ٹی ہائوس میں حرامیوں کی باتیں شروع ہوئیں ، تو یہ سلسلہ بہت دیر تک جاری رہا۔ ہر ایک نے کم از کم ایک حرامی کے متعلق اپنے تاثرات بیان کئے، جس سے اس کو اپنی زندگی سے واسطہ پڑ چکا تھا۔ کوئی جالندھر کا تھا، کوئی لدھیانے کا اور کوئی لاہور کا۔ مگر سب کے سب اسکول یا کالج کی زندگی سے متعلق تھے۔ مہر فیروز صاحب سب سے آخر میں بولے۔ آپ نے کہا۔
’’امرتسر میں شاید ہی کوئی ایسا آدمی ہو، جو پھوجے حرام دے کے نام سے ناواقف ہو۔ یوں تو اس شہر میں اور بھی کئی حرام دے تھے، مگر اس کے پلّے کے نہیں تھے۔ وہ نمبر ایک حرام دا تھا۔ اسکول میں اس نے تمام ماسٹروں کا ناک میں دم کر رکھا تھا۔ ہیڈ ماسٹر جنہیں دیکھتے ہی بڑے بڑے شیطان لڑکوں کا پیشاب خطا ہو جاتا، پھوجے سے بہت گھبراتے تھے، اس لئے کہ اس پر ان کے مشہور بید کا کوئی اثر ہی نہیں ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تنگ آکر انہوں نے اس کو مارنا چھوڑا دیا تھا۔
یہ دسویں جماعت کی بات ہے۔ ایک دن یار لوگوں نے اس سے کہا۔
’’دیکھو پھوجے!۔۔۔۔۔۔اگر تم کپڑے اتار کر ننگ دھڑنگ اسکول کا ایک چکّر لگائو تو ہم تمہیں ایک روپیہ دیں گے۔‘‘پھوجے نے روپیہ لے کر کان میں اُڑسا ۔کپڑے اُتار کر بستے میں باندھے اور سب کے سامنے چلنا شروع کردیا۔ جس کلاس کے سامنے سے گزرتا ، وہ زعفران زار بن جاتا۔ چلتے چلتے ہیڈ ماسٹر کے دفتر کے پاس پہنچ گیا۔ پٹّی اٹھائی اور غڑاپ سے اندر ،معلوم نہیں کیا ہوا، ہیڈ ماسٹر صاحب سخت بوکھلائے ہوئے باہر نکلے اور چپراسی کو بُلا کر اس سے کہا۔
’’جائو، بھاگ کے جائو پھوجے حرامدے کے گھرجائو، وہاں سے کپڑے لائو اس کے لئے۔ کہتا ہے میں مسجد کے سقاوے میں نہا رہا تھا کہ میرے کپڑے کوئی چور اٹھا کر لے گیا۔‘‘
دینیات کے ماسٹر مولوی پوٹیٹو تھے۔ معلوم نہیں، انہیں پوٹیٹو کس رعایت سے کہتے تھے ، کیونکہ آلوئوں کے تو داڑھی نہیں ہوتی۔ ان سے پھوجا ذرا دبتا تھا، مگر ایک دن ایسا آیا کہ انجمن کے ممبروں کے سامنے مولوی صاحب نے غلطی سے اس سے ایک آیت کا ترجمہ پوچھ لیا ۔چاہئے تو یہ تھا کہ خاموش رہتا، مگر پھوجا حرامدا کیسے پہنچانا جاتا۔ جو منہ میں آیا، اول جول بک دیا۔ مولوی پوٹیٹو کے پسینے چھوٹ گئے۔ ممبر باہر نکلے تو انہوں نے غصّے سے تھرتھرکانپتے ہوئے اپنا عصا اٹھایا اور پھوجے کو وہ چار چوٹ کی ماردی کہ بلبلا اٹھا، مگر بڑے ادب سے کہتا رہا ۔
’’مولوی صاحب!۔۔۔۔۔۔ میرا قصور نہیں، مجھے کلمہ ٹھیک سے نہیں آتا اور آپ نے ایک پوری آیت کا مطلب پوچھ لیا۔۔۔۔۔۔‘‘مارنے سے بھی مولوی پوٹیٹو صاحب کا جی ہلکا نہ ہوا، چنانچہ وہ پھوجے کے باپ کے پاس گئے اور اس سے شکایت کی۔ پھوجے کے باپ نے اُن کی باتیں سنیں اور بڑے رحم ناک لہجے میں کہا۔
’’مولوی صاحب! ۔۔۔۔۔۔میں خود اس سے عاجز آگیا ہوں۔۔۔۔۔۔میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اس کی اصلاح کیسے ہوسکتی ہے۔ ابھی کل کی بات ہے، میں پاخانے گیا تو اس نے باہر سے کنڈی چڑھادی ۔ میں بہت گرجا، بے شمار گالیاں دیں، مگر اس نے کہا۔ اٹھنّی دینے کا وعدہ کرتے ہو تو دروازہ کھلے گا، اور دیکھو ، اگر وعدہ کرکے پھر گئے تو دوسری مرتبہ کنڈی میں تالا بھی ہوگا۔ ناچار اٹھنّی دینی پڑی۔ اب بتائیے، میں ایسے نابکار لڑکے کا کیا کروں۔۔‘‘
اﷲ ہی بہتر جانتا تھا کہ اس کا کیا ہوگا ، پڑھتا وڑھتا خاک بھی نہیں تھا۔ انٹرینس کے امتحان ہوتے تو سب کو یقین تھا کہ بہت بُری طرح فیل ہوگا، مگر نتیجہ نکلا تو کلاس میں اس کے سب سے زیادہ نمبر تھے۔ وہ چاہتا تھا کہ کالج میں داخل ہو، مگر باپ کی خواہش تھی کہ کوئی ہنر سیکھے۔ چنانچہ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ دو برس تک آوارہ پھرتا رہا۔ اس دوران اس نے جو حرام زدگیاں کیں، ان کی فہرست بہت لمبی ہے۔ تنگ آکر اس کے باپ نے بالآخر اسے کالج میں داخل کروا دیا۔ پہلے ہی دن اس نے یہ شرارت کی کہ میتھے میٹکس کے پروفیسر کی سائیکل اٹھا کر درخت کی سب سے اونچی ٹہنی پر لٹکا دی۔ سب حیران کہ سائیکل وہاں پہنچی کیونکر،مگر وہ لڑکے جو سکول میں پھوجے کے ساتھ پڑھتے تھے، اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ کارستانی اس کے سوا کسی کی نہیں ہوسکتی، چنانچہ اس ایک ہی شرارت سے اس کا پورے کالج سے تعارف ہوگیا۔ اسکول میں اس کی سرگرمیوں کا میدان محدود تھا۔ مگر کالج میں بہت وسیع ہوگیا۔ پڑھائی میں، کھیلوں میں، مشاعروں میں اور مباحثوں میں ہر جگہ پھوجے کا نام روشن تھا اور تھوڑے دن میں اتنا روشن ہوا کہ سارے شہر میں اس کے گُنڈپنے کی دھاک بیٹھ گئی۔ بڑے بڑے جگادری بدمعاشوں کے کان کاٹنے لگا۔ ناٹا قدمگر بدن کسرتی تھا، اس کی بھیڈو ٹکّر بہت مشہور تھی۔ایسے زور سے مدّمقابل کے سینے میں یا پیٹ میں اپنے سر سے ٹکّر مارتا کہ اس کے سارے وجود میں زلزلہ سا آجاتا۔
ایف اے کے دوسرے سال میں اس نے تفریحاً پرنسپل کی نئی موٹر کے پٹرول ٹینک میں چار آنے کی شکر ڈال دی، جس نے کاربن بن کر سارے انجن کو غارت کردیا۔ پرنسپل کو کسی نہ کسی طریقے سے معلوم ہوگیا کہ خطرناک شرارت پھوجے کی ہے، مگر حیرت ہے کہ انہوں نے اس کو معاف کردیا۔بعد میں معلوم ہوا کہ پھوجے کو ان کے بہت سے راز معلوم تھے، ویسے وہ قسمیں کھاتا تھا کہ اس نے ان کو دھمکی وغیرہ بالکل نہیں دی تھی کہ انہوں نے سزادی ، تو وہ انہیں فاش کردے گا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب کانگریس کا بہت زور تھا ۔انگریزوں کے خلاف کھلم کھلا جلسے ہوتے تھے۔ حکومت کا تختہ الٹنے کی کئی ناکام سازشیں ہو چکی تھیں ۔ گرفتاریوں کی بھرمار تھی، سب جیل باغیوں سے پُر تھے، آئے دن ریل کی پٹڑیاں اکھاڑی جاتی تھیں، خطوں کے بھبکوں میں آتش گیر مادہ ڈالا جاتا تھا ۔ بم بنائے جارہے تھے ۔پستول برآمد ہوتے تھے۔ غرض کہ ایک ہنگامہ برپا تھا اور اس میں سکول اور کالجوں کے طالب علم بھی شامل تھے۔ پھوجا سیاسی آدمی بالکل نہیں تھا، میرا خیال ہے اس کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ مہاتما گاندھی کون ہے، لیکن جب اچانک ایک روز اسے پولیس نے گرفتار کیا اور وہ بھی ایک سازش کے سلسلے میں تو سب کو بڑی حیرت ہوئی۔
اس سے پہلے کئی سازشیں پکڑی جاچکی تھیں۔ سانڈرس کے قتل کے سلسلے میں بھگت سنگھ اور دت کو پھانسی بھی ہوچکی تھی، اس لئے یہ معاملہ بھی کچھ سنگین ہی معلوم ہوتا تھا۔ الزام یہ تھا کہ مختلف کالجوں کے لڑکوں نے مل کر ایک خفیہ جماعت بنائی تھی، جس کا مقصد ملکِ معظّم کی سلطنت کا تختہ الٹنا تھا۔ ان میں سے کچھ لڑکوں نے کالج کی کی لیبارٹری سے پکرک ایسڈ چرایا تھا جو بم بنانے کے کام آتا ہے۔ پھوجے کے بارے میں شبہ تھا کہ وہ ان کا سرغنہ ہے اور اس کو تمام خفیہ باتوں کا علم ہے۔ اس کے ساتھ کالج کے دو اور لڑکے بھی پکڑے گئے تھے۔ ان میں سے ایک مشہور بیرسٹر کا لڑکا تھا اور دوسرا رئیس زادہ ۔ ان کا ڈاکٹری معائنہ کرالیا گیا تھا، اس لئے پولیس کی مارپیٹ سے بچ گئے ، مگر شامت غریب پھوجے کی آئی۔ تھانے میں اس کو الٹا لٹکا کے پیٹا گیا۔ برف کی سلوں پر کھڑا کیا گیا۔ غرض کہ ہر قسم کی اذیت اسے پہنچائی گئی کہ راز کی باتیں اُگل دے، مگر وہ بھی ایک کتّے کی ہڈی تھا، ٹس سے مس نہ ہوا، بلکہ یہاں بھی کم بخت اپنی شرارتوں سے باز نہ آیا۔ ایک مرتبہ جب وہ مار برداشت نہ کرسکا تو اس نے تھانے دار سے ہاتھ روک لینے کی درخواست کی اور وعدہ کیا کہ وہ سب کچھ بتا دے گا ، بالکل نڈھال تھا، اس لئے اس نے گرم گرم دودھ اور جلیبیاں مانگیں طبیعت قدرے بحال ہوئی، تو تھانیدار نے قلم کاغذ سنبھالا اور اس سے کہا۔
’’لو بھئی اب بتائو۔۔۔۔۔۔‘‘ پھوجے نے اپنے مار کھائے ہوئے اعضاء کا جائزہ انگڑائی لے کر لیا اور جواب دیا۔
’’اب کیابتائوں، طاقت آگئی ہے، چڑھا لو پھر مجھے اپنی ٹکٹکی پر۔۔۔۔۔۔‘‘
ایسے اور بھی کئی قصّے ہیں جو مجھے یاد نہیں رہے، مگر بہت پُر لطف تھے۔ملک حفیظ جو ہمارا ہم جماعت تھا، اس کی زبان سے آپ ۔سنتے ،تو اور ہی مزا آتا،
ایک دن پولیس کے دو سپاہی پھوجے کو عدالت میں پیش کرنے کے لئے جارہے تھے۔ ضلع کچہری میں اس کی نظر ملک حفیظ پر پڑی، جو معلوم نہیں کس کام سے وہاں آیا تھا۔ اس کو دیکھتے ہی پکارا۔
’’السلام علیکم ملک صاحب!۔۔۔۔۔۔‘‘
ملک صاحب چونکے۔ پھوجا ہتھکڑیوں میں ان کے سامنے کھڑا مسکرا رہا تھا۔
’’ملک صاحب! ۔۔۔۔۔۔بہت اداس ہو گیا ہوں، جی چاہتا ہے، آپ بھی آجائیں میرے پاس۔ بس میرا نام لے دینا کافی ہے۔۔۔۔۔۔‘‘
ملک حفیظ نے جب یہ سُنا تو اس کی روح قبض ہوگئی۔ پھوجے نے اس کو ڈھارس دی۔
’’گھبرائیں نہیں ملک!۔۔۔۔۔۔میں تو مذاق کررہا ہوں ۔ویسے میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بتائوکہ وہ کس لائق تھا۔ ملک حفیظ گھبرا رہا تھا، کنّی کترا کے بھاگنے ہی والا تھا کہ پھوجے نے کہا۔
’’بھئی اور تم ہم سے کچھ نہیں ہوسکتا۔ کہو تو تمہارے بدبو دار کنویں کی گار نکلوادیں۔۔۔۔۔۔‘‘
ملک حفیظ ہی آپ کو بتا سکتا ہے کہ پھوجے کو اس کنویں سے کتنی نفرت تھی۔ اس کے سے ایسی بساند آتی ھتی جیسے مرے ہوئے چوہے سے۔معلوم نہیں لوگ اسے صاف کیوں نہیں کراتے تھے۔
ایک ہفتے بعد جیسا کہ ملک حفیظ کا بیان ہے ، وہ باہر نہانے کے لئے نکلا، تو کیا دیکھتا ہے کہ دو تین آدمی ٹوٹے کنویں کی گندگی نکالنے میں مصروف ہیں۔ بہت حیران ہوا کہ ماجرا کیا ہے،انہیں بلایا کس نے ہے۔ پڑوسیوں کا یہ خیال تھا کہ بڑے ملک صاحب کو بیٹھے بیٹھے خیال آگیا ہو گا کہ چلو کنویں کی صفائی ہو جائے، یہ لوگ بھی کیا یاد کریں گے، لیکن جب انہیں معلوم ہواکہ چھوٹے ملک کو اس بارے میں کچھ علم نہیں اور یہ کہ بڑے تو شکار پر گئے ہیں تو انہیں بھی حیرت ہوئی۔ پولیس کے بے وردی سپاہی دیکھے تو معلوم ہوا کہ پھوجے کی نشان ہی پر وہ کنویں سے بم نکال رہے ہیں۔ بہت دیر تک گندگی نکلتی رہی۔ پانی صاف شفاف ہوگیا، مگر بم کیا، ایک چھوٹا سا پٹاخا بھی برآمد نہ ہوا۔ پولیس بہت بھنّائی پھوجے سے باز پُرس ہوئی۔ اس نے مُسکراکر تھانے دار سے کہا۔
بھولے بادشاہو!۔۔۔۔۔۔ہمیں تو اپنے یار کا کنواں صاف کرانا تھا، سو کرالیا۔۔۔۔۔۔‘‘
بڑی معصوم شرارت تھی، مگر پولیس نے اسے وہ مارا، وہ مارا کہ مار مار کر ادھ موا کردیا اور ایک دن یہ خبر آئی کہ پھوجا سلطانی گواہ بن گیا ہے۔ اس نے وعدہ کرلیا ہے کہ سب کچھ بک دے گا۔
کہتے ہیں اس پر بڑی لعن طعن ہوئی۔ اس کے دوست ملک حفیظ نے بھی، جو حکومت سے بہت ڈرتا تھا ،اس کو بہت گالیاں دیں کہ پھوجا ڈر کے مارے غّدار بن گیا ہے۔ معلوم نہیں اب کِس کِس کو پھنسوائے گا۔ بات اصل یہ تھی کہ وہ مار کھاکھا کر تھک گیا تھا۔ جیل میں اس سے کسی کو ملنے بھی نہیں دیا جاتا تھا، مرغّن غذائیں کھانے کو دی جاتیں، مگر سونے نہیں دیا جاتا تھا۔ کم بخت کو نیند بہت پیاری تھی، اس لئے تنگ آکر اس نے سچّے دل سے وعدہ کرلیا کہ بم بنانے کی سازش کے جملہ حالات بتا دے گا، یوں تو وہ جیل ہی میں تھا، مگر اس پر کوئی سختی نہ تھی۔ کئی دن تو اس نے آرام کیا، اس کا بند بند ڈھیلا ہو چکا تھا۔ اچھی خوراک ملی، بدن پر مالشیں ہوئیں، تو وہ بیان لکھوانے کے قابل ہوگیا۔ صبح لسّی کے دو گلاس پی کر وہ اپنی داستان شروع کردیتا۔ تھوڑی دیر بعد ناشتہ آتا۔ اس سے فارغ ہو کر وہ پندرہ بیس منٹ آرام کرتا اور کڑی سے کڑی ملا کر اپنا بیان جاری رکھتا۔ آپ محمد حسین اسٹینو گرافرسے پوچھئے جس نے اس کا بیان ٹائپ کیا تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ پھوجے حرامدے نے پورا ایک مہینہ لیا اور وہ سارا جال کھول کے رکھ دیا ، جو سازشوں نے ملک کے ایک کونے سے اُس کونے تک بچھایا تھا یا بچھانے کا ارادہ رکھتے تھے۔ اس نے سینکڑوں آدمیوں کے نام لئے۔ ایسی ہزاروں جگہوں کا پتہ بتایا ، جہاں سازشی لوگ چھپ کر ملتے تھے اور حکومت کا تختہ الٹنے کی ترکیبیں سوچتے تھے۔ یہ بیان ، محمد حسین اسٹینو گرافر کہتا ہے، فل اسکیپ کے ڈھائی سو صفحات پر پھیلا ہوا تھا۔ جب یہ ختم ہوا تو پولیس نے اسے سامنے رکھ کر پلان بنایا۔ چنانچہ فوراً نئی گرفتاریاں عمل میں آئیں اور ایک بار پھر پھوجے کی ماں بہن پُنی جانے لگی۔ اخباروں نے بھی دبی زبان میں پھوجے کے خلاف کافی زہر اُگلا، اس لئے اس کی غداری کی ہر جگہ مذّمت ہوتی تھی۔ وہ جیل تھا، جہاں اس کی خوب خاطر تواضح ہو رہی تھی۔ یہ بڑی طرّے والی کلف لگی پگڑی سر پر باندھے، دو گھوڑے کی بوسکی کی قمیص اور چالیس ہزار لٹھّے کی گھردار شلوار پہنے وہ جیل میں یوں ٹہلتا تھا جیسے کوئی افسر معائنہ کررہا ہے۔ جب ساری گرفتاریاں عمل میں آگئیں اور پولیس نے اپنی کارروائی مکمل کرلی تو سازش کا یہ معرکہ انگیز کیس عدالت میں پیش ہوا۔ لوگوں کی بھیڑ جمع ہوگئی۔ پولیس کی حفاظت میں جب پھوجا نمودار ہوا تو غصّے سے بھرے ہوئے نعرے بلند ہوئے۔ ’’پھوجا حرامدا مردہ بار، پھوجا غدار مردہ باد‘‘
ہجوم مشتعل تھا۔ خطرہ تھا کہ پھوجے پر نہ ٹوٹ پڑے، اس لئے پولیس کو لاٹھی چارج کرنا پڑا، جس کے باعث کئی آدمی زخمی ہوگئے۔ عدالت میں مقدمہ پیش ہوا۔ پھوجے سے جب یہ پوچھا گیا کہ وہ اس بیان کے متعلق کیا کہنا چاہتا ہے جو اس نے پولیس کو دیا تھا تو اس نے اپنی لاعلمی کا اظہار کیا۔
’’جناب!۔۔۔۔۔۔میں نے تو کوئی بیان و بیان نہیں دیا۔ ان لوگوں نے ایک پلندہ سا تیار کیا تھا جس پر میرے دستخط کروا لئے تھے ۔یہ سُن کر انسپکٹر پولیس کی، بقول پھوجے کے ’’بھمبیری بھول گئی‘‘۔ اور جب یہ خبر اخباروں میں چھپی تو سب چکرا گئے کہ پھوجے نے یہ کیا نیا چکّر چلایا ہے۔
چکّر نیا ہی تھا، کیونکہ عدالت میں اس نے ایک نیا ہی بیان لکھوانا شروع کیا، جو پہلے بیان سے بالکل مختلف تھا۔ یہ قریب قریب پندرہ دن جاری رہا۔ جب ختم ہوا ، تو فل سکیپ کے ۱۵۸ صفحے کالے ہو چکے تھے ۔پھوجے کا کہنا ہے کہ اس بیان سے جو عمارت پولیس نے کھڑی کی تھی۔ اس کی ایک ایک اینٹ اکھاڑ کے رکھ دی۔ سارا کیس چوپٹ ہوگیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اس سازش میں جتنے گرفتار ہوئے تھے، ان میں سے اکثر بری ہوگئے۔ دو تین کو تین تین برس کی اور چار پانچ کو چھ چھ مہینے کی سزا ہوئی۔ جو سُن رہے تھے ، ان میں سے ایک نے پوچھا ۔’’اور پھوجے کو؟‘‘
مہر فیروز نے کہا۔
’’ پھوجے کو کیا ہونا تھا، وہ تو وعدہ معاف سلطانی گواہ تھا۔‘‘
سب نے پھوجے کی حیرت انگیز ذہانت کو سراہا کہ اس نے پولیس کو کس صفائی سے غچّا دیا۔ ایک نے جس کے دل و دماغ کو اس کی شخصیت نے بہت متاثر کیا تھا ۔
مہر فیروز سے پوچھا۔’’آج کل کہاں ہوتا ہے؟‘‘
’’یہیں لاہور میں، آڑھت کی دکان کرتا ہے۔‘‘اتنے میں بَیرا بل لے کر آیا اور پلیٹ مہر فیروز کے سامنے رکھ دی۔ کیونکہ چائے وغیرہ کا آرڈر اسی نے دیا تھا۔ پھوجے کی شخصیت سے متاثر شدہ صاحب نے بِل دیکھا اور ان کا آگے بڑھنے والا ہاتھ رُک گیا۔ کیونکہ رقم زیادہ تھی۔ چنانچہ ایسے ہی مہر فیروز سے مخاطب ہوئے۔
’’آپ کے اس پھوجے حرامدے سے کبھی ملنا چاہئے۔‘‘
’’آپ اُس سے مل چکے ہیں یہ خاکسار ہی پھوجا حرامدا ہے۔۔۔۔‘‘
بِل آپ ادا کردیجئے ۔السّلام علیکم ۔‘‘ یہ کہہ کر وہ تیزی سے باہر نکل گیا۔
٭٭٭
تجزیہ
فطری طور پر ادیب کے اِردگرد ہونے والی تبدیلیاں اُس پر عام انسان سے زیادہ گہرا اثر چھوڑتی ہیں۔ زمانے کی سرد و گرم ہوائیں ہی اُس کی فکر کو نئی نئی جہتوں سے روشناس کرواتی ہیں اسی لئے ادیب کو وقت کا نبّاض کہا گیا ہے۔ بلاشبہ وہ اپنے دور کو لکھتا ہے۔ وہ اپنے دور کا مورخ بھی کہلاتا ہے۔ منشی پریم چند کو ہی لے لیجئے انہوں نے جبرو ظلم کے ماحول میں آنکھیں کھولیں۔ شعور جاگا تو انہوں نے اپنے دور کی عکاسی کی اپنے دور کے رنج و الم کو صفحہ قرطاس کی نذر کیا کسان و مزدور کی محرومیوں سے پردہ اُٹھایا۔ اُن کی حیات میں وقت نے کروٹ لی، سرخ انقلاب کا رنگ پھیلا ، ظلم کے خلاف مظلوم کی آواز اُٹھائی گئی اس کارخیر میں ادباء کی ایک جماعت شامل ہو گئی یعنی ترقی پسند تحریک کا انعقاد ہوا۔ بیدی، منٹو، کرشن چندر، عصمت، قاسمی اور بہت سے نام جنہوں نے غریب مزدور، مظلوم کسانوں پچھڑے ہوئے، دبے ہوئے طبقوں کے جذبات کی عکاسی کی۔ ان سب ناموں میں سے ایک نام سعادت حسن منٹو کا ہے جس کا مزاج باقی ادیبوں سے ہٹ کر تھا۔ منٹو خوددار ، بے باک اور آزاد قسم کا ادیب تھا۔ وہ اپنے مزاج کے مطابق کسی حصّار میں قید ہونا پسند نہیں کرتا تھا۔ وہ خود روانسان تھا، کسی ازم میں شامل ہونا اُسے پسند نہ تھا۔ جو جی میں آیا لکھ دیا تخلیق کے معاملہ میں وہ کسی بندش کو پسند نہیں کرتا تھا۔ اُس کا کہنا تھا منٹو تو منٹو ہی ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ اُس کے افسانوں ،اُس کے کرداروں اور موضوعات کا جائیزہ لیں تو میں سمجھتا ہوں منٹو سے بڑا کوئی ترقی پسند تھا ہی نہیں۔ ظلم کے خلاف احتجاج کرنا، سماج کو آئینہ دکھانا ،پسماندہ طبقوں کا دکھ، درد محسوس کرنا اُس کا شیوہ تھا۔ منٹو نے کبھی سمجھوتے نہیں کیئے۔ سفید پوش طبقہ اُس سے ہمیشہ ناخوش رہا مگر اُس نے پرواہ نہیں کی ۔اُسے عدالتوں میں گھسیٹا گیا مگر اُس نے اپنے احتجاج کا جھنڈا بلند رکھا۔ اس عظیم فنکار کے بارے میں جتنا لکھیں کم ہے۔
بقول سجاد ظہیر کہ منٹو کے چند افسانے ہمارے ادب کے بہترین افسانوں میں شمار کیئے جا سکتے ہیں۔ مجھے معاف فرمائیں تو میںیہاں یہ بات کہتا چلوں کہ ہمارے سامنے منٹو کے افسانوں کا انتخاب ہی آیا ہے۔ مثلاً ٹھنڈا گوشت، موذیل، ٹوبہ ٹیک سنگھ، کھول دو، بلائوز، گوپی ناتھ اور جانکی وغیرہ۔ کچھ ایسے افسانے بھی پائے گئے ہیںجو واقعی منفرد اور بہترین تھے پھربھی، جانے کیوں وہ انتخاب کے دائیرے میں نہیں آسکے ان میں سے ایک افسانہ ’’پھوجا حرام دا‘‘ ہے یہ افسانہ دائیرہ انتخاب سے شاید اس لیے باہر رہ گیا ہو کہ اس کا عنوان پنجابی زبان کا ہے، منٹو کے اس افسانے میں پنجابی زبان کے کئی الفاظ ہیں جن کا لطف وہی قاری اُٹھا سکتا ہے جو پنجابی زبان کی واقفیت رکھتا ہو اس بات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ منٹو کو اپنی مقامی زبان سے ازحد پیار تھا۔ عنوان ’’پھوجا حرام دا‘‘ کو ہی لے لیں ، ماضی بعید میں پنجاب میں بچوں کے نام ایسے ہی رکھے جاتے تھے ۔ایسے نام تقریباً سبھی مذاہب کے لوگوں میں پائے جاتے تھے۔ لفظ پھوجا ،فوج سے منسوب ہے۔ اگر یہ اردو زبان میں ہوتا تو ظاہر ہے فوجا،ف سے ہوتا پنجابی لہجہ میں ف ،پھ میں فرق نہیں رکھا جاتا۔ اسی طرح ز۔ج، گ۔غ اور ش۔س وغیرہ حروف میں بڑی فراخ دلی سے فرق مٹادیا جاتا ہے۔ یعنی فوجا کی بجائے پھوجا۔ دوسرا حصّہ حرامداہے ۔اردو میں لفظ حرامی ہے مقامی زبان میں حرام کا یا حرام زادہ کہا جاسکتا ہے مگر پنجابی میں حرام دا۔ دا بمعنی کا۔ تینوں قومیں لفظ پھوجے کااستعمال اس طرح کرتی ہیں، سکھوں میں پھوجا سنگھ، مسلمانوں میں پھوجے خان اور ہندوئوں میں پھوجے رام یا پھوجا رام ۔یہاں فیروز سے بگڑ کر پھوجا بنادیا گیا جس کی گرہ اختتام پر کھلتی ہے۔اس کے علاوہ افسانے میں بھیڈو ٹکر، گار، گنڈ پنا اور بھنبھیری گھومنا وعیرہ پنجابی زبان کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں جو واقعی مناسب ہیں اورمزہ دیتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ منٹو کامیاب اور مقبول افسانہ نگار شاید اس لئے بھی تھا کہ وہ اپنے کرداروں کے مونہہ میں خالص اُن کی اپنی زبان رکھ دیتا تھا۔ کبھی اپنی زبان کرداروں کے مونہہ میں زبردستی نہیں پھنساتا تھا۔ اس افسانے میں چونکہ راوی ایک پنجابی ہے اسی لئے اُس کا لہجہ پنجابی ہے اور اُس کے ادا کئے ہوئے پنجابی الفاظ مزہ دیتے ہیں۔ حقیقتاً منٹو کو پنجابی زبان اور کلچر سے پیار تھا۔ پچھلے سال مجھے علی گڑھ سے کسی شخص کا فون آیا وہ ہمارے بہت ہی سینئر علی امام نقوی صاحب کا حوالہ دے کر بات کر رہے تھے ۔ وہ سعادت حسن منٹو پہ ریسرچ کررہے تھے ۔وہ پریشان تھے کہ منٹو نے ٹھنڈا گوشت میں الفاظ مایا اور بھینی یا استعمال کئے ہیں۔یہ کیا ہیں، میری ہنسی چھوٹ گئی، میں نے تفصیل سے اور بلا جھجک اُن صاحب کو بتایا کہ یہ دونوں الفاظ دراصل پنجابی گالیاںہیں۔ماں بہن کی گندی گالیاں جو خاص طور پر پنجاب کے علاقہ دوآبہ یعنی جالندھر اور امرتسر کے لوگوں کا تکیہ کلام ہے۔ نقوی صاحب نے ان الفاظ کا معنی بتانے کے لئے ایک پنجابی کا انتخاب بہترین کیا۔ شاید آپ مجھ سے اتفاق کریں کہ منٹو کو اچھی طرح سمجھنا ہے تو پنجابی زبان اور کلچر کو سمجھئے ،ویسے تو بیدی اور دوسرے ادیبوں نے بھی منٹو کی طرح اس بات کو ملحوظ خاطر رکھا ہے کہ اپنے تخلیق کردہ کردار وں کو اپنی زبان میں ہی مکالمے کہلوائے ہیں۔ دوسروں کے مقابلہ مین منٹو نے اس بات کو شدّت سے محسوس کیا کہ اُسے احساس تھا کہ اگر اُس نے کرداروں کو اپنی زبان دے دی تو وہ زخمی ہو جائیں گے بلکہ مر ہی جائیں گے۔ مثال کے طور پر ٹوبہ ٹیک سنگھ کے درشن سنگھ کی یہ پگلی زبان ملاحظہ فرمائیں اوپڑی دی گڑ گڑ۔
’’دی انیکس دی بے دھیانہ، مُنگ دی دال ، دی وال آف دی لالٹین‘‘
یہ زبان ایک پنجابی پاگل کی ہی ہو سکتی تھی۔ باشعور آدمی ایسا بے معنی جملہ ادا کر ہی نہیں سکتا۔ انہیں وجوہات سے انہوں نے درشن سنگھ کے کردار کو زندہ کردیا۔ آپ منٹو کے افسانے پڑھ کر محسوس کریں گے کہ جیسے اُس کے کردار زندہ ہیں اور ہمارے اردگردپھیلے ہوئے ہیں اور اپنی حرکات میں مشغول ہیں۔
’’پھوجا حرام دا‘‘ منٹو کا ایک منفرد افسانہ ہے جو دلچسپی سے بھر پور ہے میرا دعوے ہے کہ دوران مطالعہ آپ اپنی ہنسی نہیں روک سکتے۔ منٹو کے افسانوں میں شاید یہ واحد افسانہ ہے جو تفریحی اور مزاحیہ ہے جو منٹو کے اپنے مزاج سے تھوڑا بہت ہٹ کر ہے۔ گنجے فرشتے تلخ ترش اور شیریںاور لائوڈ سپیکر میںانہوں نے مزاح پیدا کیا ہے۔ مگر پھوجا حرام دا کی بات ہی کچھ اور ہے آئیے ملاحظہ فرمائیں۔
پھوجا حرام دا اُس دور کی کہانی ہے جب کانگریس کا بہت زورتھا۔ کہانی کا آغاز لاہور کے ایک ٹی ہائوس میں ہوتا ہے جہاں مختلف لوگ بیٹھے گپیں مار رہے ہیں اور چائے کا مزہ لے رہے ہیں۔ بات چیت کا موضوع حرامیوں کا ہے۔ یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس افسانے میں حرامی سے مُراد نطفہء نا تحقیق ہرگز نہیں بلکہ انتہائی شریر، سرکش اور غنڈے لڑکوں سے ہے۔ جیسے اردو میں ہم چھوٹے بچوںکو جو شریر ہوں ۔پیار سے بدمعاش کہہ دیتے ہیں۔ ویسے ہی پنجابی میں لفظ حرام دا ایسے ہی بچوں کو کہہ دیا جاتا ہے۔بہر حال لوگ چائے خانے میں بیٹھے چائے کا مزہ لے رہے تھے اور حرامیوں کے قصّے سن اور سُنا رہے تھے ۔وہاں موجود ہر ایک شخص کم از کم ایک حرامی کا قصّہ ضرور بیان کررہا تھا۔ کسی حرامی کا تعلق جالندھر سے ،کسی کا لدھیانہ سے اور کسی کا لاہور سے تھا۔ سبھی لڑکے اسکول کالجوں کے طالب علم ہی تھے۔ مہر فیروز صاحب جو ٹی ہائوس میں حرامیوں کے قصّے سن رہے ہیں ایک قصّہ خود بھی چھیڑ دیتے ہیں۔
امرتسر میں شاید ہی کوئی ایسا آدمی ہو جو ’’پھوجے حرام دے‘‘ کے نام سے ناواقف ہو۔ یوں تو شہر میں کئی حرام دے تھے مگر اُس کے پلّے کے نہیں تھے وہ ایک نمبر کا حرام دا تھا۔ فیروز صاحب نے مزید بتایا کہ اُن کے اسکول کے ہیڈ ماسٹر بڑا ہی سخت تھا اُس کی بید سے بچے ڈرتے تھے مگر ہیڈ ماسٹر، پھوجے حرام دے سے ڈرتا تھا۔ کیونکہ پھوجے کو ہیڈ ماسٹر کی بید کا کوئی خوف نہ تھا وہ خوب پٹ کر بھی ہیڈ ماسٹر کو دیکھ کر مسکرا دیتا دسویں کلاس کا واقعہ سناتے ہوئے فیروز صاحب کہنے لگے۔ ایک دن یار لوگوں نے پھوجے سے کہا کہ اگر تم کپڑے اُتار کرننگ دھڑنگ اسکول کا چکر لگا دو، تو ہم تمہیںایک روپیہ دیں گے (اُن دنوں ایک روپے کی قیمت بہت تھی) پھوجے نے روپیہ لے کر کان میں اَڑ س لیا کپڑے اتار کر بستے میں باندھ لیئے اور ننگا ہو کر سارے اسکول کا چکر لگا کر، ہیڈ ماسٹر کے دفتر میں داخل ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد ہیڈ ماسٹر گھبرایا ہوا دفتر سے نکلا اور چپراسی کو بلا کر بولا ۔
’’جائو۔۔۔۔۔۔بھاگ کے جائو۔۔۔۔۔۔پھوجے حرام دے کے گھر ۔۔۔۔۔۔وہاں سے اُس کے کپڑے اٹھا لائو۔۔۔۔۔۔وہ کہتا ہے کہ وہ مسجد کے سقاوے میں نہا رہا تھا کہ چور اُس کے کپڑے اُٹھا کر لے گئے۔۔۔۔۔۔!!‘‘
یہاں منٹو نے یہ بات واضح کی ہے کہ پھوجا حرام دا بدمعاش ہونے کے ساتھ ذہین بھی بہت تھا۔ ظاہر ہے کہ جو بچہ بلا کا شریر ہو گا وہ ذہین بھی ضرور ہو گا۔ دیکھیے ایک روپیہ کی خاطر پھوجے نے کس چالاکی سے اپنی شرارت کو اپنی مجبوری ثابت کردیا اور ہیڈ ماسٹر کی ہمدردی حاصل کرلی۔ دوسرا قصّہ فیروز صاحب نے دینیات کے مولوی پوٹیٹو کا بیان کیا ہے۔ یہاں منٹو نے اچھا مزا ج پیدا کیا ہے مولوی صاحب کو عجیب و غریب نام دے دیا پوٹیٹو یعنی آلو، افسانے میں مولوی صاحب کا جغرافیہ تو ظاہر نہیں کیا مگر لفظ پوٹیٹو ، مولوی صاحب کا پستہ قد اور گول مٹول ہونا ظاہر کرتا ہے۔ فیروز صاحب نے قصّہ یوں بیان کیا کہ معلوم نہیں مولوی کو پوٹیٹو کس رعایت سے کہتے تھے کیونکہ آلوئوں کے تو داڑھی ہوتی ہی نہیں۔ اُستادوں میں سے مولوی پٹیٹوسے ہی پھوجا حرام دا دیتا تھا ۔ایک دن مولوی صاحب نے سکول کی منیجینگ کمیٹی کی انسپیکشن کے دوران پھوجے حرام دے سے ایک آیت کا مطلب پوچھ لیا۔ پھوجے نے جو مونہہ میں آیا اول جلول بک دیا۔ انتظامیہ کے سامنے مولوی صاحب کے پسینے چھوٹ گئے۔ بعد میں انہوں نے پھوجے کی جم کر پٹائی کی۔ پھوجا پٹتا رہا اور ادب سے کہتا رہا کہ اُس کا قصور نہیں اُسے کلمہ تو ٹھیک سے آتا نہیں آپ نے آیت کا ترجمہ پوچھ لیا ۔مولوی پوٹیٹو نے پٹائی پہ ہی بس نہیں کی بلکہ پھوجے حرام دے کے باپ کے پاس شکایت لے کر پہونچے ۔باپ جو پہلے ہی پھوجے حرام دے کی حرکتوں سے پریشان تھا۔ مولوی پوٹیٹوکو رحم ناک لہجہ میں بتانے لگا ۔یہاں فیروز صاحب نے پھوجے کا ایک اور دلچسپ قصّہ پیوست کردیا ۔باپ مولوی صاحب سے کہنے لگا کہ مولوی صاحب میں تو خود اس سے عاجز آگیا ہوں سمجھ میں نہیں آتا اس کی اصلاح کیسے کروں ابھی کل کی بات ہے۔ میںپاخانے گیا تو پھوجے نے باہر سے کنڈی چڑھا دی میں بہت گرجا، بہت گالیاں دیں مگر اُس نے کہا ۔
’’اَٹھنی دینے کا وعدہ کرو تو دروازہ کھلے گا۔ اگر وعدہ کرکے مکرو گے تو اگلی بار کنڈی میں تالہ بھی ہوگا۔‘‘
چار وناچارمجھے اُسے اٹھنّی دنیا ہی پڑی۔ اب بتائیے مولوی صاحب میں ایسے نابکار لڑکے کا کیا کروں۔ فیروز صاحب نے قصّہ جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ پھوجا پڑھتا وڑھتا تو تھا ہی نہیں انٹرنیس کے امتحانات ہوئے تو پھوجا حرام دا سب سے زیادہ نمبر لے گیا۔وہ کالج جانا چاہتا تھا۔ باپ چاہتا تھا کہ وہ کوئی اچھا ساہنر سیکھ لے ۔ دونوں اپنی اپنی جگہ اَڑے رہے نتیجہ یہ رہا کہ پھوجا دو سال آوارہ گھومتا رہا اور بڑے زور و شور سے حرام زدگیاں کرتا رہا۔ تنگ آکر باپ نے کالج میں داخلہ کروا دیا۔پہلے ہی دن پھوجے کی شرارت نے اُسے کالج میں مشہور کردیا، ہوا یہ کہ پھوجے نے میتھے میٹکس کے پروفیسر کی سائیکل اُٹھا کر کالج کے ایک درخت کی سب سے اونچی ٹہنی پر لٹکا دی ۔دیکھتے ہی دیکھتے پھوجے کا نام اتنا روشن ہوا کہ پھوجے کے گنڈپنے (بدمعاشی) کی دھاک پورے شہر میں بیٹھ گئی۔ فیروز صاحب نے قصّہ جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ پھوجے کا قد تو ناٹا تھا مگر بدن کسرتی تھا ۔اُس کی بھیڈو ٹکر(مینڈھا ٹکر) بہت مشہور تھی ایک دن پرنسپل کی نئی موٹر کے پٹرول ٹینک میں پھوجے نے شکر ڈال دی۔ پھوجا سیاسی آدمی نہیں تھا۔ اُسے تو گاندھی جی کا نام بھی معلوم نہ ہوگا ایک دن پولیس نے اُسے کسی سازش کے سلسلہ میں دھر لیا الزام یہ تھا کہ کالج کی لیبارٹری سے ایک ایسا ایسڈ چوری ہو گیا جس کی مدد سے بم بنایا جاتا تھا۔ کالج کے لڑکوں کی ایک خفیہ جماعت یہ کام کررہی تھی جس کا سرغنہ پھوجا حرام دا بتایا گیا جس کو تمام خفیہ باتوں کا علم تھا۔ پھوجے کو تھانے میں اُلٹا لٹکا کر خوب پیٹا گیا برف کی سیلیوں پر کھڑا کیا گیا۔ پھوجا ٹس سے مس نہ ہوا اورتھانے میں بھی اپنے حرامی پن سے باز نہ آیا۔ ایک دن مار کھا کھا کر پھوجا نڈھال ہو گیا ۔بولا ٹھیک ہے میں سب کچھ ٹھیک ٹھیک بتاتا ہوں ،پہلے دودھ جلیبی کھلائو، دودھ جلیبی کھلا کر تھانیدار نے قلم سنبھالا ۔ پھوجے نے اپنے اعضاء کا جائیزہ لیا اور بھرپور انگڑائی لی۔ تھانیدار بولا۔
’’لو بھئی !۔۔۔۔۔۔اب بتائو ۔۔۔۔۔۔!!‘‘پھوجا مسکرایا ۔
’’اب کیا بتائوں اب طاقت آگئی، چڑھا لو اپنی ٹکٹکی پر۔۔۔۔۔۔!‘‘ایسے اور بہت سے قصّے ہیں جیسے ملک حفیظ کا ملک حفیظ پھوجے کا کلاس فیلو تھا۔ نہایت شریف اور ڈرپوک ایک دن پھوجے کے ہتھکڑیاں لگی ہوئی تھیں ۔پولیس والے ساتھ تھے کہ کچہری میں ملک حفیظ سے سامنا ہوگیا وہ کنّی کاٹ کر جانے لگا تو پھوجے نے اُسے گھیر لیا اور سلام کیا۔ ملک حفیظ گھبرا گیا۔ پھوجا کہنے لگا ۔
’’یار حفیظ تم بھی جیل میں آجائو۔۔۔۔۔یار میرا دل نہیں لگتا ۔۔۔۔۔۔پھوجے کا نام لینا ہی کافی ہے ۔سیدھے اندر آجائو گے۔۔۔۔۔۔‘‘وہ گھبرا گیا تو پھوجا بولا۔
’’یار میں تو مذاق کررہا تھا۔۔۔۔۔۔ہاں اگر میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بتانا۔۔۔۔۔۔‘‘حفیظ ملک جانے ہی والا تھا کہ پھوجا بولا۔
’’ملک ۔۔۔۔۔۔بھئی اور تو ہم کچھ کر نہیں سکتے کہو تو تمہارے وہ بدبودار کنویں کی گار( گندگی) نکلوادیں گے ۔ہفتے بعد حفیظ ملک نے دیکھا ایک دن صبح سویرے کچھ کارندے پولیس والوں کی نگرانی میں کنویں سے گندگی نکال رہے تھے۔ ساتھ میں پولیس والے تھے ۔ وہ سب پھوجے حرام دے کی نشاندیہی پر کنویں سے بم نکال رہے تھے۔ کنویں کا پانی شفاف ہوگیا۔ پر بم تو کیا ایک چھوٹا پٹاخہ بھی نہیں ملا پولیس بہت بھنّائی۔ پھوجے سے باز پرس ہوئی اُس نے مسکرا کر تھانیدار سے کہا۔
’’او بھولے بادشاہو۔۔۔۔۔۔!ہمیں تو یار کا کنواں صاف کروانا تھا۔۔۔۔۔۔سو ۔۔۔۔کروالیا۔۔۔۔۔۔!!‘‘
پولیس نے غصّہ میں آکر پھوجے حرام دے کو وہ مارا وہ مارا کہ وہ ادھ مرا ہوگیا۔
تھوڑا خاموش ہو کر فیروز صاحب نے کہنا شروع کیا۔
ایک دن خبر آئی کہ پھوجا سلطانی گواہ بن گیا۔ اس نے وعدہ کرلیا کہ وہ سرکار کو سب کچھ بتا دے گا۔ پھوجا اب سرکاری گواہ تھا ۔اُس کی پٹائی ایک دم بند ہوگئی پہلے کچھ دن تو اُس نے خوب آرام کیا جب وہ بیان دینے کے قابل ہوا تو صبح دو گلاس لَسّی پی کر بیان لکھوانے بیٹھ جاتا اور محمد حسین اسٹینو گرافر ٹائیپ کرتا رہتا۔ محمد حسین کا کہنا تھا کہ پھوجے نے ملک میں پھیلے ہوئے سازشوں کے جال کو کھول کر رکھ دیا ۔ پورا ایک مہینہ لگا بیان لکھوانے میں۔ بیان فل اسکیپ کے ڈھائی سو صفحے پر مشتمل تھا جب بیان ختم ہوا تو ہزاروں جگہوں پر چھاپے پڑے ملک کے کونے کونے سے لوگ پکڑ لئے گئے۔ ایک بار پھر لوگوں نے پھوجے کی ماں بہن پُنی (چھانی) اخباروں نے دبی زبان میں پھوجے کے خلاف کافی زہر اُگلا۔ سلطانی گواہ بن کر پھوجے حرامدے کے مزے آگئے۔ اچھا کھانا بہتر پہننا وہ جیل میں یوں ٹہلتا جیسے کوئی آفیسر جیل کی انسپکیشن کے لئے آیا ہو۔ جب ساری کاروائی مکمل ہوئی تو پھوجے حرام دے کو عدالت میں لایا گیا۔ لوگوں کی بھیڑ اکٹھی ہوگئی۔ چاروں طرف نعرے لگے ۔
’’پھوجا حرام دا مردہ باد۔۔۔۔۔۔پھوجا حرام دا ۔۔۔۔۔۔مردہ باد۔۔۔۔۔۔‘‘ہجوم مشتعل تھا ڈر تھا کہ پھوجے پر ٹوٹ نہ پڑے ۔مجبوراً پولیس کو لاٹھی چارج کرنا پڑا، بہت سے لوگ زخمی ہوئے۔ عدالت نے جب پھوجے سے پوچھا کہ وہ اس بیان کے بارے میں کیا کہنا چاہتا ہے تو پھوجا بولا ۔
’’جناب میں نے کوئی بیان ویان نہیں دیا ان لوگوں نے ایک پلندہ سا تیار کیا تھا جس پر میرے دستخط لے لئے۔۔۔۔۔۔!‘‘
یہ سن کر انسپکٹر کی بھنبھیری بھول گئی( یعنی انسپکٹر چکرا گیا) اخباروں میں یہ خبر چھپی تو سب چکرا گئے کہ یہ پھوجے حرامدے کا کیا نیا چکر ہے؟
پھوجے نے عدالت کے سامنے ایک نیا بیان لکھوانا شروع کیا جو پندرہ دن میں مکمل ہوا۔ سارا کیس چوپٹ ہوگیا۔ زیادہ لوگ بَری ہوگئے۔
کسی نے پوچھا۔
’’اور پھوجے حرام دے کا کیا ہوا۔۔۔۔۔۔!؟‘‘
مہر فیروز ہنسے اور بولے۔
’’پھوجے کا کیا ہوتا۔۔۔۔۔۔؟ وہ تو سلطانی گواہ تھا۔۔۔۔۔۔!!‘‘
اگر یہ کوئی عام قصّہ یا واقعہ سناتا تو اصولاً بات یہاں پر ختم ہو جانا چاہئے تھی چونکہ یہ افسانہ تھا اور وہ بھی منٹو کا تخلیق کردہ یہ اینٹی کلائمیکس کیسے ہوسکتا تھا۔۔۔؟آگے دیکھئے ۔
پھوجے کے کردار سے بہت متاثر ہوئے ایک نے فیروز صاحب سے پوچھا۔
’’آج کل پھوجا کہاں ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔!؟‘‘
فیروز صاحب نے جواب دیا۔
’’یہیں ہے۔۔۔۔۔۔!لاہور میں آڑھت کی دکان کرتا ہے۔۔۔۔۔۔!!‘‘
اتنے میں بیرا بل لے کر آگیا اُس نے بل کی پلیٹ مہر فیروز کے سامنے رکھ دی کیونکہ چائے وغیرہ کا آرڈر اُنہوں نے ہی دیا تھا۔ پھوجے حرام دے کا قصّہ سننے والے ایک صاحب نے بل دیکھا، اُس کا آگے بڑھاتاہوا۔ ہاتھ وہیں رُک گیا کہ رقم زیادہ تھی۔ بل سے ہاتھ کھینچ کر وہ بولا۔
’’آپ کے پھوجے حرام دے سے کبھی ملنا چاہئے۔۔۔۔۔۔!!‘‘
مہر فیروز اُٹھے اور بولے۔
’’آپ اُسے مل چکے ہیں یہ خاکسار ہی پھوجا حرام دا ہے۔ یہ بل آپ ادا کردیجئے ۔۔۔۔۔السلام و علیکم ۔۔۔۔۔۔!!‘‘
یہ کہہ وہ تیزی سے ٹی ہائوس سے نکل گئے۔
اختتام پر منٹو نے انسان کی ایک اہم نفسیات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ انسان عمر کے کسی حصّے میں چلا جائے ۔اُس کی فطرت نہیں بدلتی۔ افسانے میں مہر فیروز صاحب جو بظاہر ایک سنجیدہ اور معزز آدمی نظر آتے ہیں۔خود چائے کا بل ادا کرنے کی بجائے ، دوسرے آدمی کو جو قصّہ دلچسپی سے سن رہا تھا یہ کہہ کہ تیزی سے نکل جاتے ہین کہ وہ بل ادا کردیں۔۔۔۔گویا یہ مہر فیروز صاحب المعروف پھوجا حرامدا کا آخری حرامی پن تھا۔۔۔۔۔۔
٭٭٭