(۲ اپریل ۱۸۳۵ء)
آج شادی کی رسموں میں سب سے آخر رسم چوتھی کی ادا ہوئی۔ جب دولہا دلہن زنانہ میں گئے تو وہاں مسند پر ان کو بٹھایا اور بہت سی کشتیاں جن میں میوہ جات اور طرح طرح کی تازہ ترکاریاں رکھی ہوئی تھیں، ان کے سامنے لائی گئیں۔ سوسن نے شادی کے کپڑے اتار دیے تھے اور بیگمات دہلی کی پوشاک پشواز جو بنارسی کپڑے کی تھی، زیب بدن تھی اور سب زیور پہنے ہوئے تھی۔ مختلف قسم کے توپھل ایک کپڑے میں لپیٹے اور اس کی کمر کے گرد پیش خدمتوں نے لٹکائے۔ دلہن مشکل سے اس بوجھ کو سنبھال کر اٹھی اور اس نے کمرے کے چاروں کونوں کو سلام کیا۔ پھر پھولوں سے اس کا سر گوندھا گیا اور دولہا دلہن نے روپیہ کے اوپر مصری رکھ کر کھائی۔ ایک چھڑی جس پر روپہری گوٹا چڑھا ہوا تھا، دولہا کو دی گئی اور ایک ایسی ہی دلہن کے ہاتھ میں۔ اور ان چھڑیوں سے انہوں نے ایک دوسرے کو مارنا شروع کیا۔ اور بیگمات کو بھی ایسی ہی چھڑیاں دی گئیں اور لونڈیوں باندیوں کو پھولوں کی چھڑیاں ملیں۔ چوتھی سے کئی روز پیشتر سے بڑی بیگم تمام بیگمات اور لونڈیوں کو ایک خاص قسم کا ناچ سکھا رہی تھیں جو ان چھڑیوں کو ہاتھ میں لے کر کیا جاتا ہے۔ سوائے شادی کے موقعہ کے اور ہر موقعہ پر ہندوستانی شریف زادیاں ناچ گانے کو بہت معیوب سمجھتی ہیں۔ یہ ناچ خاندان تیمور کے لیے مخصوص ہے۔
اس کے بعد ترکاریاں اور پھول ایک دوسرے کی طرف پھینکے جاتے ہیں اور اس میں بہت دل لگی ہوتی ہے۔ باندیاں بھی آزادی کے ساتھ اس رسم میں شریک ہوتی ہیں۔ آج شادی کی تمام رسمیں ختم ہوئیں۔ دولہا دلہن کرنل گارڈنر کی نیل کی کوٹھی میں جا کر رہیں گے۔ دلہن شادی کے بعد چار جمعہ متواتر اپنی ماں کے پاس گزارتی ہے اور ان چاروں موقعوں پر دولہا کو نئے کپڑے دیے جاتے ہیں۔
زنانہ میں ایک دستور یہ بھی ہے کہ ہر ایک بیگم ایک لونڈی کو گود لے کر اپنی بیٹی کے طور پر اسے پرورش کرتی ہے اور انجام میں حسب حیثیت اس کی شادی کرتی ہے۔ کرنل گارڈنر کے محل سرا میں لونڈیاں باندیاں بچے ملا کر میرے خیال میں دو سو جانوں سے کم نہ ہوں گے۔ شبیہ کی ماں بہت خوش و خرم ہے۔ اس کے خیال میں لڑکی کی شادی اس سے عمدہ جگہ ہونی نا ممکن تھی۔ کاس گنج میں محل سرا کے اندر ایک وسیع پائیں باغ ہے اور اس کے وسط میں ایک خوشنما بارہ دری ہے اور چاروں طرف اس کے فوارے لگ رہے ہیں۔ بیگمات اکثر اس باغ میں ٹہلا کرتی تھیں۔ ان کو جھولا جھولنے کا بہت شوق ہوتا ہے۔ چنانچہ اس باغ میں بھی کئی جھولے پڑے ہوئے ہیں۔
ایک دن کرنل صاحب کی طبیعت بہت ناساز ہو گئی۔ بیگم اس حالت میں بھی رواج کی اس قدر پابند تھیں کہ باہر نہ جا سکیں۔ آخر کرنل صاحب میرا سہارا لے کر اٹھے اور باغ کے کنارے پر ایلن کی قبر کی طرف آئے اور بولے کہ اب میری زیست کا بھروسا نہیں ہے۔ اے بیٹی! اب میں پھر تم سے نہ ملوں گا۔ میں نے جیمس سے کہہ دیا ہے کہ میری قبر ایلن کے برابر بنائی جائے۔ بیچاری بیگم مجھے پورا یقین ہے کہ اس صدمے سے جانبر نہ ہو گی اور میری وفات کے چند ہی روز بعد مر جائے گی۔ اس کا رنج زیادہ ظاہر نہ ہو گا لیکن دل بالکل ٹوٹ جائے گا۔ جب اس کا بیٹا ایلن مرا تھا تو اس کو اتنا رنج ہوا تھا کہ اس نے اپنے تمام زیور اور جواہر موسل لے کر کوٹ ڈالے تھے۔
کرنل نے مجھے ایک روز کہا کہ اگر تم دہلی جانا چاہو تو میں بادشاہ کی بہن نواب شاہ زمانی بیگم کے نام تمہیں خط دوں گا، وہ تم کو سب مکانات کی عمدہ طرح پر سیر کرا دیں گے۔
۲۹ جولائی کو کرنل صاحب کا کاس گنج میں انتقال ہو گیا اور ان کی لاش ان کے بیٹے کے برابر دفنائی گئی۔ ۶۵ سال کی عمر پائی۔ ان کی وفات کے روز سے ہی بیگم بیمار ہو گئی اور غم کھاتے کھاتے سوکھ گئی۔ اور اپنے خاوند کی وفات کے ایک ماہ اور دو روز بعد مر گئی۔
تمام شد
٭٭٭
پروف خوانی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: محمد شعیب، اعجاز عبید
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...