اجل کے بے رحم ہاتھوں نے ایک چرغ اور گُل کر دیا ۔سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑے اردو اور پنجابی زبان کے اس کوہ پیکر تخلیق کار کو بہالے گئے جو گزشتہ چھے عشروں سے بڑے انہماک اور بے باکی سے تیشہء حرف سے فصیلِ جبر کو منہدم کرنے میں مصروف تھا۔ ستائش اور صلے کی تمناسے سدا بے نیاز رہنے والا اور جابر سلطان کے سامنے کلمہء حق کہنے والا وہ جری تخلیق کار اب ہم میں نہیں رہا جس نے حرف ِ صداقت لکھنے کی اس عظیم الشان روایت پروان چڑھایا جو پاکستانی ادبیات کا امتیازی وصف ہے ۔فطرت کے مقاصد کی نگہبانی کرنے والا حریتِ فکر کا مجاہد اور حریتِ ضمیرسے زندگی بسر کرنے والا مردِ کوہستانی نور زماں ناوک اٹھائیس جون ۲۰۱۵کی شام ہماری بزمِ وفا کو سوگوار چھوڑ کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار گیا۔اس شامِ الم کے ڈھلتے ہی درد کی مسموم ہوا چلنے لگی جس نے بزمِ ادب سے وابستہ تما م افراد کو دل شکستہ کر دیا ہے۔یکم دسمبر ۱۹۴۸کو تلہ گنگ (پنجاب۔ پاکستان)سے طلوع ہونے والا پاکستانی زبانوں کے ادبیات کا یہ تابندہ ستارہ اجل کے بے رحم بگولوں سے بجھ گیا۔تلہ گنگ کے شہر خموشاں کی سنگلاخ زمین نے پاکستانی زبانوں میں تخلیقِ ادب کے اُس آسمان کو اپنے دامن میں چھپا لیا جس نے پاکستان کے مظلوم و محروم پس ماندہ طبقے کو آلامِ روزگار کی تمازت سے محفوظ رکھنے کے لیے قلم بہ کف مجاہد کا کردار ادا کیا ۔ اس کے پس ماندگان میںایک بیوہ ،سات بیٹیاں اور دو بیٹے شامل ہیں۔وہ اپنی پانچ بیٹیوںکے ہاتھ پیلے کر چکا تھا اور اس کے ایک بیٹے کی شادی بھی ہو چکی تھی ۔وہ جری تخلیق کار جس نے ہمالیہ ہوٹل تلہ گنگ کے نواح میں اپنی کٹیا میں بزمِ ادب سجا رکھی تھی اب ہم سے بہت دُور اپنی الگ دنیا بسا چکا ہے۔نور زماں ناوک ایک وسیع المطالعہ تخلیق کار تھا جسے پاکستان کی تمام علاقائی زبانوں کے علاوہ اردو ،عربی ،فارسی ،ہندی اور بنگالی زبانوں پر دسترس حاصل تھی۔اس نے عالمی کلاسیک کے تراجم کا بڑی توجہ سے مطالعہ کیا اور ان سے گہرے اثرت قبول کیے۔
نورزماں ناوک نے اپنی اولاد بالخصوص اپنی بیٹیوں کی تعلیم و تربیت پر بہت توجہ دی ۔ وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ اس عالم پیری میں جب میرے اعضا مضمحل ہوگئے ہیں اور عناصر میں اعتدال عنقا ہے میری بیٹیاں میرے لیے ایساعطیہ خداوندی ثابت ہوئیں ہیں جن کے خلوص،درد مندی اور بے لوث محبت نے مجھے خود اپنی نظر وں میںمعززو مفتخر کردیا۔شادی سے پہلے میرا بیٹا بھی بہت مودب اور سعادت مند رہا لیکن جب میںاس کی دلہن گھر میںلایا تو اس کی عقیدت ، مروت اور احترام میں واضح کمی محسوس ہوئی لیکن میری بیٹیاں شادی کے بعد بھی اسی طرح حسن سلوک اور احسان روا کھتی ہیں ۔ وہ میرے گھر آنگن سے چڑیوں کی طرح پروازکرکے اپنا نیا آشیانہ بسا چکی ہیں لیکن ہم ضعیف والدین کے دل میں ان کی سعاد ت مندی ، حیا اور عفت و عصمت کی یادیں ہمارے لیے حوصلے اور راحت کا وسیلہ ہیں۔ وہ اس بات پر خدا کا شکر ادا کرتا کہ اس کی پانچ بیٹیاںجو اس کی گھر میںمحض بیٹیاںتھیں اوران کا میکے میں چڑیوں جیسا چنبہ تھا، جب وہ اپنے سسرال پہنچیں تووہ اپنے اپنے گھر کی مالکن بن گئیں اور اپنے آشیانے بناکراس میں سکون سے زندگی بسر کر رہی ہیں۔ ا ن کے گھر کے آنگن میں اللہ کریم کے فضل وکرم سے پھول کِھل اُٹھے جن کی عطر بیزی سے والدین کا قریہء جاں مہک اُٹھا۔ اب وہ اپنی اولاد کی تعلیم و تر بیت میں مصروف ہیں اور اپنے گھر کو جنت کانمونہ بنادیا ۔یہ ہماری تر بیت کا اعجاز ہے کہ ہماری بیٹیا ں آج بھی اپنی ماں کے نقش قدم پر چل رہی ہیں اور ہمیں ان کے گھر سے ٹھنڈی ہوا آتی ہے تو د ل کی کلی کھل اٹھتی ہے ۔ اس کا خیال تھاکہ بچہ اس عالم آب و گل میں آنکھ کھولتا ہے تو والدین اس نو نہال کو اس کی زند گی عطا کر تے ہیںلیکن وقت گزرنے کے سا تھ بچے کے والدین اپنی زندگی بھی اپنی اولاد پر وار دیتے ہیں۔ والدین کے اسی ایثار کی وجہ سے والدین کے ساتھ احسان کرنے کی تلقین کی جاتی ہے ۔ تعلیم نسواں کو اس نے معاشرتی اور سماجی ترقی کے لیے نا گزیر قرار دیا ۔اپنی بیٹیوں کی پیدائش کو وہ ہمیشہ اللہ کریم کی رحمت سے تعبیر کرتا۔اس نے اپنی دلی کیفیات کا اظہارکرتے ہوئے کہاتھا:
عطا ہوا میرے آنگن کو غول چڑیوں کا
بہ طور ِ خاص مجھے رحمتوں نے گھیرا ہے
نور زماں ناوک جن ممتاز معاصر ادیبوں سے متاثر تھا ان میں استاد دامن،خضر تمیمی،چراغ مولائی،سید ضمیر جعفری،کرنل محمد خان،منشا یاد،ڈاکٹر نثار احمد قریشی،رحیم بخش شاہین،نظیر صدیقی اور حسرت کاس گنجوی شامل ہیں۔ ڈاکٹر نثار احمد قریشی اولاد نرینہ سے محروم تھے لیکن ان کی سعادت مند بیٹیوں نے ان کا نام روشن کیا اور علم و ادب اور طب و سائنس کے شعبوں میںنمایاں کامیابیاں حاصل کیں ۔وہ بھی بیٹیوں کی تربیت کو اہم قرار دیتے اور بیٹیوں کو اللہ کریم کی ر حمت سے تعبیر کرتے تھے۔ اسی موضوع پر میاں والی شہر(پنجاب۔پاکستان) سے تعلق رکھنے والے نورزماں ناوک کے دیرینہ رفیق اور معتمدساتھی محمد محمود احمد نے بھی اپنے جذبات کو نہایت موثر انداز میںشعرکے قالب میں ڈھالا ہے۔نور زماں ناوک محمد محمودداحمدکے اسلوب کے شیدائی تھے اوران کے اس شعرکو اپنے حسب ِحال قرار دیتے تھے:
بیٹیاں سب کے مقدر میں کہاں ہوتی ہیں
گھر خداکو جو پسند آئے وہاں ہوتی ہیں
اپنی گُل افشانیء گفتار سے نور احمد ناوک ہر محفل کو کشت زعفران میں بدل دیتا ۔وہ جب بولتا تو اس کے منہہ سے پُھول جھڑتے اورسامعین اس کی باتوں کے سحر میں کھو جاتے۔ بعض اوقات جب وہ ترنگ میں آتا تو اپنے دبنگ لہجے میںمقفیٰ اور مسجع نثر پر مشتمل ایسا دل کش و حسین پیرایہء اظہار اپناتاکہ اس کی باتوں سے سماں بندھ جاتا۔سامعین یوں محسوس کرتے کہ گویاالفاظ دست بستہ اس کے حضور کھڑے ہیںاور وہ موقع ،محل اور موضوع کی مناسبت سے ان ا لفاظ کے بر محل استعمال سے اس طرح تزکیہ نفس کرتا ہے کہ اس کی گفتگو قلب اور روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر جانے والی اثر آفرینی سے مزین ہو کر سنگلاخ چٹانوں اور جامد و ساکت پتھروں کو بھی موم کر کے اپنی بے پناہ اثر آفرینی کا لوہا منو ا لیتی ہے۔ اگرچہ وہ کم گو تھا لیکن اس کی مختصر بات بھی گہری معنویت کی حامل ہوتی تھی ۔اس کے اسلوب کے مداحوں میں غفار بابر ،نور احمد ثاقب،اقتدارواجد ، دیوان الیاس نصیب،اللہ دتہ سٹینو،میاں اقبال زخمی،آصف خان،احمد حسین قریشی،سمیع اللہ قریشی،گدا حسین افضل،مہر بشارت خان،امیر اختر بھٹی،غلام علی خان چین،راجا رسالو،سبط الحسن ضیغم، صابر کلوروی ،شفیق الرحمٰن ،شریف خان ،رام ریاض ،افضل توصیف،فضل بانو،خاطر غزنوی،صابر آفاقی،انعام الحق کو ثر، محمد محموداحمد،فیض لدھیانوی،ارشادگرامی ،بشیر سیفی ، کبیر انور جعفری ،سیف زلفی ،سید اختر حسین،دلدا ر پرویز بھٹی اور محمد بخش گھمنانہ کے نام قابل ذکرہیں۔غفار بابر کا کہنا تھا کہ نور زماں ناوک نے اس مسحور کُن انداز میں اپنے دِل کی بات لبوں پر لاتا کہ اس کے صاحب اسلوب تخلیق کار ہونے کے بارے میں سب متفق ہو جاتے اور اسے داد و تحسین سے نوازتے۔غفار بابر نے ایک ادبی نشست میں اپنی یاد داشت پر انحصار کرتے ہوئے نور زماں ناوک کے انداز گفتگو کی جو کیفیت بتائی وہ ذرا سنیے اور سر دھنیے۔ چُولستان کاایک چربہ ساز ،سارق اور کفن دُزد متشاعر جو خود کو نعمت خان کلا نونت کا پوتا ظاہر کرتااور جس کے دماغ کی چُولیں ڈھیلی ہو چُکی تھیں ادبی حلقوں کے لیے بلائے بے درماں بن چکا تھا۔یہ گُھس بیٹھیا ہر ادبی محفل میں اپنے ساتا روہن کے ہم راہ بِن بُلائے پہنچ جاتا اورنظم و نثر میں قافیہ پیمائی ، تُک بندی اور بات چیت میں مہمل حاشیہ آرائی سے سامعین کو دِق کرتا تھا۔لوگ اس متفنی کو چُلو میں اُلو بناتے اور وہ چُلو میںپانی بھر کر اس پانی میںغواصی کے لیے سد ا اُدھار کھائے بیٹھا رہتا۔ یہ جعل ساز جید جاہل ابلہ علم و ادب کی سنجیدہ باتیں سُن کر دُور کی کوڑی لانے کے لیے بے تاب رہتا اور خودستائی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتا۔ اس کی بے بصری ،کور مغزی اور ذہنی افلاس کا یہ حال تھا کہ یہ بونا خود کو باون گزا سمجھنے لگا اور سنجیدہ ادیبوں کی تضحیک اس کا وتیرہ بن گیا۔ ایک مرتبہ بھری بزم میںکفن پھاڑ کر یوں ہرزہ سرا ہوا :
’’ تخت و کلاہ و تاج کے سب بکھیڑے،سب جھگڑے اور جھیڑے،خواہ وہ دُور ہوں یا نیڑے،کون ان تنازعات کو سہیڑے، سیلِ زماں کے تھپیڑیسب کچھ بہا کر لے جاتے ہیں۔آلامِ روزگار کے مہیب بگولے ہمارے گنجِ نہاںکے اوپر پر تولے یوںچھائے کہ بڑے بڑے بڑ بولے تھر تھرائے اور سب کا دِل گھبرائے۔ وقت کے گرداب کے عذاب نے سب رشتے ناتوں کے بلند نخل اس طر ح جڑسے اکھیڑے کہ نہ رانجھے رہے نہ کھیڑے۔یہاں تک کہ انسان قبروں میں جا سمائے کوئی بدرقہ ساتھ نہ جائے، پیٹ بھر کے کھائو پھجے کے پکائے ہوئے سری پائے ۔جس کو قولنج کا عارضہ ہو وہ کھائے ہر ڑ اور بہیڑے ۔اندھیری گو ر کے تصور سے کلیجہ منہہ کو آئے اورکہیں سکون نہ پائے ۔ میرا ہر مداح پُوتوں پھلے اور دودھوں نہائے ۔جہاں سلاطین کے نرم و نازک اجسام ملخ و مُور کے جبڑوں میں آ گئے تو سب کے سینے حسرتو ں سے چھا گئے اورحشرات نے ان ننگِ اسلاف فرعونوں کے بدن کے بخیے اُدھیڑے۔جو بھی میرے کمالِ ہنر کو نہیں مانیں گے،اُن کے غرق ہو ںگے بیڑے۔جس کے جی میں آئے وہ میرے سامنے اپنے دل کے پھپھولے پھوڑے حاضرین کو جھنجھوڑے،میرے دل کے ساز چھیڑے توپھر دیکھے کہ میں کس طرح کرتا ہوں سب نکھیڑے۔‘‘
’’بہت ہو چُکی !کب تک اپنے منہہ میاں مٹھو بنتے رہو گے؟‘‘ نورزماں ناوک نے اس مجہول الاحوال ابلہ کی لا ف زنی پر اسے ٹو کتے ہوئے کہا’’وجہی سے بھی قدیم زمانے کی اُردو بول کر مت ڈالو سننے والوں کی آنکھوں میںتریڑے۔‘‘
یہ سنتے ہی سب حاضرین کھلکھلا کر ہنسنے لگے۔
اپنے بارے میں یہ تاثرات سنتے ہی وہ متشاعر وہاں سے تین پانچ کرتا ہوا نو دو گیارہ ہو گیا اور ہنہناتا ہوا ایسے غائب ہوا جیسے گدھے کے سر سے سینگ ۔جاتے وقت وہ اپنے سُو جے ہوئے کان سہلا رہا تھا اور کریہہ چہرہ چُھپا رہا تھا،اُس کی یہ ہئیتِ کذائی دیکھ کر سامعین میں سے ایک شخص نے بر ملاکہا ’’معلوم ہوتا ہے اس جعلی ادیب کو نکل آئے ہیں سخت کن پیڑے۔‘‘
زندگی کی نا ہمواریوں ،تضادات ،بے اعتدالیوں اور کجیوں کے بارے میں ہمدردانہ شعور کی آئینہ دا ر نور زماں ناوک کی فکری اور فنی بصیرت کی مظہر ا س قسم کی خندہ آور باتیں ادبی محفلوں میں روز کا معمول تھا۔اس کی باتیں سن کر سامعین خوب حظ اُٹھاتے تھے۔اپنے آنسو ہنسی کے خوش رنگ دامنوں میں نہاں کرنا اور اپنے غم کا بھید کسی پر نہ کھولنا نور زماں ناوک کا شیوہ تھا۔
تلہ گنگ کا صو مالیہ ہوٹل اپنے سستے اور لذیز کھانوں کی وجہ سے پورے ملک میں مشہور ہے۔ اس ہوٹل کا ضعیف اور نحیف خانساماں جو نصف صدی سے یہاں کام کر رہا ہے غمِ دوراں سے ہارا گور کنارے پہنچ کر بھی زندہ دلی ،ضلع جگت اور پھبتی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ اس ہوٹل کے نواح میں کچھ عرصہ نور زماں ناوک کی رہائش رہی۔ فارغ وقت میں نور زماں ناوک اپنے احباب کے ساتھ اسی ہوٹل میں آ جاتا اور ایک ادبی نشست ہو جاتی۔اس ہوٹل کی چائے کا خاص ذائقہ ہے جس کی وجہ سے ڈرائیور یہاں رک کر چائے پی کر تھکان سے نجات حاصل کرتے ہیں۔صومالیہ ہوٹل کے سامنے ایک بہت وسیع میدان ہے جو کھیلوں اور گھڑ دوڑ کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ہر سال مارچ کے مہینے میں جشن بہار کے موقع پر اس کُھلے میدان میںخوب چہل پہل ہوتی ہے ۔تھر کے علاقے سے ریگستانی سرکس بھی ہرسال یہاں پہنچتا ہے ۔اس سرکس میں ہاتھی ،گینڈا ،دریائی گھوڑا ،بڑے بڑے چُغد، شِپر،کرگس ،پانچ ٹانگوں والا خچراور اُلو بھی ہوتے ہیں۔دیہی علاقوں کے مکین ان عجیب الخلقت جانوروں کو دیکھنے کے لیے جو ق در جوق سرکس میں پہنچتے ہیںاور پچاس روپے کا ٹکٹ خرید کراپنی زندگی میں پہلی بار ان عجیب الخلقت جانوروں کو دیکھ کر بے حد خوش ہوتے ہیں۔ صومالیہ ہوٹل کے خانساماں کا ایک یتیم بھتیجا نواحی گائوں میں رہتا تھا ۔ مفت خور اور لیموں نچوڑ قماش کا یہ نوجوان مفت کی روٹیاں توڑتا اور کوئی کام نہ کرتا ۔ورزش اور جسمانی مشقت نہ کرنے اور ڈٹ کر مرغن غذائیں کھانے کی وجہ سے یہ نوجوان پُھو ل کر کُپا ہو گیا اورسفر کرنے کے قابل بھی نہ رہا اور اپنے گھر تک محدود ہو کر رہ گیا۔اس نوجوان نے اپنی ماں سے سرکس دیکھنے کی فرمائش کی ۔ صومالیہ ہوٹل کے بوڑھے خانساماں نے بہت بڑی توند والے اپنے بے حد فربہ نوجوان بھتیجے کی فرمائش کو ٹالنا اس لیے مناسب نہ سمجھا کہ کہیں وہ یتیم نوجوان احساسِ محرومی کا شکار نہ ہو جائے۔ کار تو اس مقصد کے لیے بے کار تھی کیوں کہ وہ اس دیو پیکر نوجوان کی کاٹھی کے بوجھ کو سہار نہ سکتی تھی ۔مجبوراًایک ٹریکٹر اور ٹرالی کا انتظام کیا گیا اورنوجوان کو اٹھاکر اس میں ڈال کر سرکس میں ہاتھی ،گینڈااور دریائی گھوڑا دکھانے کے لیے صومالیہ ہو ٹل میں پہنچا دیا گیا ۔اتفاق سے نور زماں ناوک کا وہا ں سے گزر ہو ا جسے ان باتوں کو کوئی علم نہ تھا ۔ صومالیہ ہوٹل کے ضعیف خانساماں کے بھتیجے کو پہچان کر اس نے خانساماں سے پوچھا :
’’آج کس لیے اس نوجوان کو یہاںآنے کی تکلیف دی ہے ؟‘‘
خضاب آلودہ ،معمر اور جہاں دیدہ خانساماں،جس کی بینائی کم زور ہو چکی تھی اور ضعیفی سے مضمحل عناصر میں اعتدال عنقا تھا ۔ضعف پیری اور رعشے کے باعث اس کا سارا جسم کانپ رہا تھا ۔اس نے نور زماں ناوک کو پہچان کر آنکھیں ملتے ہوئے کہا ’’ گزشتہ ماہ میںنے اپنی نوجوان بیوہ پڑوسن سے عقد چہارم کر لیا ہے یہ نوجوان میری نئی اہلیہ کی تیسری شادی سے ہے ۔اس کی ماں نے مجھے حکم دیا ہے کہ یہ ہاتھی ،گینڈا اور دریائی گھوڑا دیکھنے کا تمنائی ہے اس کی خواہش کا احترام کیا جائے اور اسے سرکس دکھایا جائے۔ آج شام اسے ریگستانی سرکس میں یہ جانور دکھانے کاارادہ ہے۔‘‘
نورزماں ناوک نے بر جستہ کہا ’’ خود کردہ را علاجے نیست ،آپ اپنی زندگی کی شام کو صبحِ بہار میںبدلنے کے سرابوں میں اُلجھ گئے ہیں اور خود اپنی ذات کو عذابوں میں ڈال رکھا ہے لیکن آپ نے ناحق اس نوجوان کو مشکلوں میںڈالا اور اسے سفر کی صعوبت برداشت کرنا پڑی ۔اگر آپ ہاتھی ،گینڈے اور دریائی گھوڑے کو اس نوجوان کی جسامت اور اپنی رومانوی شخصیت سے آگاہ کر دیتے تو یہ سب عجیب الخلقت جانور اس قدر حیرت زدہ ہوتے کہ دُم دبا کر اورتھوتھنی جُھکاکر آپ دونوں کو دیکھنے کے لیے آپ کے درِ عسرت پر پہنچ جاتے اور واپسی پر اس قدر خجل ہوتے کہ کسی کو منہہ دکھانے کے قابل نہ رہتے اور کہتے پھرتے کہ جس دیو کے آگے پہاڑ بھی پست ہوا س کے آگے ہماری حقیرجسامت کیا حیثیت رکھتی ہے۔سینگ کٹا کر بچھڑوں میں شامل ہونے والے بڈھے کھوسٹ ڈھگوں سے بے تعلقی اور بیگانگی مناسب نہیں بل کہ یہ دیکھنے کی چیز ہیں انھیں تو بار بار دیکھنا چاہیے۔‘‘
صومالیہ ہوٹل کا نوجوان جاروب کش جس کا باپ تسمہ کش تھا بھری دنیا میں مجرد زندگی سے عاجز آکر ایک گونہ بے خودی کی خاطربھرے سگریٹ کا کش لگا کر بولا’’زندگی کشا کش میں بوڑھی گھوڑی لال لگام کی بات تو سُنی تھی لیکن آج تک بوڑھا خچر لال لگام کا قصہ کبھی نہیں سنا۔اس پرانے بادہ کش خانساماں نے ہوس اورجنس و جنوں کی جونئی خو نچکاں حکایت رقم کی ہے اس کی شکایت ہم کس سے کریں۔اس کی آنکھوں میں توجنبش نہیں لیکن اس کے جسم کا دم خم دیکھو کہ خم ٹھونک کر میدانِ عشق میںجان کی بازی لگانے بے خطر کُود پڑا۔ایسے شخص کو تو سرکس میں سب کو دکھانا چاہیے۔‘‘
ایک پیٹونوجوان کی بسیارخوری اور غیر معمولی فربہی اورایک ایسا معمر خانساماں جو چراغِ سحری تھا ، جب وہ سینگ کٹاکر بچھڑوں میں شامل ہونے کی مجنونانہ کوشش کرکے خود تو تماشا بنا دیتا ہے تو اس کے جنسی جنون اور آشفتہ سری پر یہ طنز سُن کر سب زیرِ لب مسکرانے لگے۔
پاکستانی زبانوں کے ادب سے نور زماں ناوک کو گہری دلچسپی تھی۔اس نے مست توکلی،قلندر مہمند،شاہ عبداللطیف بھٹائی،رحمٰن بابااور متعدد شعرا کا کلام نہایت توجہ سے پڑھا اور اس سے گہرے اثرات قبول کیے۔پنجابی زبان و ادب کے ارتقا کے لیے نور زماں ناوک نے جس قدر محنت اور لگن کا مظاہرہ کیا وہ پنجابی ادب کی تاریخ میںآبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے ۔وہ اردو اور بالخصوص پنجابی کلاسیکی ادب کاشیدائی تھا،اس نے سلطان باہوؒؒؒؒ،شاہ حسینؒ،بلھے شاہؒ،وار ث شاہ اورمیاں محمد بخش کے کلام کا تجزیاتی مطالعہ کیا اور اس سے مستفید ہونے کی کوشش کی۔ نور زماں ناوک کی پنجابی شاعری کا مجموعہ ’’دو گُھٹ پانی‘‘شائع ہو چکا ہے،جسے پنجابی ادب کے شائقین کی طرف سے زبردست پذیرائی ملی۔ اس کی شاعری کا یہ مجموعہ امر تسر اور جا لندھر میں بھی مقبول ہوا اور اسے گرُ مکھی کے قالب میں ڈھالا گیا۔ پنجابی ادب ،پنجابی ثقافت اور پنجابی لوک گیتوں اور موسیقی کی ترویج و اشاعت پر اس نے بہت توجہ دی ۔لوک ورثہ کے اہل کار اس کی کاوشوں کوقدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ عبدالغفور درشن نے نور زماںناوک کو پنجابی تہذیب و ثقافت کا ترجمان قراردیا۔اسے پٹھانے خان،عنایت حسین بھٹی ،عالم لوہار ،سائیں اختر حسین،خمیسو خان ،استا دجُمن،مائی بھاگی، زر سانگا،فیض محمدبلوچ اور الن فقیر کی گلوکاری بہت پسند تھی ۔اس کی اردو شاعری کا مجموعہ زیر ترتیب تھا کہ فرشتہء اجل نے اس فعال ادیب سے قلم چھین لیا۔نورزماں ناوک کی اردو شاعری میں عصری آگہی کا عنصرفکر و نظر کو مہمیز کرتا ہے:
نمونہ ء کلام
عجب طرح کے کئی وسوسوں نے گھیرا ہے
کچھ ایسے وقت کے ان پر بتوں نے گھیرا ہے
گئے دنوں کی صعوبت ابھی نہیں بُھولی
نئی رُتوں میں نئی صُورتوں نے گھیرا ہے
یہ روز و شب مِرے ہم وار ہو نہیں پائے
رادائے زیست کو یوں سلوٹوں نے گھیرا ہے
یہ کیا غضب ہے کہ سانسیں تو ہیں رواں میری
فصیلِ جاں کومگر کر گسوں نے گھیرا ہے
خدائے نطق عطاکر اسے حسیں لہجہ
مِرے لہو کو کڑی تلخیوں نے گھیرا ہے
عطا ہوا مِرے آنگن کو غول چڑیوں کا
بہ طورِ خاص مجھے رحمتوں نے گھیرا ہے
مِرے طواف کو نکلی ہیں تتلیاںناوک
مِرے وجود کو رعنائیوں نے گھیرا ہے
زندگی بھر نور زمان ناوک اگرچہ مُلکی سیاست سے کوسوںدور رہا لیکن وطن ،اہلِ وطن اوردُکھی انسانیت کے ساتھ قلبی وابستگی اور والہانہ محبت اس کے ریشے ریشے میںسما گئی تھی ۔ انسا نیت کا وقار، سر بلند ی اور سلطا نیء جمہور کی فضا کوپروان چڑھاناہمیشہ اس کا مطمح نظررہا۔اس کا خیال تھا کہ بد ترین جمہوریت بھی آمریت کے دھنک رنگ سرابوں سے بدرجہا بہتر ہے۔ عملی زندگی میںتاریخ اور اس کے مسلسل عمل پر ہمیشہ اس کی گہری نظر رہی۔اس کا کہنا تھا کہ دنیا کی جو اقوام تاریخ سے سبق نہیں سیکھتیں تاریخ انھیںعبرت کا سبق بنا کر ان کا پُورا جغرافیہ اس طرح اُلٹ پلٹ کر رکھ دیتی ہے کہ ان کی داستان بھی اقوم ِعالم کی داستانوں سے عنقا ہو جاتی ہے۔ ایک مو قع پر اس نے کہاکہ آمریت کبھی سبز باغ دکھاتی اور کبھی کالا باغ،جسے دیکھ کر سادہ لوح عوام کا دل باغ باغ ہوجاتا ہے۔ جب بھی کوئی آمر اپنے منطقی انجام کو پہنچتا ہے تو اس وقت تک پُلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہوتا ہے ۔اُس کا خیال تھا کہ انسانی زندگی میں وقت کی مثال بھی سیلِ رواں کی مہیب موجوں کی سی ہے۔کوئی بھی شخص اپنی جہاں گیر عظمت ،بے پناہ قوت و ہیبت اور شدید ترین تمنائوں کے باوجود بہہ جانے والے آب ِ رواں کے لمس اور بیتے لمحات کے تلخ و شیریں ذائقوںسے دوبارہ کبھی فیض یاب ہو ہی نہیں سکتا۔اس نے زندگی کو ایک ایسی ادق زبان سے تعبیر کیا جس کی تفہیم ہر کہ و مہ کی دسترس میں نہیں۔ آمریت کے ہراساں شب و روز اور مسموم ماحول معاشرتی زندگی کی تمام رُتوں کو بے ثمر کر دیتے ہیںاوریہ سانحہ قوم کا جسم داغ داغ کر دیتا ہے۔ ہر چارہ گر یہ سوچتا ہے کہ تقدیر کے ہاتھوں لگنے والے ان زخموں اور چرکوں کے اندمال کے لیے کیا تدبیر کی جائے لیکن اس کی کوئی امید بر نہیں آتی اور نہ ہی اصلاح احوال کی کوئی صورت نظر آتی ہے۔قوم کے تنِ نازک کو فگار کر نے کے بعد بھی جب بے حِس آمر کی گردن تن جاتی ہے تو دردِ دِل رکھنے والے اصلاحِ احوال کے لیے ہمہ تن مصروف ہو جاتے ہیں اور آمریت کی پھٹکار سے نجات حاصل کر کے سلطانیء جمہور کے لیے قربانیاں دیتے ہیں اور جگرِ لخت لخت اور دلِ ریزہ ریزہ کو جمع کر کے فروغِ گلشن و صوت ہزار کے موسم کی تمنا میں دن رات ایک کر دیتے ہیں۔ سلطانیء جمہور کو آندھیوں اور بگولوں سے محفوظ رکھنے کی خاطرنئے سرے سے تعمیرِ وطن پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے لیکن سیاست دانوں کی خود غرضی ،عاقبت نااندیشی اور باہمی نفاق کے باعث ہمیں یہ دن دیکھنے پڑے کہ ہر بارانتخابی عمل کو مشکوک بنا دیا گیا ۔قومی مفادات کو پسِ پشت ڈال کر ہوسِ زر اور جلب ِ منفعت پر مبنی انتہائی پست ذاتی مفادات کے حصول کی دوڑ شروع ہو گئی اور مظلوم انسانیت کے مصائب و آلام کو نظر انداز کر دیا گیا۔ان پُر آشوب حالات میں پھر کوئی طالع آزما اور مہم جو آمریت کا لٹھ لے کر عوامی امنگوں کے گُلِ نو دمیدہ کو سر اُٹھاتے ہی پامال کر دیتا ہے اور پورے نظام کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکتا ہے۔ ہماری سیا ست کا اب تک یہی المیہ اوربحران رہا ہے جس کے لرزہ خیز،اعصاب شکن اور مسموم اثرات نے اجالوں کو داغ داغ اور سحر کو شب گزیدہ بنا کر رکھ دیا ہے۔
مشاعروں میں شرکت نورزماں ناوک کی اہم علمی و ادبی مصروفیت رہی۔ ان مشاعروں میں شرکت کے لیے اس نے پاکستان کے دُور دراز علاقوں کے متعدد طویل سفر کیے اور مشاعروں کے سامعین سے داد حاصل کی ۔ان مشاعروں میںوہ جن ممتاز شعرا سے ملا ان کے ساتھ اخلاق اور اخلاص سے لبریز سلوک کیا اور ان سے جو پیمانِ وفا باندھا زندگی بھر اسے استوار رکھنے کی مقدور بھر کوشش کی۔جھنگ کے جن ممتاز ادیبوں اور دانش وروںکے ساتھ نورزماں ناوک کے قریبی تعلقات تھے ان میں سید جعفر طاہر ،محمد شیرافضل جعفری،غلا م علی خان چین،غلام محمد رنگین، امیراختر بھٹی ،خادم مگھیانوی،بلال زبیری،کبیر انور جعفری، مجیدامجد،خضر تمیمی ،صدیق لالی، سجاد بخاری ،احمد تنویر ،خیر الدین انصاری ،نور احمد ثاقب،حیات خان سیال ،حکیم احمد بخش نذیر ،اللہ دتہ حجام ،صاحب زادہ رفعت سلطان،حاجی محمد یوسف ،اللہ دتہ سٹینو،یوسف شاہ قریشی،رام ریاض،ظفر سعید، مہر بشارت خان،گدا حسین افضل،سمیع اللہ قریشی اور محمد بخش گھمنانہ کے نام قابلِ ذکر ہیں۔جھنگ کو محمد شیر افضل جعفری نے شہرِ سدا رنگ کا نام دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ نور زماں ناوک نے ہمیشہ اس شہر کے ساتھ اپنی والہانہ محبت کا بر ملا اظہار کیا اور یہاں وہ کئی بار ادبی نشستوں میںشرکت کے لیے پہنچا ۔اس کا قیام جھنگ شہر کے قدیم علاقے میں واقع محمد شیر افضل جعفری کے گھر ’’چغتائی بسیرا ‘‘میں ہوتا۔یہاں قیام کے دوران وہ احباب کی دعوت شیراز کا اکثر ذکر کرتا ۔وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ جھنگ کے لوگ ذوقِ سلیم سے متمتع ہیں اور ہر مہمان ادیب کے لیے دیدہ و دِل فرشِ راہ کر دیتے ہیں اوراُ ن کی راہ میںآنکھیں بچھانا ان کا شیوہ ہے۔محمد شیر افضل جعفری نے اپنی شاعری میں اس علاقے کی تہذیب و ثقافت،رہن سہن اور رسوم و رواج کو جس دل نشیں انداز میںپیرایہء اظہار عطا کیا اس کا کرشمہ قاری کے قلب و نظر کو مسخر کر لیتا ہے۔پچاس کے عشرے میں جھنگ سے مجید امجد کی ادارت میں شائع ہونے والے اخبار’’عروج‘‘ کی ادبی خدمات کو وہ قدر کی نگا ہ سے دیکھتا تھا ۔
نور زماں ناوک نے زندگی بھر اپنی تہذیبی اور ثقافتی اقدار و روایات کی ترویج و اشاعت کے لیے انتھک جد و جہد کی۔بر طانوی استعمار کے غاصبانہ تسلط کے بعد اس خطے کی تہذیب و ثقافت کو انتہائی دشوار حالات کا سامنا کرنا پڑا۔اس کا خیال تھا کہ کسی بھی خطے کی تہذیب وثقافت اور تمدن و معاشرت کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنا ممکن ہی نہیں اس ایک سبب یہ ہے کہ اس کی جڑیں اس خطے کے با شندوںکے دلوںمیں ہو تی ہیں۔وہ قوم جو اپنے ماضی، حال اور مستقبل کے بارے میں مثبت شعور و آگہی سے محروم رہے اور جلتے روم کو دیکھ کر نیرو کے مانند چین کی بانسری بجائے اس کی مثال ایسے ٹنڈمنڈسوکھے درخت کی سی ہے جس کی جڑیںسمے کی دیمک چپکے چپکے کھا جاتی ہے اور سیل زماں کے مہیب تھپیڑے اسے خس و خاشاک کی طرح بہا لے جاتے ہیں ۔اپنی تہذیبی و ثقافتی اقدار سے محبت کرنے والے حریت فکر کے مجاہدوں کی شاعری میںتہذیبی ،ثقافتی ، سما جی اورمعا شرتی زندگی کا جو معتبر و موقرحوالہ موجودہے وہ قلب اور روح کی اتھاہ گہرائیوںمیںاتر کر اذہان کی تطہیر و تنویر اور وسیع النظری کو یقینی بنا تا ہے۔جو قو میںاپنی تہذیبی ،ثقافتی ، معا شرتی اورسما جی روایات اور اقدار سے غافل ہو جا تی ہیںان کی تا ریخ ہی نہیںجغرافیہ پر بھی ابلق ایام کے سموںکی گرد پڑجاتی ہے اور ان کا حال اور مستقبل غیر یقینی ہوجاتا ہے۔
ادب اور فنون لطیفہ سے نور زماں ناوک کی دلچسپی زندگی بر برقرار رہی ۔کلاسیکی موسیقی ،لوک داستانوں اور لوک گیتوں کو وہ تہذیبی اور ثقافتی اثاثہ قرار دیتاتھا۔وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ جب لفظ ہونٹوں پر پتھرا جائیںاور اظہار و ابلاغ کی کوئی صورت دکھائی نہ دے تو ان لرزہ خیز حالات میں موسیقی اپنا رنگ جماتی ہے اور دل و نگاہ کے سب افسانے سُر اور لے کے آہنگ میں ڈھل جاتے ہیں۔موسیقی کی مسحور کُن دُھن دلوں کو مسخر کرنے پر قادر ہے ۔شاعری میںالفاظ کی معنی آفرینی اپنی جگہ درست ہے لیکن تنہا الفاظ جذبات و احساسات کی اقلیم کی تسخیر کی استعداد نہیں رکھتے بل کہ اس مقصد کے لیے شاعری کو مو سیقی کی ساحری کا سہارا لینا پڑتا ہے ۔ وہ موسیقی کو قلب اورروح کی داخلی کیفیات کو سامنے لانے والی ایک ایسی ولولہ انگیز زبان کا نام دیتا تھاجسے دنیا کے ہر علاقے میں سمجھاجاتا ہے ۔آلامِ روزگار کے مسموم ماحول میں مسلسل شکستِ دِل کے باعث جب سکوتِ مرگ کا جان لیوا ماحول روح کو زخم زخم اور دل کو کرچی کرچی کر دے تو ان اعصاب شکن حالات میں بھی موسیقی نسیم سحر کے جھونکے کے مانند نہاں خانہ ء دِل کو اپنی عطر بیزی سے مہکا دیتی ہے ۔موسیقی دلوں کے بے خواب دروازے کھول کر چپکے سے اند ر داخل ہو جاتی ہے اور رنگ ،خوشبواور حسن و خوبی کے تمام استعارے سننے والوں زندگی کی رعنائیوں میں اضافہ کر تے ہیںاورمضمحل و ملول دِلوں کو ایک ولولہء تازہ مل جاتاہے ،اس طرح موسیقی تزکیہ نفس کی ایک صورت سامنے لاتی ہے۔ لوک ادب اورموسیقی کے بارے میں اس کے خیالات اس کے ذوقِ سلیم کے مظہر تھے ۔ا س کا یہ تجزیہ تھا کہ موسیقی انسان کو ایک ایسے نشاط آور ،مقام تک لے جاتی ہے جہاں اک گونہ بے خودی کا احساس اس کے درد کا درماں بن جاتا ہے ۔وہ کلاسیکی موسیقی کو جذبات و احساسات کے لیے ایک محفوظ قلعہ قراردیتاجہاں رہ نوردانِ شوق فریبِ سُود و زیاںکے اندیشوں سے بے نیازرہ کر تسکینِ قلب کی صورت تلاش کر سکتے ہیں۔وہ اس بات پر پُختہ یقین رکھتا تھا کہ موسیقی کے اعجاز سے ہر قلبِ پریشاں کو راحت کی نویدملتی ہے ۔تہذیب و ثقافت کے سوتے بھی لوک مو سیقی ہی سے پُھوٹتے ہیں۔نور زماں ناوک نے کلاسیکی موسیقی،لوک گیتوں پنجابی ماہیے ،ڈھولے اور دوہڑے کو پنجاب کی تہذیبی و ثقافتی پہچان سے تعبیر کیا۔وہ اس بات پر خوش تھا کہ اردو زبان میں بھی ماہیے لکھے جا رہے ہیں جنھیں زبردست پذیرائی ملی ہے یہ پنجابی صنف شاعری ماہیا کی اثر آفرینی کی واضح دلیل ہے۔وہ چراغ حسن حسرت کے اردو ماہیے بہت پسند کرتا تھاجنھیں نامور گلو کار برکت علی خان نے گایا ہے ۔اس کاکہنا تھا کہ اگرچہ یہ ماہیے بعد میں غلام علی اور سجاد علی نے بھی گائے لیکن برکت علی خان کی گائیکی اپنی مثال آپ ہے۔نورزماں ناوک تنہائی کے لمحوں میں کبھی کبھی یہ ماہیے گنگناتا تو اس کی آنکھیں بھیگ بھیگ جاتیں:
باغوں میں پڑے جُھولے
تم بُھول گئے ہم کو ،ہم تم کو نہیں بُھولے
ساون کا مہینا ہے
ساجن سے جُدا رہ کر جینا کوئی جینا ہے
یہ جشن بہاروں کا
سُن لو کبھی افسانہ تقدیر کے ماروں کا
راوی کاکنارا ہے
ہرموج کے ہونٹوں پر افسانہ ہمارا ہے
اب اور نہ تڑپائو
یا ہم کو بُلا بھیجویا آپ چلے آئو
اللہ کریم نے نور زماں ناوک کو ایک مستحکم شخصیت سے نوازا تھا۔وہ بدلتے ہوئے حالات میں اقتضائے وقت کے مطابق اپنی شخصیت کو نئے سانچے میں ڈھال لیتا۔اپنی عملی زندگی میں وہ طرزِ کہن کوخیر باد کہہ کر آئینِ نو کو زادِ راہ بنانے میں کبھی تامل نہ کرتا۔سائنس اور ٹیکنالوجی کے عروج کے موجودہ زمانے میں وہ زندگی کی برق رفتاریوں سے ہم آہنگ ہونے میں ہمہ تن مصروف رہتا۔کمپیوٹر ،انٹر نیٹ ،موبائل ٹیلی فون اوردیگر ذرائع مواصلات میں وہ گہری دلچسپی لیتا تھا۔اسے اس بات کا قلق تھا کہ جدید دور نے ہماری معاشرت کو قدیم پیشوں اور ان سے وابستہ یادو ں سے نا آ شناکر دیا ہے۔نئی نسل کو یہ معلوم نہیں کہ ماضی میں سقے ،ماشقی،کنجڑے، لکڑہارے، بنجارے،ملاح،موہانے ،گھسیارے ،بنیے ،بزاز،پنساری،رمال ،نجومی،کو چوان،فیل بان،رتھ بان ،کمان گر،کہاراور مہاری کیا کرتے تھے۔اب نہ تو گھڑے رہے نہ گھڑونچیاں اور گھڑولیاں،اب شترِ بے مہار تو بے شمارہیں لیکن ان کی نکیل کھینچنے والے مہاری کا کہیں اتا پتا نہیں ملتا۔تانگے ،رتھ ،منجنیق،غلیل،تیر ،کمان،گُرز،خود ،زرہ بکتر، تلوار ،ڈھال ،بیل گاڑی ،پنگھٹ ،پنہاریاں،مشاطہ اور عطارنہ جانے کس جہاں میں کھو گئے؟۔ ایام گزشتہ کی یادوں سے وابستہ اس انوکھے موضوع پراس کے خیالات سن کر اکثر گمان گزرتا کہ ناسٹلجیانے اسے اپنی گرفت میں لے رکھا ہے لیکن جب وہ انٹر نیٹ کااستعمال کرتااور سائبر کتب خانوں سے برقی کتب سے استفادہ کرتا، موبائل فون ،ای میل اور ایس ایم ایس کے ذریعے احباب کے ساتھ معتبر ربط برقراررکھتا تویہ یقین ہوجاتا کہ اس معمر ادیب کے نحیف و ناتواں جسم میں ایک طوفانی روح سما گئی ہے اور نو جوان دل دھڑک رہا ہے۔
نور زماں ناوک نے اپنے تخلیقی تجربات سے اپنے اسلوب کونکھار عطاکیا۔اس نے عالمی کلاسیک کے تراجم کا بڑی توجہ سے مطالعہ کیا تھا ۔وہ گنٹر گراس ، رولاں بارتھ ،این میری شمل،رالف رسل ،سوسئیر،موپساں اورگبریل گارسیا مارکیز کے اسلوب کوبہت پسند کرتا تھا ۔گبریل گارسیا مارکیز کی تصنیف ’’Chronicle of a Death Foretold‘‘اس کی پسندیدہ کتاب تھی۔ عالمی شہرت کے حامل مایہء ناز پاکستانی ادیب اور دانش ور افضل احسن رندھاوا نے جب اس کتاب کو پنجابی زبان کے قالب میں ڈھالا تو نور زماں ناوک نے اس ترجمے کو بہت سراہا اور اسے پنجابی زبان میں ترجمہ نگاری کے ارتقا میںسنگِ میل قرار دیا۔اس کتاب کا ترجمہ ’’پہلوں توں دسی گئی موت دا روزنامچہ‘‘کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے ،جس کی عالمی ادبیات کے قارئین نے بہت پذیرائی کی ۔نور زماں ناوک ترجمہ نگاری کی اہمیت و افادیت کا دل سے معترف تھا۔وہ ترجمہ نگاری کو دو تہذیبوں کے سنگم کا نام دیتا تھا ۔اسیر عابد نے جب دیوان غالب کا پنجابی ترجمہ کیا تو نور زماں ناوک خوشی سے پُھولا نہ سمایا۔ چکوال شہر کی ایک ادبی نشست میںاس نے اسیر عابد کو گلے لگا لیا اور کہا کہ اگر غالب یہ ترجمہ دیکھ لیتا تو اس ترجمے کو تخلیق کا ہم پلہ قرار دیتا ۔اس نے ایک مثال دی:
دِل نہیں ورنہ دکھاتا تجھ کو داغوں کی بہار
اس چراغاں کاکروں کیا کارفرما جل گیا (غالب)
اسی شعر کا اسیر عابد نے جس خوش اسلوبی سے پنجابی زبان میں منظوم ترجمہ کیا ہے وہ قاری کو مسحور کر دیتا ہے۔نور زماں ناوک اسیر عابد کی ترجمہ نگاری کے اسی سحر کا گرویدہ تھا:
دِل ہوندا تے آپے تینوں بلدے داغ وکھاندا
میں ایہہ ڈیوے کِتھے بالاں، بالن والا بلیا
نور زمان ناوک کے نہ ہو نے کی ہو نی دیکھ کر دنیا بھر میںاس کے لاکھوں مداح سکتے کے عالم میں ہیں۔ان کے دل ِحزیںپر اس حساس اوردرد مند تخلیق کار کی موت نے جو گہرا گھا ئو لگا یا ہے وہ کبھی مندمل نہیں ہو سکتا ۔ اس کے سب احباب یہی کہتے ہیں کہ نور زمان ناوک ان کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ ہر سا نس اور دل کی ہر دھڑکن اس کی مو جو دگی کا احساس دلا تی ہے۔ کو ئی دیرینہ آشنا جب دا ئمی مفا رقت دے جا تا ہے تو دل و جگر پر ایسا زخم لگتا ہے جس کا مر ہم کہیں سے دستیا ب نہیںلیکن اس کی یا دیں مہکتے گلا ب کی طرح قریہء جاںکو معطر کر تی رہتی ہیں۔ یہ سدا بہا ر یا دیں ایا م گز شتہ کی کتا ب کے تمام اوراق کی امین ہیں اور اس قدر حسین ہیں کہ دل کی انجمن ان سے ضیا بار رہتی ہے۔ وہ جنھیں ہم ٹوٹ کرچا ہتے ہیں،جب ملکِ عدم کی جا نب سدھار جا تے ہیںتو پس ما ند گا ن کی پو ری شخصیت ٹو ٹ پھوٹ کا شکار ہو جا تی ہے ۔ جنھیںہم دیکھ کر جیتے ہیںان کی دائمی مفارقت پر ہم مرنے کی آرزو پہ مر تے ہیں۔نور زمان ناوک تم نے تو شہر خموشاں میں اپنی الگ دنیا بسا لی ۔ تمھا ری آنکھیں مند گئیں، دل کی دھڑکن رک گئی ، سانس کی ڈوری ٹوٹ گئی ، تمام فعالیتں ختم ہوگئیں ،بزمِ ادب ویران ہو گئی۔ ایک قیامت گزر گئی کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ اب ہم کیا کریں تمھارے جانے کے بعد ہم کہاں جائیں ؟
تنہا گئے کیوں اب رہو تنہا کوئی دن اور