انیسویں صدی کے آغاز میں عثمانیوں میں یہ احساس تھا کہ تبدیلی کی ضرورت ہے لیکن “تنظیمات” (اصلاحات) کی کوشش کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ نے سلطان مصطفٰے چہارم کو معزول کر دیا تھا۔ اس سے ہونے والی اقتدار کی جنگ کا نتیجہ یہ نکلا تھا کہ یکے بعد دیگرے شاہی خاندان میں ہونے والے قتل کے بعد سلطان محمود شاہی خاندان میں واحد مرد بچے تھے۔ عثمانیوں نے نپولین سے شکست کھائی تھی۔ مکہ اور مدینہ اب مصر کے گورنر مہمت علی پاشا کے پاس تھے اور مہمت خودمختاری کے موڈ میں تھے۔ روسیوں سے جنگ 1806 میں چھڑ گئی۔ 1808 میں روسی مولڈویا پر قبضہ کر چکے تھے اور والاکیا کا بڑا حصہ ان کے پاس تھا (یہ علاقے موجودہ رومانیہ میں ہیں)۔ دریائے ڈینیوب کے اہم قلعوں پر قبضہ کر لیا گیا۔ 1811 میں عثمانیوں کی طرف سے سفید جھنڈا لہرا دیا گیا۔ عثمانیوں کو جنگ بندی کے عوض بھاری تاوان دینا تھا۔ اس کے لئے اندرونی اور بیرونی ذرائع سے قرضہ حاصل کیا گیا۔ قفقاز کی مسلمان ریاستوں پر جب روس نے قبضہ کیا تو عثمانی، سوائے دیکھنے کے، کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ اگرچہ بلقان پر قبضہ برقرار رہا لیکن ان علاقوں میں بغاوت ہوتی رہی۔
شاہی فوج جانثاروں میں بغاوتیں ہوئیں۔ فوج کی کارکردگی اچھی نہیں رہی تھی۔ دفاع میں نااہلی دکھائی گئی تھی۔ آسانی سے ہتھیار ڈال دئے گئے تھے لیکن سلطان اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ بازپرس کر سکیں۔ فوج، اشرافیہ اور جاگیر دار مضبوط تھے۔
نجد سے مبلغ محمد بن عبدالوہاب کی آمد کے بعد عرب میں عثمانیوں کی پوزیشن کمزور ہوئی تھی۔ 1792 میں نجد کے قبائلی سردار سعود نے نئی ریاست بنا لی تھی۔ شریفِ مکہ نے سعود کے خلاف مہم شروع کی تھی لیکن مقابلہ نہ کر سکے تھے۔ 1798 میں شریفِ مکہ سے علاقہ چھین لیا گیا تھا۔ 1802 میں کربلا کا شہر سعود نے تاراج کر دیا تھا۔ 1803 میں مکہ پر قبضہ ہوا تھا لیکن شریفِ مکہ نے دوبارہ حاصل کر لیا تھا۔ 1805 میں مدینہ پر قبضہ کر لیا تھا اور 1806 میں سعود نے دوبارہ مکہ لے لیا تھا۔ حجاز کو عثمانیوں کے لئے بند کر دیا گیا تھا۔ 1807 میں حج اور عمرہ کے لئے آنے والے عثمانی قافلے لوٹا دئے گئے تھے۔ نمازِ جمعہ کے خطبوں میں عثمانی خلیفہ کے بجائے عبدالعزیز بن محمد بن السعود کا نام لیا جاتا تھا۔
مقاماتِ مقدسہ ہاتھ سے نکل جانا خلافت کے دعوے کے لئے دھچکا تھا۔
مصر میں مہت علی کی پوزیشن مضبوط تھی اور وہ اپنی مرضی کے مالک تھے۔ سلطان محمود کا ان پر کوئی زور نہیں تھا۔ عثمانیوں کی طرح مہمت بھی حجاز کی اس نئی طاقت سے خائف تھے۔ 1811 میں انہیں اس نئے مسئلے کو حل کرنے کی ذمہ داری دی گئی۔ دو سال بعد مکہ اور مدینہ وہابی قبضے سے چھڑوا لئے گئے۔ 1818 میں سعودی دارلحکومت الدرعیہ پر مہمت علی کے بیٹے ابراہیم پاشا نے قبضہ کر لیا۔ پوری آبادی کو جلا کر راکھ کر دیا گیا۔ سعودی امیر عبداللہ بن سعود کو گرفتار کر کے استنبول بھیجا گیا۔ جہاں ایک نمائش لگا کر ان کا سر قلم کر کے دریا میں لڑھکا دیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج کے گریس (یونان) کا یومِ آزادی پچیس مارچ کو منایا جاتا ہے۔ پچیس مارچ 1821 کو گریس کے تحریکِ آزادی کا آغاز تھا۔ اس روز عثمانی حکومت کے نشان جرمانوس سے گرا دئے گئے تھے۔ یہ بلقان میں اس وقت جاری قوم پرست تحریکوں کا تسلسل تھا۔ ایران میں قاجار سے جنگ چھڑ گئی جو 1820 سے 1823 تک جاری رہی۔ اگرچہ گریس کے باغیوں کو اگلے پانچ برس میں کچل دیا گیا لیکن اکتوبر 1827 کو عثمانی اور مصری مشترک بحری بیڑے کی ناوارینو میں غرقیابی کا مطلب سمندروں پر یورپیوں کی مکمل بالادستی تھا۔
اس بیڑے کو غرق کرنے کے چند ماہ بعد اپریل 1828 میں روس نے اعلانِ جنگ کر دیا۔ مولڈویا سے ہوتے ہوئے ادرنہ تک پہنچ گئے جو استنبول سے صرف دو سو کلویٹر دور تھا۔ اس میں ہونے والے معاہدے کے نتیجے میں گریس کو ترکی سے آزادی مل گئی۔ مئی 1832 میں گریس عثمانیوں سے الگ ہو کر باقاعدہ بادشاہت بن گئی۔
اب سلطان محمود قائل ہو چکے تھے کہ معاملات ایسے نہیں چل سکتے۔ تنظیمات کا وقت تھا۔
محمود پہلے عثمانی سلطان تھے جو صوبوں کے دورے پر یہ دیکھنے نکلے کہ لوگ رہتے کیسے ہیں۔ انہوں نے پانچ ایسے ٹور کئے۔ عوامی پراجیکٹ دیکھتے۔ مقامی معززین سے ملاقات کرتے اور عام لوگوں کی شکایات سنتے۔ وزاتِ داخلہ، وزارتِ خارجہ اور وزارتِ انصاف پہلی مرتبہ بنائے گئے۔
سر قلم کر دئے جانا عام تھا۔ بڑے سرکاری افسروں کے سر بھی سلطان کے ایک حکم کے بعد گردن پر نہیں رہتے تھے۔ “بغیر تمام پراسس مکمل کئے، کچھ نہیں ہو گا”۔ یہ سلطان کا نیا حکم تھا۔ فوج میں جانثاروں کو ختم کر دیا گیا۔ ساتھ ہی ان کے درویشوں کے سلسلے بیکتاشی کو بھی۔ بیکتاشیوں کے پسِ منظر میں چلے جانے کے بعد نقشبندی سلسلہ آنے والے برسوں میں بااثر رہا۔
اشرافیہ اور عوام کے لباسوں میں قانوناً فرق تھا۔ 1814 میں حکم جاری ہوا تھا کہ عام لوگ خواص جیسا حلیہ بنانے کی کوشش نہ کریں۔ تاجر یا سپاہی شال نہیں لپیٹ سکتے۔ سر پر ریشم کی لائننگ والی پگڑی نہیں پہن سکتے۔ حکم نامے میں لکھا تھا“وہی لباس پہنا جائے جو طبقے سے خاص ہے، اس بارے میں بہت ڈھیل دے دی گئی ہے لیکن اب سخت کارروائی ہو گی”۔ 1829 میں اس حکمنامے کو ختم کر دیا گیا۔ پھندنے والی ترکی ٹوپی (fez) کا فیشن باقاعدہ حکم کے طور پر شروع ہوا۔ یہ عوامی ٹوپی تھی جس میں طبقاتی فرق نہیں تھا۔ سرکاری ملازمین کے لئے پگڑی منع ہو گئی۔ سادہ ترکی ٹوپی لازم قرار پائی۔ یہی ٹوپی دفتر میں، بازار میں اور مسجد میں استعمال ہو سکتی تھی۔ (عثمانی سلطنت کے خاتمے کے بعد 1925 میں اس ٹوپی ماضی کا فرسودہ نشان کہہ کر ممنوع قرار دیا گیا حالانکہ اپنے وقت میں یہ انقلابی قدم تھا)۔ پینٹ شرٹ اور اس کے اوپر فراک کوٹ (استمبولین) کو لباس کے طور پر سلطان نے خود رائج کیا۔ یہ ایک غیرطبقاتی لباس تھا۔ “لباس پیشے، مذہب اور دولت کو ظاہر نہ کرے”۔ یہ سلطان محمود کی کی گئی “لباس کی اصلاحات” تھیں۔
مصر کے گورنر نے استنبول پر فوج کشی فروری 1833 میں کی۔ سلطان محمود کو اپنے گورنر سے بچاوٗ کے لئے دیرینہ دشمن زارِ روس سے مدد طلب کرنا پڑی۔ صلح کی شرائط مہمت علی کے لئے بہت فائدہ مند رہیں۔ مصر کے علاوہ حلب، دمشق، ٹریپولی ُ(سیریا)، کریٹ، بیروت، یروشلم اور نیبولس کی گورنرشپ بھی مل گئی اور ان کے بیٹے کو جدہ، مکہ اور حبش کی۔ اور عدنہ میں ٹیکس کلکشن بھی سپرد ہو گئی۔ لیکن مہمت ان شرائط سے خوش نہیں تھے کیونکہ اس میں مصر کو ٹیکس ویسے ہی ادا کرتے رہنا تھا اور ان کے بیٹے کی گورنرشپ کا سالانہ ریویو ہونا تھا اور اس کا جاری رہنا کارکردگی سے مشروط تھا۔
مہمت علی اور عثمانیوں کے جنگ 1839 میں پھر چھڑ گئی۔ اس بار جرمنی، آسٹریا، فرانس، برطانیہ اور روس نے درمیان میں پڑ کر بیچ بچاوٗ کروایا جس کے نتیجے میں “شام میں امن کا معاہدہ” طے ہوا۔ اس میں مہمت کو اضافی گورنر شپ سے محروم کر دیا گیا لیکن مصر کی گورنر شپ کا عہدہ مستقل ہو گیا اور مہمت کے خاندان میں وراثتی منتقلی طے ہو گئی۔ عملی طور پر عثمانی سلطنت برطانویوں کی حفاظت میں آ گئی تھی۔
یہ وہ پس منظر تھا جب نئے آنے والے عثمانی سلطان عبدالمجید نے نومبر 1839 میں “گولہانے فرمان” جاری کیا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ حکومت اور عوام کا رشتہ رفاقت کا ہے۔ پچھلے ڈیڑھ سو سال کے زوال کی وجہ سلطانی قانون کی پاسداری نہ کرنا ہے۔ حکومت کی طرف سے اچھی انتظامیہ دی جائے گی۔ جان و مال کی حفاظت ہو گی۔ عزت ملی گی۔ ٹیکسوں کا نظام بہتر ہو گا۔ فوج میں تبدیلیاں ہوں گی۔ فوج کے بے تحاشا اخراجات کم کئے جائیں گے اور یہ اس کو قانون کے ماتحت بنایا جائے گا۔ رشوت کا خاتمہ ہو گا۔ قانون پر عملدرآمد کرتے وقت کسی کا رتبہ نہیں دیکھا جائے گا۔ رعایا کا کام ریاست سے وفاداری ہے اور احکامات پر عمل کرنا ہو گا۔ سخت تبدیلیاں آئیں گی۔ فائدہ عثمانی عوام اور دوست ریاستوں کا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔