آ غشتہ ایم ہر سر ِ خارے بہ خونِ دِل
قانونِ باغبانیٔ صحرا نوشتہ ایم ( عرفی ؔ)
6۔فروری 2020ء کو پروفیسر شیخ ظہیر الدین نے داعی ٔ اجل کو لبیک کہا۔ اجل کے بے رحم ہاتھوں سے انسانی ہمدردی ،اخلاق و اخلاص،وفا،ایثار،دردمندی ،بے لوث محبت اور بے باک صداقت کے ہمالہ کی ایک سر بہ فلک چوٹی زمیں بوس ہو گئی۔جھنگ شہر کے ڈیڑھ ہزار سال پرانے شہر خموشاں کی زمین نے ادیان ِ عالم ، علم و ادب،تہذیب و ثقافت اور سائنس و ٹیکنالوجی سے وابستہ علوم کے اِس آسمان کو اپنے دامن میں چھپالیا۔ سمے کے سم کی مسموم ہوا کے چلنے کے اس لرزہ خیز المیے کے نتیجے میں گلوں کی شگفتگی اور عطر بیزی ہوا ہوگئی ۔اپنی اچھی اور لائق صد رشک و تحسین عادات کے وسیلے سے مسرتیں اور کامرانیاں سمیٹنے کی تلقین کرنے والا بے لوث ناصح چل بسا۔وہ زیرک ،فعال ،مستعد اور مخلص ماہر تعلیم ،سائنس دان اور مفکررخصت ہواجس نے زندگی بھر افرادِ معاشرہ پر بلا امتیاز ممنونیت کے احساس، دردمندی کی شبنم ،شکر گزاری کے جذبات ،ایثار و انکسار کی مثال ، صبر و تحمل کی نظیر ،ایفائے عہد کے جواہر ،حرف ِصداقت کے پھول اور بے پایاں شفقتوں کی مہک نچھاورکی ۔حریت فکر و عمل کا وہ پیکر اب ہمارے درمیان موجود نہیںجس نے سدا تیشۂ حرف سے فصیلِ جبر کو منہدم کرنے کی سعی کی۔حریت ِ فکر کی پیکار اور ضمیرکی للکار سے کذب و افترا کے ایوانوں پر لرزہ طاری کر دینے والا نا یاب حق پرست اب ملکوں ملکوں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا۔ شیخ ظہیر الدین کوقدرت ِکاملہ کی طرف سے عرفانِ ذات کی جو صلاحیت عطا کی گئی تھی اس کے اعجاز سے انھوں نے اپنی صلاحیتوں پر انحصار کرتے ہوئے عملی زندگی میں فقیدالمثال کامرانیاں حاصل کیں ۔
شیخ ظہیر الدین کی وفات کی اطلاع ملتے ہی میں جھنگ شہر میں واقع ان کی رہائش گاہ پر پہنچا۔ہر مکتبۂ فکر کے لوگوں کا ایک جم ِ غفیر اُمڈ آیا تھا۔ہر آ نکھ اشک بار اور ہر دِل سوگوار تھا۔سہمی سہمی سی فضامیں طیور بھی چُپ تھے ۔اکثر لوگ یہ کہتے ہیں کہ کارواں کے دِل سے احساسِ زیاں عنقا ہو نے لگا ہے مگر اس روز میں نے دیکھا کہ شیخ ظہیر الدین کی وفات پر ہر شخص فرط غم سے حواس باختہ ،غرقابِ غم اور نڈھال تھا۔ دلوں کو مسخر کرنے والے اس یگانۂ روزگار فاضل اور عبقری دانش ور نے اپنی زندگی میں جو محبتیں سمیٹیں وہ ان کی مستحکم شخصیت کا امتیازی وصف ہیں۔ ہر عمر کی خواتین کی بہت بڑی تعداد جن میںان کی شاگرد طالبات شامل تھیں شیخ ظہیر الدین کے گھر کے آ نگن میں جمع تھیں۔ شیخ ظہیر الدین کی یاد میں ان کی گریہ و زاری سن کر پتھر بھی موم ہو رہے تھے ۔شیخ ظہیر الدین کی وفات پر شہر کا شہر سوگوارتھا۔
گورنمنٹ کالج جھنگ میں جن ماہرین تعلیم سے میں نے اکتساب ِ فیض کیاان میں شعبہ کیمیا کے پروفیسر شیخ ظہیر الدین بھی شامل ہیں ۔شیخ ظہیر الدین جیسے نیک سیرت احباب کی رفاقت اللہ کریم کا بہت بڑاانعام ہے جو آلامِ روزگار سے نجات دلا کر سکون قلب اور مسرت کے احساس سے سرشار کرتاہے ۔ ان سے مِل کر زندگی سے والہانہ محبت اورقلبی وابستگی کے جذبات پروان چڑھتے ۔ان کے اخلاص ،اخلاق ،دردمندی اور انسانی ہمدردی نے مجھے خود اپنی نظروں میںمعزز و مفتخر کر دیا۔اپنی زندگی میں مجھے کئی بار آزمائش و ابتلا کے مراحل سے گزرنا پڑااور سینہ و دِل حسرتوں سے چھا گیا۔ایسے مواقع پر جب ہجوم یاس میں میرا دل گھبرا گیا تو شیخ ظہیر الدین ہمیشہ مرہم بہ دست پہنچے ۔ان کی بے لوث محبت اور انسانی ہمدردی ہر قسم کے امتیازات سے بالاتر تھی۔دکھی انسانیت کے ساتھ انھوں نے درد کا جو رشتہ استوار کر رکھا تھااسی کو علاج گردش ِ لیل و نہار سمجھتے ہوئے زندگی بھر اس پر عمل کرتے رہے ۔
اللہ کریم کی طرف سے شیخ ظہیر الدین کو ایک وجیہہ شخصیت سے نوازا گیا تھا۔ میں نے شیخ ظہیر الدین کو سب سے پہلے ممتاز ماہر تعلیم ،مذہبی سکالر،محقق ،مورخ ،فلسفی اور مصلح عبدالحلیم انصاری کی رہائش گاہ پر دیکھا۔ استاد محترم عبدالحلیم انصاری کے چھوٹے بھائی حبیب الرحمٰن میرے ہم جماعت رہے ۔میں اپنے ساتھیوںغلام قاسم خان ،سلیم خان ،نور محمد سوز ،عزیزاحمدناظر ،پرویزاقبال ،ظفراللہ اور ریاض کے ہمراہ ریلوے روڈ جھنگ شہر کے نزدیک سری رام داس تلواڑا (1941)کے مکان کے نواح میں واقع ان کی رہائش گاہ پہنچا ۔اس موقع پر استاد محترم عبدالحلیم انصاری نے ہمیں بتایاکہ پروفیسرشیخ ظہیر الدین ان کے قریبی عزیز ہیں اور تاریخی گورنمنٹ کالج ،جھنگ میں نامیاتی اور غیر نامیاتی کیمیاکی تدریس پر مامور ہیں ۔ پروفیسر شیخ ظہیر الدین نے ہمیشہ سائنسی اندازِ فکر اپنایااور تدریس ِ سائنس کو اپنی زندگی کا مقصد بنارکھا تھا۔ان کی زندگی کے معمولات دینی اور سائنسی علوم کے مدار میں گھومتے تھے ۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ سائنسی انداز فکر انسان کو توہم پرستی سے نجا ت دلا کر زندگی کے معروضی حقائق کے احساس و ادراک کی صلاحیت سے متتمع کرتاہے ۔وہ سدا مذہب کا تاج سر پر رکھ کر سائنسی اندازفکر کو زاد ِ راہ بناکر آگے بڑھنے پر اصرا رکرتے تھے ۔
قحط الرجال کے موجودہ زمانے میںحرص وہوس نے انسانیت کوناقابلِ اندمال صدمات سے دو چار کر دیاہے ۔شیخ ظہیر الدین نے معاشرتی زندگی میں درخشاں اقدار و روایات کی زبوں حالی پر ہمیشہ اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا۔وہ اکثر اس بات کی طرف توجہ دلاتے کہ جب برادرانِ یوسف،محسن کش ،پیمان شکن ،آستین کے سانپ ،سانپ تلے کے بچھو،عادی دروغ گواور مرغانِ بادنما اپنی کینہ پروری سے کسی بے بس و لاچار اور بے یارو مدد گار انسان کوپریشان حالی و درماندگی ،تنہائی اور یاس و ہراس کی بھینٹ چڑھادیں تواحتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ احتساب ِ ذات پر بھر پور توجہ دی جائے ۔ ہجوم یاس کو دیکھ کر اگر دل میں انصاف کی حسرت پیدا ہو تو اپنے خلاف فیصلہ لکھنے کا ظر ف ہونا چاہیے ۔وہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ عملی زندگی میں صرف وہی پر عزم لوگ ستاروں پر کمند ڈالتے ہیںجو عزتِ نفس اور انا کا بھرم قائم رکھتے ہیں ۔ خدمت خلق کو شعار بناکر اپنی حقیقت سے آ شنا ہونے والے حریت ِ فکر و عمل کے اس مجاہدنے ثابت کر دیاکہ عرفانِ ذات ہمیشہ یدِ بیضا کا معجزہ دکھاتاہے ۔یہ وہ احساس ہے جو انسان کو خود اپنی نظروں میں معززو مفتخر کردیتاہے ۔
آثار قدیمہ ،ادب اور فنون لطیفہ سیشیخ ظہیر الدین کو گہری دلچسپی تھی ۔ امیر اختر بھٹی نے بتایاکہ جھنگ شہر میں واقع سری رام داس تلواڑکے مکان ( تعمیر شدہ 1941ء ) سے ماضی کی کئی یادیں وابستہ ہیں۔اس مکان میں اپنے عہد کی جن نامور شخصیات نے کچھ عرصہ قیام کیا ان میں لال چند لالہ ،سردار پریم سنگھ اور اجیت سنگھ سکہ شامل ہیں ۔ نو آبادیاتی دور میں اسی مکان میں سال 1942 ء میںایک ادبی نشست ہوئی جس میں مقامی شعرا غلام علی خان چین ،حاجی محمد یوسف ،خادم مگھیانوی ،عبدالواحد،سلطان محمود ،مظفر علی ، کبیر انور ، رفعت سلطان ،محمد شیر افضل ،رجب الدین مسافر اور غلام محمدکے علاوہ میاں والی میں مقیم اردو کے مقبول شاعر تلوک چند محروم ( 1887-1966)نے شرکت کی ۔ تلوک چند محروم نے اس ادبی نشست میں جد و جہد آزادی کے موضوع پر اپنے کلام سے محفل کو گرمایا۔ذیل میں تلوک چند محروم کی مخمس کا ایک بند پیش ہے :
پرو بال اپنے، ا سیرو سنبھالو اُٹھواور پھڑک کر قفس توڑ ڈالو
بگڑ جاؤ ،پھندے سے گردن نکالو بہم ہو کے بگڑی ہوئی کو بنالو
اسیرو کرو کچھ رہائی کیا باتیں
اس محفل مشاعرہ میں جھنگ کے شاعرمحمد شیر افضل نے اپنا کلام سناکر سامعین کے دلوں کو گرمایا:
زندگی رین بسیرے کے سوا کچھ بھی نہیں
یہ نفس عمر کے پھیرے کے سوا کچھ بھی نہیں
فقر مخدوم ہے لج پال ہے لکھ داتا ہے
تاج بے رحم لٹیرے کے سوا کچھ بھی نہیں
حاجی احمد بخش نے بتایا کہ نو آبادیاتی دور میں جھنگ کے اکثر شعرا پنجابی زبان میں شعر کہتے تھے ۔ غاصب برطانوی سامراج کے استحصالی ہتھکنڈوں کے خلاف جھنگ کے مقامی شعرا نے حریت ِ ضمیر سے جینے کی روش کوسدا زادِ راہ بنایا۔ تحریک ِپاکستان کے دوران میںغلام علی خان چین کا پنجابی کلام بہت مقبول ہوا۔
علم دے باہجھوں بھولے ہندی جھلے تے دیوانے
لُٹ کے لے گیا ایتھوں گوراکنک ،کماد تے دانے
بزرگ شعرا کے حوالے سے شیخ ظہیر الدین بتایا کرتے تھے کہ پس نو آبادیاتی دور میں جب بھی وہ اس مکان کے سامنے سے گزرتے عہدِ غلامی کے تلخ تجربات کو یاد کر کے ان کی آ نکھیں بھیگ بھیگ جاتی تھیں۔عالمی شہرت کے حامل مایہ ناز ماہر تعلیم عبدالحلیم انصاری نے ایام ِگزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے بتایا کہ شہر کے جس حصے میں شیخ ظہیر الدین کی رہائش تھی اسے جھنگ کا چالیسی یعنی کوچۂ چہل دانشوراں کے نام سے شہرت ملی ۔یہاں سے طلوع ہونے والے آفتا ب و ماہتاب طویل عرصہ تک علم و ادب کے آسمان پر ضوفشاں رہے ۔ان کی ضیا پاشیوں سے سفاک ظلمتیں کافور ہوئیں اوروطن عزیز بقعۂ نور ہو گیا۔ان نایاب ہستیوں میں پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام ( نوبل انعام یافتہ پاکستانی سائنس دان) ، ڈاکٹر محمد کبیر خان ، حکیم محمدصدیق ،حاجی محمد یوسف ، امیر اختر بھٹی ،احمد تنویر ،بہادر خان ، جعفر طاہر ،محمدشیر افضل ، خواجہ یونس حسن شہید ،حامد علی شاہ ،سلطان خان ،بابا اللہ دتہ (ایک آنے والا حجام)،حکیم احمد بخش نذیر ( چونی والا حکیم)اور کرموں موچی شامل ہیں۔
جھنگ کے مایہ ناز شاعر رام ریاض (ریاض احمد شگفتہ )اکثر شیخ ظہیر الدین کے ہاں آتے تھے۔ رام ریاض اپنی یہ نعت جب ترنم سے سناتا تو وہاں موجود سب سامعین کی آنکھیں پُر نم ہو جاتیں۔رام ریاض کی وفات کے بعد شیخ ظہیر الدین نے کہا:
رام ریاض نے سچ کہا تھاکہ اس دُھوپ بھری دنیامیںایک دن نہ تو پیڑ رہیں گے اور نہ ہی پتے باقی بچیں گے ۔اس دنیاکی ہر چیز مسافر اور ہر شے فانی ہے باقی صرف اللہ کریم کا نام رہے گا۔ بے روزگاری کے باعث زندگی کے آخری ایام میں رام ریاض کاکوئی پرسان حال نہ تھا۔اس نے سر ِ گرداب کئی بار پکارا مگر ساحلِ عافیت پر کھڑے لوگوں نے اس حساس شاعر کی آہ و فغاں اورچیخ پکار پر کوئی دھیان نہ دیا۔اسی بے بسی کے عالم میںیہ خوددار شاعر زینۂ ہستی سے اُتر گیا۔ شیخ ظہیر الدین نے خادم مگھیانوی اور رام ریاض کی الم ناک موت پر اپنے جذبات حزیں کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ دانا کہتے ہیں ایک عالِم کی وفات سارے عالَم کے لیے موت کی ہلاکت خیزیوں کا پیغام ہے مگر اس بارے میں بھی سوچنا چاہیے کہ کوئی معاشرہ جب ایک یگانۂ روزگار عالِم کی بے توقیری کے جرم کا ارتکاب کرتاہے تو یہ کیسا شگون ہے ؟
شیخ ظہیر الدین رام ریاض کی لکھی ہوئی اس نعت کی کیسٹ سنتے تو کہتے جس سمت بھی نظر اُٹھتی ہے حریت ضمیر سے جینے و الے عظیم شاعر رام ریاض کے اس ابد آشنا نعتیہ کلام کی باز گشت سنائی دیتی ہے :
جو بھی شیریں سخنی ہے میرے مکی مدنی ﷺ
تیرے ہونٹوں کی چھنی ہے میرے مکی مدنی ﷺ
نسل در نسل تیری ذات کے مقروض ہیں ہم
تو غنی ابن ِ غنی ہے میرے مکی مدنی ﷺ
جھنگ کے قناعت پسند شاعر مرزا معین تابش مغل کے ساتھ شیخ ظہیر الدین کے دیرینہ مراسم تھے ۔مغلیہ خاندان کے اس چشم و چراغ کی زندگی میںکئی سخت مقام آئے مگر مرزا معین تابش ایک شان استغناکے ساتھ کہتے کہ وہ پس نوآبادیاتی دور میں تغیر ِ حالات سے مجبور نہیں بل کہ ہر حال میں مطمٔن و مسرور ہیں۔ مرزا معین تابش نے ایک مرتبہ شیخ ظہیر الدین کوبتایا :
’’آزاد وطن کی یہ متاع بے بہا میرے خالق کی عطا ہے وہ جس حال میں رکھے اس پر راضی رہنا چاہیے۔ مقتدر حلقوں کو میرے حال کی سب خبر ہے میں کسی صورت میں بھارت میں موجود اپنی جائیداد کا کلیم داخل نہیں کروں گا۔بوسیدہ کھنڈرات میں دفن حنوط شدہ لاشوں کے سامنے اپنے کرب کی داستان سنانے سے میں قاصر ہوں۔پریشاں حالی ،درماندگی ، مصیبت اور ابتلا و آزمائش کی گھڑی میں ہر کسی کے سامنے اپنے حال ِ زبوں کی روداد سنانا بہ جائے خود ایک بہت بڑی مصیبت ہے ۔‘‘
مرزا معین تابش کی باتیں سن کر شیخ ظہیر الدین نے اثبات میں سر ہلایا اور کہا :
’’ مرزا معین تابش کا تعلق بر صغیرکے مطلق العنان بادشاہوں کے اُس خاندان سے ہے جس نے تین سو سال سے زیادہ عرصے تک( 1526-1857) دہلی کے قصر شاہی میں حکومت کی باگ ڈور سنبھالے رکھی۔کٹھن حالات میں درِ کسریٰ پر صدا کرنا معین تابش کے مسلک کے خلاف ہے ۔ استحصالی معاشرے کی بے حسی کا یہ حال ہے کہ عادی دروغ گو ،جعل ساز اور فریبی جب ہار پہن کر جاتے ہیں تو جوہرِ قابل بازی ہار جاتاہے ۔ حیف صد حیف کیسے کیسے دیوقامت ادیب چربہ ساز ،سارق اور کفن دُزد بونوں میں گھر گئے ؟ ‘ ‘
عبدالحلیم انصاری نے جواب میں کہا:
’’ آپ سب لوگ اچھی طر ح جانتے ہیں کہ مرزا معین تابش ایک خوددار اور انا پرست انسان ہیں ۔اپنی خودی کی نیلامی کے بجائے یہ درویش جذبِ دروں اور فقر و مستی میں نام پیدا کرنے کا متمنی ہے۔ مغلیہ خاندان کے اس قناعت پسند چشم و چراغ نے بھارت میں اپنی جو خاندانی میراث چھوڑی ہے وہ اسے کون دے سکتا ہے ؟‘‘
’’ بھارت میں مغلیہ خاندان کی جائیداد میں لال قلعہ ،تاج محل ،ہمایو ں کا مقبرہ اورفتح پور سیکری کے محلات شامل ہیں ‘‘ مرزا معین تابش نے آہ بھر کر کہا’’ سال 1857کی ناکام جنگ آزادی کے بعد جب غاصب برطانوی تاجر اسلحہ اور قوت کے بل بوتے پر تاج ور بن بیٹھے تو قتل عام سے بچ جانے والے مغل خاندان کے افراد کی زندگی میں کئی سخت مقام آئے مگرحریت ضمیر سے جینے والے مغلوں نے ظالم و سفاک غاصب بر طانوی استعمارکے مسلط کردہ فسطائی جبر کے سامنے سپر انداز ہونے سے انکار کر دیا ۔ہمارے اسلاف کوپابند سلاسل کیا گیا ،جلا وطن کیا گیا ،دار و رسن کی سزائیں دی گئیں ،وہ در بہ در اور خاک بہ سر ہو گئے مگر مصیبت کی اس گھڑی میں کوئی ان کا پرسان ِ حال نہ تھا ۔ مغلیہ خاندان کی میراث پر جن مغلوں کا حق ہے ان میں میرا نام بھی شامل ہے ۔ اگرآپ اصرار کرتے ہیں تو میںاپنی مذکورہ وراثت کے کلیم کے کاغذات آج ہی متعلقہ شعبے کے دفتر میں جمع کرا دیتا ہوں۔میری خاندانی میراث کا حقیقی کلیم مجھے الاٹ کرنے کی سکت کس میں ہے ؟آزادی کے اس سفر کے بعد مجھے یہ معلوم ہوا کہ منزل پر وہ موقع پرست اور مہم جُو قابض ہو گئے ہیں جو جد وجہد آزادی کے کسی مرحلے پرشریکِ سفر ہی نہ تھے۔یہاں تو حشرات الارض نے حشر بپا کر رکھا ہے اور بونے اپنے تئیں باون گزے سمجھنے لگے ہیں ۔زندگی کے ان تضادات کو دیکھ کر میں نے کہا تھا:
مسافت کٹ گئی تو میں نے جانا
سفر کی دُھول میرا پیرہن تھا
اس میں کوئی شک نہیں کہ میں اپنی بہت بڑی خاندانی میراث بھارت میں چھوڑ آیا ہوں مگر بڑے بڑے مناصب پر براجمان چھوٹے لوگوں میں اتنا ظرف کہا ں کہ وہ حق دار کو اس کا حق دے سکیں ۔وقت کے اس لرزہ خیز اور اعصاب شکن سانحہ کو کس نام سے تعبیر کیا جائے کہ جب معاشرے میں جہلا اپنی جہالت کا انعام ہتھیانے میں کام یاب ہوجائے۔ مقتدر حلقوں پر میں یہ بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ میرے ساتھ اظہار ہمدردی کرنے یا بے توجہی سے منھ پھیر لینے کا تو اُنھیں اختیار ہے مگر میری عزت ِ نفس اور انا کو مجروح کرنے کا کسی کو کوئی اختیار نہیں ۔ ‘‘
شیخ ظہیر الدین نے مرزا معین تابش کی مدلل گفتگو سن کر گلو گیر لہجے میں کہا :
’’ تمھارے بزرگ بہادر شاہ ظفر نے سچ کہا تھاکہ اس عالم ِ نا پائیدار میں کسی کی بن نہیں پاتی ۔اس اُجڑے دیار میں دل کا لگانا زیاں کار بننے کے مترادف ہے ۔نو آبادیاتی دور میںہمارے آبا و اجداد استعماری نظام کی قباحتوں ، شقاوت آمیز ناانصافیوں ،ہلاکتوں اور استحصال کے خلاف آواز بلند کرتے رہے ہیں ۔پس نو آبادیاتی دور میں بہت جلدسلطانی ٔ جمہور کا دور آ نے والا ہے ۔اب پرانی اور خوار سیاست گری کی سب نشانیاں مٹا دی جائیں گی۔ آسیب زدہ قصرِ فریدوں کے سامنے حلقہ زن ہو کے صدا کر کے دیکھ لو وہاںہر طرف سکوتِ مرگ طاری ہے اورمہیب سناٹوں کا راج ہے ۔‘‘
امیر اختر بھٹی کے ساتھشیخ ظہیر الدین کے قریبی تعلقات تھے ۔ زندگی اور اس کی مقتضیات کے بارے میں یہ باتیں سن کر امیر اختر بھٹی نے کہا:
’’ زندگی کوئی عقدۂ لاینحل ہر گز نہیں ،زندگی کے مسلمہ حقائق کے بارے میں کوئی ابہام نہیں ۔ اس تلخ حقیقت کا احساس و ادراک ضروری ہے کہ زندگی جوئے شیر و تیشہ و سنگِ گراں ہے۔زندگی کے تجربات و مشاہدات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ زندگی سود و زیاں کے اندیشے سے برتر ہے ۔‘‘
شیخ ظہیر الدین نے اپنے معتمد رفیق کی باتیں نہایت توجہ سے سنیں اور مدلل جواب دیتے ہوئے کہا: ’’ اپنی روح، جگر،جسم اورقلب کوہوس کی آ گ میں جلاکر عشرت کی مشعل فروزاں کرناذہنی افلاس اور عاقبت نا اندیشی کی دلیل ہے ۔ایسے بے خواب کواڑ جنھیں تقدیر نے مقفل کر دیا ہو اور جن پر طویل عرصے سے مسرتوں ،شادمانیوں ،کامرانیوں اور خوش قسمتی کی دستک زنی کا سلسلہ رُک گیا ہو ا،اُن کی جگہ نئے دروازوں کی تنصیب ، تعمیر ِ نو اور تزئین و آرائش ناگزیر ہے ۔ لمحہ ٔ موجود کو پروردگار ِ عالم کا بیش بہاانعام سمجھ کر اس کی قدر کرو۔ بے اخلاص ،بے درد ،بے بصر ،کور مغز اورقدر نا شناس کے سامنے عرضِ حال کرنا بھینس کے آگے بین بجانے ،بہرے کے سامنے آہیں بھرنے اور بے بصر کے رو بہ رو گریہ کرنے کے متراد ف ہے ۔پدرم سلطان بود کی بات مرزا معین تابش پر صادق آتی ہے ۔‘‘
شیخ ظہیر الدین جس محفل میں بھی جاتے اپنی باوقار شخصیت کی بے مثال وجاہت کے اعجاز سے مرکز نگاہ بن جاتے تھے ۔ اُن کی گردن نمایاں، پیشانی کشادہ ،درازقد ،کلین شیو،پیش بینی کی صلاحیت سے متمتع بڑی اور منور آ نکھیں ،چوڑا اور مضبوط سینہ،متوازن جسامت ، قافلہ سالاروں جیسے بڑے سر پر خوبسنورے ہوئے گھنے سیاہ بال ،پلکیں اور بھویں گھنی، باوقار اور جلال و جمال کی مثال حسین چہرہ انھیں امتیازی مقام عطا کرتا تھا۔ وہ تکلم کے سلسلے شروع کرتے تو محسوس ہوتا کہ ان کے ناز ک لبوں سے پھول جھڑ رہے ہیں ۔اُن کے الفاظ کی ترنگ اور دبنگ لہجے کی اُمنگ سامعین کو اپنے سنگ سنگ لے کر چلتی تھی ۔لباس کے انتخاب میں ان کے ذوق ِ سلیم کا ایک عالم معترف تھا۔ نفیس یورپی اور ایشیائی ملبوسات انھیں پسند تھے ۔ موسم کی مناسبت سے وہ بالعموم پتلون اور قمیص یا شلوا ر،قمیص پہنتے ۔اپنے ملبوسات کے لیے کپڑے اور رنگوں کے انتخاب میں وہ بہت احتیاط سے کام لیتے ۔شہر کے ماہر خیاط سرورسے کپڑے سلواتے اور ہر لباس ان کے جسم پر خوب سجتا تھا۔پاؤں میں بُوٹ پہنتے ،اُن کی چال میں جو رعب و جلال تھاوہ ان کی دبنگ شخصیت کی پہچان تھا۔ ان کی خوش لباسی ،خوش اخلاقی ،وضع داری اورانسانی ہمدردی نے ان کی مسحورکن شخصیت کو ایسی مقناطیسی کشش عطا کی تھی کہ ہر ملاقاتی ان کا گرویدہ ہوجاتا۔وہ ایسے محبوب خلائق استاد تھے کہ جن کی تقلید کر کے اُن جیسا بننے کی آرز وکی جاتی ہے ۔ شہر کے سنجیدہ لوگ ان کے اخلاق اور اخلاص کی مثالیں دیتے تھے ۔
ایک ترقی پسند،روشن خیال اور وسیع النظر سائنس دان کی حیثیت سیشیخ ظہیر الدین نے ہمیشہ تقلید کی روش سے بچ کر اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کی مساعی کو اپنا نصب العین بنایا ۔ نئی نسل کوانھوںنے ہمیشہ یہی مشورہ دیاکہ وہ فصیل ِ جبر و استحصال کو سعیٔ پیہم اور محنت شاقہ کے تیشوں سے منہدم کر کے اپنے روشن مستقبل کے لیے درپیدا کریں ۔اگر وہ بے عملی ،کاہلی اور دُوں ہمتی کا شکار ہو گئے تو وہ دردر کی ٹھوکریں کھاتے پھریں گے اور کوئی ان کا پرسانِ حال نہ ہو گا۔ شعبہ کیمیا کی تجربہ گاہ میںنمکیات کی شناخت میں انھیں جو مہارت حاصل تھی وہ ان کی علمی فضیلت کی دلیل سمجھی جاتی تھی ۔کسی بھی عنصر، نمک ،سفوف،دھات ، محلول ،محلل ،منحل ،آمیزہ یا مرکب ان کے سامنے لایا جاتا وہ ایک جھلک دیکھ کراس کے بارے میں سب حقائق بتادیتے ۔وہ احباب کو یہی سمجھاتے کہ معاشرتی زندگی کی بے حسی اور بے تعلقی کا یہ حال ہے کہ متعدد بھٹکے ہوئے راہی نمک کی کان میں چلے جاتے ہیں مگر کسی کو کانوں کان خبر نہیںہوتی ۔صرف نمکیات ہی پر موقوف نہیں قدر ت کاملہ کی طرف سے شیخ ظہیر الدین کو انسان شناسی کی جو صلاحیت عطا کی گئی تھی وہ اپنی مثال آپ ہے ۔کسی بھی شخص سے سر راہے سرسری سی ملاقات میں بھی وہ اس کے کردار کے بارے میں ایسی جچی تُلی رائے دیتے کہ واقف ِ حال لوگ اس بصیرت افروز مطالعۂ احوال پرششدر رہ جاتے ۔پروفیسر دیوان احمد الیاس نصیب نے بتایا کہ جون کے مہینے میں ایک پر اسرار شخص تھری پیس سوٹ پہن کر سٹاف روم میں پروفیسر احمد بخش ناصر سے ملنے آیا ۔مہمان کو سٹاف روم میںبٹھایا گیااور پروفیسر احمد بخش ناصر کو مہمان کی آمد سے مطلع کیا گیا۔ اسی اثنا میںشیخ ظہیر الدین کسی کام کے سلسلے میں سٹاف روم پہنچے ۔اس مہمان کی ہئیت کذائی دیکھ کر شیخ ظہیر الدین نے بہت رازدارانہ انداز میں پروفیسر دیوان احمد الیاس نصیب کو بتایا کہ یہ شخص سازندہ ،طبلچی یاڈھولچی ہے اور اس مسخرے نے جولباس پہن رکھا ہے وہ لُنڈے بازار سے خرید ا گیا واسکوڈے گاما کے زمانے کے کسی مرے ہوئے گورے کی یادگارہے ۔تھوڑی دیر کے بعدپروفیسر احمد بخش ناصر بھی آ گئے ۔انھوں نے مہمان کوایک طر ف بلایا،اُس کی بات سُنی اور اُسے چلتا کیا ۔مہمان کے جانے کے بعدپروفیسر احمد بخش ناصرنے بتایا کہ یہ طوفانی سرکس کا طبلہ نواز اور مہامسخراہے۔رات کے وقت سر کس کے کھیل میں اِسے جس شدید طنز و تضحیک کا نشانہ بننا پڑتاہے اس کا ازالہ کرنے کی خاطر یہ دن کے وقت لوگوں کو مرعوب کرنے کے لیے اس قسم کا سوانگ رچاتاہے ۔
جب بھی شیخ ظہیر الدین سے ملاقات ہوتی وہ پرانے آشنا چہروں اوردائمی مفارقت دینے والے احباب کو یاد کر کے غموں کے ازدحام میں دِل کو سنبھالنے کی تلقین کرتے ۔چند روز قبل میں ان سے ملنے گیا تو انھوں نے اپنی بزم ِ وفا کے رفتگاں کو یادکر کے اپنے دِلِ حزیں کو ان کی یاد سے آباد رکھنے کی سعی کی ۔مجھے ایسا محسوس ہوایہ یاد ایک دل گرفتہ شخص کی فریاد کی صورت اختیار کر گئی ہے ۔اس ملاقات میں انھوں نے عدم کے کوچ کے لیے رخت سفر باندھنے والے علم و ادب کی کہکشاں کے گہنا جانے والے جن ستاروں کویاد کیاان میں احمدبخش ناصر، ابو بکر صدیقی ،اسحاق مظہر، امیر خان ڈب ،اقتدار واجد، بشارت خان ،تراب علی چودھری ،حاجی حافظ محمد حیات ، حاجی محمد حنیف، خلیل اللہ خان ،دیوان احمدالیاس نصیب ، عبدالستار چاولہ ، عبدالباری عباسی ،عبدالحلیم انصاری ، عظیم خان ، عباس ہادی چغتائی ،عمرحیات بالی ،سمیع اللہ قریشی ، شریف خان ،شفیع ہمدم ، شفیع بلوچ،فیض محمدخان ،فیض محمد ارسلان، گدا حسین افضل ، محمد حیات خان سیال ، مرتضیٰ شاکر ترک ، نذیر احمدسید، نور احمد ثاقب اوروزیر آغا شامل ہیں۔ شیخ ظہیر الدین نے گلو گیر لہجے میں کہا :۔
’’ سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑے زندگی کے متعدد واقعات اور ان سے وابستہ شخصیات کو اس طرح بہا لے جاتے ہیں کہ ایام گزشتہ کی کتاب میں رقم حقائق خیال وخواب کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ ہماری محفل سے کیسے کیسے پیارے لوگ اُٹھ گئے ۔جب میں اُن کے بارے میں سوچتا ہوں تو دِل بیٹھ جاتاہے ۔پرِ زمانہ بلاشبہ پرواز ِ نور سے کہیں تیز ہے مگر اس کی برق رفتاریوں کے باوجود ایسی ہفت اخترشخصیات اب کبھی پیدا نہیں ہوسکتیں۔‘‘
ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
جب بھی شیخ ظہیر الدین سے ملاقات ہوتی وہ پرانے آشنا چہروں اوردائمی مفارقت دینے والے احباب کو یاد کر کے غموں کے ازدحام میں دِل کو سنبھالنے کی تلقین کرتے ۔چند روز قبل میں ان سے ملنے گیا تو انھوں نے اپنی بزم ِ وفا کے رفتگاں کو یادکر کے اپنے دِلِ حزیں کو ان کی یاد سے آباد رکھنے کی سعی کی ۔مجھے ایسا محسوس ہوایہ یاد ایک دل گرفتہ شخص کی فریاد کی صورت اختیار کر گئی ہے ۔اس ملاقات میں انھوں نے عدم کے کوچ کے لیے رخت سفر باندھنے والے علم و ادب کی کہکشاں کے گہنا جانے والے جن ستاروں کویاد کیاان میں احمدبخش ناصر، ابو بکر صدیقی ،اسحاق مظہر، امیر خان ڈب ،اقتدار واجد، بشارت خان ،تراب علی چودھری ،حاجی حافظ محمد حیات ، حاجی محمد حنیف، خلیل اللہ خان ،دیوان احمدالیاس نصیب ، عبدالستار چاولہ ، عبدالباری عباسی ،عبدالحلیم انصاری ، عظیم خان ، عباس ہادی چغتائی ،عمرحیات بالی ،سمیع اللہ قریشی ، شریف خان ،شفیع ہمدم ، شفیع بلوچ،فیض محمدخان ،فیض محمد ارسلان، گدا حسین افضل ، محمد حیات خان سیال ، مرتضیٰ شاکر ترک ، نذیر احمدسید، نور احمد ثاقب اوروزیر آغا شامل ہیں۔ شیخ ظہیر الدین نے گلو گیر لہجے میں کہا :۔ وطن عزیزمیں ایسے تعلیمی اداروں کی کمی نہیںجہاںسائنسی علوم کی تدریس کے لیے معیاری تجربہ گاہوں میں باقاعدگی کے ساتھ کام ہو رہاہے ۔ شیخ ظہیر الدین کانام سائنسی علوم کی تدریس کے اُن بنیادگزاروں میںشامل ہے جنھوں نیجھنگ جیسے دُور افتادہ علاقے میں نصف صدی پہلے کیمیا ،طبیعات اور حیاتیات کی تدریس کا موثر اہتمام کیا۔سال 1926ء میں روشنی کے سفر کاآغاز کرنے والے تاریخی گورنمنٹ کالج ،جھنگ میںاس وقت علمِ کیمیا کی تجربہ گاہ کاجو بلند معیار ہے وہ اپنی مثال آ پ ہے ۔ شیخ ظہیر الدین نے سائنسی علوم کی تدریس میں جس انہماک کا مظاہرہ کیاوہ اس خطے کی تاریخ کا درخشاں باب ہے ۔شیخ ظہیر الدین کی موثر تدریس کے اعجاز سے یہاں کے طلبا و طالبات میں سائنسی علوم سے دلچسپی پیداہوئی اور اذہان کی تطہیر وتنویر کا اہتمام ہوا۔ان کے سیکڑوں شاگرد اس وقت کیمیکل انجینئیرکی حیثیت سے ملک وقوم کی خدمت میںمصروف ہیں۔اس علاقے کے طلبا و طالبات کو سائنسی علوم کی طرف مائل کرنے کے سلسلے میں شیخ ظہیر الدین کی خدمات کاایک عالم معترف ہے ۔ اُن کی علمی و ادبی خدمات کے پیشِ نظر تاریخ ہر دور میں اُن کے نام کی تعظیم کرے گی ۔ ان کی موثر رہنمائی نے یدبیضاکامعجزہ دکھایااور نوجوان طلباو طالبات کا مستقبل سنور گیا اور ان کی قسمت بدل گئی ۔ان کے اس بارِ احسان سے اس علاقے کے عوام کی گردن ہمیشہ خم رہے گی۔ تقدیر کے چاک کوسوزنِ تدبیر سے رفو کرناکسی صور ت ممکن ہی نہیں ۔موت سے کسی کو رستگاری نہیںآج شیخ ظہیر الدین رخصت ہو گئے اور ان کے بعدہم الم نصیب کمر باندھے اپنی اپنی باری بھرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ کوئی شخص خواہ وہ کتنا ہی فہم و فراست اور قوت و ہیبت کا مالک ہوپُلوں کے نیچے سے بہہ جانے والے آبِ رواں اور بیتے لمحات کے لمس سے دوبارہ کسی صورت میںفیض یاب نہیں ہوسکتا۔ ہوا کے دوش پر ر کھے ہوئے انسانی زندگی کے ٹمٹماتے چراغ تو کسی بھی وقت اجل کے ہاتھوں گُل ہو سکتے ہیں مگر لوحِ دِل پر ثبت رفتگاں کی یادوں کے نقوش اندیشہ ٔ زوال سے ناآشناہیں۔شیخ ظہیر الدین کی یادیں فضاؤں میں اس طرح پھیلی ہیں کہ جس سمت بھی نگاہ اُٹھتی ہے اُن کی آواز کی باز گشت سنائی دیتی ہے ۔ تعبیر ہے جسکی حسرت و غم تتکتعا
شیخ ظہیر الدین قارئینِ ادب کے اس عمومی تاثر سے آ گاہ تھے کہ پیر ا سائیکالوجی کو جعلی سائنس کی حیثیت حاصل ہے ۔اس کے باوجود عملی زندگی میں افراد نے زندگی کے جو معائر منتخب کر رکھے ہیں ان کے انداز جداگانہ نوعیت کے ہیں۔انھوں نے شہرِ خیال کو ہمیشہ نئے آفاق سے آشنا کیا ۔اس امر پر وہ اپنے رنج کا بر ملااظہار کرتے کہ جدید دور کے عشرت کدوں میں آ سیبِ زر نے بسیراکر لیاہے ۔بڑھتی ہوئی آبادی اور نئی بستیوں میں نئے نئے گھر اور نئے نئے بشردیکھ کر ہر حساس شخص محوِ حیرت ہے کہ اپنے ابنائے جنس سے بے تعلق سی دنیا کن اجنبی سی منزلوں کی جانب سرگرم ِ سفر ہے ۔آثار قدیمہ سے شیخ ظہیر الدین کوبہت دلچسپی تھی ۔ دسمبر 1995ء میں ایک مطالعاتی دورے کے سلسلے میں وہ شورکوٹ ،ہڑپہ ،موہنجو دڑو اور ٹیکسلا گئے ۔سفر سے واپسی پر انھوں ے اپنے تاثرات کا اظہاران الفاظ میں کیا:
’’ قدیم شہروں کے کھنڈرات میں اب حشرات الارض ، بے شمار کرگسوں ، بوم و شپر اور زاغ و زغن کا بسیراہے ۔ یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اورکیا ہے کہ عبرت سرائے دہر کے شہر ٹیکسلا میں ممٹی پر ایک چیل دھوپ میں بیٹھی آلام ِروزگار اور خورشید جہاں تاب کی تمازت سے اپنے پروں کو گرمانے کے بعد تباہ شہر سر کپ( Sirkap) کے بادشاہ دمیترس ( Demetrius I of Bactria ) کے قدیم محل تعمیر شدہ (r.c. 200–180 BC), کے اُجڑے کھنڈر اور ویران گلیوں کی نگہبانی کررہی تھی ۔کچھ فاصلے پر زاغ ،کرگس اور چغدبھی گردشِ ایام کے آلام کی نوحہ خوانی کے بعد تاریخ کایہی سبق دہرارہے تھے کہ آج تک کسی نے بھی تاریخ سے کوئی سبق نہیںسیکھا۔ پس نو آبادیاتی دور میںقلعۂ فراموشی کے اسیروں کوبدلتے ہوئے حالات کے تقاضوں سے آگاہ کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔ کھلی فضاؤں میں بلند پروازی کو شعار بنا کر لمبی اُڑانیں بھرنے والے طائران خوش نوا کو یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ محض ایک دانۂ رزق ہی اُن کی پرواز میںکوتاہی کا سبب بن کر اِنھیں زیرِ دام لاتا ہے ۔ ‘ ‘
کل پاکستان علمی و ادبی تقریبات کے انعقاد میں شیخ ظہیر الدین نے ہمیشہ گہری دلچسپی لی ۔ اُن کی انتہائی موثر کارکردگی اور انتظامی صلاحیتوں کی بنا پر شیخ ظہیر الدین کو سالانہ تقریبات کی روح ِ رواں سمجھاجاتا تھا۔ مولانا ظفر علی خان کے اخبار ’ زمیندار ‘ کے صحافی مولاناچراغ حسن حسرت ( 1904-1955) کے فرزند ظہیر الحسن جاوید (1937-2018)کے ساتھ ان کے قریبی مراسم تھے ۔اسی قسم کی سالانہ تقریبات میں شیخ ظہیر الدین نے ایک سال ظہیر الحسن جاوید کو ان تقریبات میں مہمان کی حیثیت سے شرکت کی دعوت دی۔ ظہیر الحسن جاوید نے تحریک پاکستان میں جھنگ کے طلبا کی خدمات اور اپنے والد سے وابستہ یادیں تازہ کیں ۔ ظہیر الحسن جاویدنے گورنمنٹ کالج کی عظیم الشان علمی وادبی روایات اور درخشاں اقدار کوبہ نظر تحسین دیکھا اوریہاں کے اساتذہ کی خدمات پر انھیں خراج تحسین پیش کیا ۔ شیخ ظہیر الدین نے بتایا کہ انھیں ایسامحسوس ہوا کہ اس موقع پر ظہیر الحسن جاویدنے اپنے والد کی یادوں اور خود اپنی ذات کی خوابیدہ صلاحیتوں کی دریافت کی ایک سعی کی ۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ یادگارملاقات ظہیر الحسن جاویدکے اسلوب کی عکاسی کرنے کے ساتھ ساتھ ان مقاصدکی جانب توجہ دلاتی ہے جن کا اہم ترین پہلو اپنے رفتگاں کی یاد ہے ۔ اردوشاعری میں صنف ’ ماہیا ‘کے فروغ کے لیے مولانا چراغ حسن حسرت کی خدمات کا ایک عالم معترف ہے ۔ظہیر الحسن جاویدنے اپنے والد(چراغ حسن حسرت ) کے لکھے ہوئے اور برکت علی خان کے گائے ہوئے مقبول ماہیے سامعین کو سنانے کے بعد سہ حرفی صنف میں
اپنی کاوش بھی پیش کی جس سے سماں بندھ گیا۔ ایام گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے شیخ ظہیر الدین نے ان اشعار کو تہذیب ِ ادب اورنظم ِعجب سے تعبیر کیا ۔اس یادگار محفل شعر و ادب میں سنائے گئے سب کے سب اشعار شیخ ظہیر الدین کوزبانی یاد تھے ۔ ان اشعار کے حوالے سے وہ ظہیر الحسن جاوید کو یاد کر کے دل گرفتہ ہو جاتے اور اکثر یہ بات دہراتے کہ جو لمحے بیت گئے وہ کبھی لوٹ کر نہیں آتے اور جو عزیز ہماری بزمِ وفا سے چلا گیا سو چلا گیااُسے واپس بلانا ہمارے بس اور دسترس سے باہر ہے ۔ ذیل میں قارئین کے استحسان کی خاطر ان دونوں شعر اکی تخلیقات کا موازنہ پیش کیا جاتاہے :
باغوں میں پڑے جُھولے
تم بھول گئے ہم کو ،ہم تم کو نہیں بُھولے (چراغ حسن حسرت)
’’ باغوں میں پڑے جُھولے ‘‘
کوئل بھی کہے تم سے
’’ ہم تم کو نہیں بُھولے ‘‘ ( ظہیر الحسن جاوید )
اب اور نہ تڑپاؤ
یا ہم کو بُلا بھیجو،یا آپ چلے آ ؤ (چراغ حسن حسرت)
’’ اب اور نہ تڑپاؤ ‘‘
پھر پاس مرے آ کر
سینے سے لگاجاؤ ( ظہیر الحسن جاوید )
اپنے احباب کو شیخ ظہیر الدین نے ہمیشہ یہ باور کرانے کی کوشش کہ انسانی زندگی کا ساز بھی ایک انوکھا سازہے جو پیہم بج رہا ہے مگر کوئی اس کی صداپر کان نہیں دھرتا۔فرشتۂ اجل اُداس بام اور کُھلے در پر جلی حروف میں یہ لکھ جاتاہے کہ اس عالم ِ نا پائیدارمیں حیات ایک لفظ نا معتبر کے سوا کچھ بھی تو نہیں ۔اس دنیا کا مال و زر اور اندوختہ بھی فریبِ اور سراب ہی ہے ۔ اس دنیامیںہر انسان خالی ہاتھ آتاہے اور جب وہ عدم کے کوچ کے لیے رختِ سفرباندھتاہے تو اس کے دونوں ہاتھ خالی ہوتے ہیں۔ ہماری بزم کے وہ چاند چہرے جنھیں دیکھ کر ہم جیتے ہیں جب دیکھتے ہی دیکھتے ہمیشہ کے لیے آ نکھوں سے اوجھل ہوجاتے ہیں تو دنیا بے بسی کے عالم میںدیکھتی کی دیکھتی رہ جاتی ہے ۔جب ہم اپنے رفتگاں کی دعا ئے مغفرت کے لیے اپنے خالی ہاتھ اُٹھاتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتاہے کہ یہ آفتاب و ماہتاب توہمارے ہاتھوں کی لکیروں سے بھی نکل گئے ہیں۔ اقدار وروایات کی زبوں حالی پر شیخ ظہیر الدین اکثر اپنی تشویش کا اظہار کرتے تھے ۔انھیں اس بات پر رنج تھاکہ قحط الرجال کے موجودہ دور میں اس شہر ِ ناپرساں میں ہر کوئی اپنی فضا میں مست و بے خود پھرتاہے مگر کسی کو الم نصیبوں اورجگر فگاروں کی گریہ و زاری کی پروا نہیں ۔ ہاتھ کی صفائی دکھاکر قومی وسائل پر ہاتھ صاف کرنے والے بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے موقع پرستوں نے لٹیاہی ڈبو دی ہے ۔ انسان کومیزان زر میں تولنے والوں نے خالی ہاتھوں پھرنے والوں کو ہمیشہ آڑے ہاتھوں لیاہے اور ان کی حقیقت پسندانہ باتوں کو کبھی لائق اعتنا نہیں سمجھا۔ہاتھ پر ہاتھ دھرے ،سرابوں میں بھٹکنے والے اور موہوم تمناؤں کے اسیر ہو کر منتظر فردارہنے والے بے عمل افرادکے بارے میں شیخ ظہیر الدین ہمیشہ سخت موقف اختیارکرتے تھے ۔ معاشرتی بے حسی اور خود غرضی کے بارے میں ان کاخیال تھاکہ ہم ایسے جزیرے میں گھر گئے ہیں جہاں چربہ ساز ،سارق ،کفن دزد اورمُردوں سے شرط باندھ کر خچر بیچ کر سونے والے نیروجلتے روم کو دیکھ کر چین کی بانسری بجانے میں مصروف ہیں ۔ ان لرزہ خیزاور اعصاب شکن حالات میںمفت خور اور لیموں نچوڑ سفہا ایام کا مرکب بن کر اپنی خست وخجالت کاثبوت دیتے ہیں ۔ پس نو آبادیاتی دور میں رو نما ہونے والے واقعات کے تناظر میں وہ نیرنگی ٔ سیاست ِ دوراں پر دل گرفتہ رہتے تھے کہ طلوعِ صبح آزادی کے بعد منزلوں پر ان طالع آزمااور مہم جو عناصر نے غاصبانہ قبضہ کر لیاہے جو جد وجہد آزادی کے طویل اور صبر آزما مرحلے میں کبھی شریک سفر ہی نہ تھے ۔ان کا کہنا تھاکہ کسی بھی معاشرے میں بے حسی کابڑھ جانااس معاشرے کی بقا کے لیے بہت برا شگون ہے ۔جس معاشرے میں وقت کے ایسے سانحات رونماہو ں کہ جاہل کو اس کی جہالت کا انعام ملنے لگے وہاںکے قصر و ایوا ن میں ہر جگہ ذلت ،تخریب ،نحوست ،نا شکری ،بے غیرتی ،بے ضمیری ،بے توفیقی اور بے حیائی کے کتبے آویزاں ہو جاتے ہیں ۔ ہر حال میںاپنااُلّو سیدھا کرنے کی فکر میں مبتلا رہنے والے ساتا روہن ایسے عجیب الخلقت گرگ ہیں جو اپنی تخریب کررہے ہیں مگر انھیں اس کا کوئی ملال تک نہیں۔
میزبان اور مہمان کی حیثیت سے شیخ ظہیر الدین نے ہمیشہ اپنے ذوقِ سلیم ،وضع داری ،نفاست اور خاندانی شرافت کو ملحوظ رکھا۔اپنے ہاں آنے والے مہمانوں کے لیے وہ دیدہ و دِل فرشِ راہ کر دیتے ۔ان کی پسند کے کھانے تیار کراتے اور نہایت خاموشی اور سنجیدگی سے ان کی خدمت کرتے ۔ کھانے کی اس قسم کی ہر تقریب میںشرکت کرنے والے مہمان اپنے میزبانشیخ ظہیر الدین کے تقرب کو اپنی قدر افزائی پر محمول کرتے ۔جب کسی دوست کے ہاں پہنچتے تویہی کوشش کرتے کہ میزبان پر کوئی بوجھ نہ پڑے ۔وہ اکثر یہ بات کہا کرتے تھے کہ کلام ،طعام اور مسافرت کے ایام میں ہر انسان کی پہچان ہوجاتی ہے ۔شیخ ظہیر الدین نے گونمنٹ کالج ،جھنگ میں تین عشروں تک نصابی اور ہم نصابی سر گرمیوں میں جس انہماک سے حصہ لیا وہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ جہاں تک ہم نصابی سر گرمیوں کا تعلق ہے انھوںنے کل پاکستان علمی و ادبی تقریبات ،ڈراموں ،مشاعروں اور کھیلوں کے انعقاد میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔شیخ ظہیر الدین کی تحریک پر پروفیسر عبدالباری عباسی اور پروفیسر خلیل اللہ خان نے برطانوی شاعر اور ڈرامہ نگار ولیم شیکسپئیر (1564-1616 : William Shakespeare ) کے ڈراموں کے ارد و تراجم کیے اور انھیں سال1926 میں پروفیسر رانا عبدالحمیدخان کی نگرانی اور ہدایات میں آغا حشر کاشمیری ( 1879-1935) کے ڈرامہ رستم سہراب کو سٹیج پر پیش کرکے اپنے کام کا آغاز کرنے والی گورنمنٹ کالج جھنگ کی ڈرامیٹک کلب ( GCJDC ) نے سٹیج پر پیش کیا۔ان ڈراموں کو سٹیج کرنے میں شیخ ظہیر الدین کی مشاورت اور رہنمائی خضر راہ ثابت ہوئی ۔ سٹیج ڈرامے کے باذوق ناظرین،ادب اور فنون لطیفہ کے ناقدین اور شیفتگان ِ اداکاری کی متفقہ رائے تھی کہ سٹیج ڈرامے کو معیار اور وقر کی رفعت کے اعتبار سے ہم دوش ثریا کرنے میں گورنمنٹ کالج جھنگ کی ڈرامیٹک کلب ( GCJDC ) کو ملک بھر میںاولیت کا جو اعزاز حاصل ہے اس کا سہرا پروفیسر خلیل اللہ خان ، پروفیسر عبدالباری عباسی ، شیخ ظہیر
الدین ، تقی الدین انجم ( علیگ ) پروفیسر عبدالستار چاولہ اور سید عبدالباقی ( عثمانیہ ) کے سر ہے ۔ شیخ ظہیر الدین نے بتایا کہ اس یادگار دور میں شیکسپئیر کے جو ڈرامے سٹیج کیے گئے ان میں مقبولیت کے اعتبار سے ہیملٹ ( Hamlet)،میکبتھ ( Macbeth)، جولیس سیزر ( Julius Caesar)، کنگ لئیر ( King Lear)،رومیو اور جو لیٹ ( Romeo and Juliet) اپنی مثال آپ ہیں ۔ان ڈراموں کے ناظرین کی طرف سے شیخ ظہیر الدین اور ان کے ممتاز رفقا کو جس عزت و احترام سے نواز گیا وہ ان کے لیے بہت بڑااعزازوافتخار ثابت ہوا۔ ایفائے عہد ،ایثار ،وفااور خلوص شیخ ظہیر الدین کی شخصیت کاامتیازی وصف تھا۔ اپنے احباب کووہ یہی نصیحت کرتے کہ وہ عادی دروغ گوموقع پرستوں کے مکر کی چالوں سے ہوشیار رہیں ۔ایسے اجلاف وارذال آستین کے سانپ کی صورت میں ڈس لیتے ہیں ۔سانپ کے ڈس کرنکل جانے کے بعدلکیر پیٹنے سے کوئی فائدہ نہیں ۔ انھوں نے اس جانب متوجہ کیا کہ اس عہدِ نا پرساں میں ہر شہر عجیب ہو رہاہے اور کوفے کے قریب ہو رہا ہے ۔ جس طرف نظر دوڑاؤ وقت کے ہر سیزر ( Julius Caesar)کو بروٹس (Marcus Junius Brutus)قماش کے محسن کش سادیت پسند درندوں نے گھیر رکھاہے ۔ کم تعلیم یافتہ ،لکیرکے فقیر اور توہم پرست لوگوں میں عصری آ گہی پروان چڑھانے کے سلسلے میں؎ شیخ ظہیر الدین نے بہت جد و جہد کی ۔اپنے معتمد ساتھیوں اللہ دتہ سٹینو،حاجی محمد یوسف ، عبدالحلیم انصاری ،رانا سلطان محمود،غلام علی خان چین ،ڈاکٹر محمد کبیر خان ،حکیم محمد صدیق ،حکیم احمد بخش نذیر ،اللہ دتہ حجام اور شیرمحمدکے تعاون سے انھوں نے کئی فلاحی کام کیے ۔ان فلاحی کاموں میں عطیہ خون سوسائٹی کاقیام ،مفلس و قلاش خاندانوں سے تعلق رکھنے والی یتیم وبے سہارانوجوان لڑکیوں کی شادی کے انتظامات ، آلامِ روزگار کے پاٹوں میں پسنے والے بے گھر خاندانوں کے لیے رہائش کا بندوبست ،فاقہ کشوں کے لیے دووقت کی روٹی کاانتظام ،انسداد منشیات ،بدعنوانی کے خلاف آگہی پروان چڑھانا، خواتین کے دست کاری کے مراکز کا قیام ،کمپیوٹر کی تربیت کے مراکز کاقیام ،تہذیبی و ثقافتی اقدار کے تحفظ کے اقدامات ،غریب طالب علموں کی مالی اعانت اور بے روزگار افرادکے لیے روزگار کے مواقع کی تلاش شامل ہیں۔اپنے منفردانداز اورنئے قرینے سے فصل ِ علم کاشت کرنے والے اس جری دانش ور نے خارِ مغیلاںہٹاکر صحرا میں سائنسی علوم کی تدریس کا جوپودالگایا وہ اب نخلِ تناور بن چکاہے۔ اس بُور لدے چھتنارکے ثمر ِ نورس ہمار ابہت بڑ ااثاثہ ہیں ۔
خلوص، دردمندی ،انسانی ہمدردی ،ایثار اور انسانیت کے ساتھ بے لوث ،محبت شیخ ظہیر الدین کی شخصیت کا اہم وصف تھا۔وہ ایک مرنجاں مرنج اور صحت مند شخصیت کے مالک تھے اس لیے انھوں نے آزمائش کی ہر گھڑی میں موقع اور محل کی مناسبت سے موزوں کردار ادا کیا۔جھنگ میں دریائے چناب کے قیامت خیزسیلاب نے اگست 1973ء میںجو تباہی مچائی اس کے اثرات اب تک محسوس کیے جاتے ہیں ۔دریا ئے چناب کی طوفانی موجوں کا آٹھ فٹ اونچا ریلا شہر کے گردبنائے گئے کچی مٹی کے مضبوط حفاظتی پشتے کو توڑتا ہوا شہر میں داخل ہو گیا اور نشیبی علاقے میں رہنے والے لوگوں کا سار اسامان بہا لے گیا ۔سیلاب زدگان کے رہائشی مکانات کھنڈر بن گئے،مویشی پانی میں بہہ گئے ،اجناس خوردنی اور زندگی بھر کا مال و اسباب دریابرد ہو گیا۔ سیلاب زدگان نے بڑی مشکل سے جان بچائی اوربے بسی کے عالم میں پناہ گزین کیمپوں میں پنا ہ لی۔ جھنگ شہر کا ریلوے روڈ کا علاقہ قدرے بلندمقام پر واقع ہے اس لیے دریا کی طغیانی سے محفوظ رہا ۔ شیخ ظہیر الدین اور ان کے رفقائے کار نے مصیبت کی اس گھڑی میں سیلاب زدگان کی غذائی ،رہائشی اور طبی ضروریات کی تکمیل کے لیے دن رات کام کیا ۔اپنے مکان کے ایک حصے میں ایک سو کے قریب پردہ دار خواتین اور ان کے کم سن بچوں کو ٹھہرنے کی جگہ دی ۔ اپنے گھر سے کھانا پکوا کر ان سیلاب زدگان تک پہنچایااور حکیم احمد بخش،حکیم محمد صدیق ،حکیم شیر محمد،حکیم حاجی غلام محمد اور ڈاکٹر محمد کبیر خان کے ساتھ مل کر سیلاب سے پھیلنے والی وبائی امراض کی روک تھام پر توجہ مرکوز کر دی ۔جھنگ کے حفاظتی بند کے شمال میں جودیہات اور کچی آبادیاں دریا ئے چناب کے قریب تھیں وہاں کوئی امدادی ٹیم فوری طور پر نہ پہنچ سکی۔مصیبت زدہ لوگ درختوں پر چڑھ گئے اور کسی غیبی امدادکے شدت سے منتظر تھے ۔ جھنگ شہر سے چنڈ بھروانہ تک کا آٹھ کلو میٹر کا علاقہ دریائے چناب کی آٹھ فٹ بلند مہیب طوفانی لہروں میں ڈوبا متلاطم سمندر کا منظر پیش کر رہا تھا ۔ سیلاب کے انتہائی تکلیف دہ حالات میں شیخ ظہیر الدین اور ان کے قریبی احباب نے اپنی مدد آپ کے تحت پلائو ،دال،سبزی ،گوشت اور حلیم کی دس دیگیں پکوائیں،مقامی نانبائی سے دو ہزار کے قریب تازہ نان خریدے۔ ہنگامی ضرورت کے لیے بانسوں اورلکڑی کے تختوں سے تیار کی گئی ایک کشتی میں یہ سامان رکھا ۔اس کے بعد وضو کیا تسبیح ہاتھ میں لی اور درود پاک کا ورد کرتے ہوئے کشتی میں بیٹھ گئے اور ملاح کو چپو چلانے اور کشتی کھینے کااشارہ کیا۔ شیخ ظہیر الدین اللہ کریم کے بھروسے پر اپنے ساتھیوں سمیت جان پر کھیل کر بے خطر زندگی اور موت کے اس کھیل میں کود پڑے۔ جھنگ کے شکستہ حفاظتی بند پر موجود سکیڑوں الم نصیب لوگوں نے اشک بار آنکھوں سے عزم و ہمت کے ان عظیم کو ہساروں کو رخصت کیااور ان کی بہ خیرت واپسی کی دعا کی ۔ جھنگ شہر میں مقیم طوفانوں میں پلنے والا ادھیڑ عمر کا محنت کش نور اموہانہ اپنی مدد آپ کے تحت بنائی گئی اپنی نوعیت کی اس انوکھی کشتی میں بیٹھا اپنی پوری قوت سے چپو چلارہا تھا ۔ دریائے چناب کے سیلاب کے پانی میں گھرے انسانوں کی دنیا بدلنے کی تمنا دل میں لیے اس جفاکش محنت کش نے ترنگ میں آکر یہ تان اڑائی :
بیڑی دتی ٹھیل اوئے مقدراں دے کھیل اوئے
رب چا کریسیں ساڈا پتنا ںتے میل اوئے
ترجمہ:کشتی کو ڈالا بیچ منجدھار مقدر سے یہ لگے گی پار
مجبوروں سے جا کے ملیں گے ،رب ہی کرے گا بیڑا پار
شیخ ظہیر الدین اور اُن کے معتمد ساتھیوں کی یہ سر فروشی بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوئی ۔ان کے اس لائق صد رشک و تحسین فلاحی کام کے بعد جذبہ ٔ ایثار سے سرشار بہت سے دلاور اور ہمت کے محیط کے شناور ان کی تقلید پر کمر بستہ ہو گئے چھے گھنٹے کے بعد جب شیخ ظہیر الدین سیلاب کے پانی میں گھرے تین دیہاتوں کے بے بس و لاچار مجبور انسانوں کو غذائی اشیا پہنچا کر بہ خیریت واپس پہنچے تو چار اور کشتیاںخوراک اور ادویات لیے تیار کھڑی تھیں۔
شیخ ظہیر الدین نے اپنے قول و فعل سے ثابت کیا کہ جس طرح گلزارِ ہستی میں پیہم عنبر فشانی میں مصروف گلِ تر اپنی عطر بیزی کے منابع سے ،ثمر ِ نورس اپنی حلاوت کے ذخیرے سے،بُور لدے چھتنار اپنی گھنی چھاؤں کی اداؤ ں سے،دریا اپنی طغیانی سے ،حسنِ بے پروا اپنی حشر سامانی سے ،اُٹھتی جوانی اپنی طبع کی جولانی سے،سمندر اپنی گہرائی سے ،کلام ِ نرم و نازک اپنی ہمہ گیر گرفت و گیرائی سے ، شعلہ اپنی تمازت سے ،گفتار اور رفتار اپنے معیار اور نزاکت سے ،کردار اپنے وقار سے ،جذبات و احساسات مستقبل کے خدشات اور اپنی بے کراں قوت و ہیبت سے ، نو خیز کونپلیں اپنی روئیدگی سے ، سمے کا سم کے اپنے ثمر سے ،قوتِ عشق اپنی نمو سے ، سادگی اپنے در پئے پندار حیلہ جُو سے، گنبد نیلو فری کے نیچے طیور کی اُڑان گھات میں بیٹھے صیاد کی مچان سے ،خلوص و دردمندی اپنی خُو سے ،حریت ِ ضمیر اپنے خمیر سے ،موثر تدبیر سوچنے
والے نوشتۂ تقدیر سے،ایثار و عجز و انکسار کی راہ جذبۂ بے اختیار کی پیکار سے ، حسن و رومان کی داستان جی کے زیاں سے ،جبر کی ہیبت صبر کی قوت سے ،ظالم کی واہ مظلوم کی آہ سے ،چام کے دام چلانے والے دل گرفتہ مظلومو ں کے ضمیر کی للکار سے اور تاریخ سے سبق نہ سیکھنے والے فراعنہ جاہ و حشمت کے طومار سے وابستہ حقائق کے بارے میں کچھ نہیں جانتے اسی طرح ایک بے لوث خادم خلق کے قلزم ِ خیال کا پانی اس قدر گہرا ہوتا ہے کہ وہ زندگی بھر اس کی غواصی کرنے کے باوجود ایثار و عطا کے پس پردہ کا فرما محرکات کے تاب دار موتی بر آمد کرنے سے قاصر ہے ۔ شیخ ظہیر الدین کی علمی،ادبی ،معاشرتی اورقومی خدمات کو مد نظر رکھتے ہوئے مجھے اختر الایما ن کے یہ اشعار یاد آ رہے ہیں :
ایک حسینہ درماندہ سی بے بس تنہا دیکھ رہی ہے
جیون کی پگڈنڈی یوں ہی تاریکی میں بل کھاتی ہے
کون ستارے چُھو سکتا ہے راہ میں سانس اُکھڑ جاتی ہے
راہ کے پیچ و خم میں کوئی راہی اُلجھا دیکھ رہی ہے ( اختر الایمان)
ایک وسیع المطالعہ ماہر تعلیم کی حیثیت سے شیخ ظہیر الدین نے فلسفہ کا عمیق مطالعہ کیا تھا۔زندگی اور موت کے بارے میںان کے خیالات سے متعدد حقائق کی گرہ کشائی ہوتی تھی ۔ان کا خیال تھاکہ مرگِ ناگہانی اور مرگِ نوجوانی کے مسموم اثرات سے دائمی مفارقت دے جانے والے عزیزوں کے پس ماندگان پر قیامت گزر جاتی ہے۔ اس نوعیت کے جان لیوا سانحہ سے دو چار ہونے والاتخلیق کار جب اپنے ہاتھ میںقلم لے کر پرورشِ لوح و قلم میں مصروف ہوتا ہے تو دبے پائوں آنے والی موت کی آہٹ کوسننے کے بعد اس کا اظہار لا شعوری انداز میں اپنی تحریروں میں بھی کرتا ہے۔ادبیاتِ عالم کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ جو تخلیق کار عالمِ شباب میں دائمی مفارقت دے گئے ان کی تخلیقات میں موت کے دبے پائوں چلے آنے کی آہٹ صاف سنائی دیتی ہے جس سے یہ گُمان گزرتا ہے کہ ان عظیم ادیبوں کو اپنے نہ ہونے کی ہونی کا شدت سے احساس تھا۔رام ریاض ، عاشق حسین فائق ، بشیر سیفی ،اطہر ناسک،میراجی ( محمدثنااللہ ڈالر : 1912-1949)،قابل اجمیری( 1931-1962)،پروین شاکر (1952-1994)،اقتدارواجد،آنس معین ( 1965-1992)،شکیب جلالی (1934-1966 )، ظفر سعید، سجاد بخاری ، سجاد شبیر ، ممتاز شیریں ( 1924-1973) ،شفیع بلوچ، لارڈبائرن ( 1788-1824: Lord Byron )، جان کیٹس ( : 1795-1821 John Keats ) اورشیلے ( 1792-1822 : Percy Bysshe Shelley ) کی تحریریں پڑھنے کے بعد اس احساس کوتقویت ملتی ہے کہ ایک داخلی کرب نے ان سب ادیبوں کے تخلیقی عمل کو اپنی گرفت میں لیے رکھا ۔ زندگی کے بارے میں غیر یقینی حالات میںجس لمحے سب دعائیں بے اثر ہو جائیں ،کلیاں شر ر ہو جائیں،کڑی آزمائش کے وقت جس گھڑی سب بلائیں تمام ہو جاتی ہیں تومرگِ ناگہانی کے اندیشے بڑھنے لگتے ہیںاور اس کے بعد زندگی کے لمحات مختصر ہو جاتے ہیں۔ معاشرتی زندگی کے افق سے جب یہ چودہویں کے چاند ہمیشہ کے لیے غروب ہو جاتے ہیںتو سفاک ظلمتوں میںہمارا سینہ و دِل حسرتوں سے چھا جاتا ہے ۔ہجومِ یاس میں جب دل گھبراتا ہے توہم آہیں بھرتے اور احساسِ زیاں سے نڈھال کفِ افسوس ملتے ہیں کہ اپنی دل کش ،حسین ا ور طویل عرصہ تک یادرکھی جانے والی خدمات سے علم و ادب کا دامن معمور کر دینے والی یہ نایاب ہستیاں کس قدرجلد پیمانہ ٔ عمر بھر گئیں۔موت کے بارے میں یہی کہاجاتا ہے کہ یہ ہمیشہ زندگی کے تعاقب میں رہتی ہے۔ان با کمال ہستیوں نے اپنی موت کی آہٹ سُن کر بھی زندگی کی حقیقی معنویت کو اُجاگر کرنے کی مقدور بھر سعی کی ۔تخلیق فن کے لمحوں میں خون بن کر رگِ سنگ میںاُتر جانے والے ان زیرک تخلیق کاروں نے خونِ دِل دے کے گلشنِ ادب کو اس طرح سیراب کیا کہ اس کے معجز نما اثر سے گلشن علم و ادب میں گل ہائے رنگ رنگ سے سماں بندھ گیا اور ان کی عطر بیزی سے قریہ ٔجاں معطر ہو گیا ۔
شیخ ظہیر الدین اِس تلخ حقیقت سے آگاہ تھے کہ مشعلِ زیست کے گُل ہونے کے خطرات کو کسی طور بھی ٹالا نہیں جا سکتا لیکن خوف اوراندیشوں کے سم کے مسموم اثرات سے گلو خلاصی ممکن ہے۔ اللہ کریم نے اُنھیںایک مستحکم شخصیت سے نوازا تھا اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ زندگی کے سفرمیں جب بھی کوئی موہوم ڈر یا اضطراب سد راہ بنتا تو وہ اپنے پائوں کی ٹھوکر سے اسے دُور کر دیتے اور کبھی دِل میں ملال نہ آنے دیتے۔اُنھوں نے موت کو کبھی دل دہلا دینے والا لرزہ خیز سانحہ اس لیے نہیںسمجھاکہ اُنھیں معلوم تھا کہ رخشِ حیات مسلسل رو میں ہے،انسان کا نہ توہاتھ اس کی باگ پر ہے اور نہ ہی پائوں رکاب میں ہیں۔ کسی بھی وقت اور کسی بھی مقام پر اس کی روانی تھم سکتی ہے۔ان کی تسبیح روز و شب کا دانہ دانہ شمار کرنے سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ انھوں نے ہمیشہ مشیت ایزدی کے سامنے سر تسلیم خم کرنے پر اصرارکیا۔ وہ یہ حقیقت ذہن نشین کرا نا چاہتے تھے کہ ماحول کی سفاکی کے باعث جب آہیں اور دعائیں اپنی تاثیر سے محروم ہوجائیں تو مایوسی کے عالم میں زندگیاں بھی مختصر ہو جاتی ہیں۔گلزارِ ہست و بُودمیں تلخ سمے کے سم کے ثمر سے ایسی فضا پیدا ہو جاتی ہے کہ نرگس کی حسرت کی صدائے باز گشت کرگس کی کریہہ صورت میں دکھائی دیتی ہے اور بقا کی ہر موہوم تمنا اپنی ہر اداسے فنا کے سیکڑوں مناظر سے آشنا کرتی ہے ۔خزاں کے اس نوعیت کے بے شمار تکلیف دہ مناظر کو دیکھنے کے بعد طلوعِ صبحِ بہارا ں کی اُمید وہم و گُماںاور سراب سی لگتی ہے۔شیخ ظہیر الدین کی زندگی کے معمولات میں خدمت میں عظمت ،نُدرتِ فکر ،تنوع اور جدت پر مبنی خیال آفرینی ان کے سیکڑوںمداحوں کو حیرت زدہ کر دیتی ہے ۔کورانہ تقلید سے شیخ ظہیر الدین کو سخت نفرت تھی اس لیے خضر کا سودا چھوڑ کر اظہار و ابلاغ کی نئی راہیں تلاش کرنا اُن کاشیوہ تھا۔اُن کی خیال افروز اور فکر پرور تقاریر کلیشے کی آلودگی سے پاک ہوتی تھیں۔اُن کا دل کش ،حسین اور منفرد سلسلہ ٔ تکلم ہرلحظہ نیا طُور نئی برق ِتجلی کی کیفیت کامظہر ہوتاتھا۔تدریسی عمل میں اُن کا مرحلہ ٔ شوق پیہم نئی منازل کی جانب روا ں دواں رہتا تھا ۔شیخ ظہیر الدین کو اچھی طرح معلوم تھا کہ موت کی دیمک ہر جان دار کے تن کو چاٹ لیتی ہے۔ وہ اس تلخ حقیقت کی جانب متوجہ کرتے کہ چشمِ تصور سے زندگی کی راہوں میں ناچتی ،مسکراتی اور ہنستی گاتی موت کی آمد اور اجل کی لرزہ خیزو اعصاب شکن صدا سُن کر بھی دِ ل ِ برداشتہ نہیں ہوناچاہیے۔ اُنھوں نے نہایت جرأت ،عزم اور قوت ِ ارادی سے خدمت خلق کو تزکیۂ نفس کا وسیلہ بنایا۔ حرفِ صداقت سے لبریزاُن کی باتیں دکھی انسانیت کی فلاح کے لیے ان کے داخلی کرب ،خلوص ،دردمندی اور سچے جذبات کی مظہر تھیں ۔ وہ ان لوگوں کی جرأت ،عزم صمیم اور ہمت کو سراہتے جوموت کی دستک سُن کر بھی زندگی کے بارے میں چشم کشا صداقتوں کا اظہار کرنے میں تامل نہیں کرتے ۔ شیخ ظہیر الدین کا طریق کار زندگی کی حقیقی معنویت کو سمجھنے میں بے حد معاون ثابت ہوتاتھا۔ بے لوث خدمت اور بے باک صداقت کی راہ میں کئی سخت مقام آئے مگر انھوں نے کبھی دِل بُرا نہ کیا،ان کا جائزہ لینے سے سوانح نگارکے لیے اپنے آنسو ضبط کرنا محال ہو جاتا ہے۔ ملک بھر میں اپنے تمام احباب کی خوشی اور غم میں شریک ہونا شیخ ظہیر الدین کی زندگی کا معمول تھا۔وہ اکثر یہ بات کہتے کہ نوجوان اولا د کی دائمی مفارقت کا سوگ ضعیف والدین کے لیے جان لیوا روگ ثابت ہوتاہے ۔وہ بڑے کرب سے اس حقیقت کی
جانب متوجہ کرتے کہ بابواکبر ، ارشداقبال ،اقبال عاصی ، فہمیدہ ریاض، قمرزماں کائرہ،خالدہ حسین ، روحی بانو،متین ہاشمی، جمیل فخری، نواز ایمن،ریاض الحق ، روبینہ قائم خانی ، شہلا رضا، خالہ سکینہ ، افضل احسن، محمد اکرم،محمد یوسف،محمد حنیف، اورشبیر راناکو نوجوان بیٹوں کی دائمی مفارقت کے غم نے زندہ در گور کر دیا۔
ایک سال قبل شیخ ظہیر الدین کی اہلیہ انھیں داغِ مفارقت دے گئیں ۔ اجل کے بے رحم ہاتھوں نے اُن کی لوح ِ دِل پر اُن کے بکھرنے کے سبب رقم کر دئیے مگر انھوںنے اپنے غم کا بھید کبھی نہ کھولا۔ان کی مستحکم شخصیت کا امتیازی وصف یہ تھاکہ طرب ہو یا تعب وہ ہر صورت میں اپنے جذبات پر قابو رکھتے تھے۔ وفا شعار اہلیہ کی دائمی مفارقت کے سانحہ کے بعدشیخ ظہیر الدین کے روز و شب کے معمولات ہی بدل گئے۔ شام الم کے ڈھلتے ہی اضطراب اور درد و کرب کی ایسی ہوا چلی کہ آرزوئیں مات کھا کر رہ گئیں۔ ان کی کتابِ زیست کا مطالعہ کرنے والے طلوع ِ سحر کے بعد جب تقدیر کے نوشتہ قصہ ہائے شب پر نظر ڈالیں گے تو دِل تھام لیں گے۔ جب قزاقِ اجل نے اس گھر کی مسرتوں اور شادمانیوں کا بیش بہااثاثہ لُوٹ لیا تو وہ بجھے بجھے سے رہتے اور علمی وادبی محفلوں میں بھی کم کم دکھائی دیتے ۔ رفتگاں کی یادیں ان کے لواحقین کے حافظے میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجاتی ہیں۔ چندہفتے قبل میں پروفیسر غلام قاسم خان کے ہمراہ ان سے ملاقات کی غرض سے ان کے گھر پہنچاتوان کے صبیح چہرے کا رنگ قدرے ماند پڑ چکاتھا۔ وہ دھیمے انداز میںبول رہے تھے وہ دبنگ لہجہ جواُن کی پہچان تھااب عنقا تھا۔انھوں نے بتایا کہ گلے میں خراش کی وجہ سے لمبی بات کرنا قدرے مشکل ہے۔وہ خوش خصال جس کے پاس طویل وقت تک بیٹھنابھی ایسالگتا کہ ملاقاتیں ادھوری ہیں اور متعدد باتیں جو ضروری تھیںوہ ہنوز نا گفتہ ہیں۔اُسی محبوب شخصیت نے اب عملاً گوشہ نشینی اختیار کر لی تھی ۔
جب سے شیخ ظہیر الدین کا خورشید حیات غروب ہوا ہے میرے دل کی بستی میںیاس و ہراس کی تاریکیوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ شیخ ظہیر الدین کی عطر بیز یادیں قریۂ جاں میں ہر طرف بِکھری ہوئی ہیں ۔چشم ِبینا کے سامنے اُن کا چاند چہرہ ہروقت موجود رہتا ہے اورجس سمت بھی نگاہ اُٹھتی ہوئی اُن کی مسحور کن شخصیت اور حسن سلوک کی باز گشت سنائی دیتی ہے۔ اگرچہ وہ جا چکے ہیں مگر وہ سدا محفلوں کی جان رہیں گے۔خالقِ کائنات ان کی منزلیں آسان فرمائے ۔ میں نے شیخ ظہیر الدین کو ہمیشہ اپنے بڑے بھائی کے مانندعزت کی نگاہ سے دیکھا ۔ اُن کی وفات میرا ذاتی صدمہ ہے اس وقت میں یہی کہہ سکتاہوں ، برادر محترم ! ہم الم نصیب پس ماندگان کی روح اور قلب کی گہرائیوں میں تمھاری یادوں کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ شیخ ظہیر الدین کی یادوں کے حوالے سے اس وقت اردو زبان کے ممتاز شاعر جاںنثار اختر (1914-1976) کے یہ اشعار میرے ذہن میں گردش کرنے لگے ہیں :
آہٹ سی کوئی آ ئے تو لگتا ہے کہ تم ہو
سایہ کوئی لہرائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
صندل سی مہکتی ہوئی پُر کیف ہوا کا
جھونکا کوئی ٹکرائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
اوڑھے ہوئے تاروں کی چمکتی ہوئی چادر
ندی کوئی بَل کھائے تو لگتا ہے کہ تم ہو