اردو زبان کے ممتاز نعت گو شاعر سید اعجاز علی رحمانی طویل علالت کے بعد بزمِ ادب سے رخصت ہو گئے ۔ صر صرِ اجل سے اُردو نعت گوئی کی ایک سر بہ فلک چوٹی زمیں بوس ہو گئی۔علم و ادب کا وہ نیر تابا ں جو ۱۲۔فروری۱۹۳۶کو علی گڑھ( اُتر پردیش ،بھارت) سے طلوع ہوا وہ ہفتہ ، ۲۔نومبر ۱۹۱۹کوکراچی ( پاکستان ) میں غروب ہو گیا۔ نارتھ کراچی میں واقع ایک مسجد میں نماز عصر کے بعد ان کی نمازجنازہ ادا کی گئی ۔ نزدیکی شہر خموشاں کی زمین نے اردو شاعری کے اس آسمان کو ہمیشہ کے لیے اپنے دامن میں چھپا لیا ۔ سید اعجاز علی رحمانی کی رحلت کے ساتھ ہی اردو نعت گوئی کا ایک عہد اپنے اختتام کو پہنچا۔سید اعجاز علی رحمانی ابھی کم سن تھے کہ ان کے والد انتقال کر گئے ۔تقدیر کے ہاتھوں انھیں بچپن ہی میں یتیمی کے صدمے برداشت کرنے پڑے ۔ان کی والدہ نے اپنے ہونہا ر بچے کو آلامِ روزگار کی تمازت سے محفوظ رکھنے کی مقدور بھر سعی کی مگر گردشِ ایا م سدا ان کے ساتھ رہی۔ نو آبادیاتی دور کے انتہائی نا مساعدمعاشی حالات کے باعث سید اعجاز علی رحمانی علی گڑھ میں دینی تعلیم حاصل کی اور ابتدائی جماعتوں تک پڑھ سکے اس کے بعد انھیں اپنی تعلیم ادھوری چھوڑنی پڑی ۔پس نو آبادیاتی دور میںجب پاکستان ایک آزاد اسلامی مملکت کی حیثیت سے دنیاکے نقشے پر اُبھرا تو یہاں حالات کی کایا پلٹ گئی ۔سید اعجاز علی رحمانی نے سال ۱۹۵۴میں پاکستان ہجرت کا فیصلہ کیا اور کراچی میں مقیم ہو گئے ۔کراچی پہنچ کر انھوں نے اپنی تعلیمی استعداد بڑھانے پر توجہ دی ۔ یہاں انھوں نے ادیب اور ادیب فاضل کا امتحان پاس کیا ۔جن دنوں وہ روزگار کی تلاش میں تھے انھوں نے مقامی اردو اخبار کے لیے قطعات لکھنے کا آغازکیا ۔کچھ عرصہ کے بعد انھیں لیاری ٹاؤن کراچی کے نواح میں واقع ابراہیم انڈسٹری عثمان آباد میں ملازمت مِل گئی ۔
سید اعجاز علی رحمانی نے اپنے عہد کے جن نابغۂ روزگار ادیبوں سے اکتساب فیض کیا ان میں قمر جلالوی ( ۱۸۸۷۔۱۹۶۸) اورفضا جلالوی شامل ہیں ۔ایک وسیع المطالعہ، زیرک ،فعال اور مستعد تخلیق کار کی حیثیت سے سید اعجاز علی رحمانی نے ہر صنف شاعری میںطبع آزمائی کی ۔حمد ،نعت ،غزل ،نظم،قطعات اور رباعی میں انھوں نے ا پنے اشہبِ قلم کی خوب جولانیاں دکھائیں ۔ ان کی دلی تمناتھی کہ اسلامی تاریخ کو منظوم صورت میں پیش کیا جائے ۔انھوں نے منظوم تاریخ ِ اسلام لکھنے کے کام کا آغاز کر دیا تھالیکن اسے پایہ ٔ تکمیل تک نہ پہنچا سکے ۔ان کی نعت گوئی اور نعت خوانی کی ہر طرف دھوم تھی ۔ وہ جب ترنم سے نعت پڑھتے تو سننے والوں پر وجدانی کیفیت طاری ہو جاتی ۔اپنی درج ذیل تصانیف سے انھوں نے اردو زبان و ادب کی ثروت میں اضافہ کیا:
اعجاز مصطفی،پہلی کرن،آخری روشنی ،کاغذ کے سفینے،افکار کی خوشبو ،غبارِ انا ، لہوکاآب شار ،لمحو ں کی زنجیر
اردو میں نعتیہ شاعری کے ابتدائی نقوش خواجہ سیدمحمد گیسو دراز بندہ نواز کے فرزند سید محمد اکبر حسینی کے کلام میں ملتے ہیں ۔ اس کے بعد بیدار ( بھارت ) سے تعلق رکھنے والے شاعرفخر الدین نظامی کی مثنوی ’’ کدم راؤ پدم راؤ ‘‘ میں نعتیہ کلام ملتا ہے ۔ ایک ہزار بتیس ( ۱۰۳۲ )اشعار پر مشتمل یہ مثنوی قدیم ترین (۱۴۲۱۔۱۴۳۵)دکنی مثنوی ہے ۔ اردو نعت گوئی کی سیکڑوںسال قدیم روایت کے منابع اسی مثنوی سے وابستہ ہیں ۔ تاریخ ِادب کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ ہر دور کی نعت میںاس مثنوی کے آثار ملتے ہیں :
خدا سنوریا مصطفی ﷺ سنوریا
خدا باصفامصطفی ﷺ سنوریا ( سنوریا: محبوب ) (1)
نعت گوئی کی اس روایت کومولانا کفایت علی کافی ؔنے استحکام بخشا ۔ مراد آباد( اتر پردیش،بھارت ) سے تعلق رکھنے والے حریت فکر و عمل کے اس مجاہد نے ۱۸۵۷کی جنگ آزادی میں غاصب برطانوی استعمارکے خلاف جد و جہد کی ۔نوآبادیاتی دور میں اس جری تخلیق کارکوبرطانوی استعمار نے سال 1858میں دار پر کھنچوادیا ۔مولانا کفایت علی کافیؔ کی نعتیہ شاعری سیداعجاز رحمانی کوبہت پسندتھی ۔
طفیلِ سرورِ عالم ہوا سار ا جہاں پیدا
زمین و آسماں پیدا مکیں پیدا مکاں پیدا
نہ ہوتا گر فروغِ نور پاک رحمت عالم
نہ ہوتی خلقتِ آدم نہ گلزارِ جناں پیدا
اردو کی نعتیہ شاعری کے محقق اورممتاز نعت گو شاعر امیر اختر بھٹی ( مصنف : توشۂ آخرت) کہا کرتے تھے کہ مولوی غلام امام شہیدؔکی نعتیہ شاعری کا مجموعہ ’’ گلزار خلیل ‘‘اردو نعتیہ شاعری کی روایت میں گراں قدر اضافہ ہے ۔ سید اعجاز علی رحمانی سمیت اُردو زبان کے نعت گو شعرا نے ہر عہد میںاس سے استفادہ کیا:
اے خوشا نام خداوندِ جلیل
جس سے آتش ہوئی گلزار خلیلؑ
مظہر ِ حق ہے محمد ﷺ کا نور
آفرینش کااُسی سے ہے ظہور
اردو شاعری کے ارتقا پر نظرڈالیں تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ ہر دورمیں اردو شعرا نے حمد اور نعت لکھ کر اپنے قلبی وروحانی جذبات کو زیب ِ قرطاس کیا۔ اپنی نعتیہ شاعری میں سید اعجاز علی رحمانی نے نعت کی سیکڑوں سال قدیم روایت کو زادِ راہ بنایا ۔ایک وسیع المطالعہ تخلیق کار کی حیثیت سے سید اعجاز علی رحمانی نے پاکستانی زبانوں کے علاوہ عربی اور فارسی نعت کابہ نظر غائر جائزہ لیا ۔وہ یہ جاننا چاہتے تھے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جن کے باعث برصغیر کی مقامی زبانوں کی نعتیہ شاعری میں کسی قدر تشنگی کا احساس ہوتاہے ۔وہ یہ بھی معلوم کرنا چاہتے تھے کہ عقیدت کے مظہر وہ کون سے عوامل اور تخلیقی روّیے ہیں جوعربی اور فارسی زبانوں کی نعتیہ شاعری کو منفرد حیثیت عطاکرتے ہیں ۔وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ عربی اور فارسی میں تخلیق ہونے والی نعتیہ شاعری اور بر صغیر کی مختلف زبانوں کی نعتیہ شاعری میں پائے جانے والے فرق کے پس پردہ ادبی اقدارکے بجائے قلبی وابستگی ،روحانی عقیدت اور کچھ عمرانی عوامل کارفرما ہیں ۔سید اعجاز علی رحمانینے اس جانب بھی توجہ دلائی کہ بعض ناقدین کی رائے میں عالمی ادب کی نعتیہ شاعری کی فکری منہاج میں پایا جانے والا فرق اپنی اصلیت کے اعتبار سے ادبی روایات کا فرق ہے ۔روایت کے بارے میں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ یہ ایک ایسا کام ہے جسے کوئی قوم یا گروہ سیکڑوں برس سے پیہم رو بہ عمل لا رہا ہو۔روایت کے بارے میں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اس کا آثار قدیمہ سے گہر ا تعلق ہے ۔یہی وہ تعلق ہے جو روایت کو لائق صدرشک و تحسین مقام عطاکرکے عصری آ گہی پروان چڑھانے میں معاون ثابت ہوتا ہے ۔نوآبادیاتی دور میں بر صغیر کا سب سے بڑا مسئلہ یہ رہاکہ یہاںجمالیات کا فلسفہ عنقا ہوتا چلا گیا حال آ نکہ جمالیات کو الٰہیات کے ایک اہم حصے کی حیثیت حاصل ہے ۔قوم مذہب سے متشکل ہوتی ہے اور جہا ںتک مذہب کا تعلق ہے یہ اعتقادات ،عبادات اوراخلاقیات کاگنجینہ ہے ۔پس نوآبادیاتی دور میں محققین نے پاکستانی نثر نگاروں ،حمد اور نعت گو شعرا با لعموم مسلمان ادیبوں کے تخلیق کردہ ادب پاروں اور دوسری زبانوں کے ادب کے مطالعہ پر توجہ مرکوز کر دی ۔ نعتیہ شاعری کے حوالے سے یہ مختلف ممالک میں تخلیق ہونے والے سیرتِ طیبہ اور نعتیہ ادب کا تقابلی مطالعہ نہیں ۔مشرقی ادبیات میں اس خطے کی مکین دوسری اقوم اور ملل سے تعلق رکھنے و الے ادیبوں کی ملی شاعری بالخصوص حمداور نعت کی اصناف میں ان کی خدمات کو نظر انداز کرنا حقائق سے شپرانہ چشم پوشی کے مترادف ہے ۔ سید اعجاز علی رحمانی کا خیال تھا کہ ہر ادب کی اساس حقیقت کے ایک خاص تصورپر ہوتی ہے ۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہر مذہب ،قوم اور ملک سے وابستہ ادیبوں نے نعت کی تخلیق میں عقیدت کامظاہرہ کیاہے۔وہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ پاکستانی زبانوں کے ادیبوں کو دنیاکی مختلف زبانوں میںتخلیق ہونے والی نعتیہ شاعری کے انجذاب پر توجہ دینی چاہیے ۔اس طر ح وہ جس فکری تونگری سے متمتع ہوں گے اس کے اعجاز سے پاکستانی ادبیات بالخصوص نعتیہ شاعری کی ثروت میں اضافہ ہو گا۔وہ دن دُور نہیں جب تخلیق ادب کا اہم ترین موضوع معاشرتی زندگی میں انسانوں کے باہمی تعلقات کے بجائے خالق اکبر ،محسن انسانیت ﷺ اور مخلوق کے ربط کے بارے میں ہو گا۔پس نوآبادیاتی دور میں قومی تشخص اور ملی اقدار کے بارے میں مثبت شعور و آ گہی پروان چڑھانے پر بہت کم توجہ دی گئی ۔سید اعجاز علی رحمانی نے اپنی نعتیہ شاعری میں تاریخی تناظر میں آفتاب ِ اسلام کی ضیاپاشیوں کے بارے میں لکھاہے :
ہر طرف تِیرگی تھی نہ تھی روشنی
آپ ﷺ آئے تو سب کہ ملی روشنی
بزمِ عالم سے رخصت ہوئیں ظلمتیں
جب حرا سے ہویدا ہوئی روشنی
لے کے سب اپنے اپنے سفینے چلو
گر اماں چاہتے ہو مدینے چلو
تربیت گاہ ِ سرکار میں دوستو
سیکھنے زندگی کے قرینے چلو
لے کے پیغام آئی ہے بادِ صبا
یادتم کو کیا ہے نبی ﷺ نے چلو
روح کے چاک طیبا میں سِل جائیں گے
جامہ ٔ زندگی اپنا سینے چلو
————————————
اوّل و آخر جس کی رسالت عرش کا جو مہمان بھی ہے
بعد ِ خدا وہ انسانوں میں سب سے بڑا اِنسان بھی ہے
باعث ِ رحمت ذِکرِ محمد ﷺ اسم ِ گرامی راحت جاں
مدحِ محمد ﷺ دِ ل کی تڑپ ہے اور یہی ایمان بھی ہے
محسنِ اعظم، رحمت ِ عالم، خلقِ مجسم ، حسنِ اتم
شاہ ِامم کے بعد بتاؤ اور کوئی انسان بھی ہے
دنیا میں ہم اور کسی کی کاہے کو تقلید کریں
پاس ہمارے سرورِ دیں کے قول بھی ہیں قرآن بھی ہے
اپنی خطا پہ ہو کے پشیماں دل سے اُنھیں آواز تو دے
ڈُوبنے والے بحرِ الم میں بچنے کا امکان بھی ہے
ہم بھی تو اعجاز ؔ سرِ فہرست ہیں ایسے لوگوں میں
کوئی عمل دامن میں نہیں اور جنت کا ارمان بھی ہے
زندہ اقوام اپنی درخشاں اقدار و روایات کی پاس داری کو سدا اپنا نصب العین بناتی ہیں ۔ان اقدار و روایات کامذہب ،تہذیب و ثقافت اور تمدن و معاشرت سے گہرا تعلق ہے ۔عقیدت ،روحانیت اور ذہانت کی اساس پر استوار نعت گوئی کی یہ عظیم الشان روایت تاابد دلوں کو مرکز مہر و وفا کرکے حریم کبریاسے آ شنا کرتی رہے گی۔یہ روایت ہی ہے کہ جب راعی نے للکار کر پکارا تو سار گلہ تھراگیا اور اس کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے سب افراد کھرااور کھوٹا الگ کرنے کے عمل میں معاون بن گئے ۔ سید اعجاز علی رحمانی نے پاکستانی زبانوں میں تخلیق ہونے والی نعتیہ شاعری اورادب کو قومی تشخص اور ملی شناخت کا موثر وسیلہ قراردیا ان کی نعتیہ شاعری میں پائی جانے والی روحانیت اور عقیدت قاری پر وجدانی کیفیت طار ی کر دیتی ہے ۔سید اعجاز علی رحمانی نے اپنے اسلوب میںجدت ،تنوع ،زندگی کی تمازت اور خلوص کے امتزاج سے روایت کو وسعت عطا کی ۔ان کا خیال تھا کہ درخشاں روایات کے استحکام کے لیے انھیںافکارِ تازہ سے مزین کرنا وقت کا اہم ترین تقاضاہے ۔
………………………………………………….
قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں بے عملی ،بزدلی ،دوں ہمتی ،ہوس اور خود غرضی نے بے حسی کو جنم دیاہے ۔ اپنی شاعری میںسید اعجاز علی رحمانی نے معاشرتی زندگی میں آنے والے شکست و ریخت کے موسم کے مسموم اثرات سے متنبہ کیا ہے ۔انھوں نے مفاد پرست مرغانِ باد نما کے قبیح کردارکوہدفِ تنقیدبناتے ہوئے ان کے مکر کی چالوں کا پردہ فاش کیاہے ۔آج کے دور میں خودستائی نے ایک مہلک متعدی مرض کی صور ت اختیارکر لی ہے ۔ایسے ابلہ جن کی کور مغزی اور بے بصری کا یہ حال ہے کہ وہ خورشید جہاں تاب کی ضیا پاشیوں سے بھی بے خبر ہیں وہ بونے بھی اپنے تئیں باون گزا ثابت کرنے پر تُل گئے ہیں ۔مادی دور کی لعنتوں کے باعث معاشرتی زندگی میں بے غیرتی ،بے ضمیری ،بے حیائی اور محسن کشی بڑھ گئی ہے ۔اس کے نتیجے میں آئینہ صفت حساس اہل درد سنگلاخ چٹانوں اور جامد و ساکت پتھروں میں زندگی کے دن پورے کرنے پر مجبور ہیں۔ذاتی منفعت کی خاطرارض ِ وطن اور اہلِ وطن کے مفادات کو پسِ پشت ڈال کو گل چھرے اُڑانے والے جہلا اور سفہانے عوام کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے ۔سید اعجاز علی رحمانی کی شاعری میں اس صورت حال کی لفظی مرقع نگاری کی گئی ہے ۔
جس نے چاہا ہمیں اذیت دی
اور خاموش ہو گئے ہم لوگ
ہوا کے واسطے اِک کام چھوڑ آیا ہوں
دیا جلا کے سرِ شام چھوڑ آیا ہوں
کبھی نصیب ہو فرصت تو اس کو پڑھ لینا
وہ ایک خط جو ترے نام چھوڑ آیا ہوں
نقش بر آب ہو گیاہوں میں
کتنا کم یاب ہو گیا ہوں میں
کیاکروں گا میں اب خوشی لے کر
غم سے سیراب ہو گیا ہوں میں
فنی محاسن
ذوقِ سلیم سے متمتع ایک قادر الکلام شاعرکی حیثیت سے سید اعجاز علی رحمانی نے اپنی شاعری میں صنائع بدائع کے بر محل استعمال سے حسن پیداکیاہے ۔ سید اعجاز علی رحمانی نے اپنی شاعری میں تلمیحات ،تراکیب ، مرکبات،تشبیہات اور استعارات کے استعمال سے حسن و دل کشی پیدا کی ہے ۔ فنی مہارت سے کی گئی یہ مرصع سازی اس قدردل کش ہے کہ تفہیم کے بغیر بھی یہ اپنی افادیت کالوہا منوا لیتی ہے ۔ اظہار و ابلاغ کے منفردانداز اور لسانی حسن وجمال سے لبریزیہ شاعری ایسی ساحری کا رُوپ دھارلیتی ہے جو ہرقلبِ پریشاں کوسکون سے متمتع کرتی ہے ۔اس شاعری کو مفاہیم اور مطالب کے اعتبار سے فنی محاسن نے جو نکھار عطا کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ اپنی تخلیقی فعالیت کو روبہ عمل لاتے ہوئے سید اعجاز علی رحمانی نے اخوت اور محبت کا پیغام دیا ہے ۔ان کی خواہش ہے کہ جبر،تعصب اورنفرت کی دیواروں کو تیشۂ حرف سے منہدم کر دیا جائے ۔اس شاعری میں دل پر اُترنے والے سب موسم جن میں جذبات ،احساسات ، حسرت و یاس،رجائیت ،اضطراب ،اُمید،وفا ،عہد و پیمان ،حق گوئی وبے باکی اور خلو ص و درد مندی شامل ہیں پوری شدت سے جلوہ گرہیں ۔ سید اعجاز علی رحمانی کا منفرد اسلوب جو افکارِ تازہ سے مزین ہے ایسا دھنک رنگ منظر نامہ پیش کرتا ہے جو قاری کو جہانِ تازہ میں پہنچا دیتاہے ۔
ہنسی لبوں پہ سجائے اُداس رہتاہے
یہ کون ہے جومرے گھر کے پاس رہتاہے ( تجاہلِ عارفانہ )
گزر رہاہوں میںسوداگروں کی بستی سے
بدن پہ دیکھیے کب تک لباس رہتاہے ( تجاہلِ عارفانہ )
لکھی ہے کس نے یہ تحریرریگِ ساحل پر
بہت دنوں سے سمندر اُداس رہتا ہے ( تجاہلِ عارفانہ )
اب کرب کے طوفاں سے گزرناہی پڑے گا
سورج کو سمندر میں اُترنا ہی پڑے گا ( حسن تعلیل)
فطرت کے تقاضے کبھی بدلے نہیں جاتے
خوشبو ہے اگر وہ تو بِکھرنا ہی پڑے گا (حسن تعلیل)
وہ ایک پل کی رفاقت بھی کیا رفاقت تھی ( تعجب)
جو دے گئی ہے مجھے عمر بھر کی تنہائی
تالا ب تو برسات میں ہو جاتے ہیں کم ظرف
باہر کبھی آپے سے سمندر نہیں ہوتا ( محاورہ )
ابھی سے پاؤں کے چھالے نہ دیکھو
ابھی یارو سفر کی ابتدا ہے ( فعل نہی )
رنگ موسم کے ساتھ لائے ہیں
یہ پرندے کہاں سے آئے ہیں ( تجاہلِ عارفانہ )
بیٹھ جاتے ہیں راہ رو تھک کر
کتنے ہمت شکن یہ سائے ہیں (حسن ِ تعلیل )
دھوپ اپنی زمین ہے اپنی ( تکرار )
پیڑ اپنے نہیں پرائے ہیں ( تضاد )
دشمنوں کو قریب سے دیکھا
دوستوں کے فریب کھائے ہیں ( تضاد )
ہم نے توڑا ہے ظلمتوں کا فسوں
روشنی کے بھی تیر کھائے ہیں (تضاد )
زندگی ہے اسی کا نام اعجازؔ
ہیں وہ اپنے جوغم پرائے ہیں (تضاد)
گلشن گلشن بھڑکایا ہے شبنم نے انگاروں کو (تکرار)
پھول نے پتھرکاٹ دیاہے ،ریشم نے تلواروں کو ( تضاد)
——————————————————————
قطعات
طمانیت کے ماحول میںتحلیل و تجزیہ کوبروئے کار لاتے ہوئیسید اعجاز علی رحمانی نے اپنے تجربات ،مشاہدات اور جذبات واحساسات کو اس بے ساختگی سے قطعات کے قالب میں ڈھالاہے کہ ان کی اثر آفرینی قارئین کے دلوں کومسخر کر لیتی ہے ۔دروں بینی کے مظہر یہ قطعات جذبات سے مضمحل اور نڈھال ہوکر ان کے سامنے سپر انداز ہونے کی راہ نہیں دکھاتے بل کہ بے عملی کو تحریک دینے والی سستی جذباتیت اور بیزاری سے نجات حاصل کر کے جہد و عمل پر مائل کرتے ہیں۔ افراتفری کے موجودہ دور میں ہوس نے نوع انساں کو انتشار کی بھینٹ چڑھا دیا ہے ۔ ہر طرف بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے ،اپنا اُلو سیدھا کرنے والے،جو فروش گندم نما ،ابن الوقت ،آستین کے سانپ اور بروٹس قماش کے عیار مسخروں،بھڑووں ،آدم خور بُھوتوں ،چڑیلوں ،ڈائنوں اور طوائفوں کا جھمکاہے ۔ سادیت پسندی کے روگ میں مبتلا مشکو ک نسب کے یہ سفہا اور اجلاف و ارزال محسن کُشی کا قبیح روّیہ اپنا کر ہمیشہ اہلِ ہنر کے در پئے آزار رہتے ہیں ۔ اِن سفید کووں ،کالی بھیڑوں،گندی مچھلیوں اورعفونت زدہ انڈوں کے باعث مسموم معاشرتی زندگی تباہی کے دہانے تک پہنچ گئی ہے ۔یہ ابن الوقت درندے جس تھالی میں کھاتے ہیں اُسی میں چھید کرتے ہیں اور اُسی شجر سایہ د ار کی شاخیں کاٹنے اور اس کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں جو کڑی دھوپ میں ان کے سر پر سایہ فگن رہتاہے ۔کسی معاشرے میں منافقت ،خست و خجالت ،انصاف کُشی او ربے حسی کا بڑھنا اس معاشرے کے وجود اور بقاکے لیے بہت بُرا شگون ہے ۔ پس نو آبادیاتی دور میںتیسری دنیا کے پس ماندہ ممالک میں چور محل میں جنم لینے والے ،کُوڑے کے ہر ڈھیر سے جاہ و منصب کے استخواں نوچنے اور بھنبھوڑنے والے اور چور دروازے سے گُھس کر اپنی جہالت کا انعام ہتھیانے والے سگانِ راہ نے سماجی اورمعاشرتی زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر،کلیاں شرر ،زندگیاں پُر خطر اورآ ہیں بے اثر کر دی ہیں ۔ ان لرزہ خیز اور اعصاب شکن حالات میں طلوع ِ صبح ِ بہاراں کا یقین کیسے کر لیا جائے ۔المیہ یہ ہے کہ ان چربہ ساز ،سارق اور کفن دُزد متفنی سفہاکی چیر ہ دستیوںاور خزاں کے سیکڑوں مناظر نے تمام منظر نامہ ہی گہنا دیا ہے ۔ سید اعجاز علی رحمانینے ان طالع آزما مرغانِ باد نما کے مکر کی چالوں کا پردہ فاش کرتے ہوئے لکھا ہے :
جن سے ہم کو روشنی درکار تھی
ان چراغوں سے بھی گھر جلنے لگے
اب شکایت دھوپ سے بے کارہے
اب تو سائے سے شجر جلنے لگے
—————————–
ہم کو معلوم ہے سحر ہو گی
ظلمتوں کا حصار ٹوٹے گا
جب تلک پتھروں کی زد میںہیں
آئینہ بار بار ٹُوٹے گا
————————–
چراغوں کی حفاظت کرتے کرتے
ہوا کا رخ بدلنا آ گیا ہے
کہاں تک آ گ برسائے گا سورج
ہمیں شعلوں پہ چلنا آ گیا ہے
——————————
یہ انتشار، یہ آ ندھی جو ہے سیاست میں
یہ اتحاد کا گلشن اُجاڑ دیتی ہے
وہ جس درخت کی گہری جڑیں نہیں ہوتیں
اُنھیں ذراسی ہوا بھی اُکھاڑ دیتی ہے
——————————————-
جانتے ہو جو آ گ کی فطرت
پھر نہ ہم سے کوئی سوال کرو
آگ کا کھیل کھیلنے والو
اپنے گھر کا بھی کچھ خیال کرو
———————————————-
اپنی تحریروں میں سید اعجاز علی رحمانی نے اس حقیقت کی جانب متوجہ کیا ہے کہ سادیت پسندی کے روگ میں مبتلا استحصالی عناصر پرانے شکاریوں کے مانند ہمیشہ نئے جال لے کر شکار گاہ میں پہنچتے ہیں اور کُھلی فضاؤں میں دانہ دُنکا چُگنے کے عادی طیور کو اسیرِ قفس رکھ کر لذتِ ایذا حاصل کرتے ہیں۔ عالمی سامراج کی سازش سے پس ماندہ اقوام کی آزادی بے وقار او رموہوم ہو کر ر ہ گئی ہے ۔ مغرب کی استعماری طاقتوں نے مشرق کے پس ماندہ ممالک میں اپنی نو آبادیاں قائم کر کے ان ممالک کی تہذیب و ثقافت ،فنون لطیفہ ،سماج اور معاشرت کے بارے میں گمراہ کُن تجزیے پیش کیے۔حقائق کی تمسیخ اور مسلمہ صداقتوں کی تکذیب مغرب کے عادی دروغ گو محققین کا وتیرہ رہا ہے ۔یہ سلسلہ اس وقت سے جاری ہے جب فرانس کے مہم جُو نپولین بونا پارٹ ( Napoleon Bonaparte)نے سال 1798میں مصر اور شام پر دھاوا بو ل دیا تھا یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ ان سابقہ نو آبادیات میںسلطانیٔ جمہور کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکا ۔ان ممالک کے حکمرانوں کے سر پر تو خود مختارحکومت کا جعلی تاج سجا دیا گیا ہے مگر ان کے پاؤں بیڑیوں سے فگار ہیں۔ سید اعجاز علی رحمانی نے اِس حقیقت کی طرف متوجہ کیا کہ روشنی کاتعلق چشم کی روشنی کے عکس سے ہے جب آنکھیں ہی بندکرلی جائیں تو نمودسحر کا امکان معدوم ہو جاتا ہے ۔ اس موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے سید اعجاز علی رحمانی نے لکھا ہے :
چڑھتا چاند اُبھرتا سورج اُن کو نظر کیا آئے گا
جن کی آ نکھیں دیکھ نہ پائیں عظمت کے میناروں کو
زد میں ہوائے دشتِ جنوں کی شہرِ خِرد کا موسِم ہے
سنگ اُٹھائے دیکھ رہاہوں آئینہ برداروں کو
کل بارش دریا کو چڑھا کر بستی تک لے آ ئی تھی
ہلکا سا سیلاب کا ریلا توڑ گیا دیواروں کو
چاند کی دھرتی بنجر دھرتی اپنی سوہنی دھرتی ہے
اس دھرتی نے رنگ دئیے ہیں سورج کو سیاروں کو
انساں کوکب راس آتی ہے ایک ذرا سی لغزش بھی
ہم نے سروں سے گرتے دیکھا عظمت کی دستاروں کو
اب کوئی طوفان ہمارا رستہ روک نہ پائے گا
ہم نے سفینے پھونک دئیے ہیں توڑ دیاپتواروںکو
لاکھ گراں گوشی کاہے موسِم اپنے کان کُھلے رکھنا
کون سُنے گاٹُوٹنے والے شیشوں کی جھنکاروں کو
فن کے تقاضے پورے کرنا سب کے بس کی بات کہاں
شہرِ ہنر میں بِکتے دیکھا بڑے بڑے فن کاروں کو
لاکھ کوئی کم زور ہو لیکن مت سمجھو کم زور ِ جاں
راہ گزر کی ر یت بھی اکثر پی جاتی ہے دھاروں کو
———————————————–
لاکھ سہی ہونٹوں پہ تبسم طوفاں دِل کے اندر ہے
میر اایک اک آنسو دریا میری آ نکھ سمندر ہے
اس کی خوشبو پھیل گئی ہے رنگ فضا میں بکھرے ہیں
وہ میرے گھر آیا ہے یا کوئی خواب کا منظر ہے
جا گا جب احساسِ سماعت مجھ کو یہ محسوس ہوا
گھر کے باہر شور کہاں ہے شور تو گھر کے اندر ہے
پھول کی نازک پتی سے جب کٹ سکتا ہے ہیرا بھی
سنگ زنو یہ بھول نہ جانا پتھر آ خر پتھر ہے
اپنوں سے بھی ڈر لگتا ہے دشمن تو پھر دشمن ہے
چھائی ہوئی احسا س پہ میرے اندیشوں کی چادر ہے
جھوٹ کی کالی دلدل سے میں نکلا تو اِحساس ہوا
سچائی کا سیدھا رستہ چلنا کتنا دُوبھر ہے
میرا شکستہ گھر بھی دیکھو شیش محل تو دیکھ چکے
اِک تصویر کے دو رخ ہیں وہ مندریہ پس مندرہے
سچ ہے یہ اعجاز ؔمقولہ نیکی کر دریا میں ڈال
جس کو میں نے ٹوٹ کے چاہاہاتھ میںاُس کے خنجر ہے
—————————————
جس بے حس معاشرے میں جاہل بھی اپنی جہالت کاانعام بٹورنے میں کامیاب ہو جائیں وہاں رونما ہونے والے واقعات کے سانحات کو کس نام سے تعبیر کیا جاسکتاہے ۔یہ وہ کٹھن مرحلہ ہے جو ستارہ شناس کی فہم سے بالا تر ہے ۔سید اعجاز علی رحمانی کی شاعری میں مفاد پرست استحصالی عناصرکی انسان دشمنی سے بیزار ی اور شدیدغم و غصے کے جذبات پائے جاتے ہیں ۔وہ موقع پرست اور مہم جو عناصر کی انسان دشمنی پر اپنے رنج و غم کا برملا اظہار کرتے ہیں ۔معاشرے کے مفلوک الحال طبقے سیسید اعجاز علی رحمانی نے ٹوٹ کر محبت کی ۔مصائب و آلام اور ابتلا و آزمائش سے سیراب ہو نے کے بعد یہ الم نصیب نقش بر آ ب ہو جاتے ہیں ۔غربت وافلاس کا بھاری بوجھ اپنے سر پر اُٹھائے افتاں و خیزاں موہوم منزلوں کی جانب بڑھنے والے مجبور وں کی کمر جُھک کر محراب کی صورت اختیار کر لیتی ہے مگر کوئی ان کا پرسان حال ہی نہیں ۔اپنی زندگی میں اذیتیں اورعقوبتیں برداشت کرنے والے الم نصیب انسان گراں گوشی کے موسم میں اپنے غم کدے میں روپو ش ہونے پر مجبور ہیں۔سید اعجاز علی رحمانی اپنی ذات میں ایک انجمن اور دبستان علم و ادب تھے ۔تیسری دنیا کے پس ماندہ ممالک کے غریب باشندوں کے مسائل پروہ اپنے رنج کا اظہار کرتے تھے ۔ ان ممالک کے باشندوں کے دِل سے احساسِ زیاں کے عنقا ہونے کو وہ ایک بہت بڑے المیے سے تعبیر کرتے تھے ۔ان کی دلی تمنا تھی کہ غریب ممالک میںمقیم قسمت سے محروم عوام کی زندگی میں حوصلے اور اُمید کی شمع فروزاں کرنے پر توجہ دی جائے ۔ان کے اسلوب کا تنوع ،نُدرت اور ہمہ گیری اُنھیں ایک جری ،بے باک،ہمہ جہت اور جامع الحیثیات تخلیق کار کے منصب جلیلہ پر فائز کرنے کا وسیلہ ہے ۔ایک بلند پایہ تخلیق کار کی حیثیت سے انھوں نے پوری دنیا کے مظلوم انسانوں کے ساتھ درد کا رشتہ استوار کر ر کھا تھا ۔اسی معتبر رشتے کو انھوں نے ہمیشہ علاجِ گردش ِ لیل و نہار قرار دیا۔ ان کی ادبی زندگی کا بہ نظر غائر جائزہ لینے پر یہ حقیقت کُھل کر سامنے آتی ہے کہ اُنھوںنے ایک ایسے مخلص اور دردمند انسان کی طرح زندگی بسرکی جس کے دِل میں سارے جہاں کا درد سمٹ آیا تھا۔ انسان دوستی ان کا اہم وصف تھا اور مظلوم انسانیت کے مصائب و آلام پر لکھتے وقت عجز و نیاز اور دیدۂ نم ان کی پہچان بن گئی۔ جبر و استبدادسے نفرت کرنے والے اس تخلیق کار کے ریشے ریشے میں انسان دوستی سما گئی تھی۔ انھوں نے جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے استحصالی عناصر کے مکر کا پردہ فاش کرنے میں کبھی تامل نہ کیا ۔ مفادپرست استحصالی عناصرکے کرتا دھرتا فراعنہ کے کاسۂ سر میں جو کبر و نخوت و رعونت بھری ہے اس کے خلا ف سید اعجاز علی رحمانینے جس جرأت کے ساتھ قلم اُٹھایا ہے وہ اس بات کی دلیل ہے وہ سدا حریت ِ ضمیر سے جینے کے آرزومند رہے ۔ پس نو آبادیاتی دور میں سیاسی بساط پر شاطر قیادت کیا چال چلتی رہی ہے اس کے بارے میں سید اعجاز علی رحمانینے لکھا ہے :
راہ بر سو گئے ہم سفر سو گئے
کون جاگے گا ہم بھی اگر سو گئے
گیسوئے وقت اب کون سلجھائے گا
بے خبر جاگ اُٹھے با خبر سو گئے
یہ ہمارے مقدر کا اندھیر ہے
جب بھی نزدیک آ ئی سحر سو گئے
مِٹ گیادِل سے کیا خوفِ دار و رسن
لوگ پھولوں پہ کیا سوچ کر سو گئے
جس حقیقت سے انکار ممکن نہیں
سو گئی قوم جب دیدہ ور سو گئے
اپنی بر بادیاں اپنے ہاتھوں ہوئیں
جا گنا تھا ہمیں ہم مگر سو گئے
بے گھروں کو تکلف سے کیا واسطہ
نیند آئی سرِ رہ گزر سو گئے
وہ گئے گھر کی رعنائیاں بھی گئیں
یو ں لگا جیسے دیوار و در سو گئے
تم تو اعجاز ؔ پھولوں پہ بے چین ہو
جن کو سونا تھا وہ دار پر سو گئے
————————————–
پس نوآبادیاتی دور میں پاکستان میں سیاسی اور معاشرتی حالات نے جو رخ اختیار کیا سید اعجاز علی رحمانی اس پر رنجیدہ رہتے تھے ۔وہ اکثر کہاکرتے تھے کہ ہمار ے اسلاف نے وفا ،خلوص ،دردمندی اور ایثارکے جوچراغ فروزاں کیے ہوس کے مسموم بگولوں نے انھیں گُل کر دیا ہے ۔جبر کی بھیانک تاریک رات کے خاتمے کے بعد یہ جلوۂ سحرہمیں راس نہ آ سکا۔استحصالی عناصرکی ریشہ دوانیوں کے نتیجے میںیاس و ہراس کا ماحول پیدا ہو گیا۔جبر کے ماحول میں مہیب سناٹے اور جان لیوا ظلمتیں شباب پر ہوتی ہیں جس کے نتیجے میں مظلوم انسانوں کی آرزوئیں مات کھا کر رہ جاتی ہیں ۔ وہ لوگ جوعہدِ خزاں میںبہار کی تمنا کرتے رہے بہار آنے کے بعد اپنی محرومی کو دیکھ کر حسرت و یاس کی تصویربن گئے ۔ جب گلشن میںبہار کی آمدآمد تھی تو گلوں کی عطر بیزیاں انھیں میسر تھیں جو شریک سفر ہی نہ تھے گلشن کو اپنے لہو سے سینچنے والے آبلہ پا باغبان خار ِمغیلا ں سے اٹے ہوئے صحرا میں در بہ در اور خاک بہ سر پھرنے پر مجبور کر دئیے گئے ۔
اپنے خونِ وفا میں نہائے ہوئے زخم اپنے بدن پر سجائے ہوئے
قاتلوں سے کہو اب نہ زحمت کریں ہم صلیب اپنی خود ہیں اُٹھائے ہوئے
ہر زباں بے سخن ہر جبیں پر شکن وحشت رقص میں انجمن انجمن
کتنا غم ناک ماحول ہے شہر کا اِک زمانہ ہوا مسکرائے ہوئے
معتبر کیاہے اور کیا ہے نا معتبراپنا اپناخیال اپنی اپنی نظر
لوگ کانٹوں سے بچتے ہیں گل زارمیں ہم گلوں سے ہیں دامن بچائے ہوئے
ایک کیاسو نشیمن ہوں میرے اگر وہ بھی قربا ن گل زار کے نام پر
آشیاں کا نہیں غم مجھے غم یہ ہے پھول شعلوں کی زد میں ہیں آئے ہوئے
سطح دریا ہے چشمِ تماشائی میں جھانکتا کون ہے دل کی گہرائی میں
اشک آنکھوں میں اس طرح محفوظ ہیں جیسے موتی صدف ہو چھپائے ہوئے
رہ گزاروں کے سب نقش معدوم ہیں پیڑ ہیں بھی تو سائے سے محروم ہیں
جن کو آتا ہے شیشہ گری کا ہنر سنگ ہاتھوں میں ہیں وہ اُٹھائے ہوئے
ساغر ِ شب کو لبریز کر دیں گے ہم صبح کو رنگ آ میز کر دیں گے ہم
ضد پہ قائم ہیں اپنی ہوائیں اگر مشعلِ جاں ہیں ہم بھی جلائے ہوئے
ہے اسی شہرکا نام شہرِ طرب لوگ بھی ہیں عجب شہر بھی ہے عجب
پیار ہونٹوں پہ ہے پھول ہاتھوں میں ہیں آستیں میں ہیں خنجر چھپائے ہوئے
دِل کی باتوں میں ہر گز نہ آ ئیں گے ہم اب فریب ِ تبسم نہ کھائیںگے ہم
زندگی بھر کا اعجازؔ ہے تجربہ دوست دشمن ہیں سب آ زمائے ہوئے
انسان شناسی میںسید اعجاز علی رحمانی کومہار ت حاصل تھی ۔ انھیں اس بات کا شدت سے احساس تھاکہ جابر قوتوں نے اپنے مذموم مقاصدکے حصول کے لیے مظلوم انسانوں کو قلعۂ فراموشی میں محبوس کر د یا ہے جہاں سکوت ِ مرگ طاری ہے ۔اپنی شاعری میں انھوں نے کم ظر ف درندوں اور سادیت پسندی کے مہلک مرض میں مبتلا اہلِ جور پر کڑی نکتہ چینی کی ہے ۔انھوں نے واضح کیاہے کہ ایسے اجلاف و ارذال کی مثال گندے پانی کے جوہڑ کی سی ہے جس میں برسات کا پانی کھڑا رہتاہے ۔اس جوہڑ سے عفونت و سڑاندکے بھبھوکے اُٹھتے ہیں۔انھیں چاہیے کہ وہ کھلے سمندرکو دیکھیں جوکبھی آ پے سے باہرنہیں ہوتا۔ایک حساس تخلیق کارکی حیثیت سے سید اعجاز علی رحمانی نے سیاسی ،سماجی اور معاشرتی زندگی کے سب نشیب و فرازقریب سے دیکھے ۔بوالہوس موذی اس قدر سفاک ہیں کہ بے بس و لاچارانسانیت پر کوہِ ستم توڑنے میںاُ نھیں کوئی عار نہیں۔آج کے دور میں ہر فرد کاجولیس سیزر کے مانند کسی نہ کسی بروٹس یاآستین کے سانپ سے پالا پڑتا ہے ۔
یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ موت ہمیشہ زندگی کے تعاقب میں رہتی ہے مگر بعض ہستیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جوموت سے خوفزدہ نہیں ہوتیں ۔انھیں معلوم ہوتاہے کہ موت تو محض ایک ماندگی کا وقفہ ہے ۔اس سے آگے متعدد دور فلک آنے والے ہیں ۔سید اعجاز علی رحمانی نے انجمن ِخیال سجا کر بھر پور زندگی بسر کی۔ ان کی زندگی کا ہر لمحہ عشق رسول ﷺ کی روح پرور فضا میں گزرا۔انھیں عدم کے کُوچ کی فکر تو رہی مگروہ موت کو ایک ایسی اٹل حقیقت سمجھتے تھے جو تمام مصائب و آلام کے خاتمے کا پیغام لاتی ہے ۔ توحید ورسالت کی محبت سے سر شار ایسے جلیل القدرانسان کبھی نہیں مرتے ۔ان کی علمی و ادبی خدمات کی بنا پر ان کا دوام جریدۂ عالم پرثبت ہوجاتاہے ۔ ایسے نعت گو شاعرکی وفات کے بعد بھی روحانیت اور عقیدت کا سفر جاری ر ہے گا ۔نہاں خانہ ٔ دِل میں ان کی عطر بیز یادیں ہمیشہ محفوظ رہیںگی۔
—————————————————————————————————————————————————————-
مآخذ
(1)جمیل جالبی ڈاکٹر ( مرتب ) : مثنوی کدم راؤ پدم راؤ ،جے کے آفسٹ پریس دہلی، نظر ثانی شدہ ایڈیشن ،1979، صفحہ 71
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...