’’گستاخی معاف‘‘ آپ کے ہاتھوں تک پہونچ گئی ۔میں یہ بات آپ پر واضح کردینا چاہتا ہوں کہ میری یہ کتاب میری ایک خراب عادت کانتیجہ ہے ۔خراب عادت یہ کہ میں جب کسی افسانے کا مطالعہ کرتا ہوں تو میری تیسری آنکھ اپنے آپ کھل جاتی ہے۔ یہ تیسری آنکھ جو حاضر بھی ہوتی ہے غائب بھی، کسی افسانوی تخلیق کو دیکھتی ہے تو اس کا ایکس رے مشین کی طرح اندر تک جائزہ لیتی ہے۔ اُس کے نشیب و فراز ناپتی ہے ۔ اُس کا بیلینس دیکھتی ہے، پرکھتی ہے اور فیصلہ سنادیتی ہے۔ تیسر ی آنکھ یہ تمیز بھی نہیں کرتی کہ افسانہ کسی استاد کا ہے یا کسی نئے افسانہ نگار کی کاوش ہے۔ اپنا کام کرتی رہتی ہے۔ میں اپنی اس تیسری آنکھ کی فطرت سے اورسچ بولنے والی زبان کے آگے مجبور و بے بس ہوں ۔انہیں کی وجہ سے مجھے اکثر و بیشتر ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دور حاضر کا ہر چھوٹا بڑا افسانہ نگار خود کو منٹو بیدی سے کم نہیں سمجھتا ہے، ہم تیسری آنکھ کی بولی بولے نہیں کہ وہ سیخ پا ہو جاتا ہے۔ کیا کریں اس تیسری آنکھ کی وجہ سے ہم اپنے شہر کی ناپسندیدہ ہستی بن کر رہ گئے ۔ اب کسی ادبی و شعری محفل میں جاتے ہوئے گھبراہٹ ہونے لگی ہے ۔اس لئے ہمیں گوشہ نشینی اختیار کرنا پڑی ہے۔ ایک طرح سے تو اچھا ہی ہوا کہ شہر کی گلیوں کی بے وجہ آوارگی ،چائے اور سبزی کی دوکانوں پر بیٹھ کر وقت ضائع کرنے سے بچ گئے۔ ریٹائیرمینٹ کے بعد اب ہمارا وقت صرف اورصرف ادب کے لئے ہی وقف ہے۔ ان دنوں ہم افسانے بھی بہت کم لکھنے لگے ہیں۔ اگر کوئی موضوع ہمارے دل کو چھو جائے ، ہم اُسے تخلیقی لباس پہنانے لگیں تو یہ کم بخت تیسری آنکھ ، ہم سے ہمارا قلم چھین لیتی ہے ۔اس کا معیار اونچا ہوگیا عام اور سستے موضوع کو چھونے نہیں دیتی۔فوراً ہمیں ہمارا مقام یاد دلادیتی ہے۔
۲۰۱۲ء کے اوائیل میں ایک دن ہمارے بہت ہی عزیز نوجوان دوست ڈاکٹر اسلم جمشیدپوری کافون آیا۔بولے بشیر بھائی اس سال ہم میرٹھ میں منٹو فیسٹیول کرنے جارہے ہیں۔ آپ منٹو کے کسی افسانے کا تجزیہ کرکے رکھیں۔ ایک تو منٹو ہمارے روحانی استاد ٹھہرے، دوسرے تجزیہ۔۔۔۔۔۔؟ہم نے کہا بھائی ہم ٹھہرے آدھے ادھورے فکشن نگار تجزیہ کرنا ہمارے بس کی بات نہیں۔ جواب ملا آپ تجزیہ کرسکتے ہیں، آپ کو کرنا ہے اور فون کٹ گیا۔ دراصل کچھ لوگ اتنے پیارے ہوتے ہیں کہ وہ ہماری کمزوری بن جاتے ہیں۔ جیسے یہ نیلی آنکھوں والا بچہ ہماری کمزوری بنا ہوا ہے ۔کیا کرتے اسلم کا حکم ٹال نہیں سکتے تھے جیسے تیسے تجزیہ لکھ مارا۔ کام مشکل تھا مگر ہم کر گذرے ۔دوران تقریب یونیورسٹی میں ہم نے منٹو کے ایک غیر معروف افسانے ’’پھوجا حرام دا‘‘ کا تجزیہ سنا ڈالا۔ تقریب میں موجود ادباء ، نقاد حضرات اور دانشورں نے ہمارے تجزیے پہ پسندیدگی کا اظہار کیا۔ ہماری حوصلہ افزائی ہوئی اور اس کے بعد ہم نے تنقید کا باقائدہ سفر شروع کردیا ۔ایک دن استاد منٹو کے افسانے موذیل کا مطالعہ کیا۔ تیسری آنکھ کے مجبور کرنے پر ہم نے دوسری بار پھر مطالعہ کیا۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ ’موذیل ‘استادکا مقبول ترین افسانہ قرار دیا گیا ہے۔ استاد منٹو نے تو موذیل لکھ کر تھوڑا ہی کمایا ہوگا، نقادوں نے موذیل کی تعریف میں مضامین لکھ لکھ کر لاکھوں بٹور لئے ہوں گے۔ بہر حال ہم انے اپنی تیسری آنکھ کھول کر موذیل پڑھا اور ایک بھرپور تجزیہ لکھ مارا۔ تجزیہ کافی طویل ہوگیا۔ اُن دنوں ہماری آپا ڈاکٹر نگار عظیم ہمارے یہاں آئی ہوئی تھیں۔ ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ ہماری آپا منٹو کی زبردست فین ہیں۔ آپ نے منٹو پر ڈاکٹریٹ کی ہے ،زبردست منٹو شناس واقع ہوئی ہیں۔ منٹو کو اگر کوئی برا کہہ دے تو سر محفل بھڑ جاتی ہیں اور سامنے والے کو مونہہ کی کھانی پڑتی ہے۔آپا کی موجودگی کا فائدہاُٹھاتے ہوئے، ڈرتے ڈرتے موذیل کا وہی تجزیہ اُن کو سنا ڈالا۔ نگار آپا نے بڑے صبر کے ساتھ پوراایک گھنٹہ قربان کرکے ہمارا وہ تجزیہ سُنا۔ نہ وہ ناراض ہوئیں نہ زیادہ خوش بس اتنا کہا کہ بشیر بھائی آپ نے بڑی محنت کی ہے۔ وہ تجزیہ ہم نے سہ ماہی فکرو تحقیق نئی دہلی کو برائے اشاعت بھیج دیا۔فکرو تحقیق کے اکتوبر دسمبر ۲۰۱۴ء کے شمارے میں ہماراوہ تجزیہ چھپا۔ مدیر نے ہمیں ناقد اور افسانہ نگار کے نام سے اپنے اداریہ میں یاد کیا۔ خطوط کازمانہ تو بعیدہوا،البتہ فون بہت آئے ۔تحقیق کے طالب علموں نے تجزیے کو بہت پسند کیا۔ تو صاحبو!۔۔۔۔۔۔اس طرح ہماری تیسری آنکھ اورہمارے اسلم بھائی نے ہمیں نقاد بنادیا جس کے نتیجہ میں ہماری کتاب ’’ہم قلم‘‘ منظر عام پر آئی جس میں ہم نے اپنے ۱۲ ہم عصر افسانہ نگار دوستون کے فن پر مضامین قلم بند کئے۔ برا ہواس تیسری آنکھ کا ۔اُن میں سے زیادہ تر افسانہ نگار ہم سے خفاہوگئے ۔سچ بہت کڑوی چیز ہوا کرتی ہے۔
موذیل کے کامیاب تجزیے کے بعد ہمیں ہماری یہ تیسری آنکھ اچھی لگنے لگی اس کی مدد سے ہم نے استاد کا ہی ’’بو‘‘،’’ٹھنڈا گوشت‘‘، ’’گوپی ناتھ ‘‘اور ’’شہید ساز پڑھے اور تجزیاتی مضامین لکھے۔ اسی دوران ہمارے ایک دیرینہ دوست ،جو بدقسمتی سے اب ہمارا ماضی بن گئے کا آواز ہ ہم تک پہونچا کہ میاں اب تو وہ بہت بڑے استاد بن گئے جو منٹو کے افسانوں میں کیڑے نکال رہے ہیں۔ مجھے خوشی ہوئی ، کسی طرح سے سہی لوگ ہمیں یاد تو رکھتے ہیں۔ بہر حال میں نے اپناکام جاری رکھا۔ اسی بیچ ہمارے سامنے لاجونتی کھڑی ہوگئی بولی بیدی کے ساتھ ساتھ سب نے مان لیا کہ مجھے اغوا کیا گیا تھا ۔میں مغویہ تھی آخر کوئی تو بتائے مجھے اغوا کس نے کیا۔ میری تیسری آنکھ پھڑکنے لگی۔ لاجونتی ٹھیک کہتی ہے میں نے اُس سے تھوڑی مہلت مانگی۔ بیدی کاافسانہ لاجونتی پڑھا۔ پھر وارث علوی مرحوم کی کتاب راجندر سنگھ بیدی ایک مطالعہ دیکھی ۔میرا سر گھوم گیا ۔ لاجونتی کا شوہر سندر لال ،مہاجر نہیں تھا ، وہ پاکستان سے ہجرت کرکے نہیں آیا تھا کہ کوئی مسلمان اُس سے خوبصورت اور جوان لاجونتی کو چھین لیتا۔ سندر لال تو مقامی تھااپنے قصبہ کا بارسوخ آدمی تھا۔ ایک سوسائٹی کاسیکریٹری چنا گیا ۔اُس کی سفارش پر لوگوں کو راشن کے ڈپو مل جاتے تھے۔ تقسیم کے وقت وہ گائوںمیں تھا۔ لاجونتی اغوا ہوئی تو کیسے۔۔۔۔۔۔؟ ظاہر ہے اُس وقت ہندو عورتوں کو مسلمان اغوا کرتے تھے۔ہندوستان سے پاکستان جانے والے مسلمان تواپنا قیمتی ساماناُٹھانے سے قاصر تھے ۔اُن کی تو زندگی بھی غیر یقینی تھی کہ وہ پاکستان جا پائیں گے یا راستے میں ہی قتل کردئیے جائیں گے۔ توجناب لاجونتی، کوکس نے اغوا کیا۔۔۔۔۔۔؟وہ پاکستان کیسے اور کیوں گئی۔ اس کا جواب ہم نے اپنے سینئر اور بیدی پہ ڈاکٹریٹ کرنے والوں سے پوچھا۔ مگر بے سود ، وارث علوی بیدی بھگت تھے انہوں نے اپنی کتاب کے ۱۲ صفحات لاجونتی کی نذر کردئیے ۔اردو کے موٹے موٹے الفاظ، غیر ملکی بڑے بڑے نام، یا کہانی ڈھانچے کے سوا ہمیں تعریفیں ہی پڑھنے کو ملیں۔ آخر ہم نے لاجونتی سے معافی مانگ لی ۔احمد ندیم قاسمی کا افسانہ ’’بین‘‘، قاضی عبدالستار کا ’’پیتل کا گھنٹہ ‘‘ ،عصمت کا ’’لحاف‘‘ اور کرشن چندر کا ’’مہالکشمی کا پل‘‘ ہم نے اپنائے ان پر تجزیے کئے ۔’’پیتل کا گھنٹہ‘‘ ہمیں بھائی ظفر ہاشمی ایڈیٹر ’’گلبن ‘‘ لکھنو سے ملا۔ اُس پہ تجزیہ گلبن میں ہی شائع ہوا۔
اب آپ کا یہ سوال کہ’’ گستاخی معاف‘‘کی تخلیق کی کیا ضرورت تھی، تو بھائی بات یہ ہے کہ ہمارے نقاد حضرات نے افسانوی ادب پہ لکھتے ہوئے اپنی علمیت کا رعب اور مردہ افسانہ نگاروں کی تعریفوں کے سوا کچھ نہیں کیا۔ کسی فن کی تشخیص، صحیح طور پر وہی انسان کرسکتا ہے جو اُس فن سے مکمل واقفیت رکھتا ہو۔ میں تو افسا نے کا چھوٹا سا طالب علم ہوں آپ بتائیںہمارے نقادوں میں سے کون سا نقاد ایسا تھا یا ہے جو کامیاب افسانہ نگار بھی مانا گیا ہو۔ کسی بڑے افسانہ نگار نے کبھی تنقید کی طرف ہاتھ بڑھایا ۔۔۔۔۔۔؟کتابوں کی گنتی چاہے کتنی بھی ہو آپ بڑے نقاد نہیں بن سکتے اردو افسانے کی یہ بدقسمتی ہے کہ نہ تو اس کو کوئی علم عروض کی طرح پیمانہ یا میٹر ملا نہ کوئی بہتر نقاد ملا جو افسانے کے تمام رموز سے آشنا ہوتا ،میں ایک معمولی سا کچے پکے افسانے لکھنے والا ادیب ہوں۔ مجھے میرے صوبہ پنجاب نے ابھی تک افسانہ نگار تسلیم نہیں کیا۔
اپنی تیسری آنکھ سے میں نے ان شاہکار افسانوں کے بہت سے کمزور نکات پر روشنی ڈالی ہے ۔ افسانوں کے جو پہلو قابل تعریف تھے اُن کی واقعی تعریف بھی کی ہے۔ مجھ سے پہلے بھی ان افسانوں پہ تجزیے ہو چکے ہیں۔ ہو بھی رہے ہیں ۔ان نکات پر غور کیوں نہیں ہوا۔ شہ رگ کٹنے کے بعد بھی معجزاتی طور پر ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ کا ایشر سنگھ دس منٹ تک بولتا رہا۔ جب کہ وہ خود کہہ رہا ہے ماں یا میرا گلا چرا ہے۔ خون اُڑاُڑ کر اُس کی مونچھوں پرگرتا ہے۔ استاد منٹو کو کسی نے نہیں بتایا کہ جب انسان کی شہ رگ کٹ جاتی ہے تو وہ بول نہیں سکتا۔بے ہوش ہونے لگتا ہے۔ ہم نے افسانہ پڑھ کر ڈاکٹر اسلم حبیب صاحب سے دریافت کیا۔ ایک اور سرجن نے اس بات کو تسلیم کیا کہ شہ رگ کٹنے کے بعد آدمی بول نہیں سکتا۔استاد منٹو خود لکھتے ہیں ۔خون ایشر سنگھ کے گلے سے اُڑ اُڑ کر مونچھوں پر گررہا تھا۔ ذرا گلے کا احاطہ کریں۔ چھاتی کی ہڈی سے ٹھوڑی تک مان کر چلیں اور شہ رگ کی جگہ بھی وہی ہے اگر استاد لفظ گلے کی جگہ گردن استعمال کرتے تو بات اور تھی۔ ہم مانتے ہیں کہ گستاخی ہے کہ اتنے بڑے افسانہ نگار کے بہت عظیم افسانے کے بارے میں ہم بات کررہے ۔نقاد حضرات نے تو اس افسانے کو دنیا کے دس عظیم افسانوں میں گردانا ہے جب کہ باقی نو افسانوں کے نہ تووہ حضرات نام جانتے تھے نہ انہوں نے پڑھے تھے۔
ہماری محبوب زبان اردو دنیا کی بڑی زبانوں میں شمار ہوتی ہے۔ افسوس کہ ہماری زبان کا کوئی ادیب عالمی منظر نامے پہ نظر نہیں آتا۔ سوا سو کروڑ کے اس ملک کے ہم باشندے ہیں۔ ایسی ہمارے اندر کون سی کمی ہے کہ ہمارے کھلاڑی اولمپک سے ،ہماری فلمیں آسکر سے اور ہمارا ادب نوبل پرائیز سے دور رہتا ہے۔ ہمارے اندر ٹیلینٹ کی کمی ہے۔۔۔۔۔۔؟ہمار ے اندر جذبے نہیں۔۔۔۔۔۔؟ہمارے اندر وہ سب کچھ ہے جو دوسرے ممالک کے لوگوں میں ہے۔
’’گستاخی معاف ‘‘ کو لے کر اپنے کتابوں والے ریک یاالماری میں مت سجا کر رکھیں اس کامطالعہ کریں۔ تعریف کی بجائے اگر برائی ہی کریں تو مجھے خوشی ہوگی اس لئے کہ آپ نے میرے لئے وقت قربان کیا۔ ان گستاخیوں کے بارے میں میں آپ کی آراء کا منتظر رہوں گا۔
منتظر کرم
۲۹؍ستمبر۲۰۱۶
محمد بشیر مالیرکوٹلوی