آپ جانتے ہیں انشائیہ میں انکشاف ذات کا مسئلہ اہم ترین مسئلہ ہے۔ اہم ترین اس لیے کہ انکشاف ذات کے بغیر کوئی ادیب ایک حرف تک نہیں لکھ سکتا۔ گویا انکشاف ذات کے بغیر یہی نہیں کہ ہم انشائیہ کو وجود میں نہیں لا سکتے، بلکہ پوری دنیائے ادب ہی گول ہو جاتی ہے۔ اس جمال کی تفصیل یہ ہے کہ ادیب کو ادب تخلیق کرنے کے لیے سب سے پہلے اپنی طرف دیکھنا پڑتا ہے، اس کے لیے اپنی ذات میں جھانکنا ضروری ہے، بلکہ سچ پوچھئے توجوادیب جس قدرگہرائی سے اپنی ذات کامشاہدہ کرتا ہے، اسی قدراس کی تخلیقات میں انوکھاپن، انفرا دیت اور گہرائی پیدا ہوتی ہے۔ گویا اپنی طرف دیکھنا یا اپنی ذات میں جھانکنا ایک ایسا پیمانہ ہے جس سے کسی ادیب کی تخلیقات کامعیار قائم ہوتا ہے۔ جدت، انفرا دیت اور انوکھے پن کے تمام ڈانڈے لکھنے والے کی اپنی ذات سے نکلتے ہیں۔
مشاہدۂ کائنات کی اولین شرط مشاہدہ ذات ہے۔ جو انسان اپنی ذات کا مشاہدہ اچھی طرح نہیں کر سکتا۔ اس میں کائنات کامشاہدہ کرنے کی صلاحیت بھی بخوبی پیدا نہیں ہو سکتی۔ انسان نے مشاہدہ کے ضمن میں معروضی اور موضوعی دونقطہ ہائے نظر کی تقسیم تو کر لی ہے، لیکن بغوردیکھا جائے تو اس تقسیم کی حیثیت سطحی نوعیت سے کچھ زیادہ نہیں بنتی کیونکہ سچا مشاہدہ آخر میں معروضی اور موضوعی کی تقسیم کو ختم کر دیتا ہے۔ اگرآپ میں اپنی ذات کے اندر جھانکنے کی جرأت وہمت ہے تو پھر آپ کائنات کے سطحی مشاہدہ پر کبھی مطمئن نہیں ہو سکتے۔ کائنات کی سطح آپ کے سامنے ہونے کے باوجود آپ کی نگاہ کو گہرائی میں اترنے کی دعوت دیتی رہتی ہے، لیکن سطح کائنات کی اس دعوت کو آپ اسی وقت محسوس کر سکتے ہیں جب کہ آپ کو اپنی ذات کے اندر دیکھنے کی بھی عادت ہو۔ اگر آپ کو اپنی طرف دیکھنے کی فرصت نہیں تویادرکھئے آپ کائنات کی طرف بھی بھرپور نگاہ سے نہیں دیکھ سکتے۔ کائنات کا انوکھاپن بھی آپ کو اسی وقت محسوس ومعلوم ہو گاجب کہ آپ نے اپنی ذات کے انوکھے پن کو تلاش کر لیا ہو گا۔ اپنی طرف دیکھنے کا عمل کائنات کی طرف دیکھنے کے بے شمار باب وا کرتا ہے۔ مشاہدۂ ذات توکائنات کے اسرارمعلوم کرنے کی بڑی چابی ہے۔ کلیدہزار جہت کہنے کا مطلب یہ ہے کہ انشائیہ نگار کے لیے پر سنل ہونا اس لیے ضروری ہے کہ وہ اس طرح پر سنل ہو کرصرف اپنی ذات کامشاہدہ نہیں کرتا بلکہ صحیح معنی میں کائنات کے مشاہدے کا آغاز کرتا ہے۔ د وسرے لفظوں میں ایک انشائیہ نگار کا شخصی اظہار اس کی اپنی ذات کے لیے نہیں ہوتا۔ وہ اپنی ذات کے حوالے سے کائنات کو اس کی اصل وسعت اور گہرائی کے ساتھ دیکھنے کی سعی کرتا ہے۔ اس لیے ہم یہ کہنے میں سوفیصد حق بجانب ہیں کہ انشائیہ نگار کا شخصی اظہار کسی صورت میں تنگ نظری یا محدود نگاہی پر محمول نہیں ہوتا۔ وہ آپ کو اپنی ذات کے حوالے سے پوری کائنات کی سیر کرانا چاہتا ہے یاکائنات کے کسی خاص گوشے کو آپ کی نگاہوں پر روشن کرنا اس کامطلوب ومقصود ہوتا ہے۔
ممکن ہے آپ کو وقتی طور پر میری اس بات سے اتفاق نہ ہو، لیکن بہرحال حقیقت یہی ہے کہ جو چیز ایک سچے ادیب کے سامنے ہمہ وقت رہتی ہے اور جسے ہمہ وقت اس کے سامنے رہناچاہیے وہ اس کی ذات ہے۔ اگر ادیب ایک پل کے لیے بھی اپنی ذات کو اپنی آنکھوں سے اوجھل کرتا ہے توپوری کائنات اس کی آنکھوں کے سامنے سے غائب ہو جاتی ہے۔ انشائیہ چونکہ ادب کا نقطہ آغازہے، اس لیے انشائیہ نگار پر یہ قدغن لگانا ازبس ضروری ہے کہ اس کی تحریروں میں یعنی انشائیوں میں اس کی ذات ہرحال میں واضح طور پر اس کے سامنے رہے۔ یہاں واضح طورکے الفاظ استعمال کرنے سے مراد یہ ہے کہ ایک عام ادیب تو کسی دوسری صورت میں بھی اپنی ذات سے کچھ وقفے کے لیے چشم پوشی کر سکتا ہے، لیکن ایک انشائیہ نگار ایسا نہیں کر سکتا یا اسے ایسا نہیں کرناچاہیے، اسے تو ہمہ وقت انکشاف ذات میں مصروف رہنا ہے۔ یہ محض اسی کی تقدیر نہیں اس کے قارئین کا بھی مقدر ہے۔
ایک عام ادیب کی نسبت انشائیہ نگار سے قارئین اس بات کی زیادہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ یعنی انشائیہ نگار انہیں اپنی ذات میں جھانکنے کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کرے۔ در اصل وہی بات کہ قارئین انشائیہ نگار کی ذات کے حوالے سے اپنی ذات میں جھانکنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنی ذات میں جھانک کرکائنات کامشاہدہ کرنے کے لاشعوری طور پر متمنی ہوتے ہیں، کیونکہ ان کے پاس یہی ایک وسیلہ رسائی ہوتا ہے۔ عام آدمی غریب کے ساتھ یہ بھی مصیبت ہوتی ہے کہ اسے براہ راست نہ اپنی ذات میں جھانکنے کاموقع ملتا ہے اور نہ کسی عمیق اندازسے وہ کائنات کامشاہدہ کر سکتا ہے۔ اس لیے وہ اس کارخیر کے لیے ادیب کے منہ کی طرف دیکھتا ہے۔ مطالعۂ ادب کے سارے امکانات اسی قسم کی توقعات سے وابستہ ہوتے ہیں۔
ہمیں امید ہے کہ سطوربالا میں یہ بات اچھی طرح واضح ہو گئی ہے کہ جیسا عام طور پر خیال کیا جاتا ہے، انشائیہ میں انشائیہ نگار کا پرسنل یعنی شخصی ہونامحدود معنی میں قطعی طور پر نہیں ہوتا اور اگر کوئی انشائیہ نگار محدود معنی میں شخصی ہوتابھی ہے جس کی توقع ایک سچے انشائیہ نگار سے بہت ہی کم ہوتی ہے توہم ایسی صورت میں اگرکسی انشائیہ کو شخصی کہہ دیں تو اور بات ہے ورنہ عام طور پر ایک انشائیہ نگار اپنے انشائیہ میں عام معنی میں کبھی پرسنل یا شخصی نہیں ہوتا، البتہ یہ ضرور ہے کہ جس واضح انداز میں ایک انشائیہ نگار اپنی بات کا آغاز اپنی ذات سے کرتا ہے، اس طرح ایک عام ادیب یقیناً نہیں کرتا۔
قصہ در اصل یہ ہے کہ ایک عام ادیب کو اس طرح واضح انداز میں پرسنل ہونے کی آزادی بھی کہاں نصیب ہوتی ہے جب کہ اس طرح واضح انداز میں پرسنل ہونے کی آزادی ایک انشائیہ نگار کا بنیادی حق ہوتا ہے۔
کہنے کو یوں کوئی ہزار کہتا پھرے کہ ادیب اور شاعر لوگ زیادہ تر ہواؤں میں اڑنے کے عادی ہوتے ہیں، لیکن اس امرواقعہ سے کسی طرح انکار نہیں کیا جا سکتاکہ شعر و ادب کی بنیاد ایک بے حد ٹھوس حقیقت پر قائم ہوتی ہے اور آپ جانتے ہیں وہ ٹھوس حقیقت کیا ہے؟ یہی انسان کی اپنی ذات ہرشخص کے لیے اس کی ذات سے بڑھ کر دنیامیں کوئی ٹھوس اور سنگین حقیقت نہیں۔ دنیا میں آکرسب سے پہلے انسان اپنے آپ ہی کو سب سے بڑی حقیقت کے طور پر محسوس کرتا ہے۔ دنیاکی باقی دوسری تمام حقیقتیں اسی اپنی ذات کے حوالے سے اس کے احاطہ ادراک واحساس میں داخل ہوتی ہیں، چنانچہ جب کوئی لکھنے والا اپنی ذات کے حوالے سے کچھ لکھ رہا ہوتا ہے تو اس وقت وہ ایک نہایت ٹھوس حقیقت کو بنیاد بنا کر کچھ لکھ رہا ہوتا ہے۔ ادیبوں اور شاعروں پر خیالی فضاؤں میںا ڑنے کا الزام اس وقت عائد ہوتا ہے جب ان کا رشتہ اپنی ذات سے منسلک نہیں رہتا۔ لکھنے والے کے سامنے اس کی اپنی ذات قائم ودائم رہے تو وہ زندگی کے ٹھوس حقائق سے کیسے آنکھیں چرا سکتا ہے اور ظاہر ہے انشائیہ نگار سے بڑھ کراپنی ذات کو اپنے پیش نظر رکھنے والا دوسرا کون ہو سکتا ہے؟ ہر ادیب کے بارے میں عام طور پر جو یہ کہا جاتا ہے کہ اسے کبھی نہ کبھی انشائیہ لکھنے کی طرف توجہ ضرور کرنی چاہیے تو اس کامطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ دیگراصناف ادب کی پابندیوں کی وجہ سے لکھنے والے پر جو ایک تکلف کی فضاطاری ہو جاتی ہے وہ ٹوٹ جائے اور زندگی کی ٹھوس حقیقتوں سے اس کارشتہ نہ صرف قائم ودائم رہے، بلکہ اس میں مزید استحکام پیدا ہو۔
فرانسیسی ادیب مون تین نے جو آخر عمر میں اپنی ذات کو واضح طور پر سامنے رکھ کر لکھنا شروع کیا تھاتو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں تھا کہ وہ ’ایسّے‘ کا نام دے کر کسی نئی صنف ادب کا آغاز کر رہا ہے بلکہ اس کا سیدھا سادھامطلب یہ تھا اگرکوئی ادیب بہت ہی تازہ، نئی اور انفرا دیت سے لبریز اور original باتیں ضبط تحریر میں لانا چاہتا ہے تو اس کا واحد حل یہی ہے کہ وہ اپنی ذات کو واضح طور پر سامنے رکھ لکھنا شروع کر دے۔ نئی باتوں اور جدتوں کا منبع باہر کی دنیا نہیں انسان کے اندر کی دنیا ہوتی ہے۔ کیونکہ ہر شخص جس مقام پر کھڑے ہو کر زندگی کو دیکھ رہا ہوتا ہے اور محسوس کر رہا ہوتا ہے وہ مقام کسی دوسرے شخص کو نصیب نہیں ہوتا۔ اس لیے جو کچھ اس کے مشاہدہ اور احساس میں آتا ہے وہ کسی دوسرے فرد کے مشاہدہ اور احساس میں آہی نہیں سکتا۔ اس لیے یہ کہناغلط نہیں کہ خودنگر انسان ہی جدت طراز ہو سکتا ہے خود نگری اور جدت طرازی آپس میں اس طرح وابستہ ہیں کہ ہم انہیں ایک دوسرے سے علاحدہ نہیں کر سکتے۔ اسی طرح کا تمام ترتصور بھی خودنگری کا مرہون منت ہے۔ اور یجنل بات کہنے کے لیے بھی خودنگر ہوناضروری ہے۔ گویاتخلیقی قوتوں کے لیے بھی ہمیں اپنی ذات ہی کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔
میں سمجھتا ہوں خودنگری کے ضمن میں تخلیقی قوتوں والی بات سب سے زیادہ واضح بھی ہے اور اہم ترین بھی۔ ہم جب تک انکشاف ذات نہیں کرتے اور یجنل ہوہی نہیں سکتے اور اگر اور یجنل نہیں ہو سکتے توصحیح معنی میں ہم کچھ تخلیق بھی نہیں کر سکتے۔ ایک سچی ادبی تخلیق انکشاف ذات کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتی خواہ وہ اپنے حلقۂ اثر کے اعتبار سے کتنی ہی دور رس کیوں نہ ہو، لہٰذا ایک انشائیہ نگار کا شخصی ہونا، اس کا اور یجنل ہونا، جدت طراز ہونا حیران کن حد تک منفرد ہونا ہے۔ وہ آپ پر اپنی ذات کا کوئی گوشہ ظاہر کر کے آپ کو محدود نہیں کرنا چاہتا، بلکہ اس کے برعکس اس کا منشا یہ ہوتا ہے کہ آپ کی نگاہ میں وسعت پیدا ہواور زندگی کے امکانات کا بھرپور انداز میں احساس کر سکیں۔
در اصل ایک انشائیہ نگار انکشاف ذات کے ذریعے اپنے پاؤں زمین پر مضبوطی کے ساتھ ٹکانا چاہتا ہے۔
(ماخوذ: انشائیہ میں انکشاف ذات، مشکورحسین یاد،
ممکنات انشائیہ، لاہور، ۱۹۸۳ء)
٭٭٭