عبدالرب استاد(گلبرگہ)
مولانا ابوالکلام آزاد جن کا نام نامی محی الدین احمد تھا۔ اگر صرف نام اور آپ کی کنیت پر ہی نظر ڈالیں تو کئی جہتیں سامنے آتی ہیں کہ وہ مولونا بھی تھے، ابوالکلام بھی تھے، آزادبھی تھے، محی الدین بھی تھے اور احمد بھی تھے اس طرح ان کی پانچ جہتیں تو یہیں بن گئیں۔ مگر پروفیسر محمدحسن نے اپنے ایک مقالہ میں آپ کی شخصیت سے متعلق یوں رقم فرمایاہے۔
’’مولانا آزاد کی شخصیت ایک تھی اورحیثیتیں چار۔ وہ عالم دین تھے اور دینی فکر میں ان کا مرتبہ بلند تھا۔ وہ صحافی تھے اور اردو صحافت پر آج بھیانک ے لہجے اور اسلوب کے اثرات نمایاں ہیں۔ وہ سیاسی رہنما تھے اور ہندوستان کی تشکیل جدیدمیں ان کو نمایاں مقام مقام حاصل ہے۔اور وہ اردو کے صاحب طرز ادیب تھے جس کے اسلوبنے ادب پر دور رس اثرات چھوڑے‘‘۔
پروفیسر صاحب نے چار حیثیتیں بتائیں۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ ان کے علاوہ بھی آپ کی دو اور حیثیتیں تھیں۔ وہ ایک شعلہ بیان مقرر اور خطیب بھی تھے جو اپنے دور اور عہد پر چھائے ہوئے تھے۔ اور وہ ایک دانشور اور ماہر تعلیم بھی تھے کہ اس میدان میں آپ نے فکری اور شعوری تبدیلی پیدا کرنے کی سعی کی اور کامیاب سعی کی۔ ان تمام سے قطع نظر مولانا آزاد بنیادی طورپر ایک ہمدرد، سچے اور اچھے انسان تھے جنھوں نے پوری انسانیت کی بقا اور بھلائی کے بارے میں سونچااور کام کرتے رہے۔
۱۹؍ویں صدی کے وسط سے لے کر ۲۰؍ویں صدی کے نصف تک کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو محسوس ہوتاہے کہ یہ ایک صدی بڑی انقلاب آفرین صدی رہی۔ مولانا آزاد کی پیدائش ۱۹؍ویں صدی میں اور کام ۲۰؍ویں صدی کی چھٹی دہائی تک ملتا ہے۔ دواچھے ستاروں کا ایکبرج میں جمع ہونے کو قیران السعدین کہتے ہیں۔ گویا آپ کی شخصیت میں دو صدیاں مجتمع ہوگئیں تھیں۔ اس پوری صدی میں ہر میدان میں انقلاب ہی انقلاب نظر آتاہے۔ انقلاب سیاست میں، انقلاب صحافت میں، انقلاب ادب میں،انقلاب مذہب میں، انقلاب تعلیمی میدان میں، انقلاب شخصیتوں کے میدان میں، انقلاب سماجی میدان میں، انقلاب جغرافیائی میدان میں۔ ہر جگہ اور ہر میدان میں انقلاب ہی انقلاب۔
انہی سوسالوں میں جہاں دوعالمی جنگیں ہوئی وہیں روس میں زار کا تختہ الٹ دیاگیا۔ ادب کے میدان میں جہاں اہم تحریکیں ملتی ہیں خواہ وہ سرسید تحریک ہو کہ رومانوی تحریک اسی عہد میں ملتی ہیں۔ سیاسی اعتبار سے ہندوستان کی آزادی ک ی تحریک۔ بالآخر ہندوستان نے انگریزی سامراجیت سے آزادی تو حاصل کرلی تو دنیا کے نقشہ پر ایک نیا ملک نمودارہ وگیا۔ انہی سوسالوں میں انقلاب آفرین شخصیتوں میں یا شخصیتوں کے اس کاہکشاں میں ایک روشن اور چمکدار ستارہ کی مانند مولانا آزاد تھے۔ جنکی اپنیانفرادیت ہر میدان میں چہکتی، بولتی، مہکتی اور چمکتی نظر آتی ہے۔ سماج یا معاشرے کی اتھل پتھل سے شخصیتیں متاثر ہوتی ہیں۔ مگرمولانا آزاد کی شخصیت سماج یا معاشرے پر اثرانداز ہونے والی تھی۔ اس نابغہ روزگار شخصیت پر بہت کچھ لکھاگیاہے۔ مگر زندہ ذہن شخصیتوں کا یہیعالم ہوتاہے کہ وہ زندہ نہ بھی رہیں مگر ان کا نامان کے کام کہ وجہ سے زندہ رہتاہے اور ان پر جتنابھی لکھاجائے کم ہے۔بلکہ ان کا احاطہ مکمل طورپر کیا جانا ممکن بھی نہیں ہوتا۔ یہ ہر دور میں اپنے ہونے کا ثبوت فراہم کررہے ہوتے ہیں۔
مولانا آزاد کے متعلق اساتذہ، دانشور، محققین اور ناقدین نے کہا ہے کہ نابغہ روزگار شخصیت تھی۔ اس میں کوئیامرمانع نہیں۔کیونکہ انھوں نے علم، اس عالم الغیب سے حاصل کیا اور قوت وہمت اس قادرمطلق سے پائی۔ وہ نہ صرف مردم شناس بلکہ زمانہ شناس تھیا ور وقت کی نبض کو پرکھنا ان کے بس میں تھا۔
اس زمانہ میں ایسا نہیں کہ صحافی نہیں تھے یا اخبارات نہیں تھے، یا اس دور میں خطیب یا مقررین نہیں تھے، یا اس عہد میں سیاستدان نہیں تھے یا دانشور و ماہرین تعلیم نہیں تھے، یا اس پریڈ میں ادیب نہیں تھے۔ بلکہ یہ دور ادیبوں، خطیبوں، شاعروں، سیاستدانوں،صحافیوں اور دانشوروں سے پر نظر آتاہے۔ ان تمام کے باوجود مولانا آزاد نے اپنی روش، اپنی داد، اپنی طریق کار سب سے جدا گانہ بنایا اور ایسا بنایا کہ ہر کس و ناکس آپ کا گرویدہ ہوگیا۔
جہاں تک آپ کی صحافت کا تعلق ہے اس میدان میں مولانا آزاد ایک بے باک اور بے لاگ صحافی نہیں بلکہ ایک مقدس اور حق و صداقت کے پیکر صحافی نظر آتے ہیں۔ مقدس اس لئے کہ، صحافت کی معراج ہی تقدس اور حق و صداقت اس کا معیار و وقار ہوتی ہے۔ اس میں جانبداری کیلئے کوئی جگہ نہیں۔ ابتداء ہی سے مولانانیاس میدان میں وہ چھاپچھوڑی کہ اس دور کے اکابر علماء بھی آپ کی تحریروں کے قائل ہوگئے۔ خواہ وہ لسان الصدق ہوکہ الوکیل، البلاغ ہو کہ الہلال۔ آپ نے میدان صحافت میں ایک مرد مجاہد کا رول ادا کیا۔جہاں معاشرتی مسائل پر آپ نے خیال پیش کئے وہیں سیاسی نشیب و فراز پر بھی قلم اٹھایا۔ ادب، تعلیم و نیز تہذیب و ثقافت پر آپ کی گہری نظر تھی۔ عالمی تناظر میں بھی آپ نے اپنے قارئین کو معلومات فراہم کیں۔ قومی اور انسانی جذبہ کے تحت آپ نے اپنی ساری توانائی صحافت کی معرفت صرف کی۔ اور انفرادیت کو بھی برقرار رکھا۔ آپ نے صحافت کو کبھی بھی معاش کا ذریعہ بننے نہیں دیا۔ آپ کی حمیت نے کبھی اسے برداشت ہی نہیں کیا۔ اخبار کی پالیسی سے متعلق آزاد کے کیا خیالات تھے، خود ان کی تحریر کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیں:
’’ہم اس بازار میں سوائے نفع کیلئے نہیں، بلکہ تلاش زیاں و نقصان میں آئے ہیں۔ صلہ و تحسین کے نہیں بلکہ نفرت و دشنام کے طلب گار ہیں…………ہمارے عقیدے میں تو جو اخبار اپنی قسمت کے سوا کسی انسان یا جماعت سے کوئی ا ور رقم لینا جائز رکھتا ہے وہ اخبار نہیں بلکہ اس فن کیلئے دھبہ اور سرتاسرعار ہے۔ ہم اخبار نویسی کی سطح کو بہت بلندی پر رکھتے ہیں اور امربالمعروف و نہی عن المنکر کا فرض الٰہی ادا کرنے والی جماعت سمجھتے ہیں۔ پس اخبار نویس کے قلم کو ہر طرح ک ے دباؤ سے آزاد ہونا چاہئے۔ اور چاندی اور سونے کا سایۂ تو اس کیلئے سیم قتل ہے‘‘۔
مولانا کے صحافتی کالم ہوں کہ مضامین ان سے آپ کی بصیرت اور دوراندیشی مترشح ہوتی کہ آپ اپنے عہد کیسرکردہ لیڈروں اور دانشوروں سے کس قدر آگے تھے۔ جب گاندھی جی جنوبی افریقہ سیہندوستان واپس آئے اور اپنے سیاسی مشن کیلئے انھوں نے رام راج کے تصور اور بھگوت گیتا کی نئی توجیہ سے کام لیا تو مولانا نے فخر سے لکھا تھا کہ:
’’ہندوؤوں میں آج مہاتما گاندھی مذہبی زندگی کی جو روح پھونک رہے ہیں۔الہلال اس کام سے ۱۹۱۴ء میں فارغ ہوچکا ہے‘‘۔
مولانا آزاد کی سیاسی بصیرت کا یہ عالم تھا کہ وہ مستقبل میں ہمیشہ آنے والے حالات سے باخبر کرتے اور صرف مسلمان قوم کو نہیں بلکہ ساری ہندوستانی قوم کیلئے آپ نے جو خدمات انجام دی ہیں وہ کسی سے چھپی نہیں ہیں۔ مولانا کی سیاسی بصیرت کا اعتراف، آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے جن الفاظ میں کیا ہے، پیش ہیں
’’میں صرف عملی سیاست ہی نہیں جانتا، سیاست کا طالب علم بھی ہوں۔ علم سیاست کی کتابیں مجھ سے زیادہہندوستان میں کسی اور نے نہیں پڑھیں۔ میں تیسرے چوتھے سال یوروپ کابھی دورہ کرتاہوں۔جہاں سیاست کا قریب سے مطالعہ کرنے کا موقع ملتاہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ میں نے سیاست کے تازہ ترین علم سے واقفیت حاصل کرلی ہے۔ لیکن جب ہندوستان پہنچ کر مولانا آزاد سے باتیں کرتا ہوں تو معلوم ہوتاہے کہ وہ اب بھی بہت آگے ہیں‘‘۔
ادبی نقطہ نظر سے آپ کا اندازبیان اور آپ کا اسلوب ہی آپ کی پہچان بن گیا۔وہ اسلوب جو نہ کسی سے بن پایا اور نہ ہی کوئی اس کی تقلید کرسکا۔ یہ ایک روشن دماغ، سوچنے اور غور و فکر کرنے والا ذہن تھا۔یہ وہ خلاقیت تھی جو عالم الغیب خدا سے آپ کو عطا ہوئی تھی ع
دیتے ہیں بادہ ظرف قدح خوار دیکھ کر
تذکرہ، غبار خاطر اور ترجمان القرآن، دراصل یہ ایام اسیری کی یادگار ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ جہاں نہ کتب ہیں اور نہ کوئی وسائل، بسصرف اورصرف آپ کے ذہن رسا کے شاندار نمونے۔ کبھی غالبؔ نے کہا تھا کہ
آتے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میں غالبؔصریر خامہ فوائے سروش ہی
مولانا یقینا کثیرالمطالعہ شخص تو تھے۔ مگر صرف اتنا ہونا کافی نہیں بلکہ انھوں نے اپنیمطالعہ کو اپنیذہنک ے ہارڈ ڈسک میں محفوظ کرلیا تھا اور برمحل اسکا استعمال کرتے رہے جو آج بھی کسی معجزہ سے کم نہیں۔ عربی،فارسی اور اردو کیبے شمار اشعار، اقوال، حوالجات،تحریر کے بین السطور میں موقع کی مناسبت سے اسکا استعمال، بہت بڑی خوبی ہے۔
قید کی زندگی کو عموما بڑی حقارت سے دیکھتے ہیں مگر مولاناآزادکا معاملہ کچھ اور ہی تھا۔ ’’اپنی چال زمانہ سے الٹی ہی رہی‘‘کہ ایام اسیری کوآپ نے عہد یوسفی سے تشبیہ دیتے ہوئے بڑی پامردی اور اطمینان سے گذارتے رہے۔ ان حالات میں بھی دنیا وومافیہا کی معلومات لکھ ڈالیں۔ کبھی فلسفہ و حکمت کی باتیں کیں تو کبھی سائنسی مضامین پر اظہار خیال، کبھی انانیت پر تو کبھی رومانیت پر، کبھی حکایات بادہ و تریاک تو کبھی صبح کی منظر نگاری۔ بڑی دلنشین انداز میں تحریرکیں۔ تبھی تو حسرتؔ نے بڑی حسرت سے کہا تھا کہ
جب سے دیکھی ابوالکلام کی نثر نظم حسرتؔمیں بھی مزہ نہ رہا
اصغر گونڈوی نے بھلے ہی کسی اور تناظر میں لکھا ہو مگر میری دانست میں یہ شعر صرف اور صرف مولانا آزاد پر ہی چسپان ہوتاہے اور صدفی صد آپ کی شخصیت کا احاطہ کرتانظر آتاہے۔
بنالینا ہے موج خون دل سے اک چمن اپنا وہ پابند قفس جو فطرتاَ آزاد ہوتاہے
ڈاکٹرذاکر حسین نے مسلم یونیورسٹی کی طرف سے ابوالکلام آزاد کو اعزازی ڈاکٹریٹ کی سند پیش کرنے کے موقع پر کہا تھا کہ:
’’اردو زبان کو ہمیشہ اس پر فخر رہے گا کہ وہ آپ کی زبان سے بولی اور آپ کے قلم سے لکھی گئی‘‘۔
تعلیمی میدان میں آپ نے وہ کارہائے نمایاں انجام دیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ اور یہ صرف اور صرف ایک باشعور، عالمی ظرف اور حساس دانشورہی رکاکام ہوسکتاہے۔ کہ ہندوستان میں تعلیم اور اعلیٰ تعلیم کی بنیادیں مضبوط و مستحکم ہوئیں۔ یوجی سی کے مولدوموسس بھی مولانا ہی رہے۔ ڈاکٹر ذاکر حسین یوں رقمطراز ہیں۔
’’مولانا نے اپنی مثال سے یہ بتادیا کہ وہ اپنی ساری زندگی ایک مجاہد کی طرح، اپنی قوم کی آزادی کیلئے اس کی آزادی حاصل کرنے کیلئے، اور آزادی حاصل ہونے کے بعد آزادی کو اچھی نیو اور بنیاد پر قائم کرنے کیلئے صرف کرسکتے ہیں۔انھوں نے ثابت کردیا کہ علم ایک گورکھ دھندہ نہیں ہے۔ کہ جس سے لوگوں کو دھوکے دیئے جائیں۔ بلکہ وہ ایک روشنی ہے جس سے آدمی دوسروں کو روشنی دکھا سکتاہے۔‘‘
آخر پر میں اتنا ضرور کہوں گا کہ مولانا آزاد ایک اچھے اور سچے انسان تھے۔ انسانیت کا درد انھیں تھا۔ کیا ہندو اور کیا مسلمان، کیا سکھ اور کیا پارسی، وہ تمام بھارت واسیوں اور ساری انسانیت کے ہمدرد اورغمخوار تھے۔ کیونکہ آپ نے ساری زندگی خدمت خلق میں گذاری۔ ڈاکٹر ذاکرحسین کے الفاظ میں۔
’’میرے خیال میں مولانا آزاد نے جو ایک سب سے بڑی خدمت کی، وہ یہ ہے کہ ہر مذہب کے آدمی کو انھوں نے یہ بتایا کہ مذہب کی دوحیثیتیں ہوتی ہیں۔ ایک مذہب کی حیثیت وہ ہوتی ہے جو تفریق پیدا کرتی ہے۔ جولوگوں کو الگ الگ کرتی ہے۔جولوگوں میں نفرت پیدا کرتی ہے۔ وہ مذہب جھوٹا مذہب ہے۔ انھوں نے یہ بتلایا کہ مذہب کی روح ملانے والی روح ہے۔ مذہب کی روح ایک دوسرے کو پہچاننے والی روح ہے۔ مذہب کی روح خدمت کی روح ہے، مذہب کی روح دوسروں کیلئے اپنے کو مٹانے کی روح ہے۔ مذہب کی روح وحدت کو ماننے کی روح ہے۔ اور ایکایسا سبق ہے جو تمام مذہبی جماعتوں اور مذہبی جماعتوں اور تمام ان لوگوں کو سیکھنا چاہئے۔ جو چھوٹی چھوٹی ٹکڑیاں بنانا چاہتے ہیں۔ زبان کے اوپر، یاکسی جذہب کے اوپر ٹکڑیاں بناکر ہماری زندگی کی وحدت کو مٹانا چاہتے ہیں۔ ہمارے ملک میں اس وقت جو سب سے بڑا مرض ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے پاس جو چھوٹی وفاداریاں ہیں۔ تنگ وفاداریاں ہیں وہ زیادہ قوی ہیں۔ ہم چھوٹے چھوٹے گروہوں سے زیادہ سمجھتے ہیں۔ ہم کو چاہئے کہ اپنی چھوٹی وفاداریوں کو اس بڑی وفاداری کے تابع کریں۔ کوئی ضرورت نہیں کہ چھوٹی وفاداریاں توڑ دی جائیں۔ کسی کیلئے یہ ضروری نہیں کہ وہ سکھ نہ رہے، مسلمان نہ رہے، ہندو نہ رہے، یا پارسی نہ رہے۔ لیکن اس کو پہلے اس دیس کا، پھرتمام انسانیت کا خادم بننا چاہئے۔ تب و سچا مسلمان ہے۔ تب وہ سچا ہندو ہے۔ تب وہ سچا پارسی ہے۔ یہ سبق مولانا کی زندگی سے روشن طورپر ہمیں ملتاہے۔‘‘
بہرحال شخصیت کے ان تمام پہلوؤں کا مقام اتصال دراصل انسانیت ہے۔ اور مولانا آزاد انسانیت کی معراج پر کھڑے نظر آتے ہیں۔ عموماً ایسی علمی شخصیتوں کے متعلق یہ کیاجاتاہے۔ کہ یہ شخصیت عالم باعمل تھی۔ مگر میں قطعا یہ ماننے کو تیار نہیں ہوں کہ مولانا بھی عالم باعمل تھے۔بلکہ میری دانست میں مولانا عالم باعمل نہیں۔ وہ تو عامل با علم تھے۔
حواشی
۱۔مولانا آزاد۔ ایک ہمہ گیرشخصیت۔۹۷ ۲۔الہلال۔ ۲۷؍ جولائی ۱۹۱۲۔ ۳۔مولانا ابوالکلام آزاد ایک ہمہ گیر شخصیت۔ ۹۸
۴۔مولانا ابوالکلام آزاد ایک ہمہ گیر شخصیت۔ ۱۲ ۵۔ آواز دوست از مختار مسعود۔ ۱۴۹
۶۔مولاناآزاد کی کہانی از ڈاکٹر ظفر احمد نظامی۱۰۲ ۷۔مولاناآزاد کی کہانی از ڈاکٹر ظفر احمد نظامی۱۰۲