”سمل سمل” فواد اسے پکارتے ہوئے اندر داخل ہوا۔ وہ ہلکے نیلے کپڑوں میں ملبوس بال جوڑے باندھے المری کے ساتھ نبردآزما تھی اسکی آواز پر مڑی۔
”جی؟”
”کیا کررہی ہیں آپ؟”
”میں بس یہ الماری ٹھیک کررہی تھی کیوں کیا ہوا؟” وہ دوبارہ مڑگئی۔
”چھوڑیں آپ یہ سب جلدی سے تیار ہوجائیں آپ کو شاپنگ پہ لے جارہا ہوں”
”لیکن۔۔۔”
”کوئی لیکن ویکن نہیں جلدی سے آجائیں” وہ موبائل پہ کال ملاتا ہوا باہر نکل گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کے ١٠ بج رہے تھے رات کےکھانے کے بعد اپنے کمروں میں تھے جب اس نے صفیہ بیگم کے دروازے پر دستک دی۔
”آجاوُ”
اجازت ملنے پر اندر داخل ہوئی۔
”مما مجھے کچھ بات کرنی ہے آپ سے”
”ہاں بولو کیا بات ہے؟” انہوں نے ریموٹ اٹھا کر ٹی وی بند کردیا اور اسکی طرف متوجہ ہوئیں۔
”مما میں نے آپ کو صاف لفظوں میں بتایا تھا کہ مجھے زوہیب سے شادی نہیں کرنی پھر بھی آپ نے اس کے گھروالوں کو بلا لیا بلکہ وہ رسم بھی کر گئے”
اس کے غم و غصے کی حد نہیں تھی۔
”بات سنو میری سہانہ میں نے بہت برداشت کرلیں تمہاری بدتمیزیاں اس فواد کے پیچھے لگی ہوئی ہو تم جس نے تمہیں بے عزت کر کے گھر سے نکال دیا۔”
انکی بات پہ اسکا رنگ غصے سے سرخ ہوگیا۔
” تمہاری شادی زوہیب سے ہی ہوگی اور یہ بات تم خود کو جتنا جلدی سمجھا لو اتنا اچھا ہے اور اگر پھر بھی تمہیں کوئی اعتراض ہے تو جاوُ اپنے باپ سے بات کرو اور اسے سناوُ اپنے عشق کی داستان-”
کہتے کہتے انکا لہجہ استہزائیہ ہوگیا۔
آپ میری بات نہیں مانیں گی؟ میری ماں ہوکر میرا ساتھ نہیں دیں گی؟ ارے مائیں تو اپنے بچوں کے لیے کیا کچھ کرتی ہیں اور آپ۔۔۔”
”سننا چاہتی ہو میں نے کیا کیا تم لوگوں کے لیے؟ جاننا چاہتی ہو؟
انکے لہجے میں کچھ تھا کہ وہ ایک پل کو چپ ہوگئی۔
میں نے سہانہ اپنی اولاد کے سامنے کبھی سمل کو نمایاں نہیں ہونے دیا سارے خاندان کے سامنے تم سلجھی ہوئی،نرم مزاج اور تمیزدار تھیں اور سمل بدتمیز،مغرور اور جھگڑالو۔ میں بظاہر اسکی ماں بن گئی مگر سارے گھر کو اسکی عادات کا میری زبانی پتا چلتا تھا”
وہ ایک لمحے کو رکیں۔ ”میرا بیٹا جو اس گھر کا اکلوتا بیٹا ہے باپ دادا کے ساتھ ساتھ سمل کے باپ کی جائیداد کا بھی مالک ہے پھر بھی جب مجھے لگا کہ وہ میری بیٹی پر غالب آرہی ہے میں نے بدکرداری کا الزام لگوا کر اسے اس گھر سے نکلوادیا”
سہانہ دم بخود کھڑی تھی۔
”بتاوُ کیا کوئی ماں کرتی ہے اپنے بچوں کےلیے یہ سب کچھ جو میں نے کیا تم لوگوں کےلیے؟” شدتِ جذبات سے انکی آواز بلند ہوگئی۔ دفعتاً باہر کچھ گرنے کی آواز آئی سہانہ آگے بڑھی اور دروازہ کھول دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اباجان زمین پر گرئے ہوئے تھے شاید بے ہوش ہو چکے تھے۔ ابتہاج صاحب انہیں اٹھانے کی کوشش کرتے ہوئے منہاج کو بھی آوازیں دے رہے تھے۔ انہوں نے آگے بڑھنے کی کوشش کی۔
”وہیں رک جاوُ” انگلی اٹھا کر وارننگ دی۔
”جوکچھ تم نے میرے باپ اور بھانجی کے ساتھ کیا ہے جی تو چاہتا ہے کھڑے کھڑے طلاق دے دوں مگر چند مصلحتیں آڑے آجاتی ہیں”
”لیکن ابا جان کو کچھ ہوا تو صفیہ بیگم تم اپنے انجام کےلیے تیار رہنا”
صفیہ بیگم کی تو کاٹو تو بدن میں لہو نہیں جیسی حالت تھی سارا کھیل کیسے الٹا تھا کہ منہ چھپانے کو جگہ نہ رہی تھی وہ دوبارہ اپنے کمرے میں بند ہوگئی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیلے انگرکھا فراک میں براوُن بال کھولے ہلکا پھلکا میک اپ کیے وہ بے حد پیاری لگ رہی تھی جبکہ سفید شلوار قمیص میں فواد کا حلیہ سادہ تھا وہ آٹھ بجے کے گھر سے نکلے ہوئے تھے اور اب 12 بج چکے تھے فواد نے آج دل کھول کر اسے شاپنگ کروائی تھی اب وہ دونوں فارغ ہو کر ایک فوڈ کورٹ میں آبیٹھے تھے۔
”لیں میڈم آرڈر کریں” اس نے مینو اسے تھماتے ہوئے کہا ابھی وہ آرڈر لکھواہی رہی تھی جب فواد کے موبائل کی بیل بجی۔
اس نے موبائل اٹھا کر دیکھا اور ناگواری سے بند کر کے سائیڈ پر رکھ دیا۔
”کیا ہوا؟ کس کا فون تھا؟
اس کے چھرے پر ناگواری دیکھ کر اس نے سوال کیا۔
”کسی کا نہیں آپ چھوڑیں یہ بتائیں آج کیسا محسوس کررہی ہیں؟” اس کے لبوں پر خوبصورت مسکراہٹ بکھر گئی۔
”بہت اچھا” اس نے پورے دل سے جواب دیا۔
”میں بھی بہت خوش ہوں سمل میں چاہتا ہوں جوکچھ ہوا اسے بھول کر ہم نئی شروعات کریں۔ پاپا بھی آرہے ہیں کچھ دنوں تک وہ چاہتے ہیں یہاں آکر ہمارے ولیمہ کی تقریب کروائیں” وہ مگن سا اسے بتارہاتھا۔
اتنے میں ویٹر کھانا لے کر آگیا اور وہ دونوں کھانا کھاتے ہوئے باتیں کرنے لگے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابتہاج،منہاج اور غزالہ ابا جان کو لے کر ہسپتال چلے گئے تھے جاتے ہی انہیں ایمرجنسی میں لے جایا گیا تھا عمران بھی پہنچنے والا تھا
وہ کوریڈور میں ٹہلتے ہوئے کسی اچھی خبر کا انتظار کررہے تھے جب انکا فون بجا عمران کی کال تھی۔
”ہیلوپاپا! پہنچ گئے آپ ہوسپٹل ؟ ابا جان کی طبیعت کیسی ہے؟ کیا کہا ڈاکٹر نے؟”
”ہاں بیٹے پہنچ گئے ہیں آئی سی یو میں ہیں ابا جان ہارٹ اٹیک ہوا ہے”
انکی آواز میں پریشانی تھی۔
”آپ فکرنہ کریں پاپا میں بھی پہنچ رہا ہوں”
”بیٹا میں چاہتا ہوں تم۔۔۔تم سمل کو کال کرو اسے کہو ابا جان سے ملے آکر”
انہوں نے ججھکتے ہوئے کہا۔
”یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں پاپا؟” وہ سخت حیران تھا۔
”ہاں بیٹا تم بھی اصل بات نہیں جانتے ہمیں بےوقوف بنایا گیا ہے
تمہاری ماں نے۔۔۔۔۔”
اب وہ اسے آہستہ آواز میں ساری بات بتانے لگے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھانا کھا کر وہ گاڑی میں بیٹھے ہی تھے کہ اسکا موبائل دوبارہ بجنے لگا
”آپ فون کیوں نہیں اٹھارہے؟ کوئی پرابلم ہے کیا؟” اس نے جواب میں کچھ کہنے کی بجائے موبائل سامنے کردیا عمران کا نمبر بلنک کررہا تھا
”کال تمہارے لیے ہے بات کرنا چاہتی ہوتو اٹھا لو” اس نے کپکپاتے ہاتھوں سے فون تھاما اوریس کر کے کان سےلگالیا۔
”ہیلو فواد؟” اسکی شرمندہ سی آواز سنائی دی۔
”سمل,سمل بات کررہی ہوں” اس نے قدرے زور دے کر کہا۔
سمل میں تم سے ہی بات کرنا چاہتا تھا”
وہ ایک لمحے کورکا
”اباجان کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے وہ ہاسپٹل میں داخل ہیں۔
پاپا چاہتے ہیں تم آکر ان سے ملو” اس نے ججھکتے ہوئے بات مکمل کی۔ اس نے بغیر کوئی جواب دئیے فون بند کردیا
”کیاہوا؟” اس نے سمل کودیکھا جس کے آنسو زاروقطار بہہ رہے تھے
”اباجان کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے وہ ہاسپٹل میں ہیں ماموں نے ہمیں بلایا ہے”
”اچھا آپ روئیں مت ہم ابھی ہاسپٹل چلتے ہیں” اس نے اسکا ہاتھ تھپکتے ہوئے کہا اور عمران کوٹیکسٹ کر کے ہاسپٹل کا نام پوچھنے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب وہ لوگ ہاسپٹل کے کوریڈور میں داخل ہوئے اباجان کو روم میں شفٹ کیا جارہاتھا۔
”سمل آپی آپ؟” اسے دیکھتے ہی رانیہ ثانیہ تیزی سے اسکی طرف بڑھیں وہ اور یمنی ابھی ابھی عمران کے ساتھ ہسپتال پہنچیں تھیں
”ہاں عمران بھائی نے کال کر کے اباجان کا بتایا تھا اب کیسے ہیں وہ؟” اسکا لہجہ سپاٹ تھا۔
”ابا جان اب ٹھیک ہیں بیٹا روم میں شفٹ کردیا ہے ڈاکٹر نے ایک شخص کو ملنے کی اجازت دی ہے میں چاہتا ہوں تم اندر جاوُ ابا جان بھی تم سے ملنا چاہتے ہوں گے” منہاج صاحب کی آواز میں شرمندگی تھی۔
”ماموں جان آپ شاید بھول رہے ہیں میں وہی بدکردار لڑکی ہوں جسے آپ لوگ ڈیڑھ ماہ پہلے اپنے گھر سے بے عزت کر کے نکال چکے ہیں” اسکا لہجہ خوداذیتی سے پر تھا۔
”ہم تم دونوں سے بے حد شرمندہ ہیں بیٹا ہمیں ساری سچائی کا پتہ چل گیا ہے جو کچھ صفیہ نے تم لوگوں کے ساتھ کیا”
ابتہاج صاحب بھی قریب آگئے تھے انہوں نے پست آواز میں اعتراف کیا۔
”صفیہ کی طرف سے میں تم دونوں سے معافی مانگتاہوں” انہوں نے ہاتھ جوڑ دئیے۔
”خالوجان پلیز آپ ہمیں شرمندہ کررہے ہیں” فواد نے آگے بڑھ کر ان کے ہاتھ تھام لیے۔
”اس موضوع کوفی الحال یہی روک دیں اور سمل آپ اباجان سے مل آئیں” ہاتھ سے سمل کو اندر جانے کا اشارہ کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ آہستگی سے چلتی ہوئی اندر داخل ہوئی اباجان مختلف مشینوں میں جکڑے لیٹے ہوئے۔صدیوں کے بیمار لگ رہے تھے وہ بیڈ کے نزدیک جاکھڑی ہوئی اور آہستگی سے پکارا
”اباجان؟”
انہوں نے ذرا کی ذرا آنکھیں کھولیں۔
”سمل میری بچی” آہستگی سے ہونٹ ہلائے اور مزید کچھ کہے بغیر اپنے ہاتھ جوڑ دئیے اس نے تڑپ کر ان کے ہاتھ تھام لیے اور سر ان کے ہاتھوں پر رکھ دیا
”تم۔۔تم مجھ سے ناراض ہو؟” انہیں بولنے میں دقت ہورہی تھی۔
”میں آپ سے بالکل ناراض نہیں ہوں آپ بس جلدی سے ٹھیک ہوجائیں” اس نے بہتے آنسووُں کے ساتھ کہا۔
”میڈم اب آپ باہر چلی جائیں مریض کو آرام کرنے دیں” نرس اندر داخل ہوئی۔
اس نے سر اٹھایا اور ان کے ہاتھ کو ہاتھوں میں تھام کر
چوما۔
”اب آپ آرام کریں اباجان” انہوں نے اپنی نم آنکھیں موند لیں اور وہ باہر نکل گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”فواد” اس کے پکارنے پر اس نے آنکھیں کھولیں وہ بیڈکم صوفہ پر نیم دراز تھا
”آپ کی کافی” اس نے مسکراتے ہوئے کپ تھاما
وہ اپنا کپ لیے بیڈکی طرف جانے لگی۔
”سمل؟” وہ پلٹی۔ ”یہاں آوُ” اس نے اپنے پاوُں سمیٹتے ہوئے اپنے قریب جگہ بنائی۔
”تم” وہ کہتے ہوئے سیدھا ہو بیٹھا۔ ”اب میں تمہیں تم کہہ سکتا ہوں نا؟” لب دانتوں تلے دبائے اس نے تصیح چاہی وہ مسکراتے ہوئے سر اثبات میں ہلا گئی۔
”میں چاہتا ہوں تم ان سب کو معاف کردو وہ سب تمہارے اپنے ہیں ان سے دور رہ کر تم بھی خوش نہیں رہوگی” وہ اسکا ہاتھ تھام کر بولا۔
”مجھے باقی سب سے شکایت نہیں لیکن صفیہ مامی اور سہانہ کو میں معاف نہیں کروں گی” اسکا لہجہ سنجیدہ تھا۔
”میں کچھ اور بھی کہنا چاہتا تھا” ”کیا؟” وہ چونکی۔
”تم بہت خوبصورت لگ رہی ہو” اسکا لہجہ شرارتی تھا
وہ بے اختیار بلش کرگئی۔
”آپ بہت خراب ہوگئے ہیں” اس نے ہنستے ہوئے اسے ساتھ لگالیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج ابا جان کو ڈسچارج کرواکر گھر لایا گیا تھا صبح سے انکی اور باقی سب کی بے تحاشا کالز آچکی تھیں مگر وہ کسی نہ کسی بہانے ٹال رہی تھی بلآخر انہوں نے فواد کو کال کی انکا فون سنتے ہی وہ اس کی تلاش میں کچن میں آیا جہاں وہ چولہے کے آگے کھڑی کچھ پکا رہی تھی۔
”سمل؟” اس نے پکارا۔
”جی؟” وہ پلٹے بغیربولی۔
اس کے انداز پر
اس نے ایک گہری سانس بھری اور بولا
”اباجان اور خالو وغیرہ بلارہے ہیں تم جا کیوں نہیں رہی؟”
”بس ویسے ہی میں کچھ کام کررہی تھی سوچا پہلے یہ ختم کرلوں۔” وہ مصروف سے انداز میں بولی۔
”جانتا ہوں میں تمہارے کام چھوڑو یہ سب اور جلدی سے تیار ہوجاوُ چلتے ہیں وہاں۔ ابا جان دوبارہ کال کررہے ہیں۔”
”میرا خیال ہے شام کو چلیں گے ابھی میں بریانی بنا رہی ہوں آپ وہ ٹرائی کریں۔”
اسکی بات سن کر اس نے اسکا بازو۔پکڑا اور رخ اپنی جانب موڑلیا۔
”تم نہیں جانا چاہتی وہاں؟” وہ گڑبڑائی۔
”یہ بات نہیں ہے بس تھوڑا عجیب لگ رہا ہے اس گھر میں جانا۔۔۔انکا سامنا کرنا”
اسکا اشارہ سمجھ کر اس نے۔سر ہلایا۔
”پھر میں انہیں منع کردوں؟”
”ایسا کب کہا میں نے؟ اچھا ہٹیں میں تیار ہوتی ہوں”
وہ مسکراہٹ دباتا ایک طرف کو ہوا وہ اسکی سائیڈ سے گزرتی کمرے میں چلی۔گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بخاری لاج میں سب جمع تھے اباجان بھی اپنی اولاد کے گھیرے میں لیٹے مطمُن نظرآرہے تھے ان دونوں کے آتے ہی وہ اٹھ کر بیٹھ گئے اور والہانہ انداز میں۔ دونوں کو پیار کیا صفیہ مامی اور سہانہ سامنے نہ آئی تھیں سو وہ بھی اطمینان سے اباجان کے پاس بیٹھی باتیں کرتی رہی اسی اثناُ میں یمنی کمرے میں آئی وہ ہاتھ میں ٹرے لیے ہوئی تھی جس میں اباجان کا پرہیزی کھانا تھا۔
”اباجان یہ آپ کا کھانا”سمل آجاوُ تم بھی کھانالگادیاہے سب باہرہی ہیں” ٹرے میز پر رکھتے ہوئےوہ اس سے مخاطب ہوئی
”میں ادھرہی کھالوں گی اباجان کے ساتھ” اس نے دامن بچایا۔
”ارے تم کیوں یہ پھیکا کھانا کھاوُگی؟ باہرجاوُ سب کے ساتھ کھاوُ” بولتے بولتے انکی نظر اسکے چھرے پرپڑی تووہ ایک لمحے کو رکے
”بلکہ میں بھی تمہارے ساتھ ہی چلتاہوں” وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔
”پر اباجان؟ ” یمنی نے کچھ کہناچاہا۔
”میں بھی بستر پر لیٹے لیٹے تھک گیاہوں باہر اپنے بچوں کے ساتھ۔ بیٹھوں گا”
وہ دونوں انہیں سہارا دئیے باہر لائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈائننگ روم میں داخل ہوتے اسکی نظر سامنے پڑی صفیہ مامی سعدیہ۔ خالہ(یمنی کی امی) سے کوئی بات کررہی تھیں
سہانہ ڈائننگ ٹیبل کے گرد بیٹھی تھی وہ ایک پل کوٹھٹکی اس دن کی بےعزتی یاد کرکے چھرہ دھواں دھواں ہوگیا۔
بمشکل خودکو سنبھالتے وہ آگے بڑھی اور اباجان کو سربراہی کرسی پربٹھایا ابھی وہ سیدھی ہوئی ہی تھی کہ صفیہ مامی نے اسکے پیروں کوپکڑلیا وہ تڑپ کرپیچھے ہوئی۔
”یہ کیاکررہی ہیں آپ؟ ”
”مجھے معاف کردو بیٹا میں اندھی ہوگئی تھی لالچ میں مجھے لگا اس طرح میں اپنے بچوں کو مضبوط کرلوںگی مگر میرے بچے ہی میرے خلاف ہوگئے ہیں۔ مجھے معاف کردو بیٹا”
اب انہوں نےہاتھ۔ جوڑ لیےتھے وہ ساکت رہ گئی۔
”اگر تم مجھے معاف نہیں کروگی تو اس۔ گھر میں۔ میری کوئی۔ جگہ نہیں۔ رہے گی” وہ زاروقطار رورہی تھیں
”میں بھی تم سے بہت شرمندہ ہوں سمل میں نے اپنی بہن کا گھر اجاڑنا چاہا مجھے معاف کردو”
سہانہ بھی آگے بڑھ آئی ۔
”معاف کیا میں نے آپکو۔۔آپ دونوں کو۔ بھرائی ہوئی آواز میں
بمشکل بولتی وہ کمرے سے نکلتی چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آف وائٹ پشواز کے ساتھ لمبا سا دوپٹا اوڑھے وہ اپنی تیاری کو آخری ٹچ دے رہی تھی جب وہ صفیہ مامی کی آواز آئی
”سمل کہاں ہو بھئ؟’
”جی مامی کہیے” وہ مسکراتی ہوئی پلٹی۔
”ماشااللہ بہت پیاری لگ رہی ہو” انہوں نے پیار سے اسکی ٹھوڑی چھوئی
”جاوُ نیچے فواد بلارہاہے تمہیں ایک ہفتے سے یہاں ہو بے چین ہورہا ہوگا اب” شرارت سے بولتے ہوئے وہ ہلکا سا ہنسیں
لان میں رنگ وبو کا سیلاب آیا ہوا تھا۔آج زوہیب اور سہانہ کی منگنی تھی سہانہ شرمائی سی زوہیب کے سنگ سٹیج پربیٹھی تھی ایک مسکراتی نگاہ دونوں پر ڈال کر وہ اس کے پاس آکھڑی ہوئی۔
”کیسی لگ رہی ہوں میں؟” اٹھلاکر پوچھا
”آں۔۔کیاکہا؟” اس نے چونکنے کی اداکاری کی۔
”کچھ نہیں” وہ منہ بناتے ہوئے چوڑیاں گھمانے لگی جب اس نے چوڑیوں والا ہاتھ تھام لیا
”کچھ کہنا چاہتا ہوں”
اس نے سوالیہ نظریں اٹھائیں
”میرے ساتھ گھر واپس چلوگی آج؟”
وہ بے ساختہ ہنس دی اسکی ہنسی میں فواد کا قہقہ بھی شامل ہوگیاتھا بلآخر انہیں اپنی محبت کا اعتبار واپس مل گیاتھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...