ادب کی ہرصنف زمانے کے تابع ہے اور زمانہ ساکت وجامد نہیں۔ یہ ہر دم رواں پیہم رواں ہے۔ نیرنگیِ وقت کے ساتھ کوئی صنف ادب دم توڑ دیتی ہے اور کوئی عالم وجود میں آکر اپنا سکہ بٹھا لیتی ہے۔ جب دور شہنشاہیت تھاتوشعرا کرام دربارتک رسائی حاصل کرنے کے لیے پر شکوہ قصیدے لکھا کرتے تھے اور اپنے فن کا مظاہرہ کر کے نہ صرف داد سخن پاتے بلکہ اپنامنہ موتیوں سے بھی بھرلیتے۔ لیکن وقت نے کروٹ لی اور شہنشاہیت نے اپنی بساط لپیٹی اور اس کے ساتھ ہی فن قصیدہ گوئی دنیائے ادب سے رخصت ہوا۔ اب اگر کوئی شاعر کسی حاکم وقت کی مدح سرائی میں قصیدہ لکھتا ہے تو اسے پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ قصیدے کی طرح داستان گوئی کارواج بھی اب نہیں۔ ایک وقت تھا زندگی ٹھہری ہوئی تھی لوگوں کے پاس وقت کی فراوانی تھی۔ رات گئے تک لوگ داستانوں سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ اب نہ وہ وقت ہے اور نہ داستان گوئی ہے۔ یہ سب اجتماعی ٹھہرے ہوئے معاشرے کی اصناف ادب تھیں جو اب تاریخ کا حصۂ پارینہ بن کر رہ گئی ہیں۔
عالمی جنگ اول اور جنگ دوم کے بعد سائنس اور ٹیکنالوجی میں حیرت انگیز انقلاب آیا اور اس کے ساتھ ہی کاروان حیات کلی طور پر جدیددور میں داخل ہو گیا۔ زندگی کی رفتار بیل گاڑی اور گھوڑا گاڑی سے نکل کر ریل گاڑی اور ہوائی جہاز کے ساتھ قدم ملانے لگی۔ اس تیزرفتاری کے ساتھ وقت کی قلت اور عدیم الفرصتی کا احساس ہونے لگا، داستان کی جگہ ناول نگاری نے لی اور پھر اس کے ساتھ ہی افسانہ نگاری نے جنم لیا۔ افسانہ نگاری کے ارتقاء میں جہاں اور بہت سے عوامل ہیں وہاں وقت کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ تھوڑے سے وقت میں بہت کچھ بیان کرنے کے رجحان نے افسانہ نگاری کو خاصا عروج بخشا۔ یہی خوبی غزل کی ہے جو تا حال وقت کے ساتھ چل رہی ہے۔ اس صنف سخن کی مخالفت کے باوجود اس کی پذیرائی میں کوئی کمی نہیں آئی۔ یہ اپنے مخصوص اختصار، ایجاز، مزاج اور تاثر کے اعتبار سے اس برق رفتار دور کا ساتھ بطریق احسن دے رہی ہے۔ مجھے یہاں ہرصنف ادب کے بارے میں بحث کرنامقصود نہیں ہے۔ کہنے کامقصد صرف اتنا ہے کہ وقت اور صنف ادب کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ کوئی صنف اظہار نہ توبے وقت جنم لیتی ہے اور نہ زندہ رہتی ہے۔ اس زاویہ نگاہ سے اگردیکھا جائے تو انشائیہ اپنے زمانے کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر معرض وجود میں آیا ہے۔ دورشہنشاہیت یا غیر جمہوری دور میں انشائیہ کے وجود میں آنے اور فروغ پانے کا سوال ہی پیدانہیں ہوتاقطع نظرکسی انفرادی مثال کے انشائیہ توصرف جمہوری ماحول ہی میں فروغ پا سکتا ہے، چونکہ جمہوری ماحول میں انفرادی سوچ، انفرادی رویہ اور انفرادی مشاہدہ ومطالعہ پنپتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انشائیہ (light essay) نے جتنا فرانس، انگلینڈ اور امریکہ میں فروغ پایا اتناکسی اور ملک میں پھل پھول نہ سکا۔ انشائیے نے پاکستان کے عالم وجود میں آنے کے بعد اس سرزمین میں اپنا وجود تسلیم کروایا۔ وجہ یہ کہ پاکستان بنیادی طور پر جمہوریت کی پیداوار ہے اور یہاں کے افراد ذہنی طور پر جمہوری اقدار کے حامل ہیں۔
ہم کسی صنف ادب کو اس کی قوم کے مزاج سے علیحدہ نہیں کر سکتے۔ چونکہ آزادیِ فکر ہمارے مزاج میں ہے اس لیے انشائیہ کا پاکستان میں نشو و نما پانا بالکل فطری امر تھا۔ لہٰذا گزشتہ بیس سالوں میں اس صنف ادب نے حیرت انگیز ترقی کامظاہرہ کیا۔ انشائیہ اپنے مزاج،ا سلوب اور ہیئت کے اعتبار سے انفرادی سوچ کا محرک ہی نہیں بلکہ مظہر بھی ہے۔ ہمارے ہاں سوچ کا اجتماعی اسلوب ہمیشہ سے فعال رہا ہے چنانچہ محاورے اور ضرب المثال جو ایک طرح wisdom capsules تھیں ہمارے ہاں زیادہ مقبول رہی ہیں۔ اس طرح ہم نے باہر سے بنے بنائے نظریات اور امثال فکر (thought patterns) قبول کر لیے ہیں اور ہماری سوچ کھائیوں میں چل رہی ہے، اس سے تقلیدی روش عام ہوئی ہے اور تخلیقی اپج کے راستے مسدود ہو گئے ہیں۔ انشائیہ کی اہمیت اور وصف خاص اس بات میں ہے کہ اس نے بنے بنائے فکری سانچہ سے ہٹ کر شخصی سطح پر سوچ کی انفرا دیت کا مظاہرہ کیا یوں ایک طرف تو اس نے تسلیم شدہ حکیمانہ گولی (wisdom capsule) کو تشکیک کی نظروں سے دیکھا ہے تودوسری طرف بظاہر معمولی اور سامنے کی اشیاء اور باتوں کو نئی معنویت سے لبریز کیا ہے۔ انشائیہ ہمارے فکری رویہ کو اس قدر متاثر کر رہا ہے کہ بالآخر یہ ہماری دوسری اصناف میں خون کی کمی کے عارضے کو ختم کرنے کاموجب ثابت ہو گا۔
انشائیہ نگار بنیادی طور پر منفردرویہ، منفرد مزاج اور منفرد سوچ کا حامل ہوتا ہے۔ وہ کبھی تواشیاء اور مظاہر کو صوفی کی نظر سے دیکھتا ہے اور کبھی فلاسفر کے سبھاؤ میں ان پر گہری نظر ڈالتا ہے۔ کبھی وہ جمالیاتی فکر میں ڈوب کر زندگی کے مختلف گوشوں میں حسن و رعنائی تلاش کرتا ہے، کبھی اپنے مثبت رویہ اور عارفانہ بصیرت سے زندگی کی تلخیوں، پریشانیوں اور دشوار راہوں کو آسان اور خوشگوار بنا دیتا ہے۔ انشائیہ اپنے مزاج میں سب کچھ ہو سکتا ہے مگر قنوطی ہرگز نہیں۔ قنوطی ذہن کا حامل فردنہ تو انشائیہ کو سمجھ سکتا ہے اور نہ انشائیہ تخلیق کر سکتا ہے۔ انشائیہ کے لیے غیر متعصب ذہن ہی درکار نہیں بلکہ آزاد منش (liberal minded) ہونا بھی ضروری ہے۔ انشائیہ زندگی کے بندھے ٹکے نمونوں، اصولوں اور مقرر راستوں سے ہٹ کرنئے پیکروں اور تمثیلوں کو تخلیق کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب انشائیہ نگار اپنا انشائیہ تخلیق کرتا ہے تو وہ زندگی کو از سر نو تخلیق کرتا ہے۔ تخلیق کا یہ عمل دلکش بھی ہے اور حیرت انگیز بھی۔ انشائیہ میں خاص نکتہ یہ ہے کہ یہ اجتماعی بنی بنائی سوچ کے پیٹرن کے برعکس شخصی سطح کی سوچ کو بروئے کار لا کرمظاہر حیات کے نئے گوشے، نئے پہلو اور نئے معنی پیش کرتا ہے۔ مثلاً اگرکلیہ یہ ہے کہ عالم کی فراست (wisdom of the learned) انسان کا قیمتی سرمایہ ہے تو انشائیہ نگار اپنی فکری بصیرت سے عالم کی جہالت (ignorance of the learned) کو موضوع بنا کر تصویر کا دوسرا رخ پیش کر دیتا ہے۔ یاد رہے کہ وہ ہربار مخالف رخ ہی پیش نہیں کرتا۔ بعض اوقات مروج سوچ کے پیٹرن کو نئے زاویے سے پیش کر کے اس کی دلکش توسیع کا بھی اس طور سے اہتمام کرتا ہے کہ اس میں تازگی اور نکھار ہی پیدانہیں ہوتا بلکہ وہ زیادہ نمایاں اور ممتاز ہو جاتی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ شاہراہ پر سفر کرتے کرتے … اچانک شاہراہ کو چھوڑ کر ایک ضمنی راستہ (by-pass) اختیار کر لیں اور قوس میں سفر کر کے دوبارہ شاہراہ پر آ جائیں اس طور کہ باہر سے دیکھنے والوں کو محسوس یہ ہوکہ ضمنی راستہ کے شامل ہو جانے سے شاہراہ کشادہ ہو گئی ہے۔ انشائیہ نگار ہمیں وسعت آشنا کرتا ہے، وہ ایک مدارسے نکال کرہمیں نئے مدار میں لاتا ہے۔ یہاں بے ساختہ وزیر آغا کا خوبصورت انشائیہ ’چرواہا‘ مجھے یاد آ گیا جو شعور کو نئے مدار میں پہچانے کی عمدہ مثال ہے۔ اس انشائیہ سے دواقتباسات ملاحظہ ہوں:
’’چروا ہے کی چھڑی در اصل ہواکا ایک جھونکا ہے اور ہواکے جھونکے کو مٹھی میں بند کرنا ممکن نہیں۔ اسے تودیکھنا نہیں۔ البتہ جب وہ آپ کے بدن کو مس کرتے ہوئے گزرتا ہے تو آپ اس کے وجود سے آگاہ ہو جاتے ہیں، وجودہی سے نہیں آپ اس کی صفات سے بھی آگاہ ہو جاتے ہیں، کیونکہ بنیادی طور پر ہر جھونکا ایک پیغام بر ہے۔ وہ ایک جگہ کی خوشبو دوسری جگہ پہنچاتا ہے۔ یہی کام چروا ہے کا بھی ہے۔ تمام لوگ گیت چرواہوں کے ہونٹوں پر لرزتے ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرتے رہے ہیں …‘‘
اسی انشائیہ کا ایک دوسرا اقتباس بھی ملاحظہ فرمائیں:
’’میں توصرف ان چرواہوں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو مویشیوں کے ریوڑچراتے چراتے ایک روز انسانوں کے ریوڑ چرانے لگتے ہیں۔ تب ان کی چھڑی عصا میں بدل جاتی ہے۔ ہونٹوں پر اسم اعظم تھرکنے لگتا ہے۔ وہ انسانی ریوڑوں کو پہاڑ کی چوٹی پر لا کر یا صحرا کے سینے میں اتار کر یا دریاکے کناروں پر بکھیر کراس بات کا انتظام کرتے ہیں کہ یہ ریوڑ اپنی کہنگی اور پیوست کو گندی اون کی طرح اپنے جسموں سے اتار پھینکیں …‘‘
اس انشائیے کی کئی پرتیں اور تہیں ہیں، ہرپرت ہمیں ایک مدارسے نکال کر دوسرے مدار میں لے جاتی ہے۔ وہ عام چروا ہے سے بات کا آغازکرتے ہیں۔ پھر اچانک ایک زقند کے ساتھ وہ ہمیں ان چرواہوں تک لے جاتے ہیں جو ہماری لوک ثقافت کے امین ہیں، پھروہ ہمیں ایک اور ذہنی اڑان عطا کرتے ہیں اور ان چرواہوں تک پہنچا دیتے ہیں جو ہماری روحانی اور تہذیبی اقدار کے امین ہیں اور جو خود ’تسبیح کے دانوں کی طرح پوری کائنات میں بکھرجاتے ہیں۔‘
یہ انشائیہ مروجہ سوچ کے مدارسے نکل کر دوسرے مدار میں پہنچنے کی خوبصورت تصویر پیش کرتا ہے۔ اس انشائیہ میں وہ موضوع کے ساتھ سفر کرتے، پھرگریز اور واپسی کے عمل کامظاہرہ کرتے ہیں۔ ایساخوبصورت انشائیہ وہی شخص لکھ سکتا ہے جس کامشاہدہ تیز، مطالعہ گہرا اور ذہن طباع ہو۔
انشائیہ نگار کے فن کامظاہرہ اس وقت بھی ہوتا ہے جب وہ اجتماعی مروجہ سوچ سے ہٹ کر اپنی انفرادی سوچ سے تصویر کا دوسرا رخ پیش کرتا ہے۔ مثال کے طور پر زندگی میں عام رویہ گالی دینے کے خلاف ہے، ہم اس فعل کو اپنی سماجی زندگی میں نہایت معیوب اور اخلاق سوز تصور کرتے ہیں اور ایسا تصور کرنابھی چاہیے کیونکہ یہ ہماری تہذیبی، معاشرتی اور تمدنی زندگی کے خلاف ہے۔ لیکن جب گالی دینے کا فعل انشائیہ نگار کی انفرادی فکر کی زد میں آتا ہے تو اس کی قلب ماہیت ہو جاتی ہے۔ وہ اسے نفسیاتی قرار دے کریوں پیش کرتا ہے:
’’گالی کے قومی فوائد کامیں نے ابھی ذکر نہیں کیا۔ جس طرح پردے کے کچھ قومی فائدے ہیں مثلاً آدمی بدصورت عورتیں دیکھنے سے بچ جاتا ہے اسی طرح آدمی گالی دینے سے نیوراتی کیفیات سے بچ جاتا ہے۔ اگرگالیاں عام ہو جائیں تو پاگل خانے کی بنیاد میں خلل پیدا ہو جائے۔ مزیدبرآں گالی دینے سے جمہوریت کو فروغ ملتا ہے، آمریت صرف اسی دور میں پنپ سکتی ہے جب گالیوں پر قدغن لگادی جائے۔ اس لیے ایک اچھے جمہوری نظام میں یہ خوبی ہوتی ہے کہ اسمبلی کی کاروائی میں نکتۂ اعتراض کا آغاز اور انجام گالی پر ہوتا ہے۔ اقتصادی توازن کو برقرار رکھنے کے لیے گالی کا وجود ناگزیر ہے۔ جب مارکیٹ میں قیمتوں میں اضافہ کارجحان پایا جائے تو آدمی اسی تناسب سے گالیوں میں اضافہ کرتا جائے۔‘‘ (گالی دینا، غلام جیلانی اصغر)
آپ نے غورفرمایا کہ گالی جیسی مکروہ چیزکوانشائیہ نگارنے اپنے منفرد زاویۂ فکر سے psychiatry (دماغی امراض کے علاج) کے طور پر استعمال کیا ہے۔ یہ منفرد سوچ اور رویہ ہی کا کرشمہ ہے کہ انشائیہ نگار نے زندگی کے مروجہ پیٹرن سے ہٹ کرایک نیا پیٹرن ہمارے سامنے پیش کیا ہے۔ غلام جیلانی اصغرکا یہ انشائیہ اپنی ہیئت واسلوب کے اعتبار سے نہ صرف منفرد ہے بلکہ تازگی وتوانائی سے بھرپور ہے۔
انشائیہ نگار کبھی اشیاء مظاہرفطرت اور افراد کو عارفانہ نظر (mystic vision) سے دیکھتا ہے۔ یہ رویہ بھی اس کی سوچ کی انفرادی سطح کا آئینہ دارہوتا ہے۔ اس کی خوبصورت مثال ہمیں وزیر آغاکے انشائیہ ’بارہواں کھلاڑی‘ میں ملتی ہے۔ کرکٹ کی ٹیم میں بارہواں کھلاڑی کسی آڑے وقت کے لیے وقف ہوتا ہے۔ لیکن انشائیہ نگار جب اسے عارفانہ بصیرت سے دیکھتا ہے تو اس کھلاڑی کی قلب ماہیت کچھ اس طرح ہو جاتی ہے:
’’بارہواں کھلاڑی ایک ایسا ہی سچاصوفی ہے۔ وہ بیک وقت اپنی ٹیم سے منسلک بھی ہے اور جدابھی۔ وہ میدان میں پہلی کے چاند کی طرح آتا ہے جو دوسرے ہی لمحے رخصت بھی ہو جاتا ہے۔ وہ کرکٹ کے کھیل کا نباض، مفسر، کارکن اور جاسوس ہونے کے باوجود اپنے دامن کو تر نہیں ہونے دیتا۔ ہونٹوں پر ایک عارفانہ مسکراہٹ سجائے وہ قلب مطمئنہ کا مظاہرہ کرتا ہے …‘‘ (بارہواں کھلاڑی، وزیر آغا)
آپ نے دیکھا انشائیہ نگار کی نظر کرکٹ کی ٹیم کے اس کھلاڑی پر مرکوز ہو جاتی ہے جسے عام تماشائی کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے لیکن انشائیہ نگار کی انفرادی نظرنے اسے ہی فوکس میں لیا۔ اس انشائیہ میں بارہواں کھلاڑی ایک کلچر ہیرو کے روپ میں جلوہ گر نظر آتا ہے۔ یہی انشائیہ نویس کا کمال ہے کہ وہ ہمیں انبوہ کثیر سے چندایسے چبھتے ہوئے مناظر دکھاتا ہے کہ ایک طرف ہماری بصیرت وسعت آشناہو جاتی ہے تودوسری طرف ہمیں حیرت و مسرت سے ہمکنار ہونے کاموقعہ مل جاتا ہے۔
انفرادی سطح کی سوچ کی ایک عمدہ مثال ہمیں ڈاکٹر انورسدید کے دلکش انشائیہ ’دسمبر‘ میں ملتی ہے۔ عام طور پر دسمبر کامہینہ سردی کے آغاز کامہینہ سمجھا جاتا ہے اور یہی اجتماعی خیال یا رائے بھی ہے۔ لیکن انشائیہ نگار اجتماعی روش سے ہٹ کر اپنی انفرادی فکر کو بروئے کار لا کر اسے مشخص (personify) کر کے مردانہ پن کی علامت قرار دیتا ہے اور اسے نہایت تزک واحتشام سے اپنے ڈرائنگ روم میں وارد ہوتے ہوئے دکھاتا ہے:
’’دسمبرآتا ہے توکسی مہمان کی طرح کال بیل (call ball) کو دبا کراپنی آمد کا اعلان نہیں کرتا بلکہ ایک شریربچے کی طرح پائیں باغ کی دیوار پھاند کرپہلے گھر کے صحن میں آتا ہے پھربرآمدے میں پلاسٹک سے بنی ہوئی کرسی پر اکڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔ میری بیوی اس کے مخصوص قدموں کی چاپ پہچانتی ہے۔ وہ جلدی سے آتش دان میں آگ جلا کر کرسیوں کو اس کے گرد نصف دائرے میں ڈال دیتی ہے۔ درمیان میں ایک چھوٹی سی میز رکھ دیتی ہے اس میزپر بھاپ اگلتی نوبیاہتا لیڈی لپٹن، ٹی کوزی کا گھونگھٹ اوڑھے ہمہ تن اشتیاق بنی منتظر ہوتی ہے۔ سامنے چاندی کی چھوٹی چھوٹی کٹوریوں میں پستہ، بادام اور کشمش آ جاتے ہیں۔ ہم سب افراد خانہ جو گزشتہ گرمیوں میں جزداً جزاداً اکائیوں میں بٹ گئے تھے۔ اب ایک دوسرے کے اتنے قریب آ جاتے ہیں جیسے کٹی ہوئی پھانکیں دوبارہ تربوز میں سما گئی ہوں۔‘‘ (دسمبر، انورسدید)
ملاحظہ کیجئے کہ دسمبر کس طرح بے تکلف دوست کی طرح انشائیہ نگار کے برآمدے میں براجمان ہوتا ہے اور پستہ، بادام، کشمش اور چائے سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ یہ انشائیہ ہمیں (keats) کیٹس کی شہرہ آفاق نظم خزاں (ode to autumn) کی یاد دلاتا ہے۔ جس طرح کیٹس موسم خزاں کو کھیتوں میں، کھلیانوں میں، انگوروں کے رس نکلنے کے عمل میں اور شیریں پکے پھلوں میں مشخص صورت میں دکھاتا ہے اسی طرح انورسدید موسم سرما کو دسمبر کا نام دے کر مشخص صورت میں پستہ وبادام میں چائے کے گرم گرم گھونٹ میں، دہکتے کوئلوں کی تمازت وحرارت میں دکھاتا ہے۔ دسمبر کو انشائیہ نگارنے واضح طور پر اپنے ذہن میں تشکیل کیا اور اپنی رگ رگ میں محسوس کر کے اس کے حسن ورعنائی سے لطف اندوز ہی نہیں ہوا بلکہ نہایت زوق وشوق کے ساتھ اسے صفحۂ قرطاس پر منتقل کیا… یہی انشائیہ نویس کی سوچ کامنطقی نتیجہ ہوتا ہے۔ بے جانہ ہو گا اگر اردو انشائیہ نگاروں کے انشائیوں میں سے چند نمونے یہاں پیش کر دوں جس سے ایک طرف تو ان کی انفرادی سوچ کی غمازی ہوتی ہے اور دوسرے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ کس طرح انشائیہ نگار موضوع کا نیا رخ پیش کرتا ہے اور وہ کس طرح مروجہ اجتماعی فکری پیٹرن سے ہٹ کر انفرادی فکری پیٹرن پیش کرتا ہے:
٭ ’’فٹ نوٹ پر حقارت کی نظرڈالیے، نہ جانے کب کاگ اڑے، کب اس بوتل میں بند جن باہرنکل آئے۔ متن کے زیرسایہ بظاہر بے ضرر سا، پاؤں سمیٹے فٹ نوٹ چھلاوے کے تمام اوصاف حسنہ رکھتا ہے۔ اس میں بلاکی قوت نمودوبالیدگی ہوتی ہے، بڑھتے بڑھتے وہ متن پر امربیل کی طرح چھا جاتا ہے۔‘‘ (فٹ نوٹ، کامل القادری)
٭ ’’بے ترتیبی زندگی میں ترتیب کا شعورعطا کرتی ہے، میں کتنے لوگوں کو روزانہ حواس باختہ دیکھتا ہوں، ان کی کوئی چول بھی سید ھی نظر نہیں آتی، لیکن جب ان کے گھر جائیے تو حیرت میں پڑ جائیے کہ وہ کتنی باقاعدہ، سجی سجائی، دھلی دھلائی، مکلف اور ڈرائی کلین زندگی گزار رہے ہیں۔‘‘ (بے ترتیبی، احمد جمال پاشا)
٭ ’’پوسٹ کارڈ بہت مسکین طبیعت کامالک ہوتا ہے، لیکن کبھی کبھی اسے شرارت سوجھ جاتی ہے۔ پھر وہ سفر کرنے کی سوچتا اور میز پر سے کھسک کر دوسرے تھیلے میں چلا جاتا ہے …‘‘ (پوسٹ کارڈ، رام لعل نابھوی)
٭ ’’دھوتی غالباً واحدلباس ہے جس کا نہیں الٹا سیدھا۔ آپ آنکھیں موند کر خود اعتمادی سے اس کے حلقہ بگوش ہو جائیں آپ پر نہ ہی کسی کی انگلیاں اٹھ سکتی ہیں اور نہ ہی آپ کسی کا نشانۂ تضحیک ہو سکتے ہیں۔ جیسا کسی دوسرے لباس کو الٹا پہن کر ہونا پڑتا ہے۔‘‘ (دھوتی، ارشدمیر)
٭ ’’اگر آپ کو کبھی کمبل اوڑھنے کا تجربہ ہوا ہے (اور مشرق میں یہ تجربہ ناگزیر ہے) توآپ یقیناً مجھ سے اتفاق کریں گے کہ پہلی نظر میں بالکل غیر ارادی طور پر کمبل میں لپٹے ہوئے شخص پر ایک ایسے قلعہ بند جنرل کا گمان ہوتا ہے جس کے سپاہی عین معرکہ میں تنخواہیں وصول کرنے چلے گئے ہوں اور جو تن تنہا فصیل کا دفاع کرنے میں مشغول ہو۔‘‘ (اقبال کی ایک تصویر، مشتاق قمر)
٭ ’’ہر دکاندار ’مکڑی‘ کی طرح اشیاء پر جال پھیلا کر اس کے عین درمیان مجسم آنکھ بنا آنے والے کا انتظار کرتا ہے اور جب آنے والا ایک بارقریب آ جاتا ہے تو پھر اس کی چکنی چپڑی باتوں کے جال سے باہر نہیں جا سکتا…‘‘ (جال، سلیم آغا قزلباش)
٭ ’’دوراندیشی در اصل ہواسے لڑنے کا نام ہے۔ اس ہواسے جس کا رخ ابھی متعین نہیں ہوا۔‘‘ (دوراندیشی، اکبرحمیدی)
٭ ’’بدصورتی آپ کو دعوت فکر دیتی ہے اور آپ کی سوچ کے لیے نئی نئی راہیں کھول دیتی ہے جب کہ خوبصورتی آپ کو اپنی خوشبو کے حصار میں قیدکر لیتی ہے۔‘‘ (بدصورتی، سلمان بٹ)
٭ ’’میں عنقریب عمر کے اس نقطۂ اتصال پر پہنچنے والا ہوں جہاں دونوں وقت گلے ملتے ہیں۔ گویا آئندہ چندسالوں میں میں اس عالم برزخ میں پہنچ جاؤں گا جس کے ایک جانب جو انی کی جنت اور دوسری جانب بڑھاپے کا دوزخ ہو گا، جہاں نوجوان مجھے بزرگ سمجھ کر مجھ سے شرمائیں گے اور بزرگ مجھے نوجوان جان کر مجھ سے کترائیں گے اور میں ایک کٹی پتنگ کی طرح اس عالم رنگ و بومیں ڈولتا پھروں گا۔‘‘ (برزخ، بشیرسیفی)
٭ ’’میری نگاہ سے دیکھا جائے توارض وسما کی ہر جاندار اور بے جان شے ایش ٹرے کاروپ دھارے ہوئے ہے یا کم از کم اس سے تعلق خاص رکھنے کی بناپرزندۂ جاوید ہو کر رہ گئی ہے۔ انسان ہی کو لیجئے ایک اچھی بھلی ایش ٹرے ہے جس کے ظرف میں عمر کا ہاتھ ماہ و سال کی راکھ سانس کی صورت میں گراتا رہتا ہے گویا انسان ایک چلتی پھرتی متحرک ایش ٹرے ہے جو راکھ کے دم قدم سے زندہ ہے …‘‘ (ایش ٹرے، جان کاشمیری)
انگریزی ادب تو انشائیوں سے مالامال ہے۔ وہاں تو انفرادی رویہ ہی انشائیوں کی روح ہے۔ لی ہنٹ (leigh hunt) اپنے معرکۃ الآرا انشائیہ دریچہ (window) میں ایسی خوبصورت فکری لہریں پیش کرتا ہے کہ قاری ارضی پستیوں سے بلند ہو کر آسمانی نعمتوں کو چھونے لگتا ہے۔ اپنے انفرادی رویہ کے تحت وہ قطرے میں کائنات کبریٰ کا مشاہدہ کرتا ہے اور دریچے کو اپنے لیے ایک تصویر کے فریم سے مشابہت دے کر اس میں چلتی پھرتی تصویروں کا نظارہ کرتا ہے۔ دریچہ اس کے لیے ایک ایسا تصویری فریم ہے جس میں وہ کبھی اڑتے ہوئے پرندوں کو دیکھتا ہے، کبھی بادلوں کے بجروں کو آسمان پر تیرتے دیکھتا ہے۔ مصنف کی انفرادی سوچ نے دریچہ کو اس کے لیے جہان معنی کا استعارہ بنا دیا ہے اسی طرح اے پی ہربرٹ (a. p. herbert) اپنے ایک لطیف فکرانشائیہ ’باتھ روم کے بارے میں‘ (about bathroom) ایسے غسل خانہ کا تصور پیش کرتا ہے کہ جس میں وہ نہ صرف نہا سکے بلکہ ورزش بھی کر سکے۔ یہی نہیں بلکہ وہ ایسی تصویریں بھی اس میں آویزاں کرنا چاہتا ہے جن میں فوجی دستوں کو خندقوں کی طرف بھاگتا ہوا، بارش میں بھیگتے قطار میں کھڑے بس کا انتظار کرتے ہوئے لوگ اور ہوائیں چلتی ہوئی برف باری کے منظر ہوں۔ کیونکہ اس کے نزدیک ایسے ہی غسل خانے میں غسل کرنے کا لطف آتا ہے۔
انشائیہ نگار ایک ذی فہم تماشائی اور حساس دل کامالک ہوتا ہے۔ وہ زندگی کا تماشا کھلے ذہن اور روشن آنکھ سے کرتا ہے۔ وہ روزمرہ کے معمولات میں غیر معمولی بات اور پیش پا افتادہ اشیاء میں چھپاہوا انوکھا پہلو پا لیتا ہے۔ انشائیہ نگارعام لوگوں سے اس لیے مختلف ہوتا ہے کہ عام لوگ آنکھیں رکھتے ہوئے بھی آنکھ کے لینز (lens) کو کیمرہ میں کی طرح استعمال نہیں کرتے جبکہ انشائیہ نگار اپنی آنکھ کے لینز کو کیمرہ میں کی طرح استعمال کرتا ہے اور یوں وہ زندگی کامشاہدہ، مطالعہ، تجزیہ، ترجمانی اور عکاسی اپنی شخصی سطح کی سوچ کے مطابق کرتا چلا جاتا ہے۔ اس طرح وہ چروا ہے میں پیغمبرانہ صفات کا دیدار کرتا ہے، گالی میں دافع امراض کے عناصر (therapeutic elements) تلاش کرتا ہے۔ دسمبر کے مہینہ میں بے تکلف دوست کی جلوہ آرائی کا دیدار کرتا ہے۔ یوں وہ اپنی انوکھی سوچ اور حیرت و تجسس سے مملو روشن آنکھ سے زندگی کی بوقلمونی کا نظارہ کرتا ہے۔ انشائیہ نگار روزانہ کے ملنے والے دوستوں میں، معمول میں آئی ہوئی اشیاء میں، روزمرہ کی عادات میں، ماضی کے گزرے ہوئے حادثات وواقعات میں، حال کے خلفشار میں اور مستقبل کے سنہری خواب میں اپنی فکری بصیرت کو بروئے کار لا کر نئے دلآویز پہلو ڈھونڈ نکالتا ہے۔ اس طرح وہ ہمیں ذہنی آسودگی intellectual relief عطا کرتا ہے۔ شاعری کی مزاجاً اپروچ جذبے اور خلوص کی صداقت سے ہوتی ہے۔ اس لیے شاعری ہمیں جذباتی آسودگی emotional relief عطا کرتی ہے۔ اس لیے ہم اس شاعری سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں جو ہمارے جذبۂ احساس کی تسکین کرتی ہے۔ شاعری کے علی الرغم انشائیہ کی اپروچ زیادہ تر ذہنی ہوتی ہے، وہ ہمیں ذہنی آسودگی بخشتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ جذبات سے منقطع ہو جاتا ہے۔ ہوتایہ ہے کہ یہاں جذبہ زریں سطح میں چلا جاتا ہے اور بالائی سطح پر فکر کی ضوفشانی ہوتی ہے یوں ہمیں انشائیہ جمالیاتی حظ بھی بہم پہنچاتا ہے لیکن زیادہ تر یہ ہمیں ذہنی آسودگی بخشتا ہے۔ انشائیے کی اس خصوصیت کے پیش نظر ڈاکٹر جانسن نے اس کے بارے میں کہا تھا کہ یہ a loose sally of mind یعنی ذہن کی آوارہ خرامی ہے۔ ہماری سوچ اور فکر کو جتنی آزادی اس صنف ادب میں ملتی ہے شاید ہی کسی اور صنف اظہار میں اتنی آزادی ملتی ہو۔ دیکھئے اس فکری آزادی کا اظہار نئے انشائیہ نگاروں کے ہاں کس خوبصورتی سے ہوا ہے:
٭ ’’کبھی کبھار جب میں ڈرائی کلینر dry cleaner سے رجوع کرتا ہوں تو اسے کہتا ہوں میرے ان گنہگار روحوں جیسے میلے کچیلے کپڑوں کو بپتسمہ دے دے مگر انہیں آتشیں پریس کے ذریعہ سماجی جاندار بنانے کی زحمت نہ اٹھا۔‘‘ (محمد اسد اللّٰہ، پریس کیے ہوئے کپڑے)
٭ ’’تکلف کا ایک تعلق اس شخص سے ہے جو تکلف برت رہا ہے اور ایک اس شخص سے جس سے تکلف برتاجا رہا ہے۔ تکلف برتنے والا اگر کبھی تکلف سے پیش نہیں آتا اور گھرآئے ہوئے مہمان کو بلاتکلف کہہ دیتا ہے کہ جناب مہینہ کی آخری تاریخیں ہیں، ملازمت پیشہ آدمی ہوں، روکھا سوکھا ہی پیش کر سکوں گا اور پھر واقعی روکھا سوکھا ہی حاضر کر دیتا ہے تو اس کی سفید پوشی اور عزت ووقار کا جو بھی بھرم ہو گا کھل جائے گا۔‘‘ (حامدبرگی، تکلف)
٭ ’’یہ کال بیل اگرکسی تماش بین کے ہاتھ میں ہو تو من چلوں کے لیے پیغام رقص بن جاتی ہے، سپہ سالار کے ہاتھ میں ہو تونقارۂ جنگ کہلاتی ہے، اہل قافلہ کے ہاتھ میں ہو تونالۂ جرس اور کسی مفکر کے ہاتھ میں ہو توبانگ درا!۔‘‘ (کال بیل، محمد یونس بٹ)
٭ ’’یادانسان کی دوست اور تنہائی کی ساتھی ہے۔ یہ وہ منصف ہے جو بیتے دنوں کی اچھی بری باتوں کو جزا سزا دیتی ہے۔ حسین اور خوبصورت یاد ہونٹوں کے گلاب کھلا دیتی ہے توتلخ یا دآنسوؤں کے سیلاب لے آتی ہے جو اندر کی کچی یادوں کو گرا دیتا ہے۔‘‘ (یاد، محمد یونس بٹ)
٭ ’’خداکا فرمان یاد آتا ہے ’’ہم نے ساری کائنات کو سات دنوں میں تخلیق کیا ہے۔‘‘ میں سوچ رہا ہوں کہ جب پوری کائنات سات کے ہند سے کی اسیر ہے توآخر ان سات سروں کی ان سے کوئی نہ کوئی مشابہت تو ضرور ہے۔ لیکن یہ کیسی مشابہت ہے، اس کا مجھے علم نہیں !‘‘ (روح کی غذا، راجہ محمد ریاض الرحمن)
٭ ’’خوشامد وہ لوری ہے جو انسان کے وحشی پن کو سلا دیتی ہے اور صبح کی پہلی کرن بن کرسوئی ہوئی معصومیت کے گلابی گالوں کو چھوتی ہے اور اسے بیدار کر دیتی ہے۔‘‘ (خوشامد، اظہرادیب)
٭ ’’در اصل سارے موسم ہمارے اندر ہیں۔ وہ جرثوموں کی طرح شریانوں کے اندر دبکے پڑے رہتے ہیں۔ جب کبھی ہمارا مدافعتی نظام کچھ کمزور پڑتا ہے تو وہ لپک کر باہر آتے ہیں اور ہم پر سوار ہو جاتے ہیں۔‘‘ (امجدطفیل، موسم)
یہ تمام انشائیے ہمیں ذہنی آسودگی عطا کرتے ہیں۔ یہ ہمارے راہوار فکر کو مہمیز لگاتے ہیں اور مزید نکات کی طرف اشارہ کرنے والے (pointers) کا کام سر انجام دیتے ہیں۔ لی ہنٹ کا ’دریچہ‘ ، وزیر آغا کا ’چرواہا‘ ، غلام جیلانی اصغر کا ’گالی دینا‘ ، انورسدید کا ’دسمبر‘ ، مشتاق قمر کا ’اقبال کی ایک تصویر‘ اور سلیم آغا قزلباش کا ’جال‘ ۔ ہماری فکر کے مزید دریچے وا کرتے ہیں اور یوں یہ ہمیں ایک ذہنی اور جمالیاتی طمانیت سے شرف یاب کرتے ہیں۔ اس اضطراب انگیز دور میں ادب کی یہ صنف اظہار نہایت موثر کردارادا کر رہی ہے۔
گزشتہ چندبرسوں میں متعدد نئے انشائیہ نگار آسمان ادب پر طلوع ہوئے ہیں جس سے ایک طرف تو انشائیہ کی مقبولیت کا پتہ چلتا ہے تودوسری طرف یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ فن کار انفرادی سطح پر اپنے موڈ، اپنے خیال اور اپنے مشاہدے کا اظہار کرنے کے لیے کس درجہ بے تاب تھا۔ اسے جونہی اپنے ذاتی پیرایۂ اظہار کے لیے انشائیہ کا فارمیٹ (format) ملا اس نے اس سے فائدہ اٹھایا۔ موجودہ دور میں جسے جمہوری سائنسی دور کہنا صحیح ہو گا، فرد کی آزادی اور اس کی سوچ کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ آج اجتماعی آزادی کے ساتھ انفرادی آزادی کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور میں انشائیہ ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور اس کی ترقی کے امکانات مستقبل میں روشن نظر آ رہے ہیں۔
(ماخوذ: انشائیہ انفرادی سوچ کامحرک، جمیل آذر،
ماہنامہ اوراق، لاہور، انشائیہ نمبر، اپریل مئی ۱۹۸۵ء)
٭٭٭