بیس جون 2020ء کو پاکستان کے قومی اخبارات میں منظر ایوبی (پروفیسر عزیز احمد ایوبی)کی رحلت کی خبر پڑھ کر دلی صدمہ ہوا۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ مہیب سناٹوں اور جان لیوا سکوت کا ایک بحربے کراں ہے جس میں منظر ایوبی کے لاکھوں مداح اِس سانحہ ٔ ارتحال کی خبر سُن کر غرقابِ غم ہیں۔ دلوں میںبس جانے والیمنظر ایوبی جیسی محبوب خلائق ہستیاں فنا سے نا آشنا ہیں ۔وہ شہرت عام اور بقائے دوام کے دربار میں بلند مقام حاصل کرتی ہیں ۔منظر ایوبی نے تخلیق ادب کو جس فقید المثال ندرت اور تنوع سے آشنا کیا اُس کی بنا پر اُس کانام اُفقِ ادب پر تا ابد ضو فشاں رہے گا۔اپنے سچے جذبات،پاکیزہ خیالات ،احساسات،تجربات اور مشاہدات کو اشعارکے قالب میں ڈھالنے کا جوقرینہ اُسے میسر تھا وہ اُسے منفرد مقام عطا کرتاہے ۔ تخلیق ادب میں یکسانیت سے بیزار رہتے ہوئے افکار ِ تازہ کی مشعل فروزاں کر کے نئے زمانے اور نئی صبح و شام کی جستجو پر مائل کرنے والا ادیب دیکھتے ہی دیکھتے بزمِ ادب سے اُٹھ گیا اور ادبی دنیا یہ سانحہ دیکھتی کی دیکھتی ر ہ گئی۔ موت سے کسی جان دار کو رستگاری نہیں آج و ہ ہیں تو یہ امر یقینی ہے کہ کل ہمیں اپنی باری بھرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے ۔ منظر ایوبی نے چار اگست 1932ء کوبدایوں کے ایک زمین دار گھرانے میںجنم لیا۔منظر ایوبی کاآبائی وطن روہیل کھنڈ کے علاقے میں واقع اُتر پردیش ( بھارت ) کاشہر بدایوں تھا۔ جب منظر ایوبی کی عمر دس سال تھی تو اُن کے والد علی احمد ایوبی انتقال کر گئے ۔دو برس بعد منظر ایوبی کی والدہ حمیدہ بانو بھی چل بسیں ۔ منظر ایوبی نے انتہائی نا مساعد حالات میںتعلیم جاری رکھی ۔دینی تعلیم ایک مقامی مکتب سے حاصل کی اس کے ساتھ ساتھ میٹرک و انٹرمیڈیٹ( کامرس) کی تعلیم اسلامیہ ہائی سکول بدایوں اور اسلامیہ کالج بدایوں سے حاصل کی ۔ منظر ایوبی نے نیم مذہبی ،نیم ادبی اور جاگیر دارانہ ماحول میں پرورش پائی ۔ منظر ایوبی کے ماموں علامہ عارف ایوبی نے اُن کے شعری ذوق کو صیقل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ نو آبادیاتی دور میںمعاشرتی زندگی کے رسوم و رواج نے اِس علاقے کے تمدن اور ثقافت پر دُور رس اَثرات مرتب کیے تھے ۔ وہ نو آبادیاتی دور میں معاشرتی زندگی کے تضادات ،بے ہنگم ارتعاشات ،بے اعتدالیوں اور طبقاتی کش مکش کے تجربات کا حصہ رہے ۔ آلامِ روزگار کے مہیب پاٹوں میں پسنے والے محروم و مظلوم طبقے سے روحانی وابستگی اور قلبی محبت اُن کے ریشے ریشے میںسما گئی تھی ۔جذبہ انسانیت نوازی اُن کے مزاج اورشخصیت کا امتیاز ی وصف رہا اوراِسی کے اعجاز سے وہ جاگیردارانہ نظام کے مسموم اثرات سے محفوظ رہے ۔ حریت ضمیر کی راہ اپناتے وقت انھوں نے سدا اُسوہ ٔ شبیر کو پیشِ نظر رکھا ۔انھوں نے جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے حریت ِ فکر و عمل کا علم بلند رکھا ۔ شعر گوئی کا آغاز انھوں نے سال 1947ء میں کیا ۔ اُن کے اسلوب میں زندگی کی حقیقی معنویت کی مظہر عصری آ گہی اور معاشرتی زندگی کے نشیب و فراز کی مرقع نگاری کا کرشمہ دامنِ دِل کھینچتاہے ۔ والد کے انتقال کے بعد اپنے خاندانی حالات کے بارے میں منظر ایوبی نے لکھا ہے :
’’ اس وقت میری عمر دس سال تھی ۔نظام زمین و کاشت کاری کا تمام تر بار والدہ ماجدہ ( حمیدہ بانو) کے شانوں پر پڑ گیا۔پھر اس کے بعد آزمائش و ابتلا کا ایک ایسا روح فرسا دور آیا جس کے تصور سے میں آج بھی کانپ اُٹھتاہوں ۔والد کی رحلت کے بعد’ زر اور زمین ‘ کے خاندانی تنازعات سے زندگی چند برس تک اجیرن بنی رہی ،وقفہ وقفہ سے گیارہ افراد پر مشتمل خاندان گھٹ کر صرف دو بھائی اور ایک بہن کی صورت میں باقی رہ گیا ۔‘‘ (منظر ایوبی: تکلم ،صفحہ11 )
منظر ایوبی کی شادی 24۔اپریل 1950ء کو حبیبہ خاتون سے ہوئی۔ پس نوآبادیاتی دور میں منظر ایوبی کے خاندان نے 3۔مئی، 1950ء کو پاکستان آنے کا فیصلہ کیا ۔ تقسیم ہند کے بعد یہاں نیرنگیٔ سیاست ِ دوراں نے عجب گُل کھلائے ۔منزلوں پر اُن موقع پرست مہم جُو عناصر نے غاصبانہ قبضہ کر لیا جن کاتحریک پاکستان میں کوئی کردار ہی نہ تھا۔ مفاد پرست استحصالی عناصر کے مزاج میں رعونت و تکبر کُوٹ کُوٹ کر بھر ا تھا جب کہ کاروانِ حسین ؑ کو صعوبتوں کاسفر درپیش تھا۔ سیلِ زماں کے تھپیڑوں اور آلام ِ روزگار کے زلزلوں کے جھٹکوں نے متعدد کو ہ پیکر مکینوں کو نیست و نابود کر دیا۔ان حالات میں لالہ زار ِخواب میں حقیقتوں کے گلاب کھلتے دیکھنے کی تمنادِل میں لیے اس جری تخلیق کار نے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے سلسلے میں محنت شاقہ کو شعار بنایا ۔ جامعہ پنجاب ،لاہور سے انھوں نے ادیب فاضل، آنرز ( اردو ) کا امتحان پاس کیا ۔کچھ عرصہ بعد وہ کراچی منتقل ہو گئے اور یہیں مستقل قیام کر لیا ۔ جامعہ کراچی سے اُنھوں نے بی۔کام کا امتحان پاس کیااور جامعہ کراچی ہی سے سال 1959ء میں اردو زبان و ادب میں ایم۔اے کی ڈگری حاصل کی ۔ دس سال تک (1950-1960) وزارت محنت میں خدمات انجام دیں اس کے بعد انھیں سال 1961ء میں حکومت سندھ کے محکمہ تعلیم( کالجز ) میں ملازمت مِل گئی ۔وہ سال 1994ء میں سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہو گئے ۔پاکستان رائٹرز گِلڈ ،کراچی کے زیر ِاہتمام شائع ہونے والے ادبی مجلے ’’ ہم قلم ‘‘ کے اعزازی نائب مدیر کی حیثیت سے کام کیا ۔ان کے لکھے ہوئے ریڈیائی فیچر اور ڈرامے بہت مقبول ہوئے ۔اُن کاتحقیقی مقالہ’’ اُردوشاعری میں نئے موضوعات کی تلاش ‘‘اُن کی وسعت ِ نظر کا مظہر ہے ۔
تصانیف :
منظرایوبی : تکلم ( غزلیں ) ،شاداب اکادمی، کراچی ، سال اشاعت ،1981ء
منظر ایوبی نے اپنی تصنیف ’’ تکلم ‘‘ ( غزلیات ) کا انتساب اپنی والدہ ( حمیدہ بانو ) ،والد ( علی احمد ایوبی ) اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے فارغ التحصیل شفیق استاد ڈاکٹر ابواللیث صدیقی (1916-1994)کے نام کیا ہے ۔ پروفیسر منظر ایوبی کے اسلوب کے بارے میں اِس شعری مجموعے کے آغا زمیں احمد ندیم قاسمی(1916-2006) ، پروفیسر منظور حسین شور ؔعلیگ (1916-1994) پروفیسر انجم اعظمی کی مختصر آرا بھی شامل ہیں ۔
منظر ایوبی : مزاج ( نظمیں ) ،شاداب اکادمی، کراچی ،سال اشاعت،،1987ء
نظموں کے اس مجموعے ( مزاج) کا انتساب عالمی شہرت یافتہ پاکستانی ادیب احمد ندیم قاسمی کے نام کیا گیاہے ۔
صدارتی تمغۂ حسن کارکردگی حاصل کرنے والے ممتاز پاکستانی ادیب اورشاعر دلاو ر فگار( دلاور حسین :1929-1998)نے منظر ایوبی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا ہے :
تغزل کیا ہے ؟فکرِ نیک نامِ ِ منظرؔ ایوبی
تکلّم کیا ہے؟ اندازِ کلام ِ منظرؔ ایوبی
میں اُن کو میر ؔ و غالب ؔ تو نہیں کہتامگر پھر بھی
مرے دِل سے کوئی پوچھے مقام ِ منظرؔ ایوبی
روایت چھوڑنے کا چونکہ قائل ہی نہیں ہے وہ
روایت کر رہی ہے اِ حترامِ منظرؔ ایوبی
رہے قائم توازن رجعت و جدت پسندی میں
بنامِ فن یہی ہے اہتمامِ منظرؔ ایوبی
خود اپنی آگ میں جل کر دِلوں کو روشنی دینا
اگر کچھ ہے تو بس یہ ہے پیام ِ منظرؔ ایوبی
یہ مانا ان کا ساغر ہے وہی جامِ کہن لیکن
شرابِ نو سے ہے لبریز جامِ منظرؔ ایوبی
سرور و کیف پر وہ پیاس کو ترجیح دیتاہے
سبب اِس کا ہے ذوق ِ تشنہ کامِ منظرؔ ایوبی
مورّخ اَب نظر انداز کر سکتا نہیں اُن کو
کہ لوح ِ وقت پر لکھا ہے نام ِ منظرؔ ایوبی
فگارؔ الفاظ و معنی اُس سے بچ کر جا نہیں سکتے
فضا میں ہر طرف پھیلا ہے دامِ ِ منظرؔ ایوبی
انسانیت کے وقار اور سر بلندی کی خاطر قلم بہ کف مجاہد کا کردار ادا کرنے والے حریت ِ فکر و عمل کے اس مجاہد نے ہر قسم کی عصبیتوں اور نفرتوں کی باڑ ہٹا کر گلشنِ دِل میں بے لوث محبت ،بے باک صداقت ،خلوص و مروّت اور ایثارکی فصل اُگانے پر اصرارکیا ۔ لب ِ اظہار پر تا لے لگا کر اعصاب پہ پہرے بٹھانے والے تیرہ بخت درندوں کے خلاف منظر ایوبی نے کُھل کر لکھا ۔ اُسے یہ فکر ہے کہ فصلِ سنگ میں سادیت پسندی کے روگ میں مبتلا بے کمال کینہ پرور اور ابلہ حاسد سنگِ ملامت لیے نکل آئے ہیں،ان حالات میں حرمتِ شیشہ گراں کی حفاظت کیسے ممکن ہے ؟ منظر ایوبی کو اس بات کا قلق ہے کہ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں جس معاشرے میںسیاہی وال کی رذیل جسم فروش طوائف حافظ ِ رومان مس بہا بنو، نائکہ قفس جانم ، بہرام ٹھگ ،رمزی مسخرا، تشفی کنجڑا، ایازو تلنگا اور انواروبھڑوا کے ساتھ قافلہ در قافلہ جرائم پیشہ قاتلوں کا ہجوم ہو وہاں انصاف کیو ں نہ معدوم ہو ۔ عادی دروغ ،پیشہ ور ٹھگ،محسن کش اورپیما ن شکن جب ضمیر فروشی پر اُتر آتے ہیںتو ان سے وابستہ اُمیدیں ٹوٹ جاتی ہیں اورایک اک کر کے سبھی خواب بِکھر جاتے ہیں او رمنزلوں کی تمنا میں سر گرداں رہنے والے سرابوں کے عذابوں میں اُلجھ جاتے ہیں۔اپنے مکر کی چالوں سے چربہ ساز ،سارق ،تہی اور مثنیٰ حافظ رومان مس بہا بنونے کتنے گھر اُجاڑے اور کتنے گھر سپردِ آتش کر دئیے۔ بے بس ولاچار انسانیت کے باغِ تمنامیں بگولوں کا رقص دیکھنے کی آرزو میں سدا خجل رہنے والے ایسے خسیس اس حقیقت کو فراموش کر دیتے ہیں کہ اُن کے عشرت کدوں پر بھی بجلیوں کے سائے چھا گئے ہیں۔ فسوں کاری ٔ موسم کے مظہر ایسے لرزہ خیز حالات میں بارشِ گل کی تمنا کرنے والے کڑی دھوپ کے سفر میں سنانِ کرب کا ہر وار دِلِ حزین پر سہہ کر سایۂ دیوار کو ترس جاتے ہیں ۔ مظلوم انسانیت جس کی آ نکھ آ نکھ ویرانی اور روح روح سناٹا ہے وہ چلچلاتی دھوپ میں دشتِ غربت کے سفر میں گردشِ وقت سے بر سر پیکاررہنے والے اَلم نصیب انسان دَم لینے کے لیے کس مسافرنواز کو تلاش کریں ۔دائرۂ زیست ہے کہ لحظہ اور ہر آن سمٹتا چلا جارہا مگر خوابوں کی خیاباں سازیوں کاسلسلہ پیہم جاری ہے ۔
منظر ایوبی کی انفرادیت کی دلیل یہ ہے کہ اُس نے پس نو آ بادیاتی دور کے ادب پر اپنی توجہ مرکوز رکھی ۔ایک محب وطن پاکستانی ادیب کی حیثیت سے اُس نے ہر قسم کی علاقائی ،لسانی ،نسلی اور مذہبی عصبیت سے اپنا دامن بچاتے ہوئے حبس کے ماحول میںجو طرزِ فغاں ایجاد کی وہی محکوم اقوام کی طرزِ ادا قرار د ی جاسکتی ہے۔دنیا بھر کے مسلمانوں کے بارے میںبڑ ی طاقتوں کے سطحی ،عمومی نوعیت کے، فرسودہ ،دقیانوسی اورمتعصبانہ نو عیت کی سوچ کے مظہر روّیے پر منظر ایوبی نے کڑی تنقید کی۔انگریزی ادبیات کے وسیع مطالعہ کے بعد جدیدیت ،مابعد جدیدیت ، ساختیات ،پسِ ساختیات ،رد تشکیل اور تقابل ادبیات پر منظر ایوبی نے جن فکر پرور اور خیال افروز مباحث کا آغاز کیا اس میں کوئی اُس کا شریک و سہیم نہیں۔ منظر ایوبی نے سندھ کی جامعات اور کالجز میں اِن مو ضوعات پر متعدد توسیعی لیکچرز دئیے۔ اس عالمِ آب و گِل کے کھیل کا منظر ایوبی نے نہایت باریک بینی سے جائزہ لیا ۔زندگی کے نشیب و فراز کامشاہدہ کرتے وقت وہ اُسی ارتکاز توجہ کا خیال رکھتا تھا جو مطالعہ کتب کے لیے نا گزیرہے ۔یہی وجہ ہے کہ کتاب زیست کی جزئیات نگاری میںوہ حیران کن مہارت کا ثبوت دیتا ہے ۔ ذاتی مخا لفین کے لیے وسعتِ نظر اور فراخ دلی مگر سامراج ،آمریت اور جذباتی استحصال کے بارے میں اس کا بے انتہا غیظ و غضب اور پیہم ستیز اس کی شخصیت کا امتیازی وصف سمجھا جاتا تھا ۔اپنے آبا و اجداد کی عزت و ناموس کو ملحوظ رکھنے والے اس رجحان سا ز تخلیق کارکے فکری ارتقا میں فن کار کی انا کو اہم مقام حاصل ہے ۔ اُن کی شاعری رو ح اور قلب کی تمام کیفیات کو سامنے لاتی ہے :
پہلے نفرت کی گھنی باڑ ہٹائی جائے
فصل پھر چاہ کی سینوں میں اُگائی جائے
عجیب شخص ہوں یادوں کے لالہ زار میں ہوں
جو وقت بِیت گیا اُس کے انتظار میں ہوں
ہررگ و پے میں اُترتا ہوا نشتر دیکھوں
زندگی زہر ہے اِس زہر کو پی کر دیکھوں
وہ اِک صدا جو نمایاں تھی سب صداؤں میں
بلند ہوتے ہی گم ہو گئی فضاؤں میں
پس نو آبادیاتی دورکے ادب کے بارے میں منظر ایوبی نے کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر اور ممتاز ادیب ایڈورڈ سعید ( Edward Said:1935-2003 )کے تجزیات کو افادیت سے لبریز قرار دیا۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی میںبر طانیہ اور فرانس نے نو آبادیاتی نظام کے تحت پس ماندہ اقوام کو جس بے دردی سے لُوٹا اس کے بارے میں ایڈورڈ سعید نے حقائق پر روشنی ڈالتے ہوئے ان اقوام کے مظالم کا پردہ فاش کرتے وقت جس جرأت کا مظاہرہ کیا ہے اُسے منظر ایوبی نے ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا ۔ اپنی تخلیقی تحریروں میں منظر ایوبی نے یہ واضح کر دیا وطن عزیز میں سلطانی ٔ جمہور وقت کا اہم ترین تقاضا ہے ۔وہ ایڈورڈ سعید کے خیالات سے متفق تھے کہ یورپ میں صنعتی انقلاب کے بعد وہاں کے صنعت کاروں کی استحصالی سوچ سے معیشت کا سارا منظر نامہ بدل گیا۔یورپ کے صنعت کار اپنی صنعتوں کے لیے درکار خام مال انتہائی ارزاں نرخوں پر حاصل کرنے کی فکر میں ایشیا اور افریقہ کے پس ماندہ ممالک میں پہنچے اور ان ممالک کے حاکموں سے ساز باز کر کے یہاں سے کِشت دہقاں اور معدنیات اونے پونے داموں بٹورنے لگے۔اس طرح انھیں اپنی مصنوعات کو فروخت کرنے کے لیے منڈیاں دستیاب ہو گئیں اورکوڑیوں کے مول خام مال کے حصول میں بھی کامیابی حاصل ہوئی۔منظر ایوبی کو اس بات کا قلق تھا کہ یورپی اقوام نے ایشیا اور افریقہ کے پس ماندہ ممالک کے عوام کی زندگی کی تما م رُتیں بے ثمر،کلیاں شرر ،زندگیاں پُر خطر اور آہیں بے اثر کر دی ہیں ۔معاشرتی زندگی پر اس کے مسموم اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ دنیا کے طاقت ور ممالک اور وہاں کی خو شحال اقوام کی ریشہ دوانیوںکے باعث پس نو آبادیاتی دورمیں تیسری دنیا کے ممالک میں آزادی کو موہوم بنا دیا گیاہے ۔ اپنی شاعری میں منظر ایوبی نے زندگی کے تیزی سے بدلتے ہوئے معائر پر روشنی ڈالی ہے :
ہزار دیدہ و دِل کی رقابتیں دیکھیں
ہیں آج جیسی نہ ایسی عداوتیں دیکھیں
کتنا دراز سلسلہ ٔ زلف ِ یار تھا
زنداں میں بیٹھ کر بھی خیال ِ بہار تھا
کب کوئی مجھ سا وفا پیکر مِلا
عشق میں ہر شخص سوداگر مِلا
زنداں میں چُپ رہے تو سرِ دار بولتے
ہم گر دشِ جہاں کا بھرم کچھ تو کھولتے
جب کسی محفل میں یک جا چند دیوانے ہوئے
دار کے قصے چھڑے زلفوں کے افسانے ہوئے
بڑی لچک ہے تر ے عہدکے اصولوں میں
کہ سنگ و خشت بھی تولے گئے ہیں پھولو ں میں
یورپی اقوام نے طویل عرصہ تک عسکری قوت کے بل بوتے پر اپنی نو آبادیات میں اپنا تسلط قائم کر رکھا ہے ۔ان نو آبادیات میں معاشی،سیاسی،تہذیبی اور ثقافتی شعبوں میں یورپ کے غاصب اور جارحیت پسند در اندازوں نے اپنا تسلط قائم کر رکھا ہے ۔اس جارحانہ اور غاصبانہ تسلط کے خلاف ایڈورڈ سعید نے مثبت شعور و آ گہی پیدا کرنے کی مقدور بھر کوشش کی۔ مشرق میں واقع نو آبادیات کے بارے میں استعماری طاقتوں کی سوچ کے بارے میں ایڈورڈ سعید نے لکھاہے :
“Access to Indian (Oriental)riches had always to be made by first crossing the Islamic Provinces and by withstanding the dangerous effect of Islam as a system of quasi-Arian belief.And at least for the larger segment of eighteenth century,Britiain and France were successful” (1)
منظر ایوبی اپنی ذات سے ایک انجمن اور دبستان علم و ادب تھا ۔تیسری دنیا کے ممالک کے مسائل پر اس کی گہری نظر تھی۔ ان ممالک کے باشندوں کے دِل سے احساسِ زیاں کے عنقا ہونے کو وہ ایک بہت بڑے المیے سے تعبیر کرتا تھا ۔وہ چاہتا تھا کہ تیسری دنیا کے غریب ممالک کے قسمت سے محروم محنت کش عوام کی زندگی میں حوصلے اور اُمید کی شمع فروزاں کی جائے ۔اس کے اسلوب کا تنوع ،نُدرت اور ہمہ گیری اُسے ایک جری ،بے باک،ہمہ جہت اور جامع الحیثیات تخلیق کار کے منصب جلیلہ پر فائز کرنے کا وسیلہ ہے ۔ایک بلند پایہ نقاد، محقق ،دانش ور ،ماہر تعلیم، مدبر ،مورخ،ماہر علم بشریات ،ماہر لسانیات کی حیثیت سے اس نے پوری دنیا کے مظلوم انسانوں کے ساتھ درد کا رشتہ استوار کر ر کھا تھا ۔اسی معتبر رشتے کو اس نے ہمیشہ علاجِ گردش ِ لیل و نہار قرار دیا۔منظر ایوبی کی حیات وعلمی و ادبی خدمات کا بہ نظر غائر جائزہ لینے پر یہ حقیقت کُھل کر سامنے آتی ہے کہ وہ ایک ایسا مخلص اور دردمند انسان تھا جس کے دِل میں سارے جہاں کا درد سمٹ آیا تھا۔ انسان دوستی اس کی پہچان تھی اور مظلوم انسانیت کے مصائب و آلام پر لکھتے وقت عجز و نیاز اور دیدۂ نم اس کی پہچان بن گئی۔ ہر قسم کے جبر اور عصبیت کے خلاف نفرت اس کے ریشے ریشے میں سما گئی تھی۔ جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے اس نے استحصالی عناصر کے مکر کا پردہ فاش کرنے میں کبھی تامل نہ کیا ۔وہ ایک سراپا خلوص شخص تھے اس لیے اپنے احباب سے اخلاق اور اخلا ص سے پیش آنا اُن کا شیوہ تھا۔ صنائع بدائع ، نئی تراکیب ،مرکبا ت ،تشبیہات اور استعارات سے انھوں نے اپنے اسلوب کو نکھار عطا کیا ہے ۔ان کی شاعری میں خلوص اور دردمندی کا عنصر غالب ہے :
ہزار شدت ِ غم سے اُداس رہتا ہے
ترا خیال مگر دِل کے پاس رہتا ہے
تھپتھپاتی ہے کبھی نیند اُڑ ادیتی ہے
لُطف کیا کیا ترے کوچے کی ہوا دیتی ہے
میرے آنگن میں بھی شب بھر کو اُتر اے ماہتاب ( استعارہ )
کب سے اِس گھر کی فضا تجھ کو صدا دیتی ہے
اُفق اُفق ہیں نمایا ں سیاہیاں کیسی ( صنعت تکرار )
کہ مِل رہی ہیں فسانوں کو سرخیاں کیسی
تما م عمر اگر خونِ آرزو کرتے ( مرکب ِ اضافی )
تو پھر گُلوں سے تقاضائے رنگ و بُو کرتے ( گلوں : استعارہ ، رنگ و بُو : مرکب عطفی )
پا بہ زنجیر اسیروں کو گھماتے رہنا
رونقِ کوچہ و بازار بڑھاتے رہنا ( مرکب اضافی و مرکب عطفی )
سامراجی طاقتوں کے کرتا دھرتا فراعنہ کے کاسۂ سر میں جو کبر و نخوت و رعونت بھری تھی اس کے خلا فمنظر ایوبی نے جس جرأت کے ساتھ قلم اُٹھایا ہے وہ اس کی انفرادیت کی دلیل ہے۔ عالمی سامراج کیا ہے اس کے بارے میں ایڈورڈ سعید نے لکھا ہے :
“Imperialism means thinking about,settling on,controlling land that you do not possess,that is disrant,that is livedon and owned by others .For all kinds of reasons it attracts some people and often involves untold misery for others” (2)
اپنی تحریروں میںمنظر ایوبی نے اس حقیقت کی جانب متوجہ کیا ہے کہ سادیت پسندی کے روگ میں مبتلا استحصالی عناصر پرانے شکاریوں کے مانند ہمیشہ نئے جال لے کر شکار گاہ میں پہنچتے ہیں اور کُھلی فضاؤں میں دانہ دُنکا چُگنے کے عادی طیور کو اسیرِ قفس رکھ کر لذتِ ایذا حاصل کرتے ہیں۔ عالمی سامراج کی سازش سے پس ماندہ اقوام کی آزادی بے وقار او رموہوم ہو کر ر ہ گئی ہے ۔ منظر ایوبی کی نظمیں ’ سچائی ،اندھی بصارت بہری سماعت ‘ حادثے ، رقابت،زلزلے ،زخمِ جاں ،مجروح انسان کا ضمیر،وقت کی خلیج ،تابوت ِشب،خلش،سراب اور ’ عظیم سانحہ‘ معاشرتی زندگی میں اقدار و روایات کی زبوں حالی کا نوحہ ہیں ۔مغرب کی استعماری طاقتوں نے مشرق کے پس ماندہ ممالک میں اپنی نو آبادیاں قائم کر کے ان ممالک کی تہذیب و ثقافت ،فنون لطیفہ ،سماج اور معاشرت کے بارے میں گمراہ کُن تجزیے پیش کیے۔حقائق کی تمسیخ اور مسلمہ صداقتوں کی تکذیب مغرب کے عادی دروغ گو محققین کا وتیرہ رہا ہے ۔یہ سلسلہ اس وقت سے جاری ہے جب فرانس کے مہم جُو نپولین بونا پارٹ ( Napoleon Bonaparte)نے سال 1798 ء میں مصر اور شام پر دھاوا بو ل دیا تھا یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ ان سابقہ نو آبادیات میںسلطانیٔ جمہور کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکا ۔ان ممالک کے حکمرانوں کے سر پر تو خود مختارحکومت کا جعلی تاج سجا دیا گیا ہے مگر ان کے پاؤں بیڑیوں سے فگار ہیں۔ منظر ایوبی نے اس موضوع پر ایڈورڈ سعید کے خیالات کو اقتضائے وقت کے عین مطابق قرار دیا :
” They were likely,on the one hand,to be considered by many Western intelellectuals retrspective Jeremiahs denouncing the evils of past colonialism,and,on the other,to be treated by their governments in Saudi Arabia ,Kenya,Pakistan as agents of outside powers who deserved imprisonment or exile.The tragedy of this experience ,and indeed of so many post colonial experiences ,derives from the limitations of the attempts to deal with relationships that are polarized,radically uneven ,remembered differently.”(3)
پس نو آبادیاتی دور میں چربہ ساز ،سارق اور کفن دُزد مسخروں نے جس بے دردی سے زادِ سفر لُوٹاہے وہ تاریخ کا ایک الم ناک باب ہے ۔ تنقیدی مباحث کے حوالے سے منظر ایوبی نے نقاد کی ذہانت ،دیانت ،ہرقسم کی عصبیت سے پاک انصاف پسندی ، لچک ،وسعت نظر ،حریت ِ فکر اور جرأت ِ اظہار کو صحت مند تنقید کے لیے ناگزیر قراردیاہے ۔ انسان شناسی میں ادب کے کردار کو زیر بحث لاتے ہوئے منظر ایوبی نے اس امر کی جانب متوجہ کیاہے کہ ادب انسان کی شخصیت اور کردارکی تعمیر و تشکیل کا فریضہ انجام دیتاہے ۔یہ ادب ہی ہے جو تعلیم و تربیت ،انسان کامل کی تشکیل ،عرفان ذات کی صلاحیت ،خود آ گاہی کے اوصاف ،تجربات و مشاہدات کے بعد سوچ بچار ،مسائل زیست کی تفہیم اور آثار ِ مصیبت کے احساس سے متمتع کرتاہے ۔تخلیق ادب میں مواد اور ہئیت کو بہت اہمیت حاصل ہے ۔میتھیو آ ر نلڈنے ادب پارے میں مواد
اور ہئیت کاتوازن اور اعتدال پر زور دیا منظر ایوبی کو اِس سے اتفاق تھا۔ منظر ایوبی کاخیا ل تھاکہ اگر تخلیق فن کے لمحوں میں ایک تخلیق کار ارتکازِ توجہ سے مواد اور ہئیت کی وحدت کو یقینی بناتاہے تو ادب پارہ روح اور قلب کی اتھاہ گہرائیوں میں اُتر جانے والی اثرآفرینی کے اعجاز سے پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کالوہا منو ا لیتاہے ۔جب تخلیق کار اس طرح ید بیضا کا معجزہ دکھاتاہے تو ایسا ابد آ شنا ادب پارہ تخلیق ہوتاہے جو لوحِ جہاں پر اپنا دوام ثبت کر دیتاہے ۔تاریخ کے مسلسل عمل پر نظر رکھتے ہوئے منظر ایوبی نے قدیم ادب کے استحسان پر بھی توجہ د ی۔دل نوازی کے یہی انداز قاری کو اپنی گرفت میںلے لیتے ہیں :
عرشِ دِل پر کبھی آنکھوں پہ بٹھائیں آؤ
تم اگر رُوٹھ گئے ہو تو منائیں آ و ٔ
ہمارے قرب کے لمحے جو یاد آئیں اُسے
قسم خدا کی بڑی دیر تک رُلائیں اُسے
چشمِ پُر آب روانی پہ روانی مانگے
دِل کا یہ حال وہی سوز ِ نہانی مانگے
منظر ایوبی کا خیال ہے کہ ہمارے اسلاف نے اس کائنات کے تمام مظاہر اور اشیا کی حقیقی تفہیم میں اپنے ذہن و ذکاوت کو استعمال کرتے ہوئے جس دیانت اور بے باک صداقت کوشعاربنایا وہ ان کی منصف مزاجی کا ثبوت ہے ۔اپنی تخلیقی فعالیت کے ذریعے ایک زیرک شاعر امر واقعہ کے بجائے بالعموم اپنے تخیل کی جولانیوں سے زندگی کی تنقید اور تعبیر پرتوجہ دیتاہے ۔شاعر کے اسلوب کے بارے میں میتھیو آرنلڈ نے لکھا ہے :
“Poets who can not work in the grand style instinctively seek a style in which their comparative inferiority may feel itself at ease,a manner which may be ,so to speak,indulgent to their inequalities.” (4)
شاعری کی تخلیق کے حوالے سے منظر ایوبی نے اس حقیقت کی جانب متوجہ کیا ہے کہ شاعر تخلیق فن کے لمحوں میںاشہب قلم کی جولانیاں دکھاتے وقت خیالات کو زادِ راہ بناتاہے ۔یہ اس کے ارفع خیالات ہی ہیں جن کی اساس پر وہ اپنے افکار کا قصر عالی شان تعمیر کرتا ہے ۔ یہ شاعری ہی ہے جو سائنسی علوم کے فروغ اور تکمیل میں ممد و معاون ثابت ہوتی ہے ۔شاعری کی ہمہ گیر اثر آفرینی اور افادیت کو دیکھتے ہوئے مذہب اور فلسفہ بھی شاعری کی کسوٹی سے بے نیاز نہیں رہ سکا۔ اس صورت حال میں مذہب اور فلسفہ کا مطالعہ اور ادبی تنقید خضر ِ راہ کا فریضہ انجا م دیتی ہے اور منضبط انداز میں خیالات کو اظہار و ابلاغ کے مواقع سے آ شنا کرتی ہے ۔ منظر ایوبی نے پامال راہوں سے بچتے ہوئے غیر مانوس ،ناقابل فہم ،دقیانوسی اور ناقابل عمل خیالات کو بارہ پتھر کرکے افکارِ تازہ کی مشعل فروزاں کر کے سفاک ظلمتو ںکوکافور کر کے جہانِ تازہ کی جانب روشنی کے سفر کا آغاز کرنے پراصرار کیا ہے ۔ روح اور قلب کی گہرائیوں میں اُتر جانے والے زندگی آموز اور زندگی آ میز خیالات اذہان کی تطہیر و تنویر کا موثر وسیلہ ثابت ہوتے ہیں۔شاعر کی دلی تمنا ہوتی ہے کہ تخلیق فن کے لمحوں میں وہ خون بن کے رگِ سنگ میںاُتر جائے ۔ منظر ایوبی نے واضح کیا ہے کہ نطق و دہن پر پہرے بٹھانے والے یہ بات ذہن میں رکھیں کہ سچ بولنے والے سرِ دار بھی خاموش نہیں رہتے ۔احسا ن فراموش ،محسن کش اور بروٹس قماش کے درندوں کے خلاف منظر ایوبی نے کُھل کر لکھا ہے :
کون کہتا ہے کہ احساسِ غم ِ دوش نہیں
اپنی بربادیٔ پیہم کا کسے ہوش نہیں
چوٹ پر چوٹ دِل نے کھائی ہے
زندگی کِس کو راس آ ئی ہے
حسن ِ شیشہ گر سلامت ،آئینہ خانے بہت
دار کے قصے ،لب و عارض کے افسانے بہت
اُفتاد ِ غزالانِ چمن دیکھ رہا ہوں
رِستا ہوا پُھولوں کا بدن دیکھ رہا ہوں
نکلی جو کڑی دُھوپ تو محسوس ہوا ہے
کِس درجہ خنک چاند ستاروں کی فضا ہے
یہ رات، یہ زنداں کی فضا یاد رہے گی
بجھتے ہوئے تاروں کی ضیا یاد رہے گی
گیتوں پہ مردنی ہے نغمے سسک رہے ہیں
کِس موڑ پر کھڑے ہم دنیا کو تک ر ہے ہیں
حلقۂ اِ نسانیت سے بھی نکل جاتے ہیں وہ
اجنبی راہوں میں آتے ہی بدل جاتے ہیں وہ
ہونٹوں پہ تبسم بھی ہے ماتھے پہ شکن بھی
کیا خوب ہے اِس شہرکے لوگوں کا چلن بھی
نوحہ گرانِ عظمت ِانساں رہے ہیں ہم
دنیا سمجھ رہی ہے غزل خواں رہے ہیں ہم
زندگی کی حرکت و حرارت کی مظہر ایسی شاعری دلوں کو ایک ولوۂ تازہ عطا کر کے فکر و نظر کو مہمیز کرتی ہے۔ایسی شاعری سنگلاخ چٹانوں ،جامد و ساکت پتھروںاور بتوں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتی ہے ۔میتھیوآ ر نلڈ نے ایسی ہی شاعری کے بارے میں لکھا ہے :
” The future of poetry is immense,because in poetry ,where it is worthy of its high destinies,our race,as time goes on,will find an ever surer and surer stay.There is not a creed which is not shaken,not an accredited dogma which is not
shown to be questionable,not a received tradition which does not threaten to dissolve.Our religion has materialized
e idea is everything ; the rest is a world illusion,of divine illusion .Poetry attaches its emotion to the idea ; the idea is the fact.The strongest part of our religion to-day is its unconcious poetry.(5)
منظر ایوبی نے عالمی ادبیات کا وسیع مطالعہ کیا تھا،شاعری کا جائزہ لینے کے لیے میتھیو آ ر نلڈ نے جن تین معائر کی نشان دہی کی ہے ان میں تاریخی جائزہ ،ذاتی جائزہ اور حقیقی جائزہ شامل ہیں۔ منظر ایوبی کا کا خیال ہے کہ ازمنہ قدیم کے کلاسیکی شعرا کے اسالیب کا تاریخی تناظر میں جائزہ لیتے وقت ان کی قدامت کو غیر معمولی اہمیت دی جاتی ہے ۔ رفتگاں کی یاد ، قدامت کی قدر اور عقیدت کی رو میں محاکمہ بالعموم صحیح سمت برقرارنہیں رکھ سکتا۔جہاںتک ذاتی جائزے کاتعلق ہے اس میں بھی نقادکی ذاتی پسند و نا پسند اور کسی تخلیق کے بارے میں ذاتی ترجیحات کی مظہر غیر محتاط رائے حقائق کی تمسیخ اور صداقتوں کی تکذیب پر منتج ہو سکتی ہے ۔ منظر ایوبی نے میتھیو آ ر نلڈ کی طرح تاریخی جائزے اور ذاتی جائزہ کو کبھی لائق اعتنا نہ سمجھا بل کہ حقیقی جائزے کو افادیت سے لبریز قرار یا۔اس نے واضح کیا کہ ادب پاروں کا حقیقی جائزہ ہی وہ مقیاس ہے جو تخلیق کے حسن و قبح کو سامنے لانے کا موثر ترین وسیلہ ہے ۔ادب اور فنون لطیفہ کے استحسان کے سلسلے میں حقیقی جائزہ ید بیضا کا معجزہ دکھاتاہے ۔اسی کے وسیلے سے قاری کسی تخلیق میں موجود رنگ ،خوشبو اور حسن و خوبی کے جملہ استعاروں سے آ گہی حاصل کر کے ان سے حظ اُٹھا سکتاہے ۔ منظر ایوبی نے اس جانب متوجہ کیا کہ تخلیق ادب میںشرافت کے مظہر خلوص کی جلوہ گری کے لیے میتھیوآ رنلڈ نے سخت نوعیت کا کوئی خاص اصول وضع کرنے سے گریزکیا۔منظر ایوبی کا خیا ل تھا بیرونی مداخلت سے مسلط کیے گئے اس قسم کے ناقابل عمل اصو ل اور سخت قواعد و ضوابط سے تخلیق ادب کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتاہے ۔ادب میں عظمت فکر ،شرافت ،وضع داری اور اثر آفرینی کا تعلق تو تخلیق کار کی خود شناسی ، خود اعتمادی ،خود احتسابی اور وسعت نظر سے ہے ۔
رہِ ہستی میں فکرِ جان و تن سے کچھ نہیں ہو گا
مجھے ڈر ہے کہ اَب اہلِ چمن سے کچھ نہیں ہو گا
شکستِ بابِ زنداں کے لیے جرأت بھی لازم ہے
فقط اندیشہ ٔ دار و رسن سے کچھ نہیں ہو گا
فصلِ گل بھی آتی ہے ،جام بھی کھنکتے ہیں
اپنی آرزوؤ ں کے با غ کب مہکتے ہیں
کتنے لالہ و گُل کا سینہ چاک ہوتا ہے
تب کہیں بہاروں کے پیرہن مہکتے ہیں
یہی ہیں کیا مری اگلی محبتوں کے صلے
کہ ایک بار جو بچھڑے تو پھر کبھی نہ مِِلے
ذرا سی دیر کا مِل بیٹھنا غنیمت ہے
کسے خبر ہے کہ یہ وقت پھر مِلے نہ مِلے
بجھ گئی شاخ ِ آ شیا ںیارو
گلستاں ہے دھواں دھواں یارو
دِل کو جس طر ح چاہو سمجھا لو
کون ہوتا ہے مہرباں یارو
منظر ایوبی کی شاعری کے مطالعہ سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ اگرتخلیق کار کذب و افترا ،جعل سازی،ریاکاری اور تصنع سے اپنا دامن آ لودہ نہ ہونے دے تو ستاروں پہ کمند ڈال سکتاہے اور تخلیقِ ادب کو مقاصد کی رفعت کے اعتبار سے ہم دوشِ ثریا کر سکتاہے ۔تخلیق ِ ادب میں تنقید اور ثقافتی اقدار کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئیمنظر ایوبی نے ا س جانب اشارہ کیا ہے کہ تنقید اور ثقافت کو ان ان سب عوامل کی گرہ کشائی کرنے پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے جن سے ماضی اور حال کے خیالات نے نمو پائی۔اس کے علاوہ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ وہ سب امور جو اپنی اکملیت کی وجہ سے لوحِ جہاں پر اپنا دوام ثبت کر چکے ہیں ان کی کامیابی کا راز کیا ہے ۔اس کے ساتھ ہی ثقافت اور تنقید کو عصبیت و تشدد سے دامن بچاتے ہوئے ان عوامل کا کھوج لگانا چاہیے جن کے باعث سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑے ماضی کی متعدد روایات کو خس و خاشاک کے مانند بہالے گئے ۔منظر ایوبی کا خیال ہے کہ تنقید اس وقت مبہم اور ناقابل عمل صور ت اختیار کر لیتی ہے جب اسے اثر پذیری کی تمنا میں چاپلوسی سے آ لودہ کر دیا جائے اور پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت قارئین کو ادب پارے کے مطلوبہ مفاہیم تک رسائی اوران پر قانع رہنے کے مالکانہ حقوق تھما دئیے جائیں ۔ شرافت ،دیانت اور محنت سے مزین عظیم الشان اسلوب کے بارے میںمنظر ایوبی نے یہ بات بر ملا کہی ہے کہ ایسے ابد آ شنا اسلوب تک رسائی حاصل کرنابہت کٹھن مر حلہ ہے ۔ستاروں پر کمند ڈالنے کی تمنا کرنے والوں کی سانس راہ ہی میں اُکھڑ جاتی ہے ۔ عظیم الشان اسلوب کی وضاحت کرتے ہوئے میتھیو آ ر نلڈ نے لکھا ہے :
The grand style is the last matter for verbal definition to deal with adequately.One may say of it as is said of faith:,one must feel it in order to know what it is,.But as of faith ,so too one may say of nobleness ,of grand style:,Woe to those who know it not, ! Yet this expression ,though indefinable ,has a charm ; one is better for considering it; bonnum est, nos hic esse;nay,loves to try to explain it,though one knows that one must speak imperfectly .(6)
ایک جری نقاد،محقق اورتخلیق کار کی حیثیت سے منظر ایوبی نے جو تنقیدی معائر پیش نظر رکھے وہ اس کی ذہانت اور بے باک صداقت کے مظہر ہیں ۔اس نے تخلیق ِ ادب اور تنقید کو جو آ ہنگ عطا کیا اس کے ارفع معیار کے بارے میں دو رائیں نہیں ہو سکتیں ۔ یہ امر حیران کن ہے کہ اپنے تنقیدی معائر پر عمل پیرا رہتے ہوئے اُس نے توازن اور اعتدال کو ہمیشہ پیش ِ نظررکھاہے ۔ایک روشن خیال ادیب کی حیثیت سے منظر ایوبی نے معاشرتی زندگی کے تضادات،توہمات اور خام خیالی پر سخت گرفت کی اور معاصر تنقید کی خامیوں کی جانب توجہ دلائی ۔ تنقید میں منظر ایوبی نے گوئٹے ،رینان اور سانت بیو کے اسلوب کو قدر کی نگاہ سے دیکھا ۔ادب میں جمالیاتی عنصر کی اہمیت کو دبانے کی خاطر اخلاقی عنصر کی اہمیت و افادیت کو مبالغہ آمیز انداز میں پیش کرنے کے سلسلے میں منظر ایوبی نے اپنے تحفظات کا بر ملا اظہارکیا ۔ منظر ایوبی نے واضح کی کہ انگریزی زبان کی تنقید میں اخلاقیات کی تدریس کا جو ارفع معیار فلپ سڈنی (1554-1586 : Philip Sidney )کی تحریروں میں پایا جاتاہے وہ میتھیو آ رنلڈ کی تحریروں سے زیادہ موثر ہے ۔ منظر ایوبی زندگی بھر نہایت تحمل اور سنجیدگی سے پرورش لوح و قلم میں مصروف رہا۔کوئی ادبی مہم جُو جب بھی بہتان طراز ی اور الزام تراشی کی غرض سے اس کی طرف یلغار کرتاتو وہ اسے بالعموم نظر انداز کر دیتا۔ اس کا خیال تھاکہ نقاد کو اپنے خلاف سادیت پسندی پر مبنی ایسے بغض و عناد،بے معنی حرف گیری اور بے وقعت الزام تراشی کو کبھی لائق اعتنا نہیں سمجھنا چاہیے ۔ اس نے واضح کیا کہ شاعری کے نقادکو بے باک صداقت کو شعار بنانے والا بہترین مدبر ، لچک دار سوچ سے متمتع بہترین اعتدال پسند ،قابل فہم اور متنوع تصورات کوپروان چڑھانے والادانش ور ،تناقضات کو ختم کرنے والا مصلح اور منصف مزاج مورخ ہونا چاہیے ۔ایک جری نقاد کا تبحر علمی واضح طور پر غلط سمت میں لے جانے والے فرسودہ خیالات پر مبنی جہالت اور جعل سازی کو خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتاہے ۔ عظیم ترین اسلوب کے فروغ کے لیے کام کرنے والے اس زیرک ،فعال اور مستعد تخلیق کار اور جری نقاد نے ذوق ِسلیم کی نمو کے لیے جو بے مثال جد جہد کی اس کی بنا پر تاریخ ہردور میں اس کے نام کی تعظیم کر ے گی۔ مادی دور کی لعنتوں سے آلودہ ہو جانے والی معاشرتی زندگی کا المیہ یہ ہے کہ چور محل میں جنم لینے والے مارِ آ ستین چور دروازے سے گھس کر جاہ و منصب پر غاصبانہ قبضہ کر لیتے ہیں ۔یہ بونے مختلف سیڑھیاں استعمال کر کے ا پنے تئیں باون گزے ثابت کرنے پر تُل جاتے ہیں اوررواقیت کے داعی بن کر لاف زنی شروع کر دیتے ہیں ۔ان کے بے سروپا سلسلہ ٔتکلم کے بارے میں یہی کہا جا سکتاہے کہ ان کی جہالت نے جسارت سارقانہ کی مظہر اُن کی تحقیق ، ان کی مانگے کی علمیت اور جعلی ڈگریوں پر سوالیہ نشان لگا دیاہے ۔ جس بے حس معاشرے میں جاہل کو اس کی جہالت کاانعام ملنے لگے وہاں وقت کے اس قسم کے سانحات کو کس نام سے تعبیر کیا جائے ۔عقیدت کی اداکاری کرنے والے طوطاچشم بروٹس کو دیکھ کر کف افسوس ملنے والے وقت کے ہر سیزر کے بارے میں یہی کہا جا سکتاہے کہ قدر نا شناس کے ساتھ گزارا جانے والا وقت رائیگاںہی جاتاہے ۔ چربہ ساز ،سارق ،جعل ساز ،کفن دُزد اور لفاظ حشرات ِ ادب کی کینہ پروری پر مبنی الزام تراشی کے جواب میں میتھیو آ ر نلڈ نے جو بات کہی تھی وہ صداقتوں کی تکذیب اور حقائق کی تمسیخ کرنے و الے ہر پیمان شکن درندے ،حافظہ ٔ رومان، دغا باز محسن کش اور برادرانِ یوسف کے لیے نوشتۂ دیوار کے مانندہے :
( 7) ” You shall die in your sins ”
—————————————————————————————————————————————————————–
مآخذ
1.Edward Said:Orientalism,Penguine ,London,1973, Page,76
2.Edward W Said:Culture and ImperialismVintage Books,New York,1993, Page 7
3. Edward W Said:Culture and Imperialism, Page 18
4. Matthew Arnold:On Translating Homer,George Routledge & Sons Limited ,London,1862,Page 49
5.Matthew Arnold: Essays In Criticism, Page 279
Matthew Arnold:On Translating Homer Page,249 6.
. Matthew Arnold:On Translating Homer Page,249 7.