{بانسری}
بہار کا موسم تھا۔ محبتوں بھرے آبائی شہر کے قریباً وسط میں ایک پرانی وضع کا مکان تھا۔ اس کا چوبارہ محلے کے باقی چوباروں سے نسبتاً بلند تھا۔
دسویں کا چاند بادل کی آڑ سے جھانک رہا تھا۔ رات قدرے ٹھنڈی تھی ۔ چھت پر ایک میز اور چند کرسیاں رکھی تھیں۔ اس جگہ تازہ ہوا کی فراوانی تھی ۔ چند گملے بھی چھت پر رکھے تھے۔ ان گملوں میں لگے پودے پھولوں سے لدے تھے، جن کی خوشبو نے فضا معطر کر دی تھی۔
رات کے ڈھلنے کا سمے تھا۔ ایک ادھیڑ شخص کرسی پر آ کر بیٹھ گیا ۔ کچھ ہی دیر بعد ایک خاتون بھی چھت پر آگئی اس کے دونوں ہاتھوں میں دو چائے کی پیالیاں تھیں ۔ وہ اس آدمی کے قریب آئی، ایک چائے کی پیالی اسے پیش کی، ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گئی۔ یہ دونوں میاں بیوی طویل عرصہ کے بعد اپنے آبائی گھر لوٹے تھے۔ دونو ں کو نہ صرف اپنے گھر سے بے حد محبت تھی بلکہ اپنے شہر سے بھی بے پناہ لگاؤ تھا۔ زیادہ تر شہر سو چکا تھا۔ چائے کا ایک گھونٹ پیتے ہوئے فرزانہ نے کہا۔۔۔
’’رضوان۔۔۔ ‘‘
’’جی!‘‘
رضوان نے فوراًجواب دیا نہایت نرم لہجے میں۔
فرزانہ نے کہا۔۔
’’آپ کو کیسا لگ رہا ہے؟
رضوان: ’’بہت اچھا‘‘
فرزانہ: ’’مجھے بھی۔۔۔ میں بہت خوش ہوں، اﷲ کا شکر ہے مجھے آپ جیسا شفیق ، وفا شعار، مخلص اور محبت کرنے والا ساتھی نصیب ہوا۔ جب سے آپ میری زندگی میں آئے میری زندگی مکمل ہو گئی۔ ہر آرزو ، ہر حسرت پوری ہو گئی۔ اب زندگی میں کوئی کمی نہیں رہی مگر۔۔۔‘‘
فرزانہ لمحہ بھر کے لیے خاموش ہو گئی۔ رضوان نے اس کی طرف دیکھا۔۔۔
’’مگر۔۔؟؟؟‘‘
فرزانہ نے موضوع بدلنے کی کوشش کی ۔۔
’’چھوڑیے۔۔ آپ چائے پیجئے ٹھنڈی ہو رہی ہے‘‘
رضوان نے نفی میں سر ہلایا اور اصرار کرنے لگا۔
’’بتائیے نا فرزانہ۔۔ آپ جانتی ہیں مجھے آدھے ادھورے جملوں سے الجھن ہوتی ہے، پہلے بات مکمل کیجئے‘‘
فرزانہ نے چائے کی پیالی میز پر رکھی اور کرسی پر ٹیک لگا کر سر کو کرسی کی اوٹ دی۔ آسماں میں مدھم ستاروں اور قدرے کم روشن چاند کی طرف دیکھا ۔۔
’’مگر آج یہاں آکر مجھے ایک کمی محسوس ہو رہی ہے‘‘
اس نے قدرے سنجیدہ لہجے میں اپنی بات مکمل کی۔ اب کے اس کے لہجے میں پہلی سی متانت اور شوخی نہ تھی۔
’’کیسی کمی‘‘
رضوان کے لہجے میں بھی بدلاؤ تھا۔
’’جانے دیجئیے رضوان صاحب کیا کریں گے جان کر؟ کچھ اور بات کرتے ہیں نا‘‘
فرزانہ نے بات بدلنے کی کوشش کی۔ مگر رضوان کا تجسس بڑھنے لگا، وہ حیرت زدہ تھا، آج تک فرزانہ نے کبھی اس سے کچھ نہ چھپایا تھا۔وہ ایک دوسرے کو بہت اچھی طرح جان چکے تھے اور شادی کے بعد ان کی زندگی اب تک پُر سکون گزری تھی۔
جب رضوان نے باربار اصرار کیا تو فرزانہ نے کہا۔۔
’’تب بھی بہار کا موسم تھا۔ یہی سماں، یہی دسویں کا چاند، یہی رات کی ٹھنڈک، ہلکی ہلکی خوشبو، سب کچھ ایسے ہی تو تھا۔ مجھے چھت پر آ کر بہت سکون ملتا تھا۔ میں اکثر رات کو چھت پر آیا کرتی تھی۔ اس رات بھی میں چائے پی رہی تھی، اچانک کہیں سے بانسری کی آواز آنے لگی۔ نہ جانے رات کے اس پہر وہ بانسری کون بجا رہا تھا مگر جو بھی تھا اس کی انگلیوں میں جادو تھا۔ جب اس کی بانسری کے سُر چھڑتے تو روح کانپ اٹھتی۔رفتہ رفتہ میرا معمول بن گیا ، میں روز چھت پر آتی جب تک بانسری بجتی رہتی میں یہین بیٹھی رہتی۔‘‘
رضوان بھی کرسی کے ساتھ ٹیک لگا کر آسمان کی طرف دیکھنے لگا ۔وہ اس کی باتیں دلچسپی سے سن رہا تھا یا شاید محسوس کر رہا تھا۔ فرزانہ بات کرتے کرتے رک گئی۔۔ پھر مخاطب کیا۔۔
’’ رضوان۔۔۔‘‘
اس نے جواب دیا۔۔
’’جی‘‘
فرزانہ نے کہا۔۔
’’میں آج تک یہ نہیں جان سکی کہ وہ بانسری بجانے والا کون تھا البتہ میں یہ جان گئی تھی کہ مجھے اس بانسری سے یا شاید اس بانسری کے بجانے والے سے لگاؤ ہو گیا تھا۔‘‘
رضوان نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ اس کے چہرے پر حیرت کے واضح تاثرات تھے۔ فرزانہ ان تاثرات سے قطع نظر بات کرتی رہی۔
’’اگر اس وقت تم ہوتے تو تم بھی اس کی دھنوں کو اسی طرح محسوس کرتے جیسے میں ۔۔۔ جوں جوں دن گزرتے گئے میری کیفیات بدلتی گئیں۔ کس قدر پُر سکون اور پُر لطف دن تھے وہ‘‘
فرزانہ نے رضوان کے چہرے سے نظریں ہٹا کر موند لیں۔ رضوان ابھی بھی فرزانہ کو دیکھ رہا تھا۔
فرزانہ:’’میرے گھر میں انّا کے سوا کوئی نہیں تھا ، میں انہیں کو سب کچھ سمجھتی تھی۔ میں نے ان سے کہہ دیا کہ میں اس بانسری والے سے ملنا چاہتی ہوں۔ اگلے روز انّا اسے ڈھوندنے نکل گئیں ان کے جانے کے بعد ثریا آ گئی‘‘
رضوان ہڑبڑا کر بولا۔۔
’’ثریا؟‘‘
اس کے اس طرح چونک جانے پر بھی فرزانہ کے تاثرات نہیں بدلے کیونکہ اس نے رضوان کو کبھی ثریا کے بارے میں کچھ نہ بتایا تھا اور وہ یہ جانتی تھی کہ رضوان کے ذہن میں یہی سوال اٹھ رہا ہے ’’ ثریا کون ہے‘‘ مگر رضوان نے کوئی سوال نہ کیا ۔
’’ ثریا میری بچپن کی دوست ہے۔ اس کے باپ نے اسے اور اس کی ماں کو ثریا کے پیدا ہونے کے چند ماہ بعد چھوڑ دیا۔ اس کی ماں نے تمام عمر محنت مزدوری کر کے اسے پالا اس کی تربیت کی۔۔ بہت سلجھی ہوئی لڑکی تھی۔ حالات نے کم عمری میں سوچ کو پختہ کر دیا۔ سیرت صورت دونوں میں قابلِ تعریف۔۔ اس دن وہ بہت پریشان تھی۔‘‘
فرزانہ نے چائے پی لی مگر رضوان کی چائے ٹھنڈی ہو چکی تھی۔ فرزانہ کی نظر اس کی پیالی پر پڑی اس نے پیالی اٹُھاتے ہوئے کہا۔۔
’’لائیے میں چائے گرم کر کے لاتی ہوں‘‘
رضوان نے مصنوئی مسکراہٹ کے پردے میں اپنی بے چینی چھُپانے کی کوشش کی۔۔
’’آپ کی باتیں اس قدر دل چسپ ہیں میں ایسا محو ہوا کہ چائے پینا ہی بھی گیا‘‘
فرزانہ کے نیچے جانے کے بعد رضوان آنکھیں بند کر کے سستانے لگا جیسے طویل مسافت کے بعد بہت تھک گیا ہو۔
فرزانہ کے جملے بار بار اس کے ذہن کی دیوار سے ٹکرا رہے تھے۔۔
’’بانسری۔۔ محبت۔۔ ثریا۔۔‘‘
گویا اس کے اندر کوئی جنگ چھڑ چکی تھی۔ پُر سکون طبیعت کا حامل یہ خاموش طبع شخص اس قدر مضطرب ہو چکا تھا کہ اگر اس کا بس چلتا تو وہ چیخ چیخ کے پوری دنیا کو اپنی اس کیفیت سے آگاہ کرتا۔ اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے دل میں چھپے کسی برسوں پرانے زخم کو جو وقت کی گرد میں ڈھکا تھا ،فرزانہ کی نازک یاد کے ناخنوں نے کرید دیا ہو۔ اور وہ زخم ایک ساعت میں یوں جل اُٹھا جیسے راکھ میں دبکی چنگاری ہوا کے ایک جھونکے سے دہک اُٹھی ہو۔
فرزانہ چائے لے کے آگئی۔ رضوان نے چائے پینی شروع کر دی۔ کافی دیر وہ دونوں خاموش رہے ۔ چائے ختم ہونے پر رضوان نے پیالی میز پر رکھتے ہوئے پوچھا۔۔
’’ پھر کیا ہوا؟ ‘‘
فرزانہ جیسے رضوان کے اسی سوال کا انتظار کر رہی تھی۔۔
’’ ہاں اس دن وہ بہت پریشان تھی وہ بہت دنوں بعد میرے گھر آئی تھی، میں نے اس سے اس کی اس حالت کا سبب پوچھا تو وہ رونے لگی اس نے بتایاکہ کوئی لڑکا میرے پیچھے پڑا ہے وہ مجھ سے بے تحاشا محبت کرتا ہے اپنے ماںباپ کا اکلوتا بیٹا ہے جاگیر دار ہے اس نے اپنی ماں سے میرے رشتے کی بات کی مگر اس کی ماں نے انکار کر دیا میں بہت پریشان ہوں۔اب وہ میری رسوائی کا سبب بن رہا ہے۔ہر شخص مجھے سوالیہ نظروں سے دیکھتا ہے، خدا گوا ہ ہے میرا کوئی جرم نہیں۔ پھر وہ سسکیاں لے کر رونے لگی۔ وہ شخص ماں کی نافرمانی تو نہ کر سکا پر فریفتہ ہو کر اس کی چوکھٹ پر بیٹھا رہتا۔ جانتے ہو رضوان وہ شخص کون تھا؟۔۔ یہ وہی لڑکاتھا جو رات کی تاریکی میں فراق سے بھری بانسری بجا کر میری روح کو تڑپاتا تھا‘‘
رضوان کی آنکھیں نم ہو گئیں، بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔۔
’’پھر کیا ہوا؟‘‘
فرزانہ کو احساس ہوا جیسے ان سب باتوں سے رضوان کو تکلیف پہنچی، وہ رضوان کے پاس آئی۔
’’میرا مقصد آپ کی دل آزاری کرنا ہرگز نہ تھا‘‘
رضوان نے آنسوؤں کو ضبط کرتے ہوئے کہا
’’ارے نہیں۔۔ کہو تو پھر کیا ہوا؟‘‘
’’پھر ثریا کی شادی ہو گئی، اس کے بعد کبھی وہ دھُن سنائی نہ دی۔ انّا کے انتقال کے بعد مجھے اس گھر سے وحشت ہونے لگی، میں بھی اس گھر کو چھوڑ کے لاہور چلی گئی۔ جب سے آپ میری زندگی میں آئے رفتہ رفتہ اس کا عکس یادوں کی گرد میں مبہم ہوتا ہوا ختم ہو گیا۔ لیکن آج برسوں بعداس فضا نے وقت کی گرد میںچھپی اس یاد کو تازہ کر دیا۔ آج اس بانسری کی کمی شدت سے محسوس ہو رہی ہے‘‘
فرزانہ نے اپنے دل کا بوجھ اتار پھینکا ، لیکن رضوان کا دل کسی بوجھ سے دبتا جا رہا تھا۔ وہ بغیر کچھ کہے نیچے چلا گیا۔ اچانک فرزانہ کو بانسری کی وہی دھُن سنائی دی جسے وہ کئی برس پہلے اسی فضا میں گم کر چکی تھی۔ یہ آواز اس کے اپنے گھر سے آ رہی تھی۔ اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ جب اس نے مڑ کر دیکھا تو اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔
٭٭٭