اگرسوال یہ ہوکہ انشائیہ کیوں؟ تو میرا جواب ہو گا انشائیہ کیوں نہیں !
ویسے میرا خیال ہے کہ ’کیوں‘ کا لفظ وہ پہلا لفظ ہے جسے انسان نے سن شعور کو پہنچتے ہی زبان سے ادا کیا ہو گا۔ اگرایسا ہے تومیں اسے انسان نے ’کیوں‘ کے لفظ سے نہ صرف اپنے شعور کا اعلان کیا بلکہ اپنی اس عظمت اور احساس برتری کا بھی اعلان کیا ہو۔ ’کیوں‘ کے لفظ میں پوشیدہ ہے اور جو ’کیسے‘ کے لفظ میں نہیں۔ ’کیوں‘ میں مسترد کرنے والی بے پناہ قوت کا اظہار ہے جبکہ کیسے میں محض استفسار جھلکتا ہے۔ میرا خیال ہے جب بھی کوئی نئی ہیئت انسان کو دکھائی دیتی ہے وہ کیوں کے ذریعے اس کا جواز بھی تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے، اس کے منظر، پس منظر اور پیش منظر میں بھی جھانکتا ہے اور پھراسے قبول یا مسترد کرتا ہے۔ ادب میں بھی یہی صورت حال ہردور میں پیش آتی ہے اور میرے خیال میں یہ ایک مثبت اور فعال صورت حال ہے۔ ادب میں جب بھی کوئی صنف آغازہوئی ہے، کوئی تحریک چلی ہے، کوئی نیاخیال، کوئی نئی صورت، نیا تجربہ پیش آیا ہے ’کیوں‘ کا لفظ ابھر کرپھر سے سامنے آ گیا ہے۔
اس سوال کا جواب تلاش کرنابے حداہم اور ضروری ہے، ویسے ہی جیسے کبھی آزاد نظم کیوں؟ علامتی وتجریدی کہانی کیوں؟ جیسے سوالات اٹھائے گئے تھے۔
بات یہ ہے کہ ہمارے ادب کی کہانی ہمارے سماج کی کہانی ہے !ایک وقت تھا جب ہماراسماج پنگھوڑے میں لیٹاخواب گوں آنکھوں سے چاند کو دیکھ تو رونے کا باعث بتا نہیں پاتا تھا، ہنستا تھا تو ہنسنے کا سبب بیان نہیں کر سکتا تھا۔ اس وقت ہمارا ادب بھی ایساہی تھا۔ وہ روتا بھی تھا ہنستا بھی تھا مگر رونے ہنسنے کے سر چشموں سے یا تو واقف نہیں تھا یا اسے بیان کرنے کی قوت نہیں رکھتا تھا، ہماری ابتدائی شاعری کے نمونے میرے بیان کی گواہی دیں گے، پھر جب سماج غوں غاں سے آگے بڑھا تو دادی اماں کی آغوش میں جاچھپا۔ تب اس کی بیدار ہوتی ہوئی حیات کو دادی اماں کی کہانیوں نے تھپک تھپک کرسلانے کی کوشش کی، یہ جنوں، پریوں، دیوؤں، بادشاہوں، شہزادوں اور شہزادیوں کے قصوں کا زمانہ ہے، پھر جب نوجوانی کا خون لہریں لینے لگا تو شاعری خصوصیت سے غزل اور مثنوی نے دھومیں مچادیں، مذہب کے حوالے سے مقدس انسانی کردار ناٹک کے ذریعے میں رواج پائے۔ اسی طرح سماج پر مسلسل زوال، کم علمی اور غیر ملکی تسلط نے ایک طویل عرصے تک ادب کو علمی اور سیاسی شعورسے محروم رکھا۔
نئے خیالوں، نئے جذبوں، نئے تجربوں اور عصری علوم کو ادبی آہنگ میں لانے کے لیے جہاں مروجہ اصناف میں ہیئت کی تبدیلیاں آئیں وہاں انشائیہ جیسی نئی اصناف کو آغاز بھی ہوا۔ یہ بات نہ صرف نئی اصناف کے پھلنے پھولنے کے لیے بھی ضروری تھی بلکہ ان حقائق سے ہمارے تخلیق کاروں کی تخلیقی سچائیوں کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔
شاعری کے ذریعے سے ہمارے سماج نے اپنے شعری آہنگ کا اظہارکیا۔ کہانی کے وسیلے سے اس نے اپنے تجربوں اور وقوعوں کا بیان قلم بند کیا۔ ڈرامے کے ذریعے اس نے اپنے مزاج کے ڈرامائی عنصر کو ظاہر کیا، غزل نے جگرلخت لخت کا نام پایا، نظم نے اس کے ذہنی اور فکری تسلسل کا ثبوت فراہم کیا۔ سفرنامے اس کے شوق سیاحت کی کہانی بیان کرتے ہیں۔ اسی طرح حمد و نعت، مرثیہ قصیدہ نے اس کے فطری رجحانات اور ہنگامی ضرورتوں کو تسکین بخشی۔ یہی حال باقی چھوٹی موٹی اصناف کا ہے !
ہاں اگر کسی چیز کا اظہار نہیں ہو رہا تھا تو وہ ہمارے سماج کے انٹیلکٹ کا تھا۔ اس کی وجہ شایدیہ تھی کہ اس وقت تک ہمارے سماج کی ذہنی سطح یا علمی سطح اس بڑے معیارتک نہیں پہنچتی تھی جہاں اس کا انٹیلکٹ اظہارکی ضرورت محسوس کرتاکیونکہ یہ انسانی مزاج کا لازمی حصہ ہے کہ جب بھی اس کی کسی حس نے اظہار کی ضرورت محسوس کی ہے اس نے اظہار کے راستے تلاش کر لیے ہیں، رائج اصناف میں تجربے اور نئی اصناف کے رواج سب سماجی اظہار کے تقاضے تھے جو اپنے اپنے وقت پر پورے ہوئے۔ گزشتہ نصف صدی کے علوم و فنون نے ہمارے سماج کی ذہنی سطح کو جس تیزی سے سربلند کیا ہے انشائیہ اس کے انٹیلکٹ کے اظہار کا نام ہے۔ یہی اس کی ضرورت ہے، یہی اس کا جواز اور یہی انشائیہ کیوں کا جواب ہے !آج کا عہد ہمارے سماج کے انٹیلکٹ کا عہد ہے اس لیے مجھے کہنے دیں کہ یہ انشائیے کا عہد ہے، اس میں کچھ شک نہیں کہ اس انٹیلکٹ کا اظہار نظم، غزل، فکشن اور ڈراما تک میں ہو رہا ہے مگر انٹیلکٹ ان میں سے کسی صنف کا بنیادی عنصر یا پہچان نہیں ہے، انشائیہ ہی ایک ایسی صنف ادب ہے جو آج کے انٹیلکٹ کے اظہار کی خاطر معرض وجود میں آئی ہے !… انٹیلکٹ سے میری مراد وہ غیر معمولی ذہانت ہے جو چیزوں کو نئے زاویے سے دیکھتی ہے۔ ایسے نئے زاویے سے دیکھتی ہے جس سے نیا خیال یا پر انے خیال کا نیا پہلو ابھر کر سامنے آتا ہے، انشائیہ کی بنیاد اور پہچان اس کا نیا خیال ہے، نیا تجربہ ہے، نیا مشاہدہ ہے، نیا جذبہ ہے، نئی کیفیت ہے۔ یہ ساری باتیں در اصل نئے خیال ہی کی ضمن میں آتی ہیں، اب یہ تخلیق کار کا کمال ہے کہ وہ اس نئے خیال کو کس انداز میں پیش کرتا ہے؟ جتنے نئے، دلکش، مؤثر اور بلند سطحی انداز میں وہ اپنی بات کہے گا اتنا ہی بڑا انشائیہ نگار بن کر سامنے آئے گا۔
انشائیے کے بارے میں میرے کچھ ذاتی خیالات ہیں جن کا اظہار اس موقع پر ضروری ہے کیونکہ یہ بھی انشائیہ کیوں کے جواب میں ہیں، مثلاً انشائیہ کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس میں پرتیں نہیں کھولی جاتیں بلکہ اس میں موضوع کے مختلف پہلو پیش کیے جاتے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ محض کسی موضوع کے چندپہلو گنوادینا انٹیلکٹ کا اظہار نہیں ہے، انشائیہ نگارکی منصب تو یہ ہے کہ وہ آئس برگ کے اس بڑے حصے کی بھی ہمیں سیر کرائے جو ہمیشہ پانی میں ڈوبارہتا ہے اور اس طرح ہماری نظروں سے اوجھل رہتا ہے، گویا انشائیہ نگار موجود کو وجود میں لاتا ہے، ایک ایسے موجود کو جو موضوع کی پرتوں کی تہہ در تہہ گہرائیوں میں پوشیدہ ہے یا خو دانشائیہ نگار کے انٹیلکٹ کا حصہ ہے، میرے خیال میں انشائیہ سطح پر پھیلتا یا بکھرتا کم ہے بلندی کی طرف جست اور گہرائی میں غوطہ زیادہ لگاتا ہے !!
انشائیہ کو لوز سیلی آف مائینڈ یا آزاد ترنگ کے نام بھی دیے گئے ہیں، اس انداز فکر کے نتیجے میں انشائیے کوایک غیر سنجیدہ بلکہ غیر معقول صنف ادب سمجھ لیا گیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ انشائیہ زندگی کے پر مسرت لمحوں کی پیداوار سے یا انسان کے داخل کو محض نشاطیہ کیفیتوں کو پیش کرتا ہے جس کے نتیجے میں انشائیہ کو ایک غیر متوازن کہہ کر نظر انداز کرنے کا رجحان پیدا ہونے لگا، اس طرح ابتدائی دور میں انشائیہ کے مضحکہ خیزعنوانات نے بھی انشائیے کو ہدف مذاق بنایا، میں سمجھتا ہوں کہ دوسری اصناف کی طرح انشائیہ بھی زندگی کی تمام نشاطیہ اور حزنیہ کیفیتوں کا آئینہ دار ہے اور اسے کسی ایک کیفیت یا چند موضوعات تک محدود کرنا ممکن نہیں۔ گزشتہ ربع صدی میں انشائیہ نے جس تیزی سے اپنا ارتقائی سفرجاری رکھا ہے اور مقبولیت کی منزلیں طے کی ہیں، اس کے پیش نظر اسے مستقبل کی بڑی اور سب سے بڑی نثری صنف ادب کہنا چاہیے۔ انشائیہ اس نوجوانی کے عالم میں بھی بہت سی پرانی اور ترقی یافتہ نثری اصناف سے آگے نکل گیا ہے۔ خصوصیت سے نئی نسل نے اس صنف کو کھلے بازوؤں سے خوش آمدید کہا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ انشائیہ نے خیال کی تازگی، انداز نقطہ کے نئے پن اور اسلوب بیان کی بلندی مگر غیر پیچیدگی کے باعث نئی نسل کو مقناطیس کی طرح اپنی طرف کھینچ لیا ہے !
انشائیہ کا وجود تو ادب کے لیے ہوا کا تازہ جھونکا ہے۔ آج کے زمانے میں معقولات اور مسلمات نے ہر شعبۂ حیات میں کلیشے بنا دئیے ہیں، انشائیہ مسلمات، معقولات اور روایات کی شکست اور آزادخیال کے احیا کی خاطرمعرض وجود میں آیا ہے، دوسری اصناف ادب میں تقریر کی لذت اس بات میں ہے کہ تخلیق کار ہمارے دل کی بات کرے اور ہم سن کریہ محسوس کریں کہ گویایہ بھی میرے دل میں تھالیکن آنکہ در گفتار فخر تست آں ننگ منست کے مصداق انشائیہ میں قاری کے دل کی بات کہنا انشائیہ کو دوسرے درجے کا بنا دیتا ہے۔
چنانچہ میں سمجھتا ہوں آج کے فکری جمود کے عہد میںا نشائیہ نئی نسل کو غور و فکر کے نئے راستے دکھائے گا اور نئی نسل کے انٹیسلک کی ذہنی سطح کو مزید بلندکرے گا۔
آج کا اعلیٰ تعلیم یافتہ، مہذب اور نئے دور کا انسان اپنے سے باہر ہی نہیں اپنے اندر بھی ایک زندگی بسر کر رہا ہے۔ وہ فکری سطح پر بھی زندگی کر رہا ہے بلکہ سچ پوچھئے توآج کل کے انسان کی اصل زندگی تو وہ ہے جو وہ فکری سطح پر بسر کر رہا ہے، بعض اوقات تو وہ خارجی زندگی کا تحفظ بھی اپنے فکر وفلسفہ کے ذریعے کرتا ہے، میں سمجھتا ہوں اس فکری زندگی کی بقا کے لیے انشائیہ آج کے دور کی ضرورت ہے۔
انشائیے کے بارے میں اگرچہ مضامین کی صورت میں بہت کچھ لکھا گیا ہے مگر ابھی بہت کم کتابیں سامنے آئی ہیں اس لیے ابھی تک وہ گردباقی ہے جو ابتدا میں ہر صنف ادب پر پڑی ملتی ہے اب بھی جو نہی انشائیے کا خیال آتا ہے عام بلکہ خاص قاری کے ذہن میں بھی کچھ سوالات ابھرتے ہیں، مثلاً انشائیہ کیا ہے؟ اس کا آغازکب ہوا؟ انشائیے میں اور ایک عام مضمون میں کیافرق ہے؟ کیا انشائیہ کسی آیؤری ٹاور میں بیٹھ کر لکھا جاتا ہے اور اس کا اپنے عصرسے اور اس کے مسائل سے کوئی رابطہ نہیں ہوتا؟ کیایہ غیر سنجیدہ گفتگو کا نام ہے؟ آج کا انشائیہ اردو ادب میں کیا اضافہ کر رہا ہے؟ وغیرہ۔
انشائیے کے ناقدین کے طور پر یوں تو نبے شمار نام آئے ہیں جنھوں نے دو ایک مضامین لکھ کربھی انشائی تنقید میں اپناحصہ ڈال دیا مگرجن حضرات نے اس موضوع پر کتابیں لکھیں ان میں ڈاکٹر وحید قریشی (اردو کا بہترین انشائی ادب) ، مشکور حسین یاد (ممکنات انشائیہ) ، ڈاکٹر سلیم اختر (انشائیہ کی بنیاد) اور ڈاکٹر انورسدید (انشائیہ اردو ادب میں) کے نام شامل ہیں۔ مضامین لکھنے والوں میں ڈاکٹر وزیر آغا، مشتاق قمر، محمد ارشاد، عرش صدیقی، غلام جیلانی اصغر، نظیر صدیقی، احمد جمال پاشا، ڈاکٹر سید محمد حسین، سجاد نقوی، ڈاکٹر ظہیر الدین مدنی، ڈاکٹر جاوید وشسٹ، اختر اور ینوی، رشید امجد، جمیل آذر، مرزا حامد بیگ، انور سدید، حامدبرگی، سلیم آغا اور بہت سے لوگوں کے نام شامل ہیں۔ بشیرسیفی نے انشائیے پر مقالہ لکھ کر ڈاکٹر یٹ کی ڈگری حاصل کی مگرابھی یہ مقالہ کتابی شکل میں سامنے نہیں آیا، اس کے کچھ حصے اوراق، ماہ نو وغیرہ میں شائع ہوئے ہیں۔ انشائیے کی بحث میں ڈاکٹر وزیر آغا کا حصہ خاصا نمایاں ہے ایک تو اس لیے کہ انشائیے کا جو تصور ڈاکٹر وزیر آغا نے دیا اور پھر اپنے موقف کی حمایت میں جو مسلسل مضامین لکھے وہ سب سے زیادہ زیربحث آئے، یوں ڈاکٹر وزیر آغا نے انشائیے کی بحث کو جاری رکھنے اور اسے آگے بڑھانے میں ذاتی طور پر بھی اور اپنے رسالے ’اوراق‘ کے ذریعے بھی نمایاں حصہ لیا۔
یوں تو انشائیے کی تعریف میں انگریزی اور اردو میں اتناکچھ کہا گیا ہے کہ اگر سب کو یہاں پیش کر دیا جائے توہماری گفتگو کسی اور طرف چل نکلے گی۔ ضمناً یہاں اس حقیقت کا اظہاربھی ضروری ہے کہ ابھی تک بہت سی اصناف ادب بلکہ خودادب کی تعریف پر تمام ناقدین کا اتفاق رائے نہیں ہو سکا مگروہ اصناف بھی لکھی جا رہی ہیں اور مقبول ہو رہی ہیں اور تو اور غزل جیسی بڑی بلکہ سب سے بڑی اور سب سے مقبول صنف کی تعریف اور معیاروں پر ابھی تک اختلاف رائے چلا آرہا ہے۔ سواگر انشائیے کی تعریف پر اختلاف رائے چلا آرہا ہے تو یہ ایک معمولی اور فطری بات ہے اس سے صنف انشائیہ پر کوئی زد نہیں پڑتی۔ اب تک جو تعریف سب سے زیادہ قابل قبول ثابت ہوئی اور جس کو پیش نظر رکھ کر نیا انشائیہ لکھاجا رہا ہے وہ ڈاکٹر وزیر آغا کی پیش کردہ ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں:
’’انشائیہ اس نثری صنف کا نام ہے جس میں انشائیہ نگار اسلوب کی تازہ کاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اشیا یا مظاہر کے مخفی مفاہیم کو کچھ اس طور گرفت میں لیتا ہے کہ انسانی شعور مدار کو وجود میں لاتے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔‘‘
انشائیہ کا دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اسے کس طرح تاریخی، تنقیدی، اصلاحی، فلسفیانہ، سائنسی مضامین سے الگ کیا جائے؟ یہ مسئلہ پیش آنے کی وجہ یہ ہے کہ ہم ابھی تک انشائیے کو انگریزی ’ایسّے‘ کے طور پر پیش کرتے چلے آ رہے ہیں چونکہ انگریزی میں ہرقسم کے مضامین کو ’ایسّے‘ کہا جاتا ہے اس لیے انشائیہ کے بارے میں ایک سطح پر یہ ابہام ابھی تک چلا آرہا ہے۔
ہمارے بعض ناقدین نے انگریزی کے ’پرسنل ایسّے‘ یا ’لائٹ ایسّے‘ یا دونوں کی امتزاجی کیفیت پر مشتمل تحریرکو انشائیہ باور کروانے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ انشائیہ میں واحدمتکلم یعنی ’میں‘ کے صیغے میں بات کی جائے تو وہ انشائیے کا اسلوب ہو گا۔ میرے نزدیک واحدمتکلم کے صیغے میں بات کرنا کافی نہیں بلکہ انشائیے میں ذاتی خیالات و رجحانات، ذاتی جذبات وکیفیات کا اظہار بھی ضروری ہے۔ ’میں‘ کا صیغہ استعمال کر کے کوئی اگرعامیانہ، سنی سنائی یا پڑھی پڑھائی باتیں کرتا رہے تو وہ انشائیہ نہیں بنے گا۔ اس طرح ’لائٹ ایسّے‘ سے مراد یہ لیا گیا ہے کہ مزاحیہ یا غیر سنجیدہ لب ولہجے میں بات کی جائے۔ اس تاثر نے انشائیے کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ مزاحیہ اور غیر سنجیدہ روش بعض اوقات انشائیے کی ضرورت بن جاتی ہے۔ جب کوئی سخت بات، سنجیدہ لب ولہجہ میں کہنا تہذیب و اخلاق کے منافی ہویامعانی کی سنجیدگی اور گراں باری کو قابل برداشت بنانامقصود ہو توہلکا پھلکا شگفتہ، مزاحیہ یا غیر سنجیدہ اسلوب اختیار کیا جاتا ہے۔ تاہم مزاح، طنز، غیر سنجیدگی انشائیے کے ضمنی اور وقتی عناصر ہیں جنھیں حسب ضرورت ہی استعمال کیا جانا چاہیے۔ انشائیہ بنیادی طور پر نئے خیالات، نئے علوم، نئے انداز فکر اور نئی کیفیات پیش کرنے کی صنف ہے جن کا کم سے کم معیار یہ ہے کہ ایسی تحریریں پڑھ کرہمیں محسوس ہوکہ ان باتوں کی طرف ہمارا دھیان نہیں گیا تھا۔
مختصریہ کہ انشائیہ انگریزی ’ایسّے‘ سے مختلف قسم کی چیز ہے۔ بے شک اسے انگریزی ’ایسّے‘ ہی کو دیکھ کرشروع کیا گیا مگر اردو میں آکراس نے نئے دیس کا بھیس اختیار کر لیا۔ یہی اس کی مقبولیت کا باعث بھی بنا… کسی تنقیدی، سائنسی، سیاسی، فلسفیانہ مضمون میں اور انشائیے میں بنیادی امتیازیہ ہے کہ ان تمام مضامین کو لکھنے والا براہ راست اپنے علم و فضل اور معلومات کا اظہار کرتا ہے اور اپنے موضوع سے سرموانحراف نہیں کرتاجبکہ انشائیہ میں انشائیہ نگار ایک موضوع کے حوالے سے اس کے ساتھ منسلک بے شمار موضوعات پر آزادی سے مگر منضبط انداز میں خیال آرائی کرتا ہے اور ہرگز قاری کو احساس نہیں ہونے دیتا کہ وہ اپنے علم وفضل کا اظہار کر رہا ہے حالانکہ وہ در اصل اپنے علم وفضل ہی کا اظہار کر رہا ہوتا ہے، انشائیے میں علم وفضل کو جس صورت میں پیش کیا جاتا ہے اس کی جھلک مرزا یاس یگانہ کے اس شعر میں دکھائی دیتی ہے:
علم کیا علم کی حقیقت کیا
جیسی جس کے گمان میں آئی
انشائیے کا آغاز کب ہوا؟ یہ ایک اور اہم سوال ہے جس پر بہت کچھ لکھا گیا۔ ڈاکٹر وحیدقریشی ’اردو کا بہترین انشائی ادب‘ میں کہتے ہیں کہ انشائیے کا آغاز محمد حسین آزاد سے ہو گیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے آزاد، نذیراحمد ، سرشار، سرسید، ابو الکلام آزاد اور رستم کیانی اور بہت سے دوسرے مضمون نگاروں کو انشائیہ نگار قرار دیا ہے جن کے مضامین میں انشائی عنصر ملتے ہیں۔ اس ضمن میں کچھ ایسے ہی خیالات محمد ارشاد کے ہیں۔ ڈاکٹر انورسدید نے اپنی کتاب ’انشائیہ اردو میں ادب میں‘ باب چہارم سے باب ہفتم تک چارابواب میں اس موضوع پر بحث کی ہے اور بتایا ہے کہ کس طرح انشائیہ باب ہفتم میں آکر جو موجودہ زمانہ ہے پورے خد و خال کے ساتھ سامنے آیا۔ ان کے خیال میں مندرجہ بالا حضرات کے ذہن میں انشائیے کا کوئی واضح تصور موجود نہیں تھا البتہ انھوں نے تراجم و اخذ کے ذریعے اچھے شگفتہ مضامین تحریر کیے ہیں۔ یہ موقف حقیقت سے زیادہ قریب ہے اگرچہ نامکمل ہے۔ اس سے انشائیے کی نمود سے اب تک تدریجی سفرکی منازل کا اندازہ سا ہوتا ہے۔
انشائیے کا اردو میں آغازکس نے کیا؟ یہ سوال بھی ایک اہم سوال ہے اور عرصے سے زیربحث چلا آرہا ہے۔ اس ضمن میں عمومی رائے یہی تھی کہ ڈاکٹر وزیر آغا نے اردو میں سب سے پہلے انشائیہ لکھنا شروع کیا۔ اس خیال کو یہ کہہ کر مسترد کیا جاتارہاکہ انشائیہ تو محمد حسین آزاد ہی سے لکھاجانے لگا تھا۔ چنانچہ محمد حسین آزاد سے ابو الکلام آزاد تک بہت سے مضمون نگاروں کو انشائیہ نگار کہا جاتارہا۔ مغرب میں اب مونتین کو انشائیے کا بانی تسلیم کر لیا گیا ہے مگرانگریزی ادب کا مطالعہ کر کے آپ حیران ہوں گے کہ مونتین کے خلاف بالکل یہی موقف اختیارکیا گیا جو ڈاکٹر وزیر آغا کے خلاف اختیار کیا گیا۔ جب مونتین کو انشائیہ کا موجد قرار دیا گیا تو great essays of all nations کے مرتب ایف ایچ پریچرڈ نے کہاکہ یہ تو ’ایسّے‘ کی قدیم صنف ہے۔ تب اس نے افلاطون اور ارسطو اور فراسٹس تک کی تحریروں میں انشائیے کے نمونے ڈھونڈ نکالے۔ چنانچہ ایک عرصے تک گرداڑتی رہی مگر پھر آہستہ آہستہ مونتین کو پہلا انشائیہ نگار تسلیم کر لیا گیا کیونکہ انشائیہ اپنے پورے خد و خال سمیت سب سے پہلے مونتین ہی پیش آیا۔ ڈاکٹر وزیر آغا سے پہلے کے مضمون نگاروں کا ذکر اوپر ہو چکا ہے۔ ان کے علاوہ علی اکبر قاصد، داؤد رہبر، جاوید صدیقی نے جو مضامین لکھے ان کی صورت حال بھی ان کے پیش روؤں سے زیادہ مختلف نہیں۔ میرے خیال میں جن بنیادوں پر مونتین کو انشائیے کا موجد قرار دیا جاتا ہے انہی بنیادوں پر ڈاکٹر وزیر آغا کو اردو انشائیے کا موجد تسلیم کیا جا سکتا ہے، اس بات کا دوسرارخ یہ ہے کہ آج نئی نسل نے جس انشائیے کو قبول کیا ہے اور جس کے تتبع میں انشائیہ نگاری شروع کی ہے یہ وہی انشائیہ ہے جو ہمیں ڈاکٹر وزیر آغا نے اپنے تین مجموعوں: خیال پارے، چوری سے یاری تک اور دوسراکنارہ میں دیا ہے۔
موجودہ انشائیہ نگاروں میں نئے اور پرانے سبھی نام دکھائی دیتے ہیں۔ چند نام دیکھئے: ڈاکٹر وزیر آغا، غلام جیلانی اصغر، مشکورحسین یاد، شہزاداحمد شہزاد، جمیل آذر، مشتاق قمر، انورسدید، سلیم آغا قزلباش، رام لعل نابھوی، حامدبرگی، حیدرقریشی، بشیرسیفی، ارشد میر، محمد اسد اللّٰہ، یونس بٹ، رعناتقی، سعشہ خان، جان کاشمیری، امجدطفیل، محمد اقبال انجم، محمد اسلم، محمد اسلام تبسم، اظہرادیب، شمیم ترمذی اور بہت سے دوسرے۔
انشائیے کے بارے میں ایک سوال پتہ نہیں کیوں مگر اکثرابھرتارہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا انشائیہ عصری مسائل کوپیش کرتا ہے، یا کسی آئیوری ٹاور میں بیٹھ کر لکھا جاتا ہے۔ اس کا ایک جواب توسلیم آغانے ’اوراق‘ کے انشائیہ نمبر میں یہ کہہ کر دیا تھا:
’’سویہ کہنا انشائیہ ’عصری آگہی‘ کے جوہرسے تہی ہے ایک لایعنی بہتان ہے البتہ یہ سوال ضرور قابل غور ہے کہ انشائیہ نگاروں نے عصری مسائل کے کینوس پر کون کون سے رنگوں کو ابھارنے کی کوشش کی ہے، اور وہ اس مقصد میں کہاں تک کامیاب ہوئے ہیں۔‘‘
اس سوال کا دوسرا جواب یہ ہے کہ موجودہ انشائیوں میں سے کچھ اقتباسات پیش کیے جائیں جن سے اس سوال کے جواز یا عدم جواز کو ثابت کیا جا سکے۔ سو چند اقتباسات حاضر ہیں:
’’اگر سپر طاقتیں اپنے اس نیک مشن سے دست کش ہو جائیں تو بہت سی جنگوں اور بکھیڑوں سے گلو خلاصی حاصل ہو سکتی ہے لیکن سپر طاقتیں بھلا گھاٹے کا سودا کیوں کریں جس میں چودھراہٹ کے چھن جانے کا خطرہ ہو۔‘‘ (انشائیہ: گلی، سلیم آغا قزلباش)
’’مسٹر رائٹ میں اختلاف رائے کو برداشت نہیں کر سکتا۔ وہ بڑی بڑی خشمگیں آنکھیں نکال کر بڑے جوش سے بولا کہ مہنگائی نام کی کوئی شے نہیں ہے۔ یہ سب ہمارا واہمہ ہے۔‘‘ (انشائیہ: مسٹر رائٹ مین، جمیل آذر)
’’اس نے دیکھا کہ قصیدے نے خوشامد اور مبالغہ آرائی کے علاوہ دست طلب دراز کرنے کی عادت بھی اپنارکھی ہے سواس نے ان تینوں کی مذمت کو اپنا شعار بنا لیا۔ قصیدہ زہدواتقا، عظمت و جبروت، بہادری اور فیاضی ایسی صفات کو پسند کرنے کا عادی تھا۔ غزل نے زہد کو للکارا۔ عظمت و جبروت کا منہ چڑایا۔‘‘ (انشائیہ: غزل، وزیر آغا)
’’اگر کوئی آدمی آپ کے نیچے سے سیٹ کھینچ لے تو یہ عمل آپ کی ذات کو توڑ دے گا لیکن اگر آپ خود ہی خوش دلی سے اٹھ کر ذرا پیچھے زیادہ آرام دہ سیٹ پر بیٹھ جائیں تو یہ عمل با وقار بھی ہوتا ہے اور خوشگوار بھی۔‘‘ (انشائیہ: تسخیر کائنات، غلام جیلانی اصغر)
’’اب ان کے ناموں کی تختیاں اتاری اور نئی نصب کی جا رہی ہیں۔ حیرت ہے سڑکیں جن ناموں سے منسوب ہوتی ہیں ان ناموں سے دوام حاصل کرنانہیں چاہتیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ نام ان سڑکوں سے دوام حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ دستبردکا اس قدرشکار نہ ہوں جتنا ان ناموں کی مالک شخصیتیں۔‘‘ (انشائیہ: سڑک، حامدبرگی)
’’ہرشخص میری طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔ کئی ایک بڑھ کر میرا استقبال کرتے ہوئے اس خواہش کا اظہار کرتے ہیں کہ میں اپنی موجودگی سے ان کے میز کی رونق بڑھاؤں کیونکہ میں ملک کا نامور شاعرہی نہیں بہت بڑا افسربھی ہوں، ورنہ خالی خولی شاعروں کو کون پوچھتا ہے۔‘‘ (انشائیہ: نکٹائی، ڈاکٹر بشیر سیفی)
’’سقراط نے زہرپی کر۔ حسینؑ نے شہید ہو کر اور متصورؒ نے سولی قبول کر کے خاموشی سے صبر کے جو عظیم نمونے دکھائے تھے بظاہر وہ اس عہد کے جھوٹوں اور جابروں کے سامنے شکست ہی تھی لیکن در حقیقت ان مظلوموں اور سچوں کی خاموشی ان کی فتح کی پیش خبری تھی جسے آنے والے وقت نے سچ ثابت کیا۔ مظلوموں کی خاموشی کی یہ سچائی ہمیشہ سے قائم ہے۔‘‘ (انشائیہ: خاموشی، حیدرقریشی)
’’بسا اوقات تومجھے ایسی شادیوں میں شامل ہونے کے لیے معاشرتی حربے استعمال کرتے ہوئے بڑی بڑی شخصیات کی سفارشوں کا سہارا بھی لینا پڑتا ہے۔ در اصل میں ہمہ وقت اس قسم کی شادیوں کی تاک میں رہتا ہوں کیونکہ ان میں شریک ہونے سے مجھے زندگی کی سب سے بڑی خواہش کی تکمیل ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔‘‘ (انشائیہ: دوسری شادی، جان کاشمیری)
’’افسوس کہ مغلوں نے برصغیر میں کرکٹ رائج کرنے کے بجائے اپنا ٹھاٹھ ہی سمیٹ لیا اور برصغیر کا طویل و عریض میدان انگریزوں کے لیے خالی کر دیا تاکہ وہ ایل بی ڈبلیو ہو جانے کے خطرے کو خاطر میں لائے بغیر بے تحاشا اور بے محابا کرکٹ کھیلیں۔ گیند کو معمولی سا بلہ دکھائیں اور جس سمت میں چاہیں پھینک دیں اور پھر خود ہی باؤنڈری کی لکیر پار کرنے کا اعلان کر دیں۔‘‘ (انشائیہ: کرکٹ، انورسدید)
ان اقتباسات سے یہ ظاہرہوتا ہے کہ انشائیہ کسی آئیوری ٹاور میں بیٹھ کر نہیں لکھا جا رہا ہے بلکہ اسی معاشرتی، سماجی اور سیاسی پس منظر میں لکھاجا رہا ہے جس میں دوسری اصناف لکھی جا رہی ہیں۔ آج کے انشائیوں میں سیاسی، سماجی، اقتصادی اور طبقاتی نظام کے افراط وتفریط کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں۔ تاہم یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ انشائیہ نگار کے اظہار کا اندازدوسرے مضمون نگاروں، افسانہ نگاروں سے مختلف ہوتا ہے، یہ کہنادرست نہیں کہ انشائیہ نگار ہمیشہ دوستانہ زبان میں بات کرتا ہے کیونکہ ایک سچے فنکار کی حیثیت سے وہ کسی بھی سماج دشمن قوت کا دوست نہیں ہوتا اور نہ اس سے دوستانہ لب ولہجہ میں گفتگو کرنا پسند کر سکتا ہے۔ ہاں اس کا لب ولہجہ البتہ زیادہ مہذب ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انشائیہ اپنے مزاج کے اعتبارسے آج کے مہذب دورسے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔
(ماخوذ: ماہنامہ اوراق، خاص نمبر، مارچ اپریل، ۱۹۸۶ء، ص: ۸۶)
٭٭٭