{بے نیازی تری عادت ہی سہی}
موسم سرما اپنے پر سمیٹنے لگا ، پت جھڑ نے اپنے کواڑ کھولنے شروع کر دیے۔ ہو۱کے جھونکوںمیں ہلکی ہلکی مستی آ گیٔ۔ آہستہ آہستہ یہ جھونکے پتوں کو ڈ۱لیوںسے جد۱ کر کے لاوارث کرنے لگے ۔وہ گاؤں اکثر اسی موسم میں آتا تھا۔
جب ہوا کا جھونکا آتا چند سوکھے پتے ڈالیوں کو تنہا کر دیتے ، چڑیوں کا ایک غول ہم آہنگ ہو کر ایک درخت سے ہجرت کر کے دوسرے درخت کو مسکن بنا لیتا، پھر کوّوں کے ساتھ اُ ن کی چہچہاہٹ کا شور بھی فضا میں بکھرنے لگتا۔ہوا کی نچلی تہوں کے ساتھ سرسوں کے پھولوں کا رقص اُس کی آنکھوں کو راحت دیتا۔ سرسوں کے اس کھیت کی بغل میں بیٹھ کر وہ اکثر شعر پڑھا کرتا تھا۔۔
؎ نہ چھیڑ اے نکہتِ بادِ بہاری راہ لگ اپنی
تُجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں
اب کے وہ گاؤں آیا تو اُس کی طبیعت میں وہ پہلے سی شوخی نہ تھی۔ موسم کی خوش گواری بھی اُس کی طبیعت پر اثر انداز نہ ہو سکی۔ رفتہ رفتہ سورج کی مسافت طے ہونے لگی۔ بے چینی بڑھنے لگی۔ آنتیں قل ھو اللہ پڑھنے لگیں۔ سر درد کے باعث چکرانے لگا۔ آ نکھیں بوجھل ہو گیٔں۔ جسم پر نقاہت حاوی ہونے لگی۔ اُس نے ایک بار سر کو جھٹکا ، پھر گاؤں کی طرف بڑھنے لگا۔ دو قدم چل کر پھر رک جاتا۔ جب خالی پیٹ پر ہاتھ رکھتا بیزاری میں اضافہ ہو جاتا۔
پچھلے دو روز سے وہ خالی پیٹ تھا ۔ مزید چلنے کی طاقت نہ رہی۔ پاس ایک برگد کا درخت تھا۔ اُس کے نیچے شمّا بیٹھا تھا۔ اس لاغر انسان کو دیکھ کر شمّا تحیّر میں مبتلا ہو گیا۔ ۔۔
’’ارے بوڑھے فقیر۔۔۔ تم ابھی تک زندہ ہو؟ ‘‘
شمّے کے اس سوال نے بوڑھے فقیر کو کسی نہ کردہ جرم کے احساس میں مبتلا کر دیا۔۔۔
’’کیا زندہ رہنا جرم ہے؟‘‘
لیکن شمّا اس کے اس احساس سے بے خبر بولتا گیا۔۔۔
’’ہاں بھیٔ زندگی تو الّٰلہ کی دین ہے اب زندہ ہیں تو جینا پڑے گا۔ ویسے تیرا کیا۔۔۔ نہ کام ، نہ دھندہ۔۔ نہ بال نہ بچّہ‘‘
بولتے بولتے اُس نے گھاس کی گٹھڑی اُٹھا کر سر پر دھر لی۔
’’اپنی زندگی بھی کیا زندگی ہے‘‘
شمّا رخصت ہو گیا پر اُس کے الفاظ ٹھہر گئے۔ شمّے کی یہ بے معنی گفتگو آج بوڑھے پر اثر انداز ہونے لگی۔وہ اسی درخت کے نیچے بیٹھ گیا۔ شمّے کے الفاظ دیر تک ہوا میں گونجتے رہے۔۔ ’’زندگی بھی کیا زندگی ہے‘‘
بوڑھا کچھ دیر خاموش رہا پھر شعر پڑھنے لگا۔۔
؎ زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں
ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں
گلیوں اور راستوں میں بیٹھا کرتا۔ زیادہ تر خود کلامی میں محو رہتا۔ کبھی کوئی راہ گیر راستے میں بیٹھنے کا سبب پوچھتا تو اُسے جواب میں یہ شعر سُنایا کرتا۔۔
؎ دیر نہیں ، حرم نہیں، در نہیں ، آستاں نہیں
بیٹھے ہیں راہ گزر پہ ہم غیر ہمیں اُٹھائے کیوں
اُس روز وہ گاؤں پہنچا تو کسی راہ گزر پہ نہیں بلکہ ہسپتال کی دیوار کی اوٹ میں بیٹھ گیا۔ گاؤں کی آبادی اسی ہسپتال سے شروع ہوتی تھی۔ گوشت کے ٹکڑے سے بھوک مٹانے کے خیال نے اُس کی تمام نقاہت دور کر دی۔ وہ بار بار جیب سے رومال نکالتا، زیرِ لب مسکراتا، پھر جیب میں ڈال لیتا۔ اُس نے چند خشک لکڑیاں اور گھاس پھوس اکٹھی کر کے آگ جلائی۔ ایک بار پھر وہ زندگی کو اُسی طرح محسوس کرنے لگا جیسے ہمیشہ محسوس کرتا تھا۔
دور کسی کھیت میں ٹریکٹر سے ٹیپ ریکارڈر پر لگی پرانی پنجابی دھنوں کی آواز۔۔۔ چوک میں کھیلتے میلے کچیلے بچوں کا شور، آٹے سے نکلنے والی پٹ پٹ کی آواز اور پرندوں کی چہک۔ ۔۔ زندگی آج بھی اتنی ہی حسین ہے دیکھنے والی نظر میں نقص نہ ہو تو زندگی کی یہ خوب صورتی نظر آنے لگ۔۔۔ ڈھلتے سورج کی ہلکی زرد روشنی سے گاؤں کا حُسن اور بڑھ گیا۔ آگ جل چکی، وہ جب رومال نکالنے لگا اچانک اُس کے اور اُس پر پڑنے والی زرد کرنوں کے درمیان ایک سایٔہ حائل ہو گیا۔
ایک چھوٹی سی بچی اس سے ذرا فاصلے پر کھڑی تھی۔ اُس نے ایک بار اس خستہ حال بچی کی طرف دیکھا پھر نظر انداز کر کے گوشت کا ٹکڑا بھوننے لگا۔ اس معصوم کلی کے برگ بھیگے تھے، آنکھوں میں حسرت کے سائے تھے، بکھرے بال بری طرح الجھے ہوئے تھے۔ کپڑے میل سے اٹے اور ایک آستین کہنی تک چاک تھی۔ گوشت کا ٹکڑا بھُن چکا تھا۔ اُس کی خُوشبو سے بوڑھے کے منہ میں پانی بھر آیا۔ بچّی مسلسل اس بوڑھے کو گھور رہی تھی۔
وہ دیوار سے ٹیک لگا کر اپنے چھوٹے چھوٹے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئی۔ بوڑھے کے دل میں حول اُٹھنے لگے
’’کہیں اس کی نظر میرے بھُنے ہوئے ٹکڑے پر تو نہیں؟‘‘
فقیر نے ٹکڑا اپنے رومال میں لپیٹ کر بچّی کی طرف کمر پھیر لی۔ وہ اس بچّی سے قطع نظر،پھونک پھونک کر ٹکڑے کو ٹھنڈا کرنے لگا۔ وہ بغیر کسی تاخیر کے اس ٹکڑے کو چبا لینا چاہتا تھا۔ وہ مُنہ میں ڈالنے ہی والا تھا کہ اچانک کسی خیال نے اُس کا ہاتھ روک دیا۔ ٹکڑے کو دوبارہ رومال میں لپیٹ کر بچّی کے پاس آیا۔۔
’’تمہیں بھوک لگی ہے؟‘‘
بچّی نے اثبات میں سر ہلایا
’’تم یہ کھاؤ گی؟‘‘
بچّی نے ایک نظر ٹکڑے کی طرف دیکھاپھر بوڑھے کا جھُریوں بھرا مُسکراتا ہوا چہرہ۔ ایک جھٹکے سے اُس کی ہتھیلی سے ٹکڑا اُٹھایا اور بھاگ گئی۔
کچھ دیر تک بوڑھے کی نظریں جاتی ہوئی اس بچّی کے ننھے قدموں کا تعاقب کرتی رہیں پھر اس کے پیروں سے اُٹھنے والی گرد میں بوڑھے کی بصارت کھو گئی۔
سورج ڈھل چُکا تھا۔ چڑیوں کا ایک غول ایک درخت سے اُڑ کر دوسرے درخت پر جا بیٹھا۔ ہوا کا ایک جھونکا آیا،عمر رسیدہ پتوں کو ٹہنیوں سے جدا کر کے اُڑا لے گیا۔ کوّے شور مچاتے ہوئے آسمان میں بکھر گئے۔ فضا اب پُر سکون تھی۔ برگد کے درخت کے نیچے ایک بوڑھا بے جان پڑا تھا۔ گاؤں کے چند لوگ اس کے گرد جمع تھے۔
؎ ہم بھی تسلیم کی خو ڈالیں گے
بے نیازی تری عادت ہی سہی
٭٭٭