بخاری لاج میں آج صبح سوگوار سی تھی۔ کل سمل کے نکاح کے بعد یمنی کو بھی رخصت کروا کر لایا گیا تھا۔ابا جان کل شام سے اپنے کمرے میں بند تھے۔سب نے اپنی سی کوشش کی تھی مگر کوئی بھی دروازہ کھلوانے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ ابا جان کے علاوہ ایک اور شخص بھی کمرے میں بند تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمرہ مکمل طور پر تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ دفعتاً دروازہ کھلا۔ “سہانہ! اٹھ جاوُ بیٹا۔ کل سے اپنے کمرے میں بند ہو۔ آخر ہوا کیا ہے؟؟؟” صفیہ بیگم اندر داخل ہوتے ہوئے بولیں اور ہاتھ بڑھا کر لائٹس آن کردیں۔
”مما پلیز! لائٹس آف کردیں اور آپ جائیں۔”سہانہ نے منہ سے تکیے اٹھائے بغیر کہا۔ ”لیکن بیٹا۔۔۔۔ انہوں نے کچھ کہنا چاہا۔ “مما پلیز” وہ چیخی۔ “اچھا بھئ ٹھیک ہے۔ ایک تو یہ آج کل کی اولاد ماں باپ کو کچھ سمجھتی ہی نہیں۔ اب اسکو پتا نہیں کیا ہوا ہے؟؟” وہ بڑبڑاتے ہوئے باہر نکلیں۔
”صفیہ! صفیہ” ابتہاج صاحب انہیں پکا ر رہے تھے۔”جی آرہی ہوں۔” انہوں نے اونچی آواز میں جواب دیا۔
”صفیہ ابا جان دروازہ نہیں کھول رہے۔” ابتہاج صاحب پریشان تھے۔
”دیکھیں ابتہاج صاحب! ابا جان کو صدمہ بھی تو بہت ہوا ہے۔ جس بچی کو بچپن سے جوانی تک لاڈ اٹھا کر پالا وہی منہ پر کالک مل کر چلی گئی” انہوں نے لہجے میں مصنوعی افسردگی سموئی۔
”ہاں مگر اب ایسے تو نہیں چھوڑا جا سکتا نا۔ تم آوُ دوبارہ کوشش کرتے ہیں۔” وہ کہتے ہوئے آگے کی جانب ہو لیے۔
ابا جان کے کمرے کے دروازے کے باہر پہنچ کر دروازہ بجایا۔ “ابا جان! دروازہ کھولیے۔ ابا جان۔پلیز دروازہ کھولیے۔” دروازہ آہستگی سے کھل گیا۔
”شکر ہے اباجان آپ نے دروازہ کھول دیا۔ کتنا پریشان ہو گئے تھے ہم لوگ۔” صفیہ بیگم بولتے ہوئے۔ابتہاج صاحب کے پیچھے اندر داخل ہوئیں۔ ”کیا کرتا میں صفیہ؟ اور کیا کر سکتا تھا میں؟ وہ شکستگی سے کرسی بیٹھ گئے۔ چہرہ حزن وملال کی تصویر تھا۔
”آپ کیوں دل چھوٹا کر رہے ہیں؟ احساس تو اسکو ہونا چاہیے تھا جو سارا لاڈ پیار ہمارے منہ پہ مار کر چلی گئی۔”
”چپ رہو تم صفیہ۔” ابتہاج صاحب نے انہیں ڈپٹا۔
”ابا جان آپ فی الوقت یہ سب مت سوچیں۔ گھر مہمانوں سے بھرا ہوا ہے۔ یمنی اور عمران کا ولیمہ بھی ہے آج۔ آپ اس طرح کمرے میں بند رہیں گے تو سب کیا سوچیں گے؟ پہلے ہی سمل کی غیر موجودگی کے بارے میں اتنی باتیں ہورہی ہیں۔”
”لیکن ابتہاج صاحب! ابا جان کیسے بھول سکتے ہیں؟” صفیہ بیگم نے دوبارہ مداخلت کی۔
”صفیہ خدا کے لیے چلی جاوُ یہاں سے۔ غلطی ہوگئی مجھ سے جوتمہیں ساتھ آنے کو کہہ دیا۔” انہوں نے باقاعدہ ہاتھ جوڑ دیئے۔
”جارہی ہوں میں۔ آپ بھی مجھ پہ غصہ ہورہے ہیں ایسا کیا کہہ دیا ہے میں نے۔” وہ بڑبڑاتے ہوئے باہر چلی گئیں۔
”ابا جان آپ چلیے باہر۔ کچھ کھا لیجیئےاور سب کے ساتھ بیٹھیں سب پوچھ رہے ہیں آپکا۔” وہ انہیں لے کر باہر آگئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دروازے پر دستک ہوئی۔ ”اندر آجاوُ۔” سمل نے اپنے آنسو صاف کیے اور جواب دیا۔ اندر آنے والی ملازمہ تھی جو ناشتے کی ٹرالی دھکیل کر لا رہی تھی۔
”بی بی جی! ناشتہ کرلیں۔” “میں کرلوں گی تم جاوُ۔” اس نے کہا اور اٹھ کر واش روم کی طرف بڑھ گئی۔
آئینے میں اپنا چہرہ دیکھا توحیران ہوگئی۔ کیا تھی وہ اور کیا ہوگئی تھی۔ ستا ہوا چہرہ،بکھرے بال اور رو رو کر سوجی ہوئی آنکھیں۔ چند ثانیے خود کو دیکھتے رہنے کے بعد وہ منہ۔دھو کر باہر نکل آئی۔ سامنے نظر پڑتے ہی طیش کی ایک لہر اس کے اندر اٹھی۔
”تم۔۔۔تم پھر آگئے۔ شرم نہیں آتی تمہیں بے غیرتوں کی طرح منہ اٹھا کرآجاتے ہو۔”
”بس!!” وہ دھاڑا۔”بہت بکواس کرلی تم نے۔ میں تمہارا شوہر ہوں سمل بیگم! اس بات کو ذہہن میں رکھ کر اب مجھ سے کلام کرنا۔”
”میں لعنت بھیجتی ہوں تم پر اور اس رشتے پر۔” نخوت سے کہتے ہوئے وہ پلٹی جب اس نے ایک جھٹکے سے اسے اپنی گرفت میں لے لیا۔
”میری نرمی کا بہت ناجائز فائدہ اٹھا رہی ہو تم۔ اس رشتے پر لعنت بھیجو گی تو کہاں جاوُگی؟؟” اسکا لہجہ سخت تھا۔
”چھوڑو مجھے ذلیل انسان۔ مجھے بھی کوئی شوق نہیں ہے تمہیں پکڑے رہنے کا۔ پر بہتر ہو گا اپنی اوقات پہچانو دوبارہ بتانا نہ پڑے کہ تمہیں مجھسے کیسے بات کرنی ہے۔” اسنے ایک جھٹکے سے اسے چھوڑا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا باہر نکل گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہال میں رنگ وبو کا سیلاب آیا ہواتھا۔ پیچ کلر کے شرارہ سوٹ میں ملبوس یمنی نہایت خوبصورت لگ رہی تھی۔ اسکے ساتھ بیٹھا عمران نیوی بلو تھری پیس سوٹ میں ملبوس تھا۔ دونوں ساتھ بیٹھے بہت خوبصورت اور مکمل لگ رہے تھے۔ ابا جان نے انہیں دیکھتے ہوئے بے اختیار انکی خوشیوں کی دعا کی۔ ساتھ ہی وہ بدبخت بھی یاد آگئی جو ساری عمر لاڈلی رہنے کے باوجود دعاوُں کے بغیر رخصت ہوگئی تھی۔ انہوں نے آنکھ میں آئی نمی کو صاف کیا۔
”ابا جان یہ میرے دوست ہیں لاشاری صاحب اور انکی بیگم ثمینہ بھابھی۔” ابتہاج صاحب نے انہیں اپنی طرف متوجہ کر لیا۔
”السلام علیکم ابا جان”
”وعلیکم السلام” بہت خوشی ہوئی آپ سے ملکر بیٹے۔”
”ہمیں بھی بہت خوشی ہوئی ابا جان۔” ثمینہ بولیں۔
”انہیں صفیہ اور سہانہ سے تو ملواُو۔”
”جی ابا جان بس وہی جارہا تھا۔” انہوں نے اس سمت اشارہ کیا جہاں صفیہ بیگم کے ساتھ بیزار منہ بنائے گولڈن لہنگے میں سہانہ کھڑی تھی۔
”آئیے میں آپکو ملواتا ہوں۔” ابتہاج صاحب انہیں لے کرچلے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”سہانہ یہ کیا بےوقوفی کر رہی ہو تم۔ اپنے منہ کے زاویے ٹھیک کرو اور سٹیج پہ جاوُ دلہا کی بہن تم ہو۔”
کل سے وہ بیزار منہ بنائے پھر رہی تھی۔ تیارہوئی تو بھی بےدلی سے سٹیج پر جانے اور کسی رسم میں حصہ لینے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ اب وہ اچھی خاصی تنگ آچکی تھیں۔
”ممی آپ۔” وہ کچھ کہنا چاہتی تھی جب ابتہاج صاحب،لاشاری اور انکی بیگم کو لیے نزدیک چلے آئے۔
یہ ہماری بیگم ہیں اور یہ ہماری بیٹی سہانہ۔” انہوں نے تعارف کروایا۔
ہماری بیٹی تو بہت پیاری ہے۔” ثمینہ بیگم نے پیار سے اسکا”
گال تھپتھپایا۔
”صیح کہا آپ نے بیگم۔” لاشاری صاحب نے انکی تائید کی۔
”آپ لوگ باتیں کیجیئے ہم مردانے میں چلتے ہیں۔ آئیے لاشاری صاحب۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کب سے ٹیرس پہ بیٹھی جانے کیا کیا سوچے جارہی تھی۔ ہزاروں سوچیں تھیں جو ذہن میں آرہی تھیں۔
”ابا جان اور باقی سب کیسے بدل گئے۔ کیا میں اتنی ناقابل اعتبار تھی؟ وہ سب وہاں اکٹھے ہونگے اور میں یہاں اچھوتوں کی طرح پڑی ہوں۔”
”سمل” اپنے نام کی پکار پر سر اٹھا کر دیکھا۔
وہائٹ شرٹ اور ٹراوُزر میں ملبوس وہ سامنے کھڑا تھا۔’ ”اندر آجاوُ۔”
“مجھے نہیں آنا۔” نروٹھے انداز میں کہہ کر دوبارہ سر گھٹنوں پہ رکھ لیا۔
وہ دوچار قدم آگے بڑھ آیا اور اس کے پاس آکر بیٹھ گیا۔
”میں جانتا ہوں سمل تم مجھے پسند نہیں کرتیں اورمجھے اپنی بربادی کا ذمہ دار سمجھتی ہو پر یقین مانو میں بھی تمہاری طرح بے قصور ہوں یہ سب خالہ کا پلان تھا اور میں نہیں جانتا انہوں نے ایسا کیوں کیا۔”
اس کے آنسو بہتے دیکھ کر وہ خاموش ہوا۔
”خود کو سنبھالو زندگی اس طرح نہیں گزرتی۔”
”مجھے زندگی گزارنی ہی نہیں ہے میرے لیے زندگی اسی دن ختم ہوگئی تھی جب مجھے بدکردار کہہ کر گھر سے نکالا گیا تھا۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...