اردو زبان کے ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی خالقِ حقیقی سے جا ملے ۔علم و ادب کو وہ نیّر تابا ںجو چار ستمبر 1923کوراجستھان (بھارت) سے طلوع ہواوہ بیس جون 2018کو کراچی کے افق سے عدم کی بے کراں وادیوں میں ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا ۔اردو نثر میں ایام گزشتہ کی ورق گردانی کرتے ہوئے فلسفیانہ مزاح کو تحریک دینے والا زیرک ،فعال اور مستعد تخلیق کار ہماری بزم ادب سے اُٹھ گیا۔اردو زبان کے اِس شگفتہ مزاج فلسفی کی رحلت سے گلشن ِ ادب میں مہیب سناٹوں نے مستقل طور پر ڈیر ے ڈال دئیے ہیں ۔اپنے ہر ملاقاتی کے ساتھ اخلاق ،اخلاص اور خندہ پیشانی سے پیش آنے والا ادیب دیکھتے ہی دیکھتے بزمِ جہاں سے اُٹھ گیا اور دنیا بھر میں ان کے لاکھوں مداحوں کی پتھرائی ہوئی آنکھیں دیکھتی کی دیکھتی رہ گئیں ۔ اجل کے طوفان کی زد میں آ کراردو ادب میں طنز و مزاح کے ہمالہ کی ایک سر بہ فلک چوٹی پلک جھپکتے میں زمیں بوس ہو گئی۔ منفرد اسلوب کا حامل ایسا یگانۂ روزگار صناع بزمِ ادب سے اُٹھ گیا جس نے اپنے مثالی اسلوب کی پُوری دنیا میں دھاک بٹھا دی تھی۔گزشتہ سات عشروں میں جو مقبولیت اور پذیرائی مشتاق احمد یوسفی کو نصیب ہوئی اس میں کوئی ان کا شریک و سہیم نہیں۔اپنی مسحور کُن شگفتہ بیانی کے اعجاز سے انھوں نے اردو نثر کے دامن میں گلُ ہائے رنگ رنگ کے ڈھیر لگا دئیے ۔ اردو ادب میں طنز و مزاح کا وہ درخشاں عہد جس کے ممتاز تخلیق کاروں میں پروفیسر احمد شاہ بخاری پطرس، رشید احمد صدیقی، ابن انشا ،شفیق الرحمٰن ،صدیق سالک،کرنل محمد خان اور سید ضمیر جعفری شامل تھے اپنے اختتام کو پہنچا۔اجل کے بے رحم ہاتھوں نے اُس فطین، وسیع المطالعہ اور مخلص مزاح نگار سے قلم چھین لیا جس نے عالمی ادبیات سے بھر پور استفادہ کرتے ہوئے اردو ادب میں طنزو مزاح کو نیا آ ہنگ عطا کیا۔مشتاق احمد یوسفی کا شمار اپنے عہد کے ان مقبول ترین ادیبوں میں ہو تا تھا جن کی تصانیف کا قارئین کو شدت سے انتظار رہتا اور جن کی وقیع تصانیف کا کثرت سے مطالعہ کیا جاتا تھا ۔ مشتاق احمد یوسفی کی مضبوط اور مستحکم شخصیت ہر ملاقاتی کو مسحور کر دیتی تھی ،یہی وجہ ہے کہ اپنے پر لطف اسلوب کے معجز نما اثر سے وہ قارئین کے دِلوں پر راج کرتے اور اُردو طنز و مزاح کی اقلیم میں ان کا سکہ چلتا تھا۔ اپنی گل افشانی ٔ گفتار سے محفل کو کِشتِ زعفران میں بدلنے والا ایسا مقبول، ذہین اور با کمال ادیب اب ملکوں ملکوں ڈھونڈنے سے بھی نہ مل سکے گا ۔
مشتاق حمد یوسفی کے کا تعلق یوسف زئی پٹھا ن قبیلے سے تھا ۔ان کے والد عبدلکریم یوسف زئی جے پور ( راجستھان ) یونیورسٹی کے گریجویٹ تھے ۔صدیوں سے ہمارے معاشرے میں توہم پرستی اور جہالت کا آسیب ہر طرف منڈلا رہا ہے ۔ سادہ لوح لوگ عطائیت کی سزا بھگت رہے ہیں اور مرگ ِناگہانی کی صورت میں اِس قماش کے مسخروں کی عطا کو خالق کی رضا سمجھ کرچُپ سادھ لیتے ہیں ۔مشتا ق احمد یوسفی کی والدہ کی دِلی تمنا تھی کہ ان کا ہو نہار فرزند ڈاکٹر بن جائے اورسر زمین حجاز پہنچ کر وہاں کے مفلوک الحال بدوؤ ںکا مفت علاج معالجہ کرے۔حالات نے عجیب رخ اختیار کیا مشتاق احمد یوسفی معالج تو نہ بن سکے مگر مزاح نگار بن کر اپنے وطن کے الم نصیب جگر فگاروں کے پاس مر ہم بہ دست پہنچے ۔وہ چاہتے تھے کہ ان پریشان حال لوگوں کے تزکیہ ٔ نفس کی کوئی صورت تلاش کی جائے ۔ مشتاق احمد یوسفی کے والدین علم و ادب سے گہرا لگاؤ رکھتے تھے ۔انھوں نے اپنے ہو نہار فرزند کی تعلیم و تربیت میں گہری دلچسپی لی ۔مشتاق احمد یوسفی نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم۔اے فلسفہ کی ڈگری حاصل کی اور جامعہ میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ممتاز ماہرتعلیم ،نامور محقق اور جامعہ میں شعبہ فلسفہ کے صدر ڈاکٹر ظفر الحسن کی علمی اعانت مشتاق احمد یوسفی کے لیے خضرِ راہ ثابت ہوئی ۔یہ پارِس صفت دانش ور اپنے ہونہار شاگردوں کی خداداد صلاحیتوں کو جس خلوصِ دِل سے صیقل کرتا اس کے معجز نما اثر سے ذرے کو آفتاب بننے کے مواقع نصیب ہو تے تھے ۔ ڈاکٹر ظفر الحسن کا تعلق قدیم جھنگ شہر سے تھا اور کُوچہ ہاتھی وان میں ان کا آبائی مکان اب بھی موجود ہے جسے مقامی باشندے طوفان ِ نوحؑ کی باقیات قرار دیتے ہیں ۔ رانا عبدالحمید خان،غلام رسول شوق ؔ، صاحب زادہ رفعت سلطان ،حامد علی شاہ ،حاجی محمد وریام ،حاجی محمد رمضان،سجاد رانا ،غلام علی خان چین،کبیر انور جعفری،حاجی محمد یوسف،ڈاکٹر محمد کبیر خان اور محمد شیر افضل جعفری کے خاندان سے ان کے نہایت قریبی مراسم تھے۔ مشتاق احمد یوسفی نے قانون کی تعلیم کی ڈگری (LLB)بھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے حاصل کی ۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں امیر الدین صدیقی ،تقی الدین انجم ( علیگ) ،میاں علی محمد (علیگ)اور مختار مسعود بھی ان کے رفیق رہے ۔مایہ ناز مورخ اور ماہر تعلیم پروفیسرعبدالستار چاولہ ( عثمانیہ)سے ان کی ملاقات اسی زمانے میں ہوئی جب وہ ایک بین الجامعاتی تقریری مقابلے میں شرکت کے لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پہنچے ۔ خلوص ،دردمندی اور وفا کی اساس پر استواریہ معتبر ربط زندگی بھر برقرار رہا ۔نو آبادیاتی دور میں ہندوستا ن میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد مشتاق احمد یوسفی نے سال1946میں پی سی ایس( صوبائی سول سروس) کاامتحان پاس کیااور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ ایم۔اے فلسفہ میں ان کی ہم جماعت طالبہ ادریس فاطمہ جن کے والد جج کے منصب پر فائز تھے، اُسی سال(15۔جون1946) ان کی شریک ِحیات بن گئیں ۔ یہ شادی مشتاق احمد یوسفی کی پسند کے مطابق تھی جسے دونوںکے والدین کی آشیر باد بھی حاصل تھی۔مشتاق احمد یوسفی کی مادری زبان اردو نہیں بل کہ مارواڑی تھی جب کہ ادریس فاطمہ کی مادری زبان اردو تھی ۔ان کی اولاد میں دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں جو عملی زندگی میں فعال کردار اد اکر رہے ہیں ۔ستمبر 1948میں مشتاق احمد یوسفی کا خاندان جس میں ان کے والد ،والدہ ،بھائی اور بہنیں شامل تھیں، بھار ت سے ہجرت کر کے حیدر آباد پہنچا ۔تقسیم ہند کے بعد جب بھارت میں اُردو زبان کو مناسب مقام نہ ملا تو مشتاق احمد یوسفی نے یکم جنوری 1950کو پاکستانہجرت کا فیصلہ کر لیا اورکراچی پہنچ گئے ۔ اپنی قابلیت ،محنت،لگن اور فرض شناسی کی بنا پر ارض ِ پاکستان میں انھیں ترقی کی فراواں مواقع میسر آئے۔
عملی زندگی میں مشتاق احمد یوسفی نے بنکنگ میں گہری دلچسپی لی ۔پاکستان میں انھوں نے سول سروس کے بجائے مالیاتی اداروں کی ملازمت کو ترجیح دی اور سال 1950میںمسلم کمرشل بنک سے منسلک ہو گئے اور ڈپٹی جنرل منیجر کے عہدے تک پہنچے ۔ ترقی کے مدارج طے کرتے ہوئے وہ سال 1965 میںالائیڈ بنک لمیٹڈ کے منیجنگ ڈائریکٹر مقرر ہوئے ۔ بنکاری کے شعبہ میں ان کی مہارت کی بنا پر سال 1974میں مشتاق احمد یوسفی کو یو نا ئیٹد بنک لمیٹڈ کا صدر بنا دیا گیا۔وہ سال 1977میں بنکنگ کونسل کے چیئر مین کے منصب جلیلہ پر بھی فائز رہے ۔انھوں نے گیارہ سال (1979-199)تک عالمی شہرت کے حامل مالیاتی ادارے BCCI(Bank Of Credit And Commerce International)کے مشیر کی حیثیت سے لندن میں خدمات انجام دیں ۔ ان کا شمار دنیا کے ذہین ترین ماہرین مالیات میں ہوتا تھا۔ بنکنگ کے شعبہ میں طویل خدمات انجام دینے کے بعد وہ سال 1990میں ریٹائر ہوئے اور اس کے بعد کہیں ملازمت نہ کی ۔بنکنگ کے شعبے میں گراں قدر خدمات کے اعتراف میں انھیں قائد اعظم میموریل ایوارڈ مِلا ۔ سال 2007میں ان کی اہلیہ ادریس فاطمہ نے ساٹھ سال کی رفاقت ترک کر کے کراچی سے شہر خموشاں کی جانب رختِ سفر باندھ لیا ۔وفا شعار رفیقۂ حیات کی ساٹھ سالہ طویل اور پُر سکون رفاقت کے ختم ہونے پر مشتاق احمد یوسفی اپنے دِلِ شکستہ کو سنبھالنے کی مقدور بھر کوشش کی مگر اجل کے کے اس وار نے ان کی روح کو زخم زخم اور دِل کو کِرچی کِرچی کردیا اوروہ عملاًگوشہ نشین ہو گئے ۔اس سانحہ کے بعد ادبی محفلوں میں بھی وہ کم کم دکھائی دیتے تھے۔
اردو زبان میں اپنی تخلیقی فعالیت کا آغاز انھوں نے سال 1955میں کیا۔ان کی گل افشانیٔ گفتار کا اولین نمونہ ایک مزاحیہ تحریر ’ صنفِ لاغر ‘کی صور ت میں سامنے آیا ۔ مشتاق احمد یوسفی نے اپنا پہلا ظریفانہ مضمون ’ صنفِ لاغر ‘ سال 1935میں روشنی کے سفر کا آغاز کرنے والے اردو زبان کے ممتاز ادبی مجلے ’ ادب لطیف ‘ لاہورکے مدیر میرزا ادیب(میرزا دلاور 1914-1999) کو ارسال کیا ۔میرزا ادیب نے اس ظریفانہ مضمون ( صنف لاغر ) کے مرکزی خیال کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس کی اشاعت سے معذرت کر لی ۔اس کے بعد مشتاق احمد یوسفی نے یہی مضمون اشاعت کے لیے لاہور سے شائع ہونے والے رجحان ساز ادبی مجلہ ’ سویرا‘ کے مدیر ممتاز مصور،صحافی اور سیاست دان محمد حنیف رامے(1930-2006) کو بھجوا دیا۔مشتاق احمد یوسفی کا مضمون ’ صنف لاغر ‘ ادبی مجلہ سویرا میں شائع ہو گیا اور مجلہ’ سویرا ‘کی مجل ادارت نے مضمون نگار کے فکر و خیال اور اسلوب کو سراہتے ہوئے انھیں اس نوعیت کے مزید مضامین زیبِ قرطاس کرنے پر مائل کیا ۔ مضمون کی زبردست پذیرائی اور مضمون نگار کی حوصلہ افزائی نے مشتاق احمد یوسفی کی تخلیقی فعالیتوں کو مہمیز کیا ۔ مشتاق احمد یوسفی کی شگفتہ تحریروں میں موضوعاتی سا لمیت ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے شاید اسی وجہ سے ان مضامین میں وحدت تاثر کی کیفیت بھی سراب کی سی ہے۔اس کے باوجود ان مزاحیہ مضامین میں حسِ مزاح کی مظہر بر جستہ ظرافت ،حاضر دماغی اور بے تکلفی کی فراوانی کا کرشمہ طنز و مزاح کے ذوق سلیم سے متمتع اردو ادب کے قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے ۔ مضامین کا منفرد رنگ اور پر لطف آ ہنگ قاری کو جہانِ دیگر میں پہنچا دیتا ہے ۔تخلیق ادب کی ابتدائی کامرانیوں کے بعد انھوںنے اردو نثر میں اپنی شگفتہ تحریروں سے وہ سما ںباندھا کہ ان کا شمار ملک کے صفِ اول کے مزاح نگاروں میں ہونے لگا۔ اپنی تخلیقی مہارت اور حِسِ ظرافت کے اعجاز سے وہ تخلیقِ فن کے لمحات میں خون بن کر رگِ سنگ میں اترنے کے کٹھن مراحل جس خوش اسلوبی سے طے کرتے اُسے دیکھ کر قاری اش اش کر اُٹھتا ۔سیاسی اور سماجی مسائل کو مشتاق احمد یوسفی نے کبھی لائق اعتنا نہ سمجھا ۔ان کے اسلوب میں حسن و رمان کے افسانے اور جنس و جنوں کے شاخسانے اس قدر پر لطف ہیں کہ قاری ان کے سِحر میں کھو جاتا ہے ۔وہ ساحلِ عافیت پر کھڑے ہو کر مجازی محبت کے طوفانوں کی بلاخیزیوں اور جنس و جنوں کی مہیب لہروں کے تلاطم کو دیکھ کر بلاکشانِ محبت کا احوال اس انداز سے بیان کرتے ہیں کہ قاری کو یہ سب بے داد اور تمام روداد اپنے دل کی فریادمحسوس ہوتی ہے ۔ طنز و مزاح میں مشتاق احمد یوسفی کے اسلوب کی سادگی اور پُرکاری کا ایک عالم معترف ہے ۔زندگی کی بے اعتدالیوں ،نا ہمواریوں ،تضادات اور بے ہنگم ارتعاشات کے بارے میں ہمدردانہ شعور سے متمتع ان کا اسلوب قاری کو خندۂ زیرِ لب پر مجبو رکر دیتا ہے اور وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ تخلیق کار نے ہنسی کے خوش رنگ دامنوں میں اپنے آنسو نہاں کر کے بلا شبہ تزکیۂ نفس کی کامیاب سعی کی ہے ۔
مشتاق احمد یوسفی کے اسلوب کا مطالعہ کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے برطانوی مزاح نگار پی جی وڈ ہاوس (P.G.Wodehouse,1881-1975)،کینیڈا سے تعلق رکھنے والے مزاح نگار سٹیفن لی کاک ( , 1869-1944 Stephen Leacock) ، برطانوی مزاح نگاررونالڈ ناکس ( , 1888-1957 Ronald Knox ) اور آسٹریا سے تعلق رکھنے والے ممتاز ماہر نفسیات سگمنڈ فرائڈ ( Sigmund Freud ,1856-1939 )کے اسلوب کو بہ نظر تحسین دیکھا۔بیسویں صدی کے وسط اور اکیسویں صدی کے پہلے اٹھارہ برس میں مشتاق احمد یوسفی کی شہرت اور مقبولیت عروج پر رہی۔ تخلیق فن کے لمحوں میں مشتاق احمد یوسفی نے تکلم کے سلسلوں کو نیا رنگ اور بلند آہنگ عطا کیا ۔ایک بات سے دفعتاً نئی اور پُر لطف بات پیدا کر کے قاری کو ہنسادینا ان کے شگفتہ اسلوب کی انفرادیت کی دلیل ہے ۔زبان و بیان پر ان کی خلاقانہ دسترس کا جادو اُس وقت سر چڑھ کر بولتا ہے جب وہ تحریف نگاری،تحریر میں الفاظ کے رد و بدل ،اعراب اور نقاط کی تبدیلی سے دھنک رنگ منظر نامہ مرتب کر دیتے ہیں ۔ اس فن میں اس با کمال تخلیق کار کی عدیم النظیر کامرانیوں میں کوئی اس کا شریک اور سہیم نہیں۔ نصف صدی کے عرصے میں مشتاق احمد یوسفی کی صرف پانچ تصانیف شائع ہوئیں مگر قارئین ِ ادب نے جس والہانہ انداز میں ان کتب کی پزیرائی کی وہ اپنی مثال آ پ ہے ۔اپنی شگفتہ ،پر لطف اور ظریفانہ نثر سے اردو طنز و مزاح کو مقاصد کی رفعت کے اعتبار سے ہم دوشِ ثریا کرنے والے اس نابغۂ روزگار مزاح نگار نے زبان و بیان پر خلاقانہ دسترس کے باوجود جلد بازی یا بسیار نویسی سے اپنے اسلوب کوکبھی مضمحل نہ ہونے دیا۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ ستر برس کی تصنیف و تالیف کے بعد وہ محض پانچ تصانیف ہی قارئین کی نذر کر سکے ۔یہی تصانیف انھیں شہرتِ عام اور بقائے دوام کے دربار میں بلند مقام عطا کرنے کا وسیلہ ثابت ہوئیں اور جریدہ ٔ عالم پر ان کا دوام ثبت ہو گیا ۔مشتاق احمد یوسفی کی تصانیف درج ذیل ہیں :
۱۔چراغ تلے (۱۹۶۱) ،اس کتاب کو آدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا ،۲۔خاکم بدہن (۱۹۷۰)اس کتاب پر آدم جی ایوارڈ دیا گیا ،۳۔زرگزشت ( ۱۹۷۶)،۴۔آبِ گم (۱۹۸۹)،اس کتاب کو ہجرہ ایوارڈ اور اکادمی ادبیات پاکستان کی طرف سے ایوارڈ دئیے گئے ۔،۵۔شامِ شعر یاراں (۲۰۱۴)
طنز و مزاح پر مبنی اپنے اسلوب کے بارے میں مشتاق احمد یوسفی نے لکھا ہے:
’’ رہا یہ سوال کہ یہ کھٹ مٹھے مضامین طنزیہ ہیں یا مزاحیہ یا اس سے بھی اک قدم آ گے ۔۔۔یعنی صرف مضامین ہیں تو یہاں صرف اتنا عرض کرنے پر اکتفا
کرو ںگا کہ وار ذرا اوچھا پڑے یا بس ایک روایتی آنچ کی کسر رہ جائے تو لوگ اسے با لعموم طنز سے تعبیر کرتے ہیں ورنہ مزاح ہاتھ آئے تو بُت ،ہاتھ نہ آئے تو خدا۔
سادہ اور پُر کار طنز بڑی جان جوکھوں کا کام ہے ،بڑے بڑوں کے جی چُھوٹ جاتے ہیں :
رقص یہ لوگ کیا کرتے ہیں تلواروں پر‘‘ ( چراغ تلے )
مشتاق احمد یوسفی کی ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان کی جانب سے انھیں ستارۂ امتیاز(1999)اور ہلالِ امتیاز (2002)مِلا۔اس کے علاوہ انھیں بولان ایوارڈ اورکمالِ فن ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ۔
بارہ ظریفانہ مضامین پر مشتمل مشتاق احمد یوسفی کی پہلی تصنیف ’ چراغ تلے ‘ سال 1961میں شائع ہوئی ۔ اردو نثر میں مزاح کی کتاب’چراغ تلے ‘ میں شامل پہلا پتھر ( پیش لفظ ) اور بارہ مضامین میں سے ہر مضمون خالص مزاح کی صور ت میں خود کفیل اور پر لطف ادب پارے کی حیثیت رکھتا ہے ۔چراغ تلے میںشامل مضامین کا شگفتہ اسلوب قاری کو جہانِ تازہ میں پہنچا دیتا ہے جہاں تزکیۂ نفس کے نئے امکانات سامنے آتے ہیں ۔ اس کتاب کے آٹھ مضامین مختلف اوقات میں مجلہ سویرا ،لاہور،مجلہ نصرت ،لاہور اورافکار ،کراچی کی زینت بنے ۔اِ ن کھٹ مٹھے مضامین کو انشائیہ کی تکنیک سے لا علمی کی بنا پر انشائیہ بھی کہا جانے لگا مگر حقیقت میں یہ انشائیہ نہیں بل کہ ظریفانہ مضامین ہی ہیں ۔مشتاق احمد یوسفی نے ایک کردار ’مرزا عبدالودود بیگ ‘ کومتعارف کرایا ہے۔یہ مزاحیہ کردار قاری کو خوجی ،چچا چھکن،حاجی بغلول،ٹلا عطائی اور مرزا ظاہر دار بیگ کی یاد دلاتا ہے ۔ ایک اور مزاحیہ کردار ’ آغا تلمیذ الرحمٰن ‘ کا ہے جسے نا سٹلجیا کا عارضہ لا حق ہے ۔اس کتاب کی شاعت کے ساتھ ہی اُن کا شمار ملک کے صف اول کے مزاح نگاروں میں ہونے لگا ۔اس کے آ ٹھ سال بعد چوبیس اکتوبر 1969کو ان کی دوسری کتاب ’ خاکم بدہن ‘ منظرعام پر آئی جس میں آٹھ مزاحیہ مضامین شامل ہیں جنھیں خاکے اور مزاحیے کا نام دیا گیا ۔ مشتاق احمد یوسفی کی وقیع تصنیف ’ خاکم بدہن‘ میں طنز و مزاح کے امتزاج سے اسلوب کو جو دھنک رنگ منظر نامہ عطا کیا گیا ہے قاری اس کے سحر میں کھو جاتا ہے ۔ مصنف اس کتاب میں ایک اور کردار ’ پروفیسرعبدالقدوس ‘ کا ہے جو اپنے افعال ،اعمال ،تکلم کے سلسلوں اور روّیے کے لحاظ سے مرزا عبدالودد بیگ کا ہم زاد دکھائی دیتا ہے ۔ کنجو پاشا ،صبغے اور ضر غوص بھی مزاحیہ کردار ہیں جو قاری کو ہنسنے پر مائل کرتے ہیں ۔
سال 1976 میںمشتاق احمد یوسفی کی تصنیف’ زر گزشت ‘ یا تزک یوسفی شائع ہوئی جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے خالص مزاح کی اساس پر استوار ایک پُر لطف افسانوی سوانح عمری سمجھی جاتی ہے ۔اپنی اس کتاب میں مشتاق احمد یوسفی نے جو تخلیقی تجربات کیے ہیں انھیں پڑھ کر قاری انگشت بہ دندا ںرہ جاتا ہے ۔ پاکستان کے مالیاتی اداروں اور بنکاری کے شعبے سے وابستہ مصنف کی سب یادیں اس کتاب میں موجود ہیں ۔ معاشرتی زندگی کے تضادات اور ان کے پس پردہ کارفرما متضاد،منفی اور مثبت روّیوں کا احوال اس کتاب میں موجود ہے ۔ بادی النظر میں اس کتاب کا محوری کردار مشتاق احمد یوسفی نہیں مگر زیرک تخلیق کار نے اس بات کا فیصلہ قاری پر چھوڑ دیا ہے کہ مطالعہ کرتے ہوئے وہ خود یہ طے کر لے کہ کتاب کا مرکزی کردار کون ہے ۔ و ہ اس امر کا بھی سراغ لگائے کہ اس کتاب میں کن کرداروں کی حسین اور دلکش یادوں کا دبستان کُھلا ہوا ہے اور کتاب پڑھتے وقت جس سمت بھی نظر اُٹھائیںکس شخصیت کی آواز کی باز گشت سنائی دیتی ہے ۔ گونا گوں واقعات کے طومار ، متعدد مزاحیہ کرداروں کی یلغاراور شگفتہ بیانی کی بھرمار کے باوجود ذہین قاری تمام معاملے کی تہہ تک پہنچ جاتا ہے ۔وہ معاملے کی تہہ تک پہنچ جاتا ہے کہ اس کتاب میں مشتاق احمد یوسفی ہی وہ رانجھا ہے جو سب کا سانجھا ہے ۔اسی ہفت اختر کردار نے ’ زرگزشت ‘ میں انجمنِ خیال سجا رکھی ہے ۔جس کی باتو ںسے پیہم ظرافت کے پُھول جھڑتے چلے جاتے ہیں۔
’’ خد اکو حاضر ناظر جان کر کہتے ہیں کہ جتنی گالیاں بھی ہمیں یاد تھیں وہ سب ہم نے اپنے بزرگوں اور ماسٹروں سے سُنی ہیں ۔‘‘ ( زر گزشت )
مشتاق احمد یوسفی کی تصنیف ’ آبِ گُم ‘سال 1990میںمنظر عام پر آئی۔بر صغیر پر ظالم و سفاک ،موذی و مکار برطانوی استعمار کا غاصبانہ تسلط ختم ہوا تو اس خطے میں آزادی کی صبحِ درخشاں طلوع ہوئی۔اس کتاب میں مصنف نے تقسیم ہند کے موضوع پر اپنے خیالات زیبِِ قرطاس کیے ہیں ۔ زندگی کی اقدار عالیہ اور درخشاں روایات کی زبو ںحالی پر مصنف نے اپنے دِلی کرب کا اظہار کیاہے ۔ایام گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے مشتاق احمد یوسفی نے ’آبِ گم ‘میںتقسیم ہند کے موقع پر رونماہونے والے واقعات کو نہایت دیانت، خلوص اور درد مندی کے ساتھ پیرایۂ اظہارعطا کیا ہے ۔ ’ آب ِ گم ‘ کے مطالعہ سے یہ راز کُھلتا ہے کہ اس کتاب میں طنز نے مزاح پر غلبہ حاصل کر لیا ہے اور طنز کی زہر ناکی میں مزاح کی شگفتگی کہیں دب کر رہ گئی ہے ۔اس کتاب کے مطالعہ سے بعض اوقات یہ گمان ہوتا ہے کہ مصنف پر نا سٹلجیا کا غلبہ ہے اور وہ ابلقِ ایام کے سُموں کی گرد میں اوجھل ایام گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی،تسبیح روز و شب کا دانہ دانہ شمار کرنے اور بِیتے لمحات کی چاپ سننے میں ایک گونہ عافیت محسوس کرتا ہے ۔
’ شامِ شعریاراں ‘سال 2014میں شائع ہوائی ۔مشتاق احمد یوسفی کی یہ تصنیف ان کی ابتدائی تصانیف کی طرح رنگ نہ جما سکی ۔جس طرح کرنل محمد خان کی اولین تصنیف ’ بجنگ آمد ‘ کے بعد شائع ہونے والی تصانیف ’ بہ سلامت روی ‘ ، ’ بزم آرائیاں ‘ اور ’بدیسی مزاح‘میں اسلوب کی وہ شگفتگی کم کم دکھائی دیتی ہے جو’ بجنگ آمد ‘ کا امتیازی وصف ہے اسی طرح ’ شامِ شعر یاراں ‘میں بھی مشتاق احمد یوسفی کی گل ُ افشانیٔ گفتارکا وہ دِل کش سماں عنقا ہے جس کی ان کی ا ولین تصانیف میںفراوانی ہے ۔ اس کتاب میں مختلف ادبی محفلوں میں کی گئی مشتاق احمد یوسفی کی تقاریر ،خطبات اورمتفرق تحریروں کو یک جا کر دیا گیا ہے ۔ اگرچہ ان تحریروں میں خوش طبعی اور طنز موجود ہے مگرمشتاق احمد یوسفی کے شگفتہ اور بر جستہ الفاظ کی ترنگ، منفرد اسلوب کا ترفع اورمسحور کن پر لطف لہجہ اِس کتاب میں کہیں دکھائی نہیں دیتا۔
سادہ ،دل نشیں اور ہلکے پھلکے انداز میں لطف و انبساط سے لبریز جملے لکھ کر مشتاق احمد یوسفی نے جس طر ح مزاح کو تحریک دی وہ ان کی انفرادیت کی دلیل ہے ۔ الفاظ کی حرمت ،اسلوب کی ندرت اور اظہار و ابلاغ کی نکہت کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہجوم ِ یاس و ہراس میں گِھرے قاری کے تزکیۂ نفس کا اہتما م کرنا زندگی بھرمشتاق احمد یوسفی کا شیوہ رہا ۔ صبر و تحمل اور بر دباری سے انسانی سہو کو گوارا کرنے پر مائل کرنے کے سلسلے میں مشتاق احمد یوسفی کی مساعی ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی ۔اپنی شگفتہ تحریروں میں مشتاق احمد یوسفی نے قارئین کو قدامت پسندی اور نا سٹلجیا کے زہر اور جدیدیت کے قہر سے بچ کر معاشرتی ا ور سماجی تقاضوں کے مطابق اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے ما بعد جدیدیت کے شہرِ آرزو میں فکر و خیال کی تازہ بستی آباد کرنے کی تلقین کی ۔ مزاح کے پر کشش انداز اور دل نشیں قرینے مناسب مواقع کے لیے بچا کر رکھنے والے اس با صلاحیت تخلیق کار نے اپنی اُمید افزا اور فکر و خیال کو مہمیز کرنے والی ذہانت کور و بہ عمل لاتے ہوئے جو طرزِ فغاں اختراع کی وہ اوروں سے تقلیداً بھی ممکن نہیں ۔جذبۂ انسانیت نوازی کے زیرِ اثر معمولی باتو ںکو اپنے اسلوب کی چاشنی سے غیر معمولی بنا دینا مشتاق احمد یوسفی کے اسلوب کا وہ کرشمہ ہے جس کا ایک عالم گرویدہ ہے ۔ مفاہیم و مطالب اور واقعات کو فرغلوں کو لپیٹ کر پیش کرنامشتا ق احمد یوسفی کا شیوہ نہیں ۔اردو ادب میں اس قسم کے شگفتہ اسلوب کی بہت کم مثالیں ملتی ہیں جن کا کوئی متبادل موجود نہ ہو۔ اردو نثر میں طنز و مزاح کا یہ وہ منفرد ظریفانہ اسلوب ہے جس کی ادبی رفعتوں کی باز گشت ہر عہد کی شگفتہ تحریروں میں سنائی دیتی رہے گی۔ اپنی تخلیقی فعالیت میں مزاح کی اہمیت کے بارے میں مشتاق احمد یوسفی نے لکھا ہے :
’’عملِ مزاح اپنے لہو کی آگ میں تپ کر نکھرنے کا نام ہے ۔لکڑی جل کر کوئلہ بن جاتی ہے اور کوئلہ راکھ لیکن اگر کوئلے کے اندر کی آ گ باہر کی آگ سے
تیز ہوتو پھر راکھ نہیں بنتا ،ہیرا بن جاتا ہے ۔‘‘ (چراغ تلے )
’’ مزاح کی میٹھی مار بھی شوخ کی آ نکھ ،پُرکار عورت اور دلیر کے وار کی طر ح کبھی خالی نہیں جاتی ۔‘‘ ( زرگزشت )
اردو زبان کے کلاسیکی ادب اور معاصر ادب کے وسیع مطالعہ کے اثرات بھی مشتاق احمد یوسفی کے ظریفانہ اسلوب میں نمایاں ہیں ۔اردو زبان کے نامور ادیبوں کے بارے میں مشتاق احمد یوسفی کی شگفتہ بیانی کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے ۔ان ادیبوں کے اسلوب کے بارے میں اپنی رائے دیتے وقت وہ تجزیاتی مطالعہ کے تمام پہلوؤں کو پیشِ نظر رکھتے ہیں۔
’’ بچھوکاکاٹا روتا ،سانپ کا کاٹا سوتا انشا جی ( شیر محمد خان ابن انشا1927-1978)کاکاٹا سوتے میںمسکراتا ہے ۔‘‘ ( زرگزشت )
’’ وہ ( اخترشیرانی )وصل کی اس طور فرمائش کرتا ہے گویا بچہ ٹافی مانگ رہا ہے ۔‘‘ ( خاکم بدہن)
’’ اُن ( ابوالکلام آزادؔ) کی نثر کا مطالعہ ایسا ہے جیسے دلدل میں تیرنا۔‘‘ ( خاکم بدہن)
’’ دنیا میں غالبؔ واحد شاعر ہے جو سمجھ میں نہ آئے تو دُگنا مزا دیتا ہے ۔‘‘ ( آبِ گُم)
’’مثل مشہور ہے کہ سردی رُوئی سے جاتی ہے یا دُوئی سے لیکن اگر یہ اسباب نا پید ہوں اور سردی زیادہ اور لحاف پتلا ہو تو غریب غربا منٹوکے افسانے پڑھ کر سو رہتے ہیں۔‘‘ (چراغ تلے )
تحریف نگاری میں مشتاق احمد یوسفی کو کمال حاصل تھا ۔کسی بڑے ادیب کے اسلوب یا تخلیقی فن پارے میں حِسِ ظرافت کو رو بہ عمل لاتے ہوئے مبالغہ آمیز انداز میں دانستہ طور پر تغیر و تبدل کر کے وہ قارئین کو حیرت زدہ کر دیتے تھے۔الفاظ کو توڑ موڑ کر پیش کرنے سے اصل تخلیق کی شکل اس طر ح بدل جاتی ہے کہ قاری اس گل افشانی ٔ گفتارکے کرشمے سے خوب حظ اُٹھاتا ہے ۔ ارد وزبان کے نامور ادیبوں کے زبان زدِ عام اشعار ،مصرعوں یا جملوں میں کیا جانے ولا یہ رد و بدل قاری کے لیے بہت خندہ آور ثابت ہوتا ہے ۔مشتاق احمد یوسفی نے متعدد مشہور ِزمانہ بل کہ مشہور زنانہ و مردانہ اشعار کی پیروڈی کر کے اپنے منفرد اسلوب کا لوہا منوایا ہے ۔یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ مشتاق احمد یوسفی کے شگفتہ اسلوب میں تحریف نگاری کو کلید ی مقام حاصل ہے ۔ اردو نثر میںطنز و مزاح کی تخلیق کے حوالے سے تحریف نگاری کو ان کا نہایت پسندیدہ ،موثر ترین اور انتہائی کامیاب حربہ سمجھا جاتا ہے ۔ذیل میں مشتاق احمد یوسفی کی تصانیف سے ان کی تحریف نگاری کی کچھ مثالیں پیش کی جاتی ہیں :
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک ( غالبؔ)
دیکھیں کیا گزرے ہے خدشے پہ خطر ہونے تک ( مشتاق احمد یوسفی )
ہو چُکیں غالبؔ بلائیں سب تمام
ایک مرگِ نا گہانی اور ہے ( غالبؔ )
ہو چُکیں غالبؔ بلائیں سب تمام
ایک عقدِ نا گہانی اور ہے ( مشتاق احمد یوسفی )
پِھرتے ہیں میر ؔ خوار کوئی پوچھتا نہیں ( میرتقی میر ؔ )
پھرتے ہیں سُود خوار کوئی پُوچھتا نہیں ( مشتاق احمد یوسفی )
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز ( علامہ محمد اقبال )
نہ کوئی خندہ رہا نہ کوئی خندہ نواز ( مشتاق احمد یوسفی )
آگ تکبیر کی سینوں میں دبی رکھتے ہیں ( علامہ محمد اقبال )
آگ تکفیر کی سینوں میں دبی رکھتے ہیں ( مشتاق احمد یوسفی )
گیسوئے تاب دار کو اور بھی تاب دار کر ( علامہ محمد اقبال )
شوہر ِ نامدار کو اور بھی نامدار کر ( مشتاق احمد یوسفی )
وہ انتظار تھا جِس کا یہ وہ سحر تو نہیں ( فیض احمد فیض ؔ)
وہ انتظار تھا جِس کا یہ وہ شجر تو نہیں ( مشتاق احمد یوسفی )
جذبۂ بے اختیارِ شوق دیکھا چاہیے
سینۂ شمشیر سے باہرہے دم شمشیر کا ( مرزا اسداللہ خان غالبؔ)
جذبۂ بے اختیارِ شوق دیکھا چاہیے
سینۂ ہم شِیرسے باہرہے دم ہم شِیر کا ( مشتاق احمد یوسفی )
مضمحل ہو گئے قویٰ غالب ؔ
اب عناصر میں اعتدال کہاں ( مرزا اسداللہ خان غالبؔ)
مضمحل ہو گئے قویٰ غالب ؔ
اب عناصر میںابتذال کہاں ( مشتاق احمد یوسفی )
ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں ( سوداؔ)
ناوک نے تیرے ناک نہ چھوڑی زمانے میں ( مشتاق احمد یوسفی )
ان ہی پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آؤ
میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے ( مصطفی زیدی)
ان ہی پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آؤ
میرے گھر کے راستے میں کوئی فاختہ نہیں ہے ( مشتاق احمد یوسفی )
مشتاق احمد یوسفی نے اپنی افتاد طبع کے مطابق اپنے اسلوب میں جدت ،تنوع اورندرت سے وہ سما ںباندھا ہے کہ قاری دم بہ خود رہ جاتا ہے۔ معاشرے سے بیزار کن یکسا نیت ،جمود ،بے عملی اور انتہا پسندی کے بڑھتے ہوئے رجحانات کے خاتمے کے لیے طنز و مزاح کو عملی زندگی کے واقعات کاترجمان بنانے اور اسے افادیت سے لبریز فعالیت کی صورت عطا کرنے میںمشتا ق احمد یوسفی نے ہمیشہ گہری دلچسپی کا مظاہرہ کیا ۔اپنی شگفتہ تحریروں کے وسیلے سے انھوں نے مزاح کو عملی زندگی کا ترجمان بنانے کی مقدور بھر سعی کی۔وہ چاہتے تھے کہ آلامِ روزگار کے مہیب پاٹوں می ںپِسنے والے افراد کو بیزاری سے نجات دلا کر سعیٔ پیہم او رعزم صمیم کو رو بہ عمل لاتے ہوئے ستیز پر مائل کیا جائے ۔قحط الرجال کے موجودہ دور میں انھوں نے تہذیب و ثقافت کے مقبول ترین پہلوؤ ں کو پیش نظررکھتے ہوئے زندگی کے لا ینحل مسائل اور غیر مختتم مصائب کو پیرایۂ اظہارعطا کر کے بلا شبہ ستاروں پر کمند ڈالی ہے ۔ اس کی چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں :
کیا فدوی کیا فدوی کا شوربہ ،کالم تمام حلقۂ دامِ عیال ہے ،یار زندہ فضیحت باقی،کی جس سے بات اس کو نصیحت ضرور کی ،اِک عمر سے ہوں لذت ِنسیا ںسے بھی محروم ،گزرا ہے اِک زنانہ ہماری نگاہ سے ،رقم
بڑھتی گئی جو ں جوں اداکی ۔پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔انیس دُم کا بھروسا نہیں ٹھہر جاؤ،خود بہ خودبِل میں ہے ہر شخص سمایا جاتا۔ہزار ہا زن امیدوار راہ میں ہے ۔روز اِک تازہ سراپا نئی تفصیل کے ساتھ۔
اپنے ظریفانہ اسلوب میں مشتاق احمد یوسفی نے متعدد موضوعات پر لکھا ۔انھوں نے جس موضوع پر بھی قلم اُٹھایا فکر و خیال کی بو قلمونی سے سماں باندھ دیا۔ذیل میں ان کی تصانیف سے اس کی چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں :
’’عمر بھی ضمیر اور جوتے کے مانند ہے جن کی موجودگی کا احساس اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک وہ تکلیف نہ دینے لگیں ۔‘‘ (چراغ تلے )
’’ انسان کو موت ہمیشہ قبل از وقت اور شادی بعد از وقت معلوم ہوتی ہے ۔‘‘ (چراغ تلے )
’’ آسمان کی چِیل ،چو کھٹ کی کِیل اور کورٹ کے وکیل سے خدا بچائے،ننگا کر کے ہی چھوڑتے ہیں ۔ ( زر گزشت )
’’ جس گھر میں ایک دفعہ طبلہ یا گگُھنگر وبج گئے اُس گھر کے سامنے ایک نہ ایک دِن دِوالے اور قُرقی کا ڈھول بجنا لازمی ہے۔وہ گھر اُجڑے ہی اُجڑے ۔‘‘ ( آبِ گُم )
’’ گانے والی کی صورت اچھی ہو تو مہمل شعر کا مطلب بھی سمجھ میں آ جاتا ہے ۔‘‘ ( خاکم بدہن)
’’ اچھا معلم ہونے کے لیے عالم ہونے کی شرط نہیں ۔‘‘ ( آبِ گُم )
’’ قبر کھودنے والا ہر میت پر آنسو بہانے بیٹھ جائے تو روتے روتے اندھا ہو جائے ۔‘‘ ( زر گزشت )
’’ ہماری گائیکی کی بنیادطبلے پر ہے گفتگو کی بنیاد گالی پر ۔‘‘ ( آبِ گُم )
’’ فقیر کے لیے آ نکھیں نہ ہونا بڑ ی نعمت ہے ۔‘‘ ( زر گزشت)
’’ سُبکی ،بے وقری اور ذلت کی سب سے ذلیل صورت یہ ہے کہ آدمی خود اپنی نظر میں بے وقعت اور بے توقیر ہو جائے ۔ ( آبِ گُم )
’’جاڑے اور بُڑھاپے کو جتنا محسوس کرو گے اُتنا ہی لگتا چلا جائے گا۔ ‘‘ ( زر گزشت )
’’ پاکستانی افواہوں کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ سچ نکلتی ہیں ۔‘‘ ( آبِ گُم )
’ ’ دشمنوں کے حسبِ عداوت تین درجے ہیں،دشمن،جانی دشمن اوررشتے دار ۔‘‘ ( زر گزشت )
’’ شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ میں پانی پینے لگیں تو سمجھ لو کہ شیر کی نیّت اور بکری کی عقل میں فتور ہے ۔‘‘ ( آبِ گُم )
’’ بُڑھاپے کی شادی اور بینک کی چوکیداری میں ذرا فرق نہیں،سوتے میں ایک آ نکھ کُھلی رکھنی پڑتی ہے اور چُٹیا پہ ہاتھ رکھ کے سونا پڑتا ہے ۔‘‘ ( زر گزشت )
’’ داغ تو دو ہی چیزوں پر سجتا ہے ،دِل اور جوانی ۔‘‘ ( آبِ گُم )
’’ آدمی ایک بار پروفیسر ہو جائے تو عمر بھر پروفیسر ہی رہتا ہے خواہ بعد میں سمجھ داری کی باتیں ہی کیوں نہ کرنے لگے ۔‘‘ ( خاکم بدہن)
’ ’ اگر کوئی اُردو نقادکسی مصنف کی تعریف کرے تو جان لو کہ دونوں میں سے ایک وفا ت پا چکا ہے ۔‘‘
’’ بھونکنا کتے کا حق اور دُم ہلانا اس کا فرض ہے ۔‘‘ ( زر گزشت )
’’ شیر کو پنجرے میںقید کردو ،تب بھی شیر ہی رہتا ہے ۔گیدڑ کو کچھار میں آزاد چھوڑدو ،اور زیادہ گیدڑ ہو جائے گا ۔‘‘ ( آبِ گُم )
’ ’ شبلیؔ نے عمر طبعی کے خلاف جہاد کر کے ثابت کر دیا کہ عشق عطیۂ قدر ت ہے ۔‘‘ ( چراغ تلے )
’’ کوے پر کتنے ہی صدمے گزر جائیں ،کتنا ہی بُوڑھا ہو جائے ،اُس کے پر وبال کالے ہی رہتے ہیں ۔‘‘ ( آبِ گُم )
’’ اگر کوئی جھوٹوں بھی اُڑا دے کہ لاہور میں اولے پڑے ہیںتو زندہ دِلان کراچی فوراً سرمُنڈ ا لیتے ہیں۔‘‘
’’ جوان لڑکی کی ایڑی میں بھی آ نکھیں ہوتی ہیں وہ چلتی ہے تو اُسے پتا ہوتا ہے کہ پیچھے کون کیسی نظرو ںسے دیکھ رہا ہے ۔‘‘ ( آبِ گُم )
’’ اختصار ظرافت اور زنانہ لباس کی جان ہے ۔‘‘ ( چراغ تلے )
’’ بد صور ت انگریز عورتRarity ( نایا ب ) ہے بڑی مشکل سے نظر آتی ہے ۔‘‘ ( آبِ گُم )
’’ مر دکی آ نکھ اور عورت کی زبان کا دم سب سے آخر میںنکلتا ہے ۔‘‘ ( خاکم بدہن)
’’ ہم نے اس لذیذہ کو ان سے کچھ زیادہ ہی پایا مردوں میں ستر بے مہار پِھررہی تھی ۔‘‘ ( زر گزشت )
’’ اُس نے تادمِ تذلیل رشوت ہی رشوت کھائی تھی یعنی جوتے نہیں کھائے تھے ۔‘‘
تاریخ اور س کے مسلسل عمل پر مشتاق احمد یوسفی کی گہری نظر تھی۔ مشہورِ زمانہ مصری حسینہ اور مقدونی ریاست کی آخری ملکۂ مصر قلو پطرہ ( Cleopatra)کو جنگ جُو رومن سالا ر اور سیاست دان جولیس سیزر ( Julius Ceaser)سے والہانہ محبت تھی مگر جولیس سیزر کی طرف سے کوئی مثبت جواب نہ ملا۔ جولیس سیزر کی بے اعتنائی سے قلوپطرہ کے دل پہ جو صدمہ گزرا وہ اس کے لیے نا قابلِ برداشت تھا ۔ادرھوی ملاقاتوں میں جب متعدد ضروری باتیں نا گفتہ رہ جائیں تو عہد و پیمان کا اعتبار اور دِل کے مقتل میں حسرتوں کی مرگِ ناگہانی کا شمار کیسے ہو ۔
کیا کہو ںاس سے کہ جو بات سمجھتا ہی نہیں
وہ تو مِلنے کو ملاقا ت سمجھتا ہی نہیں ( فاطمہ حسن)
حالات نے ایسا رخ اختیار کیا کہ قلوپطرہ نے مارک انٹونی (Mark Antony )سے شادی کر لی ۔ قلو پطرہ کو اس بات کا ملال تھا کہ مارک انٹونی کی تعریف کر کے وہ جولیس سیزر کی توہین،تذلیل اور بے توقیری کی مرتکب ہوتی ہے ۔ یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ قلوپطرہ اپنے دِل پہ جبر کرکے نہ چاہتے ہوئے بھی مارک انٹونی کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتی تھی ۔اپنے باپ کی وفات کے بعد قلوپطرہ ملکہ ٔ مصر بن گئی اور اس نے تین عشرو ںتک مصر پر حکومت کی ۔ انسانی فطرت کی اس بو العجبی کو کیا نام دیا جائے کہ انہونی واردات ،محیر العقول حکایات،لرزہ خیز واقعات ،اعصاب شکن سانحات اور جان لیوا صدمات کے لیے تو ذہنی طور پر تیاری کر لی جاتی ہے مگر فرحت بخش لمحات کی برکات کو بالعموم حقیر سمجھتے ہوئے انھیں لائق اعتنا نہیں سمجھا جاتا ۔قلوپطرہ کے عہد میںگردشِ ایام کی زد میں آنے والی اور سانس گِن گِن کر زندگی کے دن پورے کرنے پر مجبور دُکھی انسانیت کا کوئی پرسان حال نہ تھا ۔ مصر پر رومن یلغار کے بعد قلوپطرہ کی فوج کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔اس سانحے کے بعد مارک انٹونی اور قلو پطرہ نے خود کشی کر لی ۔ناز ک اندام قلو پطرہ کے حسن کو موضوع بناتے ہوئے مشتاق احمد یوسفی نے لکھا ہے :
’’ قلو پطرہ کے ناز ک اندام ہونے کا راز یہ ہے کہ وہ نہار منھ مصری تربوز کا پانی اور رعیت کا خون پیتی تھی ۔‘‘ ( چراغ تلے )
بر صغیر کے مطلق العنان مغل بادشاہ شہاب الدین شاہ جہان(B:1592,D: 1666)نے تیس سال تک ( 1628-1658) حکومت کی ۔ ارجمند بانو بیگم ( 1593-1631) اس کی محبوب بیوی تھی ۔اپنی حسین و جمیل محبوب بیوی ارجمند بانو بیگم کی قبر پر شاہ جہان نے دریائے جمنا کے جنوبی کنارے پر سال 1632میںسفید سنگِ مر مر سے تاج محل تعمیر کرایا ۔ تاج محل کا شمار دنیا میں فن تعمیر کے عجائبات میں ہوتا ہے۔مشتاق احمد یوسفی نے ملکہ ممتاز محل (ارجمند بانو بیگم ) اور تاج محل کے حسن و دِل کشی کے بارے میں نہایت لطیف انداز میں لکھا ہے :
’’ ملکہ ممتاز محل اور تاج محل کی خوب صورتی کا راز ایک ہے ۔۔۔سفید رنگ ۔‘‘ ( چراغ تلے )
انسانی نفسیات کے بارے میں مشتاق احمد یوسفی کوکامل آ گہی حاصل تھی۔اپنے حسن و جمال پر غرور کرنے والی عورتوں کی رعونت پر انھوں نے ہمیشہ گرفت کی۔ مہ جبیںحسیناؤں اور حسن بے پروا کے تکبر کا بڑا سبب ان کے چاہنے والوں کی بے سبب ناز برداری ہے جو اپنی انا ،عزت نفس اور خود داری کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے محبت کے دشتِ پُر خار میںآبلہ پا ہنہناتے پھرتے ہیں مگر حسین عورتیں ان کو گھاس ڈالنے میں ہمیشہ تامل کرتی ہیں ۔ حسین و جمیل عورتوں کے عشوہ ،غمزہ اور ادا کے بارے میں مشتاق احمد یوسفیس نے لکھا ہے :
’’ عور ت کی ایڑی ہٹاؤ تو اس کے نیچے سے کسی مرد کی ناک ضرور نکلے گی ۔‘‘ ( زرگزشت )
’’گھوڑے اور عورت کی ذات کا اندازہ اُس کی لات اور بات سے کیا جاتا ہے ۔‘‘ ( چراغ تلے )
انسانی زندگی میں ضعیفی ایک جان لیوا روگ کے مانند ہے ۔بُڑھاپے میں جب قویٰ مضمحل ہو جاتے ہیں تو عناصر کا اعتدال بھی رفتہ رفتہ عنقا ہونے لگتاہے ۔اس حال میں نا سٹلجیا کے مارے بوڑھوں کا کوئی پُرسان حال نہیں ہوتا۔یہی وجہ ہے کہ اکبر الہ آبادی نے کہا تھا :
بوڑھوں کے ساتھ لوگ کہاں تک وفا کریں
لیکن نہ موت آئے تو بُوڑھے بھی کیا کریں
الم نصیب بوڑھوں کی زندگی کے شب و روز کے بارے میں مشتاق احمد یوسفی نے لکھا ہے :
’’ بُوڑھے آدمی کے حال کی سب سے بڑ ی خرابی اُس کا ماضی ہوجاتا ہے جو بُھلائے نہیں بُھولتا۔‘‘ ( آبِ گُم)
اپنی تصانیف کے مقدمے لکھتے وقت مشتاق احمد یوسفی نے طنز و مزاح کے جو گل ہائے رنگ رنگ بکھیرے ہیں وہ ان کی افتاد طبع،ذوقِ سلیم اور شگفتہ مزاجی کی دلیل ہیں ۔ان مقدموں کی خاص بات یہ ہے کہ یہ اپنی جگہ مستقل نوعیت کے مضامین بن گئے ہیں۔اپنی تصانیف کے مقدموں میں مشتا ق احمد یوسفی نے اپنی تخلیقی فعالیت،مزاحیہ اسلوب اور اس کے پس پردہ کارفرما لا شعوری محرکات پر بھی روشنی ڈالی ہے ۔اس
اعتبار سے یہ مقدمے تنقیدی بصیرت کے مظہر ،فکر پرور اور خیال افروز مباحث کے امین بن جاتے ہیں ۔ان پر لطف مقدموں کے مطالعہ سے مصنف کی وسعت ِ نظر ، مطالعہ ادب کے نئے رجحانات ،عالمی ادب کا وسیع مطالعہ اور طنزو مزاح کی روایت سے آ گہی ملتی ہے ۔ مشتاق احمد یوسفی نے اس امر کی صراحت کر دی ہے کہ مزاح نگار کا دامن غصے ،اشتعال،کینہ پروری ،حسد ،بغض و عناد اور انتقامی جذبات سے آلودہ نہیں ہونا چاہیے ۔یہی وہ روّیے ہیں جو مزاح نگار کے اسلوب کو ابتذال کے تحت الثریٰ میں پہنچانے کاسبب بن جاتے ہیں۔ ان مقدموں کا نمایاں وصف یہ ہے کہ ان کے مطالعہ سے قاری طنزو مزاح کے جہانِ تازہ میں پہنچ جاتا ہے اور اس پر فکر و نظر کے نئے دریچے وا ہوتے چلے جاتے ہیں ۔کوہِ نِدا کی صدا سننے کے منتظر اورساتوا ں در کھولنے کی فکر میں مبتلا الم نصیب ان تحریروں کو اپنے زخموں کا مرہم خیال کرتے ہیں ۔
بعض موضوعات ایسے ہیں جو مشتاق احمد یوسفی کے پیش رو ادیبوں کی تحریروں میں بھی پائے جاتے ہیں ۔اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ معاصر مزاح نگاروں کے اسلوب سے بھی مشتاق احمد یوسفی نے اثرات قبول کیے ۔ موضوع کی یکسانیت کے باوجود مشتا ق احمد یوسفی کے اسلوب کی ندرت و انفرادیت کا کرشمہ دامنِ دِل کھینچتاہے ۔اس کی چندمثالیں پیش کی جاتی ہیں :
رشید احمد صدیقی : ’’ چارپائی‘‘ = ’’ بیوی پر چو پائیت مسلط ہے اورشوہر پر چار پائیت،نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بیوی بگڑتی ہے تو عدالت کا راستہ اختیارکرتی ہے شوہر پر عتاب آتاہے
تو چارپائی پر لیٹ کر خود کُشی کے مسئلے پر غور کرتا ہے اور۔۔۔ڈرتا ہے ۔‘‘
مشتاق احمد یوسفی :’’ چارپائی اور کلچر ‘‘=’’میرے خیال میں چارپائی کی دِل کشی کا سبب وہ خوش باش لوگ ہیں جو اِس پر اُٹھتے ،بیٹھتے اور لیٹے ہیں ۔‘‘
پروفیسر احمد شاہ بخاری پطرس:’’ کتے ‘‘=اپنے اس مزاحیہ مضمون میں پطرس نے کُوڑے کے ڈھیر ،شہر کے کوچہ و بازار یا حلوائی کے تھڑے کے نیچے پڑے آوارہ سگِ راہ کو موضوع بنایا ہے۔اس کتے کا خوف محض پطرس کی ذات تک محدود رہتا ہے ۔
مشتاق احمد یوسفی : سیزر ،ماتا ہری اور مرزا =اپنے اس شگفتہ مضمون میں مشتا ق احمد یوسفی نے ایک پالتو السیشن کتے جس کا نام ’’ سیزر ‘‘تھا ، کو موضوع بنایا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک کتیا’’ ماتا ہری ‘‘ کا ذکر بھی ملتاہے ۔ مشتا ق احمد یوسفی نے اس کتے کی ہئیت ِ کذائی بیان کرتے ہوئے اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ یہ کتا سدابے ضرر لوگوں کے در پئے آزار رہتا ہے ۔یہ کتاخلقِ خدا کے لیے خوف ،دہشت اور اذیت و عقوبت کا باعث بن جاتا ہے ۔
کنہیا لال کپور:’’ ہم نے کتا پالا ‘‘اس مضمون میں ایک ماہ کے لیے مہمان کی حیثیت سے قیام کرنے والے ایک کتے کے بارے میں مزاحیہ انداز میں لکھا گیا ہے ۔
مشتاق احمد یوسفی کے اسلوب کا عمیق مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس یگانۂ روزگار ادیب نے خالص مزاح ،طنز،مزاح اور طنز کے امتزاج،مزاح میں فلسفے کی آمیزش ،گہری سوچ اور ہمدردانہ شعور کی مظہر انجمن آرائی،نقد و نظر کے آئینہ دار دانش ورانہ تجزیات، اس دنیا کے آئینہ خانے کے مشاہدات،تجربات ِ شش جہات،ادب او رفنون لطیفہ کے انبساط،نادر تلمیحات ،بر محل محاورات ،روزمرہ کے معمولات،عالمی ادبیات کے نئے رجحانات، تشبیہات ،استعارات ،صنائع بدائع ،تفحص ،علمی فضیلت ،مطالعۂ کائنات ،عالمی کلاسیک کے کرشمات،اکابرین اور ممتاز شخصیات کے فرمودات،موسیقیت اور ترنم ، ضرب الامثال،دنیا کی مشہور زبانوں کے ذخیرہ ٔ الفاظ کے استعمال ،تحریف نگاری ،بر جستگی ،بے تکلفی ، اظہار و ابلاغ کے اچھوتے پہلوؤں،لفظی مرقع نگاری ، جزئیات نگاری ،اشعار اور مصرعوں کا موقع کی مناسبت سے بر محل استعمال اورذوق سلیم کے اعجاز سے نابغۂ روزگار مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی نے اردو نثر میں طنز و مزاح کو جس منفر د رنگ ،دبنگ لہجے اور پر لطف آ ہنگ سے آ شنا کیا وہ اوروں سے تقلیداً بھی ممکن نہیں۔ صاحبِ طرز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی وفات کے بعد اردو نثر میں طنز و مزاح کا ایک درخشاں عہدجسے عہد ِیوسفی کے نام سے شہرت ملی اپنے اختتام کو پہنچا۔عہد ِیوسفی کے اختتام پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ اس شگفتہ مزاج تخلیق کار کی حسین یادیں تا ابد قارئین کے دلوں میں موجود رہیں گی ۔
پھیلی ہیںفضاؤں میں اس طرح تیری یادیں
جس سمت نظر اُٹھی آواز تیری آئی