لوٹ جانے کے لیے رخت سفر باندھ لیا۔ ڈیڈی نے یہ دیکھ کر اسے آخری بار سمجھایا مگر سیدھی انگلیوں سے گھی نکلتے نہ دیکھا تو آپے سے باہر ہو گئے :’’تم نادان اور بد اخلاق لڑکے …تمہاری بساط ہی کیا ہے !کھوٹے کھرے کا فرق ایک اندھی جوانی کیا جانے !تم کیا جانو، تمہارے باپ کو اس مقام تک پہنچنے کے لیے کن منزلوں سے گذرنا پڑا۔ اس نے اپنے کپڑے آپ دھوئے ہیں۔ اپنا کھانا آپ بنایا ہے ، میلوں پیدل چل کر تعلیم حاصل کی ہے تم پھولوں کے گہوارے میں پلے بڑھے۔تم نے دیکھا ہی کیا ہے ؟ایک خوبصورت چوکٹھا دیکھا اور پھسل گئے ، ہیرے کی پرکھ تو جوہری ہی بہتر جانتا ہے۔‘‘
’’لیکن آپ میری پسند کو چیلنج نہیں کر سکتے۔‘‘…اس نے بھی اپنا ترکش سنبھال لیا۔’’آپ نے بے شک ایک دنیا دیکھی ہے کاش آپ نے اس کے بدلے ہوئے تیور بھی دیکھے ہوتے ایسا لگ رہا ہے جیسے آپ اس وقت ایک صدی پہلے کے تاریک ہندوستان سے بول رہے ہوں۔ آپ کی باتوں سے تو قدامت پسندی کی بو آتی ہے۔ تنگ نظری کی بو۔ حق و انصاف کے خون کی بو۔ میں پھر کہتا ہوں کہ کوئی طاقت مجھے اپنے ارادے سے باز نہیں رکھ سکتی۔‘‘
’’تو تم مجھے میرے دوستوں میں ذلیل کرنے اور بے موت مارنے پرتل گئے ہو۔ لیکن میں تمہیں اس کی اجازت نہیں دوں گا۔ نکل جاؤ یہاں سے۔ میں تمہاری صورت دیکھنا نہیں چاہتا۔‘‘
’’میں خود اپنی صورت دکھانا نہیں چاہتا۔‘‘ اس نے ترکی بہ ترکی جواب دیا اور اپنے کمرے میں آ کر چند کپڑے ایک سوٹ کیس میں ڈالے اور باہر نکل گیا۔ ممی کی سسکیوں کی آوازیں دور تک اس کا پیچھا کرتی رہیں۔ باہر آ کراس نے گھڑی دیکھی۔ رات کا ایک بج رہا تھا چند لمحے سوچتے رہنے کے بعد اس نے اپنی لنکن کا رخ رعنا کے کوارٹر کی طرف موڑ دیا۔
کوارٹر کے قریب پہنچ کر اس نے گاڑی روک دی اور تذبذب کے عالم میں باہر کھڑی ڈاکٹر آنند کی سرخ امپالا کو تکنے لگا۔ کچھ دیر بعد وہ گاڑی سے اتر کر دروازے پر پہنچ کر دستک دی۔ کچھ دیر بعد اندر بجلی جلی اور دروازہ کھلا اور ایک دوسرے کے آگے پیچھے رعنا اور ڈاکٹر آنند شب خوابی کے لباس میں نمودار ہوئے ساتھ ہی شراب کی تیز بو کا ایک بھبکا اس کی ناک سے ٹکرایا۔ دونوں کے چہرے پر حیرت اور الجھن کے آثار تھے اور آنکھوں میں خمار…
’’ڈاکٹر آنند…!‘‘اس کا لہجہ بڑا کڑوا کسیلا تھا ’’تم اتنی رات گئے یہاں ؟۔؟؟‘‘
ڈاکٹر آنند نے ایک نظر رعنا کی طرف دیکھا وہ بوکھلایا ہوا تھا۔ بولا:’’میں دراصل ایک مریض کے ایمرجنسی آپریشن کے سلسلے میں تبادلہ خیال کرنے آیا تھا۔‘‘
’’تبادلہ خیال آدھی رات کو شب خوابی کے لباس میں نہیں کیا جاتا ڈاکٹر!‘‘ اس کے لہجے میں طنز تھا ’’کیا اس کے لیے تمہیں اسپتال میں چند منٹ نہیں مل سکتے تھے ؟۔؟؟‘‘
’’ڈونٹ بی سلی احمد…!‘‘ رعنا نے احتجاج کیا ’’ہم بس اچھے دوست ہیں اور تم ہماری دوستی کو غلط رنگ دینے کی کوشش نہیں کرو گے یہ سراسر خلاف تہذیب اور توہین آمیز ہے۔ تم بظاہر آزاد خیال ہو لیکن تمہارے اندر سے مشرق بول رہا ہے۔ سمجھے …!‘‘ اس نے کندھے اچکائے۔’’خیر چلو… اندر چلو… آج سردی بہت ہے۔‘‘
’’ہاں مشرق بول رہا ہے …‘‘ اس کے جبڑے کس گئے۔ ’’مشرق…جس کی مٹی سے میں ڈھلا ہوں۔ یہ میری غلطی تھی کہ میں اس حقیقت کو بھول بیٹھا تھا۔‘‘ اس نے ایک ملامت بھری نظر دونوں پر ڈالی اور الٹے پاؤں لوٹ آیا۔ اب اس کی گاڑی ہوٹل کی طرف جا رہی تھی۔
ہوٹل پہنچ کروہ ایک کمرے میں کٹے ہوئے درخت کی طرح بستر پر گر گیا۔ پھر گالیوں کا ایک طوفان اس کے منہ سے ابل پڑا۔’’ہرجائی…فاحشہ…بے وفا!‘‘
اس رات اسے نیند بالکل نہیں آئی اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے ابھی کچھ دیر پہلے کے واقعات خواب ہوں اس کے کانوں میں ڈیڈی کے الفاظ گونج رہے تھے ’’تم نادان اور بد اخلاق لڑکے۔ تمہیں بساط ہی کیا ہے !کھرے کھوٹے کا فرق اندھی جوانی کیا جانے !ایک خوبصورت چوکٹھا دیکھا اور پھسل گئے …ہیرے کی پرکھ تو جوہری ہی بہتر جانتا ہے۔‘‘
پھر اس کی نگاہوں میں ایک کنول ابھری’’…نازیہ!…‘‘ اس کے منہ سے بے اختیار نکلا۔ دیکھتے ہی دیکھتے نازیہ کا سراپا ایک نور میں ڈھل گیا وہ سانس روکے اسے تکتا رہا۔ اسے ایک ایک کر کے نازیہ کی باتیں یاد آ رہی تھیں۔ کچھ دیر بعد وہ چونک کر اٹھ بیٹھا اور سوٹ کیس اٹھا کر باہر نکل گیا اب وہ گھرکی طرف جا رہا تھا۔ کہر اور سردی سے بے نیاز وہ گاڑی چلاتا رہا۔ گھر میں صرف ممی ملیں۔ انھوں نے بتایا کہ نازیہ اپنے والدین کے ساتھ ابھی کچھ دیر ہوئی ہندوستان کے لیے نکل گئی ہے اور اس کے ڈیڈی انہیں رخصت کرنے ان کے ہمراہ ایئرپورٹ گئے ہیں۔‘‘
وہ اپنا دھڑکتا ہوا دل سنبھالے الٹے پاؤں کار کی طرف آیا۔ اب اس کی تیز رفتار کار ایئرپورٹ کی طرف جا رہی تھی۔ ایئر پورٹ پہنچ کراس نے کار پارک کی اور دروازہ مقفل کرنا بھول کر تقریباً دوڑتا ہوا گیلری میں پہنچ کر ڈیڈی سے ٹکرا گیا۔
’’ڈیڈی…‘‘ اس کی سانس پھول رہی تھی۔ آنکھوں میں ندامت اورپچھتاوے کا ایک طوفان امنڈ رہا تھا۔ اس نے سر جھکائے خاموش کھڑے ڈیڈی کو جھنجھوڑا… ’’نازیہ کہاں ہے ؟‘‘
جواب نہ پا کر اس کی بے چین نگاہیں گیلری کا ایک چکرل گاکر ناکام و نامراد لوٹ آئیں۔’’نازیہ کہاں ہے ڈیڈی؟‘‘اس نے اپنا سوال دہرایا۔ مگر ڈیڈی اب بھی خاموش تھے ان کی آنکھیں ڈبڈبائی ہوئی تھیں اور چہرے پر کرب کے گہرے سائے۔
’’وقت گذر چکا بیٹے !‘‘ آخرکار ان کے ہونٹوں کو جنبش ہوئی انھوں نے ایک سرد آہ بھرکر رندھے گلے سے جواب دیا ’’ہاں وقت گذر چکا۔‘‘انھوں نے آہستہ سے اس کے شانے پر تھپکی دی ’’اب پچھتانا لاحاصل ہے گذرا ہوا وقت لوٹ کر نہیں آتا۔‘‘
پھر انھوں نے رن وے (Run Way) کی طرف اشارہ کیا جہاں برٹش ایئرویز(British Airways) کا دیو ہیکل طیارہ نازیہ کو لیے رن وے کا ایک چکر لگانے کے بعد فضا میں بلند ہو رہا تھا۔
اس نے پھر کچھ نہیں پوچھا ایک کرسی پر ڈھیر ہو کر آنکھیں بند کر لیں۔ کئی منٹ گذر گئے پھر وہ خود کو سنبھال کر اٹھ کھڑا ہوا اور تھکے تھکے قدموں سے چلتا ہوا کار تک پہنچا تو حیرت کی ایک چیخ اس کے منہ سے نکل گئی… ’’نازیہ…!‘‘
کار کی اگلی سیٹ پر نیم دراز نازیہ کسی رسالے پر جھکی ہوئی تھی… ’’آپ تو ہندوستان کے لیے نکل گئی تھیں !…‘‘ اس نے بے تابی سے پوچھا۔
’’نہیں …‘‘ وہ سنبھل کر ہو بیٹھی حیا کی ایک لہر اس کے چہرے پر ابھر آئی۔’’نہیں …‘‘ وہ رک رک کر بول رہی تھی’’ہم یہاں پہنچے تو گھر سے چچی جان کا موبائل پر پیغام ملا کہ ’’برخوردار ابھی ابھی آپ لوگوں کی تلاش میں نکلے ہیں غالباً ان کی عقل ٹھکانے آ گئی ہے لہٰذا پروگرام منسوخ کر دیں۔‘‘
’’لیکن ڈیڈی…!‘‘ …’’چچا جان نے جھوٹ بولا تھا‘‘ نازیہ نے بات کاٹی’’ انھوں نے ڈیڈی اور ممی کو پچھلے دروازے سے کار کی طرف روانہ کر کے مجھے حکم دیا کہ جب صاحبزادے میرے پاس آنے لگیں تو تم نظر بچا کر دوسری طرف سے اس کی کار کے پاس چلی جانا اور انہیں لے کر ہی واپس آنا ہم اب گھر جا رہے ہیں۔‘‘
وہ گھوم کر دوسری طرف سے اس کے پہلو میں آ بیٹھا اور نازیہ کا ہاتھ تھام لیا ’’نازیہ! ڈیڈی نے ٹھیک کہا تھا ہیرے کی پرکھ تو جوہری ہی بہتر جانتا ہے۔‘‘
٭٭٭