تاریخ ،ثقافت اور تہذیب کے دوام کو پوری دنیا میں کلیدی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے ۔اس کا سبب یہ ہے کہ اقوام و ملل کے وجود پر تو ابلقِ ایا م کے سموں کی گرد پڑ سکتی ہے اور ان کا نام و نشاں تک باقی نہیں رہتا مگر تہذیب کا معاملہ الگ ہے ۔تہذیب کی بقا در اصل انسانیت کی بقا سے منسلک ہے اگر تہذیب و ثقافت کے نشانات معدوم ہو جائیں تو اس خطے کے عوام کی تاریخ اور ارتقا کے بارے میں ابہام پیدا ہو جاتا ہے ۔یہ دور اپنے براہیمؑ کی تلاش میں ہے اور یہ جہاں ایک صنم کدے کی صورت ہے ۔آج اقتضائے وقت کے مطابق جہد للبقا کی خاطر ہر قسم کے چیلنج کا پوری قوت سے جواب دینا از بس ضروری ہے یہی تہذیب و تمدن کا تقاضا بھی ہے اور زندہ اقوام کا شیوہ بھی یہی ہے ۔جو تہذیب و تمدن عصری آگہی کو پروان نہ چڑھا سکے اور جہد للبقا کی دوڑ میں اپنے وجود کا اثبات نہ کر سکے اس کی داستاں تک بھی داستانوں میں باقی نہیں رہتی ۔تاریخ کا ایک مسلسل عمل ہوا کرتا ہے ۔یہ تاریخ ہی ہے جس کے معجز نما اثر سے ہر عہد میں نسل نو کو تہذیب و ثقافت کا گنجِ گراں مایہ منتقل ہوتا رہتا ہے۔تہذیب کا تحفظ اور اس کی شناخت انتہائی محنت ،دیانت ،لگن اور احساس ذمہ داری کا تقاضا کرتا ہے ۔اسی طرح اسے آنے والی نسلوں تک پہنچاناجہاں ذہنی بالیدگی کا مظہر ہے وہاں اس سے مستقبل کے متعد دنئے امکانات سامنے آتے ہیں ۔یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ کسی بھی قوم کے تاریخی اثاثے اور تہذیبی میراث کے تحفظ اور اس کوآنے والی نسلوں کو منتقل کرنے میں غفلت کی مہلک روش اپنانے سے ایسے گمبھیر نتائج سامنے آتے ہیں جن کے باعث پورا منظر نامہ ہی گہنا جاتا ہے اور اس کے بعد پتھر کے زمانے کا ماحول پیدا ہو جاتا ہے ۔کروچے نے کہا تھا :
’’تاریخ دو چیزوں کے ملاپ سے تشکیل پاتی ہے ۔ثبوت اور تنقید ،ماضی اپنے پیچھے چھوڑ جاتا ہے ۔یہ نشانیاں محض بے حس ٹکڑے نہیں ہوتے ۔ان میں ماضی کے افکار اور ماضی کی فکر چھپی
ہوئی ہوتی ہے ۔یہ ماضی کے ذہن و شعور کی عکاسی کرتے ہیں ۔ہم ان نشانیوں کو اس لیے محفوظ رکھتے ہیں تاکہ یہ مستقبل کے مورخ کے لیے ثبوت کے طور پرفراہم ہوں ۔‘‘(1)
تہذیبی میراث کے زیاں کا ایک واقعہ اردو ادب میں بھی پیش آیاجب خدائے سخن میر تقی میرؔ کی قبر کا نشان ناپید ہو گیا ۔میر تقی میرؔ جو 1723 ء میں آگرہ میں پیدا ہوئے ۔اپنے باپ کے انتقال کے بعد 1734میں دہلی پہنچے۔دہلی میں میر تقی میرؔ کا قیام جس علاقے میں تھا اسے کوچہ چہل امیراں کے نام سے یاد کیا جاتا تھا جو بعد میں کوچہ چیلاں کہلانے لگا ۔اس کے بعد یہ عظیم شاعر لکھنو کے نواب آصف الدولہ کی دعوت پر 1782ء میں دہلی کو خیرباد کہہ کر لکھنو پہنچا۔اردو شاعری کا یہ آفتاب لکھنو میںبروز جمعہ 21ستمبر 1810 ء کو عدم کی بے کراں وادیوں میں اوجھل ہو گیا ۔ بعض روایات کے مطابق میر تقی میرؔ کے جسد خاکی کو اکھاڑہ بھیم لکھنو کے ایک گوشے میں دفن کیا گیا ۔ا س کے بعد اس کی قبر کا نشاں بھی قضا نے مٹا دیا۔ عالمی شہرت کے حامل محقق اور نقاد پروفیسرڈاکٹر نثار احمد قریشی نے رالف رسل اور ڈاکٹر این میر ی شمل کے حوالے سے 1980میں ایک بار اپنے شاگردوں کو بتایا:
’’اردو زبان کے نابغہ روزگار شاعر میر تقی میرؔ نے 1782میں ذاتی مسائل اور معاشی مجبوریوں کے باعث جب لکھنو منتقل ہونے کا فیصلہ کیاتو یہاں ان کا قیام لکھنو کی ایک کم معروف آبادی ست ہٹی میں ہوا۔ماہرین آثار قدیمہ کا خیال ہے کہ یہ آبادی ریذڈنسی اور رومی دروازے کے درمیانی علاقے میں ہوا کرتی تھی ۔اس کا محل وقوع اور رہن سہن لکھنو کے اس زمانے کے ترقی یافتہ علاقے سے قدرے کم معیار کا تھا ۔میر تقی میرؔ نے ایک گونہ بے خودی کے حصول کی خاطر مے نوشی اختیار کی ۔دن رات کی بے خودی کے حصول کی تمنا ،ہجوم غم اور نا آسودہ خواہشات نے میر تقی میر پر جنونی کیفیت طاری کر دی ۔کثرت مے نوشی ،آلام روزگار کی مسموم فضا ،سیل زماں کے مہیب تھپیڑوں اور ہجوم غم نے بالآخر ان کی زندگی کی شمع بجھا دی ۔میر تقی میرؔ کی وفات کے بعد ان کی تدفین ست ہٹی سے کچھ فاصلے پر واقع ایک قبرستان میں ہوئی جسے بھیم کا اکھاڑہ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا ۔اب یہ تمام آثار تاریخ کے طوماروں میں دب کر عنقا ہو چکے ہیں اور ان کا کہیں سراغ نہیں ملتا۔‘‘حقیقتوں کا خیال و خواب ہو جانا کس قدر روح فرسا اور اعصاب شکن المیہ ہے اس کے تصور ہی سے کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔سیماب اکبر آبادی نے کہا تھا :
بس اتنی سی حقیقت ہے فریب خواب ہستی کی
کہ آنکھیں بند ہوں اور آدمی افسانہ ہو جائے ‘‘
نامور ماہر تعلیم ،دانش ور محقق اور ادیب رانا عبدالحمید خان جو 1926میں گورنمنٹ کالج جھنگ کے پرنسپل تھے وہ سال 1927 ء کے آ غاز میںکالج کے طلبا اور اساتذہ کے ہمراہ دہلی ،لکھنو اور آگرہ کے مطالعاتی دورے پر گئے ۔اس دورے میں حاجی احمد بخش نے پرنسپل کی کار کے ڈرائیور کی حیثیت سے شرکت کی ۔میں نے 1980میں حاجی احمد بخش سے ایک انٹرویو کیا جس کا ملخص گورنمنٹ کالج جھنگ کے مجلہ ’’کارواں ‘‘میں شائع ہو ا ۔اس سفر کا ذکر کرتے ہوئے حاجی احمد بخش نے بتایا:
’’ہمارے ساتھ گورنمنٹ کالج جھنگ کے بیس طالب علم اور تین اساتذہ تھے ۔ان میں پروفیسر رانا عبدالحمید خان ( پرنسپل )، پروفیسر لال چند لالہ اور پروفیسر سردار پریم سنگھ بھی شامل تھے ۔رانا عبدالحمید کو میر تقی میر ؔکی شاعری سے عشق تھا ۔دہلی ،آگرہ اجمیر اور علی گڑھ کے بعد جب ہم لکھنو پہنچے تو میر تقی میرؔ کی قبر کی تلاش شروع ہوئی مگر اس کا کہیں اتا پتا نہ ملا۔مقامی باشندوں کی زبانی اتنا معلوم ہوا کہ قدیم زمانے میں جس علاقے کو بھیم کا اکھاڑہ کہاجاتا تھا اب اس کے آثار کہیں نہیں ملتے ۔‘‘
حاجی محمد یوسف ( نوبل انعام یافتہ پاکستانی سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام کے چچا زاد بھائی )کا تعلق ایک کاروباری خاندان سے تھا ۔وہ ذاتی طور پر کئی مرتبہ لکھنو گئے۔وہ اردو کی کلاسیکی شاعری اور میر تقی میرؔ کے اسلوب کے شیدائی تھے۔وہ چاہتے تھے کہ میرؔ کی لحد کے سرہانے بیٹھ کر آہستہ بول کر اپنے جذبات حزیں کا اظہار کریں اور اس لا فانی تخلیق کار کے حضور آنسوئوں اور آہوں کا نذرانہ پیش کریں مگر انھیں بھی میر تقی میرؔ کی آخری آرام گاہ کے بارے میں کوئی معلومات نہ مل سکیں ۔پہلی عالمی جنگ کے دوران میاں عبدالواحد لکھنو چھاونی میں تھے ان کے علاوہ محمد خان پوسٹ ما سٹر بھی اسی علاقے میں تعینات تھے وہ بھی میر تقی میر کی لحد کا کوئی اتا پتا معلوم نہ کر سکے ۔سردار باقر علی خان جو انڈین سول سروس میں اعلیٰ افسر تھے بعد میں ملتان کے کمشنر رہے انھوں نے کچھ عرصہ لکھنو میں گزارا۔ان کا کہنا تھا کہ ان کے عرصہ قیام لکھنو میں وہ میر تقی میر ؔکی آخری آرام گاہ کا صحیح تعین کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے ۔ان کی اولاد اب جھنگ میں مقیم ہے ۔مجھے 1970 ء میں ان سے ملنے کا موقع ملا جو چراغ سحری تھے ۔ان کی یادداشتوں کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ جس علاقے میں بھیم کا اکھاڑہ بتایا جاتا ہے اس کا محل وقوع لکھنو شہر کے ریلوے سٹیشن کے قرب و جوار میںشمال کی سمت میں تھا ۔اس علاقے میں خشک میوے فروخت ہوتے تھے بالخصوص یہ مارکیٹ مونگ پھلی کی فروخت کے لیے مشہور تھی ۔گمان ہے کہ دریائے گومتی کے کنارے جو کچی آبادیا ں اس زمانے میں وجود میں آگئی تھیں یہ اس میں شامل ہو سکتا ہے ۔ جھنگ میں میر تقی میرؔ کی یاد میں قائم ہونے والی ’’بزم میرؔ ‘‘جو 1900میں اس عظیم شاعر کے فکر و فن پر تحقیقی کام میں مصروف تھی ۔اس میں متعدد دانش ور شامل رہے ۔ان میں سے چند نام قابل ذکر ہیں جنھوں نے قابل قدر کام کیا ۔ سید عبدالباقی( عثمانیہ)،پروفیسر تقی الدین انجم (علیگ)،پروفیسر عبدالستار چاولہ ،ڈاکٹر سید نذیراحمد ،رانا سلطان محمود ،رانا عبدالحمید خان ، نامور ماہر تعلیم غلام علی خان چینؔ ،میر تحمل حسین ،میاں اللہ داد ،الحاج سید غلام بھیک نیرنگ ، محمد شیر افضل جعفری ،کبیر انور جعفری ،یوسف شاہ قریشی (بار ایٹ لا)،رام ریاض ، پروفیسر محمد حیات خان سیال ،پروفیسر خلیل اللہ خان ،مہر بشارت خان ،دیوان احمد الیاس نصیب ، امیر اختر بھٹی ،عاشق حسین فائق ،بیدل پانی پتی ،مرزا معین تابش اور سید جعفر طاہر سب نے مختلف اوقات میں میر تقی میرؔ کی آخری آرام گاہ کے آثار معدوم ہو جانے کو ایک بہت بڑے تہذیبی زیاں سے تعبیر کیا ۔یہ بات تو سب نے تسلیم کی کہ لکھنؤ میں جس جگہ پر میر تقی میرؔ کو دفن کیا گیا تھا اب وہاں پر ریلوے لائن اور جنکشن موجود ہے جو نہ صرف بے مہری ٔعالم کی دلیل ہے بل کہ اسے حالات کی ستم ظریفی بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ حساس شاعر جس نے اپنے سرہانے آہستہ بولنے کی استدعا کی اب وہ منوں مٹی کے نیچے پڑا بھاری بھرکم ریل گاڑیوں اور انجنوں کی چھک چھک کے شور میں دب چکا ہے ۔وہ بے مثال تخلیق کار جسے غالبؔ ،ذوقؔ اور متعد د شعرا نے اپنا پیش رو تسلیم کیا اور اس کے اسلوب کو ابد آشنا اور لائق تقلید قرار دیا اب اس کی قبر کا نشاں تک موجود نہیں ۔وہ یگانۂ روزگار شاعر جس نے 13585اشعار پر مشتمل اپنے چھے دیوان لکھ کر اردو شاعری کی ثروت میں اضافہ کیا اور اردو ادب کو مقاصد کی رفعت میں ہم دوش ثریا کر دیا آج اس کا جسد خاکی لکھنو ریلوے سٹیشن اور ریلوے جنکشن کے شور محشر میںنو آبادیاتی دور میں برطانوی استبداد کے فسطائی جبر کے خلاف انصاف طلب ہے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میر ؔ کو اپنے بارے میں معلوم تھا زمانے کے حالات کس قدر تلخ صورت اختیار کر لیتے ہیں ۔ابلق ایام کے سموں کی گرد میں تمام واقعات اوجھل ہوجاتے ہیں اور حقائق خیال و خواب بن جاتے ہیں ۔اس دنیا میں دارا اور سکندر جیسے نامیوں کے نام و نشاں نہ رہے تو ایک شاعر کے بارے میں کسی خوش فہمی کا شکار ہونا تخیل کی شادبی کے سوا کیا ہو سکتا ہے ۔وفات کے صرف چھے عشروں کے بعد ایک عظیم شاعر کی قبر کا نشان تک معدوم ہو جانالمحۂ فکریہ ہے ۔
میرے تغیر حال پہ مت جا
اتفاقات ہیں زمانے کے
بعد مرنے کے میری قبر پہ آیا وہ میرؔ
یاد آئی میرے عیسیٰ کو دوا میرے بعد
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ 1857کی ناکام جنگ آزادی کے بعد جب غاصب برطانوی تاجر تمام اخلاقی اور قانونی حدود سے تجاوز کر کے تاجور بن بیٹھے تو وہ تمام علامات اور نشانیاں جو اہل ہندوستان کے لیے بالعموم اور مسلمانوں کے لیے بالخصوص قابل احترام تھیں انھیں چن چن کر ان طالع آزما، مہم جو اور انسانیت سے عاری فاتحین نے نیست و نابود کر دیا ۔لکھنو شہر کے سٹیشن کے قریب چھٹی والا پل کے قریب ریلوے لائن کے درمیان ایک قبر کے آثار موجود تھے ۔آج سے کوئی اسی سال قبل اس مرقد کو مقامی باشندے شاہ افجشن کا مزا رخیال کرتے تھے ۔اسی مزار کے بارے میں ادبی حلقوں کی رائے یہ رہی کہ ہو نہ ہو یہی تو میر تقی میرؔ کی قبر کا نشان بننے کے گمان کی ایک صور ت ہو سکتی ہے ۔ حیف صد حیف کہ اب اس مر قد کا بھی کوئی سراغ کہیں نہیں ملتا۔ اس طرح دل کی تسلی کی ایک موہوم صورت بھی نا پید ہو گئی ۔حال آں کہ میر تقی میرؔ کی قبر تو 1857کے بعد برطانوی افواج کی بزدلانہ ، ظالمانہ اور جارحانہ خونیںواقعات کے فوری بعد مکمل طور پر منہد م کر دی گئی تھی ۔سرابوں میں بھٹکنے والوںکے لیے اب مزید کسی خوش فہمی کی گنجائش باقی نہیں رہی ۔ لکھنؤ میں ہونے والے اس المیے کے بارے میںبس یہی کہا جا سکتاہے :
جہاں سے ریل کی پٹڑی گزر رہی ہے میاں
وہاں سنا ہے کبھو میر ؔ کا مزار ساتھا
میر تقی میرؔ کی تمام زندگی مفلسی ،کس مپرسی ،پریشاں حالی اور درماندگی میں بسر ہوئی ۔ایک بیٹے ،بیٹی اور اہلیہ کی وفات سے میر تقی میرؔ کا سینہ و دل حسرتوں سے چھا گیا ۔اس ہجوم یاس میں اس کے دل پر جو کوہ ستم ٹوٹا اس کے باعث اس کی زندگی کی تما م رتیں بے ثمر ہو کر رہ گئیں ۔میر تقی میرؔ کے مرقد کا نشاں نا پید ہو جانادر اصل موت کے جان لیوا صدمات اور تقدیر کے نا گہانی آلام کے مسائل و مضمرات کی جانب توجہ دلاتا ہے ۔اس عالم آب و گل کی ہر ایک چیز کو فنا ہے ااور بقا صرف رب ذوالجلال کی ذات کو حاصل ہے ۔میر تقی میرؔ کی شاعری اور اس کے الفاظ ہی اب اس کی یاد دلاتے رہیں گے ۔
اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا
لہو آتا ہے جب نہیں آتا
ممتاز محقق طارق غازی نے اپنے ایک حالیہ مضمون ’’رفعت سروش : 1926-2008)‘‘ میں لکھا ہے کہ پس نو آبادیاتی دور میں سال 2002 ء میں احمد آباد میں اردو کے قدیم شاعر ولی محمد ولیؔ دکنی( 1667-1707) کی قبر پر سے ایک شاہراہ گزاری گئی جس کے نیچے قبردب کر معدوم ہو گئی ہے۔
——————————————————————————————————————————————————
مآخذ
(1)بہ حوالہ مبارک علی ڈاکٹر :تاریخ اور فلسفہ تاریخ ،فکشن ہائوس،لاہور ،اشاعت اول ،1993،صفحہ 214۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...