سوچتے ہیں ڈھلیں گے یہ اندھیرے کیسے
لوگ رُخصت ہوئے اور لوگ بھی کیسے کیسے
علم و ادب کی وہ مشعلِ تاباںجو چودھری برکت علی کے گھر میں سال1925میں فروزاں ہوئی صرصرِ اجل کے بے رحم ہاتھوں نے اُسے اتوار 15۔دسمبر 2019 کو لاہور میںہمیشہ کے لیے بجھادیا۔صدیقہ بیگم کے ارتحال کی خبر ادبی دنیاکے لیے ایک ایسا ملال انگیزسانحہ ہے جس نے اردو داں اوراردو خواں طبقے کو رنج و الم میں مبتلا کر دیاہے ۔زندگی بھر مضبوط و مستحکم فلسفۂ زندگی اورقابلِ قدر نوعیت کے جذباتی ،قلبی و روحانی رجحانات کی ترجمانی کی مساعی کوتقویت دینے والی شخصیت کی دائمی مفارقت قارئینِ ادب کے گریہ و بکا کا جواز ہے ۔صدیقہ بیگم کی رحلت کے بعد وطن عزیز کے ادبی افق پر رنج و الم کے بادل چھا گئے اور ادبی محافل کی فضا سیاہ پوش ہو گئی۔ ان کے پس ماندگان میں دو بیٹیاں اور ایک بیٹا شامل ہے ۔ پاکستان میںتانیثیت پرمبنی سوچ کا ایک درخشاں عہد اپنے اختتام کو پہنچا۔ صدیقہ بیگم اپنی ذات سے ایک انجمن اور دبستانِ علم و ادب تھیں ۔اُن کی علمی ،ادبی ،قومی اور مِلی خدمات اس قدر جامع اور ہمہ گیر نوعیت کی تھیں کہ اُن کے بارے میں یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ وہ وجودیاتی یا علمیاتی بیان کی حاجت سے بے نیاز رہتے ہوئے ماورائے زماں زندہ رہنے کی استعداد سے متمتع تھیں۔ صدیقہ بیگم نے خواتین ادیبوں کی اس عظیم الشان درخشاں روایت کومستحکم کیا جسے ادا جعفری ، الطاف فاطمہ، امرتا پریتم ،بانوقدسیہ ، پروین شاکر ، جمیلہ ہاشمی ،خدیجہ مستور، ثمینہ راجا، رشیدجہاں ، رضیہ بٹ ،سار ا شگفتہ، شائستہ سہروردی ،شبنم شکیل،عصمت چغتائی،فاطمہ ثریا بجیا، فاطمہ شاہ ، فرزانہ راجہ ، فہمیدہ ریاض، قرۃ العین حیدر،ممتاز شیریں،اورہاجرہ مسرور نے پروان چڑھایا۔ صدیقہ بیگم کی رحلت سے اردوادب کا ہنستا بولتا چمن جان لیوا سکوت ،مہیب سناٹوں اور غموں کی بھینٹ چڑھ گیا۔قدرتِ کاملہ نے اس ادیبہ کو اپنے پاس بلا لیا جس نے سدا عجز و انکسار اور ایک شان استغنا کے ساتھ حرفِ صداقت ،حریتِ فکر و عمل اور حریتِ ضمیر سے جینے کی تلقین کی۔تخلیق ِ ادب اور اس کے پس پردہ کار فرما لاشعوری محرکات کی گرہ کشائی پر قادر ایک عظیم المر تبت خاتون دیکھتے ہی دیکھتے ہماری بزمِ ادب سے رخصت ہو گئی اور احساس ِ زیاں سے نڈھال ادبی دنیا دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی ۔ وہ خاتون جس نے پیہم چالیس برس تک نئے لکھنے والوں کو افکار تازہ کی مشعل تھام کر جہانِ تازہ کی جستجو پر مائل کیا اب ماضی کی یادبن چکی ہے ۔ اگر خاندانی شرافت،نسوانی وجاہت ،انسانی ہمدردی ،بے لوث محبت ، عجزو انکسار ،پیہم محنت ،بے باک صداقت ،علم دوستی ،ادب پروری ،اخلاص اور اخلاق ،شائستگی اور متانت کی تجسیم ممکن ہو تو صفحۂ قرطاس پرجوشبیہ بنے گی وہ صدیقہ بیگم سے مماثل ہو گی۔
صدیقہ بیگم کی ادارت میں’’ ادب لطیف ‘‘نے فقید المثال کامرانیوں نے متعدد نئے ابواب رقم کیے ۔ایک ذہین مدیرہ کی حیثیت سے انھوں نے ہمیشہ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کی ۔ادارتی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہوتے وقت انھوں نے نئے تخلیقی تجربوں کوقدر کی نگاہ سے دیکھا اور اپنی موثر رہنمائی سے حریت ِ فکر و عمل کے جذبات کو مہمیزکیا۔ تشریحی تنقید کی مہملیت پر انھوں نے شدید گرفت کی اُن کا خیال تھاکہ اس قسم کی تنقید تخلیقی عمل کو مہمیز کرنے کے بجائے حریت ِ فکر و عمل کی راہ میں سدِ سکندری بن کر حائل ہو جاتی ہے اور اس کے نتیجے میں زندگی کی درخشاں اقدار و روایات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتاہے ۔ ۔آج یہ رجحان ساز تاریخی ادبی مجلہ ایک کھلی ہوئی کتاب کے مانند ہمارے سامنے ہے جس میں کثیر النوع تخلیقی تجربات اور عظیم الشان معیار کا کرشمہ دامنِ دِل کھینچتا ہے ۔صدیقہ بیگم سے مِل کر زندگی کی حقیقی معنویت کی تفہیم ممکن ہوجاتی اور زندگی سے والہانہ محبت اورقلبی وابستگی کے جذبات پروان چڑھتے ۔ عالمی ادب کے مناد ،نباض اور شارح اس بات پر متفق ہیں کہ صدیقہ بیگم نے نئے لکھنے والوں کو بے مقصدمضمون آفرینی اورپر اگندہ خیالی کے سرابوں سے بچنے کے لیے ادب لطیف میں جو طرزِ فغاں ایجادکی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُسی نے طرزِ ادا کی حیثیت اختیار کر لی ۔ ایک زیرک تخلیق کار کے منصب اورتخلیق ادب کے مقاصد کے بارے میں صدیقہ بیگم کی بصیرت افروزباتیں سن کر یہ تاثر پختہ تر ہوجاتا کہ جس طرح گلزارِ ہستی میں پیہم عنبر فشانی میں مصروف گلِ تر اپنی عطر بیزی کے منابع سے ،ثمر ِ نورس اپنی حلاوت کے ذخیرے سے،بُور لدے چھتنار اپنی گھنی چھاؤں کی اداؤ ں سے،دریا اپنی طغیانی سے ،حسنِ بے پروا اپنی حشر سامانی سے ،اُٹھتی جوانی اپنی طبع کی جولانی سے،سمندر اپنی گہرائی سے ،کلام ِ نرم و نازک اپنی ہمہ گیر گرفت و گیرائی سے ، شعلہ اپنی تمازت سے ،گفتار اور رفتار اپنے معیار اور نزاکت سے ،کردار اپنے وقار سے ،جذبات و احساسات مستقبل کے خدشات اور اپنی بے کراں قوت و ہیبت سے ، نو خیز کونپلیں اپنی روئیدگی سے ، سمے کا سم اپنے ثمر سے ،قوتِ عشق اپنی نمو سے ، سادگی اپنے در پئے پندار حیلہ جُو سے، گنبد نیلو فری کے نیچے طیور کی اُڑان گھات میں بیٹھے صیاد کی مچان سے ،خلوص و دردمندی اپنی خُو سے ،حریت ِ ضمیر اپنے خمیر سے ،موثر تدبیر سوچنے والے نوشتۂ تقدیر سے،ایثار و عجز و انکسار کی راہ اپنانے والے جذبۂ بے اختیار کی پیکار سے ، حسن و رومان کی داستان جی کے زیان سے ،جبر کی ہیبت صبر کی قوت سے ،ظالم کی واہ مظلوم کی آہ سے ،چام کے دام چلانے والے مظلومو ں کے ضمیر کی للکار سے اور تاریخ سے سبق نہ سیکھنے والے فراعنہ جاہ و حشمت کے طومار سے وابستہ حقائق کے بارے میں کچھ نہیں جانتے اسی طرح ایک تخلیق کار کے قلزم ِ خیال کا پانی اس قدر گہرا ہوتا ہے کہ وہ زندگی بھر اس کی غواصی کرنے کے باوجود تخلیقی عمل کے پس پردہ کار فرما محرکات کے تاب دار موتی بر آمد کرنے سے قاصر ہے ۔
نوآبادیاتی دور میں غاصب برطانوی استعمار کے خلاف مثبت شعور و آ گہی بیدار کرنے کے لیے ادب اور صحافت کے شعبوں میں کام جاری ر ہا ۔حریت فکر و عمل کے مجاہدین نے جبر کا ہر اندازمسترد کرتے ہوئے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے برطانوی استعمار کے سامنے سپر انداز ہونے سے انکا رکر دیا۔ عوامی شعور و آگہی کو مہمیزکرنے کے اردو زبان کے درج ذیل اخبارت و جرائد نے گراں قدر خدمات انجام دیں : اخبار عام ،لاہور ( 1870)،اودھ پنچ لکھنو(1877-1936)،پیسہ اخبار دہلی (1888)،مخزن ،لاہور (1901)،زمیندار ،لاہور (1920)،الہلال،دہلی (1912) ،البلاغ ،دہلی (1915 )، ہمدر د ،دہلی(1913)،ادب لطیف ،لاہور (1935)
نو آبادیاتی دور میں لاہور کو جنوبی ایشیا کے اہم علمی ،ادبی اور تہذیبی و ثقافتی مرکز کی حیثیت حاصل تھی۔ لاہور سے سال 1901میں سر عبدالقادر کی ادرت میں ادبی مجلہ ’’ مخزن‘‘ کی اشاعت شروع ہوئی ۔اس مجلے میں علامہ اقبال کی نظم ’’ ہمالہ ‘‘ شامل تھی ۔صدیقہ بیگم کے والد چودھری برکت علی نے سال 1935میں لاہور سے ادبی مجلہ ماہ نامہ ’’ادب لطیف‘‘ کی اشاعت کاآغاز کیا۔ اس وقت نو جوان چودھری برکت علی گورنمنٹ کالج ،لاہور ( موجود ہ گورنمنٹ کالج، یونیورسٹی ) ایم۔اے تاریخ کے طالب علم تھے ۔ایک روشن خیال اور حریت فکر و عمل کے علم بردارنو جوان کی حیثیت سے چودھری برکت علی نے جبر کا ہر انداز مستر دکرتے ہوئے ہر قسم کے سماجی اور معاشرتی استحصال کے خلاف آواز بلند کی ۔ انھوں نے تاریخ کے اس نازک دور میں تعلیم کو خیر باد کہا اور عملی زندگی میں ادب و صحافت کے شعبے کاانتخاب کیا۔ ابتدا میں چودھری برکت علی ٹمپل روڈ ،لاہور کے نزدیک قیام پذیر تھے ۔اس کے بعدوہ یہاں سے اپنی نئی رہائش گاہ میں منتقل ہو گئے ۔رجحان سازادبی مجلہ ’’ادب لطیف‘‘ کا پہلاشمارہ سال 1935میں اپنے عہد کے مقبول نغمہ نگاراور معلم طالب انصاری بدایونی کی ادارت میں مجلے کے دفتر واقع بیرون لوہاری گیٹ ،لاہور سے شائع ہوا۔ ادب لطیف کے دوسر ے شمارے کے مدیر مرزاادیب تھے ۔ اردوزبان کے جو بڑے ادیب مجلہ ادب لطیف کے مداح تھے ان میں کرشن چندر ، سلمیٰ صدیقی، فہمیدہ ریاض ، قرۃ العین حیدر ،سید سجاد ظہیر اور ممتاز شیریں کے نام قابل ذکر ہیں ۔ ادب لطیف کے قلمی معاونین میں زیادہ تر ترقی پسند تحریک سے وابستہ ادیب شامل تھے ۔صدیقہ بیگم نے آزادی ٔ اظہار کو ہمیشہ بہ نظر تحسین دیکھا ۔ادبی دبستانوں کے وجود کو وہ حریت فکر کے لیے نا گزیر سمجھتی تھیں۔ سال 1981تک مختلف اوقات میں ادب لطیف کی اعزازی مجلس ادارت مندرجہ ذیل ادیبوں کے سپر د رہی :
احمدندیم قاسمی( عرصہ ،چار برس ) ،اظہر جاوید ، انتظار حسین ،افتخار عاف ر،ایوب خاور ،جیلانی کامران،خالدہ حسین، ذکا الرحمٰن ، ساحر لدھیانوی ( معاون مدیر ،عرصہ تین ماہ)سرمدصہبائی ، ضیا الحسن ،ظفر معین بلے ، عارف عبدالمتین ، غالب احمد،فکر تونسوی ،فیض احمدفیض ؔ،قاسم محمود ، قتیل شفائی، کشورناہید، کنہیا لال کپور،مسعوداشعر، میرزا طالب ،ناصرزیدی، نوید مرزا،نذیر احمد چودھری
تاریخی حقائق سے معلوم ہوتاہے کہ رجحان ساز ادبی مجلے ’’ ادب لطیف‘‘ کی مجلس ادارت میں عالمی شہرت کے حامل اردو زبان کے ممتاز ادیبوں کی بڑی تعداد شامل رہی ۔یہ وہ اعزازہے جس میں کوئی اورادبی مجلہ ادب لطیف کا شریک و سہیم نہیں ۔ جنوری 1981میں صدیقہ بیگم کی ادارت میں ’’ ادب لطیف‘‘ کا پہلاشمارہ شائع ہوا۔ صدیقہ بیگم نے مستنصر حسین تارڑ ،کشور ناہیداور غالب احمد کی مشاورت سے مجلہ ’’ ادب لطیف ‘‘ کی اشاعت کا سلسلہ جاری رکھا ۔ جس وقت صدیقہ بیگم نے ادب لطیف کی ادارت سنبھالی تو کچھ لوگوں نے انھیںاس دشتِ خار میں سوچ سمجھ کر قدم رکھنے کا مشورہ دیا۔ان لوگو ںنے صدیقہ بیگم کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ ممتاز شیریں ( 1924-1973)نے اپنے شوہر صمد شاہین کے ساتھ مِل کر سال 1944میں بنگلور سے ادبی مجلے ’’ نیادو ر ‘‘ کی اشاعت کا آغاز کیا ۔قیام پاکستان کے بعدمجلہ ’’ نیا دور ‘‘ کراچی سے کچھ عرصہ ( 1947-1952) شائع ہوتارہا مگراب تاریخ کے طوماروں میں دب چکاہے ۔ اسی طرح افکار، ساقی ، مخزن ، قندیل ،چٹان ،زمیندار اور لیل ونہارعرصے سے ناپید ہیں۔پس نو آبادیاتی دور میں منزلوں پر ان موقع پرستوں نے تسلط قائم کر لیا تھاجو شریکِ سفر ہی نہ تھے ۔اس کے علاوہ علمی و ادبی جرائد کاکوئی پرسانِ حال ہی نہ تھا۔وقت کے اس سانحہ کوکس نام سے تعبیرکیا جائے کہ اس بے حس معاشرے میں جاہل تو اپنی کور مغزی،بے بصری اور جہالت کاانعام ہتھیالیتاہے مگراہلِ کمال پریشاں حال پھرتے ہیں۔ صدیقہ بیگم نے سوچ سمجھ کر اپنے بلنداہداف کاتعین کیااور عزمِ صمیم کوبروئے کار لاتے ہوئے اپنے مطلوبہ اہدا ف تک رسائی حاصل کی ۔فروغ ِ علم وادب کے لیے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے وہ ڈٹ جاتی تھیں۔ وہ اللہ کریم کی توکل پر اپنے اشاعتی کام کو جاری رکھنے کی قائل تھیں۔اس رجحان سا زادبی مجلے کی اشاعت کے سلسلے میں ان کے بڑے بھائی افتخار چودھری نے مجلے کے ناشر اور پرنٹر کی حیثیت سے ان کے ساتھ بھر پور تعاون کیا ۔اُنھوں نے ادب لطیف کی اشاعت میں مصلحت اندیشی اور مالی مسائل کی کبھی پروا نہ کی ۔مجلہ ’’ ادب لطیف ‘‘ سے صدیقہ بیگم کی محبت سُود و زیاں کے اندیشے بالاتر تھی ۔انھوں نے ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے اپنے والد اور ان کی نشانی مجلہ ’’ادب لطیف‘‘ سے محبت کا حق جس طرح اداکر دیااس بارے میں کہا جاسکتاہے۔
تیری ہر بات محبت میں گوارا کر کے
دِل کے بازارمیں بیٹھے ہیں خسارا کر کے
علم وادب سے قلبی وابستگی اوروالہانہ محبت صدیقہ بیگم کی مستحکم شخصیت کا امتیازی وصف تھا۔نھوں نے نوجوان نسل کو ہمیشہ یہ نصیحت کی کہ اللہ پر توکل کرنے و الے ایام کا مرکب بننے کے بجائے ایام کا راکب بن کر زندگی بسر کرتے ہیں۔ صدیقہ بیگم نے ہر ناصح کی بات توجہ سے سنی مگر وہی کیاجواُن کے ضمیر کی آواز تھی ۔ عملی زندگی میں ان کی قوت ارادی اور فیصلہ کن انداز فکر کے اعجاز سے انھیں ہر مر حلۂ زیست پر کامیابی نصیب ہوئی۔وہ سمجھانے والوں کوفہمیدہ ریاض کی یہ نظم سناتیں تو وہ اپنا سا منھ لے کر رہ جاتے ۔
کچھ لوگ تمھیں سمجھائیں گے
وہ تم کو خوف دلائیں گے
جو ہے وہ بھی کھو سکتاہے
اس راہ میںرہزن ہیں اِتنے
کچھ اور یہاں ہو سکتاہے
کچھ اور تو اکثر ہوتاہے
تم جس لمحے میں زندہ ہو
یہ لمحہ تم سے زندہ ہے
یہ وقت نہیں پھر آ ئے گا
تم اپنی کرنی کر گزرو
جو ہو گا دیکھا جائے گا
صدیقہ بیگم نے ادب لطیف کی باقاعدہ اشاعت کواپنی زندگی کا نصب العین بنا رکھا تھا۔وہ ستائش وصلے کی تمناسے بے نیاز رہتے ہوئے فروغ ِ علم و ادب کے لیے کوشا ں رہیں ۔صدیقہ بیگم کی یہ خواہش تھی کہ معاصر ادبی تنقید پر معیاری مضامین ادب لطیف میں شائع ہوتے رہیں ۔وہ چاہتی تھیں کہ بلند پایہ تنقیدی مضامین کی اشاعت سے تخلیقی فعالیت کو نئے آفاق تک رسائی کی راہ دکھائی جائے ۔اس طر ح نئی نسل کو ادب کے عالمی معیار سے ا ٓگاہ رکھاجا سکتاہے ۔ صدیقہ بیگم کی ادارت میں ادب لطیف نے پاکستانی زبانوں کے اُبھرتے ہوئے لکھاریوں کے لیے ایک تربیت گاہ کا درجہ حاصل کر لیاتھا۔ وطن عزیزکے سیکڑوں نوآموزلکھاریوں کاکہناہے کہ تخلیق ِفن کے لمحوںمیں صدیقہ بیگم کے معتبرربط نے انھیں خوداپنی نظر وں میں معزز ومفتخر کر دیا۔ ارائیں خاندان کے چشم و چراغ چودھری برکت علی نے اپنے بیٹوں اور اپنی بیٹیوں کی شادی کے لیے اچھے خاندانوں کاانتخاب کیا۔صدیقہ بیگم کی شادی اشفاق احمد کے بھتیجے جاویدطار ق سے ہوئی۔جاوید طارق نے اپنا آبائی شہر ساہی وال چھوڑ کر لاہور میں مستقل رہائش اختیار کر لی ۔ حبیب بنک سے ملازمت کا آغاز کرنے کے بعد جاوید طار ق نے مسلم کمرشل بنک میں شمولیت اختیار کی ۔مسلم کمرشل بنک میں جاوید طارق کو کلیدی منصب پر فائز کیا گیا۔ جاویدطارق کا شمار ملک کے بڑے صنعت کاروں میں ہوتا تھا۔ سال 1984میں صدیقہ بیگم اور جاوید طارق میں علاحدگی ہو گئی ۔
صدیقہ بیگم نے سال 1981میں ادب لطیف کی باقاعدہ اشاعت کی ذمہ داری خود سنبھا ل لی۔ اس عرصے میںادب لطیف کے پہلے شمارے میں ممتاز ادیبہ کشور ناہید نے ایک سال تک صدیقہ بیگم کی شریک مدیرہ کی حیثیت سے خدمات انجام دیں ۔کشور ناہید کے معاونین میں زاہد ڈار ،غالب احمد ،مستنصر حسین تارڑ اور انتظار حسین شامل تھے۔کشو ر ناہید نے جب ادب لطیف کو خیر باد کہا تو اس کے بعد صدیقہ بیگم نے تن تنہا اس کی ادارت کی ذمہ داری خوب نبھائی ۔ اس عرصے میں مختلف اوقات میںجو اہل قلم صدیقہ بیگم کے ساتھ ادب لطیف کی مجلس ادارت میں شامل رہے ان میں شاہدبخاری ،ضیاالحسن،مظہر سلیم مجوکہ شامل ہیں ۔ صدیقہ بیگم نے جن مشہورادیبوں سے اثرات قبول کیے ان میں اشفاق احمد ، بانوقدسیہ ، محمد حنیف رامے اورممتاز مفتی شامل ہیں ۔ صدیقہ بیگم کو اشفاق احمد کے اسلوب کا یہ پہلو بہت پسند تھاکہ انھوں نے انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے لیے قلم بہ کف مجاہد کاکردارادا کیا ۔صدیقہ بیگم تخلیق ادب پر اس لیے مائل نہ ہوئیں کیونکہ ان کا خیال تھاکہ تخلیقی فعالیت کے لیے ایک تخلیق کار کو اپنی ذات کی نفی کرکے پرورش لوح و قلم کا فریضہ انجام دینا پڑتاہے اور وہ اس کٹھن کام کے لیے خودکو تیار نہیںکر سکیں ۔صدیقہ بیگم کی تحریک پر راقم الحروف نے تزکیہ نفس کی خاطرسال 2004میں’’ یاد رفتگاں‘‘ کے عنوان سے سے مضامین لکھنے کا آغاز کیا۔ ممتاز ادیبوں کی وفات پر لکھے گئے میرے یہ تعزیتی مضامین کئی سال تک ادب لطیف کے شماروںمیں شائع ہوتے رہے۔میں نے جن مرحوم ادیبوں پرمضامین لکھے ان میں آفاق صدیقی،احمدفراز، اشفاق احمد،اطہر ناسک ،حمید اختر، چاچاعاشق، خالداحمد، دلدار حسین میاں ، شفقت تنویر مرزا،شہریار، صبااکبرآبادی ،ضیاجالندھری ،عبید اللہ بیگ ، مغنی تبسم، ممتازحسین اور ممتازشیریں شامل ہیں۔صدیقہ بیگم کہاکرتی تھیں کہ انسانی زندگی ایک سراب وخواب کے مانندہے۔جہاں تک زندگی کا تعلق ہے سب انسان محو استراحت زندگی کے مسحور کن خواب دیکھنے کے شیدائی ہیں۔اس سے پہلے کہ اجل کے بے رحم ہاتھ ہمیں جھنجھوڑ کر اُٹھنے اور جہاں سے کُوچ کا حکم دیں، ہمیں خواب سے نکلناہو گا۔وہ یہ بات زور دے کر کہتی تھیںکہ زندگی کا سفر بھی تلاطم خیز دریاؤں کی روانی اور طغیانی کے مانندہے جو سر بہ فلک پہاڑوں کے چشمو ںسے نکل کر میدانوں کی خاک پر اپنی جبین رگڑنے کے بعدہمیشہ کے لیے سمندرمیںفناہوجاتے ہیں۔ ان کا خیال تھاکہ اس عالم ِآب و گِل میں ہر انسان کی زندگی کے اوقات یکساںہیں ۔اپنی تسبیح ِ روز و شب کادانہ دانہ شمار کرتے وقت انسان مختلف اوقات میں درپیش مسائل کے با رے میں جو طرزِ عمل اختیار کرتاہے وہی اسے دوسرے انسانوں سے ممتاز و منفرد مقام عطاکرتاہے ۔
اللہ کریم نے صدیقہ بیگم کو ذوقِ سلیم سے متمتع کیا تھا۔ انھوں نے مشرقی زبانوں کے ادب کے علاوہ عالمی کلاسیک کاعمیق مطالعہ کیا تھا۔ان کے پسندیدہ ادیبوں میں سال1998میں نوبل انعام حاصل کرنے والے پر تگیز مصنف جو س سرمیگو ( 1922- 2010 :Jose Saramago )، کولمبیا کا ناول نگار گبریل گارسیا مارکیز ( 1927-2014 :Gabriel García Márquez )
جرمن زبان بولنے والے بو ہیمیاکے ناول نگار فرانز کافکا( 1883-1924 :Franz Kafka )،روسی ناول نگار دوستو فسکی ( 1821-1881:Fyodor Mikhailovich Dostoevsk)اور سال 2006 میںادب کا نوبل انعام لینے والے ترکی کے ناول نگار اورہان پاموک ( ,1952 B:Orhan Pamuk) شامل ہیں۔ان کا خیال تھانئی نسل کو تقلید کی روش سے دامن بچا کر افکارِ تازہ کی مشعل تھام کر سفاک ظلمتوں کو کافور کر کے جہانِ تازہ کی جانب سر گرم ِ سفر رہناچاہیے ۔ رجحان سازادبی مجلے ادب لطیف کی ایک وسیع المطالعہ مدیرہ کی حیثیت سے صدیقہ بیگم نے ہمیشہ لفظ کی حرمت کو ملحوظ رکھنے پر اصرارکیا۔انھوںنے زندگی بھر عجزوانکسار،صبر و تحمل ،ایثار و وفا،اخلاص و اخلاق اور انسانی ہمدردی کو شعار بنایا۔
صدیقہ بیگم نے سال 1960 میں روشنی کے سفر کاآغاز کرنے والے تنقیدی دبستان ’’ تانیثیت ‘‘ کوبہ نظر تحسین دیکھا۔ انھوں نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیاکہ تانیثیت نے بڑی جرأت سے خواتین کے حقوق اور مفادات کے تحفظ کواپنامطمح نظر بنایا ۔اس کا مقصد یہ ہے کہ خواتین جنھیں معاشرے میں ایک اہم مقام حاصل ہے ان کی خوابیدہ صلاحیتوں کو نکھارا جائے اور انھیں تخلیقی اظہار کے فراواں مواقع فراہم کیے جائیں ۔ تانیثیت کومغرب میں 1970میں پذیرائی ملی ۔سب سے پہلے یورپی دانش وروں نے اس کی ترویج و اشاعت میں گہری دلچسپی لی ۔اس طرح رفتہ رفتہ لسانیات اور ادبیات میں تانیثیت کو ایک غالب اور عصری آگہی کے مظہر نظریے کے طور پر علمی اور ادبی حلقوں نے بہت سراہا۔ سال1980کے بعد سے تانیثیت پر مبنی تصورات کو وسیع تر تناظر میں دیکھتے ہوئے اس کی سماجی اہمیت پر زور دیا گیا۔اس طرح ایک ایسا سماجی ڈھانچہ قائم کرنے کی صورت تلاش کی گئی جس میں خواتین کے لیے سازگار فضا میں کام کرنے کے بہترین مواقع دستیاب ہوں ۔تانیثیت کی علم بردار خواتین نے ادب کے وسیلے سے زندگی کی رعنائیوں اور توانائیوں میں اضافہ کرنے کی راہ دکھائی۔صدیقہ بیگم کا ادبی نصب العین یہ تھا کہ جذبات ،تخیلات اور احساسات کو اس طرح الفاظ کے قالب میںڈھالا جائے کہ اظہار کی پاکیزگی اور اسلوب کی ندرت کے معجز نما اثر سے خواتین کو قوت ارادی سے مالا مال کر دیا جائے اور اس طرح انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے اہداف تک رسائی کی صورت پیدا ہو سکے ۔ صدیقہ بیگم نے ادب لطیف میں خواتین کی معیاری تحریروں کو شامل کرنے میں کبھی تامل نہ کیا۔ان کی کاوشوں سے پاکستانی خواتین میں بیداری پیدا ہوئی اور تانیثیت کی باز گشت پورے ملک میں سنائی دینے لگی ۔ صدیقہ بیگم نے خواتین پر واضح کیا کہ فرانس ،برطانیہ ،شمالی امریکہ ،ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور کینیڈا میں تانیثیت پر جوقابل قدر کام ہوا ہے پاکستانی خواتین کو اس کابہ نظر غائر جائزہ لیناچاہیے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ تانیثیت کی شکل میں بولنے اور سننے والوں کے مشترکہ مفادات پر مبنی ایک ایسا ڈسکورس منصہ شہود پر آیاجس میں خواتین کے منفرد اسلوب کا اعتراف کیا گیا ۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ نسائی جذبات میں انانیت نمایاں رہتی ہے مگر یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ان کے جذبات میں خلوص، ایثار،مروّت ،محبت اور شگفتگی کا عنصر ہمیشہ غالب رہتا ہے ۔تانیثیت نے انسانی وجود کی ایسی عطر بیزی اور عنبر فشانی کا سراغ لگایاجو کہ عطیہ ٔ خداوندی ہے ۔اس وسیع و عریض کائنات میں تمام مظاہر فطرت کے عمیق مشاہدے سے یہ امر منکشف ہوتا ہے کہ جس طرح فطرت ہر لمحہ لالے کی حنا بندی میں مصروف عمل ہے اسی طرح خواتین بھی اپنے روز و شب کا حساب اور ذات کا احتساب کرتے وقت بے لوث محبت کو شعار بناتی ہیں۔خواتین نے تخلیق ادب کے ساتھ جو بے تکلفی برتی ہے اس کی بدولت ادب میں زندگی کی حیات آفریں اقدار کو نمو ملی ہے ۔موضوعات ،مواد ،اسلوب ،لہجہ اور پیرایہ ٔ اظہار کی ندرت اور انفرادیت نے ابلاغ کو یقینی بنا نے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ۔تانیثیت کا اس امر پر اصرار رہا ہے کہ جذبات،احساسات اور خیالات کا اظہار اس خلوص اور دردمندی سے کیا جائے کہ ان کے دل پر گزرنے والی ہر بات بر محل ،فی الفوراور بلا واسطہ انداز میں پیش کر دی جائے۔صدیقہ بیگم نے ادب لطیف میں خواتین کے جذبات و احساسات پر مبنی تحریروں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا ۔ادب لطیف کے ہر شمارے میںخواتین اہل ِقلم کی معیاری تخلیقات کو شامل کیا جاتا تھا۔صدیقہ بیگم کی ادارت میں ادب لطیف میںخواتین ادیبوں کی تخلیقات بڑی تعداد میں شائع ہوئیں ۔ ادب لطیف نے خواتیں کو حریت فکر ،حریت ضمیر اور جرأت اظہار کی جو راہ دکھائی اس کے اعجازسے خواتین کی سو چ کا محور اور فکر و خیال کا منظر ہی بدل گیا۔ادب لطیف میں جن خواتین ادیبوں کی تانیثیت کے حوالے سے تحریریں شائع ہوتی رہیں ان کی فہرست بہت طویل ہے ۔ ذیل میں چند منتخب ناموںکی ایک نامکمل فہرست دی جا رہی ہے:
آمنہ خاتون، آمنہ مفتی ، اختر جمال ،افضل توصیف، الطاف فاطمہ ، امتہ اللطیف ،ام عمارہ ، امرتا پریتم ، انوری خانم ، بشریٰ اعجاز، بشری رحمٰن ، بشریٰ رشید،پروین سرور ، پروین عاطف،ثبینہ رفعت ،جمیلہ ہاشمی ،جیلانی بانو، حجاب امتیاز علی ، حمیدہ شاہین ، حنا بابر علی ، خالدہ اصغر، خدیجہ مستور ،خیر النسا، در نجف زیبی سیّدہ ،رابعہ عرفان ، رشیدہ سلیم سیمی ، رابعہ نہاں، رخشندہ نوید،رضیہ فصیح احمد ،رفعت ناہید، روحی اعجاز ، رفعت طور،زاہدہ حنا ،شاہین مفتی ،شبنم شکیل ، شفیقہ انجم ، شکیلہ اختر،شگفتہ نازلی ،شمع خالد، صوفیہ بیدار،طاہرہ اقبال ، عصمت چغتائی ، عائشہ تسلیم ،عطیہ سید ،فاطمہ حسن ، فاطمہ خورشید، فرخندہ لودھی ،فضہ پروین ،قرۃ العین طاہرہ، کشور ناہید ، گوہر سلطانہ ،ماہ طلعت زاہدی ، ممتاز شیریں ، مس شناورخان ،مسزعبدالقادر، نجمہ محمود، نگہت حسن ، نجمہ یاسمین یوسف ،نورین طلعت عروبہ ،نورالہدیٰ سید ، نوشابہ اختر ،نوشی گیلانی ،نیلم احمد بشیر ،ناہیدقمر ، نگہت حسن،نگہت یاسمین ، ہاجرہ بانو،یاسمین طاہر ۔
سال 1982میں ادب کا نوبل انعام لینے والے ، گبریل گارسیا مارکیز کی طلسمی حقیقت نگاری کو صدیقہ بیگم نے ہمیشہ قدرکی نگاہ سے د یکھا۔اُس کے ناول ’’Chronicle of a Death Foretold‘‘کا پہلا اُردو ترجمہ معروف ادیب افضال احمد سید نے کیا ۔یہ ترجمہ ’’ایک پیش گُفتہ موت کی روداد ‘‘کے نام سے شائع ہوا ۔صدیقہ بیگم نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ قارئین ِ ادب نے تراجم میں گہری دلچسپی لی ۔پنجابی زبان کے نامور ادیب افضل احسن رندھاوا نے اِسی عظیم ناول کو پنجابی زبان کے قالب میں ڈھالا جو ’’پہلوں توں دسی گئی موت دا روزنامچہ ‘‘کے نام سے شائع ہو چُکا ہے ۔پنجابی زبان میں تراجم کے حوالے سے یہ ترجمہ بہت اہمیت کا حامل ہے ۔ صدیقہ بیگم نے اس ترجمے کو بہت اہم قراردیتے ہوئے کہا کہ اس ترجمے کی اشاعت سے پنجابی ادب کی ثروت میں اضافہ ہوا ہے ۔ پاکستانی زبانوں میں عالمی ادبیات کے تراجم کے سلسلے میں یہ ترجمہ لائق صد رشک و تحسین کارنامہ ہے ۔گیبریل گارسیا مارکیز کی ایک اور مشہور تصنیف ’’No One Writes to the Colonel‘‘کا اُردو ترجمہ بھی شائع ہو چُکا ہے ۔یہ ترجمہ جو ’’کرنل کو کوئی خط نہیں لکھتا‘‘کے نام سے شائع ہوا ہے ،ممتاز ادیب فاروق حسن کی بصیرت افروز ترجمہ نگاری کا ثمر ہے ۔اُردو کے جن ادیبوں نے گیبریل گارسیا مارکیز کی تصانیف کے نا مکمل تراجم کیے ان میں زینت حسام کا نام قابلِ ذکر ہے جنھوںنے سب سے پہلے ’’تنہائی کے ایک سو سال ‘‘کے ابتدائی چند ابواب اُردو کے قالب میں ڈھالے جو کراچی سے شائع ہونے والے کتابی سلسلے ’’آج‘‘میں شائع ہوئے ۔اُرد وزبان میں تراجم کے ذریعے دو تہذیبوں کو قریب تر لانے کی مساعی جاری ہیں ۔اس سلسلے میں گیبریل گارسیا مارکیز کی تصانیف ’’Autumn of the Patriarch‘‘ اور ’’Love in the Time of Cholera‘‘کا اُردو ترجمہ بھی کیا جا چُکا ہے ۔
صدیقہ بیگم نے اس بات پر ہمیشہ اطمینان کا اظہارکیا کہ پاکستانی زبانوں میں تراجم کی روایت اب مستحکم صورت اختیار کر چکی ہے۔ مشرقی پنجاب (بھارت)کے قصبے جیتوکی بھینی فتح سے تعلق رکھنے والے گُور دیال سنگھ(پیدائش:دس جنوری 1933) کا شمار پنجابی زبان کے ممتاز ادیبوں اور اہم ناول نگاروں میں ہوتا ہے۔ اس کے سماجی حقیقت نگاری سے مزین دل کش اسلوب کے حامل مقبول ناول ’’مڑھی دا دیوا‘‘(چھوٹے مندر کا ٹمٹماتا ہو ا چراغ)جو سال 1964میں شائع ہوا قارئین میں بہت مقبول ہوا ۔اس ناول کا انگریزی میں ترجمہ ’’The Last Flicker‘‘کے نام سے گُوردیال سنگھ نے سال 1960 میںکیا۔حال ہی میں اس کا اردو ترجمہ لاہور میں مقیم ادیب محمد اسلم نے کیا ہے۔ صدیقہ بیگم کی ہدایت پراس ناول کا مکمل اردو ترجمہ مجلہ ’’ادب لطیف ‘‘ میں دسمبر 2015کی اشاعت میںشائع ہوا۔اس ناول میں پنجاب کے دیہاتوں کی زندگی کی حسین لفظی مرقع نگاری کی گئی ہے۔فرد کی زندگی سے وابستہ جذبات،احساسات،پیمان وفا ،رقابت ،تنہائی اور حسد کے ہاتھوں رو نما ہونے والے مد و جزر کا احوال اس میں پوری شدت سے جلوہ گر ہے ۔ سماجی تنظیمی ڈھانچے کے سخت گیر ضوابط،معاشرتی زندگی کے تضادات اورمعاشرتی زندگی میں ظالم و سفاک ،موذی و مکاردرندوں کی شقاوت آمیز ناانصافیوں کے باعث فرد کے داخلی احساسات ،عزت نفس اور انا کو مکمل طور پر منہدم کرنے کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا ہے ۔مجبور اور دکھی انسانیت کے صدمات کے سب ہنگامے اس ناول کا موضوع ہیں۔محترمہ کشور ناہید نے عالمی ادب کے عظیم ادب پاروں کو اردو زبان کے قالب میں ڈھال کر جس خوش اسلوبی سے اردو کے دامن میں گلہائے رنگ رنگ سجائے ہیں وہ ان کی انفرادیت کی دلیل ہے ۔ان کے اسلوب کے کثیر اللسانی تجربات اور زبان وبیان پر ان کی خلاقانہ دسترس کے اعجاز سے اظہار و ابلاغ کے نئے در وا ہوتے چلے جاتے ہیں۔
چلّی(Chile)سے تعلق رکھنے والے شاعر پابلو نرودا(Pablo Neurda,B:12-07-1904,D:23-09-1973)کا شمارعالمی شہرت کے حامل ادیبوں میں ہوتا ہے ۔پابلو نرودا کو سال 1953میں لینن امن انعام سے نوازا گیا اور سال 1971میں ادب کا نوبل انعام ملا ۔پابلو نرودا نے حریتِ فکر و عمل کا علم بلند رکھتے ہوئے حریتِ ضمیر سے جینے کے کے لیے جو طرزِ فغاں اپنائی اس نے تیسری دنیا کے مظلوم عوام کے لیے طرزِ ادا کا درجہ حاصل کر لیا ۔صدیقہ بیگم نے پابلونرودا کی شاعری کے اردو تراجم کوبہت پسند کیا۔
صدیقہ بیگم نے تانیثیت کے موضوع پر تحریروں کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی ۔ و ہ ا س بات پر مسرت اور اطمینان کا اظہارکرتی تھیںکہ پاکستانی خواتین اپنے حقوق و فرائض سے ا ٓ گاہ ہیں ۔ وہ اِس بات پر خوش تھیں کہ پاکستان کی ممتازادیبہ محترمہ کشور ناہید نے پاکستانی زبانوں کی ترقی اور قومی کلچر کے فروغ کا عزم کررکھا ہے ۔محترمہ کشور ناہید نے جس خوش اسلوبی سے پابلو نرودا کی شاعری کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالا ہے وہ زبان و بیان پر ان کی خلاقانہ دسترس کی دلیل ہے ۔ ان تراجم کے ذریعے اصل ادب پاروں میں نہاں تخلیق کار کے انفرادی آہنگ اور اجتماعی شعور کی گرہیں کھلتی چلی جاتی ہیںاور قاری ا ن تراجم کے وسیلے سے نہ صرف ماضی کے حالات اور حال کے تغیرات و ارتعاشات سے آگا ہ ہوتا ہے بل کہ آنے والے دور کی ہلکی سی تصویر بھی دیکھ سکتا ہے ۔صدیقہ بیگم مترجمین کو عالمی ادب کی نمائندہ تخلیقات کے تراجم پر
مائل کرنے کے لیے مثالیں دیتی تھیں کہ کو لمبیا یونیورسٹی کی طرف سے محترمہ کشور ناہید کو بہترین مترجم کا ایوارڈ ملا اس کے علاوہ انھیں آدم جی ایوارڈ (1969)،منڈیلا ایوارڈ (1997)،بچوں کے ادب پر یونیسکو ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ۔ صدیقہ بیگم اس بات پر زور دیتیں کہ پاکستانی زبانوں پر دسترس رکھنے والے مترجمین کو چاہیے کہ وہ حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہو کر عالمی کلاسیک کے پاکستانی زبانوں میں تراجم پر اپنی توجہ مرکوز کر دیں ۔ ترجمہ نگاری میں وہ پاکستان کے مشہور مترجمین کی کامرانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی تھیں ۔ وہ مثالیں دیتیں کہ محترمہ کشور ناہید نے جس غیر معمولی تخلیقی فعالیت اور بصیرت کو بروئے کار لاتے ہوئے ترجمے کو تخلیق کی چاشنی سے آشنا کیا ہے اس کا اندازہ ان کے تراجم سے کیا جا سکتا ہے۔ان تراجم نے اردو زبان و ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔تراجم کے فروغ میں عالمی شہرت کے حامل مایہ ناز پاکستانی ادیب،ناول نگار،افسانہ نگار،نقاد اور کالم نگار انتظار حسین (پیدائش:سات دسمبر،1923وفات:دو فروری 2016)کی خدمات کا ایک عالم معترف ہے ۔ صدیقہ بیگم نے انتظار حسین کی ترجمہ نگاری کو سراہتے ہوئے اس جانب متوجہ کیا کہ اُنھوں نے چیخوف کے ناول کا اردو ترجمہ کیا جو ’’گھاس کے میدانوں میں ‘‘کے عنوان سے شائع ہوا وہ ترجمہ نگاری کے ارتقا میںبہت اہم ہے ۔جان ڈیوی کی کتاب کا اردو ترجمہ ’’فلسفہ کی نئی تشکیل ‘‘کو بھی قارئین نے بہت پسند کیا ۔نئی پود ،نائو اور دوسری منتخب کہانیاں بھی عمدہ تراجم ہیں۔ان کے تراجم کی اہمیت و افادیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کا نام سال 2013 میں اردو زبان اور پاکستان میں پہلی بار بر طانیہ کے مین بکرز عالمی ایوارڈ کے لیے نام زد ہونے والے دس ممتاز ادیبوں کی فہرست میں شامل کیا گیا۔ سال 2004سے جاری ہونے والے عالمی فکشن کے انگریزی میں تراجم کے فروغ کے سلسلے میں’’ مین بکرز عالمی ایوارڈ ‘‘(Man Booker International Prize) ہر دو سال بعداس زندہ ادیب کو دیا جاتاہے جس کی تخلیقی اور ترجمہ کی فعالیت انگریزی ادبیات اور فکشن کی ثروت میں قابل قدر اضافے کا مؤثر وسیلہ ثابت ہو۔ پچاس ہزار پونڈ کایہ انعام مترجم اور مصنف میں برابر تقسیم کیا جاتا ہے۔
پس نو آبادیاتی دور میں پاکستان میں ادب کے قارئین کی تعداد میں جو کمی واقع ہوئی ہے اس پر صدیقہ بیگم کوبہت تشویش تھی۔ ادب لطیف کو بہت کم اشتہارات ملتے تھے ۔ادب لطیف کی اشاعت گیارہ سوکے قریب تھی ان میں سے زیادہ تر مجلات ڈاک کے ذریعے اہل ِ قلم کو اعزازی ارسال کر دئیے جاتے تھے ۔اشتہارات کی آ مدنی ڈاک خرچ کی بھینٹ چڑھ جاتی تھی ۔اس اعتبار سے ادبی مجلہ کی اشاعت خسار ے کا کام تھا۔اہلِ قلم بھی صرف اپنی مطبوعہ تحریر پر نظر ڈالتے ہیں اور دوسرے تخلیق کاروں کی طرف توجہ نہیں دیتے ۔صدیقہ بیگم کی ادارت میں شائع ہونے والے ادب لطیف کے ضخیم خاص نمبر قارئین میں بہت مقبول ہوئے ۔صدیقہ بیگم اس بات پر اطمینان کا اظہار کرتی تھیںکہ پاکستانی ادیب اقتضائے وقت کے مطابق معاصر ادب کا مطالعہ کرنے لگے ہیں ۔ وہ اس بات پر زور دیتیں کہ وطن عزیزکے اہل قلم میںعصری آ گہی پروان چڑھانے کی خاطر عالمی کلاسیک پر توجہ ضروری ہے ۔ پاکستان میں نیا ادب تخلیق کرنے والے اب آئر لینڈکے ناول نگار جیمزجوائس ( 1882-1941: James Joyce ) ،برطانوی ناول نگار خاتون ورجینا وولف ( 1882-1941 :Virginia Woolf ) اور برطانوی مصنف ڈی ۔ایچ لارنس ( 1885-1930 : David Herbert Lawrence ) اور مارکسی مصنفین کی تخلیقات پر توجہ دے رہے ہیں ۔ صدیقہ بیگم کی ادارت میں مجلہ ’’ادب لطیف ‘‘ افقِ ادب پر مثل ِ آفتا ب ضو فشاں رہا ۔ادب لطیف کی اشاعت کے پچھتر سال مکمل ہو نے پر دو جلدوں پر مشتمل خاص نمبر شائع ہوا ۔اس میں مجلے کے آغاز سے لے کر سال 2010تک کے عرصے کی منتخب تحریروں کو شامل اشاعت کیا گیاہے ۔اس خاص نمبر کاحوالہ درج ذیل ہے :
ادب لطیف خاص نمبر ،جلد نمبر75،شمارہ ،11-12،نومبر ،دسمبر ،2010،صفحات ،1040
ادب لطیف خاص نمبر ،جلدنمبر 76،شمارہ نمبر 1، جنوری 2011 ،صفحات،530
اور اس کے بعد اسی سال مکمل ہونے پراس کے جوضخیم خاص نمبر شائع ہوئے قارئین ِادب کی طرف سے انھیںغیر معمولی پزیرائی ملی۔
صدیقہ بیگم کا یہ معمول تھاکہ وہ ٹیلی فون کے ذریعے ملک بھر کے ادیبوں اور ادب کے طالب علموں سے معتبر ربط رکھتی تھیں ۔مجھے ذاتی طور پر معلوم ہے کہ انھوں نے ارشاد گرامی، اطہر ناسک ،ذکیہ بدر ،دانیال طریر،نثار احمد قریشی ،بشیر سیفی ،اسحاق ساقی ،محمد فیروز شاہ،حسر ت کاس گنجوی ،صابر کلوروی ،صابر آفاقی ،انعام الحق کوثر ،امیر اختر بھٹی ،محمد حامد سراج ، عطا شاد ،دیوان احمد الیاس نصیب،شفیع ہمدم ،شفیع بلوچ،احمد تنویر ،معین تابش، رفعت سلطان ،خیر الدین انصاری ،رام ریاض اور مظہر اختر کی علالت کے دوران میں اُن کی بیمار پرسی کی اور انھیں ہرقسم کے تعاون کی پیش کش کی۔ میرے ساتھ وہ ہمیشہ خلوص و مروّت سے پیش آ تی تھیں ۔ سندی تحقیق کے لیے نوجوان محققین کو جب بھی حوالہ جاتی کتب کی ضرورت ہوتی وہ بلا تامل صدیقہ بیگم سے رابطہ کرتے ۔ وہ تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے ڈاک کے ذریعے محققین کی مطلوبہ کتب انھیں بلامعاوضہ ارسا ل کر دیتیں ۔فروغ ِ علم و ادب کے لیے صدیقہ بیگم کی خدمات کاایک عالم معترف ہے ۔ہر ماہ جھنگ میںمجلہ ادب لطیف کا دس مجلات پر مشتمل ایک پیکٹ ذہین نقاد اور محقق احمد بخش ناصر کے نام اس ہدایت کے ساتھ آتا کہ یہ مجلات ذوقِ سلیم سے متمتع شہر کے مضافات میں مقیم ادیبوں میں اعزازی تقسیم کر دئیے جائیں ۔ احمدبخش ناصر کا پڑوسی بزرگ داستان گو اور ریلوے کا معمر محنت کش کرم داد قلی رضاکارانہ طور پر لاہور سے آنے والے مجلہ ادب لطیف کے یہ اعزازی نسخے ادیبوں کے گھر جاکر تقسیم کرتا ۔ شیخی خورکرم داد قلی اپنا شجرہ نسب کھینچ تان کر گو لکنڈہ کے پانچویں سلطان قلی قطب شاہ سے(1565-1612 )ملاتااوراس پر خوب اِتراتا۔ کرم دادقلی ہر ماہ اپنے دوستوں سے بھی ملتااور مجلہ ادب لطیف بھی ان تک پہنچا دیتا۔اس سر چشمہ ٔ فیض سے مختلف اوقات میں جو ادیب سیراب ہوئے ان میںاحمد بخش ناصر ، اللہ بخش نسیم ، بشارت خان ،بختاور خان ،پرویز خاور ، خادم مگھیانوی ،گداحسین افضل ، حاجی محمدریاض ،حافظ محمدحیات،سجاد حسین ،شہزادہ توفیق ، شپرصحرائی،بوم ویرانی اور کر گس کوہستانی شامل ہیں ۔ مقدر کی سختیاں جھیل کر رضاکارانہ طور پر کام کرنے والا جھنگ کی نواحی بستی ’’ قلی فقیر ‘‘ جہاں آ ج بھی پتھر کے زمانے کا ماحول ہے وہاں کاباسی ادب شناس کرم داد نانِ جویں کھاکر بھی اپنے خالق کا شکر اداکرتا ۔ صدیقہ بیگم کا کہنا تھا کہ سچ تو یہ ہے کہ قُلی فقیر ہو یا دُھپ سڑی ،لُوہلے شاہ ہو یا پہاڑے شاہ ،میاں بکھاہو یا میاں موچڑا اس عہدِ نا پرساں میں آبلہ پا ادیبوںکی دشت نوردی کی ایک جیسی صورت دکھائی دیتی ہے ۔خارِ مغیلاں سے اَٹی راہوںکو دیکھ کر وہ دِل ہی دِل میں خوش ہو جاتے ہیں کہ دشت نوردی میں مانع کو ئی تدبیر کار گر نہیں ہوسکتی ۔سرابوں کے عذابوں سے سمجھوتہ کرنے والے منزلوں سے سدا نا آشنا رہتے ہیں۔قحط الرجال کے موجودہ زمانے میںجب بنجر اور سنگلاخ زمینوں میں فکر ی سوتے خشک ہونے لگے ہیں صدیقہ بیگم نے ادب لطیف کی باقاعدہ اشاعت سے ذوق سلیم کو صیقل کرنے کی مقدور بھر کوشش کی۔ حال مست سیلانی کرم دادایسا پر اسرار ہر کارہ اور بے لوث خادمِ خلق تھا جو رات گئے تک اس شہر ناپرساں کی شیر شاہ سور ی کے زمانے کی شکستہ سڑکوں پر اسرا ر الحق مجاز لکھنوی (1911-1955)کے یہ شعر گنگناتاپھرتا تھا۔
شہر کی رات اور میں ناشاد وناکارہ پھروں
جگمگاتی جاگتی سڑکوں پہ آوارہ پھروں
اے غمِ دِل کیا کروںاے وحشتِ دِل کیا کروں
صدیقہ بیگم گزشتہ تیس برس سے میر ی درد آ شنا اور مونس و غم خوار تھیں وہ جانتی تھیں کہ گردشِ ایام نے سدا میراتعاقب کیا ہے۔ ہمارے درمیان بھائی اور بہن کا مقدس اورلائق صد احترام رشتہ تھا۔وہ مجھے اپنا چھوٹا بھائی کہتیں تو مجھے دلی سکون ملتا تھا۔ ان کے خلوص اوردردمندی کامعیار اس قدر ارفع تھا کہ وہ کسی کوپریشاں حالی و درماندگی میں دیکھتیں تو تڑپ اُٹھتیں۔ اشفاق احمد ،بانوقدسیہ ، محمد حنیف رامے اورممتازمفتی کے اسلوب میںپائی جانے والی انسانی ہمدردی سے صدیقہ بیگم نے گہرے اثرات قبول کیے ۔ وہ اپنے ،بیگانے یا طبقاتی کش مکش سے با لاتر رہتے ہوئے سب الم نصیبوں کے لیے سراپا شفقت و خلوص تھیں۔ان کی شفقت کی شبنم مصیبت زدوں کی آ نکھ سے ممنونیت کے آنسوؤں کی صورت میں بہنے لگتی ۔ وہ میرے لیے حقیقی بہن کی طرح قابل اعتماد تھیں اور ان کی وفات میرا ذاتی صدمہ ہے ۔ ان کے بے پایاںخلوص و مروّت نے مجھے ہمیشہ حوصلہ عطاکیا۔ 6۔جولائی 2017کو میرا نوجوان بیٹاسجادحسین حرکت قلب بند ہوجانے کے باعث چل بسا۔ ہمارے گھر کے آ نگن سے قزاق اجل کا لشکر گزرا توہمار اپورا گھر حواس باختہ ،غرقابِ غم ،مضمحل اور نڈھال تھا ۔ دُور دراز علاقوں سے میرے غم گسار میرے ساتھ دردکا رشتہ نبھانے چلے آ ئے ۔ان کا خیا ل تھا کہ سجاد حسین کے جاتے ہی گھر کے بام و در پر اُداسی کے بادل چھا گئے ہیں۔ آزمائش کی اس گھڑی میںصدیقہ بیگم نے مجھے فون کیا اور دلاسا دیتے ہوئے صبر کی تلقین کی ۔انھوں نے مجھے مشیت ایزدی کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے واقعہ کر بلاکے حوالے سے مجید امجد کایہ شعر پڑھا :
سلام ان پہ تہِ تیغ بھی جنھوں نے کہا
جو تیرا حکم جو تیری رضا جو تو چاہے
یہ شعر پڑھنے کے بعدصدیقہ بیگم نے گلو گیر لہجے میں کہا:
’’ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ نوجوان اولا دکی دائمی مفارقت کا غم ضعیف والدین کو ناقابلِ اندمال صدمات سے دو چار کر دیتاہے ۔ تقدیر کا دیا ہوا یہ ایساہولناک نقصان ہے جس کا مداوا ممکن ہی نہیں ۔ میں ہر لمحہ یہ سوچ رہی ہوں کہ خداوند کریم تمھیں یہ صدمہ برداشت کرنے کا حوصلہ عطافرمائے ۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ فہم و فراست اور تدبر و حکمت کے معجز نما اثر سے انسان زندگی میںبلند مقام حاصل کر سکتاہے ۔میرا خیال ہے کہ آزمائش اور ابتلا کی گھڑی میں ثابت قدم رہنا کردار کی عظمت کی دلیل ہے ۔ بلندکردار کے اعجاز سے شخصیت کو نکھار نصیب ہوتاہے اور شہرتِ عام اور بقائے دوام انسان کا مقدر بن جاتاہے ۔ ایسے خوف ناک صدمات سے دل ٹوٹ جاتا ہے تم اپنے آ پ کو اور فرط ِ غم سے نڈھال ا ہلِ خانہ کوسنبھالو۔ فہمیدہ ریاض،خالدہ حسین ، روحی بانو، روبینہ قائم خانی ،قمرزمان ،شہلارضا ،متین ہاشمی، جمیل فخری، نواز ایمن،ریاض الحق ، افضل احسن، محمد اکرم،محمد یوسف اورشبیر راناکو نوجوان بیٹوں کی دائمی مفارقت کے غم نے زندہ در گور کر دیا۔ پروردگار ِعالم تو رحم فرما۔‘‘
میں اس وقت یاس و ہراس کے نرغے میں تھا،ہمدردی کے یہ الفاظ میرے دِل کی گہرائیوںمیںاُترتے چلے گئے ۔میراقلب و جگر حسرتوں سے چھاگیا تھااور ہجوم یاس کو اپنی جانب بڑھتے دیکھ کر میں بہت گھبرا گیا تھا۔صدیقہ بیگم کے تعزیتی کلمات نے مجھے حوصلہ دیا میں اس کے لیے سراپا سپاس تھا۔مجھے احسا س ہوا کہ آزمائش کے ان لمحات میںمیں اکیلا ہرگزنہیں ۔ جب میں نے صدیقہ بیگم کی باتیں سنیں تو ممنونیت کے جذبات سے میری آ نکھیں بھیگ بھیگ گئیں ۔ احسان مندی کے جذبات کااظہار کرنامیرے لیے بہت مشکل ہو گیا تھا۔ درد و غم میں ڈوبی ان کی باتوں کی باز گشت اب بھی میرے کانوں میں گونجتی ہے اس موقع پر میں نے اپنی ذات پر گزرنے والے اس جان لیوا صدمے پر ان کے تعزیتی کلمات پر ان کا شکریہ ادا کیا۔جب میں نے صدیقہ بیگم کو بتایا کہ میں نے اپنے لختِ جگر کوسپردِ خاک کرنے کے بعد دل پر ہاتھ رکھ کر اس کی لحدکے سرہانے کھڑ ے ہو کر ندا فاضلی کے یہ اشعارپڑھے توروتے روتے ان کی ہچکی بندھ گئی ۔
کہیں کچھ بھی نہیں بدلا
تمھارے ہاتھ
میری اُنگلیوں میں سانس لیتے ہیں
میں لکھنے کے لیے
جب بھی قلم کاغذ اُٹھاتا ہوں
تمھیں بیٹھا ہوا میںاپنی ہی کرسی میں پاتا ہوں
بدن میں میرے جتنا بھی لہو ہے
وہ تمھاری
لغزشوں،ناکامیوں کے ساتھ بہتا ہے
مری آواز میں چھپ کر
تمھارا ذہن رہتا ہے
مری بیماریوں میں تم
مری لا چاریوں میں تم
تمھاری قبر پر جس نے تمھارا نام لکھا ہے
وہ جُھوٹا ہے
تمھاری قبر میں مَیں دفن ہوں
تم مجھ میں زندہ ہو
کبھی فُرصت ملے تو فاتحہ پڑھنے چلے آنا
تقدیر ہر لحظہ ہر گام انسانی تدبیر کی دھجیاں اُڑا دیتی ہے ۔میں سدا محفلوں کا شیدائی رہا مگر اس عالمِ پیری میںمجھے تنہائیوں نے گھیر لیا۔گردشِ ایام نے مجھے گوشہ نشینی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کر دیاہے ۔اس جان لیوا تنہائی میں بے لوث اور مخلص احباب کا معتبر ربط مجھ الم نصیب کو جینے کااحساس دلاتاہے ۔ چند ماہ پہلے صدیقہ بیگم نے حسبِ معمول فون کر کے میری خیریت دریافت کی ۔اس بار ان کاانداز گفتگو خلاف معمول قدرے مختلف تھا۔ وہ مضمحل اور دل گرفتہ محسوس ہو رہی تھیں اس موقع پر انھوں نے گلو گیر لہجے میں مجھے بتایا کہ ان کا ایک عزیز جو بانو قدسیہ اور اشفاق احمد کالخت ِجگر تھا دائمی مفارقت دے گیا۔ انھوں نے کہاکہ ہم اپنے رفتگاں کو یاد کرکے اپنے دِلِ حزیں کو ان کی مفارقت کے کرب سے آباد کرنے کی سعی کرتے ہیں۔دائمی مفارقت دینے والوں کی یادیں اپنے دل میں سمائے زندگی کا سفر تو افتاں و خیزاں کٹ جاتاہے مگر اس سانحہ کے نتیجے میں ہمارا پُورا وجود کر چیوں میں بٹ جاتاہے ۔میں نے ان سے تعزیت کی اورحوصلے اور صبر کا دامن تھام کر مشیت ایزدی پرراضی رہنے کی بات کی ۔اس بات چیت کے بعد میں نے یہ محسوس کیاکہ جس طرح نخلِ تناور کو سمے کی دیمک چپکے چپکے کھا جاتی ہے اسی طرح غم و آلام بھی جب کسی انسان کے دل میں گھر کر لیں تو وہ جان لے کر ہی نکلتے ہیں۔انتہائی کٹھن حالات میں بھی زندگی کی تمنا کرنے والی اس با حوصلہ ، با وقار اور پر عزم ادیبہ کے مضمحل لہجے نے مجھے چونکادیااور ایک ان جانے خوف کی وجہ سے میں نے دِل تھام لیا ۔
اس بات چیت کے ایک ماہ بعد صدیقہ بیگم کے نہ ہونے کی ہونی کی خبر ملی۔ان کے اس جہاںسے اُٹھنے کی اطلاع ملی تو میرا دِل بیٹھ گیا۔ ایسے مخلص احباب نے عدم کے کوچ کے لیے رختِ سفر باندھ لیا ۔ میں دل فگار چراغِ سحری ہوں اوررختِ دِل باندھ کر ردائے ماتم اوڑھ کر بیٹھا سوچتاہوں دو بھائی اور ایک نو جوان بیٹامجھے تنہا چھوڑ کر چلے گئے جب میرا وقتِ رخصت آئے گاتوکون مجھے الوداع کہے گا۔عجیب عالم تنہائی ہے صرصرِ اجل نے میری محفل کے سب چراغ بجھادئیے ہیں ۔ اجل کے بے رحم ہاتھو ں اس ادب شناس اور ادب پرور ہستی کی زندگی کا ساز تو ٹُوٹ گیامگر اس سے جو صدائیں نکلیں ان کی باز گشت صدیوں تک سنائی دیتی رہے گی۔صدیقہ بیگم نے انسانیت سے ٹُوٹ کر محبت کی یہی وجہ ہے کہ ان کی دائمی مفارقت کے غم میں ہر آنکھ اشک بار اورہر دِل سوگوار ہے ۔اُن کے رخصت ہونے کے بعد ان کے قدموں کے نشان آنے والی نسلوں کے خضرِ راہ ثابت ہوں گے ۔صدیقہ بیگم کی زندگی کا سفر تو ختم ہو گیامگر انھوں نے علم وادب کی ترویج و اشاعت کے مظہر روشنی کے جس سفر کا آغاز کیا وہ تاابد دلوں کو مرکزِ مہر و وفا کرتا رہے گا۔انسانیت سے بے لوث محبت کا یہ عظیم الشان سفر تاریخ کے ہر عہد میں ان کی یاددلاتا رہے گا۔ وہ اکثر اس بات پر زور دیتی تھیں کہ ادیب کی فیض رسانی کسی خاص طبقے ،کنبے یا گھرانے تک محدود نہیں رہنی چاہیے بل کہ ہر با ضمیر ادیب کو سار ے زمانے کی فلاح و بہبود کو اپنا مطمح نظر بنانا چاہیے ۔مجھے ان کی یہ باتیں یادآ رہی ہیں کہ زندگی تو بلاشبہ فانی ہے مگر ایثار و مروّت اور خلوص و درمندی کو دوام حاصل ہے ۔یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ صدیقہ بیگم جیسی یگانۂ روزگارہستیوں کی علمی و ادبی خدمات سیلِ زماں کے تھپیڑوں سے محفوظ رہتی ہیں۔موت کے جان لیوا صدموں کی حقیقت اپنی جگہ درست ہے مگر رفتگاں کی یاد ہی ان صدموں کا تریاق ہے ۔صدیقہ بیگم جس خاموشی ، شانِ استغنا اور عجز و انکسار کے ساتھ بزمِ ادب میںآئیں اُسی شان کے ساتھ انھوں نے عدم کے کُوچ کے لیے رختِ سفر باندھ لیا ۔ صدیقہ بیگم کے نہ ہونے کی ہونی کو دیکھ کر دنیا بھر ادب لطیف کے لاکھوں قارئین سکتے کے عالم میں ہیں ۔ ایسی یگانۂ روزگار ہستیاں ملکوں ملکوں ڈھونڈنے سے بھی نہیں مِل سکتیں ۔قارئینِ ادب کی لوح ِ دِل پرصدیقہ بیگم کی یادوں کے انمٹ نقوش ثبت ہیں جنھیںاندیشۂ زوال نہیں ۔
تاریخ وفات
صدیقہ بیگم کی وفات کی تاریخ تنویر پھول نے لکھی ہے :
۱۴۴۱ ہجری
’’ مدیر اعلیٰ ادب لطیف صدیقہ بیگم دید تاب گوہر ادب ‘‘
قطعہ تاریخ وفات 2019 عیسوی
چل بسیں صدیقہ بیگم خوش ادا
کر گئیں سُوناجہانِ آب و گِل
وارثوں کی چشم سے ٹپکاہے پھول ؔ
’’از غم صدیقہ بیگم خونِ دِل ‘‘
صدیقہ بیگم کی وفات کے بعد ناصر زیدی( پیدائش : 8۔اپریل 1942ء مظفر نگر اُتر پردیش ،بھارت) کو ادب لطیف کی ادارت کی ذمہ داری تفویض کی گئی ۔ وہ پہلے بھی پندرہ سال تک بہ حیثیت مدیر اس رجحان سازادبی مجلے سے وابستہ رہ چکے تھے ۔راول پنڈی میں فالج کے حملہ کے بعدناصرزیدی مقامی ہسپتال میں زیر ِ علاج تھے کہ دل کے دورے کے باعث وہ جمعہ تین جولائی ،2020 ء کو چل بسے ۔