اردو زبان اور دکنی زبان کے ارتقا پر نظر ڈالتے وقت سوئٹزر لینڈ سے تعلق رکھنے و الے ماہر لسانیات سوسئیر (1857-1913: Ferdinand de Saussure) کے لسانی خیالات سے استفادہ کرنا ضروری ہے۔ سوسئیر کا ایک اہم کام یہ ہے کہ اس نے لسانی امور کی تفہیم کے لیے دو اہم اصطلاحیں متعارف کرائیں۔ ان دو اصطلاحوں کے ذریعے وہ اپنے تصورات کی توضیح کرتا ہے۔ پہلی اصطلاح کو وہ لانگ (Langue) کا نام دیتا ہے۔ لانگ سے مراد زبان کا تجریدی نظام (Abstract System) ہے۔ اس سے وہ ایسی زبان مراد لیتا ہے جو ابلاغ، بول چال اور مکالمات کے ذریعے اپنی تفہیم کی یقینی صورت پیدا کر سکے۔ دوسری اصطلاح پارول (Parole) ہے۔ سوسئیر پارول سے ایسی زبان مراد لیتا ہے جو بولنے والے کی کامل دسترس میں ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ بات اس طرح بیان کی جا سکتی ہے کہ لانگ(Langue) اپنی نوعیت کے لحاظ سے قواعد کے ایک غیر شخصی ذہنی تصور اور فعالیت کا ایک روپ ہے۔ جہاں تک پارول (Parole) کا تعلق ہے اسے سوسئیر ایک کے خیال کے مطابق ایک طریق کار سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اس کے معجز نما اثر سے گنجینۂ معانی کے طلسم کی گرہ کشائی کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔ سوسئیر نے کہا تھا:
”In linguistic system ,there are only differences: meaning is not mysteriously immanent in a sign but is functional, the result of its difference from other sign” (26)
سوسیئر نے واضح کر دیا کہ زبان کو ایک کلی نظام میسر ہے جو کہ ہر لمحہ مکمل حالت میں موجود رہتا ہے۔ جس طرح یہ کائنات نا تمام ہونے کے باوجود ہر لمحہ مکمل صورت میں سامنے آتی ہے اسی طرح زبان کا کلی نظام بھی ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی کی کیفیت کا مظہر ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک لمحہ قبل وقوع پذیر ہونے والے تغیرات بھی زبان کے اس کلی نظام کی دسترس میں ہوتے ہیں:
یہ کا ئنات ابھی ناتمام ہے شاید کہ آ رہی ہے دما دم صدائے کن فیکون
اس وسیع و عر یض کائنات کا بنظر غائر جائزہ لینے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ یہ عالم آب و گل محض اشیا کا رہین منت نہیں ہے بلکہ یہ تو اس کا ئنات کے حقائق ہیں جو ایک جا مع صورت میں سامنے آ کر صورت حال کو پیش کر تے ہیں۔ ساختیات کا اس بات پر اصرار ہے کہ اس کائنات کا وجود اشیا کے آزادانہ وجود سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ ساختیات نے واضح کر دیا کہ زبان کو اشیا کے نام دینے والے نظام سے تعبیر کرنا غلط ہے۔ اسی لیے وہ زبان کو اسمیانے (Nomenclature) والا نظام نہیں سمجھتے۔ در اصل یہ ساخت ہی ہے جو نام دینے کی صلاحیت سے متمتع ہے۔ ساخت کو انسانی ذہن و ذکاوت اور فہم و ادراک میں کلیدی مقام حاصل ہے۔ اگر اشیا اور تصورات کو ان اہم اور وقیع نشانات (جو کہ انھیں ایک دوسرے سے ممیز کر تے ہیں) سے باہر رہتے ہوئے بھی قابل فہم بنایا جا سکے تو اس طرح ایک زبان سے دوسری زبان کی اصطلاحات کا بالکل صحیح مترادف میسر آ سکتا ہے۔ یہاں اس حقیقت کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے چونکہ تراجم بالعموم تخمینے یا قریب قریب مفہوم کے بیان پر مبنی ہو تے ہیں اس لیے مفاہیم و مطالب کا انحصار فرق پر ہونا چاہیے نہ کہ چیزوں کے حوالے یا تصورات پر۔ ممتاز نقاد ٹیری ایگلٹن (Terry Eagleton) نے سوسئیر کے کسانی نظریات کے حوالے سے لکھا ہے:
” Saussure believed that linguistics would get into a hopeless mess if it concerned itself with actual speech ,or parole as he called it .He was not interested in investigating what people actually said ;he was concerned with the objective structure of signs which made their speech possible in the first place ,and this he called langue. Neither was Saussure concerned with the real objects which people spoke about: in order to study language effectively ,the referents of signs, the things they actually denoted, had to be placed in brackets. (27)
سوسئیر نے لسانیات کے پس پردہ کار فرما عوامل کے بارے میں جو تصورات پیش کیے ان کی وجہ سے لسانیات کے ٹھہرے پانی کی جامد و ساکت کیفیت میں ایک مد و جزر پیدا ہوا۔ اس کی یہ دلی تمنا تھی کہ کسی بھی زبان کے ارتقائی مدارج اور لسانی اثاثے کا تجزیاتی مطالعہ کرتے وقت اس عہد کے حالات اور زمانے کے تغیر پذیر حالات، واقعات اور مروجہ صورت (Synchronic Form)پر گہری نظر رکھنا ضروری ہے۔ سوسئیر نے زبان کے قائم بالذات (Substantive)چیز ہونے کے تصور پر گرفت کی اور اس قسم کے خیالات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اس نے اپنے نظریات میں اس بات پر اصرار کیا کہ زبان کسی طرح بھی کسی مثبت یا ٹھوس عنصر پر انحصار نہیں کرتی بلکہ زبان کی اساس تو نظام افتراقات ہے۔ زبان کی کلیت کی تفہیم اس بات کی متقاضی ہے کہ زبان کا مطالعہ صحیح تناظر میں کیا جائے۔ گروہ انسانی کو تو اپنے روزمرہ کاموں اور ابلاغ کے لیے زبان کی احتیاج ہے مگر اپنی اصلیت کے اعتبار سے زبان کو اس قسم کی بیساکھیوں کی ہرگز ضرورت نہیں۔ جس طرح فطرت خود بہ خود لالے کی حنا بندی کا فریضہ انجام دیتی ہے اسی طرح زبانیں بھی فطری انداز میں نشو و ارتقا کے مدارج طے کرتی ہوئی اوج کمال تک پہنچتی ہیں۔ زبان کو در اصل ایک سماجی ادارے کی حیثیت حاصل ہے۔ تاہم یہ حقیقت پیش نظر رہنی چاہیے کہ اس کی نوعیت دوسرے سماجی اداروں سے یکسر مختلف ہے۔ اس کو تمام سماجی اداروں میں محوری حیثیت حاصل ہے۔ جس طرح ملا اور مجاہد کی اذاں میں فرق ہوتا ہے اسی طرح ہر سماجی ادارے کی ضروریات لسانی حوالے سے جداگانہ خیال کی جاتی ہیں۔ سوسئیر نے زبان کے نظام اور اس کے اشارات کے بارے میں اپنے خیالات کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے:
“A language is a system of signs expressing ideas, and hence comparable to writing, the deaf -and -dumb alphabet, symbolic rites, forms of politeness, military signals, and so on. It is simply the most important of such systems. It is therefore possible to conceive of a science which studies the role of signs as part of social life. It would form part of social psychology, and hence of general psychology. We shall call it semiology.” (28)
اُردو زبان اور دکنی زبان کے بعض محققین کا خیال ہے کہ ہندی کھڑی بولی کی ایک ترقی یافتہ صورت ہے۔ اُن کی رائے ہے کہ جہاں تک دکنی کا تعلق ہے اس کے بھی کھڑی بولی سے گہرے لسانی روابط دکھائی دیتے ہیں۔ تاریخی تناظر میں بر صغیر میں مروّج مختلف زبانوں کے لسانی ارتقا کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ اس خطے میں کھڑی بولی کی صورت میں ایک ایسی ہندوستانی زبان وجود میں آ گئی تھی جو جغرافیائی اور لسانی حصار سے نکل کرصوبہ جاتی زبانوں کو کسی قسم کاگزند پہنچائے بغیر مشترک قومی زبان کے طور پر اظہار و ابلاغ کا موثر وسیلہ ثابت ہوئی۔ اس کے علاوہ یہ حقیقت بھی سب کے سامنے ہے کہ ہندوستانی زبانوں میں تخلیق ہونے والے ادب پر فارسی زبان کے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ بر صغیر میں بولی جانے والی مقامی زبانوں اور فارسی زبان کے ملاپ کے اعجاز سے کھڑی بولی ہندی کو ایسے انداز میں پروان چڑھنے کا موقع ملا جس پر فارسی، عربی اور ترکی زبان کے الفاظ کا غلبہ تھا۔ سولہویں صدی عیسوی کے وسط میں بیجا پور اور گول کنڈہ کے ادیبوں اور شاعروں کی تخلیقی فعالیت اسی زبان زیادہ تر اسی زبان کے مدار میں سرگرم عمل رہی۔ اس طرح ایک صدی کے لسانی عمل کے نتیجے میں اسی زبان کے تخلیق کاروں کو پرورش لوح و قلم کے لیے ایک منفرد وسیلۂ اظہاردستیاب ہو گیا۔ ماہرین لسانیات نے دکنی زبان اور جدید دور میں مستعمل اردو زبان میں پائے جانے والے فرق کی صراحت کر دی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ گرامر اور صرف و نحو میں کچھ فرق موجود ہے۔ چندر دھر شرما گلیری کا خیال ہے کہ کھڑی بولی یا پکی بولی یا ریختہ یا موجودہ ہندی کے ابتدائی دور کی نثر اور نظم کو دیکھ کر یہی جان پڑتا ہے کہ اردو زبان سے عربی اور فارسی زبان کے اسما و افعال کے بجائے سنسکرت کو جگہ دے کر ہندی کو وضع کیا گیا۔ ماہرین لسانیات کی تحقیق بھی عجیب کشمکش کی مظہر ہے جس وقت سوز و ساز رومی کو مد نظر رکھیں تو زبان کا حصار پورے شمالی ہند کی زبانوں تک پھیلا کر مسرت وشادمانی کا اظہار کرتے ہیں اور جب پیچ و تاب رازی کے زیر اثر ہوں تو لسانیات کے دریا کو سمیٹ کر مغربی ہندی یا کھڑی بولی کے کوزے میں بند کر کے لسانیات کے طالب علموں کوحیران کر دیتے ہیں۔ اکثر ماہرین لسانیات کا اس امر پر اتفاق ہے کہ دکنی ارد وجسے دہلی میں پزیرائی ملی اس کے سوتے کھڑی بولی ہی سے پھوٹتے ہیں۔ اس کے باوجود کئی حقائق ایسے ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دہلی کی معیاری زبان نے محض کسی ایک زبان پر انحصار نہیں کیا بل کہ متعدد زبانوں سے خوشہ چینی کی۔ تاریخ کا ایک وسیع، ہمہ گیر اور پیہم رواں عمل ہوتا ہے جو محض انسانی فکر و خیال اور فعالیتوں تک محدود نہیں رہتا بل کہ اس کائنات کے جملہ مظاہر اور ان کے پس پردہ کارفرما عوامل کی گرہ کشائی بھی اسی کا کرشمہ ہے۔ تاریخ کے اسی مسلسل عمل کو سامنے رکھتے ہوئے شکاگو یونیورسٹی کے پروفیسر اور لسانی محقق کولین پی ماسیکا (Colin P Masica) نے کھڑی بولی کی ساخت کے بارے میں لکھا ہے:
“Thus along with, Kausrvi, Hariyanvi, Punjabi, Rajasthani (Mewati), Braj and other influences have gone into making Khari Boli- the last especially during the century (1566-1658) when the imperial capital moved to Agra, in the heart of the Braj country.” (29)
بر صغیر میں اٹھارہویں صدی عیسویں کے آغاز میں یورپی اقوام کی آمد کے بعد اس خطے میں کھڑی بولی ہی کو اپنایا گیا۔ برطانوی استعمار کے بعد بھی انتظامیہ نے کھڑی بولی کو رابطے کی زبان کا درجہ دیا۔ دکن کی سر زمین سے ادب اور فنون لطیفہ کے فروغ کی جن مساعی کا آغاز ہوا وہ رن لائیں اور شمالی ہند میں بھی ان کی باز گشت سنائی دی۔ سنیتی کمار چیٹر جی کا خیال ہے کہ یہ دکن ہی تھا جہاں سے تخلیق ادب کو نئے آفاق تک رسائی کا موقع ملا اور شمالی ہند کے لیے ایک لائق تقلید مثال پیش کی۔ بر صغیر میں ادبیات کی تاریخ کے طالب علموں کے لیے یہ امر حیران کن ہے کہ دکنی ادبیات اور دکنی مصنفین کے بارے میں تحقیق کی صورت حال اب تک بالعموم غیر امید افزا رہی ہے۔ دکنی زبان کے ارتقا اور اس قدیم زبان کے ادب کے فروغ میں دلچسپی رکھنے والے سرابوں کی صعوبتیں برداشت کر کے راستے سے بھٹک کر سفاک ظلمتوں میں ٹامک ٹوئیے مارتے پھرتے ہیں۔ بر صغیر کے نو آموز محققین نے کاتا اور لے دوڑا کی روش اپنا رکھی ہے۔ دکنی ادب پر عاجلانہ تحقیق کی غیر محتاط روش اور تہی دامنی جو عجب گُل کھِلا رہی ہے اس کی ایک مثال پیش کی جا رہی ہے تا کہ ثبوت اور تنقید کی روشنی میں تاریخ ادب سے وابستہ حقائق تک رسائی کی کوئی صورت پیدا ہو سکے۔ اردو زبان کے ممتاز محقق نصیر الدین ہاشمی (1895-1964) کی اہم کتاب ’دکن میں اردو‘ میں درج ذیل غزل کو نصرتیؔ کی تخلیق بتایا گیا ہے۔ اس غزل کے مطلع اور مقطع سے شعری تخلیق کے بارے میں تمام صورت حال واضح ہے۔ ادبی تخلیقات کے اجتماعی مواد اور انفرادی اسلوب میں دلچسپی رکھنے والے ادب کے سنجیدہ قارئین کے لیے یہ تقابلی مطالعہ اِحتساب ذات کے نئے امکانات سامنے لا سکتا ہے:
پیا بِن پیالہ پیا جائے نا
پیا باج یک تِل جیا جائے نا
غواصیؔ نہ دے توں دیوانے کوں پند
دیوانے کوں پند دیا جائے نا (30)
سید احتشام حسین رضوی (1912-1972) کی کتاب ’اردو ادب کی تنقیدی تاریخ‘ کے مطابق محولہ بالا غزل قلی قطب شاہ کی تخلیق ہے۔ ذیل میں اس غزل کے مطلع اور مقطع سے حقیقت واضح ہو جائے گی اور زمانہ ماضی کے ذہن اور شعور کو حقیقی تناظر میں دیکھنے کی صورت پیدا ہو گی۔
پیا باج پیالہ پیا جائے نا
پیا باج اِک تِل جیا جائے نا
قطب شہ نہ دے مجھ دوانے کو پند
دوانے کو کچھ پند دیا جائے نا (31)
ڈاکٹر جمیل جالبی (1929-2019) کی تصنیف ’’تاریخ ادب اردو‘‘ کی جلد اول میں درج ذیل شعر قلی قطب شاہ کی تخلیق قرار دیا گیا ہے:
پیا باج پیالا پیا جائے نا
پیا باج ایک پل جیا جائے نا (32)
اس صورت حال کو دیکھ کر خامہ انگشت بہ دنداں ہے کہ اس موضوع پر اپنے تاثرات کیسے زیب قرطاس کیے جائیں اور ناطقہ سر بہ گریباں ہے کہ اس نوعیت کی مبہم آراکے بارے میں گل افشانی ٔ گفتار کا اندازکیا ہو گا؟
دکنی زبان اور ادب اس خطے کی تاریخ اور تہذیب کی پہچان ہے۔ سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑوں کی زد میں آ کر اقوام کی قوت و ہیبت، جاہ و حشمت اور سطوت کے سفینے تو غرقاب ہو سکتے ہیں مگر تہذیب و ثقافت اور تمدن و معاشرت اندیشۂ زوال سے نا آشنا ہے۔ تاریخ کا مطالعہ ذہن و ذکاوت کو صیقل کر کے فکر و خیال کو مہمیز کرتا ہے۔ تاریخی حقائق کی تحقیق اور تجزیے سے اذہان
کی تطہیر و تنویر کا اہتمام ہوتا ہے۔ مطالعہ ادب میں بھی تاریخی حقائق کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ قارئین کے ذہن و شعور کو فہم و ادراک سے متمتع کرنے میں تاریخ اور اس کا پیہم رواں عمل کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔
لسانیات کے ارتقا کو سمجھنے کے لیے تخلیق ادب اور تخیل میں جو گہرا تعلق ہے اُسے سمجھنا نہایت ضروری ہے۔ اسی تعلق کے اعجاز سے تخلیقی فعالیت تصوراتی مواد سے متمتع ہوتی ہے۔ عملی زندگی کے تجربات، مشاہدات اور تخیلات کے ادب اور فنون لطیفہ پر دُور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ فکر و خیال کی دنیا کے انداز بھی نرالے ہوتے ہیں جہاں ہر لحظہ نیا طُور نئی برق تجلی کی کیفیت تخلیقی عمل کو مہمیز کرتی ہے۔ اس کے معجز نما اثرسے تکلم کے سلسلے اور اسالیب بیان میں جدت اور تنوع کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے۔ مستشرقین نے بر صغیر میں بولی جانے والی زبانوں کے بارے میں اپنی بے لاگ رائے دی ہے۔ اُن کی فکر پرور اور بصیرت افروز تحریروں میں مسائل زیست، معاشرتی اور سماجی زندگی کے نشیب و فراز، تعلیم و تربیت، ادیان عالم، تاریخ اور تخلیق ادب کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے وہ اُن کی وسیع النظری کی دلیل ہے۔ اُنھوں نے ادب کو زندگی کی تنقید کے حوالے سے دیکھا اور اس کے دائرہ کار کووسعت دی۔ مثال کے طور پر میتھیو آرنلڈ نے فرانسیسی زبان کے ادب کوکلاسیک کی روح کے قریب قرار دیا۔ فرانسیسی تنقید کو نیا آہنگ عطا کرنے والے نقاد بولو Nicolas Boileau-Despréaux (Nicolas Boileau: 1636-1711)) نے اپنی تحریروں میں جس مثالی کلاسیکیت کا ذکر کیا ہے اس میں فرد کو غیر معمولی اہمیت کاحامل قرار دیا گیا ہے مگر میتھیو آر نلڈ کی کلاسیکیت اس سے مختلف نوعیت کی ہے۔ میتھیو آرنلڈ نے رومانی آزادی کو تو بہ نظر تحسین دیکھا مگر اس کے ساتھ ہی اس نے یونانی مفکرین کے زیر اثر رہتے ہوئے رومانی آزادی میں توازن کو برقرار رکھنے پر اصرار کیا ہے۔ اردو اور دکنی زبان کے کلاسیکی ادب کا استحسان کرتے وقت میتھیو آرنلڈ کے تنقیدی خیالات کا مطالعہ کریں تو جو اہم امور سامنے آتے ہیں ان کا جائزہ لینے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ معاشرتی زندگی میں اصلاح کو پیش نظر رکھتے ہوئے میتھیو آرنلڈ کا خیال ہے کہ ادب اور فنون لطیفہ کی اہمیت و افادیت سائنس و ٹیکنالوجی سے وابستہ علوم سے کہیں بڑھ کر ہے۔ میتھیو آرنلڈ نے علم و ادب کی جولاں گاہ کو لامحدود قرار دیا۔ اس کا خیال تھا کہ ادب کو جغرافیائی حدود کے حصار میں بند کر ناکسی صورت میں ممکن ہی نہیں۔ ادب کی فضائیں زندگی سے تہی نہیں بل کہ اس کے سامنے سیکڑوں اور آسمان بھی ہیں۔ ادب کو رنگ، نسل، زبان اور کسی خاص خطے سے وابستہ کرنا اس کی حقیقی قدر و قیمت کو کم کر دیتا ہے۔ فکر انسانی کو میتھیو آرنلڈ بحرِ بے کراں سمجھتا ہے اسے کسی جزیرے کے مانند سمجھنا ایام کا مرکب بن کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا رہنے کے مترادف ہے۔ میتھیو آر نلڈ نے ادب میں جمود، بے عملی اور بے حسی کے خاتمے کی غرض سے جرأت اظہارکی اہمیت کو اجاگر کیا۔ ادب کی آفاقی اور کائناتی اہمیت کو اجاگر کرنے کے سلسلے میں رفتگاں کی یاد اور ان کی تخلیقات کی خوشہ چینی کرتے ہوئے ممتازجرمن شاعر گوئٹے (: 1749-1832 Johann Wolfgang von Goethe)کی طرح میتھیو آرنلڈ کی مساعی کو ہر عہد میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ میتھیو آر نلڈکی گوئٹے سے قلبی وابستگی اور والہانہ محبت کا سبب یہ ہے کہ اس جرمن شاعر نے قدیم ثقافت اور ازمنہ قدیم کے شعرا کی تقلید کو ہمیشہ اپنا نصب العین بنایا۔ ہر قسم کے امتیازات اور تعصبات کو پس پشت ڈال کر وسیع النظری کا ثبوت دیتے ہوئے اس عالمِ آب و گِل کے مظاہر اور یہاں کی اشیاکی حقیقت اور ان کی ماہئیت کی تہہ تک پہنچنے اور اس کی لفظی مرقع نگاری کرنے کا جو انداز گوئٹے نے اپنا یا وہ میتھیو آر نلڈ کو بہت پسند تھا۔ انسان کامل کو جو تصور میتھیو آر نلڈ نے پیش کیا اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ قدیم مفکرین کے افکار سے متاثر ہے۔ اردو اور دکنی کے قدیم تخلیق کاروں نے انسان کو مجموعی اور کلی حیثیت سے دیکھنے کی سعی کی جب کہ نئے دور میں انسان کی شخصیت کا صرف جزوی مطالعہ کیا جاتا ہے۔ مرزا اسداللہ خان غالبؔ نے سچ کہا تھا:
بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
دکنی ادب کا مطالعہ کرتے وقت عالمی کلاسیک کے مسلمہ معائر سے آگاہی نا گزیر ہے۔ تنقیدی مباحث کے حوالے سے میتھیو آر نلڈ نے نقاد کی ذہانت، دیانت، ہرقسم کی عصبیت سے پاک انصاف پسندی، لچک، وسعت نظر، حریت فکر اور جرأت اظہار کو صحت مند تنقید کے لیے ناگزیر قرار دیتا ہے۔ انسان شناسی میں ادب کے کردار کو زیر بحث لاتے ہوئے میتھیو آر نلڈ نے اس امر کی جانب متوجہ کیا ہے کہ ادب انسان کی شخصیت اور کردار کی تعمیر و تشکیل کا فریضہ انجام دیتا ہے۔ یہ ادب ہی ہے جو تعلیم و تربیت، انسان کامل کی تشکیل، عرفان ذات کی صلاحیت، خود آگاہی کے اوصاف، تجربات و مشاہدات کے بعد سوچ بچار، مسائل زیست کی تفہیم اور آثار مصیبت کے احساس سے متمتع کرتا ہے۔ تخلیق ادب میں مواد اور ہئیت کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ میتھیو آر نلڈ نے ادب پارے میں مواد اور ہئیت کا توازن اور اعتدال پر زور دیا۔ اس کاخیال تھا کہ اگر تخلیق فن کے لمحوں میں ایک تخلیق کار ارتکازِ توجہ سے مواد اور ہئیت کی وحدت کو یقینی بناتا ہے تو ادب پارہ روح اور قلب کیا تھاہ گہرائیوں میں اُتر جانے والی اثر آفرینی کے اعجاز سے پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کالوہا منوا لیتا ہے۔ جب تخلیق کار اس طرح ید بیضا کا معجزہ دکھاتا ہے تو ایسا ابد آشنا ادب پارہ تخلیق ہوتا ہے جو لوحِ جہاں پر اپنا دوام ثبت کر دیتا ہے۔ تاریخ کے مسلسل عمل پر نظر رکھتے ہوئے میتھیو آر نلڈ نے قدیم ادب کے استحسان پر بھی توجہ دی۔ اس کا خیال ہے کہ ہمارے اسلاف نے اس کائنات کے تمام مظاہر اور اشیا کی حقیقی تفہیم میں اپنے ذہن و ذکاوت کو استعمال کرتے ہوئے جس دیانت اور بے باک صداقت کو شعار بنایا وہ ان کی منصف مزاجی کا ثبوت ہے۔ اپنی تخلیقی فعالیت کے ذریعے ایک زیرک شاعر امر واقعہ کے بجائے بالعموم اپنے تخیل کی جولانیوں سے زندگی کی تنقید اور تعبیر پرتوجہ دیتا ہے۔ دکنی زبان کے قدیم شعرا کے اسلوب کا مطالعہ کرتے وقت تنقید کے مسلمہ اصولوں کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ کسی بھی زبان کے شاعر کے اسلوب کے بارے میں میتھیو آرنلڈ نے لکھا ہے:
“Poets who can not work in the grand style instinctively seek a style in which their comparative inferiority may feel itself at ease, a manner which may be, so to speak, indulgent to their inequalities.” (33)
شاعری کی تخلیق کے حوالے سے میتھیو آرنلڈ نے اس حقیقت کی جانب متوجہ کیا ہے کہ شاعر تخلیق فن کے لمحوں میں اشہب قلم کی جولانیاں دکھاتے وقت خیالات کو زادِ راہ بناتا ہے۔ یہ اس کے ارفع خیالات ہی ہیں جن کی اساس پر وہ اپنے افکار کا قصر عالی شان تعمیر کرتا ہے۔ یہ شاعری ہی ہے جو سائنسی علوم کے فروغ اور تکمیل میں ممد و معاون ثابت ہوتی ہے۔ شاعری کی افادیت سے لبریز ہمہ گیر اثر آفرینی اور افادیت کو دیکھتے ہوئے مذہب اور فلسفہ بھی شاعری کی کسوٹی سے بے نیاز نہیں رہ سکا۔ اس صورت حال میں مذہب اور فلسفہ کا مطالعہ اور تنقید خضر راہ کا فریضہ انجام دیتی ہے اور منضبط انداز میں خیالات کو اظہار و ابلاغ کے مواقع سے آشنا کرتی ہے۔ شاعر پامال راہوں سے بچتے ہوئے غیر مانوس، ناقابل فہم، دقیانوسی اور ناقابل عمل خیالات کو بارہ پتھر کر کے افکارِ تازہ کی مشعل فروزاں کر کے سفاک ظلمتوں کو کافور کر کے جہانِ تازہ کی جانب روشنی کے سفر کا آغاز کرتا ہے۔ روح اور قلب کی گہرائیوں میں اُتر جانے والے زندگی آموز اور زندگی آمیز خیالات اذہان کی تطہیر و تنویر کا موثر وسیلہ ثابت ہوتے ہیں۔ شاعر کی دلی تمنا ہوتی ہے کہ تخلیق فن کے لمحوں میں وہ خون بن کے رگِ سنگ میں اُتر جائے۔ زندگی کی حرکت و حرارت کی مظہر ایسی شاعری دلوں کو ایک ولولۂ تازہ عطا کر کے فکر و نظر کو مہمیز کرتی ہے۔ ایسی شاعری سنگلاخ چٹانوں، جامد و ساکت پتھروں اور بتوں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتی ہے۔ میتھیوآر نلڈ نے ایسی شاعری کے بارے میں لکھا ہے:
” The future of poetry is immense because in poetry, where it is worthy of its high destinies, our race, as time goes on, will find an ever surer and surer stay. There is not a creed which is not shaken,not an accredited dogma which is not shown to be questionable, not a received tradition which does not threaten to dissolve. Our religion has materialized itself in in the fact, in supposed fact; it has attached its emotion to the fact, and now the fact is failing it. But for poetry the idea is everything; the rest is a world illusion, of divine illusion. Poetry attaches its emotion to the idea; the idea is the fact. The strongest part of our religion to-day is its unconcious poetry.(34)
شاعری کا جائزہ لینے کے لیے میتھیو آر نلڈ نے جن تین معائر کی نشان دہی کی ہے ان میں تاریخی جائزہ، ذاتی جائزہ اور حقیقی جائزہ شامل ہیں۔ اُس کا خیال ہے کہ ازمنہ قدیم کے کلاسیکی شعرا کے اسالیب کا تاریخی تناظر میں جائزہ لیتے وقت ان کی قدامت کو غیر معمولی اہمیت دی جاتی ہے۔ رفتگاں کی یاد، قدامت کی قدر اور عقیدت کی رو میں محاکمہ بالعموم صحیح سمت برقرار نہیں رکھ سکتا۔ جہاں تک ذاتی جائزے کا تعلق ہے اس میں بھی نقاد کی ذاتی پسند و نا پسند اور کسی تخلیق کے بارے میں ذاتی ترجیحات کی مظہر غیر محتاط رائے حقائق کی تمسیخ اور صداقتوں کی تکذیب پر منتج ہو سکتی ہے۔ میتھیو آر نلڈ نے تاریخی جائزے اور ذاتی جائزہ کو کبھی لائق اعتنا نہ سمجھا بل کہ حقیقی جائزے کو مفید اور مستحسن قرار دیا۔ اس نے واضح کیا کہ ادب پاروں کا حقیقی جائزہ ہی وہ مقیاس ہے جو دنیا کی کسی زبان کی ادبی تخلیق کے حسن و قبح کو سامنے لانے کا موثر ترین وسیلہ ہے۔ ادب اور فنون لطیفہ کے استحسان کے سلسلے میں حقیقی جائزہ ید بیضا کا معجزہ دکھاتا ہے۔ اسی کے وسیلے سے ذوق سلیم سے متمتع قاری کسی تخلیق میں موجود رنگ، خوشبو اور حسن و خوبی کے جملہ استعاروں سے آگہی حاصل کر کے ان سے حظ اُٹھا سکتا ہے۔ تخلیق ادب میں شرافت کے مظہر خلوص کی جلوہ گری کے لیے میتھیو آرنلڈ نے سخت نوعیت کا کوئی خاص اصول وضع کرنے سے بالعموم گریز کیا۔ اس کا خیال تھا بیرونی مداخت سے مسلط کیے گئے اس قسم کے ناقابل عمل اصول اور سخت قواعد و ضوابط سے تخلیق ادب کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ ادب میں عظمت فکر، شرافت، وضع داری اور اثر آفرینی کا تعلق تو تخلیق کار کی خود شناسی، خود اعتمادی، خود احتسابی اور وسعت نظر سے ہے۔ اگر تخلیق کار کذب و افترا اور ریاکاری سے اپنا دامن آلودہ نہ ہونے دے تو ستاروں پہ کمند ڈال سکتا ہے اور تخلیقِ ادب کو مقاصد کی رفعت کے اعتبار سے ہم دوشِ ثریا کر سکتا ہے۔ تخلیق ادب میں تنقید اور ثقافتی اقدار کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے میتھیو آرنلڈ نے اس جانب اشارہ کیا ہے کہ تنقید اور ثقافت کو ان سب عوامل کی گرہ کشائی کرنے پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے جن سے ماضی اور حال کے خیالات نے نمو پائی۔ اس کے علاوہ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ وہ سب امور جو اپنی اکملیت کی وجہ سے لوحِ جہاں پر اپنا دوام ثبت کر چکے ہیں ان کی کامیابی کا راز کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ثقافت اور تنقید کو عصبیت و تشدد سے دامن بچاتے ہوئے ان عوامل کا کھوج لگانا چاہیے جن کے باعث سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑے ماضی کی متعدد روایات کو خس و خاشاک کے مانند بہا لے گئے۔ اس کا خیال ہے کہ تنقید اس وقت مبہم اور ناقابل عمل صورت اختیار کر لیتی ہے جب اسے اثر پذیری کی تمنا میں چاپلوسی سے آلودہ کر دیا جائے اور پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت قارئین کو ادب پارے کے مطلوبہ مفاہیم تک رسائی اور ان پر قانع رہنے کے مالکانہ حقوق تھما دئیے جائیں۔
شرافت، دیانت اور محنت سے مزین عظیم الشان اسلوب کے بارے میں میتھیو آرنلڈ نے یہ بات بر ملا کہی ہے کہ ایسے ابد آشنا اسلوب تک رسائی حاصل کرنابہت کٹھن مر حلہ ہے۔ ستاروں پر کمند ڈالنے والوں کی سانس راہ ہی میں اُکھڑ جاتی ہے۔ عظیم الشان اسلوب کی وضاحت کرتے ہوئے میتھیو آر نلڈ نے لکھا ہے:
The grand style is the last matter for verbal definition to deal with adequately. One may say of it as is said of faith, one must feel it in order to know what it is. But as of faith, so too one may say of nobleness, of grand style. Woe to those who know it not! Yet this expression, though indefinable, has a charm; one is better for considering it; bonnum est, nos hic esse;nay, loves to try to explain it, though one knows that one must speak imperfectly .(35)
دکنی زبان کے قدیم ادب کا جائزہ لیتے وقت میتھیو آرنلڈ کے خیالات قاری کو سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ ایک جری نقاد کی حیثیت سے میتھیو آر نلڈنے جو تنقیدی معائر پیش نظر رکھے وہ اس کی ذہانت اور بے باک صداقت کے مظہر ہیں۔ اس نے تنقید کو جو آہنگ عطا کیا اس کے معیار کے بارے میں دو رائیں نہیں ہو سکتیں۔ یہ امر حیران کن ہے کہ اپنے تنقیدی معائر پر عمل پیرا رہتے ہوئے بھی بعض اوقات وہ بے اعتدالی کا شکار ہو جاتا ہے۔ میتھیو آرنلڈ نے معاشرتی زندگی کے تضادات پر گرفت کی اور معاصر تنقید کی خامیوں کی جانب توجہ دلائی۔ اس کی تنقید پر گوئٹے، رینان اور سانت بیو کے اثرات کا پتا چلتا ہے۔ ادب میں جمالیاتی عنصر کو دبانے کی خاطر اس نے اخلاقی عنصر کی اہمیت و افادیت کو مبالغہ آمیز انداز میں پیش کیا۔ انگریزی زبان کی تنقید میں اخلاقیات کی تدریس کا جو ارفع معیار فلپ سڈنی (1554-1586: Philip Sidney) کی تحریروں میں پایا جاتا ہے وہ میتھیو آرنلڈ کی تحریروں سے زیادہ موثر ہے۔ میتھیو آر نلڈ زندگی بھر نہایت تحمل اور سنجیدگی سے پرورش لوح و قلم میں مصروف رہا۔ کوئی ادبی مہم جُو جب بھی بہتان طرازی اور الزام تراشی کی غرض سے اس کی طرف یلغار کرتا تو وہ اسے بالعموم نظر انداز کر دیتا۔ اس کا خیال تھا کہ نقاد کو اپنے خلاف سادیت پسندی پر مبنی ایسے بغض و عناد، بے معنی حرف گیری اور بے وقعت الزام تراشی کو کبھی لائق اعتنا نہیں سمجھنا چاہیے۔ اس نے واضح کیا کہ شاعری کے نقاد کو بے باک صداقت کو شعار بنانے والا بہترین مدبر، لچک دار سوچ سے متمتع بہترین اعتدال پسند، قابل فہم اور متنوع تصورات کو پروان چڑھانے والا دانش ور، تناقضات کو ختم کرنے والا مصلح اور منصف مزاج مورخ ہونا چاہیے۔ ایک جری نقاد کا تبحر علمی واضح طور پر غلط سمت میں لے جانے والے فرسودہ خیالات پر مبنی جہالت اور جعل سازی کو خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتا ہے۔ عظیم ترین اسلوب کے فروغ کے لیے کام کرنے والے اس نقاد نے ذوق سلیم کی نمو کے لیے جو بے مثال جد جہد کی اس کی بنا پر تاریخ ہردور میں اس کے نام کی تعظیم کرے گی۔ مادی دور کی لعنتوں سے آلودہ ہو جانے والی معاشرتی زندگی کا المیہ یہ ہے کہ چور محل میں جنم لینے والے مارِ آستین چور دروازے سے گھس کر جاہ و منصب پر غاصبانہ قبضہ کر لیتے ہیں۔ یہ بونے مختلف سیڑھیاں استعمال کر کے پنے تئیں باون گزے ثابت کرنے پر تُل جاتے ہیں اور رواقیت کے داعی بن کر لاف زنی شروع کر دیتے ہیں۔ ان کے بے سروپا سلسلۂتکلم کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ ان کی جہالت نے ان کی مانگے کی علمیت اور جعلی ڈگریوں پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ جس بے حس معاشرے میں جاہل کو اس کی جہالت کا انعام ملنے لگے وہاں وقت کے اس قسم کے سانحات کو کس نام سے تعبیر کیا جائے۔ عقیدت کی اداکاری کرنے والے طوطاچشم بروٹس کو دیکھ کر کف افسوس ملنے والے وقت کے ہر سیزر کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ قدر نا شناس کے ساتھ گزارا جانے والا وقت رائے گاں ہی جاتا ہے۔ چربہ ساز، سارق، جعل ساز، کفن دُزد اور لفاظ حشرات ادب کی کینہ پروری پر مبنی الزام تراشی کے جواب میں میتھیو آر نلڈ نے جو بات کہی تھی وہ صداقتوں کی تکذیب اور حقائق کی تمسیخ کرنے و الے ہر پیمان شکن درندے، دغا باز محسن کش اور برادرانِ یوسف کے لیے نوشتۂ دیوار کے مانندہے:
(36) ” You shall die in your sins ”
ادب میں موضوع ہو یا مواد، افکار ہوں یا تصورات سب کے سب پیہم ارتقا ئی مدارج طے کرتےر ہتے ہیں۔ زندگی کی یہ برق رفتاریاں اور اسالیب بیان کی یہ بو قلمونیاں زبان حال سے فریب خیال کو متنبہ کر کے یہ کہتی ہیں کہ طلوع صبح بہاراں سرابوں کے عذابوں کے سوا کچھ بھی نہیں ابھی تو سیکڑوں دورِ فلک آنے والے ہیں۔ علامہ اقبال نے کہا تھا:
یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شاید
کہ آ رہی ہے دما دم صدائے کن فیکون
سیلِ زماں کے تھپیڑے تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلوں کو خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتے ہیں۔ سلطان ابوا لحسن کے عہد میں مغل شہنشاہ اورنگ زیب (1618-1707) نے گول کنڈہ پر دھاوا بول دیا۔ گول کنڈہ کے قلعہ کا آٹھ ماہ تک محاصرہ جاری رہا۔ مغل فوج کے سراغ رساں مخالف فوج کے ایک نمک حرام، محسن کش، پیمان شکن اور آستین کے سانپ بروٹس کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ قطب شاہی فوج کا اس غدار سالار کا نام سر انداز خان تھا۔ اس ابن الوقت سالار نے ضمیر فروشی کر تے ہوئے اپنے محسن کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اور دشمن کے ساتھ مِل گیا۔ اِس سازش کے نتیجے میں سلطان ابو الحسن کی افواج کو شکست سے دو چار ہونا پڑا اور سال 1687 ء میں مغل افواج نے قلعہ گول کنڈہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ فاتح مغل شہنشاہ اورنگ زیب(عہد حکومت: 1658-1707) کے حکم پر گول کنڈہ کے بادشاہ سلطان ابوا لحسن کو دولت آباد کے قلعہ میں پابند سلاسل کر دیا گیا اور گزر اوقات کے لیے معز ول بادشاہ کے لیے پنشن مقرر کر دی گئی۔ دکن میں حکومت کے زوال کے ساتھ ہی دکنی زبان کا آفتاب اقبال بھی گہنا گیا۔
٭٭
مآخذ
(1) حافظ محمود شیرانی: پنجاب میں اُردو، سلسلہ انجمن ترقی اردو اسلامیہ کالج، لاہور، سال اشاعت درج نہیں، صفحہ 22۔
2. G.A Grierson: Linguistic Survey Of India, Vol.IX, Calcutta,1916, page,55.
3. Amresh Datta (chief Editor): Encyclopedia of Indian Literature, Volume I , Sahitya Akademi, Delhi, 2003, Page 836 .
(4) شیخ احمد شریف گجراتی: مثنوی یوسف زلیخا، (مرتبہ سیدہ جعفر ڈاکٹر) حیدرآباد دکن، 1983، صفحہ 124۔
(5) ابواللیث صدیقی ڈاکٹر: جامع القواعد (حصہ صرف)، لاہور، مرکزی اردو بورڈ، بار اول، 1971 صفحہ 72۔
6. Welseley Haig: The Cambridge History Of India. Vol III, Cambridge University Press, London, 1928, Page, 439.
(7)۔ جمیل جالبی ڈاکٹر: تاریخ ادب اردو (اٹھارہویں صدی) جلد دوم، حصہ اول، دہلی، ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، 1984، صفحہ 25۔
(8) سیدہ جعفر: تاریخ ادب اردو، جلد اوّل، حیدر آباد، سال اشاعت 2012، صفحہ 2۔
(9) محمد حسین آزادؔ : آب حیات، لاہور، مطبع نول کشور، 1907، صفحہ 87۔
(10) قاضی عبدالودود: محمد حسین آزاد بہ حیثیت محقق، پٹنہ، تحقیقات اُردو، نقش ثانی، 1984، صفحہ 2۔
(11) نصیر الدین ہاشمی: دکھنی(قدیم اردو)کے چند تحقیقی مضامین، دلی، آزاد کتاب گھر کلاں محل، بار اول، 1963، صفحہ 176۔
(12) نصیر الدین ہاشمی: دکن میں اردو، لاہور، مکتبہ معین الادب، چوتھی بار، 1952، صفحہ 19۔
(13) مولوی عبدالحق ڈاکٹر (مرتب): سب رس، مصنف ملا وجہی، کراچی، انجمن ترقی اردو پاکستان، 1952، طبع دوم، صفحہ 70۔
(14) مولوی عبدالحق ڈاکٹر (مرتب): سب رس، مصنف ملا وجہی، صفحہ 80
(15) مولوی عبدالحق ڈاکٹر (مرتب): سب رس، مصنف ملا وجہی، صفحہ 93
(16) شوکت سبزواری ڈاکٹر: لسانی مسائل، کراچی، مکتبہ اسلوب، اشاعت اول، 1962، صفحہ 78۔
17. Jamal Malik: Islam In South Asia, Brill, Boston, 2008, Page 283.
Heory Frowde (Publisher): The Imperial Gazetteer Of India, Vol,I, Oxford,London 1909,Page 362
19. Romila Thoper: The Penguine History Of Early India, London, 2002, Page 113.
20. Keith Brown: Concise Encyclopedia Of Languages Of The World, London, 2009, Page 498
(21) جمیل جالبی ڈاکٹر: تاریخ ادب اردو، جلد اوّل، دہلی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، طبع دوم، 1986، صفحہ 200۔
(22) سیدہ جعفر ڈاکٹر: تاریخ ادب اردو، جلد اوّل، حیدرآباد، 2002، صفحہ، 10۔
(23) سیدہ جعفر۔ گیان چند جین: تاریخ ادب اردو، جلد اول، دہلی، قومی کونسل برائے فروغ اردو، 1998، صفحہ، 54۔
24. George Cardona: The Indo-Aryan Languages, Routledge, New York, 2007, Page 289.
(25) شوکت سبزواری ڈاکٹر: داستان زبان اردو، کراچی، انجمن ترقی اردو پاکستان، بار اول، 1960، صفحہ، 188۔
26. Terry Eagleton: Literary Theory, Minnesota Press USA, 1996, Page 84-
27. Terry Eagleton: Literary Theory, Page 84-
28. David Lodge: Modern Criticism and Theory, Pearson Education, Singapore, 2003, Page 8-
29. Colin P. Masica: The Indo -Aryan Languages, Cambridge University Press, London, 1993, Page 28.
(30) نصیر الدین ہاشمی: دکن میں ارد و، حیدر آباد دکن، مکتبہ ابراہیمیہ، سال اشاعت 1936، صفحہ 71۔
(31) سید احتشام حسین: اردو ادب کی تنقیدی تاریخ، دہلی، قومی کونسل برائے فروغ ارد و، 1999، صفحہ 36۔
(32) جمیل جالبی ڈاکٹر: تاریخ ادب اردو، جلد اول، صفحہ 439۔
33. Matthew Arnold: On Translating Homer, George Routledge & Sons Limited , London, 1862, Page 49
34. Matthew Arnold: Essays In Criticism, Page 279
35. Matthew Arnold: On Translating Homer Page 249
36. Matthew Arnold: On Translating Homer Page 249