ڈاکٹر ارشد جمال(کامٹی)
سب کہاں،کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں
انسانی زندگی ایک ایسا سر بستہ راز ہے،جو آج تک وا نہ ہو سکا ۔صدیاں گزر گئیں،مگر ’’زندگی‘‘ کے بارے میں،اب تک،کوئی متفقہ فیصلہ نہ ہوسکا ۔پھر بھی ’’زندگی‘‘ کی نئی نئی تاویلیں تو ہوتی ہی رہیں گی۔غالب نے بھی ’’زندگی‘‘کے باب میں اک بات کہی تو کیا ؟ سوال یہ بھی نہیں ہے کہ اس اطلاق خود ان پر بھی ہوتا ہے یا نہیں۔ہاں، اتنا ضرور ہے کہ ایک شاندار ماضی ، ایک عظیم والشان خاندان سے سلسلۂ نسب ملنے کے باوجود ’’زندگی‘‘ جب ’’زندگی‘‘ کے روپ میں غالب تک پہنچی تو اس حد تک گھس پٹ چکی تھی کہ شاہانہ شان وشوکت سے اتر کر میدانِ کارزار کی ’’سیف‘‘ سے ہوتی ہوئی بصورتِ ’’قلم‘‘ان کے حصے میں آئی اور ’’نظم ونثر کو مشقت ‘‘ در عالمِ اسیری’’آب و گل‘‘مقرر کیا گیا،مگر اپنی گذشتہ عظمت پر تفاخر اب بھی باقی تھا ،گذشتہ شان و شوکت پر نہ سہی ، حسب نسب پر نہ سہی اپنی شاعری ،اپنے فن پر تو غالب کو ضرور ناز تھا۔مگر غالب جتنے بڑے شاعر تھے ،زمانے نے ان کی اتنی ہی نا قدری کی۔ ایک طرف خاندانی عظمت ،جاہ وجلال اور شاعری پر یہ تفا خر ،دوسری طرف یہ ناقدری کہ ’’اپنا کہا خود سمجھیں یا خدا سمجھے ‘‘۔غالب کی ’’زندگی ایک ‘‘ حادثہ بن گئی
زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالب ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے
وہ ’’زندگی‘‘ کے اس تضاد میں بے بسی سے ہاتھ پاؤں مارنے لگے ۔ایک طرف خودداری وخود پسندی ،دلاوری وشجاعت ،وبزرگی وضع داری کی شان دار روایات غالب نے ورثہ میں پائیں اور ایسا خوددار ہوا کہ
بندگی میں بھی وہ آزادہ وخودبیں ہیں کہ ہم الٹے پھر آئے در کعبہ اگر وا نہ ہوا
تو، دوسری طرف،’’زندگی‘‘ ایک عذاب ،ایک قہر بن کر نازل ہوئی،جس میں ان کی ساری خودداری اور خود پسندی ،شان و شوکت اور وضع داری پس کر رہ گئی۔وہ ساحلِ زندگی پر ہاتھ ملتے ہی رہ گئے اور سوچتے رہے کہ جن حالات میں وہ سانس لے رہے ہیں،وہ ان روایات کے پنپنے اور مستحکم ہونے میں ہر گز سازگار نہیں۔چالیس پچاس ہزار کا قرض دار ، ۱ آسیائے روزگار کی گردش میں ایسا پسا کہ کہتے ہی بنی
غالبؔ وظیفہ خوار ہو، دو شاہ کو دعا وہ دن گئے کہ کہتے تھے نوکر نہیں ہوں میں
غالب کے سینے میں کیسا پر نور دل تھا ،لیکن حالات نے انہیں کیسا لاچار ،دردمند،کتنا مایوس اور تلخ بنا دیا تھا۔جو شخص نوکری کو یہ کہہ کر لات مار دے کہ :
’’ملازمت اس لیے کرنا چاتا ہوں کہ اس میں میرے عزووقار میں اضافہ ہو ۔ نہ کہ جو پہلے سے ہے ،اس میں بھی کمی آجائے۔اگر ملازمت کے معنے موجودہ رتبے میں کمی کے ہیں تو ایسی ملازمت کو میرادور ہی سے سلام ۔‘‘ ۲
وہ یہاں تک کے کیسا پہنچا ہوگا؛کیا گزری ہوگی اس کے دل پر جب اس نے کہا :
’’وہ جو کسی کو بھیک مانگتے نہ دیکھ سکے اورخود دربدر بھیک مانگے،وہ میں ہوں۔‘‘ ۳
’’گورنمنٹ کا بھاٹ تھا ،بھٹئی کرتا تھا،خلعت،موقوف،بھٹئی متروک۔‘‘ ۴
’’نثر کی داد اور نظم کا صلہ نہ مانگے بلکہ بھیک مانگے۔(وہ)روٹی اپنی گرہ سے نہ کھاتا تھا(روٹی)اسے سرکار سے ملتی تھی۔ ‘‘ ۵
اور نوبت بہ ا یں جا رسید ہم سے چھوٹا قمار خا نۂ عشق واں جو جائیں گرہ میں مال کہاں
جو ’’زندگی‘‘خوبصور ت تصورات سے شروع ہوئی تھی،اس کا انجام کتنا بھیانک ہوا۔
غالب کا ذہن ایک آرٹسٹ (فن کار ) کا ذہن تھا،جو اپنے اندر ایک خوبصورت دنیا کو تخلیق کیے ہوئے تھا۔انسان بچپن ہی سے پریوں ،شہزادوں،شہزادیوں کی کہانیاں سن سن کر،اپنے ارد گرد خوابوں کی ایک طلسماتی دنیا تعمیر کر لیتا ہے۔اپنے دل و دماغ کو وہ اس خیالی دنیا میں مگن اور مسحور رکھتا ہے۔غالب نے تو اسی دور میں آنکھیں کھولی تھیں،جو قصے کہانیوں اور خوابوں کا دور تھا۔اس ماحول نے ان کے دل میں ،ہزاروں خواہشیں ایسی ‘‘پیدا کیں کہ ،ہر خواہش پہ دم نکلے‘‘؛ان کا دل ’’ یک شہرِ آرزو‘‘تھا
ہوں گرمیِ نشاطِ تصور سے نغمہ سنج میں عندلیبِ گلشنِ نا آفریدہ ہوں
گو بلبل ’’گرمیِ نشاطِ تصورسے نغمہ سنج‘‘ رہی مگر’’ گلشن‘‘ بھی ’’نا آفریدہ‘‘ ہی رہا۔حالات کی زبردست موجوں سے جب غالب کی مدہوش مگر خود پسند،خود سر اور وضع دار شخصیت کا تصادم ہوا تو ایک ایک کر کے سہانے خواب ٹوٹ گئے،سب سپنے بکھر گئے۔ٹوٹی پھوٹی اور بچی کچی شخصیت ’’اپنی شکست کی آواز‘‘بن گئی اور ’’ماتم یک شہر آرزو‘‘ نے اندیشہ ہائے دور دراز‘‘کی چوکھٹ پر لا کھڑا کیا ۔پھر، اگر وہ شکایت نہ کرتے تو کیا کرتے؟ بڑی آرزؤں سے جن تمناؤں کو پالا تھا ،وہ پامال ہوئیں اور غالب کو ’’مہرِ نیم روز‘‘ میں لکھنا پڑا :
’’کہتے ہیں صاحب قرآں ثانی شاہجہاں نے کلیم کو سیم وزر اور لعل وگوہر سے تلوایا تھامیں صرف اتنا چاہتا ہوں کہ زیادہ نہیں آپ سخن سنج حضرات کو ب یہ حکم دیں کہ وہ ایک بار میرے کلام ہی کو کلیم کے کلام کے ساتھ جانچنے کی زحمت گوارا فرمائیں۔‘‘(ذکرِ غالب ۔۔مالک رام ص ۴۳۲)
غالب کا دل ایک کے بعد ایک چوٹیں سہتا گیا، چوٹ سہتا گیا اور سونا تپ کر کندن ہوتا گیا؛ ان کا آرٹ نکھرتا گیا ۔غالب کو اپنے بڑ پن پر بڑا ناز تھا،لیکن زمانے نے اتنی ہی ان کی ناقدری کی۔یہ نا قدر شناسی،ان کے احساسات کو مجروح کرتی رہی،زمانے نے ان کو اپنی ٹھوکروں پر رکھ لیا وہ پامال ہوتے رہے،پستے رہے، ان کا بڑ پن احساس، کمتری میں مبتلا ہوتا گیاجو آہستہ آہستہ انھیں خود سر اور مغرور بناتا گیا۔شدید ترین احساس کمتری،شدید ترین احساس برتری کے پیکر میں نمودار ہوا۔جتنی زیادہ ان کی ناقدری کی گئی،اتنا ہی انھوں نے اپنا تحفظ کیا،اتنا ہی بڑا وہ اپنے آپ کو سمجھتے رہے اور آخر کار بڑے بن گئے۔’’اسد ‘‘سے’’ غالب ‘‘ ہوگئے۔اس لیے اگر انھوں نے اپنی عظمت کی راگ الاپے ہیں؛ اپنے’’اندازِ بیان‘‘ کو ’’اور ‘‘ کہا ،ہر لفظ کو گنجینۂ معنی کا طلسم سمجھا؛ داد کی خواہش کی نہ صلے کی پرواہ یا اپنے کلام کی کچھ داد روح القدس‘‘ سے پائی تو یہ شاعرانہ تعلی نہیں تھی،حقیقت کا اظہار تھا۔
تاریخ کے صفحات سے تیمور لنگ اور نپولین کے نام کبھی نہ مٹائے جا سکیں گے کہا جاتا ہے کہ تیمور اپنے لنگڑے پن کی وجہ سے اور نپولین اپنے پستہ قد پر سخت شرمندہ تھا۔یہ شرمندگی انھیں احساس کمتری میں مبتلا کیے ہوئے تھی اور یہی احساس کمتری ان کی عظمت کا باعث بنا۔احساس کمتری کا ردِ عمل دو طرح سے ہوتا ہے۔کبھی کبھی یہ احساس آدمی کی شخصیت کو ایک دم غارت کر دیتا ہے اور وہ گندی نالی میں رینگنے والے کیڑے سے بھی بد تر ہوجاتا ہے اور کبھی یہی احساس اس کے ذوق کی صحیح تر بیت کرکے اسے بے مثال بنا دیتا ہے فاتح عالم بنا کر تیمور یا نپولین کے بھیس میں پیش کر دیتا ہے۔یہی مثال غالب پر بھی صادق آتی ہے۔احساس کمتری نے غالب کی شخصیت کو سنوارا نکھارا ۔غالب نے تلوار نہیں پکڑی ،پھر بھی وہ فاتح عالم بنے۔آج جب ایک عالم میں ان کی صد سالہ برسی منائی جا رہی ہے، ان کی عظمت وبزرگی سے کون انکار کر سکتا ہے۔یہ اور بات ہے کہ انہوں نے عالم کو ’’قلم ‘‘ کے زور سے فتح کیا،غالب کی ساری شخصیت ،سارا غرور ،سارا وجود آسیاے ر وز گار کی گردش میں پستا رہا اور زمانے کی چھلنی میں چھنتا رہااور اس چھنائی میں جو مادہ صاف ستھرا ،دلکش اور نفیس اور دل پذیر تھا ،ان کی شاعری بن کر منظرِ عام پر آیا،اور بچا کچا غلیظ مادہ اور سڑا گلا فضلا غالب کے جسم میں ڈھل کر آہستہ آہستہ موت کے اندھیرے غاروں کی طرف قدم بڑھاتا رہا حتیٰ کہ مادرِ زمین کے آغوش میں جا سویا لیکن وہ صاف ستھرا ،نتھرا نکھرا غالب آج بھی زندہ ہے اور تا قیامت زندہ رہے گا۔
غالب کا احساسِ کمتری ، ان کی عظمت کا باعث ہوا اور ان کی عظمت کا راز ان کی بت شکنی میں ہے ۔ان کی شکستہ اور خستہ شخصیت بت شکنی پر اتر آئی۔ ان کی بت شکنی سماج،معاشرے اور ماحول کے خلاف ایک بغاوت ہے۔فرسودہ روایات سے انحراف ان کا شیوہ اور ’’اگلوں‘‘کی بات من وعن تسلیم کرلینا ان کی فطرت کے موافق نہ تھا اور اس کی انتہائی صورت یہ ہے کہ
بامن میآویزا ے پدر،فرزند آذر درانگر ہر کس کہ شد صاحب نظر دینِ بزرگاں خوش نکرد
اور ان کی یہ بغاوت خود انھیں کچلتی رہی،ان کے خلاف محاذ قائم کراتی رہی۔
حادثاتِ زمانہ کی ہر ٹھوکر انھیں مجروح کرتی رہی اور زمانہ کے خلاف بغاوت پر اکساتی رہی ۔وہ ’’جنوں کی حکایاتِ خوں چکاں ‘‘ لکھتے رہے،’’ہر چند اس میں ہاتھ‘‘ ان کے ’’قلم‘‘ ہوتے رہے۔مگر ہمتِ عالی ان کے ساتھ رہی ۔’’آزاد مرد‘‘ ’’لاش ِبے کفن‘‘ بن گیا مگر بغاوت سے باز نہ آیا۔احتشام حسین لکھتے ہیں :
’’انسانوں نے ہمیشہ خواب دیکھے ہیں اور دیکھتے رہیں گے۔اپنے سپنوں کو تمناؤں سے معمور کیاہے اور ہمیشہ معمور کرتے رہیں گے۔اور اگر ان امنگوں ،خواہشوں،خوابوں اور تمناؤں کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات بہت جلد ذہن پر نقش ہوتی کہ ہر شخص اپنے حوصلے کے لحاظ سے اور اپنے سہارے کی ضرورت کے مطابق ایک یا کئی بت بنا لیتا ہے اورانھیں پوجتا ہے۔کبھی کبھی اسے تنہا پوجتا ہے ،کبھی کبھی اسے تنہا پوجنے سے سیری نہیں ہوتی اور دوسروں کو بہ جبر یا بے ترغیب اپنے ساتھ شریک کرنا چاہتا ہے تاکہ اس کی بت پرستی ایک ذاتی توہم نہ معلوم ہو بلکہ عقل کا فیصلہ نظر آنے لگے ۔یہ چیز انفرادی سے بڑھ کر اجتماعی بھی ہو سکتی ہے۔دوسرے لوگ اور دوسرے گروہ اپنے لیے دوسرے بت بناتے ہیں اور انھیں پوجتے ہیں ۔پھر یہی نہیں بلکہ دوسرے کے بتوں کو توڑنابھی چاہتے ہیں۔اس طرح بت بنتے بھی رہتے ہیں اور ٹوٹتے بھی،اور کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ پجاری اپنے ہی بنائے ہوئے بت کو توڑنا بھی چاہتا ہے تا کہ اس سے بہتربت بنائے یہ جذبہ کبھی گھبراہٹ کا نتیجہ ہوتا ہے اور کبھی غوروفکر کا۔ دل اور دماغ میں کشمکش پیدا ہوتی ہے اور پجاری ہمت سے کام لیتا ہے تو بت شکن بن جاتا ہے۔یہ ایک بہت بڑی کہانی کی اشارتی تصویر ہے۔اسے ہر شخص چھوٹے اور بڑے پیمانے پر اپنی زندگی میں دہراتا ہے اور ہر قوم اپنی تاریخ میں دہراتی ہے۔اس طرح بنتی بگڑتی زندگی کا یہ حوصلہ پوری طرح نکلا یا نہیں ،یہ تو نہیں معلوم ،لیکن اتنا معلوم ہے کہ انھیں ناکردہ گناہوں کی حسرت کی داد پانے کی تمنا بھی اور گناہوں پر فخر کرنے کا حوصلہ بھی ان کی انفرادیت تمام بتوں کو توڑ پھینکنا چاہتی تھی اور انھوں نے توڑابھی لیکن ان کی راہ میں خود ان کی ذات حائل تھی جو حسرت ویاس کا مجسمہ ہونے کے باوجود انھیں بے حد بے حد عزیز تھی۔ ‘‘
تاب لائے ہی بنے گی غالبؔ واقعہ سخت ہے اور جان عزیز ۷
یہی’’جانِ عزیز ‘‘ تھی جس نے انھیں احساسِ کمتری میں مبتلا رکھا تھا،زمانے کی ٹھوکروں پر رکھا تھا، اس چکی میں وہ پستے اور گھستے رہے اور ’’موت کی آرزو‘‘ میں’’مرتے رہے‘‘۔زندگی نے انکی قدر کی نہ زمانے نے ۔موت نے اپنی آغوش میں سلایا تو زمانہ بھی طرف دار ہو گیا اور زندگی بھی ۔اب وہ مر کر بھی زندہ ہیں اور پامال ہو کر بھی سلامت۔
حواشی
(۱) آبِ حیات : آزاد : ص ۸۔۷۔۵
(۲) اردوے معلی : ص ۲۴۳ : بنام نواب علاؤ الدین خان
(۳) اردوے معلیٰ : ص ۵۵۲ : بنام نواب علاؤالدین خان
(۴) اردوے معلیٰ : ص ۷۰بنام تفتہ
(۵) یاد گارِ غالب : حالی : ص ۲
(۶) اعتبارِ نظر : مقالہ ،غالب کی بت شکنی : احتشام حسین : ص ۹۲۔۱۹۱