(Last Updated On: )
ادب کی عمرانیات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ محقق نے ہر دور میں معاشرتی زندگی کو صحیح سمت میں رواں دواں رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ تصورات و تخیلات اور فعالیتوں و مصروفیتوں کا سماجی و تاریخی تناظر میں مطالعہ اقتضائے وقت کے عین مطابق ہے۔ سائنس اور ادب کی عمرانیات کے باہمی انحصار اور اس کے پس پردہ کار فرما عوامل پر غور کر کے ایسی دل کش انجمنِ خیال آراستہ کرنا جوحسن و خوبی اور رعنائی میں اپنی مثال آپ ہو ہر تخلیق کا مطمح نظر ہوتا ہے۔ اردو زبان اور دکنی زبان کے ادیبوں نے اپنی تخلیقی فعالیت میں حریت فکر اور انفرادیت کا خاص خیال رکھا ہے۔ ان زبانوں کے قدیم ادب کا مطالعہ کرتے وقت یہ حقیقت کھُل کر سامنے آتی ہے کہ اس عہد کے تخلیق کاروں کی فکری اپج اور ذہنی ساخت حریت ضمیر سے جینے کی تمنا کی آئینہ دار تھی۔ انھوں نے آزادی، مساوات اور انسانیت کی عزت و تکریم کو بنیادی اقدار سے تعبیر کیا ہے۔ ان اقدار کا زیریں متوسط طبقے اور متوسط طبقے کی زندگی کے معمولات سے گہرا تعلق ہے۔ ان اقدار کا معیشت اور اس سے وابستہ معاملات کے ساتھ جو تعلق ہے وہ چشم بینا سے پوشیدہ نہیں۔ اگر افراد کے معاشی مسائل کا حل تلاش کر لیا جائے تو ان اقدار کی نمو کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ اپنی تخلیقی تحریروں میں اردو اور دکنی زبان کے قدیم ادیبوں نے جذبۂ انسانیت نوازی کو بہت اہمیت دی اور ان مشاہیر کی تخلیقات کا عمیق مطالعہ کرنے کے بعد قاری فکر و خیال کی بلند پروازی پر فخر محسوس کرتا ہے۔ اردو اور دکنی زبان کے قدیم تخلیق کاروں نے گو مگو اور تذبذب کی کیفیت کو لائق استرداد ٹھہرایا اور ہمیشہ اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہا۔ بادشاہت کے دور میں بھی حریت فکر و عمل اور جرأت اظہار کو شعار بنانا لائق صد رشک و تحسین کارنامہ ہے۔ دکنی اور اردو زبان کے قدیم ادیبوں نے جمود اور بے عملی پر مبنی مفروضوں اور شکوک و شبہات سے بچتے ہوئے حقیقت پسندانہ موقف اپنایا اور نئے لسانی و تخلیقی تجربات کے اعجاز سے فکر و خیال کایا پلٹ دی۔ انھوں نے کسی مصلحت کے تحت حریت فکر اور شہنشاہیت کے روایتی تصورات میں مفاہمت کی کوئی قابلِ عمل صورت تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی۔ واقعہ یہ ہے کہ قدیم ادیب اس حقیقت سے آگاہ تھے کہ معاشرتی، سماجی اور تہذیبی و ثقافتی شعبوں کو لاحق خطرات اور زندگی کی شبِ تاریک کو سحر کرنے کے لیے اس متصادم کیفیت سے بچنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ یہی فطرت کا تقاضا اور یہی نوشتۂ تقدیر ہے کہ اخوت کی جہاں گیری اور محبت کی فراوانی کو یقینی بنایا جائے۔
کسی بھی خطے میں ثقافت کی نمو اور اس کے ارتقا پر نظر رکھنے والے یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ تاریخ ایک پیہم رواں عمل کا نام ہے۔ اقوام و ملل کی تقدیر افراد سے وابستہ ہے اور افراد ہی وہ قوت ہیں جن کی فعالیت سے تہذیبی اور ثقافتی عوامل کو تحریک ملتی ہے۔ زندگی کے نشیب و فرا ز، معمولات، افعال اور اعمال بھی عجیب ہیں مثال کے طور پر ایک بھُوکی بلی اپنے سامنے ایک فربہ چوہا دیکھ لیتی ہے جو دیوار کے سائے میں اپنے بِل سے دُور ہے۔ بھُوکی بلی کا مسئلہ چوہے کو دبوچ کر اپنی بھُوک مٹانا ہے اور چوہے کا مسئلہ تیزی سے بھاگ کر اپنے محفوظ بِل میں گھس کر اپنی جان بچانا ہے۔ یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ زندگی عملاً بلی اور چوہے کے اسی نوعیت کے کھیل کا نمونہ پیش کرتی ہے۔ زندگی کے بارے میں یہی شعور در اصل جذبات کی ترسیل کا محور ہے۔ زندگی کی لرزہ خیز، اعصاب شکن اور خوف ناک ترین صداقت یہ ہے کہ ہستی کا تعین اسی سے وابستہ ہے۔ زندگی ایک متاع بے بہا ہے جو کسی جان دار کو صرف ایک بار نصیب ہوتی ہے۔ اس کی کم مائیگی کا شکوہ نہ کیا جائے بل کہ اس امر پر توجہ مرکوز رکھی جائے کہ زندگی کا سفر صحیح سمت میں جاری رہے۔ اگر اس میں کامیابی حاصل ہو جائے تو فرصت، زندگی کم نہیں بل کہ جو دید نصیب ہو وہی مغتنم ہے۔ فطرت نے تو زندگی کو پر کشش، سادہ اور عام فہم صورت میں تخلیق کیا مگر یہ انسان ہی ہیں جو زندگی کو جوئے شیر، تیشہ و سنگِ گراں بنانے پر تُل جاتے ہیں۔ اگر افراد اپنے موجودہ حالات میں بہتری لانے میں کامیاب ہو جائیں تو وہ اپنے مستقبل کو یقیناً روشن بنا سکتے ہیں۔ سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑوں سے زندگی اور تہذیب و ثقافت کو جو خطرات لاحق ہیں وہ افراد کے لیے بالعموم عدم اطمینان کا باعث بن جاتے ہیں۔ اس کائنات میں ماضی اور حال میں انسانی زندگی کے نشیب و فراز اور افراد کے مستقبل کے موضوع پر اردو اور دکنی زبان کے قدیم ادیبوں کی تخلیقات روح اور قلب کیا تھاہ گہرائیوں میں اُتر جاتی ہیں۔ اپنی افتاد طبع کو رو بہ عمل لاتے ہوئے ان قدیم تخلیق کاروں نے جن فکر پرور اور خیال افروز مباحث کا آغاز کیا، آنے و الی نسلوں نے اُن سے گہرے اثرات قبول کیے۔ بادی النظر میں دکن اور دہلی میں پایا جانے والا وہ مشترک پہلو جس نے ادبی تخلیق کاروں کی توجہ حاصل کی وہ افراد کی ہمہ گیر فعالیت ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ افراد ہی ہیں جو زندگی کے ہر شعبہ میں اپنے وجود اور فعالیتوں کا اثبات کرتے ہیں۔ جہاں تک حریتِ فکر کا تعلق ہے اس کی رُو سے سماجی زندگی کو بو قلمونیوں اور متنوع کیفیات کو ثقافت کے وسیع تر تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ حریت فکر کے مجاہد وں کے مطابق جبر کے ماحول میں محکوم افراد کو معاشرے کے خود مختار، فعال اور جری نمائندہ کی حیثیت سے نہیں دیکھا جاتا۔ افراد کی سماجی کیفیت جن کی عکاسی ان کے روّیے سے ہوتی ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہ تاثر ملتا ہے کہ افراد ایام کے مرکب بن چکے ہیں۔ دکنی زبان اور اُردو زبان کے قدیم تخلیق کاروں نے الفاظ و معانی کی تفہیم کو بہت اہمیت دی۔ اس کا خیال تھا کہ اگر کہیں تکلم کا سلسلہ ٹُوٹنے لگے تو پھر بھی معانی کی جستجو کا سلسل نہ ٹُوٹنے دیا جائے۔ ایسے مواقع پر اُس تکلم کی اُس ثنویت پر توجہ مرکوز رکھی جائے جو فعالیت اور غیر فعالیت میں پنہاں ہے۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ ایک کٹھن مر حلہ ہے جہاں متعدد لسانی پیچیدگیاں سائنسی طریق کار کی راہ میں حائل ہو جاتی ہیں۔ لفظ سُوجھتے ہیں تو معانی کی بغاوت اظہار و ابلاغ کی راہ میں سدِ سکندری بن جاتی ہے۔ سماجی اور معاشرتی زندگی میں افراد جن مراحل سے گزرتے ہیں، اُن کے آثار اُن کی لوح جبیں پر ثبت ہوتے چلے جاتے ہیں۔ دکنی اور اُردو زبان کے قدیم تخلیق کاروں نے واضح کیا کہ افراد کے اعمال اور تکلم کے سب سلسلوں کا معنیاتی نظام سے انسلاک ہے۔ اردو اور دکنی زبان کی ساختیاتی مماثلتیں ہر عہد میں محققین کی توجہ کر محور رہی ہیں۔ لسانیات، سماجی مساوات، آزادیِ اظہار اور معاشرتی زندگی کی لفظی مرقع نگاری میں تخلیق کار کی ذات سے منسوب خود منظم کردہ اختراعی اسلوب کو تاریخ ادب میں ہمیشہ اہم سمجھا گیا ہے۔ اپنی نوعیت کے لحاظ سے قدیم زمانے کے زیرک تخلیق کاروں کے اِس اہم اور منفرد کام نے انسانیت نوازی، تاریخ، لسانیات اور اظہار و ابلاغ کو نیا آہنگ عطا کیا۔ ان جری تخلیق کاروں نے عہد سلاطین کے کلچر سے اختلاف کرتے ہوئے اپنا موقف نہایت جرأت مندانہ انداز میں پیش کیا۔ خوب سے خوب تر کی جستجو انسانی فطرت ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نئے زمانے اور نئی صبح و شام پیدا کرنے کی تمنا انسان کو نئے آفاق کی جستجو پر مائل کرتی ہے۔ دکنی اور اردو زبان کے قدیم تخلیق کاروں نے روشنی کا سفر جس مقام پر ختم کیا تھا وہاں سے نئی منزلوں کی جستجو کا غیر مختتم سلسلہ جاری رہے گا۔ آسودگان خاک یہ مت سمجھیں کہ نئی نسل نے انھیں فراموش کر دیا ہے۔
اس وسیع و عریض کائنات میں خالق کون و مکاں نے زندگی کی نمو کے ساتھ ہی متعدد عوامل کا انسلاک بھی کر دیا۔ انسان کی تابِ گویائی کو قدرت کاملہ کا ایسا بیش بہا عطیہ سمجھا جاتا ہے جس کے معجز نما اثر کو نہ صرف دنیا کے کسی بھی خطے میں لسانی ارتقا کا پیش خیمہ سمجھا جاتا ہے بل کہ اس کی ثمر بار کامرانیوں سے تہذیبی و ثقافتی ارتقا کے متعدد نئے در وا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ لسانی ارتقا کو انسانی شعور کی پہچان قرار دیا جاتا ہے اور لسانی ارتقا ہی معاشرتی زندگی میں انسان جذبات و احساسات اور تجربات و مشاہدات کی مقیاس بھی ہے۔ آٹھویں صدی عیسوی میں بنو امیہ کے دور میں مسلمان فاتحین کی آمد کو بر صغیر میں لسانی ارتقا کے نقطۂ آغاز سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ فارسی اور عربی بولنے والے مسلمان فاتح جب ہندوستان پہنچے تو اپنے ساتھ اپنے ملک کی تہذیب و ثقافت، ادب، فنون لطیفہ اور وہاں بولی جانے والی زبان بھی لائے۔ تاریخ اور علم بشریات کے ماہرین کا خیال ہے کہ بر صغیر صدیوں تک آریا اقوام کی بالادستی کا اسیر رہا۔ اس عرصے میں آریا اقوام نے بر صغیر کے مقامی باشندوں کی تحقیر، توہین، تذلیل اور بے توقیری میں کوئی کسر اُٹھا نہر کھی اور ہمیشہ یہی کوشش کی کہ مقامی باشندوں کی تہذیب و ثقافت، شعر و ادب، لسانیات اور معاشرت کو خود اُن کی نظروں میں بے وقعت بنا دیا جائے۔ ان حالات میں جب لسانی تصادم کی صورت پیدا ہوئی تو آریائی زبان نے مقامی زبان کو پچھاڑ دیا اور خود بلا شرکت غیرے معاشرتی زندگی کے تمام معمولات پر اپنی گرفت مضبوط کر لی اس کے بعد رفتہ رفتہ صدیوں سے مروّج مقامی زبان کا وجود ہی عنقا ہو گیا۔ محاذِ جنگ کے مانند لسانیات کے شعبے میں بھی فاتح اور مفتوح کی کیفیت جلوہ گر دکھائی دیتی ہے۔ بر صغیر میں مسلمان فاتحین کی آمد تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی جس سے معاشرتی زندگی میں پائے جانے والے بے عملی کے مظہر تباہ کن جمود کا خاتمہ ہوا۔ بر صغیر میں اسلامی مملکت کا قیام تاریخ کا ایک اہم واقعہ ہے۔ مسلمان فاتحین پوری شان و شوکت کے ساتھ بر صغیر کے طول و عرض میں پھیل گئے اور ہر جگہ اپنی کامرانیوں کے جھنڈے گاڑ دئیے۔ جہاں تک زبان کا تعلق ہے مسلمان فاتحین کی زبان اور مقامی زبان کی آمیزش سے ایک نئی زبان کا ملغوبہ تیار ہونے لگا۔ مر کزی حکومت کے ساتھ یہ نئی زبان دہلی پہنچی او اس زبان کو خلجی خاندان نے اپنے عہد حکومت (1290-1320) میں دکن اور گجرات کے وسیع علاقے میں متعارف کرایا۔ محمد بن تغلق (B: 1290, D: 1351) کی دکن کی جانب یلغار سے جب دہلی کے کوچہ و بازار ویران ہو گئے۔ محمد بن تغلق نے سال 1327ء میں دہلی کے بجائے دولت آباد کودار الحکومت کا درجہ دیا، اس کے بعد بڑے پیمانے پر لوگوں کی دہلی سے دولت آباد کی جانب نقل مکانی کا سلسلہ شروع ہو گیا دولت آباد میں جو زبان پہنچی وہ اردو ہی کی شکل تھی۔ اورنگ آباد سے پندرہ کلو میٹر شمال مغرب کی جانب واقع دولت آباد شہر علم و ادب اور تہذیب و ثقافت کا مرکز بن گیا۔ اس زبان کو تاریخ کے مختلف ادوار میں دکنی بھی کہا جاتا رہا ہے۔ مثال کے طور پر شاہ ملک بیجا پوری نے اپنے رسالہ ’احکام الصلوٰۃ (تالیف: 1077 ہجری) کی اختتامی سطور میں لکھا ہے:
یو مسئلیاں کوں دکنی کیا اِس سبب
فہم کر کر کے دِل میں کریں یاد سب
پروفیسر حافظ محمود خان شیرانی (1880-1946) نے مسلمان فاتحین کی بر صغیر میں آمد، کے لسانی اثرات اور بر صغیر کے مختلف علاقوں میں اس زبان کے ناموں کے بارے میں لکھا ہے:
’’ایک دلچسپ امر یہ ہے کہ جب اہالی دکن نے اُردو کا نام دکنی رکھا، اہالی گجرات نے اِس کا نام گجراتی یا گوجری رکھ دیا۔ لطف یہ ہے کہ خود اِن ممالک کے باشندے اِس کو اِن ناموں سے پُکارتے رہے۔‘‘(1)
شیخ محمد خوب نے اپنی مثنوی ’’خوب ترنگ‘‘ (تخلیق 986 ہجری) کی زبان کو گجراتی قرار دیا ہے۔ ماہرین لسانیات کا خیال ہے کہ اس مثنوی میں اردو کے الفاظ کی کثرت ہے اس کے باوجود اس کی زبان کو گجراتی بول کہنا جنم بھومی کی مٹی کی محبت کی دلیل ہے۔:
جیوں دِل عرب عجم کی بات
سُن بولی، بولی گجرات
تاریخی تناظر میں دیکھیں تو دکن کے شاعر محمد امین جو سلطان ابو الحسن تانا شاہ کے دربار سے وابستہ تھا۔ اس نے شاہ کو خوش کرنے کی خاطر یہ مثنوی لکھی۔ امین کی ایک اور مثنوی ’’قصہ ابو شحمہ‘‘ (1090 ہجری) بھی اس زمانے میں بہت مقبول ہوئی۔ مثنوی کے اس مخطوطے کے بارے میں بعض محققین کا خیال ہے کہ یہ اس عہد کے شاعر ’اولیا‘ کی تخلیق ہے۔ اپنی مثنوی ’’یوسف زلیخا‘‘ جو مغل بادشاہ اورنگ زیب کے عہدِ اقتدار (1658-1707) میں سال 1109ہجری کی تخلیق ہے، اس مثنوی کی زبان کو گوجری بتایا ہے:
سنو مطلبا ہے اب یو امین کا
لکھی گوجری منے یوسف زلیخا
ہر یک جا گے ہے قصہ فارسی میں
امیں اس کوں اُتاری گوجری میں
کہ بوجھے ہر کدام اُس کی حقیقت
بڑی ہے گوجری جگ بیچ نعمت
بر صغیر میں لسانی سطح پر بھی اس کے دُور رس اثرات مرتب ہوئے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بر صغیر کے اکثر مفتو حہ علاقوں میں فارسی کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہو گیا۔ بر صغیر کے جنوب میں واقع دکن کی سیاسی تاریخ کے درج ذیل ادوار اِس خطے میںا دب اور فنون لطیفہ کے اِرتقا کے حوالے سے بہت اہم ہیں۔ علاؤالدین بہمن شاہ نے محمد بن تغلق سے الگ ہو کر سال 1347ء میں بہمنی سلطنت کی بنیارکھی۔ سیلِ زماں کے تھپیڑے اٹھائیس سال کے عرصے میں (1490-1518) میں صولت بہمنی کو بہا لے گئے اور یہ سلطنت بیجاپور، احمد انگر، گولکنڈہ، بیرار اور بیدر میں بٹ گئی۔
ا۔ بہمنی دور: (1347-1518)
خطاب
ذاتی نام
عرصۂ اقتدار
شاہ، علا ء الدین حسن بہمن شاہ
علا ء الدین بہمن شاہ، حسن گنگو
3۔ اگست1347تا11۔ فروری1358
شاہ
محمد شاہ I بہمنی
11۔ فروری 1358 تا21۔ اپریل 1375
شاہ شاہ علا ء الدین مجاہد شاہ
مجاہد شاہ
21۔ اپریل 1375تا16۔ اپریل1378
شاہ
داؤد شاہ بہمنی
16۔ اپریل 1378تا 21۔ مئی1378
شاہ
محمود شاہ II بہمنی
21مئی1378تا20۔ اپریل1397
شاہ
غیاث الدین شاہ بہمنی
20۔ اپریل 1397تا14۔ جون1397
شاہ
شمس الدین شاہ بہمنی
14۔ جون1397 تا 15۔ نومبر1397
شاہ تاج الدین فیروزشاہ
فیروز شاہ
24 November 1397 – 1 October 1422
شاہ
احمدشاہ ولی بہمنی
1 October 1422 – 17 April 1436
شاہ علاء الدین احمد شاہ
علاء الدین احمد شاہ بہمنی
17 April 1436 – 6 May 1458
شاہ علا ء الدین ہمایوں شاہ
ہمایوں شاہ ظالم بہمنی
7 May 1458 – 4 September 1461
شاہ
نظام شاہ بہمنی
4 September 1461 – 30 July 1463
شاہ محمد شاہ لشکری
محمد شاہ بہمنی III
30 July 1463 – 26 March 1482
ویرا شاہ
محمود شاہ بہمنیII
26 March 1482 – 27 December 1518
شاہ
احمد شاہ بہمنیII
27 December 1518 – 15 December 1520
شاہ علا ء الدین شاہ
علا ء الدین شاہ بہمنی II
28 December 1520 – 5 March 1523
شاہ
ولی اللہ شاہ بہمنی
5 March 1522 – 1526
شاہ
کلیم اللہ شاہ بہمنی
1525–1527
دکن میں بہمن شاہی دور میں مسلمان حکمرانوں نے ادب اور فنون لطیفہ کے فروغ کے لیے تمام دستیاب وسائل استعمال کیے۔ محمد شاہ اول نے اپنے عہد حکومت میں وجیا نگرمیں علم و ادب کی سر پرستی کی۔ اس خاندان کے دوسرے حکمران بھی ادب، فنون لطیفہ اور تہذیب و ثقافت کے فروغ کے لیے کوشاں رہے۔
۲۔ عادل شاہی دور: (1490-1686)
عادل شاہی دور میں اس خطے میں با لعموم فارسی زبان کی ترویج و اشاعت کو زیادہ اہمیت حاصل رہی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ فارسی اس خطے کی قدیم ترین مستعمل زبان رہی۔ عادی شاہی دور کے درج ذیل حکمرانوں نے اس خطے میں ادب اور فنون لطیفہ کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔
یوسف عادل شاہ (1490-1510)، اسماعیل عادل شاہ (1510-1534)، مالوعادل شاہ (1534)، ابراہیم عادل شاہ (1534-1558)، علی عادل شاہ (1558-1579)، ابراہیم عادل شاہ (1580-1627)، محمد عادل شاہ (1627)، علی عادل شاہ II(1656-1672)، سکندر عادل شاہ (1672-1686)
۳۔ قطب شاہی دور: (1518-1687)
اس خطے میں قطب شاہی دور میں فارسی، دکنی، اردو اور تلگو بولی جاتی تھیں۔ اس عہد میں فن تعمیرات، مقامی تہذیب و ثقافت، فارسی ادب، تلگو اور دکنی زبان کی ترقی کے لیے گراں قدر خامات انجام دی گئیں۔ سال 1591 ء میں حیدر آباد میں ہندوستان و اسلامی طرز تعمیرکے مطابق بننے والے ایک سو ساٹھ فٹ بلند چار مینار اور مسجدمحمد قلی قطب شاہ کے ذوق کے مظہر یادگار ہیں۔ ممتاز ماہر تعمیرات میر مومن استروادی نے اس عظیم عمارت کا نقشہ پیش کیا۔ قطب شاہی دور کے سلاطین کے نام درج ذیل ہیں:
سلطان قلی قطب الملک (15181543)، جمشید قلی قطب شاہ (1543-1550)، سبحان قلی قطب شاہ (1550)، ابراہیم قلی قطب شاہ (1550-1580)، محمد قلی قطب شاہ(1580-1612)، سلطان محمد قطب شاہ (1612-1625)، عبداللہ قطب شاہ (1625-1672)، ابو الحسن تانا شاہ (1672-1687)
۴۔ نظام الملک آصف جاہی دور: (1686-1708)
۵۔ نواب والا جاہی دور: (1708-1857)
پوری دنیا دنیا میں آفتاب اسلام کی ضیاپاشیوں کے ساتھ ہی بر صغیر میں بھی اسلام کی ابد آشنا آفاقی تعلیمات اور ارفع تہذیب و ثقافت کے فروغ کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ تاریخی حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے فاتح فوجی دستوں نے جب سر زمینِ دکن پرقدم رکھا تو یہاں تہذیبی و ثقافتی انقلاب برپاہو گیا۔ دکن اور اس کے مضافاتی علاقوں میں ہر شعبۂ زندگی پر مسلمان فاتحین کی آمد کے اثرات مرتب ہوئے۔ مذہب، تہذیب و ثقافت اور علم و ادب کی روشنی کے اس نئے سفر میں تمدن و معاشرت، مقامی لسانیات، ادب اور فنون لطیفہ بھی دلوں کو ولوۂ تازہ عطاکرنے والی تبدیلی کی اس لہر سے بے نیاز نہ رہ سکے۔ مسلمان فاتحین کی آمد سے صدیوں سے سوچ پرمتعصب اکثریتی آبادی کے مسلط کردہ تار عنکبوت ہٹنے لگے، اعصاب پہ پہرے ختم ہوئے اور بے عملی کے مظہر فکری جمود کا خاتمہ ہوا۔ مسلمان فاتحین اور مقامی باشندوں کے باہم میل جول سے اظہار وابلاغ اور تکلم کے سلسلے بھی غیر معمولی تغیر و تبدل کی زد میں آ گئے۔ جنوبی ہندوستان پر ہزاروں سال سے متعصب ہندو ذہنیت کے غلبے کا جو عفریت منڈلا رہا تھا، اس سے گلو خلاصی کے واضح امکانات پیدا ہونے لگے۔ ہندوستان کی مقامی زبانوں، ادب اور ثقافت میں نیا رنگ سامنے آیا۔ متعدد ادبی مورخین نے لسانیات میں دکنی زبان کی نمو انہی تہذیبی و ثقافتی میلانات کا ثمر قرار دیا ہے۔ ماہرین لسانیات کا قیاس ہے کہ دکن میں مختلف بو لیاں مروّج و مقبول رہی ہیں جن میں مراٹھی، تامل اور تلگو وغیرہ شامل ہیں مگر دکن میں مقیم مسلمانوں کی جدت پسندی نے ان زبانوں اور فاتحین کی زبانوں کے امتزاج سے ایک منفرد لسانی تجربے کا آغاز کیا۔ اس طرح جن منفرد نوعیت کے تہذیبی تغیرات کے مظہر لسانی تجربات کا آغاز ہوا اُن کے گہرے اثر سے فکر و نظر کی کایا پلٹ گئی۔ یہیں سے اُن مسحور کن لسانی تغیرات کا آغاز ہواجن کی ہمہ گیر اثر آفرینی نے پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیا۔ بر صغیر میں دکنی زبان کے سوتے انہی تہذیبی و ثقافتی میلانات سے پھوٹتے ہیں۔ بر صغیر میں لسانی ارتقا کو تاریخی تناظر میں دیکھنے سے حقائق کا جو منظر نما سامنے آتا ہے اس کا کرشمہ فکر و خیال کے جو متعدد نئے زاویے سامنے لاتا ہے اس کی تفصیل قابل غور ہے۔
محمود غزنوی (971-1030) اور اس کی اولاد نے تقریباًدو سو برس تک سندھ، ملتان، پنجاب اور دہلی کے بیش تر علاقوں میں اپنی حکومت قائم کی۔ غزنوی خاندان کے زیرِنگیں علاقوں میں لسانی اِرتقا کا سلسلہ جاری رہا۔ علاؤ الدین خلجی (1250-1316)کی گجرات اور دکن کی تسخیر کے بعد ایک سو برس تک یہ علاقہ دہلی کی عمل داری میں شامل رہا۔ علاء الدین خلجی کے حکم پر شمالی ہند کے باشندوں نے بہت بڑی تعداد میں دکن، گجرات اور مالوہ کی طرف ہجرت کی۔ جب محمد تغلق (1290-1351)نے سلطنت دہلی کا انتظام سنبھالا تو اس نے دولت آباد (مہاراشٹر) کو اپنا دارالحکومت کا درجہ دیا۔ سال 1327میں قصر شاہی سے افواج، اہل کاروں، عمائدین اور سرکاری عملہ کو دولت آباد پہنچنے کا حکم صادر ہوا۔ اس شاہی فرمان کے نتیجے میں جو وسیع پیمانے پر نقل مکانی ہوئی اُس سے تہذیبی و ثقافتی میلانات کے علاوہ لسانی ارتقا کا سلسلہ تیز تر ہوتا چلا گیا۔ امیران صدہ نے محمد تغلق کی مطلق العنان حکومت کے خلاف بغاوت کر دی اور بلا شرکت غیرے سارے دکن کے حاکم بن بیٹھے۔ کامیاب بغاوت کے نتیجے میں رونماہونے والے انقلاب کے بعد فوجی سالاروں نے باہم مشاورت سے اپنے ایک معتمد امیر علاؤ الدین بہمن شاہ کو سال 1347میں بادشاہ بنا دیا۔ اس طرح مسلح بغاوت اور انقلاب کے نتیجے میں دکن میں بہمنی سلطنت (1347-1518) کا قیام عمل میں آیا۔ اس کے ساتھ ہی جنوبی ہند میں عسکری، تہذیبی و ثقافتی اور معاشرتی زندگی میں تبدیلی کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو گیا جس کے نتیجے میں ادب اور فنون لطیفہ میں نئے رجحانات کو پروان چڑھانے کی راہ ہموار ہو گئی۔ شمال سے آنے والے ان ترکوں نے اپنے دکنی ہونے کو لائق صد افتخار قرار دیا اور اس علاقے میں مروّج مقامی ہندوی زبان کی ترویج میں گہری دلچسپی لی۔ اس سلطنت کا دار الحکومت (1347-1425) احسن آباد (موجودہ گلبرگہ) تھا، اس کے بعد دار الحکومت کرناٹک کے شمال مشرق میں فرازِ کوہ پر واقع شہر محمد آباد (موجودہ بیدار) منتقل ہو گیا۔ خواجہ محمود گیلانی (محمود گوان) کے عہدِ وزارت (1466-1481)میں بہمنی سلطنت جاہ و حشمت، سطوت و صولت کے اعتبار سے بامِ عروج تک پہنچ گئی۔ اس عرصے میں معیشت، ادب اور فنون لطیفہ کے شعبوں میں قابلِ قدر ترقی ہوئی۔ سال 1397 ء میں بر صغیر پر ترک منگول مہم جُو امیر تیمور (1336-1405)کے حملے کی خبر سن کر مقامی حکمرانوں یاس و ہراس کا شکار ہو گئے اور ان سب کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے۔ تغلق بادشاہ ناصر الدین محمود(عرصہ اقتدار: 1246-1266) اپنے ساتھیوں سمیت دہلی چھوڑ کرگجرات پہنچا اور یہاں سے ہزیمت اُٹھانے کے بعد مالدہ جا پہنچا۔ امیرتیمور کے مسلح فوجی دستوں کی زبردست یلغار کے بعد سلطنت دہلی کا انتظامی ڈھانچہ مکمل طور زمین بوس ہو گیا، شہر سنسان اور ہنستے بستے گھر بے چراغ ہو گئے۔ اس آفت ناگہانی نے سماجی اور معاشرتی نظام کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں۔ سال 1398میں امیر تیمور نے دریائے سندھ کو عبور کیا اور پیش قدمی کرتا ہوا ملتان پہنچا۔ اُسی سال امیر تیمور نے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا اور دریائے جمنا عبور کر کے دہلی پر دھاوا بول دیا اور شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ شہر کے پریشاں حال مکینوں پر جو کوہِ غم ٹوٹا اُس سے اُن کی روح زخم زخم اور دِل کرچی کرچی ہو گیا۔ اُن کے دِل کے مقتل میں جو آرزوئیں مات کھا کر رہ گئیں اور جو حسرتیں خون ہوئیں اُن کا شمار بعید از قیاس تھا۔ بے گناہ انسانوں پر سب بلائیں تمام ہو گئیں اب وہ سانس گن گن کر زندگی کے دِن پورے کر رہے تھے اور مرگِ نا گہانی کے منتظر تھے۔ اس عرصے میں گجرات کے طاقت ور اور با رسوخ حاکم مظفر خان نے اپنی خود مختار بادشاہت کا اعلان کر دیا۔
اردو زبان کے ابتدائی دھندلے نقوش جو امیر خسرو (1253-1325)کے زمانے میں دکھائی دیتے ہیں، وہ شاہانِ بیجا پوراور گولکنڈہ کے حکمرانوں کے دور میں نمایاں ہو گئے۔ تاریخی حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سر زمین دکن ہی تھی جہاں سے اردو زبان کے ابتدائی نقوش نمو پانے لگے۔ مسلمان فاتحین ایک طویل عرصے سے دکن کے وسیع علاقوں میں مقیم تھے۔ اس خطے میں مسلمان فاتحین نے ہر شعبۂ زندگی میں مقامی باشندوں کے ساتھ مِل کر کام کیا۔ اپنے اشہبِ قلم کی جولانیاں دکھاتے وقت خرد کی گتھیاں سلجھانے والے یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ باہمی میل جول اور روابط کے نتیجے میں وادیِ خیال میں اس لسانی کِشت کے نتیجے میں دکنی کی صورت میں ایک بالکل نئی زبان کے شگوفے پھُوٹنے لگے۔ سندھ اور پنجاب میں بھی لسانی ارتقا کا سلسلہ جاری رہامگر کسی بھی ایک خطے کو اردو زبان کی جنم بھومی قرار دینے کے سلسلے میں ماہرین لسانیات کے تحفظات ہر دور میں موجود رہے ہیں۔ جہاں تک پنجابی کا تعلق ہے اسے اردو زبان کی ماں کے بجائے اردو زبان کی ہم شیر کہنا قابل فہم ہے۔ ماہرین لسانیات کا گمان ہے کہ اردو کے سوتے اس پراکرت زبان سے پھوٹے جس نے برج اور پنجابی دونوں کو جنم دیا۔ شاید یہی وہ پراکرت زبان ہے جو مسلمان فاتحین کی بر صغیر میں آمد کے وقت خیبر سے اُتر پردیش کے شہر الہ آباد تک اظہار و ابلاغ کا سب سے موثر وسیلہ تھی۔ دکن میں نمو پانے والی زبان کو ہندی یا دکھنی دونوں ناموں سے پکارا جاتا تھا۔ اپنی تصنیف ’’شمائل الاتقیا‘‘ میں میراں یعقوب نے دکن کی سر زمیں میں پروان چڑھنے والی نئی زبان کو ہندی زبان کے نام سے لکھا ہے۔
’’اپنی حیات کے وقت منجے ارشاد کیے تھے جو شمائل الاتقیا کتاب کون ہندی زبان میں لیاوے تا ہر کس کے تئیں سمجھا جاوے۔‘‘
(بہ حوالہ نصیر الدین ہاشمی: دکن میں اردو، مکتبہ ابراہیمیہ، حیدر آباد دکن، 1936، صفحہ 23
دکن میں مقیم ہندی یا دکھنی زبان کے ایک نثر نگار قاضی بدر الدولہ (سال وفات: 1280 ہجری) نے اپنی تصنیف ’فوائد بدریہ‘ میں لکھا ہے:
’’لیکن دیکھا کہ بازار علم کا بہت کاسد ہو گیا اور علم کے جاننے و الے دنیا سے گزر گئے۔۔ ۔۔ ۔ تب زبان ہندی میں یہ کتاب لکھنا شروع کیا۔‘‘
بہ حوالہ نصیر الدین ہاشمی: دکن میں اردو، مکتبہ ابراہیمیہ، حیدر آباد دکن، 1936، صفحہ23
جس زمانے میں دکن میں ہندی یا دکھنی زبان نمو پا رہی تھی اُس زمانے میں اِس خطے سے قطب شاہی دور میں درج ذیل بادشاہوں نے دکھنی زبان میں تخلیق ہونے والے شعر و ادب کی سر پرستی کی:
محمد قلی قطب شاہ (عرصہ اقتدار: 1580-1611)
سلطان محمد قطب شاہ (عرصہ اقتدار: 1611-1626)
عبداللہ قطب شاہ (عرصہ اقتدار: 1626-1672)
ابو الحسن قطب شاہ (عرصہ اقتدار: 1672-1686)
محمد قلی قطب شاہ نے مقامی رسوم و رواج، تہواروں اور اس علاقے کی تہذیب و ثقافت کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ اس کی شاعری میں عشق و محبت کا جذبۂ بے اختیار قاری کو تخلیق کار کے ایک منفرد تجربے سے روشناس کراتا ہے۔ محبت کے جذبات کی یہ بے خودی، سرمستی، جذبِ دروں اور وجدانی کیفیت قاری کو مسحور کر دیتی ہے۔ قلی قطب شاہ نے علم و ادب کی سرپرستی میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ اس نے اپنے عہد کے مقبول تخلیق کار اور صوفی شیخ احمد شریف گجراتی کو اپنے دربار میں طلب کیا۔ محمد قلی قطب شاہ کی دعوت پر صوفی شیخ احمد شریف گجراتی محمد قلی قطب شاہ کے دربار میں پہنچا۔ حاکم کے خاص مہمان کی حیثیت سے اپنے حیدر آباد کے قیام کے دوران شیخ احمد شریف گجراتی نے اُس دور کی مشہور و مقبول رومانوی داستان ’’قصہ یوسف زلیخا‘‘ (عرصۂ تخلیق: 1580-1585) کو صنف مثنوی کے کے قالب میں ڈھالا۔ قصہ یوسف زلیخا کو قارئین کی طرف سے بہت پزیرائی ملی۔ علم و ادب سے وابستہ اور ذوق سلیم سے متمتع افراد نے اس تخلیق کو قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ محمد قلی قطب شاہ کی سر پرستی میں کام کرنے والے دبستان گول کنڈہ کی اس پہلی طویل رومانوی مثنوی کے عرصۂ تخلیق (1580-1585) کے دوران میں قلی قطب شاہ نے ذہین تخلیق کار شیخ احمد شریف گجراتی کو خلعت اور نقد انعام عطا کیا۔ شیخ احمد شریف گجراتی دکنی زبان کا ایک مستعد، فعال، ذہین اور قادر الکلام شاعر تھا اس کی مثنوی ’لیلیٰ مجنوں‘ بھی اپس دور میں بہت مقبول ہوئی۔ دکن کی اہم شخصیت شیخ فخر الدین کا فرزند، مشہور شاعر اور مشہور مثنوی ’پھول بن‘ کا (سال تخلیق 1066 ہجری) خالقا بن نشاطی (شیخ محمد مظہر الدین) بھی اس رجحان ساز تخلیق کار کے کمال فن کا معترف تھا۔ مرثیہ، رباعی، مثنوی اور غزل میں شاعر نے متعدد ایسے الفاظ استعمال کیے ہیں جو اب متروک ہی ہو چکے ہیں مثلاً اُپجے بہ معنی پیدا ہوئے وغیرہ۔ دکنی زبان کے قدیم شاعر شیخ احمد شریف گجراتی کے اسلوب کو سمجھنے کے لیے اس کے چند اشعار پیش ہیں:
ع: سر پر تو سانجھ پڑ گئی اور پاؤ
بنا احمدؔ سو کیا اُن کو سرائے
بہو دھاتوں خدا اُن کو سرائے
احمدؔ دکن کے خوباں ہو تیاں ہیں پُر ملاحت
تو توں دکھن کو اپنا گجرات کر کے سمجھیا
سو منگتا تھا جو شہ کے ناؤں سیتی
کتاباں رس کروں بہ چاؤں سیتی
میری خاک میں تھے جو اُپجے نہال
وفا کے لگے پھول پھل ڈال ڈال
احمد آباد سے تعلق رکھنے والے شاعر میاں خوب محمد چشتی (946-1023ہجری) کی مثنوی ’’خوب ترنگ‘‘ (سال تخلیق 986 ہجری) کو قدیم اردو کی اہم تخلیقات میں ممتاز مقام حاصل ہے۔ ذیل میں اس کی شاعری کا نمونہ پیش کیا جاتا ہے:
حکایت صفائی دِل
چین نہین چتاری جان
چتریں مور سو اڈ تے آن
گگن پھرے دہر یہ من کھانت
ہر رت رنگے سیکھے اور بھانت
ملا وجہی بھی اسی عہد کا تخلیق کار تھا اس نے قلی قطب شاہ کی داستان محبت کو اشعار کے قالب میں ڈھالا اور ایک طویل مثنوی ’’قطب مشتری‘‘ پیش کی۔ دکنی نثر میں وجہی کی کتاب ’’سب رس‘‘ کو دکنی ادب کے ارتقا میں سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ قدیم دکنی زبان کو ہندوستانی زبان کی ایک کونپل خیال کیا جاتا ہے جس نے سر زمین دکن میں نمو پائی۔ دکن میں مقیم مسلمان باشندوں نے اس زبان کو پروان چڑھانے میں گہری دلچسپی لی۔ اردو زبان کے مانند دکنی زبان نے تحریر کے لیے فارسی نستعلیق رسم الخط کا انتخاب کیا۔ تاریخ ادب کے مطالعہ سے اس حقیقت کا ادراک ہوتا ہے کہ یہی وہ خطہ ہے جہاں سے قدیم دکنی شاعر ولی محمد ولیؔ دکنی (1667-1707) نے ریختہ کو اظہار و ابلاغ کا وسیلہ بنا کر ایسا رنگ و آہنگ عطا کیا کہ ادب میں تخلیقی فعالیت کو مقاصد کی رفعت کے اعتبار سے ہم دوش ثریا کر دیا۔ لسانیات کے ان ہمہ گیر تجربات نے پورے شمالی ہندوستان کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ دہلی میں بھی شعر و سخن سے وابستہ تخلیق کاروں کی محفلوں میں ولی دکنی کی تخلیقی کامرانیوں کی بازگشت سنائی دینے لگی۔ جب ولیؔ دکنی کی شاعری کی ہر سُو دھوم مچ گئی تو اس کے اسلوب کی تقلید پر توجہ دی گئی۔ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان کی زبانوں کے باہم امتزاج اور اس کے نتیجے میں رو نما ہونے والے تغیر و تبدل کا وسیع سلسلہ پیہم جاری رہا اور اس عہد میں بر صغیر کی ہر زبان میں دکنی زبان کے آثار دیکھے جا سکتے ہیں۔ اسی بنا پر یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ ہندوستان کی تمام ادبی زبانیں ان لسانی تجربات سے مستفید ہوئیں اور دکنی زبان سے خوشہ چینی کرتی رہیں۔ ہندوستانی زبانوں کے ادب کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان سب زبانوں کے علم و ادب کا قصر عالی شان دکنی زبان سے مستعار لیے گئے ذخیرۂ الفاظ کی اساس پر استوار ہے۔ فکری اور فنی اعتبار سے ہندوستانی زبانیں دکنی زبان کی باج گزار ہیں اور دکن کے مشاہیرِ علم و ادب کے بار احسان سے بر صغیر کے باشندوں کی گردنیں ہمیشہ خم رہیں گی۔ بر صغیر کی زبانوں بالخصوص دکنی زبان پر ممتاز مستشرق گریرسن (George Abraham Grierson) نے جو دادِ تحقیق دی ہے اُسے پوری دنیا میں سرا ہا گیا۔ دکنی زبان کی لسانی اہمیت کے بارے میں گریرسن (1851-1941) نے لکھا ہے:
“The Musalman armies carried vernacular Hindostani to the south before it had been standardised,and it then contained many idioms which are now excluded from literary prose. Some of these have survived in Deccan.” (20)
آریائی زبانوں سے میل جول اور اشتراک سے جنوبی ہند میں دکنی زبان نے نمو پائی۔ دکنی زبان کا امتیازی وصف یہ ہے کہ اس زبان میں فارسی الفاظ کی فراوانی نہیں ہے۔ مغربی ہندی زبان کی شاخوں کے بر عکس اسم یا ضمیر کے بعد اور فعل ماضی سے پہلے حرف (نے) کا استعمال نہیں ہوتا۔ دکنی زبان میں ’’مجھ کو‘‘ کے بجائے ’’میرے کو‘‘ مستعمل ہے۔ دکنی زبان کے مولد کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ یہی وہ علاقہ ہے جہاں تلگو نے پانچ سو برس تک رنگ جمایا اس عرصے میں مقامی زبانوں میں لسانی تجربات، تغیرات اور ارتقا کا سلسلہ جاری رہا اور دکنی زبان نے بھی اس سے گہرے اثرات قبول کیے۔ اس کا اندازہ دکنی زبان میں رونما ہونے والے نحوی تغیر و تبدل سے لگایا جا سکتا ہے۔ لسانی عمل کے عمیق مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ارادی، غیر ارادی، مرضی یا غیر مرضی سے وقوع پذیر ہونے والے تغیرات اس خطے میں صدیوں سے مسلط جبر کی فضا سے انحراف کی ایک صورت بن رہے تھے۔ تاریخ اور اس کے مسلسل عمل پر نظر رکھنے والے محققین اور مورخین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ دکن میں بہمنی دور میں حکمرانوں کی سر پرستی کے نتیجے میں دکنی زبان کی ترویج و اشاعت کا سلسلہ جاری رہا۔ عوام کی دلچسپی اور حکمرانوں کی حوصلہ افزائی نے یہاں کے باشندوں کے فکر و نظر کو مہمیز کیا اور تیزی سے بدلتے ہوئے حالات میں دکنی زبان نئے آفاق تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ دکنی زبان پر عربی اور فارسی زبان کے اثرات نمایاں ہیں لیکن اس کے باوجود دکنی زبان کی شکل و صورت ہندوستانی زبان سے قدرے مختلف ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ دکنی زبان پر حیدر آباد، بنگلور، اورنگ آباد، کرنول، نیلور اور بنگلور میں مقیم مراٹھی، تلگو اور کاندا جیسی مقامی بولیاں بولنے والے باشندوں کے گہرے اثرات ہیں۔ اس قسم کی علاقائی زبانیں مہاراشٹر، تلنگانہ، آندھرا پردیش، کرناٹکا اور تامل ناڈو میں طویل عرصے سے مستعمل ہیں۔ اُردو زبان کی قدیم ترین شکلوں میں گوجری، ہندوی اور دکھنی قابل ذکر ہیں۔ ان زبانوں کے مشرقی پنجابی اور ہریانی کے ساتھ کھڑی بولی کی نسبت زیادہ گہرا تعلق ہے۔ دکن ہی وہ خطہ ہے جہاں سے تخلیق کاروں نے افکار تازہ کی مشعل تھام کر جہانِ تازہ کی جانب روشنی کے سفر کا آغاز کیا تھا۔ ادبیات، فنون لطیفہ اور لسانیات سے دلچسپی رکھنے والے ذوق سلیم سے متمتع قارئین ادب کا خیال ہے کہ جدید دور کی معیاری اردو کے سوتے بھی سر زمینِ دکن ہی سے پھوٹے تھے۔ دکن میں ایک نئی زبان کے ارتقا کے حوالے سے اماریش دتا (Amaresh Datta) نے انسا ئیکلو پیڈیا ہندوستانی لسانیات میں لکھا ہے:
“The fusion of the spoken language of the North (imposed upon the south by its Muslim conquerers) and the southern languages resulted gradually in the evolution of a somewhat peculiar form which can be known as Dakkani Urdu. The Bahmani Kingdom, the first independent Muslim State in the South (1347- 1526) despite its long rule did not contribute much to Dakkani literature as such, but its adoption of this new language as its court’s language in preference to Persian, helped the process of the gradual growth and development as the dominant linguistic force of the area and contained to draw strength and sustenance from cultures of both the North and the South. (3)
فارسی بولنے والے مسلمان فاتحین اور ان کے لشکر میں شامل فوجی اپنی زبان دکن لے کر پہنچے۔ جنوبی ہند میں جس زبان کو دکھنی کہا جاتا تھا شمالی ہند میں اس نئی زبان کے لیے کوئی موزوں نام تجویز نہیں ہوا تھا۔ انسانی معاشرے میں زندگی بسر کرتے ہوئے اپنے ابنائے جنس کے ساتھ باہمی معاونت اور تقابل کے نتیجے میں دکن میں نمو پانے والی یہ نئی زبان شمالی ہند میں شمالی ہند میں ریختہ، اُردو، اُردوئے معلّیٰ کے نام سے مقبول ہوئی۔ تاریخ ادب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ دکن کے تخلیق کاروں نے سب سے پہلے نثری تراجم کو پرورشِ لوح و قلم کا وسیلہ بنایا۔ اس طرح تخلیقی فعالیت میں بھی نثر کو اوّلیت کا اعزاز حاصل ہوا اور دکن میں نظم کی تخلیق نثر کے بعد ہوئی۔ ماہرین لسانیات کا گمان یہ ہے عروض کی پابندی اور قافیہ بندی کی نسبت دوسری زبان سے ترجمہ کرنا قدرے آسان ہے اس لیے دکن کے تخلیق کاروں نے سب سے پہلے نثری تراجم ہی پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔ یہ خواجہ بندہ نواز سید محمد حسینی گیسو دراز شہبازؔ تھے جنھیں دکنی کا پہلا شاعر قرار دیا جاتا ہے۔ اس عہد کے مقبول، فعال اور مستعد تخلیق کاروں کے فن پاروں کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جنوبی ہند میں اِس زبان کو بالعموم دکنی اور ہندی ہی کہا جاتا تھا۔ ولیؔ اورنگ آبادی نے دکھنی زبان کے لیے سب سے پہلے ریختہ کا نام استعمال کیا۔
یہ ریختہ ولیؔ کا جا کر اُسے سُنا دے
رکھتا ہے فکر روشن جو انوری کے مانند (ولیؔ اورنگ آبادی)
یہ بات قرینِ قیاس ہے کہ شروع میں دکن میں مستعمل زبان کا نام دکھنی رکھا گیا تھا جو بعد میں شمالی ہند میں ریختہ کے نام سے موسوم ہوئی۔ اس میں ولیؔ کو اوّلیت کا اعزاز حاصل ہے جس نے اپنے سفر دہلی کے بعد لفظ ریختہ کو مروج و مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:
دکھن میں جوں دکھنی مٹھی بات کا
ادا نیں کیا کوئی اِس دھات کا (وجہیؔ: قطب مشتری)
اسے ہر کس کتیں سمجھا کوں توں بول
دکھنی کے باتاں ساریاں کُوں کھول (ابن نشاطیؔ: پھول بن)
کیا ترجمہ دکھنی ہور دِل پذیر
بولیا معجزہ یو کمال خان دبیر (رستمیؔ: خاور نامہ)
صفائی کی صورت کی ہے آرسی
دکھنی کا کیا شعر ہوں فارسی (نصرتیؔ: گلشنِ عشق)
ولے بعض یاروں کا ایما ہوا
سو ہندی زباں یہ رسالہ ہوا (آگاہؔ)
ہے دکھنی میں مجکوں مہارت یتی
کہ النصر منکم کہے نصرتیؔ (نصرتی)
تاریخ ادب کے عمیق مطالعہ سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ سر زمین دکن کے مکینوں کے علاوہ شمالی ہند کے تخلیق کاروں نے بھی لفظ ’ریختہ‘ کا بلا تامل استعمال کیا مثلاً:
قائمؔ میں غزل طور کیا ریختہ ورنہ
ایک بات لچر سی بہ زبان دکھنی تھی (قائمؔ)
ریختہ نے یہ تب شرف پایا
جب کہ حضرت نے اس کو فرمایا (اثرؔ)
خوگر نہیں کچھ یوں ہی ہم ریختہ گوئی کے
معشوق جو تھا اپنا باشندہ دکن کا تھا (میر تقی میرؔ)
دکھنی زبان میں نثر لکھنے کا آغاز حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز سید محمد حسینی (وفات: 825 ہجری)کی تصانیف ’’معراج العاشقین‘‘ اور ’’ہدایت نامہ‘‘ سے ہوا۔ دکھنی میں نثر پہلے لکھی گئی اس کے بعد تخلیق کار نظم کی جانب مائل ہوئے۔
گول کنڈہ میں قطب شاہی خاندان نے سال 1508 میں ایک آزاد اور خود مختار سلطنت قائم کی۔ اس ریاست کے آٹھ مطلق العنان بادشاہوں کی علم وا دب کی سرپر ستی کے نتیجے میں ان کی اقلیم میں تخلیق کاروں نے اپنے ذوقِ سلیم کو رو بہ عمل لاتے ہوئے قارئین کی خداداد قدرتی، ادبی، اخلاقی اور علمی اوصاف کو صیقل کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ مورخین کی تحقیق کے مطابق قطب شاہی عہد کو درج ذیل تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
۱۔ ابتدائی دور: (1508-1580)
۲۔ عروج کا زمانہ: (1676 1580-)
۳۔ دور انتشار: (1676-1687)
قطب شاہی خاندان کے پہلے بادشاہ سلطان قلی نے قصرِ شاہی میں ادب اور فنون لطیفہ سے وابستہ تخلیق کاروں کے مِل بیٹھنے کے لیے ’آش خانہ‘ کے نام سے ایک حسین محل تعمیر کرایا۔ اِس خاندان کے آخری چار بادشاہ خود شاعر تھے۔ قطب شاہی دور میں جو ادیب شاعری اور نثر کی مختلف اصناف میں پرورش لوح و قلم میں مصروف رہے ان کے نام درج ذیل ہیں:
شاعری: محمد قلی، ظل اللہ، عبداللہ، تانا شاہ، فیروزؔ، محمودؔ ، وجہیؔ، غواصیؔ، احمد، راضیؔ، جنیدیؔ، ابن نشاطیؔ، طبعیؔ، امینؔ، خواصؔ، غلام علی، سیوکؔ، فائزؔ، لطیف، افضلؔ، نوریؔ، راجوؔ۔
نثر: مولانا عبداللہ، وجہی
قطب شاہی خاندان کا پانچواں بادشاہ قلی قطب شاہ سال 1580 میں تخت نشین ہوا جو دکنی اُردو کا پہلا شاعر ہے جس کا تخلص قطبؔ شاہ اور معانیؔ تھا۔ اس کی تمام شاعری کو کلیات کی صورت اس کے بھتیجے محمد قطب شاہ نے بڑی دلچسپی سے مرتب کر کے شائع کیا۔ اس کی کتاب زیست کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جوانی میں اس نے ایک پیشہ ور مغنیہ، رقاصہ اور طوائف بھاگ متی سے پیمان وفا باندھا اور اس کی محبت میں شعر گوئی شروع کی۔ جب تخت نشین ہوا تو بھاگ متی کو حیدر محل کا نام دے کر شریک حیات بنا لیا اور اسی مہ جبیں حسینہ کے نام پر گولکنڈہ سے آٹھ میل دُور دریائے موسی کے کنارے ایک پُر فضا مقام پر ایک نیا شہر بھاگ نگر بسایا جو بعد میں حیدر آباد کے نام سے مشہور ہوا۔ بھاگ متی نے اپنے پیشے کو کبھی لائق اعتذار نہ سمجھا اور نئے شہر میں کئی قحبہ خانے اور چنڈو خانے قائم کیے۔ اس علاقے کے قدیم باشندے آج بھی حیدر آباد کو بھاگ نگر ہی کہتے ہیں۔ یہاں یہ امر قابل توجہ ہے کہ قلی قطب شاہ نے اپنی سترہ بیگمات کا ذکر تو اپنی تحریروں میں کیا ہے مگر اس نے کہیں بھی بھاگ متی کا کوئی حوالہ نہیں دیا۔ الحاج میاں اقبال زخمی نے علم بشریات اور عمرانیات کے ماہرین کے حوالے سے بتایا کہ آج بھی تفوسی، صبوحی اور ظلی جیسی قحبہ خانوں کے دھندے سے وابستہ کچھ طوائفیں نہایت ڈھٹائی اور گھمنڈ سے اپنا شجرہ نسب بھاگ متی، لال کنور، زہر کنجڑن اور ادھم بائی سے ملا کر غراتی پھرتی ہیں۔ بھاگ متی کی قبر کا نشان تک مٹ جانا ایک المیہ ہے۔ اگر کردار بے جان ہوں تو المیہ سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنا بعید از قیاس ہے۔ المیہ میں رنگ، خوشبو، حسن و جمال، عروج و زوال اور جذباتی کیفیات کے سبھی استعارے کرداروں کے دم سے ہیں۔ المیہ نگار اپنے اشہبِ قلم کی جولانیوں سے قاری کو فکر و خیال کی ایسی وادی میں پہنچا دیتا ہے جہاں اِک گونہ بے خودی اُس کی منتظر ہوتی ہے نرغۂ اعدا میں انسان کی جب کوئی اُمید بر نہیں آتی اور اصلاح احوال کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تو وہ اپنی زندگی سے مایوس ہو جاتا ہے۔ انتہائی خوف کے باعث اس کی زندگی قابلِ رحم ہو جاتی ہے۔ المیہ کی تفہیم کے حوالے سے یونانی دیومالاسے ماخوذ ایک واقعہ پیش ہے۔
یونانی دیومالا کے مطابق تھیسلے (Thessaly) میں واقع میلوبیا (Meliboea) کے بادشاہ پو ئیاس (Poeas) کے شجاع بیٹے فیلو ککٹس (Philoctetes) کی بہادری، مہم جوئی اور خطر پسند طبیعت کی ہر طرف دھوم مچی تھی۔ جادو کی کمان رکھنے والا وہ ایسا ماہر ناوک انداز تھا جس کا نشانہ کبھی خطا نہ ہوتا تھا اور کوئی صید بچ کر نکل نہ سکتا تھا۔ اس نے ہیری کلز (Heracles) کی آخری آرام گاہ کا راز فاش کر دیا اور اس کی بد دعا سے ایک سفر میں سانپ کے کاٹنے سے اُسے پاؤں پر ایسا زخم لگا جو مندمل نہ ہو سکا۔ اس زخم سے بیمار کر دینے والی عفونت و سڑاند کے بھبھوکے اُٹھتے تھے۔ شہر کے لوگوں کی نفرتوں، حقارتوں اور عداوتوں سے عاجز آ کر وہ روپوش ہو گیا۔ کینہ پرور اور حاسد اس لیے اس مہم جو کے خون کے پیاسے تھے کہ وہ جنگ تورجان (Torjan War) جیتنے کے لیے وہ طلسماتی کمان اور تیر حاصل کرنا چاہتے تھے جو فیلو ککٹس کو ہیری کلز نے دی تھی۔ اُس کے زخم سے نکلنے والی بُو کی وجہ سے اُنھوں نے فیلو ککٹس کو ڈھونڈ نکالا۔ سگمنڈ فرائڈ اور کارل مارکس پر کام کرنے والے اپنے عہد کے ممتاز امریکی ادیب، نقاد اور دانش ور ایڈ منڈ ولسن (Edmund Wilson: 1895-1972) نے اپنی کتاب زخم اور کمان (The wound andthe bow) میں اسی جانب اشارہ کیا ہے۔ عالمی شہرت کے حامل ممتاز جرمن ناول نگار تھامس من (: 1875-1955 Thomas Mann) کے اسلوب میں بھی اس یونانی دیو مالائی کہانی کا پرتو ملتا ہے۔ قدیم دکنی مثنویوں میں المیہ کا جو ذکر ملتا ہے وہ بھی دیومالائی نوعیت کا حامل ہے۔
ایک تخلیق کار اپنے تخیل کو متعدد نئی جہات سے آشنا کرتا ہے، یہ خیال ہی ہے جو کسی چیز کے وجود یا عدم کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ صادر کر سکتا ہے۔ المیہ میں وہ ممکنہ حد تک یہ دیکھتا ہے کہ حالات و واقعات کی مناسبت سے اظہارو ابلاغ کی صورت تلاش کی جائے۔ گفتگو اور تکلم کے سلسلوں کا تعلق بھی خیال سے ہے۔ طے شدہ معائر اور مسلمہ اصولوں کا برملا اعلان خیال کا امتیازی وصف سمجھا جاتا ہے۔ مفاہیم، مطالب اور مدعا کو پیرایۂ اظہار عطا کرنے میں کسی بھی زبان کے الفاظ کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ المیہ نگار کے اسلوب میں یہی وہ جوہر ہے جو نظم و نثر کی تخلیقات کو روح اور قلب کی اتھاہ گہرائیوں میں اُتر جانے والی اثر آفرینی سے ثروت مند بنانے کا وسیلہ ہے۔ اسلوب کی زیب و زینت میں موسیقیت و ترنم کا اپنا ایک الگ مقام ہے۔ نالے کو پابند نے کرنا ہی تخلیق کار کا کمال ہے۔ نظارے کی اپنی ہی بات ہے جس کی جذباتی کشش پتھروں سے اپنی تاثیر کا لوہا منوانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ لفظی مرقع نگاری سے ایسا نظارہ منصۂ شہود پر آتا ہے کہ قاری چشمِ تصور سے المیہ سے وابستہ واقعات اور مقامات دیکھ لیتا ہے۔ یہ تصنع سے بَری ہے اور اس کا احساس سے گہرا تعلق ہے۔
بعض مورخین نے اس مفروضے کی جانب توجہ دلائی ہے کہ جب بھاگ متی نے ایک بیٹی ’’حیات بخشی بیگم‘‘ کو جنم دیا تو بھاگ متی کو ’حیدر محل‘ کے خطاب سے نوازا گیا اور شہر حیدر آباد اور مشہور قصر ’حیدر محل‘ اسی واقعہ کی یاد دلاتا ہے۔ شہر اور محل کے نام کے بارے میں سب واقعات تاریخ کے طوماروں میں دب چکے ہیں اور یہ سب مفروضے پشتارۂ اغلاط ہیں۔ حاجی حافظ محمد حیات کا اصرار تھا کہ حقیقت یہ ہے کہ اپنے عقیدے کے مطابق قلی قطب شاہ نے حیدریم، قلندرم، مستم ہونے کا ثبوت دیا۔ بہ قول اقبال:
جنھیں نان جویں بخشی ہے تُو نے
اُنھیں بازوئے حیدرؑ بھی عطا کر
اپنے اسلوب کو جذبۂ خلوص، مروّت اور ایثار سے مزّین کرنے والے فطرت کے مقاصد کی نگہبانی کرنے والے اس رومانی شاعر نے رباعیات، ترجیح بند، غزل، قصیدہ، مثنوی، مرثیہ اور نظم میں ایک لاکھ کے قریب اشعار کہے جن میں زیادہ تر عشوہ و غمزہ واد، گل و بلبل اور شاہد و ساقی کا پرانا موضوع غالب ہے۔ وسعت نظر کے مظہر تجربات، مشاہدات، فطرت نگاری، رفعتِ تخیل، جدت، تنوع اور اسلوب میں تشبیہات اور استعارات کی کمی کھٹکتی ہے۔ حقیقت میں قلی قطب شاہ کے اشعار بر صغیر کی مقامی تہذیب و ثقافت، عمرانی مسائل اور معاشرت کے آئینہ دارہیں۔ اس کے کلام میں مذہب کی آفاقی اقدار اور فطرت نگاری پر بھی توجہ دی گئی ہے مگر وادیِ خیال میں مستانہ وار گھو منے اور رومان کی طرف زیادہ دھیان ہے۔ مثال کے طور پر قلی قطب شاہ نے ’باغ محمد شاہی کی تعریف میں جو قصیدہ‘ لکھا وہ اس کے منفرد اسلوب کا آئینہ دار ہے:
بھے دم عیسوی دا نم چمن میں گُل لگانے تیں
ہرے نہالاں کے جلوے میں مشاطا ہو پون سارا
دسے ناسک کلی چنپابہواں دو پات میں تس کے
بھنور تِل دیکھ اس جاگا ہوا حیران من سارا
کھجوراں کے دسیں چھونکے کہ جوں مرجان کے پنجے
سپاریاں لعل خوشے جوں دسیں دن ہور بن سارا
ہے عشق ہر اک دھات ہر اک دل میں پیارا
دسیں ناریل کے پھل یوں زمرد مرتباناں جوں
ہور اس کے تاج کون کہتا ہے پیالا کر دکہن سارا
دسیں جاموں کے پھل بن میں نیلم کے نمن سالم
نظر لاگے تیوں میویاں کوں راکھیا ہے جتن سارا
بہار و خزاں کے آنے جانے کو بھی قلی قطب شاہ نے دِل کے کھِلنے اور مُرجھانے سے مربوط کیا ہے۔ بسنت، مرگ موسم برسات اور دیگر موسموں کے بارے میں اس کی شاعری میں نہایت دل نشیں انداز میں مرقع نگاری کی گئی ہے۔ تیزی سے بدلتے موسموں کی ادا دیکھ کر تخلیق کار اسراز سے آگاہ ہو جاتا ہے کہ انسانی مزاج بھی دیکھتے ہی دیکھتے اس سرعت سے بدل جاتے ہیں کہ دنیا دیکھتی کی دیکھتی رہ جاتی ہے۔
قلی قطب شاہ کے اسلوب میں فطرت نگاری کو اہم مقام حاصل ہے، اس کی شاعری میں ’بسنت‘ کے موضوع پر کئی نظمیں اس کی فطرت نگاری کی شاہد ہیں اس کی مثال پیش کی جار ہی ہے:
بسنت کھیلیں عشق کی آ پیارا
تُمیں ہیں چاند میں ہوں جوں ستارا
بسنت کھیلیں ہمن ہو ساجنا یوں
کہ اسماں رنگ شفق پایا ہے سارا
شفق رنگ جھینے میں تارے مگٹ جوں
سرج کرنا نمن زرتار تارا
گھنگھور گھٹا کی آمد اور برسات کی بہاروں کے بارے میں اکثر شعرا نے اپنے تجربات اور مشاہدات کو اشعار کے قالب میں ڈھالا ہے۔ قلی قطب شاہ نے ’’مرگ‘‘ موسم برسات کے آغاز پر ایک نظم میں یوں سماں باندھا ہے:
مرگ مہینے کوں ملاے ملکاں مل گگناں میں
سمد موتیاں کے جو برسائے سو بھرے انگنا میں
دھرت بند چیر جواہر چولی رنگ پاچ کر انک پر
بہر بہوٹیاں لعلاں سوں اترے ہیں یمناں میں
ہرے صحرا میں نہ ہوئے لالی گلالاں نہ ہوئے بن میں
شبنمی تیل سوں شمعاں جوں زمرد لگناں میں
قلی قطب شاہ کی مثنوی ’سالگرہ‘ اس کے ذاتی تجربات، قلبی جذبات اور احساسات کی حسین لفظی مرقع نگاری کی آئینہ دار ہے:
مِراقطب تارا ہے تاریاں میں نجل
تو مجھ بر فلک رنگ کا چتر چھایا
سورج چندر پی تال ہو کر بجیں تب
منڈل ہو فلک ٹمٹمایاں بجایا
کرے مشتری رقص مجھ بزم میں نِت
برس گانٹھ میں زہرہ کلیاں گایا
قلی قطب شاہ کے شعری کلیات کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک زیرک تخلیق کار کی حیثیت سے اس نے ہر صنف شعر میں طبع آزمائی کی۔ اس کے دیوان میں شامل کُل تین سو بارہ (312) غزلوں کی ردیف وار ترتیب کا خیال رکھا گیا ہے۔ اس کے دو ہزار دو سو چوّن (2254) اشعار زبان و بیان پر اس کی خلاقانہ دسترس کا منھ بولتا ثبوت ہیں۔
محمد قطب شاہ ظل اللہ (عرصہ اقتدار: 1611-1624) اپنے چچا اور سسر قلی قطب شاہ کے بعد تخت نشین ہوا۔ اس کے دربار میں ادیبوں اور شاعروں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور ان کی تخلیقات کو اہم ادبی اثاثہ سمجھا جاتا تھا۔ دکنی زبان میں محفوظ ماضی کی یہ ادبی میراث نہ صرف دکنی زبان کے ارتقا کے مختلف مدارج سامنے لاتی ہے بل کہ اس کے مطالعہ سے عہدِ رفتہ کے بارے میں احساس اور شعور کو نئے اور متنوع امکا نات کے بارے میں کامل آگہی سے متمتع کرنے میں مدد ملتی ہے۔ محمد قطب شاہ ظل اللہ کا بہت کم کلام دستیاب ہے محمد قطب شاہ ظل اللہ کا نمونہ کلام درجِ ذیل ہے:
ہوا آتی ہے لے کے بھی ٹھنڈ کالا
پیا بِن سنتا نا مدن بالی بالا
رہن نا سکے من پیا باج دیکھے
ہووے تن کوں سکہ جب ملے پیو بالا
سجن مُکہ شمے باج اوجالا نہ بہاوے
بھلایا ہے منج جیو کوں او اجالا
جو رات آوے چندنی کے منج کوں ستاوے
کہ چند نا منجے نین نین سوز لالا (محمد قطب شاہ ظل اللہ)
دکنی زبان کے شاعر ظل اللہ نے اپنے خسر (قلی قطب شاہ) کی شخصیت اور اسلوب کو جس طرح خراج تحسین پیش کیا ہے وہ اس کے ذوقِ سلیم کا مظہر ہے۔
سو کچھ شاعری بِیچ شہ دھر کمال
بچن کہہ کے موتیاں نمن صدف ڈھال
دتا شعر کہہ بیت میں ٹیک بات
کہے نین لکھیں اپنے وصف سات
عبداللہ قطب شاہ
عبد اللہؔ اپنے باپ سلطان محمد قطب شاہ کے بعد تخت نشین ہوا۔ اس کے دربار میں غواصیؔ، قطبیؔ، ابن نشاطیؔ، طبعیؔ، جنیدیؔ اور امینؔ جیسے اس زمانے کے ممتاز شعرا موجود تھے۔ نمونہ کلام:
لکھ فیض سوں پھر آیا دن دین محمدﷺ کا
آفاق صفا پایا دن دِین محمدﷺ کا
اے پری پیکر ترا مُکہ آفتاب
دیکھتا ہوں تو رہے نا منج میں تاب
یاد ایسا تاد دکھاتا ہے ہنوز
دیکھ تری زلف کا دو پیچ و تاب (عبد اللہ قطب شاہ عبداللہؔ)
سلطان ابو الحسن قطب شاہ (تانا شاہ) گول کنڈہ کا آخری بادشاہ تھا۔ مغل بادشاہ اورنگ زیب نے اسے شکست دیاور اس کی حکومت کا خاتمہ کر کے اس کے لیے حکم حبس دوام صادر کر دیا۔ عسکری مہمات اور قید و بند کی صعوبتوں کے باعث یہ بادشاہ تخلیق ادب پر توجہ مرکوز نہ رکھ سکا اور اس کا کلام بھی محفوظ نہ رہا۔ اس کا یہ شعر اس کے حالات کی صحیح عکاسی کرتا ہے:
کس در کہوں کان جاؤں میں مجھ دِل پہ کٹھن بچھڑات ہے
یک بات ہوں گے سجن یہاں جیو بارہ باٹ ہے (تانا شاہ)
ملا اسد اللہ وجہی (پیدائش: یہ تاریخ معلوم نہیں ہو سکی، وفات: 1659ء)
سترہویں صدی عیسوی کے اوائل میں دکنی نظم اور نثر کے اس با کمال تخلیق کار نے ادب کی ثروت میں جو اضافہ کیا وہ تاریخ ادب میں بہت اہم ہے۔ اس نے چار بادشاہوں کا دور دیکھا جن میں ابراہیم قطب شاہ، محمد قلی قطب شاہ، محمد قطب شاہ اور سلطان عبد اللہ شامل ہیں۔ اس کی تصانیف ’قطب مشتری (1609)‘ اور ’سب رس (1634)‘ دکنی ادب کے ارفع معیار کا نمونہ ہیں۔ قطب مشتری میں وجہی نے قلی قطب شاہ اور بھاگ متی کی داستان محبت کو اشعار کے قالب میں ڈھالا ہے۔ وجہی کی شاعری کا نمونہ درج ذیل ہے:
توں اول توں آخر توں قادرا ہے
تو مالک تون باطن توں ظاہرا ہے
طاقت نہیں دُوری کی اب تون بیگی آ مِل رے پیا
تج بن منجے جینا بہوت ہوتا ہے مشکل رے پیا
کھانا برہ کیتی ہوں میں پانی انجھو پیتی ہوں میں
تج نے بچھڑ جیتی ہوں میں کیا سخت ہے دِل رے پیا
چھپی رات اجالا ہوا دیس کا
لگیا جگ کرن سیو پریس کا
شفق صبح کا نیں ہے آسمان میں
کہ لالے کھلے ستبسا ستان میں
جو آیا جھلکتا سورج داٹ کر
اندھارا جو تھا سو گیا نھاٹ کر
سورج یوں ہے رنگ آسمانی منے
کہ کھلیا کمل پھول پانی منے
غواصیؔ
قطب شاہی دور میں غواصیؔ اپنے زمانے میں رومانی شاعری کا مقبول شاعر تھا اور عبداللہ قطب شاہ کے عہد میں ملک الشعرا تھا اور اپنی شاعری میں اس نے غواصیؔ اور غواصؔ کے دو تخلص استعمال کیے۔ اس کی مثنویوں ’مینا ستونتی‘ ، ’سیف الملوک و بدیع الجمال‘ ،‘ اور ’طوطی نامہ‘ کو دکنی ادب میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ مثنویاں فارسی زبان سے ماخوذ ہیں اور انھیں دکنی زبان میں منتقل کیا گیا ہے۔ اس کی طویل مثنوی ’طوطی نامہ‘ چار ہزار پر مشتمل ہے جو در اصل سنسکرت کے مشہور حلقہ قصص ’’شکا سب تتی‘‘ سے ماخوذ ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ غواصیؔ کی یہ تخلیق ضیا الدین بخشی کے ’طوطی نامہ‘ کا دکنی منظوم ترجمہ ہے۔ دو ہزار اشعار پر مشتمل غواصیؔ کی مثنوی ’سیف الملوک و بدیع الجمال‘ ، الف لیلیٰ کا قصہ ہے۔ غواصیؔ کی شاعری کا کلیات بھی موجود ہے اس میں غزلیں اور مر ثیے شامل ہیں۔ سلطان محمد قطب شاہ کے عہد حکومت میں غواصیؔ کی شاعری کی دھوم تھی۔ غواصیؔ نے مثنوی، قصیدہ، غزل، نظم، رباعی، ترکیب بند اور مرثیہ میں طبع آزمائی کی۔ اس کے بعد عبداللہ قطب شاہ کے دور میں اسے شاہی دربار تک رسائی حاصل ہو گئی۔ وجہیؔ کی مثنوی ’قطب مشتری‘ شائع ہوئی تو اس کا موثر جواب دینے کی خاطر غواصی نے ’سیف الملوک و بدیع الجمال‘ تخلیق کی۔ دونوں شاعروں کے اسلوب کی خاص بات یہ ہے کہ جہاں وجہیؔ نے مفصل واقعات بیان کیے ہیں وہاں غواصیؔ نے اختصار سے کام لیا ہے۔ مثنوی کے اس رجحان ساز شاعر کی شہرت پورے دکن میں پھیل گئی۔ اس عہد کے مقبول شاعر مقیمیؔ نے غواصی کے اسلوب سے متاثر ہو کر ’’چندر بدن و مہیار‘‘ تخلیق کی۔ غواصیؔ کا نمونہ کلام درج ذیل ہے:
الٰہی جگت کا آلہی سو توں
کرن ہار جم بادشاہی سو توں
تیرے حکم تل نوکر آسمان کے
رعیت ملک تیری فرمان کے (حمد)
رتن خاص دریائے لولاک کا
جھلک لامکان نورِ افلاک کا
محمدﷺ نبی سید المرسلین
سدا روشن اوس تے دنیا ہو دین (طوطی نامہ)
شیخ مظہر الدین ابن نشاطی
شیخ مظہر الدین ابن نشاطی کے والد کا نام شیخ فخر الدین تھا۔ اس کے سوانح حیات ابھی تک معلوم نہیں ہو سکے۔ عبداللہ قطب شاہ کے زمانے میں ابن نشاطی کو شاہی دربار میں اہم مقام حاصل تھا اور وہ قطب شاہی سلطنت کا آخری شاعر تھا۔ اس نے نثر میں اپنی صلاحیتوں کا لو ہا منوایا جب کہ نظم میں اس کی ایک ہزار سات سو چوالیس (1744) اشعار پر مشتمل مثنوی ’پھول بن‘ دکنی ادب میں بہت مقبول ہوئی۔ ابن نشاطی نے یہ مثنوی تین ماہ کے مختصر عرصے میں مکمل کر کے زبان و بیان پر اپنی خلاقانہ دسترس کا ثبوت دیا۔ پھول بن فارسی شاعر احمد حسن دبیر کی تخلیق ہے جو اس نے بساتین الانس کے نام سے لکھی تھی۔ ابن نشاطی نے اسی کو دکنی کے قالب میں ڈھالا ہے۔
اول میں حمد رب العالمین کا
دل و جان سوں کہوں جان آفرین کا
خداوندا تجھے ہے جم خدائی
ہمیشہ تُج کون ساجی کبریائی
محمدﷺ پیشوا ہے سروران کا
رہے سر خیل سب پیغمبران کا (ابن نشاطی: پھول بن)
اسد علی خان تمنا: ان کی اہلیہ لطف النسا امتیاز بھی شاعرہ تھیں۔ ان کا تعلق اورنگ آباد سے تھا مگر جوانی میں وہ حیدر آباد منتقل ہو گئے۔ مجاہد جنگ اور محمد علی خان شوق جیسے شعرا نے ان سے اکتساب فیض کیا۔
نظارہ اگر چشم خماری نہ ہو ا
زخمی پلکوں کا جو تمھاری نہ ہوا
ہے جنبش مژگاں میں یہ دِل بِسمل
اوچھا سا ہوا یہ تیر کاری نہ ہوا
احمدجنیدی
عبداللہ قطب شاہ کے عہد کا شاعر تھا اور برہان پور میں مقیم تھا۔ اس کی مثنوی’ماہ پیکر‘ کی تخلیق سے دکنی ادب کی ثروت میں اضافہ ہوا۔
طبعی
طبعی نے سلطان عبداللہ قطب شاہ کے آخری زمانے میں مقبولیت حاصل کی۔ سلطان ابو الحسن تانا شاہ کے درباری شاعر کی حیثیت سے طبعی کو معاشرتی زندگی میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اس کی مثنوی ’بہرام و گل اندام‘ میں ایران کے بادشاہ بہرام گور کا منظوم قصہ پیش کیا گیا ہے۔
فاتحین کی آمد اور اس خطے میں ان کے قیام سے ان کی زبان کے کئی محاورات دکنی میں شامل ہو گئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ محاورات اپنی جاذبیت کھو بیٹھے اور انھیں ترک کر دیا گیا۔ فاتحین کی زبان کا ملاپ زیادہ تر تامل، مر ہٹی اور تلنگی سے ہوا۔ اس لسانی ملاپ کے نتیجے میں دکنی زبان کے ذخیرہ الفاظ اور زبان کی ساخت میں تغیر و تبدل کا آغاز ہو گیا۔ اس عہد کی لسانی کیفیات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان لسانی تغیرات اور ارتعاشات پر نظر ڈالی جائے جو اس دور میں زبان میں موجود تھے۔
٭٭٭