ترلوچن نے پہلی مرتبہ ۔۔۔۔۔۔چار برسوں میں پہلی مرتبہ رات کو آسمان دیکھا تھا اور وہ بھی اس لئے اس کی طبیعت سخت گھبرائی ہوئی تھی اور وہ محض کھلی ہوا میں کچھ دیر سوچنے کے لئے اڈوانی چیمبرز کے ٹرس میں چلا آیا تھا۔
آسمان بالکل صاف تھا۔ بادلوں سے بے نیاز بہت بڑے خاکستری سبو کی طرح ساری بمبئی پر تنا ہوا تھا۔ حدِ نظر تک جگہ بتیاں روشن تھیں۔ ترلوچن نے ایسا محسوس کیا تھا کہ آسمان سے بہت سارے ستارے جھڑکر بلڈنگوں سے جو دولت کے دھیرے میں بڑے بڑے درخت معلوم ہوتی تھیں، اٹک گئے ہیں اور جگنوئوں کی طرح ٹمٹما رہے ہیں۔
ترلوچن کے لئے یہ بالکل ایک نیا تجربہ ، ایک نئی کیفیت تھی ۔۔۔۔۔۔رات کو کھلے آسمان کے نیچے ہونا ۔اس نے محسوس کیا کہ وہ چار برس تک اپنے فلیٹ میں قید رہا اور قدرت کی ایک بہت بڑی نعمت سے محروم ۔ قریب قریب تین بجے تھے۔ ہوا بے حد ہلکی پھلکی تھی۔ ترلوچن پنکھے کی میکانکی ہوا کا عادی تھا جو اس کے سارے وجود کو بوجھل کردیتی تھی۔ صبح اُٹھ کروہ ہمیشہ یوں محسوس کرتا تھا جیسے رات بھر اس کو مارا پیٹا گیا ہے۔ پر اب صبح کی قدرتی ہوا میں اس کے جسم کارواں رواں تازگی چوس کر خوش ہو رہا تھا۔ جب وہ اوپر آیا تھا تو اس کا دل و دماغ سخت مضطرب اور ہیجان زدہ تھا لیکن آدھے گھنٹے میں وہ اضطراب اور ہیجان جو اس کو بہت تنگ کررہاتھا کسی حد تک ٹھنڈا ہو گیا تھا اور اب صاف طور پر سوچ سکتا تھا۔
کرپال کور اور اس کا سارا خاندان۔۔۔۔۔۔محلے میں تھا جو کٹّڑ مسلمانوں کا مرکز تھا۔ یہاں کئی مکانوں کو آگ لگ چکی تھی۔ کئی جانیں تلف ہوچکی تھیں۔ ترلوچن ان سب کولے آیا ہوتا مگر مصیبت یہ تھی کہ کرفیو نافذ ہو گیا تھا اور وہ بھی نجانے کتنے گھنٹوں کا۔۔۔۔۔۔غالباً اڑتالیس گھنٹوں کا ۔۔۔۔۔۔اور ترلوچن لازماً مغلوب تھا۔ آس پاس سب مسلمان تھے بڑے خوفناک مسلمان تھے اور پنجاب سے دھڑا دھڑ خبریں آرہی تھیںکہ وہاں سکھ مسلمانوں پر بہت ظلم ڈھا رہے ہیں۔ کوئی بھی ہاتھ ۔۔۔۔۔۔مسلمان ہاتھ بڑی آسانی سے نرم و نازک کرپال کور کی کلائی پکڑ کر موت کے کنویں کی طرف لے جاسکتا تھا۔
کرپال کی ماں اندھی تھی۔ باپ مفلوج، بھائی تھا وہ کچھ عرصہ سے دیولالی میں تھا کہ اسے وہاں اپنے تازہ تازہ لئے ٹھیکے کی دیکھ بھال کرنا تھی۔
ترلوچن کوکرپال کے بھائی نرنجن پر بہت غصّہ آتا تھا۔ اس نے جو کہ ہر روز اخبار پڑھتا تھا، فسادات کی تیزی و تندہی کے متعلق ہفتہ بھر پہلے آگاہ کردیا تھا اور صاف لفظوں میں کہہ دیا تھا:
’’نرنجن !یہ ٹھیکے ویکے ابھی رہنے دو ۔ہم ایک بہت ہی نازک دور سے گزررہے ہیں۔ تمہارا اگرچہ رہنا بہت ضروری ہے لیکن یہاں سے اٹھ جائو اور میرے یہاں چلے آئو۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جگہ کم ہے لیکن مصیبت کے دنوں میں آدمی کسی نہ کسی طرح گزارہ کرلیا کرتا ہے۔‘‘
مگر وہ نہ مانا۔ اس کا اتنا بڑا لیکچر سن کر صرف اپنی گھنی مونچھوں میں مسکرا دیا۔
’’یار تم خواہ مخواہ فکر کرتے ہو۔۔۔۔۔۔میں نے یہاں ایسے کئی فساد دیکھے ہیں۔ یہ امرتسر یا لاہور نہیں بمبئے ہے۔۔۔۔۔۔بمبے ۔تمہیں یہاں آئے ہوئے صرف چار برس ہوئے ہیں اور میں بارہ برس سے یہاں رہ رہا ہوں۔۔۔۔۔۔بارہ برس سے ۔۔۔۔۔۔‘‘
جانے نرنجن بمبئی کو کیا سمجھتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ یہ ایسا شہر ہے اگر شہر ہے اگر فساد برپا بھی ہوں تو ان کا اثر خود بخودزائیل ہوجاتا ہے جیسے اس کے پاس چھومنتر ہے۔۔۔۔۔۔یادہ کہانیوں کا کوئی ایسا قلعہ ہے جس پر کوئی آفت نہیں آسکتی ۔ مگر ترلوچن صبح کو ٹھنڈی ہوا میں صاف دیکھ رہا تھا کہ۔۔۔۔۔۔محلہ بالکل محفوظ نہیں۔ وہ تو صبح کے اخباروں میں یہ پڑھنے کے لئے تیارتھا کرپال کو ر اور اس کے ماں باپ قتل ہوچکے ہیں۔
اس کو کرپال کور کے مفلوج باپ اور اس کی اندھی ماں کی کوئی پروا نہیں تھی۔ وہ مر جاتے اور کرپال کور بچ جاتی تو ترلوچن کے لئے اچھا تھا۔۔۔۔۔۔وہاں دیو لالی میں اس کا بھائی نرنجن بھی مارا جاتا تو اور بھی اچھا تھا کہ ترلوچن کے لئے میدان صاف ہو جاتا ۔ خاص طور پر نرنجن اس کے راستے کاروڑا ہی نہیں بہت بڑا کھنگھر تھا۔ چنانچہ جب کبھی کرپال کور سے اس کی بات ہوتی تو وہ اسے نرنجن سنگھ کی بجائے کھنگھر سنگھ کہتا۔
صبح کی ہوا دھیرے دھیرے بہہ رہی تھی۔۔۔۔۔۔ترلوچن کا کیسوں سے بے نیازسر میں بڑی خوشگوار ٹھنڈک محسوس کررہا تھا۔ مگر اس کے اندر بے شمار اندیشے ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرا رہے تھے۔۔۔۔۔۔کرپال کور نئی نئی اس کی زندگی میں داخل ہوتی تھی۔ وہ یوں تو مٹے کٹک کھنگھرو سنگھ کی بہن تھی مگر بہت ہی نرم و نازک اور لچکیلی تھی۔ اس نے دیہات میں پرورش پائی تھی۔ وہاں کی گئی گرمیاں سردیاں دیکھی تھیں مگر اس میں وہ سختی ، وہ گٹھائو وہ مردانہ پن نہیں تھا جو دیہات کی عام سکھ لڑکیوں میں ہوتا ہے جنہیں کڑی کڑکڑاتی مشقت کرنی پڑتی ہے۔
اس کے نقش پتلے پتلے تھے جیسے ابھی نامکمل ہیں۔ چھوٹی چھوٹی چھاتیاں تھیں جن پر بالائیوں کی چند اور تہیں چڑھنے کی ضرورت تھی ۔عام سکھ دیہاتی لڑکیوں کے مقابلے میں اس کا رنگ گورا تھا مگر کورے مٹھے کی طرح اور بدن چکنا تھا جس طرح مرسی رازڈکپڑے کی سطح ہوتی ہے۔ بے حد شرمیلی تھی۔
ترلوچن اسی کے گائوں کا تھا مگر زیادہ دیر وہاں رہا نہیں تھا۔ پرائمری سے نکل کر جب وہ شہر کے ہائی سکول میں گیا تو بس پھر وہیں کا ہو کے رہ گیا۔ سکول سے فارغ ہوا تو کالج کی تعلیم شروع ہوگئی۔ اس دوران مین وہ کئی مرتبہ ۔۔۔۔۔۔لاتعداد مرتبہ اپنے گائوں گیا مگر اس نے کرپال کور کے نام کی کسی لڑکی کا نام تک نہ سنا تھا ۔شاید اس لئے کہ وہ ہر بار اس افراتفری میں رہتا تھا کہ جلد از جلد واپس شہر پہنچے۔کالج کازمانہتھا بہت پیچھے رہ گیا تھا۔ اڈوانی چیمبر ز کے ٹیریس اور کالج کی عمارت میں غالباً دس برس کا فاصلہ تھا اور یہ فاصلہ ترلوچن کی زندگی کے عجیب و غریب واقعات سے پُر تھا۔ برما، سنگا پور ، ہانگ کانگ،۔۔۔۔۔۔ پھر بمبئی ،جہاں وہ چار برس سے مقیم تھا۔
ان چار برسوں میں اس نے پہلی مرتبہ رات کو آسمان کی شکل دیکھی تھی جو بری نہیں تھی خاکستری رنگ کے تنبو کی چھت میں ہزار ہا دئیے روشن تھے اور ہوا ٹھنڈی اور ہلکی پھلکی تھی۔
کرپال کور کو سوچتے سوچتے وہ موذیل کے متعلق سوچنے لگا۔ اس یہودی لڑکی کے بارے میں جو اڈوانی چیمبرز میں رہتی تھی، اس سے ترلوچن کو گوڈے گوڈے عشق ہوگیا تھا۔ایسا عشق جو اس نے اپنی ۲۵ برس کی زندگی میں کبھی نہیں کیا تھا۔
جس دن اس نے اڈوانی چیمبرز میں اپنے ایک عیسائی دوست کی معرفت دوسرے مالے پر فلیٹ لیا اسی دن اس کی مڈبھیڑ موذیل سے ہوئی۔ جو پہلی نظر میں اسے خوفناک طور پر دیوانی معلوم ہوئی تھی۔ کٹے ہوئے بھورے بال اس کے سر پر پریشان تھے ۔بیحد پریشان ۔ ہونٹوں پر لپ سٹک یوں جمی تھی جیسے گاڑھا خون اور وہ بھی جگہ جگہ سے چٹخی ہوئی تھی۔ ڈھیلا ڈھیلا لمبا سفید چغہ پہنے تھی جس کے کھلی گریبان سے اس کی نیل پڑی بڑی بڑی چھاتیاں چوتھائی کے قریب نظر آرہی تھیں، باہیں جو کہ ننگی تھیں مہین مہین بالوں سے اٹی ہوئی تھیں جیسے وہ ابھی ابھی کسی سیلون سے بال کٹوا کے آئی ہے اور ان کی ننھی ننھی ہوائیاں ان پر جم گئی ہیں۔
ہونٹ اتنے موٹے نہیں تھے مگر گہرے عنابی رنگ کی لپ سٹک کچھ اس انداز سے لگائی گئی تھی کہ وہ موٹے نہیں تھے مگر گہرے عنابی رنگ کی لپ سٹک کچھ اس انداز سے لگائی گئی تھی کہ وہ موٹے اور بھینسے کے گوشت کے ٹکڑے معلوم ہوتے تھے۔
ترلوچن کا فلیٹ اس کے فلیٹ کے بالکل سامنے تھا۔ بیچ مین ایک تنگ گلی تھی۔ بہت ہی تنگ۔۔۔۔۔۔جب ترلوچن اپنے فلیٹ میں داخل ہونے کے لئے آگے بڑھا تو موذیل باہر نکلی ۔ کھڑائوں پہنے تھی۔ ترلوچن ان کی آواز سن کررک گیا۔ موذیل نے اپنے پریشان بالوں کی چقوں میں سے بڑی بڑی آنکھوں سے ترلوچن کی طرف دیکھا اور ہنسی۔
ترلوچن بوکھلا گیا۔
جیب سے چابی نکال کر وہ جلدی سے دروازے کی جانب بڑھا۔ موذیل کی ایک کھڑائوں سیمنٹ کے چکنے فرش پر پھسلی اور اس کے اوپر آرہی۔
جب ترلوچن سنبھالا تو موذیل اس کے اوپر تھی۔
کچھ اس طرح کا لمبا چغہ اوپر چڑھ گیا تھا اور اس کی دو ننگی ۔۔۔۔۔۔بڑی تگڑی ٹانگیں اس کے اِدھر اُدھر تھیں اور ۔۔۔۔۔۔جب ترلوچن نے اٹھنے کی کوشش کی تو وہ بوکھلاہٹ میں کچھ اس طرح موذیل ۔۔۔۔۔۔ساری موذیل سے الجھا جیسے وہ صابن کی طرح اس کے سارے بدن پر پھر گیا ہے۔
جب ترلوچن نے ہانپتے ہوئے مناسب و موزوں الفاظ میں اس سے معافی مانگی۔ موذیل نے اپنا لبادہ ٹھیک کیا اور مسکرا دی۔
’’یہ کھڑائون ایک دم کنڈم چیز ہے ۔۔۔۔۔۔‘‘
اور وہ اتری ہوئی کھڑائوں میں اپنا انگوٹھا اور اس کے ساتھ والی انگلی پھنساتی کو ریڈور سے باہر چلی گئی۔
ترلوچن کا خیال تھا کہ موذیل سے دوستی پیدا کرنا شاید مشکل ہو لیکن وہ بہت ہی تھوڑے عرصے میں اسے گھل مل گئی۔ لیکن ایک بات تھی کہ وہ بہت خود سر تھی۔ وہ ترلوچن کو کبھی خاطر میں نہیں لاتی تھی۔ اس سے کھاتی تھی۔ اسے سے پیتی تھی۔ اس کے ساتھ سینما جاتی تھی۔ سارا دن اس کے جو ہو پر نہاتی تھی لیکن جب وہ باہوں اور ہونٹوں سے کچھ اور آگے بڑھنا چاہتا تو وہ اسے ڈانٹ دیتی۔ کچھ اس طور پر اسے گھر کتی کہ اس کے سارے ولولے اس کی داڑھی اور مونچھوں میں چکر کاٹتے رہ جاتے۔
ترلوچن کو پہلے کسی کے ساتھ محبت نہیں تھی۔ لاہور میں، برما میں، سنگا پور میں، وہ لڑکیاں کچھ عرصے کے لئے خرید لیا کرتا تھا۔اس کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ بمبئے پہنچتے ہی وہ ایک نہایت الہڑ قسم کی یہودی لڑکی کے عشق میں گوڈے گوڑے دھنس جائے گا۔ وہ اس سے کچھ عجیب قسم کی بے اعتنائی اور بے التفاتی برتتی تھی۔ اس کے کہنے پر فوراً سج بن کر سینما جانے پر تیار ہو جاتی تھی مگر جب وہ اپنی سیٹ پر بیٹھتے تو ادھر ادھر نگاہیں دوڑانا شروع کردیتی ۔ کوئی اس کا شناسا نکل آتا تو زور سے ہاتھ ہلاتی اور ترلوچن سے اجازت لئے بغیر اس کے پہلو میں جا بیٹھتی ۔
ہوٹل میں بیٹھتے ہیں، ترلوچن نے خاص طور پر موذیل کے لئے پُر تکلف کھانے منگوائے ہیں۔مگر اس کو کوئی پرانا دوست نظر آگیا ہے اور وہ نوالہ چھوڑ کر اس کے پاس جا بیٹھی ہے اور ترلوچن کے سینے پر مونگ دل رہی ہے۔
ترلوچن بعض اوقات بھنّا جاتا تھا کیونکہ وہ اسے قطعی طور پر چھوڑ کر اپنے ان پرانے دوستوں اور شناسائوں کے ساتر چلی جاتی تھی اور کئی کئی دن اس سے ملاقات نہ کرتی تھی۔ کبھی سر درد کا بہانہ، کبھی پیٹ کی خرابی کا ، جس کے متعلق ترلوچن کو اچھی طرح معلوم تھا کہ فولاد کی طرح سخت ہے اور کبھی خراب نہیں ہوسکتا۔
جب اس سے ملاقات ہوتی تو وہ اس سے کہتی۔
’’تم سکھ ہو ۔۔۔۔۔۔یہ نازک باتیں تمہاری سمجھ میں نہیں آسکتیں۔‘‘
ترلوچن جل بھن جاتا اور پوچھتا۔
’’کون سی نازک باتیں ۔۔۔۔۔۔تمہارے پرانے یاروں کی ۔۔۔۔۔۔‘‘
موذیل دونوں ہاتھ اپنے چوڑے چکلے کولہوں پر ٹکا کر اپنی تگڑی ٹانگین چوڑی کردیتی اور کہتی:
’’ یہ تم مجھے ان کے طعنے کیا دیتے ہو ۔۔۔۔۔۔ہاں وہ میرے یار ہیں ۔۔۔۔۔۔اور مجھے اچھے لگتے ہیں ۔۔۔۔۔۔تم جلتے ہو ۔۔۔۔۔۔تو جلتے ر ہو۔‘‘
ترلوچن بڑے وکیلانہ انداز میں پوچھتا:
’’اس طرح تمہاری میری کس طرح نبھے گی ۔۔۔۔۔۔‘‘
موذیل زور کا قہقہہ لگاتی ۔
’’تم سچ مچ سکھ ہو ۔۔۔۔۔۔ایڈیٹ، تم سے کس نے کہا ہے کہ میرے ساتھ نبھائو ۔۔۔۔۔۔اگر نبھانے کی بات ہے تو جائو اپنے وطن میں کسی سکھنی سے شادی کرلو ۔۔۔۔۔۔میرے ساتھ تو اسی طرح چلے گا ۔۔۔۔۔۔‘‘
ترلوچن نرم ہو جاتا ۔دراصل موذیل اس کی زبردست کمزوری بن گئی تھی۔ وہ ہر حالت میں اس کی قربت کا خواہشمند تھا۔ اس میں میں کوئی شک نہیں کہ موذیل کی وجہ سے اکثر اس کی توہین ہو تی تھی۔ معمولی معمولی کرسٹان لونڈوں کے سامنے جن کی کوئی حقیقت ہی نہیں تھی اسے خفیف ہونا پڑتا تھا مگر دل سے مجبور ہو کر اس نے یہ سب کچھ برداشت کرنے کا تہیہ کرلیا تھا۔
عام طور پر توہین اور ہتک کا ردِ عمل انتقام ہوتا ہے مگر ترلوچن کے معاملے میں ایسا نہیں تھا۔ اس نے اپنے دل و دماغ کی بہت سی آنکھیں میچ لی تھیں اور کانوں میں روئی ٹھونس لی تھی۔
اس کو موذیل پسند تھی۔
پسند ہی نہیں جیسا کہ وہ سپنے دوستوں سے کہا کرتا تھا۔’’گوڈے گوڈے ‘‘ اس کے عشق میں دھنس گیا تھا۔ اب اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا کہ اس کے جسم کا جتنا حصّہ باقی رہ گیا ہے وہ بھی اس عشق کی دلدل میں چلا جائے اور قصّہ ختم ہو ۔
دو برس تک وہ اسی طرح خوار ہوتا رہا لیکن ثابت قدم رہا۔ آخر ایک روز جب کہ موذیل موج میں تھی، اپنے بازئووں میں سمیٹ کر پوچھا:
’’موذیل ۔۔۔۔۔۔کیا تم مجھ سے محبت کرتی ہو۔۔۔۔۔۔‘‘
موذیل اس کے بازئووں سے جدا ہوگئی اور کرسی پر بیٹھ کر اپنے فراک کا گھیرا دیکھنے لگی۔ پھر اس نے اپنی موٹی موٹی یہودی آنکھیں اٹھائیں اور گھنی پلکیں چھپکا کر کہا:
’’میں سکھ سے محبت نہیں کرسکتی۔۔۔۔۔۔‘‘
ترلوچن نے ایسا محسوس کیا کہ پگڑی کے نیچے اس کے کیسوں میں کسی نے دہکتی ہوئی چنگاریاں رکھ دی ہیں۔ اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی ۔
’’موذیل ! تم ہمیشہ میرا مذاق اڑاتی ہو۔۔۔۔۔۔یہ میرا مذاق نہیں میری محبت کا مذاق ہے۔‘‘
موذیل اٹھی او ر اس نے اپنے بھورے ترشے ہوئے بالوں کو ایک دلفریب جھٹکا دیا:
’’تم شیو کرا لوا ور اپنے سر کے بال کھلے چھورڑدو۔۔۔۔۔۔تو میں شرط لگاتی ہوں کئی لونڈے تمہیں آنکھ ماریں گے۔۔۔۔۔۔تم خوبصورت ہو۔۔۔۔۔۔‘‘
ترلوچن کے کیسوں میں مزید چنگاریاں پڑ گئیں۔ اس نے آگے بڑھ کر زور سے موذیل کو اپنی طرف گھسیٹا اور اس کے عنابی ہونٹوں میں اپنے مونچھوں بھرے ہونٹ پیوست کردئیے۔
موذیل نے ایک دم پھوں پھوں کی اور اس کی گرفت سے علیحدہ ہوگئی۔
’’میں صبح اپنے دانتوں پربرش کرچکی ہوں۔۔۔۔۔۔تم تکلیف نہ کرو۔۔۔۔۔۔‘‘
ترلوچن چلّایا۔ ’’موذیل!‘‘
موذیل وینٹی بیگ سے ننھا سا آئینہ نکال کر اپنے ہونٹ دیکھنے لگی جس پر لگی ہوئی گاڑھی لپ سٹک پر خراشیں آ گئی تھیں۔
’’خدا کی قسم ۔۔۔۔۔۔تم اپنیداڑھی اور مونچھوں کا صحیح استعمال نہیں کرتے۔۔۔۔۔۔ان کے بال ایسے اچھے ہیں کہ میرا نیوی بُلو سکرٹ بہت اچھی طرح صاف کرسکتے ہیں۔۔۔۔۔۔بس تھوڑا سا پٹرول لگانے کی ضرورت ہوگی۔‘‘
ترلوچن غصّے کی اس انتہا تک پہنچ چکا تھا جہان وہ بالکل ٹھنڈا ہوگیا تھا ۔آرام سے صوفے پر بیٹھ گیا ۔موذیل بھی آگئی اور اس نے ترلوچن کی داڑھی کھولنی شروع کردی۔۔۔۔۔۔اس میں جو پنیں تھیں وہ اس نے ایک ایک کرکے اپنے دانتوں تلے دبا لیں۔
ترلوچن خوبصورت تھا۔ جب اس کے داڑھی مونچھ نہیں اگی تھی تو واقعی لوگ اس کے کھلے کیسوں کے ساتھ دیکھ کر دھوکا کھا جاتے تھے کہ وہ کوئی کم عمر خوبصورت لڑکی ہے مگر بالوں کے اس انبار نے اب اس کے تمام خدو خال جھاڑیوں کے مانند اندر چھپا لئے تھے۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ ان چیزوں کو اپنے وجود سے الگ کردے جن سے اس کے مذہب کی ظاہری تکمیل ہوتی تھی۔
جب داڑھی پوری کھل گئی اور اس کے سینے پر لٹکنے لگی تو اس نے موذیل سے پوچھا۔
’’یہ تم کیا کررہی ہو۔۔۔۔۔۔‘‘
دانتوں میں پنیں دبائے وہ مسکرائی:
’’تمہارے بال بہت ملائم ہیں ۔۔۔۔۔۔میرا اندازہ غلط تھا کہ ان سے میرا نیوی بُلو سکرٹ صاف ہو سکے گا۔۔۔۔۔۔تولوچ ۔۔۔۔۔۔تم یہ مجھے دیدو ۔میں انہیں گوندھ کر اپنے لئے ایک فسٹ کلاس بٹوا بنائوں گی۔‘‘
اب ترلوچن کی داڑھی میں چنگاریاںبھڑکنے لگیں۔ وہ بڑی سنجیدگی سے موذیل سے مخاطب ہوا:
’’میں نے آج تک تمہارے مذہب کا مذاق نہیں اڑایا۔۔۔۔۔۔ تم کیوں اڑاتی ہو۔۔۔۔۔۔دیکھو کسی کے مذہبی جذبات سے کھیلنا اچھا نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔میں یہ کبھی برداشت نہ کرتا مگر صرف اس لئے کرتا ہوں کہ تم سے مجھے بے پناہ محبت ہے۔۔۔۔۔۔کیا تمہیں اس کا پتہ نہیں۔۔۔۔۔۔‘‘
موذیل نے ترلوچن کی داڑھی سے کھیلنا بند کردیا:
’’مجھے معلوم ہے۔‘‘
’’پھر ‘‘ترلوچن نے اپنی داڑھی کے بال بڑی صفائی سے تہ کئے اور موذیل کے دانتوں سے پنیں نکال لیں۔ تم اچھی طرح جانتی ہو کہ میری محبت بکواس نہیں۔۔۔۔۔۔میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔‘‘
’’مجھے معلوم ہے ۔۔۔۔۔۔‘‘بالوں کو ایک خفیف سا جھٹکا دے کر وہ اٹھی اور دیوار سے لٹکی ہوئی تصویر کی طرف دیکھنے لگی۔
’’میں بھی قریب قریب یہی فیصلہ کرچکی ہوں کہ تم سے شادی کروں گی۔۔۔۔۔۔‘‘
ترلوچن اچھل پڑا۔
’’سچ۔۔۔۔۔۔‘‘
موذیل کے عنابی ہونٹ بڑی موٹی مسکراہٹ کے ساتھ کھلے اور اس کے سفید مضبوط دانت ایک لحظے کے لئے چمکے:
’’ہاں۔۔۔۔۔۔‘‘
ترلوچن نے اپنی نصف لپٹی ہوئی داڑھی ہی سے اس کو اپنے سینے کے ساتھ بھیج لیا۔
’’تو۔۔۔۔۔۔کب۔۔۔۔۔۔‘‘
موذیل الگ ہٹ گئی۔
’’جب ۔۔۔۔۔۔جب تم اپنے یہ بال کٹوا دو گے۔‘‘
ترلوچن اس وقت ’’جوہو سو ہو‘‘اس نے کچھ نہ سوچا اور کہہ دیا۔
’’میں کل ہی کٹوا دوں گا۔۔۔۔۔۔‘‘
موذیل فرش پر ٹیپ ڈانس کرنے لگی۔
’’تم بکواس کرتے ہو تر لوچ ۔۔۔۔۔۔تم میں اتنی ہمّت نہیںہے۔‘‘
اس نے ترلوچن کے دل و دماغ سے مذہب کے رہے سہے خیال کو نکال باہر پھینکا۔
’’تم دیکھ لوگی۔۔۔۔۔۔‘‘
’’دیکھ لوں گی۔۔۔۔۔۔‘‘
اور وہ تیزی سے آگے بڑھی ۔ترلوچن کی مونچھوں کو چوما اور پھوں پھوں کرتی باہر نکل گئی۔
ترلوچن نے رات بھر کیا سوچا۔۔۔۔۔۔وہ کن کن اذیتوں سے گزرا، اس کا تذکرہ فضول ہے، اس لئے کہ دوسرے روز اس نے فورٹ میں اپنے کیس کٹوا دئیے اور داڑھی بھی منڈوا دی۔
یہ سب کچھ ہوتا رہا اور وہ آنکھیں میچے رہا۔
جب سارا معاملہ صاف ہو گیا تو اس نے آنکھیں کھولیں اور دیر تک اپنی شکل آئینے میں دیکھتا رہا جس پر بمبئی کی حسین سے حسین لڑکی بھی کچھ دیر کے لئے غور کرنے پر مجبور ہو جاتی۔
ترلوچن وہی عجیب و غریب ٹھنڈک محسوس کرنے لگا جو سیلون سے باہر نکل کر اس کو لگی تھی ۔اس نے ٹیریس پر تیز تیز چلنا شروع کردیا جہاں ٹینکیوں اور نلوں کا ایک ہجوم تھا ۔وہ چاہتا تھا کہ اس داستان کا بقایا حصہ اس کے دماغ میں نہ آئے۔ مگر وہ آئے بن نہ رہا۔
بال کٹوا کر وہ پہلے دن گھر سے باہر نہیں نکلا تھا۔ اس نے اپنے نوکر کے ہاتھ دوسرے روز چٹ موذیل کو بھیجی کہ اس کی طبیعت ناساز ہے۔ تھوڑی دیر کے لئے آجائے۔ ترلوچن کو بالوں کے بغیر دیکھ کر پہلے وہ ایک لخطے کے لئے ٹھٹکی۔ پھر ’’مائی ڈارلنگ ترلوچن ‘‘ کہہ کر اس کے ساتھ لپٹ گئی اور اس کا سارا چہرہ عنابی کردیا۔
اس نے ترلوچن کے صاف اور ملائم گالوں پر ہاتھ پھیرا۔ اس کے چھوٹے انگریزی وضع کے کٹے ہوئے بالوں میں اپنی انگلیوں سے کنگھی کی اور عربی زبان میں نعرے مارتی رہی۔ اس نے اس قدر شور مچایا کہ اس کی ناک سے پانی بہنے لگا۔۔۔۔۔۔موذیل نے جب اسے محسو س کیا تو اپنی سکرٹ کا گھیرا اٹھایااور پونچھنا شروع کردیا۔۔۔۔۔۔ترلوچن شرما گیا۔ اس نے سکرٹ نیچی کی اور سرزنش کے طور پر اس نے کہا۔
’’نیچے کچھ پہن تو لیا کرو۔۔۔۔۔۔‘‘
موذیل پر اس کا کچھ اثر نہ ہوا۔ باسی اور جگہ جگہ سے اکھڑی ہوئی لپ سٹک لگے ہونٹوں سے مسکرا کر اس نے صرف اتنا ہی کہا۔
’’مجھے بڑی گھبراہٹ ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔ایسے ہی چلتا ہے۔۔۔۔۔۔‘‘
ترلوچن کو وہ پہلا دن یاد آگیا جب وہ اور موذیل ٹکا گئے تھے اور آپس میں کچھ عجیب طرح گڈ مڈ ہوگئے تھے۔
مسکرا کر اس نے موذیل کو اپنے سینے کے ساتھ لگا لیا۔
’’شادی کل ہوگی۔‘‘
’’ضرور۔۔۔۔۔۔‘‘موذیل نے ترلوچن کی ملائم ٹھوڑی پر اپنے ہاتھ کی پشت پھیری ۔
طے یہ ہوا کہ شادی پونے میں ہو۔ چونکہ سول میرج تھی اس لئے ان کو دس پندر ہ دن کا نوٹس دینا تھا۔ عدالتی کاروائی تھی اس لئے مناسب یہی خیال کیا گیا کہ پونہ بہتر ہے۔ پاس ہے اور ترلوچن کے وہاں کئی دوست بھی ہیں ۔دوسرے روز انہیں پروگرام کے مطابق روانہ ہوجانا تھا۔
موذیل، فورٹ کے ایک سٹور میں سیلز گرل تھی۔ اس سے کچھ فاصلے پر ٹیکسی سٹینڈ تھا۔ بس یہیں موذیل نے اس کو انتظار کرنے کے لئے کہا تھا۔
ترلوچن وقت مقررہ پر وہاں پہنچا۔ ڈیڑھ گھنٹہ انتظار کرتا رہا مگر وہ نہ آئی۔
دوسرے روز اسے معلوم ہوا کہ وہ اپنے ایک پرانے دوست کے ساتھ جس نے تازہ تازہ موٹر خریدی ہے دیولالی چلی گئی ہے اور ایک غیر معین عرصے کے لئے وہیں رہے گی۔
ترلوچن پر کیا گزری؟۔۔۔۔۔۔یہ ایک بڑی لمبی کہانی ہے۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ اس نے جی کڑا کیا اور اس کو بھول گیا ۔اتنے میں اس کی ملاقات کرپال کور سے ہوگئی اور وہ اس سے محبت کرنیلگا اور تھوڑے ہی عرصے میں اس نے محسوس کیا کہ موذیل بہت واہیات لڑکی تھی جس کے دل کے ساتھ پتھر لگے ہوئے ہیں اور جو چڑوں کے مانند ایک جگہ سے دوسری جگہ پھدکتا رہتا تھا۔ اس احساس سے اس کو ایک گو نہ تسکین ہوتی تھی کہ وہ موذیل سے شادی کرنے کی غلطی نہ کر بیٹھا تھا۔
لیکن اس کے باوجود کبھی کبھی موذیل کی یاد ایک چٹکی کے مانند اس کے دل کو پکڑ لیتی تھی اور پھر چھوڑ کر کد کڑے لگاتی غائب ہو جاتی تھی۔
وہ بے حیا تھی۔۔۔۔۔۔بے مروّت تھی۔۔۔۔۔۔ اس کو کسی کے جذبات کا پاس نہیں تھا۔پھر بھی وہ ترلوچن کو پسند تھی۔ اس لئے کبھی کبھی وہ اس کے متعلق سوچنے پر مجبور ہوجاتا تھا کہ وہ دیولالی میں اتنے عرصے سے کیا کررہی ہے۔ اسی آدمی کے ساتھ ہے جس نے نئی نئی کار خریدی تھی یا اسے چھوڑ کر کسی اور کے پاس چلی گئی ہے۔ اس کو اس خیال سے سخت کوفت ہوتی تھی کہ وہ اس کے سوا کسی اور کے پاس ہوگی۔ حالانکہ اس کو موذیل کے کردار کا بخوبی علم تھا۔
وہ اس پر سینکڑوں نہیں ہزاروں روپے خرچ کرچکا تھا لیکن اپنی مرضی سے، ورنہ موذیل مہنگی نہیں تھی۔ اس کو بہت سستی قسم کی چیزیں پسند آتی تھیں۔ ایک مرتبہ ترلوچن نے اسے سونے کے ٹوپس دینے کا ارادہ کیا جو اسے بہت پسند تھے۔ مگر اسی دکان میں موذیل جھوٹے اور بھڑکیلے اور بہت سستے آویزاں پر مرمٹی اور سونے کے ٹوپس چھوڑ کر ترلوچن سے منتیں کرنے لگی کہ وہ انہیں خرید دے۔
ترلوچن اب تک نہ سمجھ سکا کہ موذیل کس قماش کی لڑکی تھی۔ کس آب و گِل سے بنی ہے ۔وہ گھنٹوں اس کے ساتھ لیٹی رہتی تھی۔ اس کو چومنے کی اجازت تھی ۔ وہ سارا کا سارا صابن کی مانند اس کے جسم پر پھر جاتا تھا مگر وہ اس کو اس سے آگے ایک انچ بڑھنے نہیں دیتی تھی۔ اس کو چڑانے کی خاطر اتنا کہہ دیتی تھی:
’’تم سکھ ہو۔۔۔۔۔۔مجھے تم سے نفرت ہے۔۔۔۔۔۔‘‘
ترلوچن اچھی طرح محسوس کرتا تھا کہ موذیل کو اس سے نفرت نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ اس سے کبھی نہ ملتی۔ برداشت کا مادہ اس میں رتی بھر نہیں تھا۔ وہ کبھی دو برس اس کی صحبت میں نہ گزارتی ۔ دو ٹک فیصلہ کردیتی۔ انڈر وئیر اسکو ناپسند تھے۔ اس لئے ان سے اس کو الجھن ہوتی تھی۔ ترلوچن نے کئی بار اس کو ان کی اشد ضرورت سے آگاہ کیا۔ اس کو شرم و حیا کا واسطہ دیا مگر اس نے یہ چیز کبھی نہ پہنی۔
ترلوچن جب اس سے حیا کی بات کرتا تو وہ چڑ جاتی تھی۔
’’یہ حیا ویا کیا بکواس ہے۔۔۔۔۔۔اگر تمہیں اس کا خیال ہے تو آنکھیں بند لیا کرو۔۔۔۔۔۔تم مجھے یہ بتائو کہ کون سا لباس ہے جس میں آدمی ننگا نہیں ہوسکتا۔۔۔۔۔۔یا جس میں سے تمہاری نگاہیں پار نہیں ہوسکتیں۔۔۔۔۔۔مجھ سے ایسی بکواس نہ کیا کرو۔۔۔۔۔۔تم سِکھ ہو۔۔۔۔۔۔مجھے معلوم ہے کہ تم پتلون کے نیچے ایک سِلی سا انڈروئیر پہنتے ہو جو نیکر سے ملتا جُلتا ہے۔۔۔۔۔۔یہ بھی تمہاری داڑھی اور سر کے بالوں کی طرح تمہارے مذہب میں شامل ہے۔۔۔۔۔۔شرم آنی چاہئے تمہیں۔۔۔۔۔۔اتنے بڑے ہوگئے ہو اور ابھی تک یہی سمجھتے ہو کہ تمہارا مذہب انڈر وئیر میں چھپا بیٹھا ہے۔‘‘
ترلوچن کو شروع شروع میں ایسی باتیں سن کر غصّہ آیا کرتا تھا مگر بعد میں غور و فکر کرنے پر وہ کبھی کبھی لڑھک جاتا تھا اور سوچتا تھا کہ موذیل کی باتیں شایدنا درست نہیں۔ اور جب اس نے اپنے کیسوں اور داڑھی کا صفایا کرادیا تھا تو اسے قطعی طو رپر ایسا محسوس ہوا کہ وہ بیکار اتنے دن بالوں کا اتنا بوجھ اٹھائے پھرا جس کا کچھ مطلب ہی نہیں تھا۔
پانی کی ٹینکی کے پاس پہنچ کر ترلوچن رک گیا۔ موذیل کو ایک بڑی موٹی گالی دے کر اس نے اس کے متعلق سوچنا بند کردیا۔
کرپال کور۔۔۔۔۔۔ایک پاکیزہ لڑکی، جس سے اس کو محبت ہوئی تھی، خطرے میں تھی۔ وہ ایسے محلے میں تھی جس میں کٹّر قسم کے مسلمان رہتے تھے اور وہاں دو تین واردات بھی ہوچکی تھیں۔۔۔۔۔۔لیکن مصیبت یہ تھی کہ اس محلے میں اڑتالیس گھنٹے کا کرفیو تھا مگر کرفیو کی کون پروا کرتا ہے ۔اس چال کے مسلمان اگر چاہتے تو اندر ہی اندر کرپال کور، اس کی ماں اور اس کے باپ کا بڑی آسانی کے ساتھ صفایا کرسکتے تھے۔
ترلوچن سوچتا سوچتا پانی کے موٹے نل پر بیٹھ گیا۔ اس کے سر کے بال اب کافی لمبے ہوگئے تھے۔ اس کو یقین تھا کہ ایک برس کے اندر اندر یہ پورے کیسوں میں تبدیل ہو جائیں گے ۔اس کی داڑھی تیزی سے بڑھی تھی مگر وہ اسے بڑھانا نہیں چاہتا تھا۔ فورٹ میں ایک بار بر تھا۔ وہ اس صفائی سے اسے تراشتا تھا کہ ترشی ہوئی دکھائی نہیں دیتی تھی۔
اس نے اپنے لمبے اور ملائم بالوں میں انگلیاں پھیریں اور ایک سرد آہ بھری۔۔۔۔۔۔اٹھنے کا ارادہ کرہی رہا تھا کہ اے کھڑائوں کی کرخت آواز سنائی دی۔ اس نے سوچا کون ہوسکتا ہے۔۔۔۔۔۔بلڈنگ میں کئی یہودی عورتیں تھیں جوسب کی سب گھر میں کھڑائوں پہنتی تھیں۔۔۔۔۔۔آواز قریب آتی گئی۔ یک لخت اس نے دوسری ٹینکی کے پاس موذیل کو یکجا جو یہودیوں کی خاص قطع کاڈھیلا ڈھالا کُرہ پہنے بڑے زور کی انگڑائی لے رہی تھی۔۔۔۔۔۔اس زور کی کہ ترلوچن کو محسوس ہوا اس کے آس پاس کی ہوا چٹخ جائے گی۔
ترلوچن پانی کے نل پر سے اٹھا۔ اس نے سوچا، یہ ایکا ایکی کہاں سے نمودار ہوگئی۔۔۔۔۔۔اور اس وقت ٹیریس پر کیا کرنے آئی ہے؟
موذیل نے ایک اور انگڑائی لی۔۔۔۔۔۔اب ترلوچن کی ہڈیاں چٹخنے لگیں۔
ڈھیلے ڈھالے کُرتے میں اس کی مضبوط چھاتیاں دھڑکیں۔
ترلوچن کی آنکھوں کے سامنے کئی گول گول اور چپٹے چپٹے نیل ابھر آئے۔ وہ زور سے کھانسا۔ موذیل نے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا۔ اس کا ردِ عمل بالکل نفیف تھا۔ کھڑائون گھسٹتی وہ اس کے پاس آئی اور اس کی ننھی ننھی داڑھی دیکھنے لگی:
’’تم پھر سکھ بن گئے ترلوچن ۔۔۔۔۔۔‘‘
داڑھی کے بال ترلوچن کو چھبنے لگے۔
موذیل نے آگے بڑھ کر اس کی ٹھوڈی کے ساتھ اپنے ہاتھ کی پشت رگڑی اور مسکرا کر کہا۔
’’اب یہ برش اس قابل ہے کہ میری نیوی بُلو سکرٹ صاف کرسکے۔۔۔۔۔۔مگر وہ تو وہیں دیو لالی میں رہ گئی ہے۔۔۔۔۔۔‘‘
ترلوچن خاموش رہا۔
موذیل نے اس کے بازو کی چٹکی لی ۔
’’بولتے کیوں نہیں سردار صاحب۔‘‘
ترلوچن اپنی پچھلی بے وقوفیوں کا اعادہ نہیں کرنا چاہتا ۔ تا ہم اس نے صبح کے ملگجے اندھیرے میں موذیل کے چہرے کو غورسے دیکھا۔۔۔۔۔۔کوئی خاص تبدیلی نہیں ہوئی تھی ۔ایک طرف وہ پہلے سے کچھ کمزور نظر آتی تھی۔
ترلوچن نے اس سے پوچھا۔
’’بیمار رہی ہو۔۔۔۔۔۔‘‘
’’نہیں۔۔۔۔۔۔‘‘موذیل نے اپنے ترشے ہوئے بالوں کو ایک خفیف سا جھٹکا دیا۔
’’پہلے سے کمزور دکھا ئی دیتی ہو۔۔۔۔۔۔‘‘
’’میں ڈائٹنگ کررہی ہوں۔۔۔۔۔۔‘‘موذیل پانی کے موٹے نل پر بیٹھ گئی اور کھڑائوں فرش کے ساتھ بجانے لگی۔
’’تم گویا کہ ۔۔۔۔۔۔اب پھر ۔۔۔۔۔۔نئے سرے سے سکھ بن رہے ہو۔۔۔۔۔۔‘‘
ترلوچن نے کسی قدر ڈھٹا ئی کے ساتھ کہا۔
’’ہاں۔۔۔۔۔۔‘‘
’’مبارک ہو۔۔۔۔۔۔‘‘موذیل نے ایک کھڑائوں پیر سے اتارلی اور پانی کے نل پر بجانے لگی۔ کسی اور لڑکی سے محبت کرنی شروع کردی۔
ترلوچن نے آہستہ سے کہا۔
’’ہاں۔۔۔۔۔۔‘‘
’’مبارک ہو ۔۔۔۔۔۔اسی بلڈنگ کی ہے کوئی۔۔۔۔۔۔‘‘
’’نہیں۔۔۔۔۔۔‘‘
’’ یہ بہت بری بات ہے ۔‘‘موذیل کھڑائوں اپنی انگلیوں میں اڑس کراٹھی۔
’’ہمیشہ آدمی کو اپنے ہمسایوں کا خیال رکھنا چاہئے۔‘‘
ترلوچن خاموش رہا۔
موذیل نے اٹھ کر اس کی داڑھی کو اپنی پانچوں انگلیوں سے چھیڑا۔
’’کیا اسی لڑکی نے تمہیں یہ بال بڑھانے کا مشورہ دیا ہے۔‘‘
’’نہیں۔۔۔۔۔۔‘‘
ترلوچن بڑی الجھن محسوس کررہا تھا جیسے کنگھا کرتے کرتے اس کی داڑھی کے بال آپس میں الجھ گئے ہیں۔ جب اس نے ’’نہیں‘‘، کہا تو اس کے لہجے میں تیکھا پن تھا۔
موذیل کے ہونٹوں پر لپ سٹک باسی گوشت کی طرح معلوم ہو رہی تھی ۔وہ مسکراتی تو ترلوچن نے ایسا محسوس کیا کہ اس کے گائوں میں جھٹکے کی دکان پر قصائی نے چھری سے موٹی رگ کے گوشت کے دو ٹکڑے کردئیے ہیں۔
مسکرانے کے بعد وہ ہنسی۔
’’تم اب یہ داڑھی منڈا ڈالو تو کسی کی بھی قسم لے لو، میں تم سے شادی کرلوں گی۔‘‘
ترلوچن کے جی میں آئی کہ اس سے کہے کہ وہ ایک بڑی شریف، باعصمت اور پاک طینت کنواری لڑکی سے محبت کررہا ہے اور اسی سے شادی کرے گا۔۔۔۔۔۔موذیل اس کے مقابلے میں فاحشہ ہے، بدصورت ہے ، بے وقوف ہے، بے مروت ہے۔۔۔۔۔۔مگر وہ اس قسم کا گھٹیا آدمی نہیں تھا۔اس نے موذیل سے صرف اتنا کہا۔
’’موذیل!میں اپنی شادی کرنے کا فیصلہ کرچکا ہوں۔۔۔۔۔۔میرے گائوں کی ایک سیدھی سادی لڑکی ہے۔۔۔۔۔۔جو مذہب کی پابند ہے ۔۔۔۔۔۔اسی کے لئے میں نے بال بڑھانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔۔۔۔۔۔‘‘
موذیل سوچ بچار کی عادی نہیں تھی لیکن اس نے کچھ دیر سوچااور کھڑائوں پر نصف دائرے میں گھوم کر ترلوچن سے کہا۔
’’وہ مذہب کی پابند ہے تو تمہیں کیسے قبول کرلے گی ۔۔۔۔۔۔کیا اسے معلوم نہیں کہ تم ایک دفعہ اپنے بال کٹوا چکے ہو۔۔۔۔۔۔‘‘
’’اس کو ابھی تک معلوم نہیں۔۔۔۔۔۔داڑھی میں نے تمہارے جانے کے بعد ہی بڑھانی شروع کردی تھی ۔۔۔۔۔۔محض انتقامی طور پر۔۔۔۔۔۔اس کے بعد میری کرپال کور سے ملاقات ہوئی۔ مگر میں پگڑی اس طریقے سے باندھتا ہوں کہ سومیں سے ایک ہی آدمی مشکل سے جان سکتا ہے کہ میرے کیس کٹے ہوئے ہیں۔۔۔۔۔۔مگر اب یہ بہت جلد ٹھیک ہو جائیں گے۔۔۔۔۔۔‘‘ترلوچن نے اپنے لمبے ملائم بالوں میں انگلیوں سے کنگھی کرنا شروع کی۔
موذیل نے لمبا کُرتہ اٹھا کر اپنی گودی دبیز ران کھجلانی شروع کی۔
’’ یہ بہت اچھا ہے۔۔۔۔۔۔مگر یہ کم بخت مچھر یہاں بھی موجود ہے۔۔۔۔۔۔دیکھا کس زور سے کاٹا ہے۔۔۔۔۔۔‘‘
ترلوچن نے دوسری طرف دیکھنا شروع کردیا۔
موذیل نے اس جگہ جہاں مچھر نے کاٹا تھا انگلی سے لب لگائی اور کُرتہ چھوڑ کر سیدھی کھڑی ہوگئی۔
’’کب ہو رہی ہے تمہاری شادی۔۔۔۔۔۔‘‘
’’ابھی کچھ پتہ نہیں۔۔۔۔۔۔‘‘یہ کہہ کر ترلوچن سخت متفکر ہوگیا۔
چند لمحات تک خاموشی رہی۔ اس کے بعد موذیل نے اس کے تفکر کااندازہ لگا کر اس سے بڑے سنجیدہ انداز میں پوچھا۔
’’ترلوچن ۔۔۔۔۔۔تم کیا سوچ رہے ہو۔۔۔۔۔۔‘‘
ترلوچن کو اس وقت کسی ہمدرد کی ضرورت تھی ۔خواہ وہ موذیل ہی کیوں نہ ہو۔چنانچہ اس نے اس کو سارا ماجرا سنا دیا۔ موذیل ہنسی۔ تم اوّل درجے کے ایڈیٹ ہو۔۔۔۔۔۔جائو اس کو لے آئو۔ایسی کیا مشکل ہے۔‘‘
’’مشکل ۔۔۔۔۔۔موذیل۔ تم اس معاملے کی نزاکت کو کبھی نہیں سمجھ سکتیں۔۔۔۔۔۔کسی بھی معاملے کی نزاکت۔۔۔۔۔۔تم ایک لااُبالی قسم کی لڑکی ہو۔۔۔۔۔۔یہی وجہ ہے کہ تمہارے اور میرے تعلقات قائم نہیں رہ سکے جس کا مجھے ساری عمر افسوس رہے گا۔‘‘
موذیل نے زور سے اپنی کھڑائوں پانی کے نل کے ساتھ ماری۔
’’افسوس بی ڈیمڈ۔۔۔۔۔۔سِلی ایڈیٹ۔۔۔۔۔۔تم سوچو کہ تمہاری اس ۔۔۔۔۔۔کیا نام ہے اس کا۔۔۔۔۔۔اس حملے سے بچا کر لانا کیسے ہے۔۔۔۔۔۔تم بیٹھ گئے ہو تعلقات کا رونا رونے۔۔۔۔۔۔تمہارے میرے تعلقا ت کبھی قائم نہیں رہ سکتے تھے۔۔۔۔۔۔تم ایک سِلی قسم کے آدمی ہو۔اور بہت ڈر پوک ۔۔۔۔۔۔مجھے نڈر مرد چاہئے ۔۔۔۔۔۔لیکن چھوڑو ان باتوں کو۔۔۔۔۔۔چلو آئو تمہاری اس کور کو لے کر آئیں۔۔۔۔۔۔‘‘
اس نے ترلوچن کا بازوپکڑ لیا۔
ترلوچن نے گھبراہٹ میں اس نے پوچھا۔
’’کہاں سے۔۔۔۔۔۔!‘‘
’’وہیں سے جہاں وہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اس محلے کی ایک ایک اینٹ کو جانتی ہوں۔۔۔۔۔۔چلو آئو میرے ساتھ۔۔۔۔۔۔‘‘
مگر سنو تو۔۔۔۔۔۔کرفیو ہے۔۔۔۔۔۔‘‘
’’موذیل کے لئے نہیں۔۔۔۔۔۔چلو آئو۔۔۔۔۔۔‘‘
وہ ترلوچن کو بازو سے پکڑ کر کھینچتی اس دروازے تک لے گئی تھی جو نیچے سیڑھیوں کی طرف کھلتا تھا ۔ دروازہ کھول کر وہ اترنے لگی کہ رک گئی اور ترلوچن کی داڑھی کی طرف دیکھنے لگی۔
ترلوچن نے پوچھا۔
’’کیا بات ہے؟۔۔۔۔۔۔‘‘
موذیل نے کہا۔
’’یہ تمہاری داڑھی۔۔۔۔۔۔لیکن خیر ٹھیک ہے اتنی بڑی نہیں ہے۔۔۔۔۔۔ننگے سر چلو گے تو کوئی نہیں سمجھے گا کہ تم سکھ ہو۔۔۔۔۔۔‘‘
’’ننگے سر۔۔۔۔۔۔‘‘ترلوچن نے کسی قدر بوکھلا کر کہا۔
’’میں ننگے سر نہیں جائوں گا۔۔۔۔۔۔‘‘
ٍ موذیل نے بڑے معصوم انداز میں پوچھا۔
’’کیوں۔۔۔۔۔۔‘‘
ترلوچن نے اپنے بالوں کی ایک لٹ ٹھیک کی۔
’’تم سمجھتی نہیں ہو،میرا وہاں پگڑی کے بغیر جانا ٹھیک نہیں۔۔۔۔۔۔‘‘
’’کیوں ٹھیک نہیں۔۔۔۔۔۔‘‘
’’تم سمجھتی کیوں نہیں ہو کہ اس نے مجھے ابھی تک ننگے سر نہیںدیکھا۔۔۔۔۔۔وہ یہی سمجھتی ہے کہ میرے کیس ہیں۔ میں اس پر یہ راز افشاء نہیں کرنا چاہتا۔۔۔۔۔۔‘‘
موذیل نے زور سے اپنی کھڑائوں دروازے کی دہلیز پر ماری۔
’’تم واقعی اول درجے کے ایڈیٹ ہو۔۔۔۔۔۔گدھے کہیں کے۔۔۔۔۔۔اس کی جان کا سوال ہے۔۔۔۔۔۔کیا نام ہے تمہاری اس کور کا ،جس سے تم محبت کرتے ہو۔۔۔۔۔۔‘‘
ترلوچن نے اسے سمجھانے کی کوشش کی ۔
موذیل ، وہ بڑی مذہبی قسم کی لڑکی ہے۔۔۔۔۔۔اگر اس نے مجھے ننگے سر دیکھ لیا تو مجھ سے نفرت کرنے لگے گی۔‘‘
موذیل چڑ گئی ۔
’’اوہ تمہاری محبت بی ڈیمڈ۔۔۔۔۔۔میں پوچھتی ہوں کیا سارے سکھ تمہاری طرح کے بے وقوف ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔اس کی جان کا خطرہ ہے اور تم کہتے ہو کہ پگڑی ضرور پہنو گے۔۔۔۔۔۔اور شاید وہ اپنا انڈروئیر بھی جو نیکر سے ملتا جلتا ہے۔۔۔۔۔۔‘‘
ترلوچن نے کہا۔
’’وہ تو میں ہر وقت پہنے رہتا ہوں۔۔۔۔۔۔‘‘
؎ ’’بہت اچھا کرتے ہو۔۔۔۔۔۔مگراب تم یہ سوچو کہ معاملہ ا س محلے کا ہے جہاں میاں بھائی ہی بھائی رہتے ہیں اور وہ بھی بڑے بڑے دادا اوربڑے بڑے موالی۔۔۔۔۔۔تم پگڑی پہن کر گئے تو وہیں ذبح کردئیے جائو گے۔۔۔۔۔۔‘‘
ترلوچن نے مختصر سا جواب دیا۔
’’مجھے اس کی پرواہ نہیں۔۔۔۔۔۔اگر میں تمہارے ساتھ وہاں جائوں گا تو پگڑی پہن کر جائوں گا۔۔۔۔۔۔میں اپنی محبت خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتا۔‘‘
موذیل جھنجھلا گئی۔ اس زور سے اس نے پیچ و تاب کھائے کہ اس کی چھاتیاں آپس میں بھڑ بھڑگئیں۔
’’گدھے ۔۔۔۔۔۔تمہاری محبت ہی کہاں رہے گی۔۔۔۔۔۔جب تم نہ رہو گے۔۔۔۔۔۔تمہاری وہ ۔۔۔۔۔۔کیا نام ہے اس بھڑوی کا۔۔۔۔۔۔جب وہ بھی نہ رہے گی۔ اس کا خاندان تک نہ رہے گا۔۔۔۔۔۔تم سکھ ہو۔۔۔۔۔۔خدا کی قسم تم سکھ ہو اور بڑے ایڈیٹ ہو۔‘‘
ترلوچن بھنّا گیا۔
’’بکواس نہ کرو۔۔۔۔۔۔‘‘
موذیل زورسے ہنسی ، مہین مہین بالوں کے غبار سے اٹی ہوئی باہیں اس نے ترلوچن کے گلے میں ڈال دیں اور تھوڑا سا جھول کر کہا۔
’’ڈارلنگ چلو، جیسے تمہاری مرضی۔۔۔۔۔۔جائو پگڑی پہن آئو،میں نیچے بازار میں کھڑی ہوں۔۔۔۔۔۔‘‘
یہ کہہ کر وہ نیچے جانے لگی۔ ترلوچن نے اسے روکا۔
’’تم کپڑے نہیں پہنو گی۔۔۔۔۔۔‘‘
موذیل نے اپنے سر کو جھٹکا دیا۔
’’نہیں۔۔۔۔۔۔چلے گا اسی طرح۔۔۔۔۔۔‘‘
یہ کہہ کر وہ کھٹ کھٹ کرتی نیچے اتر گئی۔
ترلوچن نچلی منزل کی سیڑھیون پر بھی اس کی کھڑائوں کی چوبی آواز سنتا رہا۔ پھر اس نے اپنے لمبے بال انگلیوں سے پیچھے کی طرف سمیٹے اور نیچے اتر کر اپنے فلیٹ میں چلا گیا۔ جلدی جلدی اس نے کپڑے تبدیل کئے۔ پگڑی بندھی بندھائی رکھی تھی۔ اسے اچھی طرح سر پر جما یا اور فلیٹ کا دروازہ مقفل کرکے نیچے اتر گیا۔
باہر فٹ پاتھ پر موذیل اپنی تگڑی ٹانگیں چوڑی کئے سگریٹ پی رہی تھی۔ بالکل مردانہ انداز میں۔ جب ترلوچن اس کے نزدیک پہنچا تو اس نے شرارت کے طور پر منہ بھر کے دھواں اس کے چہرے پر دے مارا۔
ترلوچن نے غصّے سے کہا۔
’’تم بہت ذلیل ہو۔۔۔۔۔۔‘‘
موذیل مسکرائی۔
’’یہ تم نے کوئی نئی بات نہیں کی۔۔۔۔۔۔اس سے پہلے اور کئی مجھے ذلیل کہہ چکے ہیں۔‘‘پھر اس نے ترلوچن کی پگڑی کی طرف دیکھا۔
’’یہ پگڑی تم نے واقعی بہت اچھی طرح باندھی ہے۔۔۔۔۔۔ایسا معلوم ہوتا ہے تمہارے کیس ہیں۔۔۔۔۔۔‘‘
بازار بالکل سنسان تھا۔۔۔۔۔۔ایک طرف ہوا چل رہی تھی اور وہ بہت دھیرے دھیرے جیسے کرفیو سے خوفزدہ ہے۔ بتیاں روشن تھیں مگر ان کی روشنی بیمار سی معلوم ہوتی تھی۔ عام طور پر اس وقت ٹرامیں چلتی شروع ہو اجاتی تھیں اور لوگوں کی آمدورفت بھی جاری ہو جاتی تھی۔ اچھی خاصی گہما گہمی ہوتی تھی۔ پر اب ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سڑک پر کوئی انسان گزرا ہے نہ گزرے گا۔
موذیل آگے آگے تھی۔ فٹ پاتھ کے پتھروں پر اس کی کھڑائوں کھٹ کھٹ کررہی تھی۔ یہ آواز ، اس خاموش فضا میں ایک بہت بڑا شور تھی۔ ترلوچن دل ہی دل میں موذیل کو بُرا بھلا کہہ رہا تھا کہ دو منٹ میںاور کچھ نہیں تو اپنی واہیات کھڑائوں ہی اتار کر کوئی دوسری چیز پہن سکتی تھی۔ اس نے چاہا کہ موذیل سے کہے کھڑائوں اتار دو اور ننگے پائوں چلو ۔مگر اس کو یقین تھا کہ وہ کبھی نہیں مانے گی ۔اس لئے خاموش رہا۔
ترلوچن سخت خوفزدہ تھا۔ کوئی پتّا کھڑکتا تو اس کا دل دھک سے رہ جاتا تھا مگر موذیل بالکل بے خود چلی جارہی تھی۔ سگریت کا دھوان اڑاتی جیسے وہ بڑی بے فکری سے چہل قدمی کررہی ہے۔
چوک میں پہنچے تو پولیس مین کی آواز گرجی۔
’’اے ۔۔۔۔۔۔کدھر جارہا ہے۔‘‘
ترلوچن سہم گیا ۔۔۔۔۔۔موذیل آگے بڑھی اور پولیس مین کے پاس پہنچ گئی۔ بالوں کو ایک خفیف سا جھٹکا دے کر کہا۔
’’اوہ تم ۔۔۔۔۔۔ہم کو پہچانا نہیں تم نے۔۔۔۔۔۔موذیل۔۔۔۔۔۔‘‘پھر اس نے ایک گلی کی طرف اشارہ کیا۔۔۔۔۔۔ادھر اس باجو۔۔۔۔۔۔ہمارا بہن رہتا ہے ۔اس کی طبیعت خراب ہے۔ ڈاکٹر لے کر جارہا ہے۔
سپاہی اسے پہچاننے کی کوشش کررہا تھا کہ اس نے خدا معلوم کہاں سے سگریٹ کی ڈبیہ نکال اور ایک سگریٹ نکال کر اس کو دیا۔۔۔۔۔۔لو پیو۔۔۔۔۔۔‘‘
سپاہی نے سگریٹ لے لیا، موذیل نے اپنے منہ سے سلگا ہوا سگریٹ نکالا اور اس سے کہا۔
’’ہیئر از لائٹ۔۔۔۔۔۔‘‘
سپاہی نے سگریٹ کا کش لیا ۔موذیل نے داہنی آنکھ اس کو اور بائیں ترلوچن کو ماری اور کھٹ کھٹ کرتی س گلی کی طرف چل دی۔ جس سے گزر کر انہیں۔۔۔۔۔۔محلے جانا تھا۔
ترلوچن خاموش تھا مگر وہ محسوس کررہا تھا کہ موذیل کرفیو کی خلاف ورزی کرکے ایک عجیب و غریب قسم کی مسّرت محسوس کررہی ہے۔۔۔۔۔۔خطروں سے کھیلنا اسے پسند تھا۔ وہ جب جوہو پر اس کے ساتھ جاتی تھی تو اس کے لئے ایک مصیبت بن جاتی تھی۔
سمندر کی پیل تن لہروں سے ٹکراتی ، بھڑتی وہ دور تک نکل جاتی تھی اوراس کو ہمیشہ اس بات کا دھڑکا رہتا تھا کہ کہیں وہ ڈوب نہ جائے۔ جب واپس آتی تو اس کا جسم نیلوں اور زخموں سے بھرا ہوا ہوتا تھا مگر اسے ان کی کوئی پروا نہیں ہوتی تھی۔
موذیل آگے آگے تھی۔ ترلوچن اس کے پیچھے ۔ ڈر ڈر کے ادھر ادھر دیکھتا رہتا تھا کہ اس کی بغل میں سے کوئی چھری نمودار نہ ہوجائے۔ موذیل رک گئی۔ جب ترلوچن پاس آیا تو اس نے سمجھانے کے انداز میں اس سے کہا۔
’’ترلوچن ڈئیر۔۔۔۔۔۔ اس طرح ڈرنا اچھا نہیں۔۔۔۔۔۔ تم ڈرو گے تو ضرور کچھ نہ کچھ ہو کے رہے گا۔۔۔۔۔۔ سچ کہتی ہوںیہ میری آزمائی ہوئی بات ہے۔۔۔۔۔۔ ‘‘
’’ترلوچن خاموش رہا۔
جب وہ گلی طے کرکے دوسری گلی میں پہنچے جو اس محلے کی طرف نکلتی تھی جس میں کرپال کور رہتی تھی تو موذیل چلتے چلتے ایک دم رک گئی ۔۔۔۔۔۔ کچھ فاصلے پر بڑے اطمینان سے ایک مارواڑی کی دکان لوٹی جارہی تھی ۔ایک لحظے کے لئے اس نے اس معاملے کا جائزہ لیا اور ترلوچن سے کہا۔
’’کوئی بات نہیں۔۔۔۔۔۔ چلو آئو۔۔۔۔۔۔ ‘‘
دونوں چلنے لگے۔
ایک آدمی جو سر پربہت بڑی پرات اٹھائے چلا آرہا تھا ترلوچن سے ٹکرایا ۔پرات گر گئی۔ اس آدمی نے غور سے ترلوچن کی طرف دیکھا ۔صاف معلوم ہوتا تھا کہ وہ سکھ ہے۔ اس آدمی نے جلدی سے اپنے نیفے میں ہاتھ ڈالا موذیل آگئی۔ لڑکھڑاتی ہوئی جیسے نشے میں چور ہے۔ اس نے زور سے اس آدمی کو دھکا دیا اور مخمور لہجے میں کہا۔
’’اے کیا کررہا ہے۔۔۔۔۔۔ اپنے بھائی کو مارتا ہے۔۔۔۔۔۔ ہم اس سے شادی بنانے کو مانگتا ہے۔‘‘پھر وہ ترلوچن سے مخاطب ہوئی۔۔۔۔۔۔ کریم۔اٹھائو پرات اوررکھ دو اس کے سر پر۔۔۔۔۔۔ ‘‘
اس آدمی نے نیفے میں سے ہاتھ نکال لیا اور شہوانی آنکھوں سے موذیل کی طرف دیکھا ۔پھر آگے بڑھ کر اپنی کہنی سے اس کی چھاتیوں میں ٹہوکا دیا۔
’’عیش کر سالی۔۔۔۔۔۔ عیش کر۔۔۔۔۔۔ ‘‘ پھر اس نے پرات اٹھائی اور یہ جا وہ جا۔
ترلوچن بڑبڑایا۔
’’کیسی ذلیل حرکت کی ہے حرامزادے نے۔۔۔۔۔۔ ‘‘
موذیل نے اپنی چھاتیوں پر ہاتھ پھیرا۔
’’کوئی ذلیل حرکت نہیں۔۔۔۔۔۔ سب چلتا ہے۔۔۔۔۔۔ آئو۔‘‘
اور وہ تیز تیز چلنے لگی۔۔۔۔۔۔ ترلوچن نے بھی قدم تیز کردئیے۔
یہ گلی طے کرکے دونوں اس محلے میں پہنچ گئے جہاں کرپال کور رہتی تھی۔
موذیل نے کہا۔
’’کس گلی میں جانا ہے۔‘‘
ترلوچن نے آہستہ سے کہا۔
‘‘تیسری گلی میں۔۔۔۔۔ن نُکّڑ والی بلڈنگ ۔۔۔۔۔۔ ‘‘
موذیل نے اس طرف چلنا شروع کردیا ۔یہ راستہ بالکل خاموش تھا۔ آس پاس اتنی گنجان آبادی تھی مگر کسی بچے تک کے رونے کی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔
جب وہ اس گلی کے قریب پہنچے تو کچھ گڑ بڑ دکھائی دی۔۔۔۔۔۔ایک آدمی بڑی تیزی سے اس کنارے والی بلڈنگ سے نکلا اور دوسرے کنارے والی بلڈنگ میں گھس گیا۔ اس بلڈنگ سے تھوڑی دیر کے بعد تین آدمی نکلے۔ فٹ پاتھ پر انہوں نے اِدھر اُدھر دیکھا اور بڑی پھرتی سے دوسری بلڈنگ میں چلے گئے۔ اس نے ترلوچن کو اشارہ کیا کہ اندھیرے میں ہو جائے ۔ پھر اس نے ہولے سے کہا۔
’’ترلوچن ڈیئر ۔۔۔۔۔۔یہ پگڑی اتاردو۔۔۔‘‘
ترلوچن نے جواب دیا۔
’’میں یہ کسی صورت میں بھی نہیں اتار سکتا۔۔۔‘‘
موذیل جھنجھلاگئی۔
’’تمہاری مرضی۔۔۔۔۔۔لیکن تم دیکھتے نہیں،سامنے کیا ہورہا ہے۔۔۔‘‘
سامنے جو کچھ ہو رہا تھا دونوں کی آنکھوں کے سامنے تھا۔ صاف گڑ بڑ ہو رہی تھی اور بڑی پراسرار قسم کی ۔دائیں ہاتھ کی بلڈنگ سے جب دو آدمی اپنی پیٹھ پر بوریاں اٹھائے نکلے تو موذیل ساری کی ساری کانپ گئی۔ ان میں سے کچھ گاڑھی گاڑھی سیال سی چیز ٹپک رہی تھی۔ موذیل اپنے ہونٹ کاٹنے لگی۔ غالباً وہ سوچ رہی تھی جب یہ دونوں آدمی گلی کے دوسرے سرے پر پہنچ کر غائب ہوگئے تو اس نے ترلوچن سے کہا۔
دیکھو،ایسا کرو۔۔۔۔۔۔میں بھاگ کر نکڑ والی بلڈنگ میں جاتی ہوں۔۔۔۔۔۔تم میرے پیچھے آنا۔۔۔۔۔۔بڑی تیزی سے جیسے تم میرا پیچھا کررہے ہو۔۔۔۔مجھے یہ سب ایک دم جلدی جلدی میں ہو۔۔۔۔۔۔‘‘
موذیل نے ترلوچن کے جواب کا انتظار نہ کیا اور نکڑ والی بلڈنگ کی طرف کھڑائوں کھٹ کھٹاتی بڑی تیزی سے بھاگی ۔ترلوچن بھی اس کے پیچھے دوڑا ،چند لمحوں میں وہ بلڈنگ کے اندر تھے۔۔۔۔۔۔سیڑھیوں کے پاس ۔۔۔۔۔۔ترلوچن ہانپ رہا تھا مگر موذیل بالکل ٹھیک ٹھاک تھی۔
اس نے ترلوچن سے پوچھا۔ ’’کون سا مالا۔۔۔‘‘
ترلوچن نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری۔ ’’دوسرا۔۔۔‘‘
’’چلو۔‘‘
یہ کہہ کر وہ کھٹ کھٹ سیڑھیاں چڑھنے لگی۔ ترلوچن اس کے پیچھے ہولیا۔ زینوں پر خون کے بڑے بڑے دھبے پڑے تھے۔ ان کو دیکھ دیکھ کر اس کا خون خشک ہو رہا تھا۔
دوسرے مالے پر پہنچے تو کوری دوڑ میں کچھ دور جاکر ترلوچن نے ہولے سے ایک دروازے پر دستک دی۔ موذیل دور سیڑھیوں کے پاس کھڑی رہی۔
ترلوچن نے ایک بار پھر دستک دی اور دروازے کے ساتھ منہ لگا کر آواز دی۔
مہنگا سنگھ جی۔۔۔۔۔۔مہنگا سنگھ جی۔۔۔‘‘
اندر سے مہین سی آواز آئی۔ ’’ترلوچن۔‘‘
دروازہ دھیرے سے کھلا۔۔۔۔۔۔ترلوچن نے موذیل کواشارہ کیا۔ وہ لپک کر آئی۔ دونوں اندر داخل ہوئے۔۔۔۔۔۔موذیل نے اپنی بغل میں ایک دبلی پتلی لڑکی کو دیکھا جو بے حد سہمی ہوئی تھی۔ موذیل نے اس کو ایک لحظے کے لئے غور سے دیکھا۔ پتلے پتلے نقش تھے۔ ناک بہت پیاری تھی مگر زکام میں مبتلا ۔ موذیل نے اس کو ایک چوڑے چکلے سینے کے ساتھ لگا لیا اور اپنے ڈھیلے ڈھالے کرتے کا دامن اٹھا کر اس کی ناک پونچھی۔
ترلوچن سرخ ہوگیا۔
موذیل نے کرپال کور سے بڑے پیار کے ساتھ کہا۔
’’ڈرو نہیں۔۔۔۔۔۔ترلوچن تمہیں لینے آیا ہے۔۔۔۔‘‘
کرپال کور نے ترلوچن کی طرف سہمی ہوئی آنکھوں سے دیکھا اورموذیل سے الگ ہوگئی۔ترلوچن نے اس سے کہا۔
’’سردار صاحب سے کہو کہ جلد تیار ہو جائیں۔۔۔۔۔۔اور ماتا سے بھی ۔۔۔۔لیکن جلدی کرو۔۔۔۔۔۔‘‘اتنے میں اوپر کی منزل پر بلند آوازیں آنے لگیں جیسے کوئی چیخ چلّا رہا ہے اور دھینگا مشتی ہو رہی ہے۔کرپال کور کے حلق سے دبی دبی چیخ بلند ہوئی۔
’’اُسے پکڑ لیا انہوں نے۔‘‘
ترلوچن نے پوچھا۔ ’’کسے۔‘‘
کرپال کور جواب دینے ہی والی تھی کہ موذیل نے اس کو بازو سے پکڑ ا اور گھیٹ کر ایک کونے میں لے گئی۔
’’پکڑ لیا تو اچھا ہوا۔۔۔۔۔۔تم یہ کپڑے اتاردو۔۔۔۔۔۔‘‘
کرپال کور ابھی کچھ سوچنے ہی والی تھی کہ موذیل نے آنا فانا اس کی قمیض اتار کر ایک طرف رکھ دی۔ کرپال کور نے اپنی بانہوں میں اپنے ننگے جسم کو چھپا لیا اور وحشت زدہ ہوگئی۔ ترلوچن نے منہ دوسری طرف موڑ لیا ۔موذیل نے اپنا ڈھیلا ڈھالا کُرتہ اتارا اور اس کو پہنا دیا ۔خود وہ ننگ دھڑنگ تھی۔ جلدی جلدی اس نے کرپال کاازار بند ڈھیلا کیا اور اس کی شلوار اتار کر ترلوچن سے کہنے لگی۔
’’جائو اسے لے جائو۔۔۔۔۔۔لیکن ٹھہرو۔۔۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے کرپال کور کے بال کھول دئیے اور اس سے کہا۔
’’جائو۔۔۔۔۔۔جلدی نکل جائو۔۔۔۔۔۔‘‘
ترلوچن نے اس سے کہا۔
’’آئو۔۔۔۔۔۔مگر فوراً ہی رک گیا۔ پلڑ کر اس نے موذیل کی طرف دیکھا جو دھوئے دیدے کی طرح ننگی کھڑی تھی۔ اس کی بانہوں پر مہیں مہیں بال سردی کے باعث جاگے ہوئے تھے۔
’’تم جاتے کیوں نہیں۔۔۔۔۔۔‘‘موذیل کے لہجے میں چڑ چڑاپن تھا۔
ترلوچن نے آہستہ سے کہا۔
’’اس کے ماں باپ بھی تو ہیں۔‘‘
’’اور تم ۔۔۔۔!‘‘ ’’میں آجائوں گی۔۔۔۔۔۔‘‘
ایک دم اوپر کی منزل سے کئی آدمی دھڑا دھڑ نیچے اترنے لگے ۔دروازے کے پاس آکر انہوں نے کوٹنا شروع کردیا۔ جیسے وہ اسے توڑ ہی ڈالیں گے۔
کرپال کور کی اندھی ماں اوراس کا مفلوج باپ دوسرے کمرے میں پڑے کراہ رہے تھے۔موذیل نے کچھ سوچا اور بالوں کو خفیف جھٹکا دے کر اس نے ترلوچن سے کہا۔
’’سنو ۔۔۔اب صرف ایک ہی ترکیب میری سمجھ آتی ہے ۔۔۔۔۔۔میں دروازہ کھولتی ہوں۔۔۔۔‘‘
کرپال کور کے خشک حلق سے چیخ نکلتی نکلتی دب گئی۔ ’’دروازہ۔۔۔‘‘
موذیل ، ترلوچن سے مخاطب رہی۔
’’میں دروزہ کھول کر باہر نکلتی ہوں۔۔۔۔۔۔تم میرے پیچھے بھاگنا ۔۔۔۔۔۔میں اوپر چڑھ جائوں گی۔۔۔۔۔۔تم بھی اوپر چلے آنا۔یہ لوگ دروازہ توڑ رہے ہیں۔ سب کچھ بھول جائیں گے اور ہمارے پیچھے چلے آئیں گے۔‘‘
ترلوچن نے پوچھا۔ ’’پھر!‘‘
موذیل نے کہا۔ ’’یہ تمہاری ۔۔۔۔۔۔کیا نام ہے اس کا ۔۔۔۔۔۔موقع پا کر نکل جائے۔۔۔۔۔۔اس لباس میں اسے کوئی کچھ نہ کہے گا۔۔۔۔۔۔‘‘
ترلوچن نے جلدی جلدی کرپال کور کو ساری بات سمجھا دی۔
موذیل زور سے چلائی۔ دروازہ کھولا اور دھڑام سے باہر کے لوگوں پر گری۔ سب بوکھلا گئے۔ اٹھ کر اس نے اوپر کی سیڑھیوں کا رخ کیا۔ ترلوچن اس کے پیچھے بھاگا ۔۔۔۔سب ایک طرف ہٹ گئے۔موذیل اندھا دھند سیڑھیاں چڑھ رہی تھی۔ کھڑائوں اس کے پیروں میں تھی۔ وہ لوگ جو دروازہ توڑنے کی کوشش کررہے تھے سنبھل کر ان کے تعاقب میں دوڑے، موذیل کا پائوں پھسلا۔۔۔۔۔۔اوپر کے زینے سے وہ کچھ اس طرح لڑھکی کہ پتھریلے زینے کے ساتھ ٹکراتی ،لوہے کے جنگلے کے ساتھ الجھتی وہ نیچے آرہی۔۔۔۔۔پتھریلے فرش پر۔
ترلوچن ایک دم نیچے اُترا۔ جھک کر اس نے دیکھا تو اس کی ناک سے خون بہہ رہا تھا۔ منہ سے خون بہہ رہا تھا۔ کانوں کے رستے بھی خون نکل رہا تھا۔ وہ جو دروازہ توڑنے آئے تھے اردگرد جمع ہوگئے۔ کسی نے بھی نہ پوچھا کیا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔سب خاموش تھے اور موذیل کے ننگے اور گورے جسم کو دیکھ رہے تھے جس پر جا بجا خراشیں پڑی تھیں۔
ترلوچن نے اس کا بازو ہلایا اور آواز دی۔
’’موذیل۔۔۔۔۔۔موذیل!‘‘
موذیل نے اپنی بڑی بڑی یہودی آنکھیں کھولیں جو لال بوٹی ہورہی تھیں اور مسکرائی۔ترلوچن نے اپنی پگڑی اتاری اور کھول کر اس کا ننگا جسم ڈھک دیا۔ موذیل پھر مسکرائی اور آنکھ مار کر اس نے ترلوچن سے منہ میں خون کے بلبلے اڑاتے ہوئے کہا۔
’’جائو دیکھو۔۔۔۔۔۔میرا انڈر ویئر وہاں ہے کہ نہیں۔۔۔۔میرا مطلب ہے وہ ۔۔۔۔۔۔‘‘
ترلوچن اس کا مطلب سمجھ گیا اس نے اٹھنا نہ چاہا۔ اس پر موذیل نے غصّے سے کہا۔’’تم سچ مچ سکھ ہو۔۔۔۔۔۔جائو ۔۔۔۔۔۔دیکھ کر آئو۔۔۔۔۔۔‘‘
ترلوچن اٹھ کر کرپال کور کے فلیٹ کی طرف چلا گیا۔ موذیل نے اپنی دھندلی آنکھوں سے آس پاس کھڑے مردوں کی طرف دیکھا اور کہا۔
’’یہ میاں بھائی ہے ۔۔۔۔۔۔لیکن بہت دادا قسم کا ۔۔۔۔۔۔میں اسے سکھ کہا کرتی ہوں۔‘‘
ترلوچن واپس آگیا۔ اس نے آنکھوں میں موذیل کو بتا دیا کہ کرپال کور جاچکی ہے۔ موذیل نے اطمینان کا سانس لیا ۔ لیکن ایسا کرنے سے بہت سا خون اس کے منہ سے بہہ نکلا۔
’’اوہ ڈیم اِٹ۔۔۔۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنی مہین مہین بالوں سے اٹی ہوئی کلائی سے اپنا منہ پونچھا اور ترلوچن سے مخاطب ہوئی۔’’آل رائٹ ڈارلنگ ۔۔۔۔۔بائی بائی۔۔۔‘‘
ترلوچن نے کچھ کہنا چاہا ۔مگر لفط اس کے حلق میں اٹک گئے۔
موذیل نے اپنے بدن پر سے ترلوچن کی پگڑی ہٹائی۔
’’لے جائو اس کو ۔۔۔۔۔۔اپنے اس مذہب کو ۔۔۔۔۔۔‘‘
اور اس کا بازو اس کی مضبوط چھاتیوں پر بے حس ہو کر گر پڑا۔
٭٭٭
تجزیہ
مہابھارت کے دور میں اِکلویا کی زندگی کا مقصد تیز اندازی سیکھنا تھا۔ اُس نے اُس وقت کے ماہر تیر انداز، گورو درونا چاریہ کی مورتی کواستاد مان کر فن کی بلندیوں کو چھو لیا تھا۔ اِس دور میں ہم بھی کچھ ایسا ہی کر گذرے ہیں کہ افسانہ نگاری کے میدان کے شہسوار جو شاید آج بھی منوں مٹّی میں دبے ہوئے سوچ رہے ہیں کہ وہ بڑے تخلیق کار ہیں یا خدا۔۔۔۔۔۔۔
جی آپ ٹھیک سمجھے میری مراد استاد سعادت حسن منٹو سے ہے جن کو ہم نے اپنا اُستاد مان لیا ہے۔ یہ بہتر ہوا کہ ہم اس دور میں سانس لے رہے ہیں ۔اگر خدا نخواستہ ہم استاد کے ہم عصر ہوتے تو ہمارا دعوے ہے کہ استاد ہماری پہلی ہی ملاقات میں ہمیں کچھ یوں کہہ دیتے۔
’’تم سے مل کر منٹو کو کوئی خوشی نہیں ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔!‘‘
اتنا کہہ کر وہ کوئی یکّہ رکواتے اور اُس میں سوار ہو کر سوگندھی یا سلطانہ کے کوٹھے کی طرف چل دیتے ہم چار ونا چار غبار ہی دیکھتے رہ جاتے۔ اُستاد بنانے کی تمنا ہمارے دل میں ہی رہ جاتی ۔ویسے ایک اندازے کے مطابق ،اُن کا شاگرد ہونا بڑے جوکھم کا کام ہوتا۔ شاید اسی لئے وہ اپنا کوئی شاگرد نہیں چھوڑ گئے۔ اُن کا مزاج روکھا تھا۔ وہ ڈانٹ ڈپٹ بھی بہت کرتے اُس پر طُرح یہ کہ اُن کی تفریح کا سامان مہیّا کرنا ہمارے لئے بہت مشکل ہو جاتا۔ ہم ٹھہرے بلا نوش اور استاد بلا نوش، اُن کے مزاج کا ایک قصّہ یاد آگیا ۔سنئے مغل اعظم والے کے ۔آصف مرحوم ایک بار منٹو استاد کے گھر گئے ایک کہانی پر ڈسکس Discussکرنا تھا۔ جھٹ سے بولے کہ کہانی پر ڈِسکس کرنے کا وہ پانچ سو لیتے ہیں۔ آصف الٹے پائوں واپس چلے گئے اور دوسرے دن ایک آدمی کے ہاتھ پانچ سو روپے بھیج دیئے۔ تیسرے دن آصف کہانی لے کر منٹو استاد کے گھر آئے۔ انہوں نے کہانی سنی بولے انتہائی گھٹیا اور بکواس ہے۔ آصف ہنسے اور بولے مجھے آپ سے یہی امید تھی چلئے اسے خوبصورت بنائیے۔ خدا کا شکر کہ ہم اس جہانِ فانی میں ۱۹۵۰ء میں وارد ہوئے اور استاد ۱۹۵۵ء میں نکل لیئے۔ جب وہ نکلے تو ہم شاید اردو زبان کے حروف پہچاننے میں مصروف تھے۔ ہمیں فخر ہے کہ اُن کے دور میں ہم پانچ سال تو موجود تھے ہی ۔بہر حال استاد منٹو کی بات ہو رہی تھی ۔گئے وقتوں کے افسانہ نگاروں کے جب نام لیئے جاتے ہیں تو اُن کا نام ہمیں زیادہ ہی مقبول نظر آتا ہے۔ ایسا کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!؟
فرض کیجئے نعت خوانی یا کسی دوسری مذہبی تقریب میں خدا نخواستہ اگر کوئی سر پھرا ڈائیس پہ آکر یہ گانا شروع کردے کہ ’’چولی کے پیچھے کیا ہے، چُنری کے نیچے ۔۔۔۔۔۔!‘‘تو آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اُس مقّدس محفل میں کیا کیا ہوگا۔جب کبھی بھی اُس محفل کا ذکر آپ کریں گے ، اُس بندے کی اس حرکت کو نہ بھول پائیں گے ۔ جس زمانے میں استاد منٹو وارد ہوئے ۔اُس زمانے میں عریانت اور فحاشی گناہ کے مترادف تھی۔ نوجوان لڑکے کوک شاستر ،یا فحش ناولوں کا مطالعہ بند کمروں میں کیا کرتے تھے ۔کبھی کبھی اُن کا ایسا کرنا بھی وبال جان بن جایا کرتا تھا۔ بازار حسن کی طرف جاتے جاتے شریف لڑکوں کو برس بیت جاتے تھے۔ لڑکیا ں جنسی باتیں سات پردوں میں کرکے بھی شرما جایا کرتی تھیں۔ اکثر لوگوں کو شادی کے بعد بھی میاں بیوی کے جسمانی تعلقات کے بارے میں علم نہیں ہوتا تھا۔ ایک جملہ آئی لَو یُو کہتے کہتے عمر یں بیت جاتی تھیں ایسے میں منٹو استاد کا جنسیات پر چھپ کر یا براہ راست لکھنا اُن کو منفرد اور عظیم بنا گیا۔ اُس زمانے میں میرا اندازہ اگر غلط نہیں تونوّے فیصد لوگ منٹو کے شیدائی تھے چاہے وہ منٹو کی برائی کرتے تھے گالیاں ہی دیتے تھے ۔یہ خوشی کی بات ہے کہ لوگوں کی زندگی سے ادب اس قدر جڑا ہوا تھا کہ عوام ادب پڑھ کر محفلوں میں قحبہ خانوں میں چرچے کیا کرتے تھے ایک ایک تخلیق زندگی پر اثر انداز ہوا کرتی تھی۔ اچھے برے افسانے کی پرکھ کی جاتی تھی اور جناب کس قدر پاکیزہ ماحول تھا اور کس قدر شریف لوگ تھے کہ فحش نگاری کو روکنے کے لئے وقت اور روپیہ برباد کرتے تھے۔ مقدمات دائیر کرتے تھے ۔جبکہ آج جھوٹی پبلسٹی بٹورنے کے لئے خود اپنے اوپر مقدمات دائیر کرواتے ہیں، احتجاجی جلوس نکلواتے ہیں اور ضرورت پڑے تو فسادات بھی کروادیتے ہیں۔ آج فحاشی فیشن بن کر رہ گئی ہماری زندگی کا حصّہ بن گئی ،بچوں میں بیٹھ کر ہم ٹی وی پہ ایسے مناظر برداشت کرلیتے ہیں کہ جنہیں دیکھ کر استاد منٹو ہوتے تو شرماجاتے ،بہر حال استاد کا دورِ اخلاقیات ،شرم و حیا کا دور تھا۔ مہذّب دور تھا، یا یوں کہہ لیجئے کہ ست یُگ تھا۔ اُن کی زیادہ تر کہانیاں ہمارے سامنے منتخب ہی رقصاں کرتی رہتی ہیں۔ جیسے ٹوبہ ٹیک سنگھ، موذیل، بلاوز ،ہتک ،ٹھنڈا گوشت وغیرہ وغیرہ ۔موذیل استاد کی تقسیم ملک کے فسادات پر ایک کامیاب کہانی ہے۔ جس کا آغاز استاد منٹو کچھ اس طرح کرتے ہیں۔
پنجاب کا ۲۵ سالہ سکھ نوجوان بمبئی کے اڈوانی چیمبرز میں ایک فلیٹ میں کرایہ پہ رہتا ہے۔ افسانے کے مطابق وہ رات کے تین بجے پریشان حال ،کھلے آسمان تلے بلڈنگ کی ٹیریس پر موجود ہے۔ بقول استاد منٹو کہ اُسے کھلا کھلا ماحول ٹھنڈی ہوا بڑی بھلی لگ رہی تھی کیونکہ چار سال سے اُس نے بمبئی کا کھلا آسمان رات کے وقت دیکھا ہی نہیں تھا۔ نوجوان ترلوچن سنگھ انتہائی فکر مند ہے کیونکہ اُس کی محبوبہ کرپال کور اپنے معذور ماں باپ کے ساتھ جس محلہ میں رہتی ہے وہ کٹّڑقسم کے مسلمانوں کا محلہ ہے۔ تقسیم ملک کے فسادات جاری ہیں ۔کرفیو لگا ہوا ہے پنجاب سے خبریں آرہی ہیں کہ سکھ لوگ وہاں مسلمانوں کے ساتھ ظلم و جبر کررہے ہیں ترلوچن کوڈر ہے کہ کوئی مسلمان ہاتھ نرم و نازک کرپال کور کو پکڑ کر موت کا راستہ نہ دکھا دے۔ کرپال کور کا ایک بھائی ہے نرنجن سنگھ جو دیو لالی میں ٹھیکیداری کا کام کرتا ہے۔ ترلوچن کے اسرار کرنے پر بھی وہ بمبئی میں نہیں رُکتا جبکہ حالات خراب تھے ترلوچن اُسے کھنگر سنگھ کہتا ہے کھنگر پنجابی میں ناکارہ پتھر کو کہتے ہیں۔ ترلوچن سوچتا ہے کہ چاہے کرپال کور کے ماں باپ قتل ہو جائیں بھائی مر جائے مگر کرپال کور بچ جائے۔ شاید یہ اُس کی فطری سوچ ہے۔ یہاں ترلوچن کرپال کور کی وجاہت کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ منٹو بیان کرتے ہیں ۔جب ہم کسی کی شخصیت یا حسن کے بارے میں ذکر کریں گے تو آنکھیں ناک نقشہ قد کاٹھی کا ذکر کریں گے۔ یہاں استاد لکھتے ہیں کہ کرپال کور کے نقش پتلے پتلے تھے جیسے ابھی نامکمل ہوں آگے فرماتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی چھاتیاں جن پر بالائیوں کی چند اور تہیں چڑھنا باقی ہیں۔ گورا رنگ بدن چکنا، کرپال کور کے بارے میں سوچتے سوچتے ترلوچن کو یہودی لڑکی موذیل کی یاد آتی ہے۔ جو اس افسانے کا بڑا کردار ہے ۔موذیل وہ ابھی اڈوانی چیمبرز میں، ترلوچن کے فلیٹ کے سامنے والے فلیٹ میں رہتی ہے۔ موذیل کا کوئی تعارف نہیں وہ کہاں کی ہے۔ وہاں کیوں ہے اُس کا پیشہ کیا ہے۔ سٹوڈینٹ ہے یا بار گرل کی طرح ہے۔ ملازم ہے،بس ایک کردار ہے موذیل۔لڑکی جو ایک بنداس ،لااُبالی لاپرواہ غیر سنجیدہ ، خطروں سے کھیلنا اُس کا شوق ہے۔ ایسے ہی ترلوچن کا کوئی تفصیلی تعارف نہیں وہ سکھ نوجوان سکول سے کالج پھر برما ،سنگا پور،ہانگ کانگ اب وہ پچھلے چار سال سے بمبئی میں ہے۔
ہمیں تو ایسا لگا کہ اسٹیج سے پردہ اُٹھا۔ ہمارے سامنے دو کردار ہیں ایک پنجابی سکھ لڑکا ، دوسری موذیل بس اس پہ ہی اکتفا کیجئے اور آگے بڑھئے۔پہلی ہی ملاقات میں ترلوچن موذیل کا عاشق ہو جاتا ہے۔ استاد نے اُن کی ملاقات ہی اتنی فلمی سٹائیل کی کروائی ہے۔ موذیل ترلوچن پہ گر جاتی ہے اور دونوں الجھ جاتے ہیں۔ موذیل بہت خود سر لڑکی ہے۔ ترلوچن سے اُس کی دوستی ہوگئی وہ ترلوچن سے کھاتی پیتی ہے اس کے ساتھ سینما دیکھنے جاتی ہے۔ سارا سارا دن جو ہُو پر نہاتی ہے جب ترلوچن باہوں اور ہونٹوں سے آگے بڑھتا ہے تو وہ اُسے ڈانٹ دیتی ہے ۔بہر حال منٹو اُس کی وجاہت بیان کرتے ہیں۔ موذیل کھلے کھلے کرتے یعنی گائون کی طرح چُغے میں رہتی ہے۔ ڈھیلے ڈھالے چُغے میں استاد کی نظر فوراً چھاتیوں پر پڑتی ہے۔ لکھتے ہیں کُھلے گریبان میں سے اس کی نیل پڑی بڑی بڑی چھاتیاں چوتھائی کے قریب نظر آرہی تھیں۔ترلوچن اُس کے عشق میں سنجیدہ ہے بقول اُس کے کہ وہ موذیل کے عشق میں گوڈے گوڈے دھنسا ہوا ہے۔ یہ گوڈے لفظ بھی پنجابی کا ہے گوڈے سے مراد گھٹنا ۔موذیل آزاد خیال ،بنداس اور لاپرواہ لڑکی ہے۔ وہ ترلوچن کے ساتھ ہوٹل میں کھانا کھاتے کھاتے اُٹھ کر اپنے دوسرے کسی بوائے فرینڈ کے ساتھ چلی جاتی اور ترلوچن کلیجہ مسوس کر رہ جاتا۔ موذیل کو ترلوچن کا سِکھ ہونا ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا ۔ وہ اُسے ایڈیٹ سکھ کہتی ہے اُس کی داڑھی اور سر کے بالوں کا مذاق اُڑاتی ہے اُس کے انڈرویر کچھیرے کو سلّی انڈرویر کہتی ہے۔ موذیل اپنے دوستوں کے سامنے بھی ترلوچن کی بے عزّتی کرتی رہتی ہے اُس کے مذہب کا مذاق اُڑاتی ہے۔ ترلوچن کو اس کی ساری باتیں منظور ہیں۔ کیونکہ وہ اُس سے پیار کرتا ہے۔ جب کہ موذیل صاف کہہ دیتی کہ وہ سکھ سے محبت نہیں کرسکتی ایک دن وہ جذبات میں آکر ترلوچن کو کہتی ہے کہ اگر وہ اپنے بال کٹوا لے تو وہ اس سے شادی کرلے گی ترلوچن اُس کی بات پہ یقین کرلیتا ہے اور اگلے ہی دن بال کٹوا لیتا ہے موذیل کو یقین نہیں تھا کہ وہ اس کے عشق میں ایسا بھی کر گذرے گا۔ اُس دن ترلوچن بال کٹوا کر بہت خوبصورت نکل آتا ہے موذیل اُسے بہت پیار کرتی ہے نعرے مارتی ہے جشن مناتی ہے۔ درایں اثناء وہ اپنی سکرٹ کے گھیرے سے اپنا ناک صاف کرتی ہے۔ترلوچن شرما جاتا ہے۔ وہ اُسے کہتا ہے۔
’’نیچے تو کچھ پہن لیا کرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
موذیل کہتی ہے کہ مجھے بڑی گھبراہٹ ہوتی ہے۔ ایسے ہی چلتا ہے۔ دونوں میں طے ہو جاتا ہے کہ کل پو نا جا کر کورٹ میرج کی درخواست دے دی جائے گی۔ چلنے کا وقت مقرر ہو جاتا ہے۔ ترلوچن بروقت پہونچ جاتا ہے ،مگر موذیل نہیں پہونچتی۔
بعد میں ترلوچن کو معلوم ہوتا ہے کہ موذیل اُسے بتائے بغیر غیر معیّن عرصہ کے لئے ایک پرانے دوست کے ساتھ دیو لالی چلی گئی۔ جس نے تازہ تازہ موٹر خریدی تھی۔ترلوچن پہ کیا گذری، منٹو نے یہاں ایک استادانہ موڈ دے کر بات کو مختصر کردیا کہانی بیان کرنے کا یہ پرانا انداز ہے ۔منٹو لکھتے ہیں، ترلوچن پہ کیا گذری یہ بڑی لمبی کہانی ہے القصّہ مختصر اُس نے جی کٹرا کیا اور موذیل کو بھول گیا۔ٹیریس پہ پانی کی ٹنکی کے پاس رُک کر اُس نے موذیل کو لمبی گالی دی اور اس کو ذہن سے جھٹک دیا ۔ اب وہ کرپال کور کے بارے میں سوچنے لگا ،کرپال کور ایک پاکیزہ لڑکی ہے جس سے اس کو محبت ہوتی ہے جو اس وقت خطروں میں گھری ہوئی ہے۔اگر کرفیو نہ ہوتا ترلوچن اُس کا سارا خاندان اپنے فلیٹ میں لے آتا ، وہ اپنے مختصر بالوں پہ ہاتھ پھیرتا ہے اور سوچتا ہے کہ سال بھر میں تو یہ لمبے ہو ہی جائیں گے اندازاً بال کٹوائے اُسے چھ مہینے تو ہو ہی گئے ہونگے۔ اچانک ترلوچن کے کانوں میں کھڑا ئوں کی آواز آتی ہے۔ وقت کے مطابق صبح کے چار اور پانچ کا وقت ہے ڈرامے کے سین کی طرح ترلوچن کے پاس موذیل آجاتی ہے۔ وہ ایک بار بھی نہیں پوچھتی کہ تم ساڑھے چاربجے صبح ٹیریس پر کیا کررہے ہو۔ جبکہ وہ چار سال سے ٹیریس پر کبھی آیا ہی نہیں تھا۔ ماحول خراب اور کرفیو نافذ، موذیل نے ایک ڈھیلا ڈھالہ کرتا پہن رکھا ہے۔ موذیل نے ایک بھرپور انگڑائی لی ڈھیلے ڈھالے کرتے میں سے اُس کی مضبوط چھاتیاں دھڑکیں ترلوچن کی آنکھوں کے آگے گول گول اور چپٹے چپٹے نیل اُبھر آئے۔ وہ زور سے کھانسا ۔ موذیل کہتی ہے تم پھر سکھ بن گئے ترلوچ ؟ترلوچن اس بات پر کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کرتا اور دل میں اُسے کوستا ہے ۔تھوڑی دیر بعد ترلوچن موذیل کو سارا ماجرہ سناتا ہے کہ وہ کسی اور لڑکی سے پیار کرنے لگا ہے وہ بہت مذہب پرست اور سیدھی سادی لڑکی ہے اس وقت وہ کٹّڑ اور دادا قسم کے مسلمانوں کے محلہ میں پھنسی ہوئی ہے اُسے ڈر ہے کہ اُس کی محبوبہ قتل کردی جائیگی موذیل قصّہ سن کر کہتی ہے کہ تم اوّل درجے کے ایڈیٹ ہو جائو اُسے وہاں سے لے کر آئو۔ ترلوچن اُسے حالات کے بارے میں خبردار کرتا ہے اور یہ کہ کرفیو لگا ہوا ہے۔ موذیل کو خطروں سے کھیلنے کا شوق تھا ۔وہ کہتی ہے چلو آئو تمہاری اُس کور کو لے آتے ہیں۔ اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ موذیل کس قدر دلیر تھی ۔چلنے سے پہلے موذیل اُسے کہتی ہے کہ ننگے سر ہو جائو ویسے بھی تمہارے بال چھوٹے ہیں۔ کوئی تمہیں سکھ نہیں کہے گا۔ترلوچن کہتا ہے کہ وہ پگڑی پہنے بغیر کرپال کور کے سامنے نہیں جائیگا ،وہ مذہبی لڑکی ہے، مجھ سے نفرت کرے گی ۔موذیل اُسے سمجھاتی ہے جب تم نہ ہو گے وہ نہ رہے گی۔ تمہاری محبت کہاں رہے گی۔ ترلوچن پگڑی پہنے کی ضد کرتا ہے ، تو موذیل بنداس کہتی ہے ڈارلنگ چلو جیسی تمہاری مرضی جائو پگڑی پہن آئو، میں نیچے بازار میں کھڑی ہوں۔ ترلوچن کپڑے پہن کر بندھی ہوئی پگڑی سر پر رکھ کر موذیل کے پاس آجاتا ہے اور وہ دونوں کرپال کور کو لینے نکل جاتے ہیں۔ موذیل کھڑ کھڑ کرتی اور سگریٹ کا دھواں اُڑاتی جارہی ہے دفعتاً ایک سپاہی نے اُن کو روکا ،موذیل ادائے دلبرانہ اور ڈرامائی انداز میں اُسے کہتی ہے ۔تم نے ہمیں پہچانا نہیں۔ اِدھر ہمارا بہن رہتی ہے اس کا طبیعت خراب ہے ۔ڈاکٹر کو لے جارہا ہے ،موذیل ایک سگریٹ سپاہی کو نکال کر دیتی ہے سگریٹ سلگا کر، ترلوچن کے ساتھ اُس گلی میں داخل ہو جاتی ہے جہاں سے گذر کر اُن کو کرپال کور کے محلہ میں داخل ہو نا تھا۔ ترلوچن خوف زدہ تھا ، پتّے کی آواز پر بھی وہ گھبرا جاتا ہے۔ موذیل اُسے کہتی ہے کہ وہ ڈر ے نہیں اگر آدمی ڈرتا ہے تو کچھ نہ کچھ ہو ہی جاتا ہے۔ موذیل کرفیو کی خلاف ورزی کرکے خوش ہے ۔ترلوچن سہما ہوا ہے، محلے میں ایک مار واڑی کی دوکان لوٹی جارہی تھی۔ موذیل اُسے تسلّی دیتی ہے چلو آئو کوئی بات نہیں۔ آگے چل کر ایک آدمی پرات اُٹھائے بھاگتا ہوا ترلوچن سے ٹکرا جاتا ہے۔ ترلوچن کو دیکھ کر وہ نیفے میں ہاتھ ڈالتا ہے موذیل اُسے دھکا دیتی ہے اور کہتی ہے تو اپنے بھائی کو مارے گا؟آدمی موذیل کی ادائے دِلبرانا اور جسم کو شہوانی نظروں سے دیکھتا ہے۔ موذیل کہتی ہے یہ تمہارا بھائی ہے ہم اس سے شادی بنانے کو مانگتا ہے آدمی آگے بڑھ کر موذیل کی چھاتیوں پر کہنی سے ٹھاکا دیتا ہے اور کہتا ہے، عیش کر سالی۔۔۔۔۔عیش، موذیل ترلوچن کو کہتی ہے کریم پرات اس کے سر پر رکھ دے ترلوچن اس آدمی پر بہت غصّہ ہوتا ہے۔ موذیل کو کہتا ہے بڑی ذلیل حرکت کی اُس نے موذیل لاپرواہی سے کہتی ہے۔ سب چلتا ہے اور اپنی چھاتیوں پہ ہاتھ پھرتی ہے آگے جا کر وہ کرپال کور والی گلی میں داخل ہو جاتے ہیں۔ وہاں بڑی گڑ بڑ ہے۔ لوگ اِدھر اُدھر بڑی تیزی سے آجارہے ہیں۔ موذیل پھر ترلوچن کو وارننگ دیتی ہے کہ وہ پگڑی اتار دے ۔ترلوچن ایسا نہیں کرتا ۔ سامنے سے تین آدمی نکڑ والی بلڈنگ سے نکل کر گھستے ہیں ترلوچن کو موذیل اشارہ کرتی ہے کہ وہ اندھیرے میں چھپ جائے۔ دو آدمی بورے اُٹھائے سامنے سے نکلتے ہیں۔ بوروں میں سے کوئی گاڑھا گاڑھا سیال نکل رہا تھا۔ موذیل گھبرا جاتی ہے ، کرپال کور کا فلیٹ سامنے ہے۔ وہ ترلوچن کو کہتی ہے کہ وہ تیز بھاگتی ہوئی کرپال کور کے فلیٹ میں گھسے گی وہ بھی اِسی رفتار سے اس کے پیچھے بھاگ آئے۔ اس طرح وہ دونوں کرپال کور کے فلیٹ میں پہونچ جاتے ہیں۔ دروازے پر جاکر ترلوچن آہستہ سے آواز دیتا ہے مہنگا جی ۔۔۔۔!مہنگا جی ۔۔۔۔۔۔!!‘‘ظاہر ہے یہ نام کرپال کور کے باپ کا ہوگا۔ دروازہ کھلتا ہے ترلوچن موذیل کو اشارہ کرتا ہے وہ دونوں اند ر آجاتے ہیں۔ موذیل اپنی بغل میں ایک دبلی پتلی اور سہمی ہوئی لڑکی کو دیکھتی ہے جو بہت ڈری ہوئی ہے۔ اُس کی ناک بہہ رہی ہے۔ موذیل اُسے گلے لگا لیتی ہے کہتی ہے۔ ترلوچن تمہیں لینے آیا ہے۔ ڈرو نہیں، موذیل یہاں کرپال کور کی ناک اپنے کرتے کے دامن سے صاف کرتی ہے، دامن اُٹھتا ہے ’’اور ترلوچن سرخ ہو جاتا ہے۔۔۔‘‘
ترلوچن کہتا ہے ۔
’’سردار صاحب اور ماتا جی کو کہو وہ تیار ہو جائیں۔درایں اثناء اوپر والی منزل سے چیخ و پکار شروع ہو جاتی ہے اور دھینگا مشتی کی آوازیں آنے لگتی ہیں۔ کرپال کور کے حلق سے چیخ نکلتی ہے اور وہ کہتی ہے۔اُسے پکڑ لیا انہوں نے ۔۔۔۔۔۔! ترلوچن سوال کرتا ہے کِسے وہ جواب دینے والی ہی تھی کہ موذیل اُسے گھسیٹ کر ایک کونے میں لے جاتی ہے۔ موذیل اُس کے کپڑے اُتار دیتی ہے اور اُسے اپنا لمبا کرتا پہنا کر خود ننگ دھڑنگ ہو جاتی ہے۔ کرپال کور کے بال کھول کر ترلوچن کو کہتی ہے کہ تم لوگ یہاں سے نکلو۔ ترلوچن کہتا ہے اور ۔۔۔۔۔۔تم؟موذیل کہتی ہے تم میری فکر نہ کرو میں آجائوں گی۔ استاد یہاں پھر ترلوچن سے کہلواتے ہیں کہ کرپال کور کے ماں باپ بھی تو ہیں، موذیل چڑ کر کہتی ہے جہنم میں جائیں ماں باپ تم نکلو۔اتنے میں بلوائی زور زور سے دروازہ پیٹنے لگ جاتے ہیں جو ظاہر ہے اوپر کی منزل سے لوٹ مار کرکے آئے ہیں۔ دروازہ توڑنے کی حد تک پیٹا جا رہا تھا۔ موذیل فوراً سوچتی ہے اور ترلوچن سے کہتی ہے کہ وہ دروازہ کھول کر باہر نکلے گی اوروہ اُسی رفتار سے اُس کے پیچھے آئے۔ وہ بھاگتی ہوئی سیڑھیوں پہ چڑھے گی ترلوچن بھی اُس کے پیچھے چڑھ جائے۔ بلوائی اُن کے پیچھے بھاگیں گے اور یہ تمہاری کیا نام ہے اس کا موقع پا کر باہر نکل جائے اس لباس میں اسے یعنی کرپال کور کو کوئی کچھ نہیںکہے گا۔ موذیل دروزہ کھول کر دھڑام سے باہر کے لوگوں پہ گرتی ہے سب لوگ بوکھلا جاتے ہیں وہ اُٹھتی ہے اور اوپر کی سیڑھیوں پر چڑھ جاتی ہے۔ پیچھے ترلوچن سنگھ بھاگتا ہے۔ کھڑائوں بدستور اُس کے پیروں میں ہیں بلوائی سنبھل کر اُن دونوں کے پیچھے بھاگتے ہیں اوپر کے زینے سے موذیل کا پائوں پھسلتا ہے وہ کچھ اس طرح سے لڑھکتی ہے کہ ہر پتھریلے زینے سے ٹکراتی اور لوہے کے جنگلے سے الجھتی ہوئی پتھریلے فرش پر آگرتی ہے۔ ترلوچن فوراً نیچے اُتر کر اُس کو دیکھتا ہے تو موذیل کی ناک اور مونہہ سے خون بہہ رہا ہے ۔دروازہ توڑنے والے بلوائی اُن کے اردگرد جمع ہوجاتے ہیں۔ کوئی کچھ نہیں پوچھتا ترلوچن اپنی پگڑی اتار کر اُس کا ننگا جسم ڈھک دیتا ہے۔ موذیل مسکراتی ہے اُس کو آنکھ مار کر کہتی ہے۔
’’جائو دیکھو!۔۔۔۔۔۔میرا انڈر وئیر وہاں ہے کہ نہیں۔۔۔۔۔۔؟میرا مطلب ہے وہ ۔۔۔۔!‘‘ترلوچن جاتا نہیں ،موذیل غصّہ سے کہتی ہے ۔
’’تم سچ مچ سکھ ہو۔۔۔۔۔۔جائو۔۔۔۔۔۔!!‘‘ترلوچن اُٹھ کر کرپال کور کے فلیٹ کی طرف جاتا ہے۔
(شاید موذیل کو کچھ اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے)موذیل فسادیوں سے کہتی ہے۔
یہ میاں بھائی ہے۔ لیکن بہت دادا قسم کا۔۔۔۔۔۔۔میں اسے سکھ کہا کرتی ہوں۔۔۔۔۔!‘‘
ترلوچن واپس آکر اشارہ کرتا ہے کہ کرپال کور جاچکی ۔ موذیل کو اطمینان ہو جاتا ہے۔ وہ ترلوچن سے مخاطب ہو تی ہے۔
’’آل رائیٹ ڈارلنگ۔۔۔۔۔۔!بائی بائی۔۔۔۔۔۔!‘‘
ترلوچن کچھ کہنا چاہتا ہے مگر الفاظ اُس کے حلق میں اٹک گئے۔ موذیل اپنے بدن سے پگڑی ہٹائی ہے۔ کہتی ہے ۔
’’لے جائو اس کو ۔۔۔۔۔۔اپنے مذہب کو۔۔۔۔۔۔!‘‘
اوراُس کا بازو اُس کی مضبوط چھاتیوں پر بے حس ہو کر گر پڑتا ہے۔
یہ تو ہوئی موذیل کی کہانی جس کو تخلیق کرکے منٹو نے واقعی عرق ریزی کا کام کیا اور اس موضوع کو بہترین طریقہ سے ٹریٹ کیا چلیئے ۔۔۔۔۔۔!!اب ہم استاد کے ساتھ تھوڑا انجوائے کرلیں۔ کبھی کبھی استاد سے بھی دل لگی اچھی لگتی ہے۔جوشاید میرے جیسے مبّصر شاگرد کا حق بھی بنتا ہے۔ آئیے موذیل پر گفتگو کریں۔
پہلی بات تو یہ کہانی کے موضوع کے مطابق بنیادی خیال کیا ہے۔۔۔؟شاید ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایک یہودی لڑکی نے ایک سکھ نوجوان کی محبت میں اپنی جان کی پرواہ کیئے بغیر اُس کی محبوبہ کی جان بچائی اور اپنی جان گنوا بیٹھی ، بنیادی واقعہ تو یہ ہی لگتا ہے ۔ آئیے کچھ مزید غور کرتے ہیں استاد سے معافی کے ساتھ اس موضوع سے تین پہلو نکلتے ہیں۔
۱۔
کیا موذیل نے اپنی جان ترلوچن کی محبت کے لینے خطرے میں ڈالی۔۔۔۔۔۔؟
۲۔
کیا موذیل واقعی ترلوچن سے اتنی ہی محبت کرتی تھی کہ وہ اس کی خاطر خطروں سے کھیل بیٹھی۔۔۔۔۔۔؟
۳۔
کیا موذیل نے اپنی فطرت کے مطابق، محض شوق کی خاطر خطرات مول لیئے۔۔۔۔؟جیسا کہ جزیات میں ظاہر کیا گیا ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ افسانے کو استاد نے تخلیق کیوں کیا؟ اور کیسے ؟ چلیئے پہلے سوال پہ بات کرتے ہیں موذیل ترلوچن سے صرف دوستی کی حد تک تعلق رکھتی تھی۔ اُس کے ساتھ گھومتی پھرتی تھی سمندر کے کنارے دن بھر نہاتی تھی۔ ترلوچن جب کبھی ہاتھوں اور ہونٹوں کی حد سے آگے بڑھتا تھا تو وہ اُسے بری طرح ڈانٹ دیتی تھی۔ اُس کا بار بار کہنا کہ ترلوچن تم سکھ ہو میں تم سے نفرت کرتی ہوں وہ ترلوچن کے بالوں سے، پگڑی سے، کچھیرے (انڈروئیر) سے نفرت کرتی تھی۔ ویسے ترلوچن بہت خوبصورت نوجوان تھا۔ موذیل نے اُس کے سامنے بال کٹوانے کی شرط پر شادی کی رضامند ی ظاہر کی۔ وہ بخوبی جانتی تھی کہ کوئی سکھ ایسا کر ہی نہیں سکتا کیونکہ ایک جگہ وہ ترلوچن کو کہتی ہے کہ اُس کی محبوبہ یعنی کرپال کور مذہب کی پابند ہے۔ تو تمہیں یعنی ترلوچن کو کیسے قبول کرے گی۔۔۔؟کیا اُسے معلوم نہیں کہ تم ایک دفعہ بال کٹوا چکے ہو۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ موذیل کو علم تھا کہ سکھوں کے لئے اُن کے بال کس قدر اہم ہوتے ہیں۔ پھر بھی اُس نے مذاق میں یا جان بوجھ کر ترلوچن کے بال کٹوا دئیے ترلوچن کی اس قربانی کو دیکھتے ہوئے بھی اس سے شادی نہیں کرواتی بلکہ اگلے ہی دن ، ترلوچن کے ساتھ پروگرام بنا کر وقت پر نہیں پہونچتی اور اپنے کسی پرانے بوائے فرینڈ کے ساتھ بھاگ جاتی ہے اور بے چارہ ترلوچن قربانی دے کر بھی بے وفائی کی چوٹ سہتا ہے یہی نہیں موذیل ترلوچن کو اکثر اپنے دوسرے دوستوں کے سامنے بے عزّت کرتی رہتی ہے۔ ترلوچن کے ساتھ ، لنچ یا ڈنر کرتی ہے کسی دوسرے کے ساتھ اُٹھ کر ہوٹل سے چلی جاتی ہے اور ترلوچن کلیجہ مسوس کر رہ جاتا ہے۔ افسانے میں کسی طرح ظاہر نہیں ہوتا کہ موذیل ترلوچن سے محبت کرتی تھی ۔ترلوچن کے مطابق یہ کہ وہ موذیل کے عشق میں گوڈے گوڈے دھنسا ہوا ہے۔ سنگا پور، لاہور وغیرہ میں وہ لڑکیوں کا وقت خریدتا تھا۔ مگر بمبئی میں آکر وہ موذیل کے عشق میں گِھر جاتا ہے۔ موذیل اُسے ایک بے وقوف اور ڈر پوک دوست سے زیادہ اہمیت نہیں دیتی ہاں اُس کی قربت میں اُسی سے انجوائے کرتی ہے مگر ایک خاص حد تک سمجھ دار لڑکیوں کی طرح۔
کہانی میں موذیل اپنی جان دے دیتی ہے۔ ترلوچن سے شادی کا وعدہ کرکے وقت مقرر کرکے اُس کا غائب ہوجانا اور ایک عرصہ کے بعد ڈرامائی انداز میں صبح کے چار بجے کے قریب اچانک اُس کا ٹیریس پر آجانا ۔عجیب سا لگتا ہے۔یہ سوالات تشنہ ہی رہتے ہیں کہ وہ کیوں آئی۔۔۔۔؟کہاں سے آئی۔۔۔۔؟کب بمبئی پہونچی۔۔۔۔۔۔؟وہ آتے ہی پہلا مکالمہ بولتی ہے۔
’’ترلوچ۔۔۔۔۔۔تم پھر سکھ بن گئے۔۔۔۔۔۔!؟‘‘
یعنی آتے ہی ترلوچن کے زخموں پر نمک پاشی کا کام کرتی ہے۔ ۲۵ سال کا لڑکا، کوئی بھی ہوتا، جن حالات میں موذیل اُسے چھوڑ کر گئی تھی۔ اوّل تو فطری طور پر اُس سے بات ہی نہ کرتا۔ ناراضگی کی اس سے زیادہ بڑی وجہ کیا ہوسکتی تھی۔ مگر ترلوچن اُس سے کوئی سوال ہی نہیں کرتا اور نہ کوئی گِلہ کرتا ہے۔ یہ معاملہ غیر فطری سا لگا۔ مانا کہ موذیل بنداس اور لاپرواہ لڑکی تھی۔جس لڑکی کو اپنی عزت محفوظ رکھنے کی فکر ہے ۔وہ سمجھدار اور سنجیدہ ہوسکتی ہے، لاپرواہ ،لاابالی نہیں ہوسکتی۔ یہ کردار کے نفسیات کی بات ہے۔ اور کئی باتوں سے استاد نے خود ظاہر کیا ہے کہ موذیل صحیح الدماغ لڑکی تھی پھر کیسے ایک لمبے عرصہ بعد ترلوچن سے مل کر وہ شرمندہ نہیں ہوتی ہے۔ نہ سوری کا لفظ استعمال کرتی ہے کہ اُس نے ترلوچن کا دل توڑا تھا اُسے چھوڑ کر جانے کی وجہ بیان نہیں کرتی ۔استاد نے یہ ظاہر کیا ہے کہ موذیل دوسروں کے جذبات یا دکھ محسوس نہیں کرتی تھی۔ آگے چل کر وہی لڑکی اتنا بڑا کام کر گذرتی ہے کہ اُس کی قیمت اُسے اپنی جان دے کر چکانا پڑتی ہے۔ یہ بات کچھ ہضم نہیں ہوتی۔ کردار کی فطرت اور ہے وہ کام کچھ اور کررہا ہے۔ ترلوچن ڈرا ہوا ہے۔ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ کرپال کور کو اُس کے محلہ سے نکال لائے گا ۔موذیل بڑی آسانی سے کہہ دیتی ہے۔
’’چلو آئو!۔۔۔۔۔۔تمہاری اس کور کو لے کر آتے ہیں۔۔۔۔۔۔!‘‘
کرپال کور کی موذیل کیا لگتی تھی۔وہ اتنے بڑے خطروں میں گھری لڑکی کو لانے کے لئے نکلتی ہے۔ ہم کیسے مان لیں کہ وہ جذباتی نہیں تھی اُسے دوسروں کی تکلیف کا احساس ہی نہیں تھا۔ ترلوچن سے محبت نہ ہونے کا دوسرا بڑا ثبوت یہ ہے کہ موذیل کرپال کور کا نام سن کر حَسد کا اظہار نہیں کرتی۔ اگر وہ ترلوچن کی محبت میں گرفتار ہوتی تو فوراً کہتی مرنے دو اس کو وہ اپنے محبوب کی محبت کو کسی دوسری عورت سے بانٹ ہی نہیں سکتی تھی۔ مگر وہ ترلوچن کو لے کر اُس کی محبوبہ کو اُس کے محلہ سے نکالنے کے لئے پہونچ جاتی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ ترلوچن اور کرپال کور کا ساتھ بنے یہاں ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ ترلوچن سے موذیل کی محض ٹائم پاس دوستی تھی۔ اُن کے درمیان محبت کا کوئی پختہ جذبہ نہیں تھا۔ ترلوچن کا عشق یک طرفہ تھا۔ اسی لئے اُس نے دل پہ چوٹ کھائی ۔
اب سوال یہ ہے کہ موذیل نے کرپال کور کو بچانے کا خطرہ مول لیا؟ یہاں موذیل کی قربانی کا ایک پہلو یہ بھی نکلتا ہے کہ کیونکہ موذیل ترلوچن کو دھوکا دے دیتی ہے۔ بے وفائی کرتی ہے جبکہ ترلوچن اُس سے شادی کا سپنا دیکھتا ہے اور بال تک کٹوا دیتا ہے۔موذیل کو شاید اندر ہی اندر یہ احساس تھا کہ اُس نے ترلوچن سے دھوکا کیا ہے۔ اُس کا دل توڑا ہے اپنی بے وفائی کا کفارہ ادا کرنے کی غرض سے وہ ترلوچن کی مدد کرتی ہے۔ زبان سے اپنے گناہ کا اعتراف نہیں کرتی۔ ایک اور پہلو ہمارے سامنے آتا ہے وہ یہ کہ موذیل ایک اَلھڑ ، بے خوف، لاابالی ،لاپرواہ ،غیر سنجیدہ اور غیر جذباتی لڑکی ہے۔ جب کبھی وہ ترلوچن کے ساتھ سمندر پہ نہانے جاتی تھی تو ترلوچن کے لئے مصیبت بن جاتی۔ وہ سمندر کی لہروں کی طرف خطرناک حد تک چلی جاتی ۔واپس آتی تو جسم پر نیل اور خراشیں ہوتیں۔ موذیل کو خطرے مول لینے کا شوق تھا ۔اُس نے یہ خطرہ بھی شوق کی وجہ سے ہی اُٹھایا اور اُسے اندازہ نہیں تھا کہ معاملہ اس قدر بگڑ بھی سکتا ہے۔ جب وہ اڈوانی چیمبر سے چلتی ہے تو ،ترلوچن کپڑے پہن کر آتا ہے۔
وہ کھلا کھلا سا کرتا پہنے سڑک پر کھڑی آرام سے سگرٹ پہ رہی تھی۔ جب ترلوچن اُس کے قریب آتا ہے تو وہ اُس کے مونہہ پر دھواں مارتی ہے۔ ایسی حرکتیں انسان تب کرتا ہے جب وہ ذہنی آسودگی سے دو چار ہو۔ ترلوچن خوف زدہ ہے گھبرایا ہوا ہے۔موذیل اُس خطرناک ماحول سے چنداں نہیں گھبرا رہی،منٹو لکھتے ہیں کہ موذیل کو کرفیو کی خلاف ورزی کرکے مسّرت حاصل ہورہی تھی۔ صاف ظاہر ہے کہ وہ ہابی کے طور پر ترلوچن کے ساتھ چل رہی تھی۔ کرپال کور کو محلہ سے نکال لانا اُسے معمولی کام نظر آرہا تھا۔ ترلوچن کو ایسے ماحول میں پگڑی سمیت لے جانا ہی اپنے اندر ایک بہت بڑا خطرہ تھا۔ ترلوچن کی ضد دیکھ کر وہ وضا مند ہو جاتی ہے اور کہتی ہے۔
’’ڈارلنگ جیسی تمہاری مرضی جائو پگڑی پہن کر آئو۔۔۔۔۔۔!‘‘
وہ کسی بات کو مصیبت سمجھتی ہی نہیں۔ خطروں سے کھیلنا اُسے پسند ہے۔ راستے میں پرات اُٹھائے ایک آدمی ترلوچن سے ٹکراتا ہے اور نیفے میں سے چاقو یا چھری نکالنے کو ہی ہوتا ہے کہ موذیل پرات والے کو دھکا مارتی ہے اور کہتی ہے۔ اپنے بھائی کو مارے گا وہاں موقع پر وہ ترلوچن کا نام کریم کہہ کر پکارتی ہے۔ پرات والا موذیل کی چھاتی پر کہنی مار کر کہتا ہے۔ سالی عیش کر عیش موذیل کو برا نہیں لگتا بلکہ وہ ترلوچن کو کہتی ہے ۔
’’یہ کوئی ذلیل حرکت نہیں۔۔۔۔۔۔چلتا ہے۔۔۔!‘‘وہ اس فعل کو اہمیت نہیں دیتی۔جب وہ کرپال کور والی گلی میں داخل ہوتے ہیں وہاں قتل و غارت کا شائبہ ہوتا ہے۔ جب بوروں میں لاشیں ڈالے موذیل کے سامنے سے آدمی گذرتے ہیں۔ تب موذیل ایک بار ترلوچن کو پگڑی اتار نیکے لئے کہتی ہے وہ نہیں مانتا وہ جھنجھلا کر کہتی ہے۔ دیکھ نہیں رہے سامنے کیا ہورہا ہے۔ جب بوروں سے موذیل کو خون بہتا ہوا نظر آتا ہے تب وہ کانپ جاتی ہے۔یعنی اب تک اُسے خطرے کا احساس نہیں تھا۔ وہ سمجھ رہی تھی کہ وہ ایسے ہی اپنے حُسن کے جادو کے زور پر کرپال کور کو نکال کر لانے میں کامیاب ہو جائے گی ان باتوں سے ظاہر ہوتا ہے موذیل شوقیہ طور پر لااُبالی پن میں غیر سنجیدگی سے کام لیتے ہوئے کرپال کور کے لئے نکل پڑتی ہے کرپال کور کی گلی میں جا کر اُسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ اُس نے شوق شوق میں خطرہ مول لے لیا ۔ایڈوانی چیمبر ز سے نکلتے ہوئے اُسے کرپال کور کو نکال کر لانا مشکل نہیں تھا۔ صاف ظاہر ہے کہ وہ اپنے خطروں سے لڑنے کے شوق میں بے وقوفی کربیٹھی۔ یہ قدم اُس نے ترلوچن کی محبت میں نہیں اُٹھایا۔ خطروں میں گھر کرتو بہر حال اُسے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی تھا۔ یہ پہلو اس طرف سوچنے کیلئے ہمیں مجبور کرتا ہے اپنے لا ابالی پن اور بے وقوفی میں ماری جاتی ہے۔ معاف کیجئے یہ میرا اپنا خیال ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس سے پہلے موذیل پہ کسی نے تجزیہ لکھا ہواور موذیل کے کردار کوکس زمرے میں رکھا محبت ،اپنی بے وفائی کا کفّارہ ،یا بے وقوفی۔۔۔۔۔۔؟
آج کا افسانہ مکمل تصّوراتی نہیں ہے۔ افسانہ کوئی بھی لے لیں اُس کی بنیاد میں کوئی نہ کوئی حقیقت ضرور چھپی ہوگی جس کے اِردگرد افسانہ بناگیا ہوگا۔ جہیز پر لے لیجئے، دہشت گردی لے لیجئے، سیاسی غنڈہ گردی ،کرپشن، لال فیتہ شاہی ،رشتوں کی پامالی، گھوٹالے ، کرپشن اور ملاوٹ وغیرہ اِن موضوعات پر تخلیق کئے ہوئے افسانے کسی نہ کسی حقیقت کو ظاہر ضرورکرتے ہیں۔آج کے دور میں میڈیا اس قدر تیز ہو گیا ہے کہ دنیا کے کسی بھی کونے میں کوئی حادثہ رونما ہو گیا ہو تو منٹوں میں آپ کے سامنے خبر آجاتی ہے اور میڈیا اس قدر تیز ہو گیا ہے کہ دنیا کے کسی بھی کونے میں کوئی حادثہ رونما ہوگیا ہو تو منٹوں میں آپ سامنے خبر آجاتی ہے اور آپ کی کھلی آنکھوں کے سامنے مناظر بھی پھیل جاتے ہیں۔ استاد کے سامنے ایسا کچھ نہیں تھا۔وہ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ وہ اخبار نہیں پڑھتے ،فلمیں دیکھنا اُن کو اچھا نہیں لگتا تھا۔افسانہ نگار کے سامنے جب تک نئے واقعات اور حادثات نہیں آئیں گے تو وہ موضوعات کہاں سے لائے گا۔ اُس کے اِردگرد کتنا تغّیر آئے گا؟ یہ بات درست ہے نا کہ استاد کے دور میں (Commication)کمنی کیشن کا فقدان تھا۔ اُس دور کے زیادہ تر افسانے تصّوراتی ہی ہوتے تھے جو گھڑے جاتے تھے۔ مجھے کہنے دیجئے کہ بارہ پندرہ سال کے عرصہ تک ترقی پسند تحریک سے وابستہ ادیب مزدور کی کسمپرسی ،جاگیرداروں کے جبرو ظلم کے بارے میں لکھتے لکھتے تھک گئے تھے اوررومان پرور باتیں کرنے لگے تھے۔ گھریلو رشتوں کی فکر مین ڈوب گئے ۔استاد نے سب سے الگ ہٹ کر ایک نئی جہت پکڑ لی اور ویشیائوں اور بھڑووں کی بستیوں میں جا پھنسے ۔کیونکہ وہ سب سے الگ رنگ اپنانا چاہتے تھے۔ بہر حال تقسیم کا المناک دور، جہاں دنیا کے لئے کربناک زحمت ثابت ہوا وہاں افسانہ نگاروں کے لئے رحمت ثابت ہوا۔ فسادات میں افسانہ نگاروں نے موضوعات کی جھولیاں بھر لیں۔ اردو ادب میں ایک لمبے عرصہ تک تقسیم کے دلخراش وقعات گونجتے رہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ میرے ساتھ اتفاق کریں گے۔ راجندر سنگھ بیدی، کرشن چندر ،منٹو اور قاسمی وغیرہ نے دونوں ہاتھوں سے تقسیم کے موضوعات سمیٹے اور اپنے تخلیقی گوداموں کے کارخانوں کے گودام بھر لیئے۔ منٹو چونکہ اوروں کی نسبت زیادہ احتجاج پسند اور باغی تھے۔ سماج کے زخموں کو کریدنے والے تیکھے اور بے باک ادیب تھے۔ انہوں نے تقسیم کی المناکیوں پر سب سے زیادہ لکھا ’’سیاہ حاشیے ‘‘جو دور حاضر میں افسانچے کا نام لے کر ابھرے ہیں اُسی دور کے شاہکار تخلیقات ہیں۔ جو استاد منٹو کو مرنے بعد بھی ایک زندگی عطا کرگئیں۔ منٹو اپنے ہم عصروں میں سب سے زیادہ جینئس تھے انہوں نے سوچا ہوگا کہ لکھتے تو سبھی ہیں، وہ کچھ ایسا لکھیں جو سب سے الگ اور ہٹ کر ہو۔ سب چونک پڑیں اس معاملہ میں وہ کامیاب بھی رہے انہوں نے جنسی اور فحاشی موضوعات کو المناکیوں کے رنگ میں ڈبو کراتنے اچھے سلیقے سے ادب پروسا کہ ہر عمر کا قاری اُسے چٹخارے لے کر پڑھنے لگا یہ مت سوچیئے کہ منٹو فحش نگار تھا۔ یہ دیکھئے کہ اوروں کے مقابلہ میں منٹو کی مارکیٹ ویلیو کیا تھی ،ایک ایک مجموعہ کے کتنے کتنے ایڈیشن چھپے تھے اور ہاتھوں ہاتھ بکتے تھے۔ بہر حال بات موذیل پہ ہورہی ہے اسی کی طرف بڑھتے ہیں۔ اب سوال یہ رہ گیا کہ آخر استاد نے یہ افسانہ تخلیق کیا تو کیوں۔۔۔۔۔۔!؟اور کیسے ۔۔۔۔۔۔؟ کئی بارایسا ہوتا ہے کہ ایک بُت تراش اپنے تصّور کے زور پر اپنی خواہشات اور اپنے خوابوں کے مطابق ایک بت بنا دیتا ہے اور پھر اُسی بت پر خود ہی عاشق ہوجاتا ہے اور خیالوں میں نہ جانے اُس سے کس کس ڈھنگ سے محبت کرتا ہے۔ یہ بات ایک مصّور پربھی صادق آتی ہے ۔وہ اپنی تخلیق کردہ تصویر پرعاشق ہوسکتا ہے۔ شاید اسی طرح کہانی موذیل تخلیق کرنے سے پہلے استاد کے ذہن میں موذیل کی تصویر ہوگی ایک دبنگ ،نڈر ،لااُبالی اور کھلے ماحول میں پلی بڑھی لڑکی، جس میں شرم و حیا کم ہو۔ ایسا اکثر ہوتا ہے ہم افسانہ نگار، کسی انوکھی اور پرکشش شخصیت سے مل کر اپنے شعور میں اُسے بسا لیتے ہیں اور تخلیقی عمل کے دوران اُس کی شباہت ، اُس کی عادات اپنے افسانے کے کسی کردار کو اوڑھا دیں اور اُسی کا نام بھی اُس کو دے دیں۔ میرا اندازہ ہے کہ استاد کے سامنے ایسی ہی کوئی دبنگ خوبصورت ،مضبوط اور فربہ پستانوں والی لڑکی آئی ہوگی جس سے استاد متاثر ہوگئے ہونگے۔کیونکہ استاد لاہور کی ہیرا منڈی (بازار حسن ) امرتسر کے بازار حسن کے لوگوں سے ملتے تھے یا پھر بمبئی کی فلم انڈسٹری میں ایسی کوئی لڑکی گائون پہنے مل گئی ہوگی۔ وہ اُستاد کے ذہن میں بس گئی ہوگی۔ جلتا ہوا موضوع تو اُس زمانے میں تقسیم وطن ہی تھا بس اُنہوں نے موذیل کو فساد کے ماحول کا حصّہ بنا دیا۔ اتنی بولڈ لڑکی جو اپنے ننگے پن پر شرمسار نہیں ہوتی۔ مسلم لڑکی تو ہو نہیں سکتی تھی۔ہندو لڑکیاں بھی اتنی بے شرم اور بولڈنہیں ہوتیں۔رنڈی ایسے خطرناک کام مول نہیں لے سکتی۔ کیونکہ وہ کمرشل ہوتی ہے۔ اس لئے لڑکی یا تو کرسچن یا پھر یہودی ہوتی۔ وہی بولڈ ہوسکتی تھی اُس زمانے میں اس لئے یہودی لڑکی مان لیا گیا۔ جنسی چٹخاروں کے لئے بھی یہودی لڑکی کاہونا ضروری تھا۔ ساتھ میں دو پنجابی کردار جوڑ دیئے گئے جو کہانی کے لئے کارگر ثابت ہوئے۔ واقعات تو اُس دور میں بے شمار سامنے تھے۔شاید افسانہ موذیل کی تخلیق کی یہی وجہ رہی ہوگی۔ میرا اندازہ اور استاد کے حالات پہ غور کرلیں۔
جب تک موذیل وجود میں آئی(کہانی ) شاید استاد بالی وُڈ میں پہونچ چکے تھے۔ موذیل میں فلمی سٹائیل صاف نظر آتے ہیں۔ ترلوچن کی موذیل سے پہلی ملاقات بالکل فلمی انداز کی سی ہے۔ استاد نے موذیل کو کھڑائوپہنا کر ترلوچن پر گرا دیا۔ اس طرح موذیل کا چُغہ اوپر چڑھ گیا اور دو ننگی اور تگڑی ٹانگیں ترلوچن کے اِدھر اُدھر تھیں۔ اُستاد لکھتے ہیں کہ جب و اُٹھا تو موذیل کے جسم پر صابن کی طرح پھر گیا۔ پہلی ملاقات اجنبی لڑکی، چاہے وہ یعنی ترلوچن اچانک موذیل پر گرتا ہے کیا واقعی وہ صابن کی طرح ہی موذیل کے جسم پر پھرے گا۔یہ ممکن ہے ،محبوبہ کے ساتھ محبت کے دوران تو کوئی صابن کی طرح پھر سکتا ہے ایک اجنبی ڈر پوک لڑکا کیسے صابن کی طرح کسی لڑکی کے جسم پر پھرے گا۔ صابن کی طرح ترلوچن کو موذیل کے جسم پر پھیرکر یا گھسا کر اُستاد خود ضرور مزہ لے گئے۔ صابن کی طرح پھرنا استاد نے اس کہانی میں دوبار استعمال کیا ہے۔ یعنی دوہرا مزہ، دوسرا فلمی سٹائیل یہ کہ صبح کے چار بجے ملگجی اندھیرے میں موذیل اچانک ٹیریس پر ہی پہونچ جاتی ہے۔ جیسے کوئی اوتار پرگٹ ہوگیا ہو، ترلوچن کی مدد کرنے کے لئے، کہانی کی ضرورت تھی۔ جذیات کا تقاضا تھا کہ موذیل کی بے وفائی پہ کچھ بات چیت کوئی بحث ہوتی مگر استاد کرداروں میں اتنا الجھے اور اختتام پہ زیادہ توجہ دینے کی وجہ سے بہت کچھ فراموش کرگئے۔
ایک بات ہمیں استاد کی بہت ناگوار گذری ،استاد نے موذیل کو اتنا ذلیل کیوں کیا۔۔۔۔۔۔؟کیا استاد کو عورت کی عظمت اُس کی پردہ داری، شرم و حیا کا ذرا بھی پاس نہ تھا۔ موذیل کو یہودی لڑکی بنانا یہی استاد کا مقصد تھا کہ وہ ننگی بھی ہو جائے تو کوئی بات نہیں ۔موذیل عورت تھی ،عورت ہماری ماں بھی ہے جس کے قدموں میں جنّت ہے۔ بہن بھی ہے بیٹی بھی۔ استاد نے دوبار اُس کے خاص پوشیدہ حصّے کو عیاں کردیا۔ اگر عورت کا وہ حصّہ ہی آپ نے قاری آگے کھول دیا تو عورت عورت کہاں رہی، آج کا دور فحاشی کی ساری حدود توڑ چکا۔ آج بھی اردو ادب عورت کی عظمت کا پاسدار ہے۔ کہانی کی ضرورت کے مطابق اگر عورت کو ننگا کرنا بھی ہے، جنسی چٹخارہ لینا بھی اگر مقصود ہے۔ تو الفاظ کے پردہ میں، کھلے لفظوں میں نہیں، اس طرح کہ فحش ہو کر فحش بھی نہ لگے۔ ادب ادب ہے، ادب کا ایک دائیرہ ہے۔ پچھلے دنوں دہلی کے ایک ترقی یافتہ افسانہ نگار نے افسانے میں ہونٹوں سے ہونٹ پیوست کروادئیے۔ یہ تو آج عام بات ہے ۔آج عمران ہاشمی کی فلم لوگ بڑے آرام سے اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر دیکھ لیتے ہیں۔
اب ہر نئی فلم میں بوسہ بازی دکھائی دینے لگی ہے۔ اس کے علاوہ موبائیلوں پہ، انٹرنٹ پہ کیا نہیں ہوتا۔ سب کچھ مذاہب تو ایک فالتو چیزیں بن کر رہ گئے بے حیائی ہر طرف پھیلی ہوئی ہے۔ استاد نے بے چاری موذیل کے ساتھ اچھی خاصی جنسی زیادتی کر ڈالی(مجھے استاد معاف کریں)کم سے کم اس فحاشی کے دور میں ہم اپنے کرداروں کے ساتھ ایسی زیادتی نہیں کرتے جو استاد اُس دور میں کرگئے۔ یقین نہیں آتا۔۔۔۔۔۔؟چلیئے ثابت کیئے دیتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ استاد نے موذیل کو بولڈ اسی لئے دکھایا ہے کہ اختتام پر اُسے ننگی کرنا تھا۔ ذرا سوچئے موذیل کو ننگا کیوں کیا گیا۔۔۔۔۔۔؟جو کام موذیل نے ننگی ہو کر کیا، کیا وہ اپنا ڈھیلا ڈھالا کرتا یعنی میکسی یا گائون پہن کر نہیں کرسکتی تھی۔۔۔۔۔۔؟ میں کہتا ہوں کہ اِدھر اُدھر سے پھٹے گائون سے وہ زیادہ بہتر کام کرسکتی تھی۔ دروازہ کھٹکھٹانے والوں پر پھٹے کپڑوں میں گرتی تو زیادہ اثر انداز ہوتی۔ مذہب کے بارے میں شناختی سلسلہ مرد کا ہے جیسے سردار کی شناخت داڑھی، مسلمان کی پکّی شناخت خطنہ، غیر مسلم کی بغیر خطنہ، لباس بول چال کا انداز تو کوئی بھی اپنا سکتا ہے۔ عورت کی کوئی شناخت نہیں۔ سوائے لباس اور بول چال کے، کرپال کور کے کپڑے اتروانے اور موذیل کو اپنا چُغہ اُسے دینے کی ضرورت نہیں تھی۔ خطرہ مسلمانوں سے ہی تھا۔۔۔۔۔۔؟کرپال کور نے شلوارقمیض پہن رکھی تھی مسلمان لڑکیاں بھی شلوار قمیض پہنتی ہیں۔ کرپال کور کو دوپٹہ ایسے اوڑھا دیا جاتا جیسے عورتیں نماز پڑھنے کی صورت میں اوڑھتی ہیں۔ دوپٹہ اوڑھنے کے بعد اُسے ہدایت کردیتی کہ کوئی پوچھے توکہنا میرا نام سلمہ ہے۔ دوپٹہ سے سراور کان اچھی طرح سے ڈھکے ہوں تو لڑکی مسلمان ہی لگتی ہے یہ بات تو ہم سب جانتے ہی ہیں۔ جب موذیل پگڑی پہنے ہوئے ایک سکھ کو ترلوچن سنگھ کی بجائے کریم کا نام دے سکتی ہے کرپال کورکوسلمہ کہناتو آسان تھا۔ سوال تو کرپال کور کو اس بلڈنگ سے نکالنے کا تھا۔ وہ اپنے کپڑوں میں بھی نکل سکتی تھی۔
دوسری بات یہ کہ موذیل کا آخری ڈرامہ تو ہم سمجھ ہی گئے۔ وہ ننگ دھڑنگ ہو کر دروازہ کھٹکھٹانے والوں پر گری ترلوچن اُسی رفتار سے اُس کے پیچھے بھاگا۔ بات تو یہی بنی نا۔۔۔کہ موذیل پہ تشدّد ہوتا دکھانا تھا کہ ایک آدمی ایک عورت سے زنا بالجبر کرنا چاہتا ہے، وہ عورت اُس سے چھوٹ کر باہر کو بھاگتی ہے۔ اپنی عزت بچانے کی غرض سے کیا ریپ کرنے والا آدمی بڑے آرام سے عورت کے سارے کپڑے اُتار کر اُسے ننگی کردیتا ہے۔۔۔۔۔۔؟ کیا زور زبردستی میں کپڑے نہیں پھٹا کرتے بال بے ترتیب نہیں ہوتے؟جبکہ موذیل تگڑی لڑکی دکھائی ہے۔ پھٹے ہوئے کپڑے ثابت کرتے کہ پیچھے بھاگنے والا واقعی زبردستی کررہا تھا۔
موذیل دروازہ پیٹنے والوں پہ دھڑام سے گرتی ہے۔ سبھی بلوائی اُسے دیکھ کر بوکھلا جاتے ہیں۔ قتل و غارت اور لوٹ پاٹ کرنے والے اتنے ہی کمزور دل ہوتے ہیں کہ وہ ایک ریپ کی واردات ، ایک ننگی عورت کو دیکھ کر گھبرا جاتے ہیں وہ لوگ جو انسانوں کا قتل عام کررہے ہیں، لاشوں سے نہیں گھبراتے وہ ایک ننگی عورت کو دیکھ کر بوکھلا گئے؟ایک نارمل وقت میں عام شریف آدمی تو بوکھلا سکتا ہے قدرتی بات ہے۔ ایک ایسا آدمی جس کا مقصد قتل کرنا خون بہانا اور مال لوٹنا ہے وہ کیسے بوکھلا سکتا ہے؟ کرداروں کے فطری تاثرات اور فطری عمل کے معاملہ میں منٹو چوک گئے۔چلیئے آگے دیکھئے ،موذیل نے جب کرتا اُتارا تو کھڑائوں نہیں اُترے؟کھڑائوں تو پیر کے انگوٹھے میں ہی پھنسے ہوئے ہیں۔یہاں کھڑائوں پہنا دینا غیر قدرتی لگا۔ اتنی تیز لڑکی جو بار بار ترلوچن کو کہہ رہی ہے پگڑی اتار دو۔اندھیرے میں ہو جائو، وہ منٹو کے حکم سے کھڑائوں نہیں اتارتی کیونکہ منٹو نے اُسے اوپر والی سیڑھی سے گِرانا تھا۔ یہ بات تو ہے کہانی کے اختتام پر آتے آتے جذباتی ہو گئے اُستاد اُن کے فوکس میں تین کردار ہی رہے اور خونی ماحول رہا وہ ان پہ ہی پوری توجہ دے سکے دوسری چھوٹی چھوٹی باتوں پہ اُنہوں نے دھیان ہی نہیں دیا خاص طور پر کرداروں کی نفسیات پر، یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ استاد جلدی جلدی کلائمیکس پر پہونچنا چاہتے تھے۔ قاری آنکھیں پھاڑے سانس روکے پڑھتا چلا جاتا ہے کہ اب کیا ہوگا آگے کیا ہوگا۔۔۔۔۔۔؟ منٹو نے ترلوچن کو ایک نقلی بلوائی ظاہر کیا ہے۔اُس خونی رات کو بلوائی ہی زور و جبر کررہے تھے ،باقی تو اپنی جان بچانے کی فکر میںتھے۔ ترلوچن ایک ریپسٹ کے طور پر موذیل کے پیچھے بھاگتا ہے سیڑھیاں چڑھتا ہے دروازہ پیٹنے والے بلوائی بھی اُن کے پیچھے ہو جاتے ہیں۔ موذیل کا پائوں پھسلتا ہے وہ اوپر کی سیڑھی سے گرتی ہے۔ اگر ترلوچن ریپسٹ تھا تو وہ موذیل کے گرتے ہی بھاگ جاتا۔ بلوائی سمجھتے کہ وہ کوئی بلوائی ہی تھا جو لڑکی کو ریپ کرنے جارہا تھا ۔مگر ترلوچن فوراً نیچے اُترتا ہے۔ دروازہ پیٹنے والے بلوائی اُس کے اردگرد جمع ہو جاتے ہیں۔ اُس سے کوئی کچھ نہیں پوچھتا ۔ترلوچن پگڑی اتار کر موذیل کا ننگا جسم ڈھانپ دیتا ہے (کیا اُس وقت کے ریپسٹ یہ نیک کام بھی کرتے تھے؟)موذیل مسکراتی ہے اور اُس کو آنکھ مار کر کہتی ہے۔
’’جائو دیکھو میرا انڈرو ئیر وہاں ہے۔۔۔۔۔۔‘‘دنگائی سارے کے سارے کم عقل اوربے وقوف ہی تھے جو اُن کا ڈرامہ نہیں سمجھے، یہ جان ہی نہیں پائے کہ اندر سے نکلنا اور بھاگنا ان دونوں کی سوچی سمجھی پلاننگ تھی یہاں استاد جذباتی طور پر موذیل اور ترلوچن کے کرداروں میں الجھ کر رہ گئے وہ بلوائیوں کی نفسیات پہ دھیان نہیں دے سکے۔
استاد کے مطابق بلوائی سمجھ نہیں پائے کہ عورت پر جبر کرنے والا یہ پگڑی والا آدمی جو ابھی ابھی زنا بالجبر کرنے کی تیاری میں تھا وہ عورت جو اُس کی زیادتی سے تنگ آکر بھاگ رہی تھی ۔وہ اسے انڈروئیر دیکھنے کو کہہ رہی ہے۔ ریپ کی کوشش کرنے والا اپنی پگڑی سے اُس کے جسم کو ڈھانپ رہا ہے۔ بھائی اگر اُس لڑکی کی بے پردگی، ننگا پن برداشت نہیں ہو رہا تو اسے ننگا کیوں کیا ۔بلوائی سمجھ ہی نہ سکے۔ یہ کہانی کا کمزور پہلو ہے۔ ریپسٹ کو کہنا، دیکھنا میرا انڈر وئیر اور بلوائی کا خاموش رہنا۔ اب بلوائیوں کے مونہہ میں زبان تو استاد کو ہی رکھنا تھی نا استاد نے بلوائیوں کو زبردستی خاموش رکھا وہ صرف تماشائی بنے افسانے کا آخری سین دیکھتے رہے ۔ کوئی سوال نہیں کرتا کہ بھائی تو تو اس لڑکی پہ ظلم کررہا تھا اور یہ بھاگ رہی تھی اچانک آپس میں اتنا لگائو؟ یہ پبلک کو بے وقوف بنا رہے تھے تم دونوں؟ کون ہو تم۔۔۔۔۔!؟‘‘اس کے علاوہ بلوائیوں کو شک پیدا کرنے والی باتیں اور بھی ہیں مثلاً موذیل ترلوچن کی غیر حاضری میں بلوائیون کو کہتی ہے۔
’’یہ میاں بھائی ہے۔لیکن دادا قسم کا ۔۔۔۔۔۔میں اسے سکھ کہا کرتی ہوں۔۔۔۔۔۔‘‘
اس مکالمے سے بھی ترلوچن کا موذیل سے تعلق کا راز عیاں ہوتا ہے۔ مشکوک بات یہ بھی ہے کہ دیکھنے میں سکھ کو موذیل میاں بھائی کہتی ہے۔ آخر میں کہتی ہے۔
’’آل رائیٹ ڈارلنگ۔۔۔۔۔۔بائی بائی۔۔۔۔۔۔!!‘‘
حد ہو گئی اپنے اوپر جبر کرنے والے کو ڈارلنگ کہتی ہے، بلوائیوں کو شک نہیں گذرتا۔موذیل پھر کہتی ہے پگڑی اپنے بدن سے ہٹا کر۔
’’لے جائو اس کو۔۔۔۔۔۔اپنے مذہب کو۔۔۔۔۔۔!‘‘
دنگائی پھر بھی نہیں سمجھتے کہ آدمی سِکھ ہے؟دنگائی بلوائی کریکٹر آرٹسٹوں کی طرح بالکل خاموش ہو کر فلم کا انجام یعنی موذیل کی موت کا سین دیکھتے رہتے ہیں، ہمارے استاد جو ظاہر ہے دنگائیوں کو خاموش رہے اور تماشہ دیکھنے کی ہدایت دیتے ہیں۔ کرداروں کے نفسیات کی کمزوری صاف نظر آتی ہے۔ افسانہ افسانہ ہوتا ہے ،حقیقت حقیقت یہ بات درست مگر افسانہ بہر حال انسانوں کی سرگزشت ہے۔ انسانوں کے قصّوں سے ہی جنم لیتے ہیں افسانے۔ انسانوں کی غیر فطری باتیں آج کا افسانہ جسے نقادوں نے کمزور قرار دے دیا ہے ،برداشت نہیں کرتا۔
ایک بات جو ہم نے اس افسانے میں خاص طور پر دیکھتی ہے وہ یہ کہ انہوں نے قارئین کے لئے خواہ مخواہ بے جا طور پر جنسی دلچسپی پیدا کرنے کی کوششیں کی ہیںجو کہانی کی ضرورت نہ تھی۔ استاد افسانے تخلیق کرنے میں کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے تھے۔ لفظ سمجھوتہ شایداُن کی ڈکشنری میں نہیں تھا، اسی لئے انہوں نے لوگوں کے الزامات برداشت کئے، مقدمات کو جھیلا ،جرمانے بھرے۔ موذیل جیسی فیشن ایبل لڑکی جو اپنے ساتھ اپنا وینٹی بیگ رکھتی ہے اُس میں شیشہ ، لپ اسٹک وغیرہ رکھتی ہے۔ کوئی یقین کرسکتا ہے کہ موذیل رومال نہ رکھتی ہوگی۔ استاد لکھتے ہیں موذیل نے اپنے سکرٹ کے گھیرے سے اپنا ناک صاف کیا۔ ترلوچن شرما گیا اُس نے کہا۔
’’نیچے تو کچھ پہن لیا کرو۔۔۔۔۔۔!‘‘توبہ توبہ یہ استاد کہاں پہنچ گئے ایک عورت کو اس قدر بے پردہ اور ذلیل کردیا۔ مانا وہ یہودی تھی۔وہ انگریزی ہو یا دیسی ، عورت میں اپنی پوشیدہ جگہ کے لئے فطری شرم و حیا ہوتی ہی ہے۔ اس کے علاوہ دوسری بار جنسی چٹخارہ یوں لیا گیا۔ کرپال کور کے گھر جا کر لمبے کرتے سے موذیل کرپال کور کا ناک پونچھتی ہے۔ استاد کے مطابق گھر میں اندھیرا تھا مگر یہ جملہ لکھ کر استاد نے اشتعال پیدا کردیا۔
’’ترلوچن سرخ ہوگیا۔۔۔۔۔۔!‘‘دونوں بار موذیل کے جسم کا پوشیدہ اور خاص عضو ظاہر کرنا کیا کہانی کی ضرورت تھی۔۔۔۔۔۔!؟اگر آپ افسانے کے کہانی کے رموز سے واقف ہیں تو آپ کہہ اُٹھیں گے یہ بے مطلب کا جنسی چٹخارہ تھا۔ یہ نہ بھی ہوتا تو کہانی کو کوئی فرق نہ پڑتا اور جملوں سے اور باتوں سے بھی موذیل کو بولڈ بتایا جا سکتا تھا۔ موذیل اور کرپال کور کی چھاتیوں پر تو استاد کی نظر کرم کچھ زیادہ ہی رہی۔ آئیے ہم بھی چٹخارے میں شامل ہو جائیں۔کرپال کور کے حسن کی تعریف میں استاد فوراً اُس کی چھاتیوں پر پہونچ گئے۔ (دیکھئے کیسے مزہ لیا گیا) استاد لکھتے ہیں کرپال کور کی چھوٹی چھوٹی چھاتیاں، جن پر بالائیوں کی چند تہیں چڑھنا باقی تھیں۔ لڑکی انسان ہے انسان گوشت پوشت کا بنا ہے۔ اگر کوئی اور لکھتا تو اس طرح لکھتا کہ ’’چھوٹی چھوٹی چھاتیاں جن پر گوشت کی مزید تہیں چڑھنا باقی تھیں۔‘‘ارے استاد۔۔۔۔۔۔!یہ کیا دودھ کی بالائی کا چھاتیوں پر چڑھنا ۔یہ ذہنی عیّاشی ، جنسی چٹخارے نہیں تو کیا ہے؟ اندازہ لگا لیں، کنواری لڑکی کی چھاتیاں اُس پر دودھ کی بالائی کی تہیں۔۔۔۔۔۔اور آپ۔۔۔۔۔۔!کچھ کچھ ہوا کہ نہیں؟؟یہ ادب ہے۔۔۔۔۔۔تو بے ادبء کِسے کہتے ہیں ۔کرپال کور کو تو دبلی پتلی اور سہمی ہوئی لڑکی بتایا گیا ہے کسی طرح سے اُسے ہاٹ دکھایا ہی نہیں استاد نے۔ اُس کی چھا تیوں پہ بالائی چڑھا دی موذیل جو بے حد ہاٹ تھی اُس سے استاد نے بہت کھلواڑ کیا۔ اُس کی صحت مند چھاتیوں کے پیچھے ہی پڑ گئے۔ اُستاد چھاتیوں پہ نیل پڑنا کیا ہوا۔۔۔۔۔۔! ؟ نیل یا تو زور سے چٹکی لینے سے جسم پر پڑتا ہے ۔یا پھر دیوانہ وار چوسنے سے ، کیا موذیل فاحشہ تھی؟ یا بارگرل تھی اُس کی چھاتی پر نیل کیسے پڑ جاتے تھے؟ (استاد حیات ہوتے تو جواب مل جاتا۔ اب تو صبر ہی کرنا ہوگا)ایک جگہ لکھتے ہیں۔ موذیل کے ڈھیلے ڈھالے کرتے میں موذیل کی مضبوط چھاتیاں دھڑکیں۔ ہم نے دل کا دھڑکنا تو سنا ہے محسوس کیا ہے۔ چھاتیاں بھی دھڑکتی ہیں۔۔۔۔۔۔؟یہاں سادگی سے بھی کام لیا جاسکتا تھا کہ موذیل کا دل دھڑکا۔ مگر استاد کو تو موذیل کی چھاتیاں پسند تھیں نا۔ اُن کو دھڑکانا تھا۔ چلو مان لیتے ہیں کہ جب دل دھڑکتا ہے تو چھاتیان بھی دھڑکتی ہیں۔ استاد لکھتے ہیں کہ موذیل کی چھاتیاںدھڑکیں ترلوچن کی آنکھوں کے آگے گول گول چپٹے چپٹے نیل اُبھر آئے۔ کرپال کور کے فلیٹ میں پرات والا کہنی سے ٹھوکا بھی موذیل کی چھاتیوں پہ دیتا ہے اور کہیں نہیں، اور کہتا ہے، عیش کر سالی عیش، موذیل چھاتیوں پہ ہاتھ پھیرتی ہے اور کہتی ہے۔
’’چلتا ہے۔۔۔۔۔۔‘‘استاد موذیل کی چھاتیوں کو آپس میں ٹکرا بھی دیتے ہیں جبکہ موذیل کنواری ہے اور چھاتیاں مضبوط ہیں آپس میں اُن کا ٹکرانا ناممکن ہے۔ لیکن استاد نے ٹکرایا۔استاد نے موذیل کے مرتے دم تک اُس کی چھاتیوں کا ذکر نہیں چھوڑا۔افسانے کا آخری جملہ ملاخطہ فرمائیں۔
’’اور اس کا بازو اس کی مضبوط چھاتیوں پر گر پڑا۔۔۔۔۔۔‘‘
بازو کہیں اور جگہ نہیں گرا۔ بہر حال ہونٹوں کا ذکر اس طرح کیا ہے کہ ایک بار بھینسے کے گوشت دوسری بار جھٹکے کے گوشت سے مثال دے کر کراہت پیدا کردی۔
استاد کرداروں ، فسادات کی ہولناکیوں اور اختتام پہ پہونچنے کی جلدی میں اس قدر کھو گئے کہ زمان و مکان کا خیال بھی نہیں رہا۔ ملاخطہ فرمائیں۔ ترلوچن اڈوانی چیمبرز کے ٹیریس پر رات کے تین بجے موجود ہے۔ وہاں کی منظر کشی خوب کرتے ہیں۔ وہاں موذیل آتی ہے تو خود لکھتے ہیں کہ ملگجی اندھیرا تھا یعنی چار پا نچ کے درمیان کا وقت تھا۔ تقریباً گھنٹہ بھر موذیل سے ٹریس پر بھی بات ہوئی ہوگی۔ اندازاً چھ اور پانچ کے درمیان وہ اڈوانی چیمبرز میں سے نکلے جب وہ کرپال کور کے فلیٹ میں جاتے ہیں تو میرے حساب سے سات تو بج ہی گئے ہونگے اور سات بجے دن نکل آتا ہے۔ جب دو آدمی خون ٹپکاتے بورے لے کر فلیٹ سے نکلتے ہیں تو موذیل ترلوچن سے کہتی ہے اندھیرے میں ہوجائو۔افسانے کے اختتام تک محسوس ہوتا ہے کہ رات کا وقت ہے اندھیرا ہے۔یہ سوال اُٹھتا ہی نہیں اگر استاد ترلوچن کو رات کے گیارہ بجے ٹیریس پہ دکھا دیتے۔ زمان و مکان کا استاد کو خیال ہی نہ رہا۔ ایک مشاہدے کی زبردست کمی یہ کھٹکتی ہے کہ استاد منظر نگاری میںستاروں، ہوا، بلڈنگوں کی باتیں کررہے ہیں، وہ افسانے کا آغاز تھا جب ترلوچن ٹیریس پر موجود تھا۔ بعد میں استاد ایسے الجھے کہ سب کچھ بھول گئے۔ استاد رات کے تین بجے سے تقریباً صبح آٹھ بجے کے درمیان کے وقت میں کہانی مکمل کرتے ہیں۔ کیوں استاد محترم ، کٹّڑ اور دادا قسم کے مسلمانوں کے محلے میں مسجد نہیں تھی۔۔۔۔۔۔؟آپ بھول گئے کہ پانچ بجتے بجتے اذانیں بھی گونجا کرتی ہیں۔ بمبئی جیسے شہر میں مندر کی گھنٹیاں بھی سنائی دیتی ہیں۔ گوردوارے سے گرنتھ صاحب کے شلوک بھی فضائوں میں سنائی دیتے ہیں کیا ہمارے استاد کو کچھ سنائی نہیں دیا وہ موذیل اور ترلوچن میں ہی الجھ کر رہ گئے ۔افسانہ نگار کو تو ہر لمحے کا حساب رکھنا پڑتا ہے ۔آپ ایسی غلطی کیسے کر گئے ؟ موسم کا اظہار تو کپڑوں سے ظاہر ہے ویسے بھی بمبئی کا موسم تقریباً ایک سا ہی رہتا ہے۔
کرداروں کی نفسیات کو دھیان میں نہیں رکھا گیا۔ کرپال کور ایک سیدھی سادی مذہبی لڑکی ہے اور کنواری ہے۔ ایسی لڑکی اپنے ماں باپ سے جی جان سے پیار کرتی ہے۔ جب موذیل اور ترلوچن اُس کو لینے آتے ہیں تو وہ لڑکی اپنے ماں باپ کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہتی کہ میرے ماں باپ کو بھی لے کر چلویا میں ماں باپ کو چھوڑ کر نہیں جائوں گی۔ بلکہ یہاں تک کہ وہ لڑکی یعنی کرپال کور یہ بھی نہیں کہتی کہ ایک بار اپنے ماں باپ سے مل لوں یا دیکھ لوں۔ اتنی بے رخی اور اپنے ماں باپ کے تئیں؟ دوسری طرف ترلوچن جو یہ سوچ رہا تھا کہ کرپال کور کے ماں باپ یا بھائی مر جائیں کرپال کور بچ جائے وہ موذیل کو دوبار کہتا ہے کہ اس کے ماں باپ بھی ہیں۔ فلیٹ میں آتے ہی وہ کرپال کو رکو کہتا ہے کہ سردار صاحب اور ماتا جی سے کہو کہ وہ تیار ہو جائیں۔ کرداروں کی فطرت کچھ ظاہر کی ہے اُن پر عمل کچھ اور ہے۔ اسے آپ جذیات کی کمی نہیں کہیں گے تو کیا کہیں گے ۔جذیات میں آپ کردار کی نفسیات کچھ اور بتا رہے ہیں وہ اپنی نفسیات کے برعکس بات کررہا ہے۔ پنجابی الفاظ کا یا کسی بھی مقامی زبان کا بریکٹ میں ترجمہ دینا اُس دور میں مروج ہی نہ تھا۔ کئی باتیں اور کھلتی ہیں۔ مثلاً اُس نے موٹر تازہ خریدی تھی۔ تازہ سے مراد تو وہی ہے مگر استاد ، تازہ تو اُسے ہی کہیں گے جو باسی ہونے والا ہو۔ تازہ پھل ، تازہ سبزی تازہ دودھ کار کے لئے تو ہم نئی کار ہی استعمال کریں گے نا اور بہت سی باتیں ہیں۔ موذیل کہتی ہے انڈروئیر پہننا اچھا نہیں لگتا۔ مجھے بڑی گھبراہٹ ہوتی ہے۔ ایسے ہی چلتا ہے۔ مہینے میں کم سے کم ایک ہفتہ تو لڑکی کو انڈروئیر پہننا ہی پڑتا ہے اُن خاص دنوں میں تو ضروری ہو جاتا ہے۔ موذیل کہتی ہے ایسے ہی چلتا ہے۔ اُس سے کہلوادیتے کہ ایک ہفتہ بھی مجبوری میں پہنتی ہوں۔
موضوع بہت پیارا تھا اس کہانی کو شریفانہ ڈھنگ سے ہلکی پھلکی فحاشی کی جھلک کے ساتھ بھی نبھایا جاسکتا تھا۔ مثلاً موذیل کو ننگا کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ کپڑے اتارنے سے کہانی میں چار چاند نہیں لگ گئے ہاں یہ درست کہ نوجوانوں اور شوقین بوڑھوں کے لئے دلچسپی ضرور پیدا ہوگئی جیسے ترلوچن کا کہنا نیچے تو کچھ پہن لیا کرو۔ اُس نے کرتا اُٹھایا ترلوچن سرخ ہوگیا وغیرہ وغیرہ۔
پہلے ہی موذیل کو کرپال کور سے ملوا دیا جاتا وہ ایک دوسرے کو پہچاننے لگیں۔ اُس رات اڈوانی چیمبرز سے موذیل اکیلی نکلتی کرپال کور کو لانے کے لئے ،ساری مشکلوں کو جھیل کر جب وہ کرپال کور کے فلیٹ پر جاتی تو دو تین آدمی اُس سے دست درازی کررہے ہوتے۔ جب موذیل جا دھمکتی تو بلوائیوں کو کہتی، سالا تم اس چڑیا کے بچے سے کیا پیٹ بھرے گا، چھاتی نکال کر کہتی دیکھو سالم تندوری چکن تمہارے سامنے ہے۔ وہ موذیل کی طرف لپکتے تو موذیل کہتی صبر کرو، ابھی میں کپڑے اُتار کر آتا اور چھوڑ کر آتا۔ وہ کپڑے اتارنے کے بہانے سے کرپال کا سردوپٹہ سے مسلم لڑکیوں کی طرح ڈھانپتی اور اُسے ہدایت کرتی کہ وہ اڈوانی چیمبر چلی جائے جہاں ترلوچن اُس کا انتظار کررہا ہے۔ راستے میں کوئی پوچھے اپنانام رضیہ یا سلمہ بتا دینا۔ گھبرانا نہیں ، کپڑے اتار کر وہ بلوائیوں کے پاس آجاتی۔ بلوائی اُس پر بھوکے شیر کی طرح ٹوٹ پڑتے۔ موذیل دانتوں سے کاٹنے اور بھنبھوڑنے کی تکلیف برداشت کرتی ہوئی مسکرا کر چھت کو دیکھتی رہتی وہ مطمئن تھی کہ اُس کا مِشن پورا ہواگا ۔کرپال کور بچ نکلی اُس کا مقصد پورا ہوگیا۔ موذیل کو جی بھر کر استعمال کرکے بلوائی اُس کے پیٹ میں چاقو گاڑ دیتے ہیں۔ وہ اپنی عصمت لٹا دیتی۔ وہ لوگ اُس کی جان بھی لے لیتے ہیں اختتام پہ موذیل کہتی ہے۔
’’تم سالا بزدل جس تھالی میں کھاتا ہے اُسی میں چھید کر جاتا ہے۔۔۔۔۔۔!‘‘
بہر حال یہ تو میرا خیال تھا جو شاید اس سے بھی بہتر ہوسکتا ہے۔ رہی بات منٹو کی ،استاد کی عادت تھی کہ وہ کہانی ایک بار لکھتے تھے دو بار نہیں۔ سنا ہے وہ کسی جریدے کے دفتر میں بیٹھ کر بھی کہانی لکھ کر مکمل کر لیتے تھے۔ کہانی دے کر بغیر گنے روپے جیب میں رکھ لیتے تھے۔ ممکن ہے ان حالات میں کہانی کا کوئی نہ کوئی پہلو کمزور رہ جاتا ہوگا۔ وہ کمرشل افسانہ نگار تھے پیسوں کے لئے افسانے لکھتے تھے۔ اچھا ہوا انہوں نے یہ دور نہ دیکھا۔ ورنہ بھوکوں مر جاتے۔ کیوں کہ اس دور میں ادب تخلیق کرکے ادیب اپنا پیٹ نہیں پال سکتا۔ اُسے خود کو ادیب ثابت کرنے کے لئے جیب سے روپے خرچ کرنا ہوتے ہیں۔
موذیل کی قربانی کی ، چاہے حادثے کا شکار ہوتی اُس کا کرپال کور کو بہ حفاظت اُس کے گھر سے نکالناہی قربانی تھی۔ باقی خیال اپنا اپنا ہر کسی کا زاویہ نظر الگ الگ ہوتا ہے۔ اگر استاد حیات ہوتے وہی فیصلہ کرتے کہ میں کہاں تک صحیح ہوں یا غلط۔ اگر آپ افسانے کے رموز سے واقف ہیں تو آپ بھی یہ فیصلہ کرسکتے ہیں کہ کہاں تک صحیح ہوں۔ کہانی کا اصو ل ہے کہانی جہاں سے شروع ہو اُس سے پہلے کچھ نہ ہو۔ کہانی جہاں ختم ہو تو اُس کے بعد کچھ نہ رہے۔ موذیل تو دراصل وہیں یہ ختم ہو گیا تھا (افسانہ) جب موذیل سیڑھیوں سے گری، پتھر کے فرش پر گرتے ہی اُس کی آنکھیں پتھرا جاتیں۔ موذیل کی موت کی بات ترلوچن کے بعد کوئی شک باقی نہ رہتا۔ بہر حال استاد نے اُس زمانے میں تخلیق کردہ موذیل کا کردار واقعی زندہ کر دکھایا۔ حوصلے اور جرأت کی موذیل کی قربانی کی یہ بہترین کہانی ہے جسے پڑھ کر قاری محسوس کرتا ہے کہ کہانی اُس کے ذہن پہ نقش کر گئی۔
٭٭٭