دنیا بھر کے علمی و ادبی حلقوں کے لیے پروفیسر ڈاکٹر سید مقصود حسنی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔وہ گزشتہ چار عشروں سے پرورش لوح و قلم میں مصروف ہیں۔دنیا کا کوئی علمی و ادبی مجلہ یا ویب سائٹ ایسی نہیں جہاں ان کی تخلیقات موجود نہ ہوں ۔انھوں نے تعلیم و تد ریس اور تخلیق ادب کے لیے اپنی زندگی وقف کررکھی ہے ۔تحقیق،تنقید اور فروغ علم و ادب ان کی جبلت میں شامل ہے ۔قصور میں مقیم اردو زبان و ادب کے یہ بے لوث خادم ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیا ز اب تک ہزاروں تحریریں زیب قرطاس کر چکے ہیں ،تیس کے قریب وقیع تصا نیف پیش کرکے اردو ادب کی ثروت میںاضافہ کر چکے ہیں اردو نظم ہو یا نثر ہر صنف ادب میں اپنی تخلیقی فعالیت کے جھنڈے گاڑ کے اپنی خداداد صلا حیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں ۔اردو کا کلا سیکی ادب ہو یا جدید ادب ہر شعبے میں ان کی فکر پروراور بصیرت افروز تحریریں اپنی اہمیت اورافادیت میں اپنی مثال آپ ہیں ۔غالب شناسی کے شعبے میں ان کا تحقیقی کام اس قدر جامع ،پر مغز اور تجزیاتی نوعیت کا ہے کہ پوری دنیا میں اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ اس کے باوجود اگر کسی کو اردو ادب کے ہمالہ کی یہ سر بہ فلک چوٹی دکھائی نہیںدیتی تو یہ اس کی نظر کا قصور ہے ورنہ شہرقصور کے اس عظیم دانش ور نے تواپنے دل کی شمع فروزاں کر کے سفاک ظلمتوں کو کافور کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ۔عجز وانکسار کا یہ پیکر ایک ایسا درویش منش تخلیق کار ہے جس نے مسلسل کئی عشروں سے گوشہ نشینی کی زندگی بسر کر نا اپنا شعار بنا رکھا ہے ۔شیر ربانی ٹائون قصور کے ایک چھوٹے سے مکان میں اردو ادب کا یہ بہت بڑا تخلیق کارمقیم ہے اور ہر حال میں اللہ کی رضا پر راضی ہے ۔اسے معلوم ہے کہ در کسریٰ پر صدا کرنا بے سود ہے ان کھنڈرات میں جامد و ساکت اور حنو ط شدہ لاشیں اور چلتے پھرتے ہوئے مردے دکھی انسانیت کے مصائب و آلام اور مصائب کے بارے میں کیا جان سکتے ہیں ۔اللہ کریم نے اس یگانہء روزگار فاضل اور ہفت اختر ادیب کو ایک شان استغناسے متمتع کیا ہے ۔وطن اور اہل وطن سے قلبی لگائو اور والہانہ محبت اس کے ریشے ریشے میں سما چکی ہے۔ تخلیق ادب کے وسیلے سے قومی تعمیر و ترقی کے کاموں میں ہمہ وقت مصرو ف رہنا اس کا مطمح نظر ہے اسے کسی کی تخریب سے کوئی غرض نہیں ۔پاکستان کے اس نامور ادیب کی فقید المثال ادبی کامرانیوں کاہر سو ڈنکا بجتا ہے لیکن مقام حیرت ہے کہ ان کی شخصیت ،اسلوب اور زندگی کے حالات پر کوئی ٹھو س کام اب تک منظر عام پر نہ آ سکا ۔ڈاکٹر محمد ریاض انجم کی معرکہ آرا تصنیف’’مسٹر اردو :اسرارزیست ،خدمات اوراعتراف‘‘کی اشاعت سے اس کمی کا بڑی حد تک ازالہ ہو جائے گا۔
پروفیسرڈاکٹر سید مقصود حسنی کی حیات اور علمی و ادبی خدمات پر مشتمل یہ کتاب بہت اہمیت کی حامل ہے ۔لائق مصنف نے اپنے ممدوح کے بارے میں مکمل چھان بین کے بعد تمام حقائق اور کوائف کویک جا کرکے پیش کیا ہے ۔مختلف حوالوں سے ملنے والی معلومات کوسائنسی انداز فکر کو بروئے کار لاتے ہوئے انھیں تحقیق و تنقید کی کسوٹی پر خوب پرکھا ہے ۔ یہ سوانحی کتاب لکھتے وقت ان کے پیش نظر متعدد فنی تجربے تھے جنھیں نابغہء روزگار ادیب پروفیسر ڈاکٹر سید مقصود حسنی نے اپنی تخلیقی زندگی میں ر و بہ عمل لانے کی سعی کی ۔ان تجربات کے وسیلے سے وہ جس انہماک سے زندگی اور اس کی معنویت کی تفہیم کے سلسلے میں نئے امکانات تک رسائی کے آرزو مند رہے ،تخلیقی عمل کا یہ پہلو فکر و نظر کے نئے دریچے وا کرتا چلا جاتا ہے ۔تخلیق فن کے لمحوں میں خون بن کر رگ سنگ میں ا تر جانے والے اس با کمال ادیب نے تخلیق ادب کو مقاصد کی رفعت کے اعتبار سے ہم دوش ثریا کر دیا ہے اوربلا شبہ ستاروں پر کمند ڈالی ہے ۔اپنے عہد کے کسی عظیم ادیب کی شخصیت کے تمام پہلوئوں اوراس کے اسلوب کے دھنک رنگ منظر نامے کی مرقع نگاری ایک کٹھن مرحلہ ہے ۔سعادت مندی ،عقیدت ،بے لوث محبت ،بے باک صداقت اور فنی معائر کو ملحوظ رکھناایک ایسا فن ہے جس کے لیے بڑی ریاضت درکارہے ۔ عظیم المر تبت شخصیت پر کام کرنے والے سوانح نگار کی شخصیت میں جس قدر فہم و فراست اور تدبرہوگا اسی قدر عظیم ادب پارہ منصہ ء شہود پر آئے گا۔مجھے یہ دیکھ کر دلی مسرت ہوئی کہ ڈاکٹرمحمد ریاض انجم نے اپنے ممدوح کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے وہ پوری ذمہ داری سے لکھا ہے اور اس کتاب کے مندرجات کی ثقاہت کو یقینی بنا دیا ہے ۔یہ اولین ماخذ اس اعتبار سے اوربھی اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں بیان کیے گئے تمام حالات و واقعات ،نشیب و فراز ،کیفیات اورکوائف کو پروفیسر ڈاکٹر سید مقصود حسنی نے اشاعت سے قبل پڑھا ہے ۔ اس طرح اس کتاب کے مشمولات کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے ۔مستقبل کے محقق کے لیے یہ کتاب ایک ایسا بنیادی ماخذاور گنجینہ ء معلومات ثابت ہو گی جسے اہم ترین بنیادی حوالہ جاتی حیثیت حاصل رہے گی ۔ڈاکٹر محمد ریاض انجم نے یہ کتاب لکھ کرنو جوان محققین کے لیے زادر راہ فراہم کر دیا ہے کہ وہ آگے بڑھیں اورتحقیق کے مسلسل عمل کو جاری ر کھیں ۔انھوں نے اپنے تجربات و مشاہدات اور جذبات و احساسات کو قارئین ا دب تک پہنچانے کی جو کوشش کی ہے اس میں دردمندی اور خلوص کا عنصر نمایا ں ہے۔ان کے ا سلوب کی صداقت موثر ابلاغ کو یقینی بنا دیتی ہے ۔انھوں نے اس امرکو ملحوظ رکھا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو اسلوب کو سادہ اور دل نشیں رکھاجائے تا کہ قاری اور تخلیق کار کے ما بین ذہنی اور فکری ہم آہنگی کو نمو ملے اوران کے دل کی بات سیدھی قاری کے دل میں اترتی چلی جائے ۔انھوں نے جو پیرایہ ء اظہار اپنایا ہے وہ قاری پروجدانی کیفیت طاری کر دیتا ہے اور چشم تصور سے اپنے عہد کے ایک عظئیم ادیب کو تخلیق ادب میں مصروف دیکھ سکتا ہے اوراس کے ابد آشنا اسلوب کے فنی محاسن کو جان سکتا ہے ۔ان کے دلکش اسلوب کا اہم پہلو یہ ہے کہ ان کے اسلوب کی چھلنی سے چھن کر دو شخصیات سامنے آتی ہیں ایک تو خو د مصنف کی شخصیت ہے اور دوسری پر وقار اور مسحور کن شخصیت پروفیسر ڈاکٹر سید مقصود حسنی کی ہے ۔جن کی خاندانی شرافت ،علمی فضیلت ،تنقیدی بصیرت اور تخلیقی فعالیت کو نہایت مو ثر انداز میں پیش کیا گیا ہے ۔ایک زیرک محقق اور بے باک نقاد کی حیثیت سے مصنف نے خارجی اور داخلی حقائق کی اساس پر اپنے ممدوح کی زندگی کے تمام پہلوئوں پر نگاہ ڈالی ہے ۔انھیں علم بشریات اور نفسیات کے جملہ اسرار و رموز پر دسترس حاصل ہے ۔اپنی مضمون آفرینی کے اعجاز سے وہ اپنے ممدوح کے بارے میں متعلقہ تفصیلات اس قدر دلنشیںانداز میں پیش کرتے ہیں کہ قاری کو ان کی صداقت کا یقین ہو جاتا ہے ۔
سوانح نگاری کو بالعموم ایک شخصیت کی زندگی کے جملہ نشیب و فراز کی ایسی مرقع نگاری سے تعبیر کیا جاتا ہے جس میں اس شخصیت کی مکمل تاریخ محفوظ کر دی جائے ۔اس دنیا میں ایک انسان کا آنا اور پھر زندگی کے مختلف مدارج طے کرنا جن میں بچپن ،لڑکپن ،تعلیم و تربیت ،شباب ،فکر معاش ،معاملات زندگی ،شادی اور اولاد ،معاشرتی زندگی کے معا ملات ،رہن سہن ،سفر اور سیاحت ،مشاغل ،رہائش ،معیار زندگی ،ادھیڑ عمراور عالم پیری شامل ہیں یہ سب کچھ سوانح عمری میں شامل ہے ۔ایک زیرک سوانح نگار کی حیثیت سے ڈاکٹر محمد ریاض انجم نے اپنی اس تصنیف میںتین امور پر توجہ مرکوز رکھی ہے ۔پہلے تو انھو ں نے موضوع تحقیق کے لیے جس شخصیت کا انتخاب کیا ہے ،اس تک رسائی ان کے لیے سہل ہے ۔دونوں کا قیام قصور شہرمیں ہے اور باہمی ربط کے متعد مواقع انھیں میسر رہے ۔اس لیے انھیں شخصیت سے رابطہ کرنے میں کسی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اس کے بعد دوسرا مرحلہ شخصیت سے متعلقہ مواد کا حصول ہے ۔مواد کے حصول میں مصنف نے بہت محنت سے کام لیا ہے ۔پروفیسر ڈاکٹر سید مقصو د حسنی کے ذاتی کتب خانے سے انھیں کافی مواد دستیاب ہو گیا ۔اس مواد کے حصول کے لیے انھیں جس قدر جد و جہد کرنا پڑی اس کا احوال خود مصنف کی زبانی پیش خدمت ہے:
’’باباجی کی رضامندی کے بعد ان کے مکان کی بالائی منزل پر ایک چھوٹے سے کمرے میں گھسنے کا موقع میسر آیا۔کمرے کا نقشہ کھینچنااب مشکل نظر آتا ہے ۔کتابوں اور کاغذوں کی بھرمار ،وہ بھی گرد سے اٹی ہوئی ،اخبارات و جرائد کا ایک بڑا ڈھیر ،وہ بھی فرش پر گرد آلود ،پائوں دھرنے کی جگہ ہی نہیں ،بڑی مشکل سے حوصلہ کر کے کمرے میں گھس تو گئے مگر کئی بار حبس نے بھاگنے پر مجبور کیا۔پھر کیا تھاغیرت آڑے آ جاتی کہ اب وہ کہیں گے کہ بڑے بہادر بنتے تھے ،کیا ہوا ؟بس اسی ایک جملے نے بھاگنے نہ دیا ۔‘‘
مصنف نے شخصیت سے متعلقہ مواد کے حصول کے سلسلے میں تمام ممکنہ وسائل استعمال کیے ہیں ۔پروفیسر ڈاکٹر سید مقصود حسنی کی ڈائریاں ،روزنامچے ،یادداشتیں ،مکاتیب ( احباب کے نام ان کے لکھے ہوئے خطوط اور وہ خطوط جو انھیں احباب کی جانب سے موصول ہوئے )،تصانیف ،مخطوطات ،مطبوعہ مضامین ،انشائیے ،افسانے ،شاعری اور تراجم وغیرہ ۔مصنف نے اپنی اس معرکہ آرا تصنیف کے لیے ضروری معلومات کے حصول کی خاطر شخصیت سے مستقل رابطہ رکھا۔یہ معتبر ربط ان کے لیے بہت مفید ثابت ہو ۔اس کے اعجاز سے انھیں اپنے ممدوح کے انداز فکر ،طرز عمل سیرت و کردار ،معمولات زندگی ،رہن سہن ،آداب معاشرت ،ذوق سلیم ، گل افشانیء گفتار ،ذاتی پسند و نا پسند ، مطالعہ کے شوق ،ذاتی کتب خانے کی کیفیت ،مشاغل ،عبادا ت اور رویوں کے بارے میں تمام حقائق معلوم ہوئے ۔ شخصیت سے متعلق مواد کے حصول کے تیسرے مر حلے میں انھوںنے پروفیسر ڈاکٹر سید مقصود حسنی کے قریبی احباب سے رابطہ رکھا۔ اسی مرحلے میںانھوں نے ادبی مجلات ، اخبارات و جرائد کو بھی کھنگالا ۔ شخصیت کے متعلق بعض ذاتی اور عام نوعیت کی معلومات ان کی درخواستوں اور محکمانہ مصرو فیات سے بھی ملیں ۔ اس طرح انھیں مواد کے حصول میں خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ اپنی تصنیف میں ڈاکٹر محمد ریاض انجم نے کہیں بھی اپنی ذاتی رائے کو مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی۔انھوں نے پروفیسر ڈاکٹر سید مقصود حسنی کو جس حال میں دیکھا اس کا پورا احوال دیانت داری سے پیش کر دیا ۔عقیدت اور ذاتی مراسم کی بنا پر تعریف و توصیف میں زمین آسمان کے قلابے نہیں ملائے۔حرف صداقت لکھنا ان کا شیوہ ہے اور لفظ کی حرمت کو ملحوظ رکھنا ان کا دستور العمل ہے ۔
ڈاکٹر محمد ریاض انجم نے اپنے منفرد اسلوب سے فن سوانح نگاری میں جو نکھار پیدا کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے ۔انھوں نے پروفیسر ڈاکٹر سید مقصو د حسنی کی زندگی کے تمام اہم اور خاص پہلوئوں کو اپنے تصنیف میں شامل کر دیا ہے ۔اسلوب میں ا ختصار اور جامعیت کو ہر مقام پر پیش نظر رکھا گیا ہے ۔بے فائدہ طو ل نویسی اورمعمولی نوعیت کی باتوں سے گریز کرتے ہوئے ایجاز نگاری سے مصنف نے اس کتاب کو جس انداز میں مخزن معلومات بنا دیا ہے وہ فن سوانح نگاری پر ان کی کامل دسترس کی دلیل ہے ۔ انھوں نے پروفیسر ڈاکٹر سید مقصود حسنی کی زندگی کے معمولات کا جس خوش اسلوبی سے احاطہ کیا ہے قابل توجہ ہے ۔ان کی زندگی کے تمام معمولات خواہ وہ عام نوعیت کے ہوں یا وہ خاص نوعیت کے،ان کی حیثیت نجی ہو یا اجتماعی ،انھوں نے کسی کو بھی نظر انداز نہیں کیا ۔ان کے اقوال و افعال کی صد رنگی پورے خلوص اور دیانت کے ساتھ زیب قرطاس کی گئی ہے ۔شخصیت نگاری میں جزئیات نگاری کی اہمیت مسلمہ ہے، اس کتاب میں مصنف نے جزئیات نگاری پر اپنی مہارت کو ثابت کر دیا ہے ۔ان کی سنجیدگی اور انسان دوستی ہر جگہ قاری پر گہرا تاثر چھوڑتی ہے ۔وہ دیانت اور متانت سے کام لیتے ہوئے جزئیات نگاری کے کٹھن مر حلے سے گزرتے چلے جاتے ہیں ۔انھوں نے شخصیت کی نجی زندگی پر اپنی توجہ مر کوز رکھی ہے اور سرکاری عہدوں اور اہم ذمہ داریوں پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالتے ہوئے آگے بڑھتے چلے گئے ہیں ۔شخصیت نگاری میں ان کی اولین ترجیح یہ رہی ہے کہ پروفیسر ڈاکٹر سید مقصو دحسنی کی کتاب زیست کے اوراق کو اس طرح کھنگالا جائے کہ ان کی نجی زندگی کے وہ اوراق جو اب تک نا خواندہ رہ گئے ہیں ،وہ قاری کے مطالعہ کے لیے پیش کیے جائیں ۔اس مقام شوق سے گزرتے ہوئے مصنف نے شخصیت کی حیات کے عمیق مطالعہ اور جزئیات نگاری سے جو سماں باندھا ہے وہ ان کے اسلوب کا نمایاں وصف ہے۔اللہ کریم نے پروفیسر ڈاکٹر سید مقصود حسنی کو جن اوصاف حمیدہ سے نوازا ہے ان کے بارے میں مصنف نے ان کے اہل خانہ ،قریبی رشتہ داروں ،احباب اور مشاہیرادب کی آراء کتاب میں شامل کی ہیںاور اسی کی اساس پر شخصیت نگاری کا قصر عالی شان تعمیر کیا ہے ۔حریت فکر کا عنصر مصنف کے اسلوب میں نمایاں ہے ۔انھوں نے ایک ایسے دانش ور کی شخصیت کو موضوع بنایا ہے جس نے حریت ضمیر سے زندگی بسر کرنے کے لیے اسوہء شبیر ؓکو اپنایا اور جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے حق و صداقت کا علم بلند رکھا ۔مصنف کی باریک بینی کا یہ عالم ہے کہ کوہ سے کاہ تک سب کچھ ان کے پیش نظر رہتا ہے اور وہ اپنا مطلوبہ مواد حاصل کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ انھوں نے شخصیت کے بیان میں کسی تشنگی کا احساس نہیں ہونے دیا ۔سائنسی انداز فکر اپناتے ہوئے وہ قلب اورروح کی گہرائیوں میں اتر جانے والی اثر آفرینی کے اعجاز سے اپنی تحریر کو مزین کرتے چلے جاتے ہیں ۔ان کے کمال فن سے ان کے اسلوب سے ایسی محیر العقول کیفیت پیدا ہو جاتی ہے کہ قاری روحانی طور پراپنے آپ کو شخصیت کے سحر میں گرفتار محسوس کرتا ہے ۔اس کی حیات ،مصروفیات ،معاملات ،خیالات اور زندگی کے جملہ نشیب و فراز سے مکمل آگہی کے بعد وہ اس کا استحسان کرتا ہے ۔قاری کو یہ احساس ہوتا ہے کہ عظیم المرتبت شخصیات کی زندگی کے نشیب و فراز اور اسرارو رموز سے آگاہی حاصل کرنا کس قدر افادیت کا حامل ثابت ہوتا ہے ۔ انھوں نے قطرے میں دجلہ اور جزو میں کل کادلکش سماں پید ا کرکے لائق صد رشک و تحسین کام کیا ہے ۔انھوں نے پروفیسر ڈاکٹر سید مقصو د حسنی کی شخصیت کی جس مہارت سے لفظی مرقع نگاری کی ہے اس کے معجز نما اثر سے یہ شخصیت ہر جگہ متکلم نظر آتی ہے ۔
فن سوانح نگاری کے ذریعے مصنف نے زندگی کی اقدار عالیہ کے بارے میں مثبت شعور و آگہی بیدار کرنے کی جو کوشش کی ہے وہ ہر اعتبار سے لائق تحسین ہے ۔ان کی یہ دلی تمنا ہے کہ آنے والی نسلیں اپنے مشاہیر کے علمی و ادبی کارناموں کے بارے میں حقائق سے آگاہ ہوں اور اس طرح روشنی کا وہ سفر تا ابد جاری رہے جس کا آغاز ان نابغہ ء روز گار ہستیوں نے کیا تھا ۔سوانح نگاری کے ذریعے در اصل وہ تہذیبی بقاکو یقینی بنانے کے متمنی ہیں ۔ان کی اس تصنیف سے تعلیم و تربیت اور تہذیب و تمدن کی میراث کو نسل نو تک منتقل کرنے کے عمل کو یقینی بنایا گیا ہے ۔پروفیسر ڈاکٹر سید مقصود حسنی نے اپنی زندگی میں جو کامیابیاں حاصل کیں ان کے لیے انھیں کئی سخت مقامات اور کٹھن مراحل سے گزرنا پڑا لیکن ان کے پائے استقلال میں کبھی لغزش نہ آئی ۔ہوائے جورو ستم میں بھی انھوں نے حرف صداقت لکھنا اپنا معمول بنائے رکھا ۔مصنف نے اس کتاب میں پروفیسر ڈاکٹر سید مقصودحسنی کی زندگی کے ان واقعات کو نمایاں طور پر پیش کیا ہے جو قطرے کو گہر ہونے کے مراحل میں پیش آئے ۔ان کے اسلوب میں بے ساختگی اور بے تکلفی کی فضا ہے وہ شخصیت کی علمی فضیلت اور سرکاری مناصب او ر ترقی کے مدارج پر اتنی توجہ نہیں دیتے جس قدر وہ ان کی نجی زندگی کے مہ و سال پر دیتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ شخصیت کی گھریلو زندگی اور نجی مصروفیات ہی اس کے بارے میں قابل اعتبار معلومات کا مخزن ہیں ۔اس کتاب میں مصنف نے جدت اور تنوع کو پیش نظر رکھا ہے ۔جہاں انھوں نے پروفیسر ڈاکٹر سید مقصو د حسنی کی سراپا نگاری پر توجہ دی ہے وہاں انھوں نے ان کی بو ل چال ،حاضر جوابی ،استدلال ،رہن سہن لہجے ،افہام و تفہیم ،غیظ و غضب،بذلہ سنجی اور ظرافت ،نکتہ آفرینی ،معاملہ فہمی اور تدبر ،پیار و محبت ،آمد وخرچ ،ایثار و وفا،چال ڈھال ،پسند و نا پسند ،جذبات و احساسات ،حرکات وسکنات ،معاونین و مخالفین ،مشاغل اور دلچسپیوں کے بارے میں جو لفظی مرقع نگاری کی ہے اس کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے ۔ہرجگہ دلچسپی کے بے شمار موضوعات ہیں جو قاری کے لیے جہان تازہ کی نوید لاتے ہیں ۔
ڈاکٹر محمد ریاض انجم نے اپنی اس وقیع تصنیف کو پروفیسر ڈاکٹر سید مقصو د حسنی کی زندگی کی ایک ایسی تاریخ کی صورت میں پیش کیا ہے جو چشم کشا صداقتوں سے لبریز ہے ۔ان کا اسلوب ایک عام مورخ سے بہت مختلف ہے ۔اس کا سبب یہ ہے کہ تاریخ نویسی اور سوانح نگاری کی حدود الگ ہیں ۔مصنف نے اپنے اسلوب میں تاریخی عوامل کو ہر مرحلے پر پیش نظر رکھا ہے ۔ انسانی زندگی ریگ ساحل پر لکھی وقت کی ایک تحریر کے مانند ہے جسے سیل زماں کے تھپیڑے پلک جھپکتے میں بہا کر لے جاتے ہیں ۔تاریخ کا مسلسل عمل یہ واضح کرتا ہے کہ وقت کی مثال بھی آب رواں کی تند و تیز موجوں کی سی ہے ۔جب یہ موجیں ایک بار گزر جائیں تو کوئی بھی شخص اپنی شدید تمنا اورقوت کے با وجود دوسری باران کے لمس سے کبھی فیض یاب نہیں ہو سکتا۔اس کتاب میں مصنف نے پروفیسر ڈاکٹر سید مقصو د حسنی کی حیات اور خدمات کا بھرپور احاطہ کیا ہے اور ان کی زندگی کے سبھی موسموں اور رتوں کی دلکش کہانی بیان کی ہے ۔ایک با اصول ادیب کی حیثیت سے پروفیسر ڈاکٹر سید مقصود حسنی نے یہ ثابت کر دیا کے کاروان حسینؓکو ہمیشہ سے صعوبتوں کا سفر درپیش رہا ہے مگر اس کارواں کے مسافروں نے اپنی زندگی کے اصولوں سے کبھی انحراف نہیں کیا ۔ظلم کے سامنے سپر انداز ہونا بہ جائے خود ایک ظلم اوراہانت آمیز فعل ہے ۔ مصنف نے اپنے ممدوح کے چال چلن اور ذہن و ذکاوت کے تمام پہلوئوں کوموثر انداز میں بیان کیا ہے ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے فکری اور فنی ارتقا کی جو صورت سامنے آئی اس کا احوال بھی اس میں شامل کیا گیا ہے ۔مصنف نے شخصیت کی زندگی کے باسٹھ برسوں کی تاریخ لکھتے وقت اس کے داخلی جذبات و احساسات کو نہایت باریک بینی سے پیش کیا ہے ۔ان کی نکتہ سنجی کا جادو ہر جگہ سر چڑھ کر بولتا ہے ۔ابتلااور آزمائش کی گھڑیوں میں شخصیت نے جس خارجی رد عمل کا اظہار کیا اسے بھی من و عن سامنے لانے کی سعی کی ہے ۔ کتاب کے مطالعہ کے بعد یہ بات بلا خو ف تر دید کہی جا سکتی ہے کہ لائق مصنف نے شخصیت کی زندگی کے کسی لمحے کو نظر انداز نہیں کیا۔اس سے یہ حققیت واضح ہو جاتی ہے کہ مصنف نے اپنے اسلوب میں شخصیت کے بارے میں تاریخی صداقتوں ،خود شخصیت اور ادبی معائر کو اپنے لیے زاد راہ بنایا ہے ۔ان کا مثالی اسلوب کئی اعتبار سے نہ صرف شخصیت کے بارے میں حقیقی شعور و آگہی سے متمتع کرنے کا اہم ترین وسیلہ ہے بل کہ تاریخ اور تہذیب کے تحفظ کی ایک کا میاب کوشش بھی ہے ۔زبان و بیان پر خلاقانہ دسترس اور ندرت تخیل نے مصنف کے اسلوب کو چار چاند لگا دئیے ہیں ۔
شخصیت کی تعمیر و تشکیل میں متعدد عوامل اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ڈاکٹر محمد ریاض انجم نے ان عوامل کی گرہ کشائی کی بھر پور کوشش کی ہے ۔کتاب کی ابواب بندی اس حققیت کی مظہرہے کہ مصنف نے شخصیت کی تفہیم پرپوری توجہ دی ہے ۔پہلا باب ’’اسرار زیست ‘‘ ہے ۔اس باب میں مصنف نے پروفیسر ڈاکٹر سید مقصود حسنی کی شخصیت کے ارتقا پر مدلل انداز میں روشنی ڈالی ہے ۔دوسرا باب ’’بابا جی کی خدمات ‘‘کے عنوان سے لکھا گیا ہے ۔یہ باب دو حصوں پر مشتمل ہے ۔پہلے حصے میں تعلیمی و تدریسی خدمات کو شامل کیا گیا ہے جب کہ دوسرے حصے میں ادبی خدمات کو جگہ دی گئی ہے ۔فروغ علم و ادب کے لیے پروفیسر ڈاکٹر سید مقصو د حسنی کی خدمات کاایک عالم معترف ہے ۔ان کی ہمیشہ یہ خواہش رہی ہے کہ پاکستانی معاشرے کو ہرقسم کی عصبیت اور تنگ نظری سے نجات دلانے کی کوشش کی جائے ۔اس مقصد کے حصول کے لیے وہ روشن خیالی اور وسیع النظری کو نا گزیر خیال کرتے تھے ادب ،تاریخ یا فنون لطیفہ کا کوئی بھی شعبہ ہو اس میں روشن خیالی کے سوتے اسی وقت پھوٹتے ہیں جب معاشرے میں شرح خواندگی بہت بلند ہو ۔ان کا استدلال یہ رہا ہے کہ اگر افراد معاشرہ کو زیور تعلیم سے آراستہ کر دیا جائے تو وسعت نظر اور روشن خیالی کی شمع فروزاں ہو گی ،اس کے اعجاز سے اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتمام ہو گا اور دہشت گردی ،عصبیت اور سماجی برائیوں کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے میں کا میابی ہو گی ۔ ایک روشن خیال اورمحب وطن ادیب اوردانش ور کی حیثیت سے انھوں نے اردو شاعری ،افسانہ نگاری ،طنز و مزاح ،تراجم ،تنقید وتحقیق ،لسانیات ،غالبیات،اقبالیات ، نفسیات ،تاریخ ،معاشیات ،علم بشریات،انٹر نیٹ پر مو جو اپنی د نادر تحریروں ،سیاسیات ،جغرافیہ ،مذاہب عالم ، بین الاقوامی حالات ،قومی اور ملی مسائل ،تجزیاتی مطالعات اور مضمون نگاری سے نہ صرف اردو ادب کی ثروت میں اضافہ کیا ہے بل کہ روشن خیالی کی مشعل تھام کر سفاک ظلمتوں کو کافور کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔اس باب میں اس کی تفصیل شامل ہے ۔اس کتاب کا تیسرا باب ’’اعتراف خدمات ‘‘ہے ۔اس باب میںمصنف نے پروفیسر ڈاکٹر سید مقصو د حسنی کی طویل ادبی خدمات کا ذکر کیا ہے اور ان کی جس سطح پر پذیرائی ہوئی ہے اس کا احوال بیان کیا ہے ۔اس حصے میں دنیا کے ممتاز دانش وروں کی تحریروں کو شامل کیا گیا ہے جن میں انھوں نے اس ہفت اختر شخصیت کے فکر و فن ،انسانی ہمدردی اور مثالی اسلوب کو زبردست خراج تحسین پیش کیاہے اور ان کے تحقیقی ،تنقیدی او ر تخلیقی کام کی اہمیت کو واضح کیا ہے ۔پروفیسر ڈاکٹر سید مقصود حسنی کی شخصیت اوراسلوب پر اب تک کیے جانے والے کام کی تفصیل اس حصے میں موجود ہے ۔کتاب کے چوتھے باب کا عنوان ہے ’’بابا جی بہ حیثیت غالب شناس ‘‘۔ یہ باب تنقیدی اعتبار سے بہت افادیت کا حامل ہے ۔مصنف نے اس باب میں پروفیسر ڈاکٹر سید مقصود حسنی کی غالب شناسی پر ان کی تمام تحریروں کا حوالہ دیا ہے اور غالب کی شاعری پر ان کے فلسفیانہ نکات اور توضیحات کا اجمالی جائزہ پیش کیا ہے ۔میری دانست میںا س وقت تک غالب کے فکر و فن پر اس قدر وقیع اور جامع کام بہت کم ہوا ہے ۔ پوری دنیا میں اس کام کی پذیرائی ہوئی ہے ۔پروفیسر ڈاکٹر سید مقصودحسنی کی غالب میں دلچسپی نصف صدی کا قصہ ہے اسے مصنف نے پوری توجہ سے مرتب کیا ہے ۔پانچویں باب کاعنوان ہے ’’ادبی تحائف‘‘ اس باب میں ان تمام مصنفین اور مشاہیرادب کا حوالہ دیا گیا ہے جنھوں نے مختلف اوقات میں پروفیسر ڈاکٹر سید مقصود حسنی کو اپنی تصانیف اپنے دستخطوں کے ساتھ عطا کیں۔اس حصے میں ان مشاہیر ادب کے وہ مختصرجملے قاری کو متوجہ کرتے ہیں جو انھوں نے کتاب پیش کرتے وقت پروفیسر ڈاکٹر سید مقصود حسنی کے بارے میں لکھے ۔ان کے مطالعہ سے ان کے حقیقی ادبی مقام اور علمی منصب کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے ۔کتاب کا چھٹا باب ’’اہل قلم کے بارے میں مختصر رائے ‘‘پر مشتمل ہے ۔ یہ باب عملی تنقیداور مطالعہء احوال پر مشتمل ہے ۔اس باب میں مصنف نے ہر شعبہء زندگی سے تعلق رکھنے والی دنیا کی نامور شخصیات کے بارے میں پروفیسر ڈاکٹر سید مقصود حسنی کی آراء کا انتخاب شامل کیا ہے ۔ظاہر ہے کتاب کی ضخامت ان طویل عالمانہ مضامین کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی اس لیے منتخب اقتباسات پر ہی اکتفا کیا گیا ہے ۔ان آراء کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ان کے مزاج میں کس قدر انکسار ، ا ستغنا اور شان دل ربائی پائی جاتی ہے ۔وہ ہر کسی کے ساتھ اخلاق اور اخلاص سے بھر پور سلوک کرتے ہیں۔ساتوں باب ’’خطوط ‘‘پر مشتمل ہے ۔اس باب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔پہلے حصے میں ان خطوط کاحوالہ دیا گیا ہے جو پروفیسرڈاکٹر سید مقصودحسنی کو مشاہیر ادب کی طرف سے مو صول ہوئے ۔دوسرے حصے میں ان خطوط کا ذکر موجود ہے جو پروفیسر ڈاکٹر سید مقصود حسنی نے مختلف اوقات میں احبا ب کو ارسال کیے ۔آٹھواں باب ’’مآخذ و مراجع ‘‘ کے نام سے شامل کیا گیا ہے ۔اس باب میں مصنف نے پروفیسر ڈاکٹر سید مقصود حسنی کے زیر مطالعہ رہنے والی کتب کی فہرست پیش کی ہے ۔پروفیسر ڈاکٹر سید مقصود حسنی ایک وسیع المطالعہ دانش ور ہیں ۔ اردو اور عالمی کلاسیک کا انھوں نے عمیق مطالعہ کیا ہے ۔پاکستان کی علاقائی زبانوں کے ادب پر ان کی گہری نظر ہے۔اس لیے یہ بات قابل فہم ہے کہ مجموعی طور پر وہ پاکستانی ادبیات کے نبض آشنا ہیں ۔ان کے زیر مطالعہ رہنے والی کتب کی یہ فہرست اگرچہ خاصی طویل ہے لیکن یہ مکمل نہیں ۔مجھے ذاتی طور پر معلوم ہے کہ انھوں نے لاہور ،کراچی ،اسلام آباد اور پاکستان کے طول و عرض میں موجود کتب خانوں میں جا کر داد تحقیق دی ۔اس کے علاوہ انٹر نیٹ سے کئی نادر و نایاب کتب ڈائون لوڈ کیں اور ان سے استفادہ کیا ۔ان کے ذاتی کمپیوٹر میں ایک لاکھ سے زائد کتب ڈائون لوڈ کی جا چکی ہیں ۔ دنیا کی اہم ویب سائٹس شبلی اکیڈمی ،دیدہ ور ،شعر و سخن ،عالمی ڈیجیٹل لا ئبریری اور علامہ اقبال سائبر لا ئبریری لاہور سے انھوں نے بھرپور استفادہ کیا ہے اور سائبر لائبریریوں سے وہ ہمہ وقت استفادہ کرتے رہتے ہیں ۔دنیا کے نامور ادیبوں اور اہل کمل کے ساتھ ان کا ای۔میل کے ذریعے مسلسل رابطہ رہتا ہے ۔اپنے مطلوبہ مجلات اور کتب ان کوآسانی سے ای۔میل کے ذریعے بھی مل جا تی ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے موجودہ دور میں مطالعہء ادب اور تنقید و تحقیق کے مآخذ تک ر سائی کے پرانے طریقے اب ہماری ضروریات کے لیے نا کافی ثابت ہو رہے ہیں ۔مغرب کی ترقی یافتہ اقوام کی دقیقہ سنجی نے اس سلسلے میں فکر و نظر کی کایا پلٹ دی ہے ۔اب علوم و فنون کی ناد ر و نایاب کتب کو برقی کتب کی شکل میں اون لائن کیا جا چکا ہے۔ نئی کتابیں اور ادبی مجلات بھی اب پرنٹ اور اون لائن دونوں صورتوں میں پیش کیے جا رہے ہیں ۔اسلام آباد سے شائع ہونے والا ادبی مجلہ ’’ الاقربا ‘‘ ،لاہور سے شائع ہونے والا ادبی مجلہ ’’ادب لطیف ‘‘ او ر ’’تخلیق نو ‘‘ شبلی اکیڈمی کا مجلہ ’’معارف ‘‘ پٹنہ سے شائع ہونے والا ادبی مجلہ’’ کسوٹی جدید ‘‘اور با سٹن (امریکہ )سے شائع ہونے ولا ادبی مجلہ’’ دیدہ ور ‘‘ اس کی چند مثالیں ہیں۔وہ ان مجلات کے مستقل قاری ہیں اور ان کی آرا ء بھی مدیر کے نام خطوط میںشامل ہوتی ہے ۔پروفیسر ڈاکٹر سید مقصود حسنی گزشتہ پندرہ برس سے انٹر نیٹ سے استفادہ کر رہے ہیں ۔اس عرصے میں انھوں نے ہر موضوع پر بے شمار مضامین لکھے جن کے لیے مطلوبہ مواد انھوں نے عالمی ادب کی ویب سائٹس ہی سے حاصل کیا ۔ اس باب میںکئی اہم دستاویزات اوراشاریہ بھی مو جود ہے ۔ڈاکٹر محمد ریاض نے ایک ایسے دانش ور کی زندگی کو موضوع بنایا ہے جس نے زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ۔مصنف نے اس کتاب میںیہ کوشش کی ہے کہ اس عظیم تخلیق کار اور دانش ور کی فعال اور مستعد زندگی ہی میں ان کے کمال فن کے متعلق حقائق سامنے لائے جائیں ۔انھوں نے حقائق کو پوری دیانت سے یک جا کر دیا ہے اور کہیں بھی زیب داستاں کے لیے بے سروپا باتوں سے تجسس پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی ۔ان کی یہ کاوش بڑی مستحسن ہے اور اردو ادب کے طالب علموں اور اساتذہ کی گردن ان کے بار احسان سے ہمیشہ خم رہے گی ۔اللہ کریم انھیں اس نیکی کا اجر عظیم عطا فرمائے ۔
ڈاکٹر محمد ریاض انجم نے اپنی اس تصنیف میں پروفیسر ڈاکٹر سید مقصو د حسنی کی حیات اور علمی و ادبی خدمات کے بارے میں ٹھوس معلومات اور ثبوت پیش کر کے ان کی شخصیت کو تاریخ ادب کے ایک معتبر حوالے کی حیثیت سے پیش کیا ہے ۔ان کی سوانح نگاری محض ان کے ذوق سلیم کی عطا نہیں بل کہ اس کے مطالعہ سے قاری کے فکر و نظر کو مہمیز کرنے میں مدد مل سکتی ہے ۔اس کتاب میں شخصیت کی زندگی کے متعدد واقعات اور نشیب و فراز موجود ہیں۔انھیں انشا پردازی کا کمال نہیں سمجھنا چاہیے بل کہ یہ سب علامات ایک نفسیاتی کل کی جانب متوجہ کرتی ہیں جس کے معجز نما اثر سے لا شعور کی حرکت و حرارت کو متشکل کرنے میں مدد مل سکتی ہے ۔ایک عظیم تخلیق کارنے گزشتہ نصف صدی میں اپنے خون جگر سے گلشن ادب کو جس انداز سے نکھارا،اس کے بارے میں حقیقی صورت حال کو واضح کیا گیا ہے ۔ایام گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کرتے وقت ان شب و روزاور مہ و سال کو کیسے فراموش کیا جا سکتا ہے جو پروفیسر ڈاکٹر سید مقصود حسنی جیسے عظیم انسانوں نے انسانیت کے وقار اور سر بلندی کی خاطر دکھ سہہ کر گزار دئیے اور کبھی حرف شکایت لب پر نہ لائے ۔اپنے ذہن و ذکاوت کے اعجاز سے انھوں نے نئی نسل کے لیے ایک قابل عمل لائحہء عمل پیش کیا ۔مستقبل کا محقق اسی نشان راہ پر چل کر تہذیبی ارتقا کو یقینی بنائے گا اور اس طرح روشنی کا یہ سفر جاری رہے گا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...