(۲۸ مارچ ۱۸۳۵ء)
ساچق کے دن سے لڑکی دلہن کہلانے لگتی ہے۔ آج ملکہ بیگم اور دولہا گاجے باجے کے ساتھ اور دیگر براتی بہت فوق البھڑک پوشاک پہنے ہوئے آئے۔ لڑکی والے پرانے اور میلے کپڑے پہنے ہوئے تھے اور ان کے چہروں سے اداسی ٹپکتی تھی۔ چونکہ یہ بھی ایک دستور ہے، اس وجہ سے اس کی پوری پابندی کی جاتی ہے۔ جلوس میں کئی ہاتھی عماری دار تھے اور بیش بہا جھولیں ان پر پڑی ہوئی تھیں۔ نالکیاں اور پالکیاں بھی متعدد تھیں اور عربی گھوڑے اور رتھ تھے۔ اور دو سو آدمیوں کے سروں پر دو سو ٹھلیاں مٹی کی تھیں جن پر روپہری پنّی لگی ہوئی تھی۔ ان ٹھلیوں میں مٹھائی تھی۔ تخت رواں پر رنڈیاں ناچتی ہوئی آتی تھیں۔
تخت رواں پر شامیانہ لگا ہوتا ہے۔ ہر ایک تخت پر ایک طبلچیہ اور دو رنڈیاں ہوتی ہیں۔ تخت رواں کو بہت سے مزدور مل کر اٹھاتے ہیں۔ تخت رواں دس تھے جن میں بیس طائفے تھے۔ ملکہ کی پالکی کے آنے کے بعد صندل کا عطر سب لوگوں کے منہ پر لگایا گیا اور گوٹے کے ہار سب کے گلوں میں ڈالے گئے۔ اس کے بعد ڈومنیوں نے پھر گالیاں دینی اور فحش گیت گانے شروع کیے۔ دولہا اور ملکہ کو اور مجھے بہت گالیاں ملیں مگر چونکہ خفا ہونا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اس وجہ سے کسی نے خفگی ظاہر نہ کی۔ دولہا نہایت عمدہ پوشاک پہنے ہوئے تھا۔ لیکن رواج کے مطابق وہی زرد لباس جو سسرال سے گیا تھا اس کے نیچے پہنے ہوئے تھا۔ عمامہ کے سامنے مرصّع جیغہ اور سرپیچ تھا اور بازوؤں پر بیش قیمت بازو بند تھے۔
(۲۹ مارچ)
آج مہندی لگانے کی رسم تھی۔ دلہن کی طرف سے طشتریوں میں مہندی رکھ کر اور مخملی سرپوش ڈھک کر دولہا کے لیے بھیجی گئی۔ رات کے گیارہ بجے دلہن کے تمام رشتہ دار بڑے جلوس کے ساتھ کاس گنج سے دولہا کے خیموں کی طرف گئے۔ سب رشتہ دار نہایت مکّلف پوشاکیں پہنے ہوئے تھے۔ سڑک پر دو طرفہ روشنی کے لیے ٹھاٹر لگے ہوئے تھے اور جا بجا آتش بازی چھوٹتی جاتی تھی۔ سڑک پر بیسیوں دروازے اور محرابیں نصب کی گئی تھیں اور سب پر روشنی کی گئی تھی۔ علاوہ ازیں پانچ ہزار کے قریب مشعلیں روشن تھیں۔ بڑی بیگم صاحبہ بذات خاص ایک نالکی پر اور ان کے گھرانے کی دیگر بیگمات رتھوں پر سوار تھیں۔ تاشہ والے اور زیبائشی تخت بھی ہمراہ تھے۔ یہ جلوس دولہا کے خیموں کے قریب جو چار میل کے فاصلہ پر تھے، دو گھنٹے میں پہنچا۔ ہزارہا آدمیوں کی بھیڑ جلوس کے ساتھ تھی۔ ملکہ بیگم کے خیمے زنانہ مہمانوں کے ٹھہرنے کے لیے آراستہ کیے گئے تھے۔ باریک چلمنیں جن پر رنگدار ململ لگی ہوئی تھی، سب دروازوں پر پڑی ہوئی تھیں۔ ان چلمنوں میں سے مستورات جو اندر تھیں باہر کی تمام سیر دیکھ سکتی تھیں۔ لیکن باہر سے کوئی شخص اندر کا حال بالکل نہ دیکھ سکتا تھا۔ خیمے کے سامنے ایک بہت بڑا شامیانہ لگا ہوا تھا اور اس میں چاندنی کا فرش تھا۔ شامیانہ کے وسط میں ایک مکلف گدی پر دولہا نہایت عمدہ پوشاک پہنے ہوئے بیٹھا تھا اور نہایت خوبصورت معلوم ہوتا تھا۔ اس کے چار بھائی جو بہت بد صورت تھے اس کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے برابر ہی ایک سادی گدی پر کرنل گارڈنر بیٹھے ہوئے تھے اور دائیں بائیں دیگر صاحبان انگریز و ہندوستانی بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک سَو کے قریب رنڈیاں جو دور دور سے بلوائی گئی تھیں، یہاں موجود تھیں۔ آٹھ سات رنڈیاں ساتھ ناچ رہی تھیں۔ جب اندر تیاری ہو چکی تو کرنل گارڈنر میرے اور شاہزادوں کے ہمراہ خیمے میں گئے۔ خیمے کے بیچ میں ایک قنات کھڑی کر دی گئی تھی جس کے پیچھے مستورات بیٹھی تھیں۔ دولہا کو ایک چاندی کی چوکی پر بٹھا کر شکر کھلائی۔ اس میں یہ بات مزے کی تھی کہ جس وقت دولہا کھانے کے لیے منہ بڑھاتا تھا، اسی وقت ہاتھ سرکا لیا جاتا تھا اور اس پر قہقہہ پڑتا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک چاندی کی طشتری میں مہندی گھولی گئی۔ ملکہ بیگم، الیڈا اور اس کی بہن نے شاہزادے کے ہاتھ پیروں میں یہ مہندی ملی اور پھر ایک نہایت ہی خوبصورت نُقرئی آفتابہ سے اس پر پانی ڈال کر دھویا۔ سنہری، سبز رنگ کا بیش قیمت دستار جس میں سبزہ اور دیگر جواہرات لٹک رہے تھے، دولہا کے سر پر رکھا گیا۔ اس کے بعد کمخواب کا جوڑا پہنایا اور سرخ کلابتونی کمر بند اور سبز پاجامہ پہنایا۔ اور ایک قیمتی انگشتری اور جڑاؤ بازو بند بھی دولہا کو پہنائے۔ پھر سب کو شربت پلایا گیا۔ شربت کے طشت میں ہر ایک نے ایک ایک مُہر ڈالی۔ یہ سب مُہریں بطور نیگ کے ان لڑکیوں کو جنہوں نے مہندی لگائی تھی، ملتی ہیں۔ پھر ایک لونڈی ایک چاندی کا برتن جس میں پانی بھرا ہوتا تھا، لے کر آئی اور اس میں سے پانی ہر ایک مہمان کے ہاتھ پر ڈالا گیا اور ہر ایک مہمان نے چار چار پانچ پانچ روپئے اس میں ڈالے۔ یہ روپئے ڈومنیوں کو جو ایک کونے میں بیٹھی ہوئی گا رہی تھیں، دیے گئے۔ چمبیلی کے تازہ ہار سب مہمانوں کے گلوں میں ڈالے گئے۔ اس کے بعد کرنل اور دولہا باہر چلے گئے۔
کھانا کھانے کے بعد تمام مہمانوں کو جو دیوان خانہ اور محل سرا میں جمع ہوئے تھے، نہایت خوبصورت گوٹے کے ہار تقسیم ہوئے۔ تھوڑی دیر بعد مَیں بیگم سے رخصت لے کر کرنل گارڈنر کے پاس چلی گئی اور وہاں تین بجے تک ناچ دیکھتی رہی۔ تین بجے صبح کے وہاں سے پالکی میں سوار ہو کر خاص گنج چلی آئی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...