قریب کی مسجد سے اذان کی آواز سن کراس کی آنکھ کھل گئی اس نے کراہ کر کروٹ بدلنے کی کوشش کی مگر اس کی پیٹھ جیسے تختہ ہو گئی تھی اس کے زرد اور ستے ہوئے چہرے پر خون کی ایک بوند تک نہیں تھی، زندگی میں رونما ہونے والے تلاطم کا خمیازہ اس کے چہرے اور ماتھے پر تہہ بہ تہہ جھریوں اور شکنوں اور اس کی آنکھوں کے گرد سیاہ حلقوں کی شکل میں نقش ہو کر رہ گیا تھا۔ سرہانے تپائی پر پڑے ہوئے ڈبل روٹی کے بے شمار سوکھے ریزوں اور لڑھکے ہوئے گلاس کی تہہ میں دودھ اور شکر کے من و سلویٰ کی رمق کو کالی چیونٹیاں دیوانوں کی طرح چاٹ رہی تھیں۔ وہ دوپہر کو ڈبل روٹی کے چند ٹکڑے حلق سے اتار کر لیٹی اب مغرب کی اذاں سن کر بھی اٹھ نہ پائی تھی۔ مغرب کو مانگی جانے والی دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔ اس نے پڑے ہی پڑے سر پر پلو درست کر کے دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دئیے : ’’اے میرے اللہ! اب موت کے سوا میں تجھ سے کچھ نہیں مانگوں گی۔ بس اب مجھے اٹھا لے۔ مزید دکھ سہنے کی اب مجھ میں سکت نہیں۔ یہ صدمے ، یہ دکھ کے انبار!آخر میرے کس گناہ کی سزا ہیں میرے مولا…!‘‘
دعا اور شکوے کے دو بول کے سو اللہ سے مانگنے کے لیے اس کے پاس رہا ہی کیا تھا!اس کی ویران صحرا جیسی آنکھوں سے دو لرزتی کانپتی بوندیں ابل کر اس کی کنپٹیوں کے کناروں پر ڈھلک گئی۔
اب کمرے میں کاجل سا بھرنے لگا تھا، صبح گئی دونوں چڑیاں چھت کے سوراخ میں لوٹ کر ایک دوسرے کو جگ بیتی سنا رہی تھیں۔ وہ کالے رنگ کی تتلی بھی کھڑکی کی راہ اندر داخل ہو کراس کے گرد چند چکر لگانے کے بعد مطمئن سی ہو کر ایک کونے میں دیوار سے چمٹ کر سو چکی تھی۔ کھڑکی سے آتے ہوئے ہوا کے جھونکے لمحہ بہ لمحہ سرد ہوتے چلے جا رہے تھے اس نے گردن موڑ کر تپائی پر رکھے ہوئے چراغ کو حسرت سے دیکھا۔ خود اس کی زندگی اس چراغ سے کیا کم تھی۔ وہ بجھ چکا ہے یہ ابھی پھڑپھڑا رہا ہے۔
بجلی صبح ہی سے بند تھی اس میں اتنی سکت نہیں تھی کہ اٹھ کر چراغ جلا دے۔ ’’چنی نہیں آئی…! اس نے ایک آہ بھر کر سوچا ’’وہ ہوتی تو چراغ جلا دیتی۔ پوتا ستا رہا ہو گا۔ گٹھری کی طرح دن بھر کمر پر لادے پھرتی ہے بے چاری!دو گھڑی کو بھی اس کے پاس آ بیٹھے تو اس کی بہو کا پارہ چڑھنے لگتا ہے۔ ا س کے طنز کے زہر میں بجھے ہوئے اپنے سینے میں اس طرح سمو لیتی ہے جیسے وہ اس کا سینہ نہ ہو نرم نرم دلدل ہو اس دلدل سے کبھی آواز نکلتے اس نے کبھی نہیں سنی تھی۔
’’ہم کیا کسی کے بکاؤ غلام ہیں !کسی کا دیا کھاتے اور جوٹھا پیتے ہیں !جو دن بھر اس کنجوس بڑھیا کے پنڈے سے لگے بیٹھے ہیں ایک چھوکری کو رکھنے کہو تو دم نکلتا ہے۔ کاہے کو رکھیں گے ماں ! یہاں تو بندھوا نوکر جو ہیں بغل میں …‘‘
بہو سچ کہتی ہے۔ چنی تو اس کے کرایہ دار ہے اس کی کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی کسی بندھوا نوکر ہی کی طرح اس کی خدمت کرتی ہے۔ چنی نہ ہوتی تو وہ اب تک بستر پر پڑی ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر چکی ہوتی۔ دو برس ہوئے اس نے اپنا آدھا گھر اسے کرایہ پر اٹھا دیا تھا اور خود آدھے گھر میں سمٹ کر رہنے گی تھی۔
چنی اپنی بہو بیٹے اور سال بھرکے پوتے کے ساتھ اس گھر میں رہ رہی تھی۔ اس نے بتایا تھا کہ بیاہ کے تیسرے ہی برس اس کے سہاگ کو گھن لگ گیا تھا۔ مرد کے مرتے اس پر زمین تنگ ہو گئی تھی۔ ساس اٹھتے بیٹھتے اسے طعنے دیتی تھی کہ وہ منحوس ہے۔ آتے ہی میرے لال کو کھا گئی۔‘‘ ایک دن تنگ آ کر اس نے گھر چھوڑ دیا۔ سوتیلی ماں اور زن مرید باپ نے اسے وداع کر کے پھر پلٹ کر نہیں دیکھا تھا۔ اس نے کسی کا ہاتھ تھامنے کی بجائے اپنے پاؤں پر آپ کھڑے ہونے کو ترجیح دی۔ ایک جھونپڑا کرایے پرلے کر ایک کارخانے میں بیڑیاں بنانے لگی اور اپنا سب کچھ اپنے بچے پر تج دیا۔ بھرپور جوانی ہوس کے تیروں کے آگے سینہ سپر ہو گئی تو ساری یلغار اپنی موت آپ مر گئی۔ یہ آپ بیتی سن کر اسے چنی کے روپ میں خود اپنی روح نظر آئی تھی وہ اس کے لیے اپنے دل میں ایک نرم گوشہ محسوس کرنے لگی تھی۔ چنی نے کبھی اسے یہ احساس نہ ہونے دیا تھا کہ وہ غیر قوم کی ہے وہ ذات و مذہب کے فرق کے احساس کے بغیر قدم قدم پر اسے سہارا دیتی اور اس کا درد بانٹتی آ رہی تھی۔
چند ماہ قبل جب اس کے گردے جواب دے گئے اور وہ بستر سے لگ گئی تو چنی نے بہو کے طنز کے تیروں کی پرواہ کئے بغیر اس کی تیمار داری کرتے ہوئے اس کے لیے ایک نور میں ڈھلا ہوا پیکر بن گئی تھی۔
’’اللہ سلامت رکھے۔‘‘ چنی کے لیے اس کے دل سے دعا نکلی ’’ہاں ایک ہی توہے چنی۔ میری ماں ، بہن، بیٹی اور سہیلی…اس نے غیر قوم کی بے آسرا اور بے بس عورت کے لیے سارے رشتے تج دیئے ہیں۔ اللہ اسے سلامت رکھے۔‘‘ دفعتاً دروازہ ہلکی سی چرچراہٹ کے ساتھ کھلا۔ چنی آ گئی تھی۔ اس نے چراغ جلایا تو کمرے میں ہلکا ہلکا اجالا پھیل گیا۔
’’ماں جی!مجھے ذرا دیرہو گئی کیا کروں پوتا صبح سے رو رہا تھا۔ نظر ہو گئی ہے۔ ابھی ابھی مسجد لے گئی تھی…دم کروانے۔ اب سو گیا ہے تو آ گئی ہوں …تم ابھی تک ایسے ہی پڑی ہو… ہے رام … رات ہونے کو آئی۔‘‘
اس نے اسے سہارا دے کر دیوار کے سہارے بٹھا دیا۔ ’’روٹی سینک دوں۔‘‘
وہ محبت و مروت کے یہ رس گھولنے والے بول سنتی اور مسحور ہوتی رہی ’’مجھ سے کچھ بھی نہ کھایا جائے گا چنی! ڈبل روٹی کھاتے کھاتے جی اوب گیا ہے۔ اب مجھے قئے ہو جائے گی۔‘‘
’’تو کیا بھوکی سوؤ گی…ہے رام!دوپہر کے بچے ہوئے ٹکڑ ے سینک دیتی ہوں۔ دودھ سے کھالو صبح آ کر کھچڑی بنا دوں گی اور پودینے کی چٹنی بھی بنا دوں گی ساتھ میں … نہیں تو بھوکی سوؤ گی تو اور کمزور ہو جاؤ گی…رام کرے جلد اچھی ہو جاؤ۔‘‘
’’اللہ تجھے خوش رکھے چنی!جتنا سکھ تو نے دیا ہے اس سے دگنا سکھ تجھے اللہ دے۔‘‘
’’اور گولیاں …!‘‘ … ’’کھالوں گی۔ مجھے ذرا سہارا دے۔ میں اٹھوں گی۔‘‘
چنی کے سہارے باتھ روم سے لوٹ کر بستر پر بیٹھنے کی کوشش میں وہ گرتے گرتے بچی، اس کے منہ سے ایک آہ نکل گئی: ’’آہ !چنی!اب مجھے یقین ہو گیا ہے کہ میرا وقت پورا ہو چکا ہے۔ میں زیادہ دیر نہیں جیوں گی۔‘‘
’’ماں جی!…‘‘ چنی کا دل بھر آیا۔کیوں بد فال منہ سے نکالتی ہو۔ گولیاں برابر کھایا کرو گی تو جلد اچھی ہو جاؤ گی…بھگوان کرے یاد کرو ڈاکٹر نے کیا کہا تھا۔ اچھا تم بیٹھو۔ میں ابھی روٹی سینک دیتی ہوں گولیاں کھلا دوں گی۔‘‘
وہ روٹی اور گولیاں کھلا کر اور تسلی دے کر باہر سے دروازہ بھیڑ کر چلی گئی تو وہ بھی بستر پر دراز ہو گئی۔ گھڑی نے بارہ بجائے تو وہ چونک پڑی ماحول پر گہرا سناٹا مسلط تھا۔ چھت کے سوراخ میں چڑیوں کی جگ بیتی بھی ختم ہو چکی تھی اس نے ہاتھ جھلا کر چراغ گل کر دیا تو رہے سہے اجالوں کو اندھیروں نے نگل لیا۔ اب اس کی ویران آنکھیں اس اندھیرے کوتک رہی تھیں دیکھتے ہی دیکھتے ان اندھیری خلاؤں میں یادوں کی جگ مگ کرتی کہکشاں سی سجتی چلی گئی۔ افق پر تیس برس پہلے کا زمانہ چاند کی طرح ابھر آیا۔
تیس برس پہلے کی دنیا تو ایسی نہیں تھی اس میں کانٹے نہیں تھے ، مسائل کے اژدہے نہیں تھے ، بس امن و سکون کے مہکتے چمن تھے۔ لیکن کون جانتا تھا کہ یہ مہ و سال، یہ مہکتے چمن کبھی نہ ختم ہونے والی خزاں کی چاپ سن رہے ہیں۔ ایک وقت آئے جب اس کا وجود اس خزاں رسیدہ چمن کے ایک درخت کے آخری پتے کی طرح ہو جائے گا۔ زرد اور لرزاں ایک پتہ…تنہا تنہا۔‘‘ یادیں تو سکھیاں ہوتی ہیں۔ جو تنہائی کے اندھیروں میں کچھ دیر کے لیے چراغ جلا جاتی ہیں۔ دفعتاً یادوں کا ایسہی ایک چراغ جلا اور ممتاز کا سراپا کسی شہاب ثاقب کی طرح ٹوٹ کر اس کے ذہن سے آ ٹکرایا۔ اسے اپنی سہاگ رات یاد آئی جب ممتاز نے اس کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں تھام کراس کی پیشانی چومتے ہوئے کہا تھا: ’’ریحانہ! میں آج خود کو دنیا کی سب سے خوش نصیب ہستی تصور کر رہا ہوں۔ تمہارے چہرے سے پھوٹتا ہوا نور میری روح کی گہرائیوں تک میں اجالا کئے دے رہا ہے۔ میں اس چمن کی اس بہار کو دیکھ رہا ہوں جس کا مجھے جنم جنم سے انتظار تھا۔‘‘ …ممتاز نے غلط نہیں کہا تھا اگلے ہی برس سلطانہ نے ان کی محبت کی یادگار کی شکل میں جنم لیا مگر ممتاز کو شاید معلوم نہ تھا کہ بہار سدا بہار نہیں رہتی۔ زندگی کی خوشیاں تو کسی رائے کے مسافروں کی طرح ہوتی ہیں جو ملتی ہیں اور بچھڑتی ہیں۔خوشی کی دولت تو خدا کے ہاں روز ازل بندوں کوتل کر ملتی ہے اور اسے ہیرے جواہرات کی طرح صندوقوں میں بند کر کے رکھا نہیں جا سکتا۔ آخر وہی ہوا ایک دن اس بہار کو خزاں نے نگل لیا۔ شادی کو پانچ ہی برس ہوئے تھے کہ ایک شام لوگ سفید چادر میں ڈھکا ہوا ممتاز کا بے جان جسم برآمدے میں لا کر رکھ گئے۔ دفتر سے اسکوٹر پر گھر آتے ہوئے ایک تیز رفتار ٹرک نے اسے موت کا نوالہ بنا دیا تھا۔ لوگ خاموش کھڑے اسے تک رہے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ منہ سے کچھ بولے ، روئے ، چیخیں مارے ، مگر شاید اس کی قوت گویائی سلب ہو چکی تھی۔ آنکھوں کے کنوؤں میں آنسو نام کی کوئی بوند نہ تھی۔ پھر وہ کسی کٹی ہوئی شاخ کی طرح ممتاز کے روح سے خالی جسم پر گر پڑی تھی۔
اب وہ سلطانہ کے ساتھ اتنی بڑی دنیا میں تنہا رہ گئی۔ سلطانہ اس کی اور ممتاز کی محبت کی چار سالہ یاد گار…اسے ممتاز سے ایک گھرکے سوا کچھ نہ ملا تھا۔ ممتاز کے حاتمی مزاج کا اس کے بھائیوں نے خوب فائدہ اٹھایا تھا۔ وہ جونکوں کی طرح اس وقت تک اسے چوستے رہے تھے جب تک کہ اسے قبر میں اتارا نہیں گیا۔ وہ آئے اور مگرمچھ کے آنسو بہا کر چلے گئے۔ پھر کبھی پلٹ کر نہ پوچھا کہ اس کے پسماندگان پرکیا گذر رہی ہے …وہ مایوس اور مجبور ہو کر ایک اسکول میں پڑھانے لگی پھر اس کی ذات کسی سیارے ہی کی طرح متحرک ہو گئی اور اس وقت تک نہ ٹھہری جب تک کہ سلطانہ نے ڈاکٹر بن کر اپنا ذاتی کلینک نہیں کھول لیا۔ اب اسے اس کی شادی کی فکر نے آ گھیرا۔ بڑی تلاش و جستجو کے بعد اس نے اس کے لیے ایک سافٹ ویئر انجینئر ظہیر کا انتخاب کیا۔
وقت کی ہوا زندگی کے اوراق الٹتی رہی دن بظاہر سکون سے گذرتے رہے پھر سلطانہ کی آنکھوں میں ابھرنے والے اداسی کے سائے اسے کھٹکنے لگے۔ ایک دن اس کے اصرار پر اس نے بتایا کہ ظہیر انتہائی خودغرض اور حریص ہے وہ اس پر نہ صرف مزید جہیز لانے کے لیے مظالم ڈھا رہا ہے بلکہ یہ دباؤ بھی ڈال رہا ہے کہ ہر ماہ اپنی بے سہارا ماں کو دی جانے والی ایک ہزار کی رقم بند کر دے۔
یہ سن کر اس کے سارے وجود میں کانٹے سے بھر گئے اس نے اپنے سینے پر صبر کی سل رکھتے ہوئے بیٹی کو مشورہ دیا کہ وہ ظہیر کی بات مان جائے مگر مزید جہیز !اس مطالبے کی تکمیل کے لیے اسے کوئی راستہ نظر نہ آتا تھا۔ اپنی عمر بھر کی پونجی اس نے سلطانہ کو بنانے اور سنوارنے پر صرف کر دی تھی۔
ایک شام ظہیر تنہا اس کے ہاں آیا، وہ کافی پریشان معلوم ہوتا تھا اس نے بتایا کہ سلطانہ اسٹو پھٹ جانے سے بری طرح جھلس گئی ہے۔ وہ اسے اسپتال میں داخل کر آیا ہے۔
اسپتال میں سلطانہ موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا تھی۔ اس نے تنہائی میں اسے بمشکل اتنا ہی بتایا کہ ایک جھگڑے کے دوران ظہیر نے اسے مٹی کا تیل چھڑک کر جلایا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ پولیس کے سامنے کوئی بیان دے وہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہو چکی تھی۔ اس نے نیم دیوانگی کے عالم میں پولیس کو سلطانہ کا بیان سنایا اور یہ بھی کہا کہ گھر میں کوئی اسٹو نہیں تھا۔ یہ سراسر جہیز ہراسانی کا کیس ہے۔ مگر کسی نے نوٹس نہیں لیا۔ اتفاقی حادثہ بتا کر کیس بند کر دیا گیا۔
وہ دربدر فریاد کرتی اور بھٹکتی رہی۔ اس نے محلے کے کارپوریٹر اور ممبر اسمبلی تک سے مدد کی بھیک مانگی۔ کسی کے بتانے پر وہ انسداد جہیز مظالم کمیٹی کے آگے بھی پیش ہوئی اور بیان دیا تو اسے بتایا گیا کہ وہ اپنا بیان سرکاری زبان کنٹری میں ترجمہ کر کے لائے اس سلسلے میں اسے کمیٹی کی اس مسلمان خاتون ممبر سے رجوع ہونے کو کہا گیا جو نہ صرف اردو جانتی تھی بلکہ اس کا کنٹری میں ترجمہ بھی کر سکتی تھی۔ مگر اس نے صاف انکار کر دیا۔ یہ وہی لوگ تھے …سیاسی بھکاری۔ جنہوں نے عوام کے ووٹوں کی خیرات کے بل پر خود کو زندہ رکھا اور اقتدار چاہا تھا۔ آج اسی اقتدار کے نشے میں انہی لوگوں کو پہچان نہیں پا رہے تھے جنہوں نے انہیں ووٹوں کی بھیک دی تھی۔
جب اسے یقین ہو گیا کہ اسے انصاف کہیں نہیں مل سکتا تو اس کی کمر ٹوٹ گئی اور اس کی صحت متاثر ہونے لگی۔ اب وہ اتنی بڑی دنیا میں تنہا رہ گئی تھی…خزاں رسیدہ درخت کے آخری پتے کی طرح …یکتا و تنہا…
پھر اسے گردوں کی خرابی کے مرض نے آ لیا۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ اس کے دونوں گردے جواب دے رہے ہیں تو اسے کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ وہ چاہتی بھی یہی تھی کہ کسی بہانے اللہ اسے اس دنیا سے اٹھا لے۔ اب وہ چھ ماہ سے بستر سے لگ کر رہ گئی تھی۔ اس کی بیماری کی خبر اس کے دونوں دیوروں تلک پہنچی جو اپنے بھائی کے مرتے آخر شب کے ستاروں کی طرح غائب ہو گئے تھے۔ایک دن اس کی عیادت کو آئے ، مزاج پرسی کی افسوس کا اظہار کیا اور چلتے چلتے زور دے کر یہ بھی کہا کہ، اب جبکہ اس کا کوئی وارث نہیں ہے لہٰذا اپنے وصیت نامے میں یہ مکان ان کے نام کر دے۔
یہ ابن الوقتی کی انتہا تھی، اس کا جی چاہا کہ ان کے منہ پر تھوک دے مگر ضبط کیا اور چپ ہو رہی۔
دفعتاً اس کی آنکھوں تلے سجی ہوئی یادوں کی کہکشاں دھندلا گئی۔ بستر پر پڑے پڑے اسے اپنے اندر ایک جوار بھاٹا سا اٹھتا ہوا محسوس ہو رہا تھا اور جسم پسینے میں ڈوبنے لگا۔ پھر اس کا دم اندر ہی اندر کوئی گھونٹنے لگا۔ سانس تیز تیز چلنے لگی۔ اس نے اپنی ساری قوت یکجا کر کے چنی کو آواز دینی چاہی مگر آواز حلق ہی میں گھٹ کر رہ گئی۔ اب اس کی سانس جیسے رکنے لگی اور آنکھیں حلقوں سے باہر نکلی پڑ رہی تھیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کا ذہن تاریکیوں کے سمندر میں ڈوب گیا۔
اگلی صبح چنی نے دروازہ کھولا تو وہ معمول کی طرح اپنے بستر پر خاموش پڑی تھی اور آنکھیں چھت کو تک رہی تھیں۔ اس نے قریب آ کر اسے جھنجھوڑا ’’ماں جی! اجالا ہو گیا ہے۔ اٹھ کر منھ ہاتھ دھولو، لگن میں پانی لاتی ہوں۔ کھچڑی بنا دوں گی۔ پودینہ لیتی آئی ہوں۔‘‘ مگر اس کے جسم میں کوئی حرکت نہ ہوئی وہ اسی طرح پڑی خاموش چھت کو تکتی رہی تو چنی نے گھبرا کر اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھا جو برف کی طرح سرد تھا اور سینہ کسی ٹھہرے ہوئے سمندر کی طرح خاموش اور پر سکون… چنی کی چیخ نکل گئی۔ مغرب کو مانگی ہوئی دعا قبول ہو چکی تھی۔ خزاں رسیدہ درخت کا آخری پتہ بھی ٹوٹ کر نیچے گر گیا تھا۔
اب اس کے گرد بھیڑ اکٹھی ہونے لگی لو گ افسوس کے بول کے درمیان اس کے گن گا رہے تھے۔ اس کے آخری دیدار کو آنے والوں میں ایک وکیل صاحب بھی تھے۔ وہ چند لمحوں تک خاموش کھڑے اسے خراج عقیدت پیش کرتے رہنے کے بعد آنکھیں صاف کرتے ہوئے لوگوں کی طرف مڑے ’’آپ میں شریمتی چنما عرف چنی کون خاتون ہیں ؟‘‘
چنی نے چونک کر ان کی طرف حیرت سے دیکھا اور ساڑی کے پلو سے آنکھیں خشک کرتے ہوئے جواب دیا ’’میرا ہی نام چنی ہے۔‘‘
وکیل صاحب نے اسے تحسین آمیز نظروں سے دیکھا ’’مرحومہ ریحانہ بیگم نے اپنا وصیت نامہ عرصہ ہوا میرے پاس محفوظ کیا تھا۔ انھوں نے اپنے کفن دفن کی ذمہ داری مجھے سونپی ہے۔ بنک میں ان کی پچاس ہزار روپئے کی رقم جمع ہے۔ تدفین کے اخراجات سے جو رقم باقی بچے ان کی خواہش کے مطابق ساری کی ساری اس یتیم خانے کودی جائے گی جہاں انھوں نے پرورش پائی تھی۔ اب رہا ان کا یہ گھر تو وہ سارے کا سارا اپنی با ہمت، حوصلہ مند، بے غرض اور دردمند منہ بولی بہن شریمتی چنما عرف چنی کے نام کر دیا ہے۔ وہ اب قانونی طور پراس کی واحد وارث ہیں۔‘‘
مجمع پر سناٹا چھا گیا۔ اس سناٹے میں صرف چنی کی لمحہ بہ لمحہ تیز ہوتی ہوئی سسکیوں کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ جو اپنے منہ میں پلو ٹھونسے کسی بچے ہی کی طرح بلک بلک کر رو رہی تھی۔ وکیل صاحب اس کی طرف پر تحسین و شفقت آمیز نظروں سے دیکھتے ہوئے زیر لب یہ شعر پڑھ رہے تھے :
وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے
مرے بتکدے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو
٭٭٭