جب میں جاڑوں میں لحاف اوڑھتی ہوں تو پاس کی دیوار پر اس کی پوچھائیں ہاتھی کی طرح جھومتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ اور ایک دم سے میرا دماغ بیتی ہوئی دنیا کے پردوں میں دوڑنے بھاگنے لگتا ہے۔ نہ جانے کیا کچھ یاد آنے لگتا ہے۔
معاف کیجئے گا میں آپ کو خود اپنے لحاف کا رومان انگیز ذکر بتانے نہیں جارہی ہوں۔ نہ لحاف سے کسی قسم کا رومان جوڑا ہی جاسکتا ہے۔ میرے خیال میں کمبل کم آرام دہ سہی مگر اس کی پرچھائیں اتنی بھیانک نہیں ہوتی جتنی۔۔۔۔۔۔جب لحاف کی پرچھائیاں دیوار پر ڈگمگا رہی ہوں۔ یہ تب کا ذکر ہے جب میں چھوٹی سی تھی اور دن بھر بھائیوں اور ان کے دوستوں کے ساتھ مار کٹائی میں گزار دیا کرتی تھی۔ کبھی کبھی مجھے خیال آتا کہ میں کمبخت اتنی لڑاکا کیوں تھی۔ اس عمر میں جبکہ میری اور بہنیں عاشق جمع کر رہی تھیں۔ میں اپنے پرائے ہر لڑکے اور لڑکی سے جو تم پیزار میں مشغول تھی۔
یہی وجہ تھی کہ اماں جب آگرہ جانے لگیں تو ہفتہ بھر کے لئے مجھے اپنی ایک منھ بولی بہن کے پاس چھوڑ گئیں ۔ان کے یہاں،اماں خوب جانتی تھیں کہ چوہے کا بچہ بھی نہیں اور میں کسی سے بھی لڑ بھڑ نہ سکوں گی۔ سزا تو خوب تھی میری! ہاں تو اماں مجھے بیگم جان کے پاس چھوڑ گئیں۔ وہی بیگم جان جن کا لحاف اب تک میرے ذہن میں گرم لوہے کے داغ کی طرح محفوظ ہے ۔یہ وہ بیگم جان تھیں جن کے غریب ماں باپ نے نواب صاحب کو اس لئے داماد بنا لیا کہ گو وہ ’’پکی‘‘ عمر کے تھے مگر تھے نہایت نیک کبھی کوئی رنڈی یا بازاری عورت ان کے یہاں نظر نہ آئی ۔خود حاجی تھے اور بہتوں کو حج کرا چکے تھے۔
مگر انھیں ایک نہایت عجیب و غریب شوق تھا۔ لوگوں کو کبوتر پالنے کا جنون ہوتا ہے، بٹیریں لڑاتے ہیں، مرغ بازی کرتے ہیں۔ اس قسم کے واہیات کھیلوں سے نواب صاحب کو نفرت تھی۔ ان کے یہاں تو بس طالب علم رہتے تھے۔ نوجوان گورے گورے پتلی کمروں کے لڑکے۔ جن کا خرچ وہ خود برداشت کرتے تھے۔
گو بیگم جان سے شادی کرکے تو وہ انھیں کل سازو سامان کے ساتھ ہی گھر میں رکھ کر بھول گئے۔ اور وہ بچاری دبلی پتلی بازک سی بیگم تنہائی کے غم میں گھلنے لگیں۔
نہ جانے ان کی زندگی کہاں سے شروع ہوتی ہے۔ وہاں سے جب وہ پیدا ہونے کی غلطی کرچکی تھیں۔ یا وہاں سے جب وہ ایک نواب کی بیگم بن کر آئیں اور چھپر کھٹ پر زندگی گزارنے لگیں۔ یاجب سے نواب صاحب کے یہاں لڑکوں کا زور بندھا۔ ان کے لئے مرغن حلوے اور لذیز کھانے جانے لگے اور بیگم جان دیوان خانے کی دراڑوں میں سے ان کی لچکتی کمروں والے لڑکوں کی چست پنڈلیاں اور معطر باریک شبنم کے کرتے دیکھ دیکھ کر انگاروں پر لوٹنے لگیں۔
یا جب سے ،جب وہ منتوں مرادوں سے ہار گئیں ،چلّے بندھے اور ٹوٹکے اور راتوں کی وظیفہ خوانی بھی چت ہوگئی ۔کہیں پتھر میں جونک لگتی ہے؟ نواب صاحب اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوئے۔ پھر بیگم جان کا دل ٹوٹ گیا اور وہ علم کی طرف متوجہ ہوئیں۔ لیکن یہاں بھی انھیں کچھ نہ ملا۔ عشقیہ ناول اور جذباتی اشعارپڑھ کر اور بھی پستی چھا گئی۔ رات کی نیند بھی ہاتھ سے گئی اور بیگم جان جی جان چھوڑ کر بالکل ہی یاس و حسرت کی پوٹ بن گئیں۔
چولھے میں ڈالا تھا ایسا کپڑا لتا، کپڑا پہنا جاتا ہے کسی پر رعب گانٹھنے کے لئے۔ اب نہ تو نواب صاحب کو فرصت کہ شبنمی کرتوں کو چھوڑ کر ذرا ادھر توجہ کریں اور نہ وہ انھیں کہیں آنے جانے دیتے ۔ جب سے بیگم جان بیاہ کر آئی تھیں رشتہ دارآکر مہینوں رہتے اور چلے جاتے ۔مگر وہ بیچاری قید کی قید رہتیں۔
ان رشتہ داروں کو دیکھ کر اور بھی ان کا خون جلتا تھا کہ سب مزے سے مال اڑانے، عمدہ گھی نگلنے، جاڑے کا سازو سامان بنوانے آن مرتے اور وہ باوجود نئی روئی کے لحاف کے پڑی سردی میں اکڑا کرتیں۔ ہر کروٹ پر لحاف نئی نئی صورتین بنا کر دیوار پر سایہ ڈالتا۔ مگر کوئی بھی سایہ ایسا نہ تھا جو انھیں زندہ رکھنے کے لئے کافی ہو۔ مگر کیوں جئے پھر کوئی؟۔۔۔۔۔۔زندگی! بیگم جان کی زندگی جو تھی۔ جینا بلا تھا نصیبوں میں، وہ پھر جینے لگیں خوب اور جئیں!۔۔۔۔۔۔
ربّو نے انھیں نیچے گرتے گرتے سنبھال لیا۔ چٹ پٹ دیکھتے دیکھتے ان کا سوکھا جسم بھرنا شروع ہوا۔ گال چمک اٹھے اور حسن پھوٹ نکلا ۔ایک عجیب و غریب تیل کی مالش سے بیگم جان میں زندگی کی جھلک آئی۔ معاف کیجئے گا اس تیل کا نسخہ آپ کو بہترین سے بہترین رسالہ میں بھی نہ ملے گا۔
}
جب میں نے بیگم جان کو دیکھا تو وہ چالیس بیالیس کی ہوں گی۔ افوہ کس شان سے وہ مسند پر نیم دراز تھیں اورربّو ان کی پیٹھ سے لگی بیٹھی کمر دبا رہی تھی۔ایک اودے رنگ کا دوشالہ ان کے پیروں پر پڑا تھا اور وہ مہارانی کی طرح شان دار معلوم ہورہی تھی ، مجھے ان کی شکل بے انتہا پسند تھی۔ میرا جی چاہتا تھا گھنٹوں بالکل پاس سے ان کی صورت دیکھا کروں۔ ان کی رنگت بالکل سفید تھی۔ نام کو سرخی کا ذکر نہیں اور بال سیاہ اور تیل میں ڈوبے رہتے تھے۔میں نے آج تک ان کی مانگ بگڑی نہ دیکھی تھی۔کیا مجال جو ایک بال ادھر ادھر ہو جائے۔ ان کی آنکھیں کالی تھیں اور ابردپر کے زائد بال علیٰحدہ کر دینے سے کمانیں سی کھچی ہوتی تھیں۔ آنکھیں ذرا تنی ہوئی رہتی تھیں۔ بھاری بھاری پھولے ہوئے پیوٹے، موٹی موٹی پلکیں ، سب سے زیادہ جو ان کے چہرے پر حیرت انگیز ، جاذب نظر چیز تھی وہ ان کے ہونٹ تھے ۔عموماً وہ سرخی سے رنگے رہتے تھے۔ اوپر کے ہونٹ پر ہلکی ہلکی مونچھیں سی تھیں اور کنپٹیوں پر لمبے لمبے بال ۔ کبھی کبھی ان کا چہرہ دیکھتے دیکھتے عجیب سا لگنے لگتا تھا۔ کم عمر لڑکوں جیسا!۔
ان کے جسم کی جلد بھی سفید اور چکنی تھی ، معلوم ہوتا تھا کسی نے کس کو ٹانکے لگا دئیے ہوں۔ عموماً وہ اپنی پنڈلیاں کھجانے کے لئے کھولتیں تو میں چپکے چپکے ان کی چمک دیکھا کرتی۔ ان کا قد بہت لمبا تھا اور پھر گوشت ہونے کی وجہ سے وہ بہت ہی لمبی چوڑی معلوم ہوتی تھیں۔ لیکن بہت متناسب اور ڈھلا ہوا جسم تھا۔ بڑے بڑے چکنے اور سفید ہاتھ اور سڈول کمر ، تو ر بّو ان کی پیٹھ کھجایا کرتی تھی ۔یعنی گھنٹوں ان کی پیٹھ کھجاتی ، پیٹھ کھجانا بھی زندگی کی ضروریات میں سے تھا۔ بلکہ شاید ضروریاتِ زندگی سے بھی زیادہ۔
ربّو کو گھر کا اور کوئی کام نہ تھا۔ بس وہ سارے وقت ان کے چھپر کھٹ پر چڑھی کبھی پیر، کبھی سر اور کبھی جسم کے اور دوسرے حصہ کو دبایا کرتی تھی۔ کبھی تو میرا دل بول اٹھتا تھا جب دیکھو ربو کچھ نہ کچھ دبا رہی ہیں یا مالش کررہی ہیں۔ کوئی دوسرا ہوتا تو نہ جانے کیا ہوتا۔ میں اپنا کہتی ہوں کوئی انا بھی تو میرا جسم تو سڑگل کے ختم ہو جائے۔
اور پھر یہ زور زور کی مالش کافی نہیں تھی۔ جس روز بیگم جان نہاتیں۔ یااﷲ بس دو گھنٹہ پہلے سے تیل اور خوشبو دار ابٹنوں کی مالش شروع ہو جاتی۔ اور اتنی ہوئی کہ میرا تو تخیل سے ہی دل لوٹ جاتا۔ کمرہ کے دروازے بند کرکے انگیٹھیاں سلگتیں اور چلتا مالش کا دور۔ عموماً صرف ربّو ہی رہتیں۔ باقی کی نوکرانیاں بڑبڑاتی دروازے پر سے ہی ضروریات کی چیزیں دیتی جاتیں ۔
بات یہ تھی کہ بیگم جان کو کھجلی کا مرض تھا۔ بچاری کو ایسی کھجلی ہوتی تھی کہ ہزاروں تیل اور ابٹنے ملے جاتے تھے۔ مگر کھجلی تھی کہ قائم ۔ڈاکٹر حکیم کہتے ’’کچھ بھی نہیں‘‘ ۔جسم صاف چٹ پڑا ہے۔ ہاں کوئی جلد کے اندر بیماری ہو تو خیر‘‘۔ ’’نہیں بھئی یہ ڈاکٹر تو موئے ہیں پاگل کوئی آپ کے دشمنون کو مرض ہے۔ اﷲ رکھے خون میں گرمی ہے۔‘‘ربو مسکرا کر کہتی مہین مہین نظروں سے بیگم جان کو گھورتی ۔ اوہ یہ ربّو ۔۔۔۔۔۔جتنی یہ بیگم جان گوری تھیں اتنی ہی یہ کالی۔ جتنی بیگم جان سفید تھیں اتنی ہی یہ سرخ۔ بس جیسے تپایا ہوا لوہا۔ ہلکے ہلکے چیچک کے داغ۔گٹھا ہوا ٹھوس جسم ۔پھرتیلے چھوٹے چھوٹے ہاتھ۔ کسی ہوئی چھوٹی سی توند، بڑے بڑے پھولے ہوئے ہونٹ جو ہمیشہ نمی میں ڈوبے رہتے اور جسم میں سے عجیب گھرانے والی بو کے شرارے نکلتے رہتے تھے۔ اور یہ ننھے ننھے پھولے ہوئے ہاتھ کس قدر پھرتیلے تھے ابھی کمر پر تو وہ لیجئے یہ پھسل کر گئے کولھوں پر وہاں سے رینگے رانوں پر اور پھر دوڑکر ٹخنوں کی طرف۔ میں تو جب کبھی بیگم جان کے پاس بیٹھتی یہی دیکھتی کہ اب اس کے ہاتھ کہاں ہیں اور کیا کررہے ہیں۔
گرمی جاڑے بیگم جان حیدر آبادی جالی کار گے کے کرتے پہنتیں ۔ گہرے رنگ کے پاجامے اور سفید جھاگ سے کرتے اور پنکھا بھی چلتا ہو۔ پھر بھی وہ ہلکی دلائی ضرور جسم پر ڈھکے رہتی تھیں۔ انھیں جاڑا بہت پسند تھا۔ جاڑے میں مجھے ان کے یہاں اچھا معلوم ہوتا۔ وہ ہلتی جلتی کم تھیں۔ قالین پر لیٹی ہیں ۔ پیٹھ کھج رہی ہے۔ خشک میوے چبا رہی ہین اور بس۔ ربّو سے دوسری ساری نوکرانیان خار رکھتی تھیں، چڑیل بیگم جان کے ساتھ کھاتی ،ساتھ اٹھتی اورماشاء اللہساتھ ہی سوتی تھی، ربّو اور بیگم جان عام جلسوں اور مجموعوںکی دلچسپ گفتگوکا موضوع تھیں، جہاں ان دونوں کاذکر آیا اور قہقہے اٹھے۔ لوگ نہ جانے کیا کیا چٹکلے غریب پر اُڑاتے۔ مگر وہ دنیا میں کسی سے ملتی ہی نہ تھیں۔ وہاں تو بس وہ تھیں اور ان کی کھجلی۔
میں نے کہا’’کہ اس وقت میں کافی چھوٹی تھی اور بیگم جان پر فدا، وہ بھی مجھے بہت ہی پیار کرتی تھیں۔ اتفاق سے اماں آگرے گئیں۔ انھیں معلوم تھا کہ اکیلے گھر میں بھائیوں سے مار کٹائی ہوگی۔ ماری ماری پھروں گی۔ اس لئے وہ ہفتہ بھر کے لئے بیگم جان کے پاس چھوڑ گئیں۔ میں بھی خوش اور بیگم جان بھی خوش۔ آخر کو اماں کی بھابی بنی ہوئی تھیں۔
سوال یہ اٹھا کہ میں سوئوں کہاں؟قدرتی طور پر بیگم جان کے کمرے میں، لہٰذا میرے لئے بھی ان کے چھپر کھٹ سے لگا کر چھوٹی سی پلنگڑی ڈال دی گئی۔ دس گیارہ بجے تک تو باتیں کرتے رہے۔ میںاور بیگم جان چانس کھیلتے رہے اور پھر میں سونے کے لئے اپنے پلنگ پر چلی گئی اور جب مین سوئی تو ربّو ویسی ہی بیٹھی ان کی پیٹھ کھجا رہی تھی۔ ’’بھنگن ‘‘ کہیں کی‘‘۔۔۔۔۔۔میں نے سوچا ۔رات کو میری ایک دم سے آنکھ کھلی تو مجھے عجیب طرح کا ڈر لگنے لگا۔ کمرہ میں گھپ اندھیرا اور اندھیرے میں بیگم جان کا لحاف ایسے ہل رہا تھا جیسے اس میں ہاتھی بند ہو۔بیگم جان۔۔۔۔۔۔‘‘میں نے ڈری ہوئی آواز نکالی ، ہاتھی ہلنا بند ہوگیا۔ لحاف نیچے دب گیا۔
’’کیا ہے۔۔۔۔۔۔سو رہو۔۔۔۔۔۔‘‘بیگم جان نے کہیں سے آواز دی۔
’’ڈر لگ رہا ہے۔۔۔۔۔۔‘‘ میں نے چوہے کی سی آواز سے کہا۔
’’سو جائو ۔۔۔۔۔۔ڈر کی کیا بات ہے۔۔۔۔۔۔آیتہ لکرسی پڑھ لو۔‘‘
’’اچھا ۔۔۔۔۔۔‘‘میں نے جلدی جلدی آیتہ الکرسی پڑھی ۔مگر یَعُلمُ مَابییُن پر ہر دفعہ آکر اٹک گئی۔ حالانکہ مجھے اس وقت پوری آیت یاد ہے۔
’’تمھارے پاس آجائوں ۔بیگم جان۔۔۔۔۔۔‘‘
’’نہیں ۔۔۔۔۔۔بیٹی۔۔۔۔۔۔سو رہو۔۔۔۔۔۔‘‘ذرا سختی سے کہا۔
اور پھر دو آدمیوں کے کھسر پھسر کرنے کی آواز سنائی دینے لگی۔۔۔۔۔۔ہائے رے
یہ دوسرا کون؟میں اور بھی ڈری۔
’’بیگم جان۔۔۔۔۔۔چور ور تو نہیں۔۔۔۔۔۔‘‘
’’سو جائو بیٹا۔۔۔۔۔۔کیسا چور ۔۔۔۔۔۔ربّو کی آواز آئی ۔میں جلدی سے لحاف میں منھ ڈال کر سو گئی۔
صبح میرے ذہن میں رات کے خوفناک نظارے کا خیال بھی نہ رہا۔ میں ہمیشہ کی وہمی ہوں، رات کو ڈرنا، اٹھ اٹھ کر بھاگنا اور بڑبڑانا تو بچپن میں روز ہی ہوتا تھا۔ سب تو کہتے تھے مجھ پر بھوتوں کا سایہ ہوگیا ہے۔ لہٰذا مجھے خیال بھی نہ رہا۔ صبح کو لحاف بالکل معصوم نظر آرہا تھا۔ مگر دوسری رات میری آنکھ کھلی تو ربّو اور بیگم جان میں کچھ جھگڑا بڑی خاموشی سے چھپر کھٹ پر ہی طے ہو رہا تھا اور میری خاک سمجھ میں نہ آیا تھا اور کیا فیصلہ ہوا۔ ربّو ہچکیاں لے کر روئی۔ پھر بلّی کی طرح سپڑ سپڑ رکابی چاٹنے جیسی آوازیں آنے لگیں۔اونھ میں تو گھبرا کر سو گئی۔
آج ربّو اپنے بیٹے سے ملنے گئی ہوئی تھی ۔وہ بڑا جھگڑا لو تھا۔ بہت کچھ بیگم جان نے کیا۔ اسے دوکان کرائی۔۔۔۔۔۔گائوں میں لگایا۔مگر وہ کسی طرح مانتا ہی نہیں تھا۔ نواب صاحب کے یہاں کچھ دن رہا۔ خوب جوڑے باگے بھی بنے پر نہ جانے کیوں ایسا بھاگا کہ ربّو سے ملنے بھی نہ آتا۔۔۔۔۔۔لہٰذر بّوہی اپنے کسی رشتہ دار کے یہاں اس سے ملنے گئی تھی ۔ بیگم جان نہ جانے دیتی۔ مگر ربّو بھی مجبور ہوگئی۔
سارا دن بیگم جان پریشان رہیں۔ ان کا جوڑجوڑ ٹوٹتا رہا۔ کسی کا چھونا بھی انھیں نہ بھاتا تھا۔ انھوں نے کھانا بھی نہ کھایا اور سارا دن اداس پڑی رہیں۔
’’میں کھجادوں بیگم جان۔۔۔۔۔۔‘‘ میں نے بڑے شوق سے تاش کے پتے بانٹتے ہوئے کہا۔ بیگم جان مجھے غور سے دیکھنے لگیں۔
’’میں کھجادوں۔۔۔۔۔۔سچ کہتی ہوں۔۔۔۔۔۔‘‘میں نے تاش رکھ دئیے۔
میں تھوڑی دیر تک کھجاتی رہی اور بیگم جان چپکی لیٹی رہیں۔ دوسرے دن ربّو کو آنا تھا۔۔۔۔۔۔مگر وہ آج بھی غائب تھی۔ بیگم جان کا مزاج چڑچڑا ہوتا گیا۔۔۔۔۔۔چائے پی پی کر انھوں نے سر میں درد کرلیا۔
میں پھر کھجانے لگی ان کی پیٹھ ۔۔۔۔۔۔چکنی میز کی تختی جیسی پیٹھ ۔۔۔۔۔۔میں ہولے ہولے کھجاتی رہی۔ ان کا کام کرکے کیسی خوشی ہوئی تھی!
’’ذرا زور سے کھجائو۔۔۔۔۔۔بند کھول دو۔۔۔۔۔۔‘‘ بیگم جان بولیں۔
’’ادھر۔۔۔۔۔۔اے ہے ذرا شانے سے نیچے ۔۔۔۔۔۔ہاں۔۔۔۔۔۔واہ بھئی واہ ۔۔۔۔ہا۔۔۔۔۔ہا۔۔۔۔۔۔‘‘وہ سردر میں ٹھنڈی ٹھنڈی سانسیں لے کر اطمینان ظاہر کرنے لگیں۔
’’اورادھر ۔۔۔۔۔۔‘‘حالانکہ بیگم جان کا ہاتھ خوب جاسکتا تھا۔ مگر وہ مجھ سے ہی کھجوا رہی تھیںاور مجھے الٹا فخر ہو رہا تھا ۔
’’یہاں۔۔۔۔۔۔اوئی۔۔۔۔۔۔تم تو گدگدی کرتی ہو۔۔۔۔۔۔واہ۔۔۔۔۔۔‘‘وہ ہنسیں ،میں باتیں بھی کررہی تھی اور کھجا بھی رہی تھی۔
’’تمھیں کل بازار بھیجوں گی۔۔۔۔۔۔کیا لوگی۔۔۔۔۔۔وہی سوتی جاگتی گڑیا۔۔۔۔۔۔‘‘
’’نہیں بیگم جان۔۔۔۔۔۔میں تو گڑیا نہیں لیتی۔۔۔۔۔۔کیا بچہ ہوں اب میں۔۔۔۔۔۔‘‘
’’بچہ نہیں تو کیا بوڑھی ہوگئی۔۔۔۔۔۔‘‘و ہ ہنسیں۔
’’گڑیا نہیں تو بنوا لینا۔۔۔۔۔۔کپڑے پہنانا خود ،میں دوں فی تمھیں بہت سے کپڑے ،سنا۔۔۔۔۔۔‘‘ انھوں نے کروٹ لی۔
’’اچھا‘‘میں نے جواب دیا۔
’’ادھر ۔۔۔۔۔۔‘‘انھوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر جہان کھجلی ہو رہی تھی رکھ دیا۔ جہان انھیں کھجلی معلوم ہوتی وہاں میرا ہاتھ رکھ دیتیں اور میں بے خیالی میں ببوئے کے دھیان میںڈوبی مشین کی طرح کھجاتی رہی اور وہ متواتر باتیں کرتی رہیں۔
’’سنو تو۔۔۔۔۔۔تمھاری فراکیں کم ہوگئی ہیں۔ کل درذی کو دے دوں گی۔کہ نئی سی لائے۔ تمھاری اماں کپڑے دے گئی ہیں۔‘‘
’’وہ لال کپڑے کی نہیں بنوائوں گی۔۔۔۔۔۔چماروں جیسا ہے۔۔۔۔۔۔‘‘ میں بکواس کررہی تھی اور ہاتھ نہ جانے کہاں سے کہاں پہنچا۔ باتوں باتوں میں مجھے معلوم بھی نہ ہوا بیگم جان تو چت لیٹی تھیں۔۔۔۔۔۔ارے ۔۔۔۔۔۔میں نے جلدی سے ہاتھ کھینچ لیا۔
’’اوئی لڑکی۔۔۔۔۔۔دیکھ کر نہیں کھجاتی۔۔۔۔۔۔میری پسلیاں نوچے ڈالتی ہے۔۔۔۔۔۔بیگم جان شرارت سے مسکرائیں اور میں جھینپ گئی۔
’’ادھر آکر میرے پاس لیٹ جا۔۔۔۔۔۔‘‘انھوں نے مجھے بازو پر سر رکھ کر لٹا لیا۔
’’اے ہے کتنی سوکھ رہی ہے۔۔۔۔۔۔پسلیاں نکل رہی ہیں۔‘‘انھوں نے میری پسلیاں گننا شروع کیں۔
’’اوں۔۔۔۔۔۔‘‘میں منمنائی۔
’’اوئی ۔۔۔۔۔۔تو کیا میں کھا جائوں گی۔۔۔۔۔۔کیسا تنگ سوئیٹر بنا ہے!۔‘‘
’’گرم بنیان بھی نہیں پہنا تم نے ۔۔۔۔۔۔‘‘میں کلبلانے لگی۔
’’کتنی پسلیاں ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔‘‘انھوں نے بات بدلی۔
’’ایک طرف نو اور دوسری طرف دس۔۔۔۔۔۔‘‘میں نے اسکول میں یاد کی ہوئی ہائی جیب کی مدد لی۔وہ بھی اوٹ پٹانگ۔
’’ہٹائو تو ہاتھ۔۔۔۔۔۔ہاں،ایک ۔۔۔۔۔۔دو۔۔۔۔۔۔تین۔۔۔۔۔۔‘‘
’’میرادل چاہا کہ بھاگوں۔۔۔۔۔۔اور انھوں نے زور سے بھینچا۔
’’اوں۔۔۔۔۔۔‘‘ میں مچل گئی۔۔۔۔۔۔بیگم جان زور زور سے ہنسنے لگیں۔ اب بھی جب کبھی میں ان کا اس وقت کا چہرہ یاد کرتی ہوں تو دل گھبرا نے لگتا ہے۔۔۔۔۔۔ان کی آنکھوں کے پیوٹے اور وزنی ہوگئے۔ اوپر کے ہونٹ پر سیاہی گھری ہوئی تھی۔ باوجود سردی کے پسینے کی ننھی ننھی بوندیں ہونٹوں اور ناک پر چمک رہی تھیں۔ ان کے ہاتھ ٹھنڈے یخ تھے۔ مگر نرم نرم جیسے ان پر کی کھال اتر گئی ہو۔انھوں نے شال اتار دی تھی اور کار گے کے مہیں کرتے میں ان کا جسم آٹے کی لوئی کی طرح چمک رہا تھا۔ بھاری جڑائو سونے کے بٹن گریبان کے ایک طرف جھول رہے تھے۔ شام ہوگئی تھی۔ اور کمرہ میںاندھیرا گھپ ہورہا تھا۔ مجھے ایک نامعلوم ڈر سے وحشت سی ہونے لگی۔ بیگم جان کی گہری گہری آنکھیں ۔ میں رونے لگی دل میں۔وہ مجھے ایک مٹی کے کھلونے کی طرح بھینچ رہی تھیں۔ ان کے گرم گرم جسم سے میرا دل بولانے لگا۔ مگر ان پر تو جیسے کوئی بھتنا سوار تھا اورمیرے دماغ کا یہ حال کہ نہ چیخا جائے اور نہ رو سکوں۔
تھوڑی دیر کے بعد وہ پست ہو کر نڈھال لیٹ گئیں۔ ان کا چہرہ پھیکا اور بد رونق ہوگیا اور لمبی لمبی سانسیں لینے لگیں۔ میں سمجھی کہ اب مریں یہ ،اور وہاں سے اٹھ کر سرپٹ بھاگی باہر۔۔۔۔۔۔!‘‘
شکر ہے کہ ربّو رات کو آگئی اور میں ڈری ہوئی جلدی سے لحاف اوڑھ سوگئی۔ مگر نیند کہاں،چپ گھنٹوں پڑی رہی۔
اماں کسی طرح آہی نہیں چکی تھیں۔ بیگم جان سے مجھے ایسا ڈر لگتا تھا کہ میں سارا دن مامائون کے پاس بیٹھی رہی۔ مگر ان کے کمرے میں قدم رکھتے دم نکلتا تھا۔ اور کہتی کس سے اور کہتی ہی کیا کہ بیگم جان سے ڈر لگتا ہے؟تو یہ بیگم جان جو میرے اوپر جان چھڑکتی تھیں۔
}
آج ربّو میں اور بیگم جان میں پھر اَن بن ہوگئی۔۔۔۔۔۔میری قسمت کی خرابی کہئے یا کچھ اور مجھے ان دونوں کی ان بن سے ڈر لگا۔ کیونکہ فوراً ہی بیگم جان کو خیال آیا کہ میں باہر سردی میں گھوم رہی ہوں اور مروں گی نمونیہ میں۔
’’لڑکی کیا میرا سر منڈوائے گی۔ جو کچھ ہوہوا گیا تو اور آفت آئے گی۔ ‘‘انھوں نے مجھے پاس بٹھالیا ۔وہ خود منھ ہاتھ سلفچی میں دھو رہی تھیں۔ چائے تپائی پر رکھی تھی۔
’’چائے تو بنائو۔۔۔۔۔۔ایک پیالی مجھے بھی دینا۔۔۔۔۔۔‘‘ وہ تولیہ سے منھ خشک کرکے بولیں۔
’’میں ذرا کپڑے بدل لوں۔۔۔۔۔۔‘‘
وہ کپڑے بدلتی رہیں اور میں چائے پیتی رہی۔ بیگم جان نائن سے پیٹھ ملواتے وقت اگر مجھے کسی کام سے بلاتیں میں تو میں گردن موڑے موڑے جاتی۔ اور واپس بھاگ آتی۔ اب جو انھوں نے کپڑے بدلے تو میرا دل الٹنے لگا۔ منھ موڑے میں چائے پیتی رہی۔
’’ہائے اماں۔۔۔۔۔۔‘‘میرے دل نے بے کسی سے پکارا۔۔۔۔۔۔‘‘آخر ایسا میں بھائیوں سے کیا لڑتی ہو ں تو تم میری مصیبت ۔۔۔۔۔۔‘‘اماں کو ہمیشہ سے میرا لڑکوں کے ساتھ کھیلنا ناپسند ہے، کہو بھلا لڑکے کیا شیر چیتے ہیں جو نگل جائیں گے ان کی لاڈلی کو ۔اور لڑکے بھی کون؟ خود بھائی اور دو چار سڑے سڑائے ذرا ذرا سے ان کے دوست ۔ مگر نہیں وہ تو عورت ذات کو سات تالوں میں رکھنے کی قائل اور یہاں بیگم جان کی وہ دہشت کہ دنیا بھر کے غنڈوں سے نہیں۔ بس چلتا تو اس وقت سڑک پر بھاگ جاتی پر وہاں نہ ٹکتی۔ مگرلاچار تھی۔ محبوراً کلیجہ پر پتھر رکھے بیٹھی رہی۔
کپڑے بدل سولہ سنگھار ہوئے۔ اور گرم گرم خوشبوئوں کے عطرنے اور بھی انھیں انگارہ بنادیا اور وہ چلیں مجھ پر لاڈاتارنے :
’’گھر جائوں گی۔۔۔۔۔۔‘‘میں نے ان کی ہر رائے کے جواب میں کہا اور رونے لگی۔
’’میرے پاس تو آئومیں۔۔۔۔۔۔تمھیں بازار لے چلوں گی۔۔۔۔۔۔سنو تو ۔۔۔۔۔۔‘‘
مگر میں کُھلی کی طرح پھیل گئی۔۔۔۔۔۔سارے کھلونے ، مٹھائیاں ایک طرف اور گھر جانے کی رٹ ایک طرف۔
’’وہاں بھیّا ماریں گے۔۔۔۔۔۔چڑیل ۔۔۔۔۔۔‘‘انھوں نے پیار سے مجھے تھپڑ لگایا۔
’’پڑے ماریں بھیّا۔۔۔۔۔۔‘‘ میں نے دل میں سوچا اور روٹھی اکڑی بیٹھی رہی۔
’’کچی امیاں کھٹی ہوتی ہیں بیگم جان۔۔۔۔۔۔‘‘ جلی کٹی ربّو نے رائے دی۔ اور پھر اس کے بعد بیگم جان کو دورہ پڑگیا۔سونے کا ہار جو وہ تھوڑی دیر پہلے مجھے پہنا رہی تھیںٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ مہین جالی کا دوپٹہ تار تار اور وہ مانگ جو میں نے کبھی بگڑی نہ دیکھی تھی جھاڑ جھنکاڑ ہوگئی۔
’’اوہ۔۔۔۔۔۔اوہ اوہ اوہ۔۔۔۔۔۔‘‘وہ جھٹکے لے لے کر چلانے لگیں۔ میںرپٹی باہر ۔
بڑے جتنوں سے بیگم جان کو ہوش آیا۔جب میں سونے کے لئے کمرے میں دبے پیر جاکر جھانکی تو ربّو ان کی کمرسے لگی جسم دبا رہی تھی۔
’’جوتی اتار دو۔۔۔۔۔۔‘‘اس نے ان کی پسلیاں کھجاتے ہوئے کہااور میں چوہیا کی طرح لحاف میں دبک گئی۔
سر سر پھٹ کچ۔۔۔۔۔۔بیگم جان کا لحاف اندھیرے میں پھر ہاتھی کی طرح جھوم رہا تھا۔ ’’اﷲ!آں۔۔۔۔۔۔‘‘ میں نے مری ہوئی آواز نکالی ۔لحاف میں ہاتھی پھدکا اور بیٹھ گیا۔میں بھی چپ ہوگئی۔ ہاتھی نے پھر لوٹ مچائی۔ میرا رئواں رئواں کانپا۔ آج میں نے دل میں ٹھان لیا کہ ضرور ہمت کرکے سرہانے کا لگا ہوا بلب جلادوں ۔ ہاتھی پھر پھڑارہا تھا اور جیسے اکڑوں بیٹھنے کی کوشش کررہا تھا ۔چپڑ چپڑ کچھ کھانے کی آوازیں آرہی تھیں۔ جیسے کوئی مزے دار چٹنی چکھ رہا ہو۔ اب میں سمجھی ! یہ بیگم جان نے آج کچھ نہیں کھایا۔ اور زبّو مُردی تو ہے سدا کی چٹو۔ ضرور یہ ترمال اڑا رہی ہے۔ میں نے نتھنے پھلا کر ’’سوں سوں‘‘ ہوا کر سونگھا ۔سوائے عطر صندل اور حنا کی گرم گرم خوشبو کے اور کچھ نہ محسوس ہوا۔
لحاف پھرا منڈنا شروع ہوا۔ میں نے بہتیرا چاہا کہ چپکی پڑی رہوں۔ مگر اس لحاف نے تو ایسی عجیب عجیب شکلیں بنانے شروع کیں کہ میں لرز گئی۔ معلوم ہوتا تھا غوں غوں کرکے کوئی بڑا سا مینڈک پھول رہا ہے اور اب اچھل کر میرے اوپر آیا۔
’’آ۔۔۔۔۔۔ن۔۔۔۔۔۔اماں‘‘۔۔۔۔۔۔میں ہمت کرکے گنگنائی ۔مگر وہاں کچھ شنوائی نہ ہوئی اور لحاف میرے دماغ میں گھس کر پھولنا شروع ہوا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے پلنگ کے دوسری طرف پیر اتارے اور ٹٹول کر بجلی کا بٹن دبایا۔ ہاتھی نے لحاف کے نیچے ایک قلابازی لگائی اور پچک گیا۔ قلابازی لگانے میں لحاف کا کونا فٹ بھر اٹھا ۔۔۔۔۔۔اﷲ!میں غڑاپ سے اپنے بچھونے میں!!!
٭٭٭
تجزیہ
عصمت چغتائی اردو افسانے کے بڑے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ ان کے افسانوں کی زبان بہترین اور نیچرل ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے تخلیق قاری کا بازو پکڑ کر اپنی سجائی ہوئی دنیا میں لے جاتی ہے، اسے یا تو تحریر کا جادو کہئے یا کہانی پن کی مضبوطی کہ قاری آخری جملے تک تخلیق کے ساتھ رہتا ہے۔ عصمت کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ اپنے کرداروںکی لیاقت ، اُن کی تہذیب اور اُن کے ماحول کے مطابق اُن کے مونہہ میں زبان رکھتی ہے جو قاری کو بے حد متاثر کرتی ہے۔ عصمت نے بے وجہ اور شاعرانہ منظر نگاری سے بھی پرہیز کیا ہے۔ بیان کی سُست رفتاری کی وجہ سے افسانے طویل محسوس ہوتے ہیں۔ غور کریں ، تو اُن کے جملے کہانی پر بوجھ نہیں بنتے، عصمت ہمیشہ ٹودی پوائنٹ (To The Point)بات کرنے میں یقین رکھتی ہیں۔’’لحاف‘‘ عصمت چغتائی کا مقبول ترین افسانہ ہے۔ مجھے عصمت کے کچھ افسانے ، منٹو کے نزدیک نظر آئے ، ترقی پسند کے دور میں منٹو بہت ہی بولڈ افسانہ نگار تھے ، جو اپنے اظہار کے سامنے کوئی بندش کوئی رکاوٹ برداشت نہیں کرتے تھے، یہی عمل مجھے عصمت کا بھی دکھائی دیا، کسی کو برا لگے یا بھلا اُن کا مقصد اظہار ہوتا تھا۔ صرف اظہار گو عصمت کے دوسرے افسانے بھول بھلیاں اور تِل وغیرہ بھی بہت بولڈ افسانے ہیں۔ مگر لحاف نے ساری حدیں پار کرلیں۔ لحاف کی وجہ سے عصمت کو کافی پریشانیاں اُٹھانا پڑیں۔ لاہور میں اِس افسانہ کو لے کر عصمت پر مقدمہ ہوا۔لیکن عصمت اپنی جگہ پر قائم رہیں۔ انہوں نے ہرمشکل کو خندہ پیشانی سے جھیلا ۔ منٹو کے جن افسانوں پر مقدمات درج ہوئے ، سزاکے طور پر ،انہوں نے جرمانے بھی بھرے وہ سب افسانے بہت مقبول ہوئے جیسے لوگ شہید ہو کرامر ہو جاتے ہیں ایسے و ہ افسانے ٹھنڈاگوشت ، بُو وغیرہ امر ہوگئے ۔ نقادوں نے اُن کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور آسمان پر تعریفوں کے بل سے چڑھا دیا۔ آج تک وہ امر ہیں اُن پر کسی نے انگلی نہیں اُٹھائی۔
لحاف بھی ایسے ہی افسانوں میں سے ایک ہے۔ آئیے اس امر ہونے والے مقبول ترین افسانے کے بارے میں بات کریں۔
افسانہ ’’لحاف‘‘ میں راوی ایک لڑکی ہے جو اپنی یادوں میں بسی ہوئی ایک روداد ہمیں سناتی ہے۔ اب شاید وہ سنِ بلوغت میں آچکی ہے وہ ہمیں بتا رہی ہے کہ جب کبھی وہ لحاف اوڑھتی ہے تو اُس کی پرچھائیں ہاتھی کی طرح جھومتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ ایسے میں راوی کو بہت کچھ یاد آنے لگتا ہے۔ اپنے بارے میں بات کرتے ہوئے اپنی یادیں تازہ کرتی ہے۔ جب وہ چھ سات سال کی بچی تھی وہ بہت لڑاکا تھی اُس کی بڑی بہنیں عاشق اکٹھے کررہی تھیں وہ لڑکے اور لڑکیوں سے جھگڑے کیا کرتی تھی۔ راوی کی ماں ہفتہ بھر کے لئے آگرہ جانے لگیں تو اُسے اپنی مونہہ بولی بہن بیگم جان کے پاس چھوڑ گئیں صرف راوی کے جھگڑالو ہونے کی وجہ سے اماں راوی کو بیگم جان کے حوالے کرگئیں جن کے تعلّق سے راوی کے ذہن میں لحاف کی یادیں موجود تھیں۔ بیگم جان غریب خاندان سے تھیں۔ اُن کی شادی جس نواب سے ہوئی وہ رنڈی بازی سے دُور تھے بلکہ حاجی تھے اور دوسروں کو حج بھی کرواتے تھے۔ اُن میں سب سے بڑا نقص یہ تھا کہ وہ پتلی پتلی کمروں والے لڑکے پالتے تھے۔ یہاں عصمت چغتائی نے ایک جملے میں قاری کو سارا معاملہ سمجھا دیا۔
’’بیگم جان سے شادی کرکے تو وہ انہیں کل سازو سامان کے ساتھ گھر میں رکھ کر بھول گئے۔‘‘
لڑکوں کے لئے مرغن حلوے اور لذیز کھانے بنتے تھے ۔بیگم جان دیوان خانے کی دراڑوں سے اُن کو دیکھ کر انگاروں پر لوٹتی تھیں۔ بیگم نے منتوں ، مرادوں ، چلّے بندھے ٹوٹکوں اور وظیفہ خوانی کا سہارا لیا مگر ناکام رہیں۔ وقت گذارنے کے لئے بیگم نے عشقیہ ناول اور جذباتی اشعار پڑھنا شروع کئے جن سے وہ اور پریشان ہو اُٹھیں۔ اب اُن کی راتوں کی نیند بھی گئی۔ بیگم پر کہیں آنے جانے پر بھی پابندی تھی اُن کے رشتہ دار ہی اُن کے ہاں پڑے رہتے ۔ حقیقت یہ کہ بیگم جان جوانی کی جنسی ضروریات سے پریشان رہتی تھیں کہ رَبّو نے انہیں سبھال لیا، ربّو ایک سیاہ فام اور تگڑی خادمہ تھی ، جو بیگم جان کے جسم پر ایک خاص تیل کی مالش کرتی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے بیگم کا سوکھا جسم بھرنا شروع ہو گیا۔ گال چمک اُٹھے اور حُسن کھل گیا۔
جب راوی نے بیگم جان کو دیکھا تو وہ چالیس بیالیس کی ہونگی وہ بڑی شان سے ربّو سے کمر دبوا رہی تھیں۔ اس کا مطلب یہ کہ راوی کی اینٹری سے پہلے ہی ربّو بیگم جان کے پاس جمی ہوئی تھی ۔راوی نے بیگم جان کے بارعب حُسن اور شان کی بے حد تعریف کی ہے اور خواہش ظاہر کی ہے کہ میرا جی چاہتا تھا کہ میں گھنٹوں اُن کے پاس بیٹھی رہوں ربّو کو گھر کا اور کوئی کام نہ تھا وہ سارے وقت اُن کی چھپر کھٹ پر چڑھی کبھی پیر، کبھی سراور کبھی جسم کے دوسرے حصوں کو دباتی رہتی تھی۔ غسل سے پہلے ربّو اُن کے جسم پر دو گھنٹہ پہلے خوشبو دار ابٹن کی مالش کرتی، کمرہ بند کر کے انگیٹھیاں سلگتیں اور مالش کا دور چلتا۔ کمرے میں عموماً صرف ربّو ہی رہتی باقی نوکرانیاں بڑ بڑاتی رہتیں دروازے پر سے ہی ضروریات کی چیزیں دیتیں جاتیں۔ بیگم جان کو کھجلی کا مرض تھا۔ ڈاکٹر حکیم تو کہتے تھے کہ جلد صاف ہے کوئی مرض نہیں۔ ربّو ہنس کر کہہ دیتی کہ یہ تو خون کی گرمی ہے۔ ربّو سے باقی ساری نوکرانیاں خار کھاتی تھیں ،کیوں کہ ربّو بیگم جان کے ساتھ کھاتی پیتی اُٹھتی بیٹھتی تھی اور ساتھ ہی سوتی تھی۔ یہ بات قابل غور ہے کہ ربّو اور بیگم جان عام جلسوں اور محفلوں کی دلچسپ گفتگو کا موضوع تھیں۔ راوی کہتی ہے کہ اُس وقت میں کافی چھوٹی تھی اور بیگم جان پر فدا تھی وہ مجھے بھی بہت پیار کرتی تھیں۔ رات کو سوال یہ اُٹھا کہ راوی کہاں سوئے۔۔۔۔۔۔؟ لہذا راوی کے لئے بیگم جان کے کمرے میں اُن کے پلنگ کے ساتھ ایک چھوٹی سی پلنگڑی ڈال دی گئی۔ رات کو گیارہ بجے تک بیگم جان راوی سے باتیں کرتی رہیں۔ پھر وہ سونے کے لئے اپنی پلنگڑی پر چلی گئی۔ ربّو جوں کی توں اُن کی پیٹھ کھجاتی رہی ۔ راوی کو بہت برا لگا اُس نے دل میں کہا۔ بھنگن کہیں کی ۔۔۔۔۔۔ رات کو راوی کی آنکھ کھل گئی ۔بیگم جان کا لحاف ایسے ہل رہا تھا جیسے اس میں ہاتھی بند ہو ۔راوی ڈر گئی ۔
بولی۔
’’بیگم جان۔۔۔۔۔۔ !!‘‘
ہاتھی ہلنا بند ہوگیا۔ لحاف نیچے دَب گیا۔ بیگم جان نے آواز دی ۔
’’کیا ہے ۔۔۔۔۔۔ ؟سو رہو۔۔۔۔۔۔ !!‘‘
راویہ بولی ۔
’’ڈر لگ رہا ہے ۔۔۔۔۔۔ !!‘‘
’’سو جائو۔۔۔۔۔۔ ڈر کی کیا بات ہے۔۔۔۔۔۔ ؟۔۔۔۔۔۔ آیت الکرسی پڑھ لو۔۔۔۔۔۔ !!‘‘
راویہ کہتی ہے۔
’’تمہارے پاس آجائو ں۔۔۔۔۔۔ بیگم جان۔۔۔۔۔۔ !!‘‘
بیگم جان سختی سے کہتی ہے۔
’’نہیں۔۔۔۔۔۔ ! سو رہو بیٹی ۔۔۔۔۔۔ !!‘‘
راویہ کہتی ہے کہ پھر دوآدمیوں کے کُھسر پُھسر کرنے کی آواز سنائی دی ۔ہائے رے یہ دوسرا کون۔۔۔۔۔۔ ؟ میں اور ڈر گئی ۔
راویہ پھر بیگم جان سے مخاطب ہوتی ہے۔
’’بیگم جان ۔۔۔۔۔۔ چور وور تو نہیں۔۔۔۔۔۔ !!‘‘
اس بار بیگم جان کی بجائے ربّو جواب دیتی ہے ۔
’’سو جائو بیٹا ۔۔۔۔۔۔ ! کیسا چور ۔۔۔۔۔۔ !؟‘‘
راوی کو یہاں اندازہ ہو جاتا ہے کہ بیگم جان کے ساتھ دوسرا اور کوئی نہیں ربّو ہی ہے۔
اس رات کا واقعہ لکھ کر افسانہ نگار نے جزیات نگاری کا کام لیا ہے ۔ظاہر ہے یہ افسانے کے اختتام کی بہت خوبصورت پیش بندی ہے ۔قاری کی فکر کو ایسی جزیات سے ایک جہت مل جاتی ہے کہ ربّو بیگم جان کے لحاف میں کیا کیا گل کھلاتی ہوگی ۔راویہ صبح ہوتے ہی رات کی بات بھول گئی۔ عصمت کا ایک جملہ اس قدر خوبصورت ہے کہ تعریف کئے بغیر نہیں رہا جاتا وہ یہ کہ ’’صبح کو لحاف بالکل معصوم نظر آرہا تھا۔‘‘
دوسری شب کا راوی چند جملوں میں رات کا حال کچھ اس طرح بیان کرتی ہے۔
دوسری رات میری آنکھ کھلی تو ربّو اور بیگم جان میں کچھ جھگڑا بڑی خاموشی سے چھپر کھٹ پر ہی طے ہو رہا تھا۔ جو میری خاک سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ کیا فیصلہ ہوا، ربّو ہچکیاں لے کر روئی پھر بلّی کی طرح سپڑ سپڑ رکابی چاٹنے جیسی آوازیں آنے لگیں ۔۔۔۔۔۔ اونہہ۔۔۔۔۔۔ ! میں تو گھبرا کر سو گئی۔
ان جملوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ربّو کو کسی کام کے لئے بیگم جان نے مجبور کیا۔ پہلے خاموش جھگڑا ہوتا رہا۔ ربّو کا ہچکیاں لے کر رونا۔ پھر کوئی فیصلہ ہو جانا ،ربّو کا رونا ظاہر کرتا ہے کہ بیگم جان کے کسی حکم سے اُس نے انکار کیا ہوگا جس کے لئے اُسے مجبور کیا جارہا تھا۔ راضی نامے کے بعد بلّی کی طرح سپڑ سپڑ رکابی چاٹنے کی آوازیں سنائی دینا۔ ہر بالغ قاری کی سمجھ میں آجاتا ہے۔ ربّو کا بیٹا بہت جھگڑالو تھا، بیگم جان نے اُسے بہت نوازہ تھا۔ ربّو اُس دن اپنے بیٹے کے پاس چلی گئی۔ بیگم جان ربّو کو جانے نہ دیتیں مگر ربّو مجبور تھی ۔ربّو کی غیر موجودگی میں بیگم جان پریشان رہیں نہ کھانا کھایا ۔ نہ انہوں نے کسی سے دبوایا۔ بس سارا دن اداس پڑی رہیں۔ تاش کے پتے بانٹتے ہوئے راوی پوچھ بیٹھی۔
’’میں کھجادوں ۔۔۔۔۔۔ بیگم جان ۔۔۔۔۔۔ !؟‘‘راوی تھوڑی دیر کھجاتی رہی۔ بیگم جان چپکی لیٹی رہی۔ ربّو دوسرے دن بھی نہ آئی۔ بیگم جان کا مزاج چڑ چڑا ہوگیا۔ راوی پھر اُس کی پیٹھ کھجانے لگی راوی کو بیگم جان کا کام کرکے خوشی مل رہی تھی ۔وہ راوی کو کہہ کر اُس کا ہاتھ اِدھراُدھر کرواتی رہیں اور ٹھنڈی سانسیں لینے لگیں۔ اِدھر سے اُدھر اوراُدھرسے اِدھر اور بیگم جان کا یہ مکالمہ ’’اوئی لڑکی ۔۔۔۔۔۔ دیکھ کر نہیں کھجاتی ۔۔۔۔۔۔ ؟میری پسلیاں نوچے ڈالتی ہے۔ ‘‘بیگم شرارت سے مسکرائیں اور راوی جھینپ گئی۔پھر بیگم جان راوی کو اپنے پاس لٹا کر اُس کی پسلیاں گننے لگیں۔ پھر بیگم جان نے اُسے بھینچا اور زور زور سے ہنسنے لگیں ۔ راوی نے اُس وقت کی جو بیگم جان کی تصویر کھینچی ہے۔ عصمت کا جواب نہیں۔ وہ جنس زدہ عورت مثلاً راوی کہتی ہے کہ اُن کے پپوٹے اور وزنی ہوگئے تھے ۔اوپر کے ہونٹوں پہ سیاہی اور گہری ہوگئی تھی ۔ باوجود سردی کے بیگم جان کے ماتھے پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں اور ناک پر چمک رہی تھیں۔ ان کے ہاتھ ٹھنڈے تھے۔ وہ مجھے مٹی کے کھلونے کی طرح بھینچ رہی تھی۔ میرا دل بولانے لگا ۔اُن پر تو جیسے بھتنا سوار تھا۔ تھوڑی دیر بعد وہ پست ہو کر نڈھال لیٹ گئیں ان کا چہرہ پھیکا اور بد رونق ہوگیا۔ وہ لمبی لمبی سانسیں لینے لگیں۔ میں سمجھی کہ اب مریں کہ اب ۔راوی نے شکر منایا کہ ربّو رات کو آگئی۔ اگلے دن صبح سے راوی بیگم جان سے خوف کھانے لگی۔ راوی کہتی ہے کہ میں بیگم جان کے کمرے میں نہیں گئی باہر گھومتی رہی۔ بیگم جان چلائیں کہ کیا لڑکی میرا سر منڈوائے گی جو کچھ ہو، ہو گیا اور آفت آئے گی ۔انہوں نے چائے بنانے کو کہا راوی اُن کے قریب نہیں جارہی تھی ۔چپ چاپ چائے پیتی رہی۔ جب بیگم جان راوی سے کوئی بات کریں تو راوی جواب دیتی گھر جائوں گی۔ راوی جیسے بیگم جان سے روٹھ گئی۔ سارے معاملے کو ربّو کے ایک جملے نے صاف کردیا ربّو نے کہا۔
’’کچّی امّیاں کٹھی ہوتی ہیں بیگم جان۔۔۔۔۔۔ !!‘‘بیگم جان پر جیسے دورہ پڑ گیا سونے کاہار ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ مہین جالی کا دوپٹہ تار تار کردیا۔ مانگ جھاڑ جھنکار ہوگئی۔ وہ جھٹکے لے لے کر چلّانے لگیں۔ راوی کمرے سے باہر چلی گئی۔ بڑے جتنوں سے بیگم جان کو ہوش آیا۔ جب راوی بیگم جان کے کمرے میں سونے کے لئے گئی تو ربّو ان کی کمر سے لگی جسم دبا رہی تھی۔ ربّو نے کہا جوتی اتاردو ، راوی چوہیا کی طرح لحاف میں دبک گئی ۔تھوڑی دیر بعد راوی نے کچھ آوازیں سُنیں، سَر سَر پھٹ، کچ، بیگم جان کا لحاف اندھیرے میں پھر ہاتھی کی طرح جھومنے لگا ۔راوی کی آواز نکلی۔
’’اﷲ ۔۔۔۔۔۔ !آں۔۔۔۔۔۔ !!‘‘
لحاف پُھد کا اور بیٹھ گیا ، راوی چپ ہوگئی ۔ہاتھی نے پھر لوٹ مچا دی اور راوی کا رواں رواں کانپ اُٹھا۔ راوی نے دل میں ٹھان لیا کہ وہ ہمت کرکے سرہانے لگا ہوا بلب جلادے گی۔ ہاتھی پھڑ پھڑانے لگا۔ چپڑ چپڑ کچھ کھانے کی آوازیں آرہی تھیں ۔جیسے کوئی مزے دار چٹنی کھا رہا ہو ۔لحاف پھر اُمڈنا شروع ہوا۔ راوی لحاف کی عجیب و غریب شکلیں دیکھ کر لرز گئی اور بولی۔
’’آں۔۔۔۔۔۔ !۔۔۔۔۔۔ امّاں۔۔۔۔۔۔ !!‘‘
مگر لحاف کو کوئی فرق نہ پڑا۔ راوی نے پلنگ کے دوسری طرف پیر اُتارے اور ٹٹول کر بجلی کا بٹن دبا دیا۔ہاتھی نے لحاف کے نیچے ایک قلا بازی کھائی اور پچک گیا۔ قلا بازی لگانے میں لحاف کا کونا فٹ بھر اُٹھا۔
’’اﷲ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ! میں غڑاپ سے اپنے بچھونے میں۔۔۔۔۔۔ !!‘‘
سیدھے سادے الفاظ میں معاملہ کل ملا کر یہ ہے کہ نواب صاحب کی بیگم جان میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ وہ لڑکوں سے اپنی جنسی تسکین حاصل کررہا تھا۔ بیگم جان جو جوان تھی خوبصورت تھی ،اچھی خوراک کھاتی مرد کے قرب کے بغیر بے چین تھی۔ اپنی جنسی تسکین کے راستے تلاش کرتی رہی۔ آخر اُسے رَبّو ملازمہ مل گئی جو اُس کے غم کا مداوا بن گئی یعنی اُسے جنسی تسکین سے ہم کنار کرنے لگی۔ عصمت چغتائی اور سعاوت حسن منٹو دونوں ہم عصر تھے۔منٹو بُو، ٹھنڈا گوشت اور دُھواں جیسے افسانوں کو لکھ کر مقبولیت کی انتہا پر پہنچ گئے تو لحاف کیسے مقبول نہ ہوتا۔ ایک مرد گندی گالی دے تو سننے والے پر اتنا اثر نہیں ہوتا جتنا وہی گالی ایک عورت کے مونہہ سے نکلے ظاہر ہے وہ اثر انداز ہوگی۔ منٹو رنگ میں ہم جنس پرستی کے موضوع پر تخلیق ہوئے اس افسانے کے وجود میں آنے کی شاید یہی وجہ رہی ہوگی۔ منٹو کے افسانوں کو فحش کہا گیاہے۔ اُن پر مقدمات بھی اسی وجہ سے دائیر ہوئے منٹو کے افسانوں میں جنسیات کی فلاسفی پیش کی گئی ہے جنسی فلاسفی کہ ایک جوان عورت کی مرد کے بغیر کیا حالت ہوتی ہے ۔اُس کی کیا کیفیت رہی ہوگی اس افسانے میں پیش کیا گیا ہے۔ منٹو کے افسانوں کو پڑھ کر ہمیں کہیں کراہت محسوس نہیں ہوتی۔مگر لحاف میں کئی بار قاری کو کراہت محسوس ہوتی ہے۔ لحاف ایک عورتیں اندر دو ایک جنسی بھوک کی ماری دوسری اُس کا مداوا۔ لحاف کا ہلنا، ہاتھی کا مچلنا وغیرہ قاری بات کو سمجھ جاتا ہے کہ لحاف کے اندر کیا ہوتا ۔پھر یہ جملے۔
’’پھر بلّی کی طرح سپڑ سپڑ رکابی چاٹنے جیسی آوازیں آنے لگیں۔۔۔۔۔۔ ‘‘
’’چپڑ چپڑ کچھ کھانے کی آوازیں آرہی تھیں۔ جیسے کوئی مزیدار چٹنی کھا رہا ہو۔‘‘
معاملے کو زیادہ شدید بنانے کے لئے یہ جملے استعمال کئے گئے ۔اگر یہ نہ بھی ہوتے بات کراہت محسوس کئے بغیر قاری کی سمجھ میں پوری طرح آجاتی۔ منٹو کے ہاں کم سے کم کراہت تو محسوس نہیں ہوتی۔ اُس کے ہاں اور کتنا پھینٹو گے۔ اب پتہ پھینک وغیرہ پڑھ کر کراہت محسوس نہیں ہوتی اکتاہت نہیں ہوتی۔
دوسری اور باتیں بھی ہیںجن کے بارے میںبات کی جاسکتی ہے۔ راوی کی امّاں بیگم جان کی مونہہ بولی بہن ہے ۔جب دو عورتیں آپس میں بہت زیادہ پیار کرنے لگیں تو وہ مونہہ بولی بہنیں بن جایا کرتی ہیں۔ مطلب یہ کے راوی کی امّان بیگم جان کو اور اُس کے جنسی پاگل پن کو ،ربّو کے ساتھ اُس کے عمل کو بخوبی جانتی تھیں۔ عصمت نے خود ہی لکھا ہے کہ ’’ربّو اور بیگم جان عام جلسوں اور محفلوں کی دلچسپ گفتگو کا موضوع تھیں۔‘‘جب بیگم جان اور ربّو کی کہانیاں گھر گھر میں پہونچ چکی تھیں، تو راوی کی امّاں نے اس کچّے ذہن کی چھوٹی بچی کو بیگم جان اور ربّو کے اُس گندے ماحول میں ایک ہفتے کے لئے کیوں چھوڑا ۔کوئی سمجھدار عورت اپنی چھوٹی بچی کو ایسے ماحول میں نہیں چھوڑ سکتی تھی۔مسئلہ تو لحاف کی کہانی کو بیان کر نے کا تھا، وہ کسی دوسری طرح بھی بیان ہوسکتی تھی۔ عصمت خود بھی راوی ہوسکتی تھیں۔ کیا ضروری تھا کہ ایک بچی ہی راوی ہوتی۔ ایک بات اور کھلتی ہے کہ ربّو بیگم جان کے احکام سے تنگ آکر ہچکیوں سے روتی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ربّو پر زبردستی دبائو ڈالا جارہا ہے گندے کام کے لئے ۔ربّو مجبوراً اس عمل سے گذر رہی ہے۔ بیگم جان ربّو کی غیر حاضری میں راوی کو استعما لکرتی ہے تو ربّو حَسد کی ماری یہ کہتی ہے کہ
’’کچّی امیاں کھٹّی ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔ بیگم جان۔۔۔۔۔۔ !!‘‘
افسانے کو شدت سے بھر پور بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ بیگم جان سے ربّو کو دو دن کے لئے جدا کردیا گیا۔ تا کہ بیگم جان کی ان دودنوں میں تشنگی بھڑک اُٹھے اُس کی جنسی بھوک میں شدّت آجائے۔ ظاہر ہے دو دنوں کی جدائی کے بعد جب ربّو بیگم جان کے ہاتھ آئی تو جنس زدہ بیگم جان کو احساس ہی نہ رہا کہ اُس کے کمرے میں ایک بچی بھی موجود ہے جو جاگ رہی ہے۔
اگر افسانے کی ساخت، زبان اور جملوں کا فن دیکھا جائے تو میں کہوں گا کہ عصمت ان معاملات میں اپنے بہت سے ہم عصروں سے بہت آگے تھیں۔ جملوں کی ساخت کی خوبصورتی ان کے ہاں بطور خاص ہے۔ ایک ہی جملہ لکھ کر پوری بات کو وضاحت کردینا یہ عصمت کے ہاں ہی دیکھنے کو ملا منٹو بھی ذاتی طور پر اس بات کو تسلیم کرتے تھے۔ منٹو کہتے ہیں۔
’’بیان میں الفاظ کی بقدر کفایت استعمال کرنا عصمت کی نمایاں خصوصیت ہے۔‘‘ (گنجے فرشتے)
گنجے فرشتے میں استاد منٹو نے ایک بہت دلچسپ واقعہ ’لحاف‘ کے حوالے سے لکھا ہے آپ کی دلچسپی کے لئے میں یہاں پیش کرتا ہوں۔ عصمت کا افسانہ لحاف ’ادب لطیف‘ میں شائع ہوا ۔اُس کے ایڈیٹر احمد ندیم قاسمی تھے۔ اگست ۱۹۴۲ء کی بات ہے کہ عصمت اپنے شوہر کے ساتھ ہفتہ وار مصّور کے دفتر میں منٹو سے ملیں تو منٹو نے اُن سے کہا۔
’’آپ کا افسانہ لحاف مجھے بہت پسند آیا۔تعجب ہے کہ اس افسانے کے آخر میں آپ نے ایک بے کار سا جملہ لکھ دیا۔ کہ ایک انچ لحاف میں میں نے کیا دیکھا کوئی مجھے لاکھ روپے بھی دے تو میں کبھی نہیں بتائوں گی۔۔۔۔۔۔ !‘‘
عصمت نے کہا کیا عیب ہے اس جملے میں منٹو لکھتے ہیں کہ جواب میں کچھ کہنے ہی والا تھا کہ مجھے عصمت کے چہرے پر وہی سمٹا ہوا حجاب نظر آیا۔ جو تمام گھریلو لڑکیوں کے چہرے پر ناگفتنی شے کے نام سن کر نمودار ہوا کرتا ہے۔ آگے استاد لکھتے ہیں کہ عصمت چلی گئی تو میں نے دل میں کہا۔
’’یہ تو کم بخت بالکل عورت نکلی۔۔۔۔۔۔ !‘‘
ایک بات یہاں سمجھ میں نہیں آئی،استاد منٹو نے گنجے فرشتے میں دوبار لکھا ہے کہ ایک انچ لحاف اُٹھا۔افسانوی مجموعہ’’ چوٹیں‘‘ میں افسانہ دیکھئے اُس میں عصمت نے لکھا ہے ایک فٹ لحاف کا کونا اُٹھا۔ بات بھی ایک فٹ سے ہی بنتی ہے ۔ایک انچ لحاف اُٹھنے سے کوئی اُس کے اندر کا حال کیا دیکھ پائے گا۔ یہاں لحاف کے کلائمیکس کے بارے میں تھوڑا کنفیوزن پیدا ہوتا ہے۔ استاد منٹو لکھتے ہیں آخری جملہ جس کو بے کار سا جملہ انہوں نے لکھا ہے۔
۱۔ایک انچ لحاف میں میں نے کیا دیکھا کوئی ایک لاکھ بھی دے تو میں کبھی نہ بتائوں۔‘‘
جبکہ چوٹیں میں شائع افسانے کا کلائی میکس اس طرح ہے۔
۲۔ قلابازیاں لگانے میں لحاف کا کونافٹ بھر اُٹھا۔۔۔۔۔۔ اﷲ۔۔۔۔۔۔ میں غڑاپ سے اپنے بچھونے میں۔
ہمارے سامنے دو اختتام ہیں۔اختتام (۱)کو استاد منٹو نے ناپسند فرمایا، اگر ایمانداری سے دیکھا جائے تو یہ اختتام بالکل اچھا نہیں۔ (ب) اختتام زیادہ بہتر ہے فٹ بھر لحاف میں نظر بھی آنا جائیز بات ہے۔ انچ بھر میں نظر نہیں آسکتا اور ایک لاکھ والی بات بھی عجیب لگتی ہے۔ تو کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ استاد منٹو کے اعتراض کے بعد عصمت نے آخری جملے کی اصلاح کرلی؟بہر حال افسانہ واقعی شاہکار افسانہ ہے ،جس میں ہر طرح کے لوازمات موجود ہیں۔ آج دنیا میں ہم جنس پرستی کی لعنت بڑھتی جارہی ہے کئی ممالکنے تو اسے قانون کی پناہ میں بھی لے لیا۔ہندوستان میںجائیز قرار دے دیا ہوتا اگر یہ ملک اس قدر مذہب پرست نہ ہوتا۔ ایک سروے کے مطابق ہندوستان ایک واحد ملک ہے جہاں سب سے زیادہ مذاہب کے ماننے والے بستے ہیں۔ بہر حال عصمت چغتائی نے اس لعنت پر سے پردہ اُس وقت اُٹھایا جب یہ کام چوری چھپے ہوا کرتے تھے۔ نواب صاحب کا ہم جنس پرستی کا شوق تھا ۔بیگم جان کی مجبوری تھی ۔اس خوبصورت افسانے کو بار بار پڑھ کر لطف اُٹھایا جاسکتا ہے۔
٭٭٭