حیدر آباد دکن سے اُردو کی صاحب دیوان شاعرہ ماہ لقا چندا (1768-1824) نے اورنگ آباد (مہاراشٹر) میں جنم لیا۔ اس کی تاریخ پیدائش 7۔ اپریل 1768ء ہے۔ اس کی ماں راج کنور کا تعلق راجپوتانہ سے تھا اور وہ اپنے عہد کی مقبول رقاصہ اور مغنیہ تھی۔ ماہ لقا بائی چند کا باپ ’بہادر خان‘ محمد شاہ کے عہد میں منصب دار تھا۔ ماہ لقا بائی چندا کا دیوان ’’گلزارِ ماہ لقا‘‘ اس کی وفات کے بعد سال 1798 میں منظر عام پر آیا۔ یہ دیوان اُنتالیس غزلوں پر مشتمل ہے اور ہر غزل کے پانچ اشعار ہیں۔ مہ لقا بائی چندا فن موسیقی میں کامل دسترس رکھتی تھی اور اُس عہد کے کہنہ مشق شاعر شیر محمد ایمانؔ کی شاگرد تھی۔ برٹش میوزیم میں محفوظ ’دیوان چندا‘ میں 125 غزلیں ہیں جو سال 1798ء میں زیب قرطاس کیا گیا۔ حق گوئی اور بے باکی کو شعار بنانے والی اس شاعرہ نے غیروں سے کبھی وفا کی توقع نہ رکھی:
بجز حق کے نہیں ہے غیر سے ہرگز توقع کچھ
مگر دنیا کے لوگوں میں مجھے ہے پیار سے مطلب
جس وقت ماہ لقا بائی چندا نے دکن میں شاعری شروع کی اس وقت شمالی ہند میں میر تقی میر، مرزا محمد رفیع سودا اور خواجہ میر درد کی شاعری کی دھوم مچی تھی۔ ماہ لقا بائی چند اقصر شاہی کی طوائف تھی اور موضع ’اڈیکیٹ‘ کی جاگیر کے کاغذات اُسے قصر شاہی سے عطا کیے گئے تھے۔ اس عیاش طوائف کی خرچی کی دولت، ثروت اور مقام کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے پاس صرف پہرہ کے لیے پانچ سو سپاہی ملازم تھے۔ اپنے عہد کی یہ شمع محفل جس کے مسحور کن رقص اور کانوں میں رس گھولنے والے گیتوں کی محفل میں بڑے بڑے امرا، وزرا، عمائدین اور منصب دار کچے دھاگے سے کھنچے چلے آتے تھے، حیدر آباد کے نواح میں واقع ’کوہ مولا‘ کے جس کنج تنہائی میں ردائے خاک اوڑھے پڑی ہے وہاں دِن کے وقت بھی شب تاریک کی ظلمتوں اور مہیب سناٹوں کا راج ہے۔ ماہ لقا بائی چندا کا نمونہ کلام درج ذیل ہے
کب تک رہوں حجاب میں محروم وصل سے
جی میں ہے کیجیے پیار سے بوس و کنار خوب
ساقی دے مجھ کو جام مے ارغوان پھِر
افسردہ دِل میں آئے جو شعلہ سی جان پھِر
وفا کے ہاتھ سے اپنے کمال عاجز ہیں
جفا تو اُس کی تھی معلوم پیش تر ہم کو
چشمِ کافر بھی ہے اور غمزۂ خونخوار بھی ہے
قتل کو پاس سپاہی کے یہ تلوار بھی ہے
دکن میں تانیثیت کے حوالے سے یہ امر قابل غور ہے کہ لطف النسا امتیازؔ (پیدائش: 1761)ؔ جو شاہ عطا اللہ سے عقیدت رکھتی تھی وہ بھی شاعرہ تھی۔ اس کا دیوان ماہ لقا چندا سے ایک سال پہلے 1797 میں منظر عام پر آیا۔ اس لیے تاریخی حقائق کے پیش نظر ماہِ لقا چندا کے بجائے لطف النسا امتیازؔ کو اردو کی پہلی صاحب دیوان شاعرہ سمجھنا چاہیے۔ (10) اجل کے بے رحم ہاتھوں نے لطف النسا امتیاز کو عین عالم شباب میں بیو گی کی چادر اوڑھا دی اور اردو زبان کی پہلی صاحب دیوان شاعرہ لطف النسا امتیازؔ کا دیوان اس کے شوہر اسد علی خان تمنا کے انتقال کے بعد چھپا۔ لطف النسا امتیاز کی مثنوی ’گلشن شعرا‘ چھے ہزار سے زائد اشعار پر مشتمل ہے۔ اسد علی تمنا خود بھی ادیب تھا اور اس کا تذکرہ ’گل عجائب‘ اس عہد کے شعرا کے بارے میں ایک اہم بنیادی ماخذ سمجھا جاتا ہے۔ دکن سے تعلق رکھنے والی لطف النسا امتیازؔ کی شاعری میں نسائی جذبات نمایاں ہیں۔
سینہ تیری جفا سے معمور ہو رہا تھا
ہر زخم دِل میں ظالم ناسُور ہو رہا تھا
عمر کا شیشہ بہت نازک ہے یہ سنگِ اجل
جب کرے گا چُور ہی توہم عزیزاں پھِر کہاں
ساقیا محفل میں تیری کوئی دن مہمان ہیں
دیکھ لیں یہ گریۂ مینا جام خنداں پھر کہاں
تو عشق حقیقی سے مد ہوش ہے
شرابِ محبت سے بے ہوش ہے
جو لطف النسا سچا ہے تیرا نام
ترے شعر کا شہرہ تاروم و شام
ترا جو تخلص ہے اب امتیازؔ
ہے سب اہل ہنروں میں تُو شاہ باز
اب اہلِ کمالوں سے ہے التماس
ہے اصلاح کی دِل کو جو میرے پاس
تُو کر ختم یہ قصہ اب امتیازؔ
کر عاشقی کو اب عشق سے سرفراز
٭٭٭