اردو زبان کے ممتاز شاعر احمد فراز 25۔اگست 2008بروز پیر عازم اقلیم عدم ہو گئے ۔اس نامور پاکستانی ادیب ،دانش ور ،حریت فکر کے مجاہد ،سلطانیء جمہور کے حامی اور عظیم تخلیق کار کی وفات پر پوری دنیا میں دلی صدمے کا اظہار کیا گیا۔وہ گردوں کے عارضے میں مبتلا تھے ۔آخر کار گردوں کے ناکارہ ہو جانے کے باعث ان کی زندگی کی شمع بجھ گئی ۔ان کی وفات پر ہر دل سوگوار اور ہر آنکھ اشک بار ہے ۔ان کی رحلت سے اردو زبان و ادب کے فروغ کی مساعی کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا ہے ۔اب درد کی آگ ہے کہ مسلسل پھیلتی ہی جاتی ہے ۔فلک پیر پربھٹکنے والے سوگوار مداحوں کی آہوںکے بے فیض بادل اس آگ کو کبھی بجھا نہیں سکتے ۔ان کے لاکھوں مداحو ں کی پیاسی آنکھیں حسرت و یاس کے عالم میں اس جان لیوا اور ماتم طلب سانحہ پر اشک بار ہیں ۔غم جہاں ،غم یار اور انسانیت کے مصائب و آلام پر تڑپ اٹھنے والا انتہائی حساس ،جری اور دردمند تخلیق کار اب ہمارے درمیان موجود نہیں رہا ۔ان کی فقید المثال علمی و ادبی خد مات اور لائق صد رشک و تحسین تخلیقی کامرانیاں تا ابد دلوں کو ایک ولولہ ء تازہ عطا کرتی رہیں گی ۔تاریخ ہر دور میں حریت فکر کے اس مجاہد کے عظیم کردار اور عزت و وقار کی تعظیم کرتی رہے گی ۔انھیں شہرت عام اور بقائے دوام کے دربار میں بلند مقام نصیب ہو گا ۔انھوں نے حریت ضمیر سے جینے کے لیے اسوہء شبیرؓ کو اپنایا ۔تخلیق فن کے لمحوں میں خون بن کر رگ سنگ میں اتر جانے والی ان کی شاعری قاری کے قلب و نظر کو مسخر کر لیتی ہے ۔اپنی بیاض شعر کے تما م حروف کو محترم ، معزز و سر بلند رکھنے والے اس زیرک،جری ،فعال اور مستعد تخلیق کار نے تمام عمر فروغ گلشن و صوت ہزار کے موسم کے انتظار اور انسانیت کے وقار اورسر بلندی کی خاطر بے پناہ قربانیاں دیں ۔اپنے عہد کے تمام واقعات کی ساعتیں اور ان کی ترجمان سماعتیں زندگی کے اس سفر میں جب بھی یاد آئیں گی تو ان کا ایک ایک حرف پور ی قوت اور تابانی کے ساتھ زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر کر کے اپنے وجود کا اثبات کرے گا ۔ استحصالی طبقے کے خلاف وہ ایک شعلہ ء جوالا کے مانند تھے ۔مظلوم اور بے بس انسانیت کے ساتھ ان کے قول و اقرار اور عہد وفا ہمیشہ استواررہے ۔شب الم مآل کار اپنے انجام کو پہنچے گی ۔ فسطائی جبر کے مسلط کردہ مہیب سناٹوں اور آمریت کی مہیب رات کی جانگداز ظلمت میں ان کی شاعری ستاہء سحر کے مانند دلوںکو ایک ولولہء تازہ عطا کرتی رہے گی ۔احمد فراز کی شاعری کو دنیا بھر میں بے پناہ مقبولیت نصیب ہوئی ۔وہ پاکستان ،بھارت ،یورپ ،عرب ممالک اور دنیا بھر کے پس ماندہ اور ترقی پذیرممالک کے عوام کے حقیقی خیر خواہ اور درد آشنا تھے۔ان کی شاعری نے فکر و نظر کو اس طرح مہمیز کیاکہ زندگی کے نشیب و فرا ز حقیقی تناظر میں سامنے آتے ہیں۔
میں چپ ہو جائوں گا بجھتی ہوئی شمعوں کے ساتھ اور کچھ لمحے ٹھہر !اے زندگی !اے زندگی
احمد فراز (سید احمد شاہ)12جنوری 1931کو پاکستان کے صوبہ خیبر پختون خواہ میں پیدا ہوئے ۔ان کے والد سید محمد شاہ برق اس علاقے کی ممتاز شخصیت تھے ۔پورے علاقے میں انھیں ان کی علمی ادبی اور معاشرتی خدمات کی بدولت عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ۔احمد فراز کو بچپن ہی سے شعر و شاعری سے شغف تھا ۔گھر کے علمی و ادبی ماحول نے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو صیقل کیا ۔والدین نے بہت لاڈ اورپیار سے ان کی پرورش کی اور ہمیشہ ان کی پسند کا خیال رکھا ۔ایک مرتبہ عید کے موقع پر حسب معمول سب افراد خانہ کے لیے نئے کپڑوں کی خریداری کا مرحلہ آیا ۔اس زمانے میں بالعموم والدین خود ہی اپنی اولاد کے لیے موزوں لباس اورکپڑوں کا انتخاب کیا کرتے تھے ۔اس بار جو کپڑے آئے وہ احمد فراز کو پسند نہ آئے ۔ان کا خیال تھا کہ باقی افراد خانہ کے کپڑے زیادہ پر کشش ہیں ۔خاص طورپران کے بڑے بھائی کے لیے جو لباس خریدا گیا وہ احمد فراز کو اچھا لگا۔احمد فراز نے اپنے لیے لائے گئے کپڑوں کو کھردرا ،بد وضع اور کمبل نماسمجھتے ہوئے اسے قیدیوں کی وردی سے مشابہ قرار دیا۔ہزار خوف میں بھی ان کی زباں نے ہمیشہ دل کی بات کو لبوں پر لانے میں کبھی تامل نہ کیا ۔ان کی اس بات کو سب نے تسلیم کیا اور آئند ہ ان کے لیے ان کے ذوق کے مطابق لباس کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا ۔اس کم عمری میں اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے انھوں نے اپنی زندگی کا یہ پہلا شعر بر جستہ کہا :
سب کے واسطے لیے ہیں کپڑے سیل سے لائے ہیں میرے لیے قیدی کا کمبل جیل سے
احمد فراز ایک محب وطن پشتون خاندان کے چشم و چراغ تھے ۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم کوہاٹ سے مکمل کی ۔اس کے بعد ان کا خاندان پشاورمنتقل ہو گیا ۔اس تاریخی شہر میں انھیں تعلیمی مدارج طے کرنے میں بہت مدد ملی ۔پشاورپہنچنے کے بعد انھوں نے سب سے پہلے پشاور ماڈل سکول میںابتدائی تعلیم مکمل کی۔میٹرک کے بعد وہ ریڈیو پاکستان کراچی میں سکرپٹ رائٹر کی حیثیت سے کا م کرنے لگے لیکن جلد ہی وہ تعلیمی سلسلہ نئے سرے سے شروع کرنے میں کامیاب ہو گئے اور پشاور کی معروف درس گاہ ایڈورڈ کالج میں داخلہ لیا ۔اس کے بعد انھوں نے پشاور یو نیورسٹی سے اردو اور فاسی زبانوں میں ایم۔اے کی ڈگریا ں حاصل کیں۔پشاورشہرمیں احمد فراز کو جو ماحول میسر آیا اس کے اعجاز سے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو نمو ملی ۔ان کے معاصرین میں رضا ہمدانی ،غلام محمد قاصر ،فارغ بخاری ،تاج سعید ،محسن احسان ،صابر کلوروی ،غفار بابر ،انور خواجہ ،رام ریاض ،سید جعفر طاہر ،آغا گل اور متعدد اہم ادیب شامل ہیں ۔ان حسیں یادوں کو وہ اپنی زندگی کا بیش بہا اثاثہ قرار دیتے تھے۔اپنی عملی زندگی کا آغاز احمد فراز نے پشاوریونیورسٹی میںبہ حیثیت لیکچرر تدریسی خدمات سے کیا ۔ حکومت پاکستان کی طرف سے ان کی علمی اور ادبی خدمات کے اعتراف میں انھیں ہلال امتیاز ،ستارہء امتیاز اور ہلال پاکستان (بعد از وفات )سے نوازا گیا ۔ انھیںنگار ایوارڈ بھی ملا ۔وطن اور اہل وطن کے ساتھ ان کی والہانہ محبت اور قلبی وابستگی اور جابر سلطان کے سامنے کلمہ ء حق کہنا ان کا بہت بڑا اعزازو امتیاز ہے ۔احمدفراز کو 1966میں پاکستان رائٹرز گلڈ کی جانب سے آدم جی ادبی ایوارڈ ملا ۔اس طرح ان کی تخلیقی کامرانیو ں کا ہر سطح پر بر ملا اعتراف کیا گیا ۔1972میں انھیںدھنک ایوارڈ ملا ۔اس ایوارڈ کے مطابق انھیں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر نہایت مقبول اردو شاعر تسلیم کیا گیا ۔1990میںادب کا اباسین ایوارڈ بھی انھیںملا۔ادب اور انسانی حقوق کے لیے ان کی جد و جہد کے اعتراف میں (جمشید نگر ۔بھارت )جے این ٹاٹا ایوارڈ 1992 میںان کے حصے میں آیا ۔انھو ں نے ہمیشہ حق و صداقت اورحریت فکر کو اپنا مطمح نظر قرار دیا ۔ایک بلند پایہ ادیب اوردانش ور کی حیثیت سے انھو ںنے جبر کاہر انداز مسترد کرتے ہوئے قلم کو اپنی قوم کی امانت قرار دیا۔انھیں نقوش ایوارڈ برائے فروغ ادب (1992-1993)ملا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ احمد فراز نے ہر قسم کی ابتلا اور آزمائش کی گھڑی میں ثابت قدمی کا ثبوت دیا اور ظلم کے سامنے سپر انداز ہونے سے انکار کر دیا ۔احمد فراز کو کئی عالمی ایوارڈ بھی ملے۔ان میں فراق ایوارڈ بھی شامل ہے جو انھیں بھارت سے 1982میں ملا ۔کینیڈا سے انھیں 1991میں عالمی اردو ایوارڈ ملا ۔اس طرح ان کی شہرت دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچ گئی ۔وہ اردو زبان و ادب کے ایک ایسے عظیم تخلیق کار تھے جنھیں 1997کے بعد سب سے زیادہ پذیرائی اور محبت عالمی سطح پر نصیب ہوئی ۔اکادمی ادبیات پاکستان کی طرف سے ان کی وقیع صحافتی، علمی ،ادبی،معاشرتی او رقومی خدمات کے اعتراف میں انھیں علامہ اقبال ایوارڈ اور تا حیات اعزازی فیلوشپ سے نوازا گیا ۔احمد فراز نے پاکستان میں اہم مناصب پر فائز رہتے ہوئے جو گراں قدر خدمات انجام دیں ان کا ایک عالم معترف ہے ۔1976میں ان کا تقرر اکادمی ادبیا ت پاکستان ،اسلام آباد کے بانی ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے ہوا ۔پاکستانی ادیبوں کی فلاح و بہبود کے لیے قائم کیے جانے والے اس عظیم ادارے میں ان کی خدمات تاریخ ادب کا درخشاں باب ہے ۔اکادمی کے ادبی مجلے ’’ادبیات‘‘کو ان کے دورمیں ایک اہم بنیادی ماخذاور معیاری ادبی مجلہ سمجھا جاتا تھا ۔ اس رجحان ساز ادبی مجلے نے تخلیق ادب ،تحقیق ،تنقید ،شاعری اور فنون لطیفہ کے فروغ میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔پاکستانی اہل قلم کی فلاح او ربہبود کے متعدد منصوبے ان کے دور میں شروع کیے گئے ۔اس کے بعد وہ 1989میں نیشنل بک فائونڈیشن اسلام آباد کے چیر مین بنے اور 1990تک اس عہدے ر فائز رہے ۔یہاں بھی انھوں نے اپنی انتظامی قابلیت اورتدبرکالوہا منوایا ۔نیشنل بک فائونڈیشن نے اس دور میں متعدد اہم اور مفید کتابیں شائع کیں ۔جن کی بدولت قارئین کو معیاری کتابیں ارزاں نرخوں پردستیاب ہونے لگیں ۔اس کے علاوہ ادیبوں کی تصانیف کی اشاعت اور انھیں معقول معاوضے کی ادائیگی کے سلسلے کا آغاز ہوا۔اس طرح پاکستانی ادیبوں کو اپنی تصانیف کی اشاعت کے سلسلے میں نجی شعبے کا ناشرین کے استحصال سے نجات مل گئی ۔یونیورسٹی آف کراچی کی جانب سے احمد فراز کو ڈاکٹریٹ آف لٹریچر کی اعزازی ڈگری بھی ملی ۔پاکستان کے سابق فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کی حکومت کی طرف سے احمد فراز کو 2004میں ہلال امتیاز دیا گیا ۔جب اس آمر نے پاکستانی عوام کے چام کے دام چلائے اور بنیادی انسانی حقوق کی پامالی روز کا معمول بن گیا تو احمدفراز نے اس کے خلاف آواز بلند کی ۔اس کے نتیجے میں احمد فراز کو ملازمت سے بر طرف کر دیا گیا ۔احمد فراز نے اس شقاوت آمیز نا انصافی اور صریح ظلم کے خلاف بہ طور احتجاج ہلال امتیازحکومت کو واپس کر دیا اور حریت ضمیر سے جینے کے لیے اسوہء شبیرؓ کو اپنایا۔
احمد فرا ز نے اپنی تخلیقی کامرانیوں سے دلوں کو مسخر کر لیا۔ان کی تصانیف کو بہت پذیرائی ملی ۔ان کی اہم تصانیف درج ذیل ہیں :
تنہا تنہا (1958)،درد آشوب (1966)،میرے خواب ریزہ ریزہ (1972)،جاناںجاناں (1976)،بے آواز گلی کوچوں میں (1982)،نابینا شہر میں آئینہ (1984)،سب آوازیں میری ہیں
(1985)،پس انداز موسم (1989)،بودلک (1994)۔ان کے تما م شعری مجموعے کلیات کی صورت میںشائع ہو چکے ہیں ۔
احمد فراز کی تصانیف کو پوری دنیا میں جو مقبولیت نصیب ہوئی وہ اپنی مثا ل آپ ہے ۔اس مقبولیت اور احترام میں کوئی ان کا ہم پلہ دکھائی نہیں دیتا ۔انھوں نے اردو زبان و ادب کے فروغ کو ہمیشہ اپنی اولین ترجیح قرار دیا ۔انھوں نے پاکستانی اہل قلم کو عزت نفس کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا حوصلہ عطاکیا۔سلطانی ء جمہور اور لفظ کی حرمت کے لیے انھوں نے جو قربانیاں دیں، ان میں کوئی ان کا شریک اور سہیم نہیں ۔احمد فراز نے اردو شاعری کو ایک منفرد لہجے سے آشنا کیا۔اس میں رنگ ،خوشبو ،حسن و خوبی ،رومان اور جبر کے خلاف مزاحمت کے تما م استعارے سمٹ آئے تھے ۔زندگی کی اقدار عالیہ کے تحفظ پر وہ اپنی توجہ مرکوز رکھتے ۔ان کے مزاج میں اخلاق ،اخلاص اور بے لوث محبت کے جذبات کی فراوانی تھی ۔اپنے ترقی پسندانہ شعور کو بروئے کار لاتے ہوئے انھوں نے نہ صرف فسطائی جبر کے خلاف مزاحمت کی بلکہ ہر ظالم پہ لعنت بھیجنا اپنا نصب العین بنایا۔ان کی زندگی میں واقعہ کربلاکو حریت فکر کے ایک ایسے استعارے کی حیثیت حاصل ہے جو ہر عہد میں دلوں کو مرکز مہر و وفا کرنے کا وسیلہ ثابت ہو گا۔حضرت امام حسین ؓ نے میدان کربلا میں جو فقید المثال قربانی دی اس نے قیامت تک کے لیے استبداد کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکا۔احمد فراز کی شاعری میں نواسہ ء رسول حضرت امام حسین ؓکی قربانی کو کلیدی اہمیت کاحامل قراردیا گیا ہے ۔اس عظیم قربانی نے ویرانے کی قسمت بدل دی اور قیامت تک کے لیے حریت فکرکے مجاہدوں کے لیے لائحہء عمل کا تعین کر دیا :
سلام اس پر
حسینؓ!
اے میرے سر بریدہ
بدن دریدہ
سدا ترا نام بر گزیدہ
میں کربلا کے لہو لہو دشت میں تجھے
دشمنوں کے نرغے میں
تیغ در دست دیکھتا ہوں
میں دیکھتا ہوں
کہ تیرے سارے رفیق
سب ہم نوا
سبھی جاں فروش
اپنے سروں کی فصلیں کٹا چکے ہیں
گلاب سے جسم اپنے خوں میں نہا چکے ہیں
ہوائے جاں کاہ کے بگولے
چراغ سے تاب ناک چہرے بجھا چکے ہیں
مسافران رہ وفا لٹ لٹا چکے ہیں
اور اب فقط تو
زمیں کے اس شفق کدے میں
ستارہء صبح کی طرح
روشنی کا پرچم لیے کھڑا ہے
یہ ایک منظر نہیں ہے
ایک داستاں کا حصہ نہیں ہے
ایک واقعہ نہیں ہے
یہیں سے تاریخ
اپنے تازہ سفر کا آغاز کر رہی ہے
یہیں سے انسانیت
نئی رفعتوں کو پروازکررہی ہے
میں آج اسی کربلا میں
بے آبرو……. نگوں سر
شکست خوردہ خجل کھڑا ہوں
جہاں سے میرا عظیم ہادی
حسین ؓ کل سرخرو گیا ہے
میں جاں بچا کر
فنا کی دلدل میں جاں بہ لب ہوں
زمین اور آسمان کے عزو فخر
سارے حرام مجھ پر وہ جاں لٹا کر
منارہء عرش چھو گیا ہے
سلام اس پر
سلام اس پر
احمد فراز نے اپنے عہد کے ترقی پسند ادیبوں کے افکار سے گہرے اثرات قبول کیے ۔انھوں نے زندگی کے تلخ حقائق کی ترجمانی کرتے ہوئے اس جانب توجہ مرکوز رکھی کہ زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر کیا جائے ۔وہ تمام تاریخی صداقتیں منظر عام پر لائی جائیں جو ابلق ایام کے سموں کی گرد میں اوجھل ہو چکی ہیں ۔انھوںنے انسانی زندگی کے جملہ مظاہر کو جس خلوص اور دردمندی سے باہم مربوط کیا ہے وہ ان کے اسلوب کا امتیازی وصف ہے ۔ان کے تخلیقی عمل میں اس عالم آب و گل کے جملہ مظاہر اور بنی نوع انساں کو ایک ایسی جامعیت اور کلیت کے ساتھ قلم اور قرطاس کے معتبر حوالے کے طور پر پیش کیا گیا ہے کہ اس کی تاثیر قاری کے قلب اور روح کی گہرائیوں میں اتر کر اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتی ہے ان کے خیالات میں ندرت اور تنوع کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے ۔ان کے منفرد اسلوب کی اساس ان کے وہ مسحور کن تخلیقی تجربات ہیں جو ان کے داخلی اور خارجی نوعیت کے جذبات کے آئینہ دار ہیں ۔ادبی اقدار و روایات کو وہ دل و جاں سے عزیز رکھتے ہیں ۔تخلیق فن کے لمحوں میں وہ اس انداز سے اپنے تخیل کی جولانیاں دکھاتے ہیں کہ قاری ان کی معجز نما تاثیر سے مسحور ہو جاتا ہے اور اسے یوں محسوس ہوتاہے کہ شاعر ایک مسیحا کی صورت میں مرہم بہ دست اس کی غم خواری کے لیے آیا ہے ۔اردو شاعری میںحریت فکر کی جس روایت کا آغاز سید محمد جعفر زٹلی سے ہوا، وہ احمد فراز تک آتے آتے بہت مضبوط اور مستحکم صورت اختیار کرگئی ۔ان کے منفرد اسلوب کے سوتے حریت فکر کی اسی درخشاں روایت سے پھوٹتے ہیں ۔امروز کی شورش میں وہ اندیشہ ء فردا سے متمتع ہیں اور ان کے اسلوب میں پر خلوص جذبات،حقیقی احساسات ،مسائل زیست کا ادراک اور انسانی ہمدردی کا جو ارفع معیار نظر آتا ہے وہ انھیں اپنے عہد کے منفرد اور ممتاز تخلیق کار کے منصب پرفائز کرتا ہے ۔فسطائی جبر نے معاشرتی زندگی میں خوف کی جو دیوار کھڑی کر رکھی ہے اسے مکمل طور پر منہدم کرنا احمد فراز کا مطمح نظر ہے ۔اس شہر نا پرساں میںقاتلوں کے ہاتھ میں تلوار دیکھ کر و ہ چپ نہیں رہ سکتے ۔ عہد ستم میں وہ جس انداز میں رہے اور اپنی پر نم آنکھوں سے وہ جو کچھ دیکھتے ہیں اس کا جملہ احوال وہ اپنی شاعری میں بیان کر دیتے ہیں ۔ان کے حروف ا ن کے عہد کی متعدد حکایات خوں چکاں کو اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہیں ۔کوئی صنف ادب ہو احمد فراز کا قلم ضمیر کی للکار اورحریت فکر کی پیکار کی شکل میں جبر کے ایوانوں پر لرزہ طاری کر دیتا ہے ۔ہزارخوف ہو لیکن ان کی زباں ہمیشہ ان کے دلی جذبات کی ترجمانی کرتی ہے ۔جہاں بھی قاتل اور مظلو م و بے نوا بسمل کا ذکر آتا ہے احمد فراز سسکتے بسمل انسانوں کی صف میں کھڑے ہو کر شقی القلب ظالموں کو للکارتے ہیں کہ اگر ان میں ا تنی تاب و تواں ہے تو ان کا بھی کام تمام کر دیں۔جب وہ یہ دیکھتے ہیں کہ ہوائے جورو ستم کے مسموم اثرات کے باعث رتیں بے ثمر ،کلیاں شرر ،فضائیں بے ابر ،زندگیاں پر خطر ،شجر محروم تر اور آہیں بے اثر ہوتی جارہی ہیں تو وہ نہایت عقیدت ،عجز و انکسار او ردردمندی سے حضور ختم المرسلینﷺکی بارگاہ میں اپنے قلبی احساسات اور داستان غم اس طرح بیان کرتے ہیں :
میرے رسولﷺ کہ نسبت تجھے اجالوںسے
میں تیرا ذکر کروں صبح کے حوالوں سے
تو روشنی کا پیمبرﷺ ہے اور مری تاریخ
بھری پڑی ہے شب ظلم کی مثالوں سے
احمد فراز کے اسلوب میں انسانیت کے وقار اور سر بلندی کی جد وجہد کو کلیدی مقام حاصل ہے ۔ان کی بیاض شعر میں اسلام کی آفاقی تعلیمات کا جو پرتو دکھائی دیتا ہے وہ حضور ختم المرسلیں ﷺسے ان کی قلبی محبت کا آئینہ دار ہے ۔تمام زمانوں کی ساعتیں ان کے پیش نظر ہیں ۔انھیں ا س بات کا یقین ہے کہ آج بھی اگر ابراہیم ؑکا ایمان پیدا ہو جائے تو آگ یقینی طور پر انداز گلستاں پیدا کر سکتی ہے ۔حضور ﷺنبی کریم کی ذات اقدس کے ساتھ ان کی جو والہانہ محبت اورعقیدت ہے وہ ان کی شاعر ی میں نمایاں ہے ۔وہ جانتے ہیں کہ حضور ﷺ کی ذات با برکات کے اسوہ ء حسنہ پر عمل کرنے ہی سے ہمارے دکھوں کا مداوا ہونے کی کوئی صورت پیدا ہو سکتی ہے اسی لیے وہ نہایت عجز و انکسار سے اپنی فریاد پیش کرتے ہوئے متعدد تلخ حقائق سامنے لاتے ہیں ۔یہ وہ حقائق ہیں جنھیںہماری معاشرتی زندگی میں بالعموم نظر انداز کر دیا جاتا ہے ۔ آج ہماراالمیہ یہ ہے کہ ہوس زرو مال و جاہ و منصب ، فرقہ بندی اور ذات پات کی لعنتوں کے باعث پوری ملت اسلامیہ انتشار اور پرا گندگی کی بھینٹ چڑھ گئی ہے۔ احمد فراز کو یقین ہے کہ اگر آج بھی ملت اسلامیہ حضو ر ختم المرسلین ر ﷺکے نقش قدم پر چلے تو مصائب و آلام کے بادل چھٹ جائیں گے انھوں نے جس خلوص اوردردمندی کے ساتھ حالات کا تجزیہ کیا ہے وہ فکر پرور بھی ہے اورخیال افروز بھی ۔اس قسم کی شاعری قاری کے فکر و نظر کو مہمیز کر کے زندگی کے بارے میں مثبت شعورو آگہی پیدا کرنے میںاہم کردارادا کرتی پہے ۔احمد فراز کا لہجہ ان کی ملی تڑپ اور قومی دردمندی کا مظہر ہے :
اے روشنی کے پیمبرﷺ
یہ شوریدہ سر حر ف زن ہے
کہ محراب و منبر سے
فتویٰ گر و فتنہ پرداز دیں
حرف حق بیچتے ہیں
فقیہان مسند نشیں
حرص دینار و درہم میں
تیرے صحیفے کا اک اک ورق بیچتے ہیں
پیمبر ﷺ!
مجھے حوصلہ دے
کہ میں ظلم کی قوتوں سے
اکیلا لڑا ہوں
کہ اس جہاں کے جہنم کدے میں
اکیلا کھڑا ہوں
احمدفراز کا ترقی پسندانہ شعور اسلام ،پیغمبر اسلام ﷺ،تاریخ اسلام اور مشاہیر اسلام کے فکری منابع سے نمو پاتا ہے ۔بے لوث محبت اور بے باک صداقت کا جو لائق صد رشک و تحسین معیار ہمیں ان کے اسلوب میں دکھائی دیتا ہے وہ جہاں جمالیاتی حسن و دل کشی اور فلاحی معائر کو اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے وہاں انصاف ،اعتدال اور توازن کی ایک قابل قدر صورت بھی اس کی پہچان بن جاتی ہے ان کی دلیری،بے خوفی ،بے باکی ،دردمندی ،خلوص اور حرف صداقت لکھنے کے عزم نے ان کے تخلیقی عمل کو متنوع اور منفرد بنا دیا ہے ۔ بادی النظر میں ہمارا معاشرہ بے حسی کا شکار ہوتا چلا جا رہا ہے ۔اس کے مسموم اثرات سے بچ نکلنے کی ایک ہی صور ت ہے کہ معاشرتی زندگی میںحق و انصاف کی بالا دستی کو یقینی بنایا جائے۔اسلا م نے امتیاز رنگ و خوں کو ہمیشہ کے لیے مٹا دیا ۔اگر معاشرتی زندگی میں عدل و انصاف کا دوردورہ ہو گا تو اخلاقیات کی درخشاں اقدار و روایات کو استحکام ملے گا ۔احمد فراز کی شاعری میں ظالم و سفاک ،موذی و مکار استحصالی عناصرکے مکر کی چالو ںسے خبردار کرتے ہوئے فسطائی جبرکے خلاف کھل کر اظہار خیال کیا گیا ہے ۔وہ کسی مصلحت کے قائل نہیں اور نہ ہی الفاظ کو فرغلوں کو لپیٹ کر پیش کرتے ہیں ۔جس معاشرے میں بے ضمیروں کے وارے نیارے ہوں اور خوددار اور با وقارمظلوم انسانیت پر عرصہ ء حیات تنگ کر دیا جائے وہاں اہل وفاکی زندگی کا تمام منظر نامہ گہنا جاتا ہے ۔احمدفرازکی شاعری میں ایک واضح پیغام ہے کہ شقاوت آمیز نا انصافیوں ،بے رحمانہ مشق ستم ،انتہا پسندی کے مظالم اور ناروا امتیازی سلوک کے خلاف آواز بلند کرنا ہر باضمیرانسان کا فرض ہے ۔ جبر کے حبس زدہ ماحول میں تو طیور بھی اپنے آشیانوں میں دم توڑ دیتے ہیں، انسانیت کے لیے ایسا ماحول کڑی آزمائش بن جاتا ہے ۔احمدفراز نے فسطائی جبر کے خلاف قلم بہ کف مجاہد کا کردار ادا کرتے ہوئے ہر اولی الامر پر واضح کر دیا کہ وہ اپنی فرد عمل پر نظر رکھے کیوں کہ اسے اپنے قبیح کردار کے لیے عوام کی عدالت میں جواب دہ ہونا پڑے گا ۔ان کی
شاعری سے مظلوم طبقے کو حوصلے اور ہمت کی نوید ملتی ہے اور گردن فرازان جہاں کو عبرت حاصل ہوتی ہے ۔
پیچ رکھتے ہو بہت صاحبو دستار کے بیچ
ہم نے سر گرتے ہوئے دیکھے ہیں بازار کے بیچ
جب شہر کھنڈر بن جائے گا پھر کس پر سنگ اٹھائو گے
اپنے چہرے آئینوں میں جب دیکھو گے ڈر جائو گے
کیا مال غنیم تھا مر ا شہر
کیوں لشکریوں میں بٹ گیا ہے
کب ہم نے کہا تھاہمیں دستار و قبا دو
ہم لو گ گداگر ہیں ہمیں اذن ند ادو
مکین خوش تھے کہ جب بند تھے مکانوں میں
کھلے کواڑتو تالے پڑے زبانوں پر
ڈوبتے ڈوبتے کشتی کو اچھالا دے دوں
میں نہیں کوئی تو ساحل پہ اتر جائے گا
ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فراز
ظالم اب کے بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا
کسی کو گھر سے نکلتے ہی مل گئی منزل
کوئی ہماری طرح عمر بھر سفر میں رہا
کچھ اس طرح سے گزاری ہے زندگی جیسے
تمام عمر کسی دوسرے کے گھرمیں رہا
وطن ،اہل وطن اورانسانیت کے ساتھ قلبی لگائو اوروالہانہ محبت احمدفراز کے ریشے ریشے اور نس نس میں سرایت کر گئی تھی ۔اپنے جذب دروں کو جب وہ پیرایہ ء اظہارعطا کرتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ اپنی رگ جاں کے لہو سے معاشرتی زندگی کونکھارنے اورسنوارنے کے آرزو مندہیں ۔سر منز ل غم بھی وہ عزم و استقلال ،حوصلے اور امید کا دامن تھام کر سوئے منزل رواں دواں رہنے کی تلقین کرتے ہیں ۔اداسیوں کے گھنے جنگلوں کا مہیب سناٹا،جبر کی بھیانک تاریک رات اور جنگل کے قوانین کا جان لیوا دکھ بھی انھیں یاس و ہراس میں مبتلا نہیںکر سکتا ۔انھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ جبر کے ماحول میں بے حسی کا عفریت ہر طرف منڈلانے لگتا ہے اور اہل درد کو آگہی کے صلے اس طرح ملتے ہیں کہ جگر کو فگار کرکے دل کو تار تار کیا جاتا ہے ۔مسلسل شکست دل کے باعث عزت عشق اور انا عنقا ہونے لگے تو معاشرتی زندگی میں بے غیرتی اور بے ضمیری پورے ماحول کو مسموم کر دیتی ہے ۔احمدفراز کو اس بات کا شدید قلق تھا کہ ابن الوقت ،موقع پرست ،بے بصر ،کور مغز اور گور کن قماش کے ننگ انسانیت لو گ سنگ ملامت لیے بلکتی ہوئی آبادیوں اور مضمحل مظلوموں پر ٹوٹ پڑے ہیں ۔بلکتی اورسسکتی ہوئی دکھی انسانیت کاکوئی پرسان حال نہیں ۔استحصالی عناصر نے اپنے مکر کی چالوں سے مجبور بے بس انسانوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے اور قسمت سے محروم یہ طبقہ اس سطح پرپہنچ چکا ہے کہ ان زندہ لاشوں کی تدفین کی نوبت آگئی ہے ۔معاشرتی زندگی کے جان لیوا صدمات ،سانحات اور جبر کے کریہہ انداز دیکھ کر ان کی روح زخم زخم اور دل کرچی کرچی ہو گیاہے ۔وہ بے بس و لاچار انسانوں کی توہین ،تذلیل ،تضحیک اور بے توقیری پر خون کے آنسو بہاتے ہیں ۔جب عدل گاہوں کی مصلحت ایسا ہولناک روپ اختیار کر لے کہ اس پر قاتلو ں کی وکالت کا گمان گزرے تو ایک حساس تخلیق کار کا ٹوٹ کے رونا قابل فہم ہے ۔احمد فراز کے شعری تجربات ان کے اپنے جذبات ،احساسات ،مشاہدات اور دروں بینی کے مر ہون منت ہیں ان تجربات کی متعدد جہات ہیں ان میں تنوع اور صد رنگی کی کیفیت قاری پر وجدانی کیفیت طاری کر دیتی ہے ۔ایک حساس ،مستعد ،فعال اور زیرک تخلیق کار کی حیثیت سے انھوں نے زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر کرنے کی غرض سے چشم کشا صداقتوں اور حیران کن تجربات کو اس خلوص اوردردمندی سے اشعارکے قالب میں ڈھالا ہے کہ قاری کے ذہن پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔
احمدفراز کے متنوع شعری تجربات کو محض انفرادی نوعیت کے حامل نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ معاشرتی زندگی کے نشیب و فراز سماجی ارتعاشات ،تہذیبی ،ثقافتی اور تاریخی عوامل سے ان کا گہرا تعلق ہے ۔ان تجربات سے انھوں نے جو نتائج اخذ کیے ہیں ان کا واضح پر تو ان کے تخلیقی عمل میں دکھائی دیتا ہے ۔زندگی کے تلخ حقائق ،آلام روزگار کے مہیب بگولوں اور سیل زماں کے تھپیڑوں نے زندگی کی رعنائیوں کو گہنا دیا ہے ۔اس کیفیت کو دیکھ کر ان کے تخلیقی محرکات کو جو جہت ملتی ہے وہ ان کے اسلوب میں نمایاں ہے ۔ان کے تجربات قاری کے ذہن میں ایک ہلچل پیدا کر دیتے ہیں اوریوں یہ تجربات قاری کو اپنی زندگی کے واقعات سے ہم آہنگ محسوس ہوتے ہیں ۔احمد فراز کی شاعری میں قلم کے ناموس پر بھر پور توجہ دی گئی ہے ۔ان کا سماجی شعور اس قدر پختہ ہے کہ وہ تمام جزئیات کو اپنے فکر و فن کی اساس بنا کر تمام حقائق کو بڑی مہارت کے ساتھ بلا کم و کاست شعر کے قالب میں ڈھالنے میں کوئی تامل نہیں کرتے ۔اظہار کی ندر ت اور اثر آفرینی کی مسحور کن کیفیت کے اعتبار سے ان کا اسلوب اس قدر دلکش ہے کہ عالمی ادبیات میں اس کی بہت کم مثالیں ملتی ہیں ۔وہ جہاں ظلمت شب کو ہدف تنقید بناتے ہیں وہاں خزاں کے سیکڑوں منا ظر کی موجودگی کے با وجود طلوع صبح بہاراں کی نوید بھی سناتے ہیں ۔یہ ان کی رجائیت کی دلیل ہے ۔انھوں نے متاع لوح و قلم چھیننے والوں کو متنبہ کیا کہ حریت فکر کے مجاہد ہردور میں خون دل میںانگلیاں ڈبو کر پرورش لوح و قلم میں مصروف رہے ہیں ۔وہ اپنے اسلوب کے بارے میں اپنے انداز فکر کی صراحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
سو شرط یہ ہے ،جو جاں کی امان چاہتے ہو
تو اپنے لوح و قلم قتل گاہ میں رکھ دو
وگرنہ اب کے نشانہ کمان داروں کا
بس ایک تم ہو ،سو غیرت کو راہ میں رکھ دو
یہ شرط نامہ جو دیکھا تو ایلچی سے کہا
اسے خبر نہیں تاریخ کیا سکھاتی ہے
کہ رات جب کسی خورشید کو شہید کرے
تو صبح اک نیا سورج تراش لاتی ہے
سو یہ جواب ہے میرا مرے عدو کے لیے
کہ مجھ کو حرص شکم ہے نہ خوف خمیازہ
اسے ہے سطوت شمشیرپر گھمنڈ بہت
اسے شکوہ قلم کا نہیں ہے اندازہ
مرا قلم نہیں کردار اس محافظ کا
جو اپنے شہر کو محصور کر کے ناز کرے
قلم کی حرمت کا یہ معیار ہر دور میں اہل قلم کو نشان منزل سے آگاہ کرتا رہے گا ۔پاکستان میں 1977کے بعد حالات نے جو رخ اختیارکیا ان سے دل برداشتہ ہو کر احمد فراز نے 1980میں خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرلی اور اس وقت واپس آئے جب سلطانیء جمہور کی صور ت نظر آئی اور محمد خان جو نیجو پاکستان کے وزیر اعظم بنے ۔فوجی آمریت پر انھوں نے واضح کر دیا کہ جی حضوری کرنا ان کے مسلک کے خلاف ہے ۔وہ اپنے تخلیقی کام کو اپنے ضمیر کی آواز کے مطابق جاری رکھنے میں کا میا ب ہو گئے ۔ان کی شاعری میںقلم کی عظمت کا جو ذکر ملتا ہے وہ اذہان کی تطہیر و تنویر کا وسیلہ بن جاتاہے ۔
مرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی
مرا قلم تو امانت مرے ضمیر کی ہے
تمام عمر کی ایذا نصیبیوں کی قسم
مرے قلم کا سفر رائیگاں نہ جائے گا
قلم کے اس سفر میں احمد فرا ز کو جس ابتلا اور آزمائش کے دور سے گزرنا پڑا وہ تایخ ادب میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔احمد فراز کی شاعری میں جبر کے ماحول کی صحیح عکاسی کی گئی ہے ۔فسطائی جبر نے خلوص اور ایثار کو بارہ پتھر کردیاہے ۔معاشرے کی سفاکی اور بے حسی کا یہ حال ہے کہ اجسام شل ہیں ،احساس اور ضمیر نیم جاں ہیں ۔دکھی انسانیت کے مصائب پر کوئی آنکھ پر نم نہیں اور کسی نوحہ گر کی صدا سنائی نہیں دیتی ۔مظلوم انسانیت کا بے گور و کفن بے اماں لاشہ ایک ایسے سائیں سائیں کرتے جنگل میں پڑا ہے جہاں جنگل کا قانون پوری قوت سے نافذ ہے ۔اس عفونت زدہ ماحول میں ان لاشوں کی بے حرمتی کا سلسلہ جاری ہے اورانھیں رزق کرگساں بنا دیا گیا ہے ۔ان مقتولوں کے مجبور وارث حسرت و یاس کے عالم میں یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔احمد فراز کی شاعری کے متنوع پہلو اور دھنک رنگ مناظر قاری کو ورطہء حیر ت میں ڈال دیتے ہیں ۔وہ جس انداز کو اپنائیں وہی ان کی پہچان بن جاتا ہے ان کی شاعری میںاحتجاج ،رومان ،عملیت پسندی ،سیاست ،انقلاب ،حریت فکر،حبس کے ماحول اور عالمی ادبیات کی جو باز گشت سنائی دیتی ہے وہ انھیں اپنے عہد کے ایک ممتاز اورمنفرد اسلوب کے حامل تخلیق کار کے منصب پرفائز کرتی ہے ۔اپنی زندگی میںانھیں جو محبتیں اور پذیرائیاں ملیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔انھیں خود بھی اس بات کا احساس تھا کہ ادب کے سنجیدہ قارئین ان کی شاعری کے دلدادہ ہیں اور ان کا نام عزت و احترام سے لیا جاتاہے ۔قارئین کی بے لوث محبت کے وہ معترف تھے اس لیے انھوں نے لکھا ہے :
اور فراز چاہییں کتنی محبتیں تجھے
مائوں نے تیرے نام پر بچوں کا نام رکھ دیا
اس مقبولیت کا سبب یہ تھا کہ انھوں نے مظلوم طبقے سے جو عہد وفا استوار کیا اسے علاج گرد ش لیل و نہار سمجھتے ہوئے تمام عمر اس پر کا بند رہے ۔ 3نومبر 2007کو جب پاکستان کے مطلق العنا ن آمرجنرل پرویز مشرف نے پاکستان کی عدالت عظمیٰ پر دھاوا بولا اور منصفین کو قید کرلیا تو احمد فراز نے اس کے خلاف شدید رد عمل کا اظہار کیا ۔اپنی گرتی ہوئی صحت کے باوجود احمد فراز نے اپنے دبنگ لہجے سے عوام میں مثبت شعورو آگہی پیدا کرنے کی بھر پور کوشش کی ۔ان کی شاعری میں مطلق العنان آمر کے لیے ایک واضح پیغام ہے جو حقائق کا آئینہ ار ہے ۔احمد فراز نے عالمی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں اور توسیع پسندانہ عزائم سے خبردار کرتے ہوئے بر ملاکہا :
کس کا گماشتہ ہے امیر سپاہ شہر
کن معرکوں میں ہے صف دشمن لگی ہوئی
برباد کر کے بصرہ و بغداد کا جمال
اب چشم بد ہے جانب خیبر لگی ہوئی
مرے ضمیر نے قابیل کو نہیں بخشا
میں کیسے صلح کروں قتل کرنے والوں سے
پیشہ ور گواہوں کی اور بھی مثالیں تھیں
مجھ کو قتل کرنے میں منصفوں کی چالیں تھیں
احمد فراز کی متعدد نظمیں ایسی ہیں جو عالمی ادبیات میں اہم مقام رکھتی ہیں ۔دنیابھر کے حریت پسند انقلابی ہمیشہ ان سے ایک ولولہ ء تازہ حاصل کرتے رہیں گے ۔دلوں کی دھڑکنوں سے ہم آہنگ ہو جانے والی ان نظمو ںمیں محاصرہ ،شہر آشوب،مت سوچو،جلاد ،چلو اس شہر کا ماتم کریں اور اے میرے سارے لوگوشامل ہیں ۔آمریت کے بد ترین دور میںبھی احمد فرازنے مایوسی اور اضمحلال سے دامن بچائے رکھا ۔ان کا پیغام خلوص اور درد مندی پر مبنی تھا وہ محبت کے بے لو ث جذبات کے اعجاز سے دلوں کو مسخر کرنے کا سلیقہ جانتے تھے ۔وہ مرہم بہ دست آ کر دکھی انسانیت کے مصائب و آلام پر ان کی ڈھارس بندھاتے ۔ان کی شاعری میں حسن و رومان پر مبنی خیالات کی دل کشی قاری کو غم جہاںکی تلخیوں سے دور لے جاتی ہے ۔وہ کشتیء زیست کو سیل زماں کے تلاطم سے بچانے کے آرزومند ہیں جہاں موج در موج حلقہ ء صدکام نہنگ قطرے کے گہر ہونے کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ثابت ہوتا ہے ۔وہ محبت کا علم لہراتے ہوئے نفرتوں ،عداوتوں اور استبداد کی عمارتوں کو مسمارکرنے کی سعی کرتے ہیں ۔الفت کا سراغ پانے والوں کے لیے ان کی رومانی شاعری سکون قلب کی نوید لاتی ہے ۔وہ اپنی تسبیح روزو شب کے دانے دانے سے محبت ،خلوص ،ایثار اور وفا کا ورد کرتے ہیں ۔کشمکش روزگار میں محبت ہی ان کے لیے خضر راہ ہے ۔وہ محبت کے لا زوال جذبات کے ذریعے لفظ کو پھول بنانے کا کرشمہ دکھا کر قاری پر وجدانی کیفیت طاری کر دیتے ہیں :
اگر کسی سے مراسم بڑھانے لگتے ہیں
ترے فراق کے دکھ یاد آنے لگتے ہیں
پلک جھپکتے ہی دنیااجاڑ دیتی ہے
وہ بستیاں جنھیں بستے زمانے لگتے ہیں
فراز ملتے ہیں غم بھی نصیب والوں کو
ہر اک کے ہاتھ کہا ںیہ خزانے لگتے ہیں
ہجر اورفراق کے کرب کو انھوں نے جس طرح محسوس کیا اس کا اظہار وہ نہایت دل نشیں انداز میں کرتے ہیں ۔وہ رنجش کے باوجود محبوب کے انتظار میںرہتے ہیں کہ اسی کا نام تو تعلق ہے خواہ وہ لگائو کی صور ت میں ہو یا اس کی نوعیت لاگ کی ہو ۔وہ دل دکھانے والوں کو بھی یاد رکھتے ہیں۔
تیری باتیں ہی سنانے آئے
دوست بھی دل ہی دکھانے آئے
پھول کھلتے ہیں تو ہم سوچتے ہیں
تیرے آنے کے زمانے آئے
وہ قول وہ سب قرار ٹوٹے
دل جن سے مآل کار ٹوٹے
وہ پچھلا پہر شب الم کا
آنسو بھی ستارہ وارٹوٹے
اب تک ترے فتنے ہیں سلامت اسے کہنا
یار وسر محشر بھی قیامت اسے کہنا
اے دل زدگاں ،موت ہے اظہار تمنا
وہ بت ہو خدا بھی تو خدا مت اسے کہنا
احمدفراز کی شاعری میں زندگی کے تمام موسم سمٹ آئے ہیں ۔ان کا استدلال یہ ہے کہ اجڑے ہوئے لوگوںسے گریزاں ہوناسنگ دلی کا ثبوت ہے ۔انھیں یقین ہے کہ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی مل سکتے ہیں۔زندگی کے حالات نے ان پر جو اثرات مرتب کیے وہ ان کی شاعری میں نمایاں ہیں :
سلوٹیں ہیں میرے چہرے پہ تو حیرت کیسی
زندگی نے مجھے کچھ تم سے زیادہ پہنا
ہم کج ادا چراغ تھے جب بھی ہوا چلی
طاقوں کو چھوڑکر سردیوار آگئے
کہا تھا کس نے تجھے آبرو گنوانے جا
فرا زاور اسے حال دل سنانے جا
یہ کیا کہ سب سے بیاں دل کی حالتیں کرنی
فراز تجھ کو نہ آئیں محبتیں کرنی
ملے جب ان سے تو مبہم سی گفتگو کرنی
پھر اپنے آپ سے سو سو وضاحتیں کرنی
اس کی آنکھوں کو کبھی غور سے دیکھا ہے فراز
رو نے والوں کی طرح جاگنے والوں جیسی
زندگی کے جملہ نشیب و فراز احمد فراز کی شاعری میں پوری قوت اور حقیقت کے ساتھ جلوہ گر ہیں۔ان کی تنقیدی حقیقت نگاری اور واقعیت ان کے اسلوب کا اہم وصف ہے ۔ان کا ہمہ گیر مشاہدہ اور وسیع تجربات انھیں عالمی ادبیات میں ممتاز مقام عطا کرتے ہیں۔انسانی ہمدردی کا جو ارفع معیار ان کی شاعری میں موجود ہے وہ انھیں اپنے عہد کے منفرد شاعر کے منصب پر فائز کرتا ہے ۔انھوں نے تاریخ کے مسلسل عمل پر اپنی توجہ مرکوز رکھی اور عالمی حالات کے تناظر میں واقعات کو پوری دیانت سے بیا ن کیا ۔ان کے اسلوب میں دبنگ لہجہ اور شعری آہنگ قاری کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے ا ور کلام کی ندرت اورتاثیرکا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے ۔زندگی کی اقدار عالیہ سے والہانہ محبت کرنے والے اس نابغہ ء روزگار تخلیق کارکی رحلت سے اردو زبان و ادب کے فروغ کی مساعی کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا ہے ۔انھوں نے اردو زبان و ادب اور تہذیب و ثقافت کے لیے جو گراںقدر خدمات انجام دیںانھیںہمیشہ یاد رکھاجائے گا ۔جب تک دنیا باقی ہے ان کی شاعری قارئین کے احساس و ادراک ک ومہمیز کرکے اذہان کی تطہیر و تنویرکا اہتمام کرتی رہے گی ۔حریت فکر کے ارفع جذبات سے مزین یہ شاعری ہر دور میں انسانی جذبات کی تہذیب و تزکیہ کرکے قارئین کے شعورکومسرت ،سکون اور حریت ضمیر سے جینے کی راہ دکھاتی رہے گی ۔ان کی شاعری کا ایک عالم مدا ح ہے ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی شاعری کی ہمہ گیر مقبولیت میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔
میں خوش ہو ں راندہ ء افلاک ہو کر
مرا قد بڑھ گیا ہے خاک ہو کر