اگر میں یہ پیش لفظ اس اعتراف سے شروع کروں کہ میرے ذہن میں انشائیہ کی کوئی منطقی اور علمی تعریف نہیں ہے تو یقیناً مجھ پر لا علمی اور جہالت کا الزام نہیں لگایا جائے گا کیونکہ میں خود ان تمام مشرقی اور مغربی نقادوں کو شک کی نظر سے دیکھتا رہا ہوں جنھوں نے قطعیت کے ساتھ اس کی تعریف کی ہے اور اسی کو صحیح اور مناسب ترین قرار دیا ہے لیکن اس کا مقصد یہ بھی نہیں ہے کہ میرے ذہن میں انشائیہ کا کوئی تصور ہی نہیں۔ یہ تصور کسی منطقی تعریف کی شکل میں نہیں، ایک علمی تاثر کی شکل میں میری ذہنی کرید کے افق پر جھلملاتا رہا ہے اور جب میں اسے لفظوں میں اسیر کرنا چاہتا ہوں تو وہ گرفت میں نہیں آتا۔ شاید یہی فرق ایک علمی یا معلوماتی مضمون اور انشائیہ میں بھی ہو۔ ایک میں قطعیت، استد لالی انداز، معلوماتی بے رنگی اور نتیجہ تک پہنچنے کی کوشش ہوتی ہے اور دوسرے میں افکار و مسائل کی تاثراتی رنگینی۔ اس لیے میں یہ غلطی نہیں کروں گا کہ انشائیہ کی کوئی تعریف پیش کروں۔ اس کام میں کچھ ادیب مجھ سے زیادہ مستعدی اور لگن کے ساتھ منہمک ہیں۔
گذشتہ چندسالوں سے اردو کے کچھ ادیب خاص طور سے انشائیہ کے حدود متعین کرنے کی کوشش میں ہیں۔ ان میں سے بعض نے خود بھی انشائیے لکھے ہیں اور گویا اس بات کا عملی ثبوت فراہم کیا ہے کہ ان کے خیال میں انشائیہ کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔ کچھ ایسے ہیں جو اپنے ذوق و تصور کے مطابق انشائیے لکھ رہے ہیں لیکن اس فکر میں نہیں کہ وہ انشائیہ کی تعریف بھی کریں۔ یہ وہ ہوشیار لوگ ہیں جن کو آم کھانے سے کام ہے۔، گٹھلیاں گننے کا کام وہ دوسروں کے سپرد کرنا چاہتے ہیں یا اکبر الٰہ آبادی کی زبان میں یہ کہنا چاہتے ہیں۔
شعر میں کہتا ہوں ہجّے تم کرو
جو طریقِ کار بھی زیادہ محتاط اور محفوظ ہو کسی نہ کسی کو تو یہ کام کرنا ہی ہے کہ وہ مختلف اصنافِ ادب میں سے اس صنف کو چھانٹ کر الگ کرے جسے عرفِ عام میں انشائیہ کہا جاتا ہے اور جب اس کی شکل و صورت پہچانی جانے لگے تو اچھے اور برے انشائیوں کے حسن و قبح پر غور کرنے کے طریقے بھی بتائے۔ یہ کام ڈاکٹر سید محمد حسنین نے بڑی محنت سے انجام دیا ہے۔ انھوں نے دو درجن سے زیادہ انشائیوں کا انتخاب کر کے اس پر ایک معلوماتی اور دلچسپ مقدمہ لکھ کر ظاہر کیا ہے کہ اردو میں بھی کچھ اچھے انشائیے لکھے گئے ہیں اور ان انشائیوں کو مضمون، مقالہ، روداد، اداریہ، خاکہ، رپورتاژ، صحافتی مضامین اور روزنامچہ سے الگ کیا جا سکتا ہے۔ ان کی یہ کوشش مستحسن ہے اگرچہ اس سے بھی بحث کے وہ تمام دروازے بند نہیں ہوتے جو نقادانہ مو شگافیوں سے کھلتے ہیں اور مغرب و مشرق کے نقاد جن کے حل کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
انشائیہ محض ذاتی تاثر ہے یا فلسفیانہ خیال آرائی، محض انشا پردازی کا طلسم ہے یا معنی خیز اظہارِ خیال، محض سرسری اور سادہ اظہار تاثر ہے یا رنگین اور فکر خیز ادبی تخلیق …اس طرح کی بہت سی نازک بحثیں اٹھائی گئیں ہیں۔ اور اب تک کوئی آخری بات اس سلسلے میں نہیں کہی گئی ہے اگر کسی نے بحث مباحثے کے بعد کوئی نتیجہ نکال بھی لیا ہے تو اس پر پورے ہونے والے صرف چند مضامین ملے ہیں۔ جنھیں اپنے نقطہ نظر والے انشائیوں کی فہرست میں شریک کرنا مناسب سمجھا اور بات محض ذاتی پسند کی ہو کر رہ گئی۔ اگر کسی کو اس بحث سے دلچسپی ہو تو وہ وزیر آغا کی خیال پارے، نظیر صدیقی کی شہرت کی خاطر، ڈاکٹر ظہیر الدین مدنی کا انتخاب، اردو ایسیز، مولوی صفی مرتضیٰ کی کتاب اردو انشائیہ، اور ادیب علی گڑھ کے انشائیہ نمبر (مرتبہ قمر رئیس) کا مطالعہ کرے۔ اس کی سمجھ میں کم سے کم بحث کے وہ سارے پہلو سامنے آ جائیں گے جن کے جاننے کی ضرورت ہے۔
میرا خیال ہے کہ انشائیہ کی کوئی ایسی حد بندی نہیں ہونی چاہئے جو اچھے، خیال انگیز، ادیبانہ اور آسودگی بخشنے والے ادب پاروں کو صرف اس بنا پر اس صنف میں شامل نہ ہونے دے کہ اس میں کوئی مخصوص بات جو کسی لغت یا کتاب میں انشائیہ کے بارے میں بتائی گئی ہے، نہیں ملتی۔ انشائیہ کی حد بندی کے باوجود ڈاکٹر سید محمد حسنین نے یہ مصنوعی اور خود ساختہ انداز انتخاب اختیار نہیں کیا ہے اور بہت سے اچھے مضامین یکجا کر دئے ہیں تاکہ طلبا کو اچھی نثر کے شگفتہ نمونوں سے واقفیت ہو جائے۔
الٰہ آباد: ۱۹۶۳ء پروفیسر سید احتشام حسین
٭٭٭