گھر میں عمران اور یمنی کی شادی کے فنکشن چل رہے تھے۔ آج ان سب لوگوں نے مہندی لے کر سعریہ پھپو کی طرف جانا تھا۔ وہ بھی زہن میں جلد واپسی کا ارادہ کرتی ہوئی باہر نکل آئی۔
یونیورسٹی پہنچی تو پتہ چلا پروفیسر زبیر ابھی آفس میں موجود نہیں اور آنے میں گھنٹہ ڈیڑھ لگے گا۔
“یار اب کیا کروں اتنی جلدی واپس بھی نہیں جا سکتی۔ ڈرائیور کو بھی بھیج دیا ہے۔”
اس نے کوفت سے سوچا۔
ایک گھنٹہ انتظار کرنے کے باوجود بھی پروفیسر نہ آئے تو اس نے واپس جانے کا سوچا۔
سیل فون کی بیٹری بھی لو تھی کہ کسی کو کال ہی کر لیتی۔
کافی دیر وہ سڑک پر رکشے کے انتظار میں کھڑی رہی مگر بے سود۔
موسم کافی خراب ہو رہا تھا بارش بس شروع ہوا ہی چاہتی تھی۔
”یہ سارے منحوس اتفاقات آج ہی ہونے تھے۔”
اس نے جھنجھلاتے ہوئےسوچا۔
بارش شروع ہوگئ تھی اسکا پلین گلابی سوٹ بارش کی بو چھاڑ سے بھیگ کر جسم سے چپک گیا تھا۔
وہ پناہ لینے کے لیے ایک درخت کی طرف بھاگی جب دفعتاً ایک گاڑی اس کے پاس آرکی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلیک کرتا شلوار میں ملبوس وہ دراز قد شخص اس کے پاس آ کھڑا ہوا۔
”کیا کر رہی ہیں؟”
آنے والے کو دیکھ کر وہ بیزاری کا شکار ہوگئ۔وہ سہانہ کا کزن فواد احمد تھا جو حال ہی میں پاکستان شفٹ ہوا تھا۔
“فٹبال کھیل رہی ہوں۔ “
اس کی بیزاری دیکھ کر وہ ہنس دیا۔
“آئیے میں آپکو گھر چھوڑ دوں”۔ “
اس نے خوشدلی سے آفر کی۔ سوچنے کا وقت نہ تھا بارش زوروشور سے ہو رہی تھی۔ وہ جھٹ اندر بیٹھ گئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“صفیہ، “صفیہ”
سسر کی آواز پر وہ دوڑی چلی آئیں۔
“جی ابا جان”
“بیٹا سمل نظر نہیں آرہی۔کہاں ہے؟”
“ابا جان وہ تو یونیورسٹی گئ ہے کسی کام سے۔”
”ابھی واپس نہیں لوٹی۔”
“بیٹا کسی کو بھیجو اسے لینے بہت دیر ہو گئ ہے ۔ بچی کسی پریشانی میں نہ ہو۔”
وہ نہایت فکرمند ہو گئے۔
“ابا جان بچے تو سب سعدیہ کی طرف چلے گئے ہیں اور ابھی کوئی گاڑی بھی نہیں ہے گھر ایسا کرتی ہوں میں رک جاتی ہوں سمل آئےگی تو اسے لے کر آجاوں گی۔”
“آپ بھی جایئے عبدالرحمن انکل آپکا انتظار کر رہے ہیں گاڑی میں۔”
“لیکن بیٹا۔۔۔” انہوں نے کچھ کہنا چاہا۔
“اباجان بے فکر ہو کر جائیں میں سمل کو لے کر آجاوں گی۔”
“اچھا ٹھیک ہے”۔ وہ کہہ کر باہر کی جانب چل دئیے۔
صفیہ بیگم معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ انہیں جاتے ہوئے دیکھتی رہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“اپنا موبائل دیجئےگا۔”
فواد نے قدرے حیرانگی سے
موبائل پکڑایا۔
اس نے صفیہ مامی کا نمبر ڈائل کیا۔
“ہیلو مامی”
“میں سمل بات کر رہی ہوں وہ دراصل مجھے دیرہو گئ تھی اور کوئ گاڑی بھی نہیں تھی تو راستے میں فواد مل گئے میں ان کے ساتھ آرہی ہوں۔”
اس نے فواد کو دیکھتے ہوئے بات مکمل کی۔
“ارے یہ تو بہت اچھا ہوا بیٹا تم آرام سے آجاو فواد کے ساتھ وہ تو اپنا ہی بچہ ہے۔”
صفیہ بیگم نے کہا۔
فواد انکی خالہ زاد بہن کا بیٹا تھا۔
“جی مامی۔” اس نے آہستگی سے کہہ کر فون بند کر دیا۔
“آج تو عمران کی مہندی ہے پھر آپ یہاں؟؟”
فواد نے موبائل پکڑتے ہوئے بات کا آغاز کیا۔
“جی بس وہ کچھ کام تھا۔”
اس نے بیزاری سے جواب دیا۔
اسے سہانہ کا یہ کزن بلاوجہ برا لگتا تھا۔
“آپ ہمیشہ اتنے غصے میں کیوں رہتی ہیں”؟
اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی گاڑی کے ٹائر چرچرائے اور وہ ایک جھٹکے سے بند ہو گئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔